- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
پھر انہوں نے عقل کو زائل کرنے کے لئے شراب کے بدلے ایک دوسری چیز اختیار کی جس کا نام حشیش اور معجون رکھا ہے۔
یعنی گانجا، افیون اور بھنگ، اور حرام گانے بجانے کا نام سماع اور وجد رکھا ہے۔ حالانکہ جو وجد عقل کو زائل کردے اس سے تعرض حرام ہے۔
اللہ شریعت کو اس طائفہ کے شر سے محفوظ رکھے جو لباس کی نفاست، زندگی کی بہار اور شیریں الفاظ کی فریب کاری کا جامع ہے۔ اور جس کے پیچھے احکام الٰہی کو ختم کرنے اور شریعت کو چھوڑنے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی لئے یہ دلوں پر ہلکے ہوگئے ہیں اور ان کے باطل پر ہونے کی اس سے زیادہ واضح دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا پرست ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں۔ جیسی محبت کھیل کود والوں سے اور ناچنے گانے والیوں سے کرتے ہیں۔
اس کے بعد ابن عقیل کہتے ہیں:
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے یہ لوگ تو صاف ستھرے، اچھے طور طریقے والے اور بااخلاق لوگ ہیں، تو میں ان سے کہوں گا کہ اگر یہ لوگ کوئی ایسا طریقہ نہ اپنائیں جس سے اپنے جیسے لوگوں کا دل کھینچ سکیں تو ان کی عیش و عشرت ہمیشہ رہ ہی نہ سکے گی۔
اور ان کا جو حال تم ذکر کررہے ہو وہ تو عیسائیوں کی رہبانیت ہے۔
اور اگر تم دعوتوں کے اندر طفیلی بننے والوں اور بغداد کے زنخوں کی صفائی ستھرائی دیکھو، اور ناچنے والیوں کی نرم اخلاقی کا مشاہدہ کرو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کا طریقہ ظرافت اور فریب کاری کا طریقہ ہے۔
آخر ان لوگوں کو طور طریقے یا زبان ہی سے تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ اگر ان لوگوں کے پاس علم کی گہرائی بھی نہ ہو اور کوئی طور طریقہ بھی نہ ہو تو آخر یہ کس مالداروں کا دل کھینچیں گے۔
تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ احکام الٰہی کی تعمیل مشکل کام ہے۔ اور بدکاروں کے لئے اس سے زیادہ کوئی بات آسان نہیں کہ معاشرے سے الگ تھلگ رہیں۔
اور اس سے زیادہ کوئی مشکل بات نہیں کہ شریعت کے اوامرونواہی کی روشنی میں صادر ہونے والی رکاوٹ کی پابندی کریں۔
درحقیقت شریعت کے لئے متکلمین اور اہل تصوف سے بڑھ کر کوئی قوم نقصان دہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لوگ (متکلمین) لوگوں کے عقائد کو عقلی شبہات کا وہم لاکر فاسد کرتے ہیں۔
اور وہ لوگ (اہل تصوف) لوگوں کے اعمال خراب کرتے، دین کے قوانین کوڈھاتے، بیکاری کو پسند کرتے اور گانے وغیرہ سننے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔
حالانکہ سلف ایسے نہیں تھے۔ بلکہ عقائد کے باب میں بندہ تسلیم ورضا تھے۔ اور دوسرے ابواب میں حقیقت پسند و جفاکش۔
وہ کہتے ہیں :
اپنے بھائیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ ان کے دلوں کے افکار میں متکلمین کی بات نہیں پڑنی چاہیئے، اور ان کا کان صوفیوں کی خرافات کی طرف نہیں لگنا چاہیئے۔ بلکہ معاش کے کام میں مشغول ہونا صوفیوں کی بیکاری سے بہتر ہے۔ اور ظواہر پر ٹھہرے رہنا نام نہاد دین پسندوں کی وقت پسندی سے افضل ہے میں نے دونوں گروہوں کے طریقے آزمالئے ہیں، ان لوگوں کا منتہاء کمال شک ہے، اور ان لوگوں کا منتہاء کمال شطح ہے۔ (تلبیس ابلیس ص 375-374)
