• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل بدعت کے ساتھ عدل و انصاف کرنا۔ ۔ اہل سنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اہل بدعت کے ساتھ عدل و انصاف کرنا
دین اسلام کا مقصد تمام لوگوں کو حق اور عدل پر قائم کرنا ہے۔ارشاد ربانی ہے :

﴿ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ ﴾ (الحدید:۲۵)
''بلاشبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں ۔''

اس لیے اس زمین پر مسلمان ہی سب سے زیادہ عدل کرنے والے ہیں اور مسلمانوں میں اہلسنت سب گروہوں سے بڑھ کر عادل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع میں سب سے آگے ہوتے ہیں ۔عدل کرنا اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

﴿ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي۝۰ۚ ﴾(الانعام :۱۵۲)
''اور جب تم بات کہو تو انصاف سے کہو چاہے وہ رشتہ دار ہی(کے خلاف ) ہو۔''

عدل کی اس قدر اہمیت ہے کہ مسلمان کو اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھی عدل سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔

﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚ ﴾( النساۗء:۱۳۵)
''اے ایمان والو اللہ کی خاطر انصاف پر رہتے ہوئے گواہی دیا کرو خواہ وہ گواہی تمہارے اپنے یا تمہارے والدین یا قریبی عزیزوں کے خلاف ہی ہو ۔''

پھر اپنی جماعت اور گروہ کے حق میں کسی پر ظلم کرنا اور عدل سے تجاوز کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے ؟

ابو حمید ساعدی؄ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یقینا اس امت میں اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جو پورا حق دینے والے اور حوصلہ افزائی کرنے والے ہیں۔(السلسلۃ الصحیحۃ ۲۸۴۸)

ارشاد ربانی ہے :

﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۝۸ ﴾(الماۗئدۃ:۸)
''اے ایمان والو اللہ کی خاطر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر مشتعل نہ کردے کہ تم عدل کو چھوڑ دو ،عدل کیا کرو یہی بات تقویٰ کے قریب تر ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً اللہ اس سے خوب با خبر ہے ۔''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :

(فنھی أن یحمل المؤمنین بغضھم للکفار علی ألا یعدلوا ،فکیف اذا کان البغض لفاسق أو مبتدع متأول من أھل الایمان ؟فھو أولی أن یجب علیہ ألا یحملہ ذلک ألا یعدل علی مؤمن وان کان ظالماً لہ )
''اس آیت کریمہ میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ مؤمنین کو کفار سے بغض کہیں عدل سے نہ پھیر دے ۔(جب کافروں کے بارے میں یہ تعلیم ہے کہ ان کے ساتھ ظلم نہیں کرنا )تو پھراہل ایمان میں سے فاسق وفاجر اور اُس بدعتی سے بغض (کی وجہ سے ان پر ظلم کرنا )کس قدر برا ہو گا جو تاویل کرنے والا ہے ۔یقینا یہ کافر سے کہیں زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ مؤمن ان کے حق میں ظلم کا ارتکاب نہ کریں چاہے یہ خود مومنین پر ظلم کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں ۔''(الاستقامہ :38/1)

مزید فرماتے ہیں :

