• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث:ایک نئے تناظر میں

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یہود ونصاری سے قریب کون؟؟


اہل حدیث کی ہم نشینی سے یہود ونصاری مجالست زیادہ پسند ہے
قَالَ شُعْبَةُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «قُومُوا عَنِّي، مُجَالَسَةُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُجَالَسَتِكُمْ، إِنَّكُمْ لَتَصُدُّونَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ»
2/217جامع بیان العلم وفضلہ

شعبہ نے اہل حدیث سے کہا"نکل جائو یہاں سے،یہود اورنصاری کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرناتمہارے ساتھ بیٹھنے سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ تم لوگ اللہ کے ذکر اورنماز تک میں رکاوٹ بنتے ہو۔
ہوسکتاہے کہ اس بات سے کوئی اہل حدیث صاحب مجھ پر بدفہمی کی تہمت تراشنے لگیں اورکہنے لگیں کہ مضمون نگار کواتنابھی نہیں معلوم کہ امام شعبہ نے یہ اس وقت کہاجب راویان حدیث اورطلاب حدیث ان کو تنگ کردیتے تھے۔لہذا اس طرح کی بات تنگ آنے کی وجہ سے کہی گئی ہیں یہ مطلق اورعمومی قول نہیں ہے اس کوعمومی قول پر ڈھالنابدفہمی اورناسمجھی ہے۔
لیکن بے چارے ناقد کو میرے فہم کا ماتم کرنے سے قبل اپنے ان اکابرین کے فہم کا ماتم کرناپڑے گا جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کے کچھ ایسے ہی سخٹ جملوں کو حقیت اورعموم پر محمول کرلیاہے۔کیاہمارے ناقد صاحب اس کیلئے تیار ہیں؟اگرتیار ہیں تو وہ ایک مرتبہ اپنے ان اکابرین پر جنہوں نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کے سخت اقوال کو حقیقت اورعموم پر محمول کیاہے،تبرابھیج دیں اورتبرابھیجنے کی سند دکھادیں اس کےبعد راقم کو ناقد صاحب کے بدفہمی کے الزام سرلینے میں کوئی حرج نہ ہوگا۔

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنا أَبُو الْحُسَيْنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ، أنا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ، أنا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ، نا أَبُو الْأَزْهَرِ الْخُرَاسَانِيُّ، نا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْأَحْمَرِ، قَالَ: قَالَ شُعْبَةُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ: «قُومُوا عَنِّي، مُجَالَسَةُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُجَالَسَتِكُمْ، إِنَّكُمْ لَتَصُدُّونَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ»[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 217 ]۔

اولا:
یہ روایت مردود ہے سند میں موجود ’’أبو الأزهر الخراساني‘‘ نامعلوم شخص ہے اس طبقہ میں اس کنیت کے ساتھ ’’خراسانی‘‘ کے لاحقہ سے کوئی بھی راوی معروف نہیں ہے ، ایک راوی ابوالازھر کی کنیت اور الخراسانی کی نسبت سے یعنی ’’ابوالازہر الخراسانی‘‘ سے ضرور مشہور ہے مگر وہ اس طبقہ کا نہیں نیز وہ سخت ضعیف راوی ہے ۔
نیزاس طبقہ میں بھی ’’ابوالازھر‘‘ کی کنیت والے ایک ثقہ راوی موجود ہیں اوروہ زیدبن الحباب کے شاگرد بھی ہیں مگروہ ’’خراسانی‘‘ نہیں بلکہ ’’نیسابوری‘‘ کی نسبت سے معروف ہیں، اور گرچہ نیسابور صوبہ خراسان ہی کا شہر ہے اور اس اعتبار سے یہ راوی بھی صوبہ خراسان کے ہوئے مگرکسی راوی کا کسی صوبہ کا ہونا ایک بات ہے اور اس صوبہ کی نسبت سے معروف ہونا الگ بات ہے ، اور اس طبقہ والے ابوالازھر ثقہ راوی صوبہ خراسان کی نسبت سے نہیں بلکہ اس کے شہر نیسابور کی نسبت سے معروف ہیں، اور زیرنظر سند میں موجود ابوالازھر کی نسبت ’’خراسانی‘‘ بتلائی جارہی ہے نہ کہ ’’نیسابوری‘‘ ، لہٰذا یہ کوئی اور راوی ہے جس کے حالات نا معلوم ہیں۔
نیز اس طبقہ والے ثقہ ومعروف ابوالازھر یہ کثیر الروایہ وشہرت یافتہ ہیں اسی طرح احمدبن مسلم الابار بھی کثیر الروایہ وشہرت یافتہ ہیں مگر زیر نظر روایت کی سند کے علاوہ کسی بھی دوسری روایت کی سند میں استاذو شاگرد کا یہ رشتہ نظر نہیں آتا اورائمہ فن نے تو سرے سے ان دونوں کے مابین استاذ وشاگردی کے رشتہ کا ذکر ہی نہیں کیا ہے ، اس سے بھی اس بات کی طرف اشارہ ملتاہے کہ زیرنظر سند میں ’’ابوالازھر الخراسانی ‘‘ کوئی اور راوی ہے۔

