• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل الحدیث اور اصحاب الرائے کے مابین فرق

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جمع حدیث کا سلسلہ ختم ہوچکا ہاں دقت ِنظری ابھی باقی ہے:
اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد اگلی نسل میں کچھ لوگ ایسے اٹھائے جنہوں نے احادیث کا ایک قابل قدر ذخیرہ اور فقہ کے ابتدائی اصول تیار پائے۔ انہوں نے نئے فنون کا سوچا۔ مثلاً: کبار محدثین کے مابین متفقہ احادیث ِصحیحہ کی تمیز شروع ہوئی۔جیسے یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید القطان، احمد ، اسحق اور ان کے ہم پلہ محدثین۔ جیسے ان احادیث فقہ کو جمع کرناجنہیں مختلف علاقوں یا شہروں کے علماء وفقہاء نے اپنے مذاہب کی بنیاد بنایا تھا۔یا حدیث پر اس کے استحقاق کے مطابق حکم لگایا، یا احادیث سے شاذہ اور فاذہ(منفرد) احادیث جنہیں انہوں نے روایت نہ کیا یا ان کی اسانید میں اتصال، علو سند، یا روایت فقیہ عن فقیہ یا حافظ کی حافظ ِحدیث سے روایت تھی یا ان جیسے اور کئی علمی مطالب تھے، جنہیں اوائل اپنی کتب میں بیان نہ کرسکے ۔جن میں امام بخاری، مسلم، ابوداؤد، عبد بن حمید، الدارمی، ابن ماجہ، ابویعلی، ترمذی، نسائی، دارقطنی، حاکم، بیہقی، خطیب بغدادی، دیلمی ابن عبد البر اور ان جیسے دوسرے جلیل القدر علماء شامل ہیں۔

مصنفین میں سب سے زیادہ مشہور اوربڑے عالم :
علمی وسعت اور مفید تصنیفات کے اعتبار سے ہمارے نزدیک قابل ذکر چار فقہاء محدثین ہیں اور جو قریب العصربھی ہیں:
ان میں اولاً امام ابوعبد اللہ البخاری ہیں۔جن کی تصنیف کا مقصد صرف مشہور وعام صحیح متصل احادیث کو دیگر احادیث سے ممتاز کرنا اور فقہی استنباط کے علاوہ سیرت نبوی وتفسیرسے استنباطات کرنا بھی شامل تھا۔انہوں نے اپنی الجامع الصحیح تصنیف کی۔ اور صحت وقبولِ حدیث کی جو شرطیں عائد کی تھیں انہیں پورا کردکھایا۔ ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ ایک صالح انسان نے خواب میں رسول اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ اسے فرمارہے ہیں: کیا مسئلہ ہے کہ تم محمد بن ادریس کی فقہ میں مشغول ہوگئے ہو اور میری کتاب چھوڑ رہے ہو؟ اس نے عرض کی: یارسول اللہ! آپ ﷺ کی کتاب کون سی ہے؟ فرمایا: صحیح بخاری۔ بخدا اس کتاب نے جو شہرت اور قبولیت کا درجہ پایا ہے اس سے بڑا سوچا ہی نہیں جاسکتا۔

دوسرے امام مسلم نیسابوری ہیں انہوں نے بھی چاہا کہ اپنی صحیح مسلم میں ایسی صحیح متصل مرفوع احادیث کو جمع کرلیں جن پر اجماع ہوچکا ہے اور جن سے سنت کو مستنبط کیا جاسکے۔انہوں نے چاہا کہ اپنی اس تصنیف کو قابل فہم بنادیں اور احادیث سے استنباط میں آسان ہو۔ اس لئے انہوں نے اپنی کتاب کو ایک نئی جہت دی۔ ہر باب کی بیشتر احادیث کوایک ہی جگہ پر جمع کردیاتاکہ متون اور ان کی اسانید کا اختلاف بھی واضح ہو۔انہوں نے ایک دوسرے سے مختلف احادیث کو بھی اپنی کتاب میں بیان کیا۔جسے عربی زبان کی شدھ بدھ ہے اس کے لئے امام محترم نے کوئی ایسا عذر نہیں چھوڑا کہ سنت سے اعراض کرکے وہ کسی اور طرف رخ کرسکے۔