یعنی گانجا، افیون اور بھنگ، اور حرام گانے بجانے کا نام سماع اور وجد رکھا ہے۔ حالانکہ جو وجد عقل کو زائل کردے اس سے تعرض حرام ہے۔
اللہ شریعت کو اس طائفہ کے شر سے محفوظ رکھے جو لباس کی نفاست، زندگی کی بہار اور شیریں الفاظ کی فریب کاری کا جامع ہے۔ اور جس کے پیچھے احکام الٰہی کو ختم کرنے اور شریعت کو چھوڑنے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی لئے یہ دلوں پر ہلکے ہوگئے ہیں اور ان کے باطل پر ہونے کی اس سے زیادہ واضح دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا پرست ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں۔ جیسی محبت کھیل کود والوں سے اور ناچنے گانے والیوں سے کرتے ہیں۔
اس کے بعد ابن عقیل کہتے ہیں:
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے یہ لوگ تو صاف ستھرے، اچھے طور طریقے والے اور بااخلاق لوگ ہیں، تو میں ان سے کہوں گا کہ اگر یہ لوگ کوئی ایسا طریقہ نہ اپنائیں جس سے اپنے جیسے لوگوں کا دل کھینچ سکیں تو ان کی عیش و عشرت ہمیشہ رہ ہی نہ سکے گی۔
اور ان کا جو حال تم ذکر کررہے ہو وہ تو عیسائیوں کی رہبانیت ہے۔
اور اگر تم دعوتوں کے اندر طفیلی بننے والوں اور بغداد کے زنخوں کی صفائی ستھرائی دیکھو، اور ناچنے والیوں کی نرم اخلاقی کا مشاہدہ کرو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کا طریقہ ظرافت اور فریب کاری کا طریقہ ہے۔
آخر ان لوگوں کو طور طریقے یا زبان ہی سے تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ اگر ان لوگوں کے پاس علم کی گہرائی بھی نہ ہو اور کوئی طور طریقہ بھی نہ ہو تو آخر یہ کس مالداروں کا دل کھینچیں گے۔
تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ احکام الٰہی کی تعمیل مشکل کام ہے۔ اور بدکاروں کے لئے اس سے زیادہ کوئی بات آسان نہیں کہ معاشرے سے الگ تھلگ رہیں۔
اور اس سے زیادہ کوئی مشکل بات نہیں کہ شریعت کے اوامرونواہی کی روشنی میں صادر ہونے والی رکاوٹ کی پابندی کریں۔
درحقیقت شریعت کے لئے متکلمین اور اہل تصوف سے بڑھ کر کوئی قوم نقصان دہ نہیں۔ کیوں کہ یہ لوگ (متکلمین) لوگوں کے عقائد کو عقلی شبہات کا وہم لاکر فاسد کرتے ہیں۔
اور وہ لوگ (اہل تصوف) لوگوں کے اعمال خراب کرتے، دین کے قوانین کوڈھاتے، بیکاری کو پسند کرتے اور گانے وغیرہ سننے سے دلچسپی رکھتے ہیں۔
حالانکہ سلف ایسے نہیں تھے۔ بلکہ عقائد کے باب میں بندہ تسلیم ورضا تھے۔ اور دوسرے ابواب میں حقیقت پسند و جفاکش۔
وہ کہتے ہیں :
اپنے بھائیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ ان کے دلوں کے افکار میں متکلمین کی بات نہیں پڑنی چاہیئے، اور ان کا کان صوفیوں کی خرافات کی طرف نہیں لگنا چاہیئے۔ بلکہ معاش کے کام میں مشغول ہونا صوفیوں کی بیکاری سے بہتر ہے۔ اور ظواہر پر ٹھہرے رہنا نام نہاد دین پسندوں کی وقت پسندی سے افضل ہے میں نے دونوں گروہوں کے طریقے آزمالئے ہیں، ان لوگوں کا منتہاء کمال شک ہے، اور ان لوگوں کا منتہاء کمال شطح ہے۔ (تلبیس ابلیس ص 375-374)