واضح رہے کہ اس سند کے دیگر رواۃ وہ ہیں جنہوں نے ابوحنیفہ کی بابت محدثین کے کئی اقوال جرح کے راوی ہیں اور اسی بناپر عصرحاضر کے کذاب ودجال کوثری نے ان پر بے تکی جرح کی ہے جس کا دندان شکن جواب علامہ معلمی رحمہ اللہ نے تنکیل میں دے دیا۔


نوٹ:
جمشید صاحب نے امام شعبہ سے منقول مذکورہ قول کے ماخذ کے لئے ’’ 2/217جامع بیان العلم وفضلہ ‘‘ کاحوالہ دیا ہے مگر اس کتاب میں ہمیں یہ قول نہیں مل سکا ، ظن غالب ہے کہ سبقت قلم سے جمشید صاحب نے الجامع لاخلاق الراوی کے بجائے جامع بیان العلم کا حوالہ دے دیا ، جیساکہ ان کے درج کردہ صفحہ سے اشارہ ملتاہے کیونکہ جامع بیان العلم کے اس صفحہ پر تو ایسی کوئی بات نہیں لیکن الجامع لاخلاق کے اسی صفحہ پر یہ قول موجود ہے ، اس لئے یہ جمشیدصاحب کی انگلیوں کی سبقت ہے اگرایسا نہیں ہے تو ہمیں جامع بیان العلم سے یہ قول با سند پیش کیا جائے۔




ثانیا:
یہود ونصاری والے الفاظ کے ساتھ مذکورہ بات امام شعبہ رحمہ اللہ سے ثابت نہیں لیکن آپ کا درج ذیل قول ثابت ہے :

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ رِزْقٍ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الدَّقَّاقُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: ح وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ غَالِبٍ الْفَقِيهُ، قَالَ: قُرِئَ عَلَى إِسْحَاقَ النِّعَالِيِّ، وَأَنَا أَسْمَعُ، حَدَّثَكُمْ أَبُو خَلِيفَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْوَلِيدِ يَقُولُ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ يَصُدُّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ، فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ» قَالَ أَبُو خَلِيفَةَ: يُرِيدُ شُعْبَةُ، رَحِمَهُ اللَّهُ، أَنَّ أَهْلَهُ يُضَيِّعُونَ الْعَمَلَ بِمَا يَسْمَعُونَ مِنْهُ وَيَتَشَاغَلُونَ بِالْمُكَاثَرَةِ بِهِ، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ. وَالْحَدِيثُ لَا يُصَدُّ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ، بَلْ يَهْدِي إِلَى أَمْرِ اللَّهِ، [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 114 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام شعبہ نے کہا کہ یہ حدیث تمہیں اللہ کے ذکر اورنماز سے روکتی ہے تو کیا تم اس سے باز نہ رہو گے ، ابوخلیفہ کہتے ہیں کہ امام شعبہ رحمہ اللہ کی مراد وہ طلاب حدیث ہیں جو بہت ساری احادیث سن کر بھی اس پرعمل نہیں کرپاتے کیونکہ کثرت روایت وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں ، ورنہ حدیث حدیث اللہ کے ذکر سے نہیں روکتی بلکہ اللہ کے حکم کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔
اس قول میں امام شعبہ رحمہ اللہ نے یہود ونصاری کی مثال نہیں دی ہے اسی طرح طلاب حدیث نہیں بلکہ نفس حدیث ہی پر بات کی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے اس کی وضاحت بھی اسی روایت کے ساتھ موجود ہے نیزاس کی وضاحت امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے بہترین انداز میں پیش کی ہے چنانچہ:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ عَلِيٍّ اللِّحْيَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ عِيسَى الْقَاضِي، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَانِئٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، وَسُئِلَ، عَنْ قَوْلِ، شُعْبَةَ: إِنَّ هَذَا الْحَدِيثَ يَصُدُّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ، وَعَنِ الصَّلَاةِ، فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ؟، فَقَالَ: «لَعَلَّ شُعْبَةَ كَانَ يَصُومُ، فَإِذَا طَلَبَ الْحَدِيثَ وَسَعَى فِيهِ يَضْعُفُ، فَلَا يَصُومُ، أَوْ يُرِيدُ شَيْئًا مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ، فَلَا يَقْدِرُ أَنْ يَفْعَلَهُ لِلطَّلَبِ. فَهَذَا مَعْنَاهُ»[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 114 واسنادہ صحیح]۔
یعنی امام احمدرحمہ اللہ سے امام شعبہ کے مذکورہ قول کے بارے میں پوچھا گیا تو امام احمدرحمہ اللہ نے فرمایا: شاید امام شعبہ روزہ رکھنے والے تھے اورجب طلب حدیث میں مصروف ہوتے اوراس میں محنت کرتے توکمزرو پڑجاتے اور روزہ نہیں رکھ پاتے یا کچھ اور نیکیاں کرنا چاہتے لیکن طلب حدیث میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں کرپاتے ، یہی مراد ہے امام شعبہ کے قول سے۔
خود خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
قُلْتُ: وَلَيْسَ يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ: كَانَ شُعْبَةُ يُثَبِّطُ عَنْ طَلَبِ الْحَدِيثِ، وَكَيْفَ يَكُونُ كَذَلِكَ وَقَدْ بَلَغَ مِنْ قَدْرِهِ أَنْ سُمِّيَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْحَدِيثِ؟ كُلُّ ذَلِكَ لِأَجْلِ طَلَبِهِ لَهُ وَاشْتِغَالِهِ بِهِ. وَلَمْ يَزَلْ طُولَ عُمُرِهِ يَطْلُبُهُ حَتَّى مَاتَ عَلَى غَايَةِ الْحِرْصِ فِي جَمْعِهِ. لَا يَشْتَغِلُ بِشَيْءٍ سِوَاهُ، وَيَكْتُبُ عَمَّنْ دُونَهُ فِي السِّنِّ وَالْإِسْنَادِ، وَكَانَ مِنْ أَشَدِّ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ عِنَايَةً بِمَا سَمِعَ، وَأَحْسَنِهِمْ إِتْقَانًا لِمَا حَفِظَ[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 115]