تیسرے امام ابوداؤد سجستانی ہیں۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ ایسی احادیث جمع کردیں جن سے فقہاء کرام نے استدلال لئے اور انہی کے مابین ان کی مانگ ہے نیز مختلف علاقوں کے علماء نے احکام شرعیہ کی بنیاد ان پر رکھی ہے۔انہوں نے اپنی سنن تصنیف فرمائی جس میں صحیح، حسن اور لین وبہتر قابل عمل احادیث جمع کیں۔
امام ابوداؤد خود فرماتے ہیں:میں نے اس کتاب میں وہ احادیث جمع نہیں کیں جن کے ترک پر لوگ متفق ہوگئے تھے۔جو حدیث ضعیف تھی اسے صراحت کے ساتھ بتادیا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔اور جس میں کوئی علت (مخفی غلطی) تھی تو اسے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس علم کا ماہر ہی جان سکے۔ہر اس حدیث کا ترجمہ(Heading)بھی لکھا جس سے کسی بھی عالم نے اس سے کوئی مسئلہ مستنبط کیایا کچھ بھی کہا۔اسی لئے امام الغزالی ؒ کے علاوہ دیگر نے کہا: یہ کتاب مجتہد کے لئے کافی ہے۔

چوتھے امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ ہیں۔لگتا ہے انہیں شیخین کا یہ طریقہ بھلالگا کہ ہر شے انہوں نے واضح کردی ہے اور کوئی شے مبہم نہیں چھوڑی۔ نیزامام ابوداؤد کا یہ طریقہ بھی انہیں پسند آیا کہ ہر فقیہ ومجتہد عالم کے علم کو اپنی کتاب میں جمع کردیں۔ امام ترمذیؒ نے یہ دونوں طریقے اپنی کتاب میں جمع کردیے بلکہ صحابہ وتابعین اور مختلف علاقوں کے فقہاء کرام کے نکتۂ نظر کو بھی جمع کردیا۔ اس طرح ایک جامع کتاب تصنیف کر ڈالی۔حدیث کی اسانید کو انہوں نے بڑی باریکی سے مختصرا ًبیان کیاوہ یوں کہ ایک سند ذکر کی اور باقی کی طرف اشارہ کردیا۔ہر حدیث کے بارے میں یہ بھی وضاحت کردی کہ آیا یہ حدیث صحیح ہے ، حسن ہے یا ضعیف ہے یا منکر ہے۔ کوشش کی کہ ضعف کا سبب بھی بتادیں تاکہ طالب علم اس حدیث کے بارے میں آگاہ رہے۔اور اسے یہ بھی علم رہے کہ اس حدیث کے علاوہ اور کون سی حدیث ہے جو قابل اعتبار ہے۔اسی طرح امام ترمذی نے مستفیض، یا غریب حدیث کو بھی ذکر کیا ہے اور صحابہ کرام وفقہاء بلدان کے نکتہ نظر کو بھی بیان کیا ہے۔ جن کے نام کو بیان کرنے کی ضرورت تھی ان کا نام اور جس کی کنیت بیان کرنے کی ضرورت تھی اس کی کنیت بیان کردی۔ علم الرجال کے ماہر کے لئے کوئی مخفی بات نہیں چھوڑی۔ اسلئے یہ کہا جاتا ہے: یہ کتاب مجتہد کے لئے کافی ہے اور مقلد کو بے پروا کرنے والی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فقہاء محدثین کے مقابلے میں ایسے علماء ابھرے جو روایت ِحدیث سے تو گھبراتے تھے مگر فتوی دینے میں نڈر تھے:
امام مالک وامام سفیان رحمہما اللہ کے زمانہ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو مسائل کوبیان کرنا مکروہ نہیں سمجھتے تھے اور اندھا دھندفتوی دیتے تھے یہ سلسلہ ان کے بعد بھی جاری رہا۔ وہ کہا کرتے: فقہ پر تو دین کی عمارت کھڑی ہے اس لئے اس کی اشاعت ضروری ہے۔مگر روایت ِحدیث ِرسول ﷺ سے گھبراتے اور آپ تک سند نہیں لے جاتے تھے یا آپ ﷺ کی طرف منسوب نہیں کرتے تھے۔حتی کہ امام شعبی ؒبھی یہ کہا کرتے: جو روایت نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور کی ہے اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے خواہ اس میں کوئی کمی ہو یا اضافہ۔ یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے۔امام ابراہیمؒ بھی فرماتے: میں تو یہ کہتا ہوں: عبد اللہؒ نے کہا، علقمہؒ نے کہا۔ یہ ہمیں زیادہ محبوب ہے۔ سیدنا ابنؓ مسعود جب حدیث رسول بیان کرتے تو ان کی آواز روہانسی ہوجاتی۔اور فرماتے: اسی طرح یا اس سے ملتی جلتی حدیث ہے۔

