- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
جمع حدیث کا سلسلہ ختم ہوچکا ہاں دقت ِنظری ابھی باقی ہے:
اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد اگلی نسل میں کچھ لوگ ایسے اٹھائے جنہوں نے احادیث کا ایک قابل قدر ذخیرہ اور فقہ کے ابتدائی اصول تیار پائے۔ انہوں نے نئے فنون کا سوچا۔ مثلاً: کبار محدثین کے مابین متفقہ احادیث ِصحیحہ کی تمیز شروع ہوئی۔جیسے یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید القطان، احمد ، اسحق اور ان کے ہم پلہ محدثین۔ جیسے ان احادیث فقہ کو جمع کرناجنہیں مختلف علاقوں یا شہروں کے علماء وفقہاء نے اپنے مذاہب کی بنیاد بنایا تھا۔یا حدیث پر اس کے استحقاق کے مطابق حکم لگایا، یا احادیث سے شاذہ اور فاذہ(منفرد) احادیث جنہیں انہوں نے روایت نہ کیا یا ان کی اسانید میں اتصال، علو سند، یا روایت فقیہ عن فقیہ یا حافظ کی حافظ ِحدیث سے روایت تھی یا ان جیسے اور کئی علمی مطالب تھے، جنہیں اوائل اپنی کتب میں بیان نہ کرسکے ۔جن میں امام بخاری، مسلم، ابوداؤد، عبد بن حمید، الدارمی، ابن ماجہ، ابویعلی، ترمذی، نسائی، دارقطنی، حاکم، بیہقی، خطیب بغدادی، دیلمی ابن عبد البر اور ان جیسے دوسرے جلیل القدر علماء شامل ہیں۔
مصنفین میں سب سے زیادہ مشہور اوربڑے عالم :
علمی وسعت اور مفید تصنیفات کے اعتبار سے ہمارے نزدیک قابل ذکر چار فقہاء محدثین ہیں اور جو قریب العصربھی ہیں:
ان میں اولاً امام ابوعبد اللہ البخاری ہیں۔جن کی تصنیف کا مقصد صرف مشہور وعام صحیح متصل احادیث کو دیگر احادیث سے ممتاز کرنا اور فقہی استنباط کے علاوہ سیرت نبوی وتفسیرسے استنباطات کرنا بھی شامل تھا۔انہوں نے اپنی الجامع الصحیح تصنیف کی۔ اور صحت وقبولِ حدیث کی جو شرطیں عائد کی تھیں انہیں پورا کردکھایا۔ ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ ایک صالح انسان نے خواب میں رسول اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ اسے فرمارہے ہیں: کیا مسئلہ ہے کہ تم محمد بن ادریس کی فقہ میں مشغول ہوگئے ہو اور میری کتاب چھوڑ رہے ہو؟ اس نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ ﷺ کی کتاب کون سی ہے؟ فرمایا: صحیح بخاری۔ بخدا اس کتاب نے جو شہرت اور قبولیت کا درجہ پایا ہے اس سے بڑا سوچا ہی نہیں جاسکتا۔
دوسرے امام مسلم نیسابوری ہیں انہوں نے بھی چاہا کہ اپنی صحیح مسلم میں ایسی صحیح متصل مرفوع احادیث کو جمع کرلیں جن پر اجماع ہوچکا ہے اور جن سے سنت کو مستنبط کیا جاسکے۔انہوں نے چاہا کہ اپنی اس تصنیف کو قابل فہم بنادیں اور احادیث سے استنباط میں آسان ہو۔ اس لئے انہوں نے اپنی کتاب کو ایک نئی جہت دی۔ ہر باب کی بیشتر احادیث کوایک ہی جگہ پر جمع کردیاتاکہ متون اور ان کی اسانید کا اختلاف بھی واضح ہو۔انہوں نے ایک دوسرے سے مختلف احادیث کو بھی اپنی کتاب میں بیان کیا۔جسے عربی زبان کی شدھ بدھ ہے اس کے لئے امام محترم نے کوئی ایسا عذر نہیں چھوڑا کہ سنت سے اعراض کرکے وہ کسی اور طرف رخ کرسکے۔
تیسرے امام ابوداؤد سجستانی ہیں۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ ایسی احادیث جمع کردیں جن سے فقہاء کرام نے استدلال لئے اور انہی کے مابین ان کی مانگ ہے نیز مختلف علاقوں کے علماء نے احکام شرعیہ کی بنیاد ان پر رکھی ہے۔انہوں نے اپنی سنن تصنیف فرمائی جس میں صحیح، حسن اور لین وبہتر قابل عمل احادیث جمع کیں۔