ثالثا:
امام شعبہ رحمہ سے منقول مردود روایت میں امام شعبہ نے اپنے بعض شاگردوں کی مجالست سے بہتر یہود ونصاری کی مجالست کو قرار دیا ہے مگر امام ابراہیم نخعی نے تو مرجئہ کی مجالست نہیں بلکہ اس جماعت ہی کو تمام اہل کتاب سے زیادہ مبغوض قراردیاہے ، چنانچہ :
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أخبرنا محمد بن الصلت قال: حدثنا منصور بن أبي الأسود عن الأعمش قال: ذكر عند إبراهيم المرجئة فقال: والله إنهم أبغض إلي من أهل الكتاب.[الطبقات لابن سعد: 6/ 282 واسنادہ حسن الی الاعمش]۔
یعنی امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے سامنے مرجئہ کاذکر ہوا تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! یہ لوگ میری نظر میں اہل کتاب سے بھی زیادہ مبغوض ہیں ۔
جولوگ امام اعمش کے عنعنہ کو مضر نہیں مانتے انہیں اس روایت پر ایمان لانا چاہئے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مرجئیہ کون لوگ ہیں۔

یہ تو ایک عمومی بات ہوئی لیکن بطور خاص رائے وقیاس کے امام اعظم کو کیا کہا گیا ہے وہ بھی دیکھتے چلیں:

امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى290)نے کہا:
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى النَّسَائِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يُحَدِّثُ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: قَالَ لِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: " اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ يَعْنِي أَبَا حَنِيفَةَ فَاسْأَلْهُ عَنْ عِدَّةِ أُمِّ الْوَلَدِ إِذَا مَاتَ عَنْهَا سَيِّدُهَا، فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: لَيْسَ عَلَيْهَا عِدَّةٌ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى سُفْيَانَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ هَذِهِ فُتْيَا يَهُودِيٍّ "[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 194 واسنادہ صحیح]۔
شعیب بن حرب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ نے کہا: ابوحنیفہ کے پاس جاؤ اوراس سے اس ام الولد کی عدت کے بارے میں سوال کرو جس کا آقا فوت ہوگیا ہو ۔ شعیب بن حرب کہتے ہیں کہ پھر میں ابوحنیفہ کے پاس آیا اورسوال کیا تو ابوحنیفہ نے جواب دیا : اس پر کوئی عدت نہیں ۔ شعیب بن حرب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پھر میں امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کے پاس لوٹا اوران کو یہ بتایا تو انہوں نے کہا: یہ یہودی کا فتوی ہے۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطي حدثنا عبد الله بن محمد بن عثمان المزني بواسط حدثنا طريف بن عبد الله قال سمعت بن أبي شيبة وذكر أبا حنيفة فقال أراه كان يهوديا[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 13/ 413]
طریف بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ امام ابوبکربن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے کہا: میراخیال ہے کہ ابوحنیفہ یہودی تھا۔
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن جو لوگ جرح وتعدیل کے اقوال میں صحت وضعف پر بحث نہیں کرتے انہیں اس قول پر ایمان لانا چاہئے۔
نیزقاضی ابوالعلاء کی مروایات کے انتقاء میں ان کے شاگرد امام خطیب ماہر تھے اور طریف بن عبیداللہ فقط ضعیف ہیں ، کذاب یا متہم بالکذب نہیں اور وہ براہ راست اپنے استاذ سے نقل کرتے ہیں اوروہ بھی ابوحنیفہ سے متعلق تبصرہ اس لئے یہ بات بھولنے والی نہیں ہے ، اس اعتبار سے یہ روایت کسی حدتک معتبر ہوجاتی ہے ۔
علاوہ ازیں امام ابوبکربن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مصنف میں بھی ابوحنیفہ کی خوب حقیقت واضح کی ہے اس سے بھی اشارہ ملتا ہے کہ امام موصوف سے اس طرح کی جرح مستبعد نہیں۔
مزید غور کرنے کے بات یہ ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کے ایک خلاف حدیث فتوی پر ابوحنیفہ کو یہودی کہہ دیا تو امام ابوبکربن ابی شیبہ نے تو ابوحنیفہ کے بہت سارے ایسے فتاوے اپنی کتاب مصنف میں نقل کئے جو حدیث کے خلاف تھے ، اس لئے ان سے بھی اس طرح کا تبصرہ صادر ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا تبصرہ


سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ، وَنَظَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَقَالَ: «أَنْتُمْ سُخْنَةُ عَيْنِي لَوْ أَدْرَكَنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»
2/1028جامع بیان العلم وفضلہ
سفیان بن عیینہ جب اہل حدیث کو دیکھتے تو کہتے تم لوگ میری آنکھوں کی چبھن ہو ۔اگرہم کو اورتم کو حضرت عمررضی اللہ عنہ پالیتے تو تو سخت مارمارتے۔
علم حدیث میں سفیان بن عیینہ ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ وہ اہل حدیث کو آنکھوں کی چبھن سے تعبیر کررہے ہیں آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد محبوب چیز ہوتی ہے جیسے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد الصلوٰۃ قرۃ عینی اورآنکھوں کی چبھن سے ناگوار اورمبغوض چیز کی جانب اشارہ ہوتاہے۔یہاں سفیان بن عیینہ نے اہل حدیث کو آنکھوں کی چبھن قراردیاہے ۔وہی سوال یہاں بھی ہے کہ کیایہ قول اپنے عموم پر ہے یااس کا خاص پس منظر ہے؟اگرخاص پس منظر ہے تویہ خاص پس منظر سفیان بن عیینہ کے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے اقوال کے بارے میں کیوں نہیں ہوسکتاہے؟
یہ تفریق اوردوئی کیوں؟یہ ڈبل اسٹینڈرڈ کس لئے ۔یہ دوہرارویہ کس کی خاطراپنایاجارہاہے کہ سفیان بن عیینہ اہل حدیث کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ خاص پس منظر میں سمجھاجائے اورامام ابوحنیفہ کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ عام اورمطلق قراردیاجائے؟
اولا:
خاص اور عام کی بات بعد میں کیجئے گا پہلے اس تبصرہ کو امام سفیان بن عیینہ سے ثابت تو کیجئے ، تعجب ہے کہ جمشید صاحب یہ بھی بھول گئے کہ اس کی سند میں ایک ایساراوی ہے جس کی ذات کو خود جمشید صاحب نے معرض تنقید بتلایا ہے ، آئیے پورا قول مع سند دیکھتے ہیں:

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، نا مَسْلَمَةُ بْنُ قَاسِمٍ، نا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ، وَنَظَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَقَالَ: «أَنْتُمْ سُخْنَةُ عَيْنِي لَوْ أَدْرَكَنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»[جامع بيان العلم وفضله: 2/ 256]۔

یہ روایت باطل ہے سند میں ’’أحمد بن عيسى الليثي‘‘ ہے ۔

امام ابن العراق الكناني رحمه الله (المتوفى963)نے کہا:
له أحاديث باطلة [تنزيه الشريعة لابن العراق: 1/ 31]۔

امام دارقطنی نے اسے ضعیف کہا ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان کی کتاب سےنقل کیا ہے دیکھئے [لسان الميزان ت أبي غدة 1/ 571]۔

اور اس کے شاگرمسلم بن القاسم پر تو خود جمشید صاحب نے بھی جرح کی ہے دیکھئے لنک۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ضعيف.وقيل: كان من المشبهة.[ميزان الاعتدال للذهبي: 4/ 112]۔

الغرض یہ کہ سفیان بن عیینہ کا مذکورہ قول ثابت ہی نہیں۔

ثانیا:
امام فسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
«حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ : مَا وُلِدَ فِي الْإِسْلَامِ مَوْلُودٌ أَضَرَّ عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ» [المعرفة والتاريخ 2/ 783 واسنادہ صحیح]۔
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اسلام میں کوئی ایساشخص پیداہی نہیں ہوا جو اسلام کے لئے ابوحنیفہ سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو۔
امام ابن عبدالبررحمہ اللہ کا بعض الناس پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ابوحنیفہ پر نظر کرم و نظر رحم کی ہے انہیں امام ابن عبدالبر سے یہ بھی سنتے چلیں آپ نقل کرتے ہیں:

وجرحه أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري فقال في كتابه في الضعفاء والمتروكين أبو حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي قال نعيم ۔۔۔۔قال نعيم عن الفزاري كنت عند سفيان بن عيينة فجاء نعي ابى حنيفة فقال لعنه الله كان يهدم الإسلام عروة عروة وما ولد في الإسلام مولود أشر منه[الضعفاء والمتروكين للبخاری بحوالہ الانتقاء لابن عبد البر: ص: 149 نعیم شیخ البخاری فالاسناد صحیح]۔
نعیم کہتے ہیں کہ امام فزاری نے بیان کیا کہ میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ابوحنیفہ کے مرنے کی خبرآئی ، یہ سن کر امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا: ابوحنیفہ پراللہ کی لعنت ہو یہ رفتہ رفتہ اسلام کو منہدم کررہا تھا اوراسلام میں اس سے زیادہ برا شخص پیداہی نہیں ہوا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
فضیل بن عیاض کا اہل حدیث سے خداکی پناہ چاہنا
" كَانَ الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ إِذَا رَأَى أَصْحَابَ الْحَدِيثِ قَدْ أَقْبَلُوا نَحْوَهُ وَضَعَ يَدَيْهِ فِي صَدْرِهِ وَحَرَّكَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكُمْ "
1/217الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع

فضیل بن عیاض جب اہل حدیث کواپنی جانب آتے ہوئے دیکھتے تواپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیتے ہیں اوراپنے ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے کہتے میں تم سے خداکی پناہ چاہتاہوں۔
فضیل بن عیاض مشہور بزرگ اورتبع تابعی گزرے ہیں۔ حافظ ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں
الإِمَامُ، القُدْوَةُ، الثَّبْتُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، أَبُو عَلِيٍّ التَّمِيْمِيُّ، اليَرْبُوْعِيُّ، الخُرَاسَانِيُّ، المُجَاوِرُ بِحَرَمِ اللهِ.(سیر اعلام النبلاء7/293)
وہ اہل حدیث سے خداکی پناہ چاہتے ہیں حالانکہ خداسے پناہ بری چیزوں سے ہی چاہاجاتاہے۔
اب ہماراجماعت اہل حدیث سے سوال یہ ہے کہ کیایہ قول حقیقت پر محمول ہے۔اگرحقیقت پر محمول ہے توفبہاونعم اوراگرنہیں توکیوں اورجس وجہ سے یہ قول حقیقت پر محمول نہیں ہے کیاانہی وجوہات سے اہل الرائے کی مذمت میں محدثین کے جوکچھ اقوال ہیں ان کو اسی خانہ میں نہیں رکھاجاسکتاجس خانہ میں فضیل بن عیاض کااہل حدیث کے سلسلے میں یہ قول رکھاجاتاہے ؟

جناب جمشیدصاحب !
امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کی بزرگی بیان کرنے سے پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ ان کے حوالے سے جوکچھ نقل کررہے ہیں وہ ثابت بھی ہے یا نہیں ۔
ملاحظہ ہو آپ کا نقل کردہ قول مع سند:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ الْحَسَنِ الشَّاهِدُ بِالْبَصْرَةِ، نا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ الْمَادَرَائِيُّ، نا التِّرْمِذِيُّ، يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ نا سُوَيْدٌ، قَالَ: " كَانَ الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ إِذَا رَأَى أَصْحَابَ الْحَدِيثِ قَدْ أَقْبَلُوا نَحْوَهُ وَضَعَ يَدَيْهِ فِي صَدْرِهِ وَحَرَّكَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكُمْ "[الجامع لأخلاق الراوي 1/ 217]۔

یہ روایت مردود ہے سند میں ’’سويد بن سعيد الحدثاني‘‘ ہے یہ ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی ہے اور اس نے یہاں پر سماع یا رویت کی صراحت نہیں کی ہے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے چوتھے طبقہ کا مدلس بتلایا ہے اور اس طبقہ کی غیرمصرح بالسماع مرویات بالاتفاق مردود ہوتی ہیں ، چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
سويد بن سعيد الحدثاني موصوف بالتدليس وصفه به الدارقطني والإسماعيلي وغيرهما وقد تغير في آخر عمره بسبب العمى فضعف بسبب ذلك وكان سماع مسلم منه قبل ذلك في صحته[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 70]۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اہل حدیث اورسرقہ
ایک توشاعری میں سرقہ ہوتاہے شاعر دوسرے کو شعرکو اپنابناکر پڑھ دیتاہے۔ اسی طرح حدیث میں بھی سند اورمتن کا سرقہ ہوتاہے ۔لیکن اس وقت موضوع فنی سرقہ نہیں بلکہ مالی سرقہ ہے۔ امام اعمش کا اہل حدیث حضرات کے بارے میں یہ خیال اوررائے تھاکہ اگراہل حدیثوں کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ دروازے میں لگے لوہے کی کڑیاں تک چرالےجائیں۔
الْأَعْمَشَ، يَقُولُ:: «لَوْ خَلَا هَذَا الْبَابُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَسَرَقُوا حَدِيدَهُ» [ص:132]شرف اصحاب الحدیث
امام اعمش کہتے ہیں اگریہ دروازہ اہل حدیث کیلئے کھول دیاجائے (کوئی نگرانی وغیرہ نہ ہو)تووہ اس کے کڑیاں بھی چراکر لے جائیں گے۔
اسی طرح کاایک واقعہ ایک دوسرے محدث کے بھی ساتھ پیش آیاتھا جس کے بعد سے وہ اہل حدیثوں پر خصوصی نگرانی کرنے لگے۔
سرق اصحاب الحدیث نعل ابی زید فکان اذاجائ اصحاب الشعرائ والعربیۃ والاخبار رمی بثیابہ ولم یتفقدھا واذاجائ اصحاب الحدیث جمعھا وجعلھابین یدیہ
(تاریخ بغداد9/79)
اہلحدیثوں نے ابوزید کا جوتاچرالیاتو اس کے بعد جب شعراء وغیرہ،ماہرین لغت،اخباری وغیرہ آتے توان کے کپڑے ادھر ادھر بکھرے رہتے اوراس کی جانب دھیان نہ دیتے لیکن جہاں اہل حدیث آتے تو اپنے تمام کپڑے اپنے آگے رکھ لیتے۔
امام اعمش کا تویہ خیال تھا اورابوزید کے ساتھ ایساواقعہ بھی ہوگیا جس کے بعد ہی وہ محتاط ہوگئے۔