(ولما کان أتباع الأنبیاء ھم اھل العلم والعدل کان کلام أھل الاسلام والسنۃ مع الکفار وأھل البدع بالعلم والعدل لا بالظنِّ وما تھوی الأنفس ولھذا قال النبي ﷺ :((القضاۃ ثلاثۃ :قاضیان في النار وقاض في الجنۃ ، رجل علم الحق وقضی بہ فھو في الجنۃ ،ورجل علم الحق وقضی بخلافہ فھو في النار)) فاذا کان من یقضي بین الناس في الأموال والدماء و الأعراض اذا لم یکن عالماً عادلا کان في النار ،فکیف بمن یحکم في الملل و الأدیان وأصول الایمان والمعارف الالھیۃ والمعالم العلیۃ بلا علم ولاعدل؟) (مجموع الفتاویٰ ،ج۳ص۴۲۳)
''جب انبیاء کے پیروکار علم وعدل والے ہیں توپھر ضروری ہے کہ کفار اور اہل بدعت کے ساتھ علم وعدل کے ساتھ بات کی جائے نہ کہ ظن اور نفس کی پیروی کرتے ہوئے ۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :'' قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں ۔ان میں سے ایک جنتی اور دو جہنمی ہیں ۔جنتی تو وہ ہے جو حق کومعلوم کرے پھر اسکے مطابق فیصلہ صادر کرے۔دوسرا وہ شخص جو حق کو پہچان کر بھی اس سے انحراف کرتا ہے ایسا شخص جہنمی ہے اور تیسرا وہ شخص جو جہالت کے باوجود فیصلہ صادر کرتا ہے وہ بھی دوزخ میں جائے گا '' (ابوداود:۳۵۷۳،۔ابن ماجہ) جب لوگوں کے مابین علم و عدل کے بغیر اُن کے خون،مال اور عزتوں کے بارے میں فیصلے کرنے والا شخص آگ کا مستحق ہے تو پھر اس کے جرم کا کیا حال ہوگا جو ملتوں ،ادیان اور ایمان ،معارف الالٰہیۃ اور معالم العلیۃ کے بارے میں بلا علم و عدل فیصلے کرتا ہے ۔''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فضیلہ الشیخ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

''عہد نبوی میں تو چونکہ صرف مومن اور کفار و مشرکین اور منافقین ہی تھے ،اس لیے اس مسئلہ(یعنی بدعت کے ساتھ ولاء اور براء ) کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے میں کوئی خاص پیچیدگی نہیں تھی ۔جبکہ بعد میں مسلمانوں کے اندر متعدد بدعتی فرقے معرض وجود میں آگئے، جس کی وجہ سے یہ مسئلہ خاص اہمیت اختیار کر گیا اور اس کی تطبیق بھی کافی مشکل ہو گئی۔ بالخصوص عصر حاضر میں ولاء اور براء کے حدودِ اطلاق اور عملاً تطبیق میں خاصی افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ایک طرف کچھ لوگوں نے اس میں کافی شدت اختیار کر رکھی ہے ،اور وہ معمولی فقہی اختلاف کو بنیاد بنا کر براء ت کا اظہار کرنے میں جلد بازی سے کام لے رہے ہیں ،اور اپنے مسلک سے فقہی اختلاف رکھنے والے شخص کو اس کی کوئی نہ کوئی غلطی تلاش کر کے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کر کے اس کے پیچھے نماز ادا کرنے کو منع قرار دیتے ہیں جو سلف امت کے طرز عمل کے سراسر منافی ہے ۔

دوسری طرف کچھ لوگوں کی وسعت ظرفی کا دائرہ شرعی حدود و قیود سے تجاوز کر گیا ہے، وہ کلمہ گو مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے لیے اہل ا یمان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں اور بین المذاہب مکالمے کی آڑ میں کفار و مشرکین اور اعداء اسلام کے لیے ولاء کا راستہ ہموار کرنے میں شعوری یا لاشعوری طور پر مصروف ہیں ،اس طرح مخصوص اغراض یا قلت ادراک کی وجہ سے وحدت ادیان کا ملحدانہ فلسفہ نشر کیا جا رہا ہے ،جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان کے خلاف بین الاقوامی یہودی سازش کا حصہ ہے ،اور جدید افلاطونیت اور مغرب کی ''روشن خیالی '' کو مسلمانوں میں قابل قبول بنانے کی سعی نامشکور ہے ۔'' (مقالات تربیت ص ۱۷۴،۱۷۵)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا ۔ بہت اہم موضوع ہے اس پر مزید معلومات اور تبادلہ خیال ہونا چاہیے ۔
 
Top