جب انصار کا ایک وفد کوفہ روانہ ہو تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا:
تم کوفہ جارہے ہووہاں ایسے لوگ ہیں جن کی آوازیں قرآن کی قراء ت کے وقت رونے کی ہوا کرتی ہیں تو وہ تمہارے پاس آئیں گے اور پھر کہیں گے: اصحابِ محمد تشریف لائے اصحابِ محمد تشریف لائے۔ اور پھر تم سے آکر حدیث رسول پوچھیں گے۔ دھیان کرنا انہیں بہت کم حدیث رسول روایت کرنا۔

ابن عون کہتے ہیں
: امام شعبی ؒ کے پاس جب بھی کوئی دینی مسئلہ آتا تو حتی الامکان بچتے تھے مگر ابراہیم بتاتے اور بتاتے ہی جاتے۔

ان فقہاء کی قلت ِحدیث کا سبب:
حدیث وفقہ اور مسائل وغیرہ ضرورت کے مطابق وقتاً فوقتاًمدون ہونا شروع ہوگئے۔مگر ان فقہاء کے پاس احادیث وآثار کی اتنی مقدار نہیں تھی کہ جن کے ذریعے وہ استنباطِ مسائل کو ان اصولوں پر کرتے جو محدثین فقہاء نے استنباط کے لئے بنائے تھے۔دراصل ان کے دل مختلف علاقوں کے علماء کے اقوال سے مطمئن نہ ہوسکے اور نہ ہی انہیں وہ جمع کرسکے اورنہ ہی اس میں مزید تحقیق کرسکے۔اس بارے میں انہوں نے خود کو متہم بھی کیا۔وہ یہ سمجھتے کہ ان کے ائمہ کرام ہی بحث و تحقیق کے عالی مقام پر فائز ہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل اپنے اصحاب کی طرف زیادہ جھکے ہوئے تھے جیسا کہ علقمہ نے کہا: کیا کوئی عبد اللہؓ بن مسعود سے بڑھ کر اثبت ہوسکتا ہے۔اور امام ابوحنیفہؒ نے کہا: ابراہیم نخعیؒ ،سالمؓ مولی آل حذیفہ سے بڑھ کر فقیہ ہیں اور اگر صحابیت کی فضیلت نہ ہوتی تو میں کہتا: علقمہؒ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ فقیہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قاعدۂ تخریج پر فقہ کا آغاز:
یہ علماء انتہائی سمجھ دار ، ذہنِ رسا اورایک شے سے دوسری شے کی طرف ذہن کی بسرعت منتقلی کا ملکہ رکھتے تھے۔جس کے ذریعے سے وہ اپنے اصحاب کے اقوال پر مسائل کے جواب میں تخریج کردیتے۔ کل میسر لما خلق لہ۔ جو تخلیقی ملکہ آدمی کے پاس ہوتاہے اسی کے ذریعے اس کے لئے کام کی آسانی پیدا کردی جاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی شاید صحیح منطبق ہوتا ہے: {کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِ فَرِحُوْنَ} ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس پر خوش ہے۔

چنانچہ ان علماء نے فقہ کی ابتداء قاعدۂ تخریج سے کی۔وہ اس طرح کہ ہر اس عالم کی کتاب یاد کرلی جاتی جو اس کے چیدہ اصحاب کی نمائندہ وزبان ہوتی تھی اور وہ ان کے اقوال کی بھی سب سے زیادہ معرفت رکھتا تھا اور ترجیح میں بھی غوروفکر کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح قول تھا۔وہ ہر مسئلہ میں حکم کی وجہ پر غور کرتا تو جب بھی اس سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا یاوہ خود کسی مسئلے کا حل چاہتا تو وہ ان تصریحات پر غور کرتا جو اس نے اپنے اصحاب کی یاد کی ہوئی ہوتیں اگر ان میں اسے جواب مل جاتا تو فَبِہَا ورنہ وہ ان کے کلام کے عموم پر غور کرتا جاتا پھر وہ اس کا اجرا ء اسی صورت پر کردیتا جو اسے سوجھتی یا کلام میں کوئی ضمنی اشارہ ملتا تو اسی صورت پر اجرا ء کردیتا۔اور وہ اس سے استنباط ِمسائل کرتا۔