کیاخیال ہے کہ ان واقعات سے عموم ثابت ہوتاہےکہ تمام اہل حدیث چور ہیں یامحض بعض افراد کی حرکت کی بناء پر اپنی رائے کااظہار اوراحتیاطی طریقہ کار اپناناہے۔ پوری جماعت کو مورد الزام بنانانہیں ہے۔ اگریہی بات ہے تومحدثین کے اہل الرائے کے بارے میں ذاتی آراء کو عمومی نوعیت دے کر کیوں پیش کیاجاتاہے۔یہ کیوں نہیں تسلیم کرلیاجاتاکہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے اورہوسکتاہے جس کے اپنے اسباب اوروجوہات ہوں لیکن یہ پوری جماعت اہل الرائے پر اس کا طلاق درست نہیں۔
اگراب بھی کچھ لوگ اہل الرائے کے بارے میں محدثین کے ذاتی آراء کو عمومی نوعیت دینے کی شوقین ہیں توہمیں ان سے کوئی شکوہ نہیں ہے البتہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم امام اعمش کے ہم خیال ہوجائیں ۔
جو کچھ آپ نے نقل کیا سب مردود ہے اس میں سے کچھ بھی ثابت نہیں تفصیل ملاحظہ ہو:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ رِزْقٍ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الدَّقَّاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بِشْرِ بْنُ سَلِيطٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ دَاوُدَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ، يَقُولُ:: «لَوْ خَلَا هَذَا الْبَابُ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ لَسَرَقُوا حَدِيدَهُ» [شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 131]۔

یہ روایت مردود ہے ۔
سند میں عبد الملك بن محمد ہے ، یہ مختلف فیہ راوی ہے لیکن راجح قول میں یہ ضعیف ہے ۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
صدوق كثير الخطأ في الأسانيد والمتون لا يحتج بما ينفرد به[سؤالات الحاكم للدارقطني: ص: 131]۔

نیز ابوبشر بن سلیط کاترجمہ میں تلاش نہیں کرسکا۔


خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرني أحمد بن محمد الوزان، قال: حدثني جدي، قال: حدثنا محمد بن يحيى النديم، قال: حدثنا أبو ذكوان، يعني القاسم بن إسماعيل، قال: حدثنا التوجي قال سرق أصحاب الحديث نعل أبي زيد فكان إذا جاء أصحاب الشعر والعربية والأخبار رمى بثيابه ولم يتفقدها وإذا جاء أصحاب الحديث جمعها كلها وجعلها بين يديه وقال ضم يا ضمام واحذر لا تنام.[تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي: 10/ 111]۔