امام ابوداؤد خود فرماتے ہیں:میں نے اس کتاب میں وہ احادیث جمع نہیں کیں جن کے ترک پر لوگ متفق ہوگئے تھے۔جو حدیث ضعیف تھی اسے صراحت کے ساتھ بتادیا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔اور جس میں کوئی علت (مخفی غلطی) تھی تو اسے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس علم کا ماہر ہی جان سکے۔ہر اس حدیث کا ترجمہ(Heading)بھی لکھا جس سے کسی بھی عالم نے اس سے کوئی مسئلہ مستنبط کیایا کچھ بھی کہا۔اسی لئے امام الغزالی ؒ کے علاوہ دیگر نے کہا: یہ کتاب مجتہد کے لئے کافی ہے۔
چوتھے امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ ہیں۔لگتا ہے انہیں شیخین کا یہ طریقہ بھلالگا کہ ہر شے انہوں نے واضح کردی ہے اور کوئی شے مبہم نہیں چھوڑی۔ نیزامام ابوداؤد کا یہ طریقہ بھی انہیں پسند آیا کہ ہر فقیہ ومجتہد عالم کے علم کو اپنی کتاب میں جمع کردیں۔ امام ترمذیؒ نے یہ دونوں طریقے اپنی کتاب میں جمع کردیے بلکہ صحابہ وتابعین اور مختلف علاقوں کے فقہاء کرام کے نکتۂ نظر کو بھی جمع کردیا۔ اس طرح ایک جامع کتاب تصنیف کر ڈالی۔حدیث کی اسانید کو انہوں نے بڑی باریکی سے مختصرا ًبیان کیاوہ یوں کہ ایک سند ذکر کی اور باقی کی طرف اشارہ کردیا۔ہر حدیث کے بارے میں یہ بھی وضاحت کردی کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے ، حسن ہے یا ضعیف ہے یا منکر ہے۔ کوشش کی کہ ضعف کا سبب بھی بتادیں تاکہ طالب علم اس حدیث کے بارے میں آگاہ رہے۔اور اسے یہ بھی علم رہے کہ اس حدیث کے علاوہ اور کون سی حدیث ہے جو قابل اعتبار ہے۔اسی طرح امام ترمذی نے مستفیض، یا غریب حدیث کو بھی ذکر کیا ہے اور صحابہ کرام وفقہاء بلدان کے نکتہ نظر کو بھی بیان کیا ہے۔ جن کے نام کو بیان کرنے کی ضرورت تھی ان کا نام اور جس کی کنیت بیان کرنے کی ضرورت تھی اس کی کنیت بیان کردی۔ علم الرجال کے ماہر کے لئے کوئی مخفی بات نہیں چھوڑی۔ اسلئے یہ کہا جاتا ہے: یہ کتاب مجتہد کے لئے کافی ہے اور مقلد کو بے پروا کرنے والی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد اگلی نسل میں کچھ لوگ ایسے اٹھائے جنہوں نے احادیث کا ایک قابل قدر ذخیرہ اور فقہ کے ابتدائی اصول تیار پائے۔ انہوں نے نئے فنون کا سوچا۔ مثلاً: کبار محدثین کے مابین متفقہ احادیث ِصحیحہ کی تمیز شروع ہوئی۔جیسے یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید القطان، احمد ، اسحق اور ان کے ہم پلہ محدثین۔ جیسے ان احادیث فقہ کو جمع کرناجنہیں مختلف علاقوں یا شہروں کے علماء وفقہاء نے اپنے مذاہب کی بنیاد بنایا تھا۔یا حدیث پر اس کے استحقاق کے مطابق حکم لگایا، یا احادیث سے شاذہ اور فاذہ(منفرد) احادیث جنہیں انہوں نے روایت نہ کیا یا ان کی اسانید میں اتصال، علو سند، یا روایت فقیہ عن فقیہ یا حافظ کی حافظ ِحدیث سے روایت تھی یا ان جیسے اور کئی علمی مطالب تھے، جنہیں اوائل اپنی کتب میں بیان نہ کرسکے ۔جن میں امام بخاری، مسلم، ابوداؤد، عبد بن حمید، الدارمی، ابن ماجہ، ابویعلی، ترمذی، نسائی، دارقطنی، حاکم، بیہقی، خطیب بغدادی، دیلمی ابن عبد البر اور ان جیسے دوسرے جلیل القدر علماء شامل ہیں۔
مصنفین میں سب سے زیادہ مشہور اوربڑے عالم :
علمی وسعت اور مفید تصنیفات کے اعتبار سے ہمارے نزدیک قابل ذکر چار فقہاء محدثین ہیں اور جو قریب العصربھی ہیں:
ان میں اولاً امام ابوعبد اللہ البخاری ہیں۔جن کی تصنیف کا مقصد صرف مشہور وعام صحیح متصل احادیث کو دیگر احادیث سے ممتاز کرنا اور فقہی استنباط کے علاوہ سیرت نبوی وتفسیرسے استنباطات کرنا بھی شامل تھا۔انہوں نے اپنی الجامع الصحیح تصنیف کی۔ اور صحت وقبولِ حدیث کی جو شرطیں عائد کی تھیں انہیں پورا کردکھایا۔ ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ ایک صالح انسان نے خواب میں رسول اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ اسے فرمارہے ہیں: کیا مسئلہ ہے کہ تم محمد بن ادریس کی فقہ میں مشغول ہوگئے ہو اور میری کتاب چھوڑ رہے ہو؟ اس نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ ﷺ کی کتاب کون سی ہے؟ فرمایا: صحیح بخاری۔ بخدا اس کتاب نے جو شہرت اور قبولیت کا درجہ پایا ہے اس سے بڑا سوچا ہی نہیں جاسکتا۔
دوسرے امام مسلم نیسابوری ہیں انہوں نے بھی چاہا کہ اپنی صحیح مسلم میں ایسی صحیح متصل مرفوع احادیث کو جمع کرلیں جن پر اجماع ہوچکا ہے اور جن سے سنت کو مستنبط کیا جاسکے۔انہوں نے چاہا کہ اپنی اس تصنیف کو قابل فہم بنادیں اور احادیث سے استنباط میں آسان ہو۔ اس لئے انہوں نے اپنی کتاب کو ایک نئی جہت دی۔ ہر باب کی بیشتر احادیث کوایک ہی جگہ پر جمع کردیاتاکہ متون اور ان کی اسانید کا اختلاف بھی واضح ہو۔انہوں نے ایک دوسرے سے مختلف احادیث کو بھی اپنی کتاب میں بیان کیا۔جسے عربی زبان کی شدھ بدھ ہے اس کے لئے امام محترم نے کوئی ایسا عذر نہیں چھوڑا کہ سنت سے اعراض کرکے وہ کسی اور طرف رخ کرسکے۔
تیسرے امام ابوداؤد سجستانی ہیں۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ ایسی احادیث جمع کردیں جن سے فقہاء کرام نے استدلال لئے اور انہی کے مابین ان کی مانگ ہے نیز مختلف علاقوں کے علماء نے احکام شرعیہ کی بنیاد ان پر رکھی ہے۔انہوں نے اپنی سنن تصنیف فرمائی جس میں صحیح، حسن اور لین وبہتر قابل عمل احادیث جمع کیں۔
امام ابوداؤد خود فرماتے ہیں:میں نے اس کتاب میں وہ احادیث جمع نہیں کیں جن کے ترک پر لوگ متفق ہوگئے تھے۔جو حدیث ضعیف تھی اسے صراحت کے ساتھ بتادیا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔اور جس میں کوئی علت (مخفی غلطی) تھی تو اسے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس علم کا ماہر ہی جان سکے۔ہر اس حدیث کا ترجمہ(Heading)بھی لکھا جس سے کسی بھی عالم نے اس سے کوئی مسئلہ مستنبط کیایا کچھ بھی کہا۔اسی لئے امام الغزالی ؒ کے علاوہ دیگر نے کہا: یہ کتاب مجتہد کے لئے کافی ہے۔
چوتھے امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ ہیں۔لگتا ہے انہیں شیخین کا یہ طریقہ بھلالگا کہ ہر شے انہوں نے واضح کردی ہے اور کوئی شے مبہم نہیں چھوڑی۔ نیزامام ابوداؤد کا یہ طریقہ بھی انہیں پسند آیا کہ ہر فقیہ ومجتہد عالم کے علم کو اپنی کتاب میں جمع کردیں۔ امام ترمذیؒ نے یہ دونوں طریقے اپنی کتاب میں جمع کردیے بلکہ صحابہ وتابعین اور مختلف علاقوں کے فقہاء کرام کے نکتۂ نظر کو بھی جمع کردیا۔ اس طرح ایک جامع کتاب تصنیف کر ڈالی۔حدیث کی اسانید کو انہوں نے بڑی باریکی سے مختصرا ًبیان کیاوہ یوں کہ ایک سند ذکر کی اور باقی کی طرف اشارہ کردیا۔ہر حدیث کے بارے میں یہ بھی وضاحت کردی کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے ، حسن ہے یا ضعیف ہے یا منکر ہے۔ کوشش کی کہ ضعف کا سبب بھی بتادیں تاکہ طالب علم اس حدیث کے بارے میں آگاہ رہے۔اور اسے یہ بھی علم رہے کہ اس حدیث کے علاوہ اور کون سی حدیث ہے جو قابل اعتبار ہے۔اسی طرح امام ترمذی نے مستفیض، یا غریب حدیث کو بھی ذکر کیا ہے اور صحابہ کرام وفقہاء بلدان کے نکتہ نظر کو بھی بیان کیا ہے۔ جن کے نام کو بیان کرنے کی ضرورت تھی ان کا نام اور جس کی کنیت بیان کرنے کی ضرورت تھی اس کی کنیت بیان کردی۔ علم الرجال کے ماہر کے لئے کوئی مخفی بات نہیں چھوڑی۔ اسلئے یہ کہا جاتا ہے: یہ کتاب مجتہد کے لئے کافی ہے اور مقلد کو بے پروا کرنے والی ہے۔