کبھی کبھار عالم کے کلام کے کچھ حصے میں اشارہ یا اقتضاء ہوتا تو اسے مقصود سمجھ آجاتا۔

اور کبھی صورت مسؤلہ واضح ہوتی جس کی کوئی نظیر مل جاتی تومسئلے کو وہ اس پر محمول کرکے استنباط کرلیتا۔

کبھی یہ علماء صریح حکم کی علت میں تخریج کرکے یا یسر کا قاعدہ استعمال کرکے یا حذف کرکے غور وفکر کرتے اور اس کے حکم کو غیر صریح پر گھماتے اور حل نکال لیتے۔

بعض دفعہ اس عالم کے دو اقوال ہوتے اگر وہ اقوال قیاس اقترانی کی ہیئت پر مجتمع ہوجاتے یا قیاس شرطی کی ہیئت پر تو مسئلہ کاجواب نکال لیتے۔کبھی ان کے کلام میں وہ چیز ہوتی جو معلوم مثال وتقسیم کی ہوتی مگر جامع ومانع تعریف میں غیر معلوم ہوتی۔ پھر وہ اہل زبان کی طرف پلٹتے اور اس زبان کی ذاتیات کے حصول میں بھی بڑا تکلف کرتے اور ایک جامع ومانع تعریف کی ترتیب کے علاوہ اس لفظ کے مبہم کو ضبط کرنے اور اس کے مشکل کو ممیز کرنے میں بھی بڑا تکلف کرتے۔

کبھی ان علماء کا کلام دو مفہوم لئے ہوتا ۔ان میں کسے ترجیح دی جائے ؟ اس پر غور کرتے۔ اور کبھی دلائل کو مخفی طور پر ایک دوسرے کے قریب کردیتے اور اسے بتا بھی دیتے۔

کبھی مخرج اپنے ائمہ کے کسی فعل یا ان کے سکوت سے استدلال لیتا یا اور کئی طریقے وہ اپناتا۔یہ سب طریقۂ کارتخریج کہلاتا ہے۔

مجتہد فی المذہب:
جیسے فلا ں کا مخرج قول اس طرح ہے یا فلاں کے مذہب پر یہ مسئلہ اس طرح ہے۔ یا فلاں کے اصول کے مطابق یوں ہے۔ یا فلاں کے قول کے مطابق مسئلے کا جواب اس طرح ہے۔جو عالم اس کا ماہر ہوتا ہے اسے مجتہد فی المذہب کہا جاتا ہے۔مگریہ اجتہاد کس اصول کے مطابق ہو؟ بس اس کا معیار یہ ہے کہ جس نے مبسوط یاد کرلی وہ مجتہد ہے۔یعنی خواہ اس کے پاس علم الروایۃیعنی روایت ِحدیث کا علم نہ ہو اور نہ ہی ایک حدیث ہو۔ اس طرح ہر مذہب میں تخریج ہوئی اور بہت ہی ہوئی۔ جس مذہب کے ائمہ مشہور ہوگئے انہیں ہی قضاء اور افتاء کے مناصب حکومت کی جانب سے ملے ۔ان کی تصانیف بھی لوگوں میں پھیلیں۔ اور مختلف علاقوں میں ان کے دروس بھی پھیلے جو مسلسل اب تک پھیل رہے ہیں۔ مگر جس مذہب کے ائمہ سست ثابت ہوئے وہ نہ تو قضاء وافتاء کے منصب لے سکے اور نہ ہی لوگوں نے ان میں کوئی دل چسپی ظاہر کی نتیجۃً ایسے مذاہب مٹ گئے۔(حجۃ اللہ البالغۃ ۱؍۲۷۴)

٭٭٭٭٭​
انکارِ حدیث سے محسوسات او رمرئی حقیقتوں سے محبت تو یہ لوگ کرلیتے ہیں مگر غیر مرئی اللہ سے محبت کا انکار کرتے ہیں۔
اللہ وحی نازل کرنے والی ذات اور رسول وحی قبول کرنے والی شخصیت ۔ یہ نہیں مانتے۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top