یہ سند پرتاریک ہے ، خطیب بغدادی کے شیخ سے اوپر کسی ایک بھی راوی کی توثیق نہیں ملتی چنانچہ:
أحمد بن محمد الوزان کے جد امجد کی توثیق کہیں نہیں ملتی ۔
محمدبن یحیی ابن الندیم بھی نامعلوم التوثیق ہیں۔
ابوذکوان کو بھی کسی نے ثقہ نہیں کہا۔
اور ان کی ماں کے دوسرے شوہر ’’توجی‘‘ کی ثقاہت کا بھی کچھ پتہ نہیں اور یہی شخص اس روایت کا بنیادی راوی ہے۔
لہٰذا یہ روایت مردود ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اہل حدیث کے اخلاق
عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ أَعْجَبَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، يَأْتُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُدْعَوْا، وَيَزُورُونَ مِنْ غَيْرِ شَوْقٍ، وَيُمَلُّونَ بِالْمُجَالَسَةِ، وَيُبْرَمُونَ بِطُولِ الْمُسَاءَلَةِ»(1/217الجامع لاخلاق الراوی واداب السامع)
ابوالزاہریہ کہتے ہیں"میں نے اہل حدیث سے زیادہ عجیب لوگ نہیں دیکھے۔بغیر بلائے پہنچ جاتے ہیں اوربغیر کسی اشتیاق کے زیارت کرتے ہیں اوراپنی ہم نشینی سے صاحب مجلس کو ملول کردیتے ہیں زیادہ پوچھ پوچھ کر بیزار کردیتے ہیں۔
یہ اہل حدیث کے چار نمایاں اوصاف بیان کئے ہیں۔(1)بغیر بلائے پہنچنا۔(2)بغیر کسی اشتیاق کے زیارت کرنا۔(3)اپنی ہم نشینی سے تھکانا۔(4)اتناپوچھناکہ جواب دینے والابیزارہوجائے۔
اول دوکوتو کسی حد تک نظرانداز کیاجاسکتاہے لیکن آخری دو کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔اپنی ہم نشینی سے لوگوں کو تھکادیتے ہیں اورپوچھ پوچھ کر بیزار کردیتے ہیں۔
ویسے آج کل خود اہل حدیث حضرات کی زبانی ان کی پانچویں نمایاں صفت بھی سننے اورپڑھنے میں آرہی ہے کہ اوروہ یہ ہے کہ
(5)اہل حدیث ہمیشہ اختلافی مباحث پر معرکہ برپاکئے رہتے ہیں اورجب ان کو ان مسائل پر لڑنے کیلئے دوسرے مسالک کے لوگ نہیں ملتے توآپس میں ہی شروع ہوجاتے ہیں ۔
مثل مشہور ہے کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیر تھا توجس کو جوطبعیت ،سرشت اورطینت ہے اس کا اظہار توکسی نہ کسی شکل میں ہوگاہی۔ اگرچہ وقتی طورپر اس پر کسی اعتبار سے پردہ ڈال دیاجائے۔لیکن جوں ہی نقاب سرکے گا۔ اصل حقیقت وصورت نمایاں نظرآئے گی۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنِي أَبُو الْحُسَيْنِ عَلِيُّ بْنُ حَمْزَةَ بْنِ أَحْمَدَ الْمُؤَذِّنُ فِي جَامِعِ الْبَصْرَةِ، نا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ الدَّقَّاقُ، بِالْأَهْوَازِ، نا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، نا رَجَاءُ بْنُ سَلَمَةَ، نا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ أَعْجَبَ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، يَأْتُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُدْعَوْا، وَيَزُورُونَ مِنْ غَيْرِ شَوْقٍ، وَيُمَلُّونَ بِالْمُجَالَسَةِ، وَيُبْرَمُونَ بِطُولِ الْمُسَاءَلَةِ» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَالْإِضْجَارُ يُغَيِّرُ الْأَفْهَامِ، وَيُفْسِدُ الْأَخْلَاقَ، وَيُحِيلُ الطِّبَاعَ[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 217]۔

یہ روایت بھی مردود ہے ۔

رجاء بن سلمہ کو کسی نے ثقہ نہیں کہا بلکہ :

امام ابن الجوزی کی کتاب سے نقل کرتے ہوئے حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قال ابن الجوزي في "الموضوعات": اتهم بسرقة الأحاديث[لسان الميزان ت أبي غدة 3/ 465]۔

نیز عمر بن أحمد بن إسحاق الدقاق کی بھی کوئی توثیق نہیں ملتی۔
اس کے علاوہ اور بھی سند میں علتیں ہیں۔

اورباقی سند بھی محل نظر ہے۔

الغرض یہ کہ یہ روایت ثابت نہیں۔

جاری ہے ۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اہل حدیثوں نے علم کے نورکوختم کردیا
نَظَرَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ وَزِحَامِهِمْ، فَقَالَ: «شِنْتُمُ الْعِلْمَ وَذَهَبْتُمْ بِنُورِهِ. وَلَوْ أَدْرَكْنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»
شرف اصحاب الحدیث122
عبیداللہ بن عمر نے اہل حدیثوں کی بھیڑ کی جانب دیکھااورفرمایاتم نے علم کے ٹکرے ٹکرے کردیئے اورعلم کی رونق گھٹادی اگرہم کو اورتم کو عمر بن خطاب پالیتے تو سخت مارمارتے۔
یہ واضح رہے کہ ا س زمانہ میں علم سے مراد قرآن وحدیث اورفقہ کا علم مراد ہواکرتاتھاتوعبیداللہ بن عمر کی یہ بات بتارہی ہے کہ اہل حدیث نے قرآن وحدیث اورفقہ کے علم کوپارہ پارہ کردیاتھااوراس کی رونق اورنور ختم کردی تھی ۔
اہلحدیث حضرا ت کے اصول کے مطابق عبیداللہ بن عمر کا یہ بیان مطلق اورعام ہوناچاہئے ۔کیونکہ نفس عبارت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے اس کو کسی خاص حالت اورتناظر میں سمجھنے کی قید ہو۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ رِزْقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيِّ بْنُ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ أَحْمَدَ الْوَشَّاءُ، حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: نَظَرَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيثِ وَزِحَامِهِمْ، فَقَالَ: «شِنْتُمُ الْعِلْمَ وَذَهَبْتُمْ بِنُورِهِ. وَلَوْ أَدْرَكْنَا وَإِيَّاكُمْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَأَوْجَعَنَا ضَرْبًا»[شرف أصحاب الحديث للخطيب البغدادي ص: 122]۔

اولا:

آپ نے جن ’’عبیداللہ بن عمر‘‘ کا قول نقل کیا ہے اول تو وہ خود اس قابل نہیں کہ ان کی بات سنی جائے ، موصوف کے بارے میں محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں:

امام يحيى بن سعيد رحمه الله (المتوفى 198)نے کہا:
ضَعِيفٌ [الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 280 واسنادہ صحیح]۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ضَعِيف[العلل ومعرفة الرجال لأحمد 2/ 605 واسنادہ صحیح]۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
هُوَ يَزِيدُ فِي الْأَسَانِيدِ [الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 280 واسنادہ صحیح والخضر بن داود عندی ثقہ]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
ليس بالقوي [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 61]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كَانَ مِمَّن غلب عَلَيْهِ الصّلاح وَالْعِبَادَة حَتَّى غفل عَن ضبط الْأَخْبَار وجودة الْحِفْظ للآثار فَرفع الْمَنَاكِير فِي رِوَايَته فَلَمَّا فحش خَطؤُهُ اسْتحق التّرْك[المجروحين لابن حبان 2/ 7]۔

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
لم يذكر إلا بسوء الحفظ فقط [المستدرك للحاكم: 3/ 645]۔

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
الْعُمَرِيُّ غَيْرُ مُحْتَجٍّ بِهِ[معرفة السنن والآثار للبيهقي: 9/ 253]۔

امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
عبد الله بن عمر بن حفص ضعيف[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 199]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ضعيف عابد[تقريب التهذيب لابن حجر: 1/ 229]۔

تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)نے کہا:
ضعيف يعتبر به في المتابعات والشواهد[تحرير التقريب:رقم1844]۔

موصوف کے بارے میں مزید جرح کے لئے عام کتب رجال ملاحظہ ہو۔


ثانیا:
دوم خود عبیداللہ بن عمر سے بھی یہ تبصرہ ثابت نہیں کیونکہ:


سند میں موجود ’’عباس بن أحمد الوشاء‘‘ کی توثیق کسی امام سے ثابت نہیں بعض نے صرف اس کی دینداری بیان کی ہے ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اپنے ہی بھائیوں پر ہاتھ صاف کردینا
حجاج بن نصير الفساطيطي3: وكان معروفًا بالحديث، لكن أفسده أهل الحديث بالتلقين، كان يُلقن وأدخل في حديثه ما ليس منه، فتُرك.(الثقات للعجلی1/109
حجاج بن نصیر الفساطیطی حدیث میں معروف تھے لیکن ان کو اہل حدیث نے تلقین کے ذریعہ بگاڑدیا۔ان کو تلقین کی جاتی اوران کی حدیث میں وہ بات داخل کردی جاتی جو کہ پہلے سے نہ ہوتی تھی اس وجہ سے ان کو ترک کردیاگیا۔
یہ امام عجلی جوخود مشہور محدث اورجرح وتعدیل کے امام ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ حجاج بن نصیر کو بگاڑنے والے ان کے اپنے بھائی اہل حدیث حضرات ہی تھے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون !
کچھ تو شرم کریں !
بات جرح وتعدیل کی ہورہی ہے اور اسے کہاں لاکر چسپاں کیا جارہا ہے ، اسی لئے ہم کہتے ہیں الٹار چور کوتوال کو ڈانٹے ۔
اگریہی معیار ہے تب اب ہم بھی کہہ سکتے ہیں ابوحنیفہ کے شاگرد ابن المبارک رحمہ اللہ نے اپنے استاذ کی بولتی بند کردی رفع الیدین کے مسئلہ میں ۔
صرف یہی نہیں بلکہ اس بے چارے استاذ سے متعلق ساری دنیا کو بتادیا کہ ہمارے یہ استاذ حدیث میں مسکین ہیں یعنی اپنے استاذ ہی پر ہاتھ صاف کردیا ، فقہ کے لحاظ سے بھی اور فن حدیث کے لحاظ سے بھی۔
اوراستاذ بھی کسی سے کم نہیں موصوف نے اپنے شاگردوں ہی کو کذاب ثابت کردیا ، بلکہ یہاں تک شہادت دے دی کہ میں نے زندگی میں ان سے بڑا کذاب دیکھا ہی نہیں ۔
اورشاگردوں نے آپس میں بھی ایک دوسرے کو نہیں بخشا ، ہم صرف اشارہ پر اکتفا کرتے ہیں لیکن اگرخواہش ظاہرکی گئی توتفاصیل بھی حاضر کردیں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام مسعررحمہ اللہ کی بدعا کا اثر


اہل حدیث بننامسعربن کدام کی بددعا کااثر
اہل حدیث حضرات ایک عمومی وصف یہ بھی ہے کہ وہ محدث سے بھی اہل حدیث کا ترجمہ کشید کرلیتے ہیں لہذا مسعربن کدام کی یہ عبارت دیکھئے اورغوروفکر کیجئے۔
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ، نا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ، نا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مِسْعَرًا، يَقُولُ: «مَنْ أَبْغَضَنِي جَعَلَهُ اللَّهُ مُحَدِّثًا
2/1027
جومجھ سے دشمنی رکھتاہو اللہ اس کو اہل حدیث بنادے۔
یعنی اللہ کسی کو اہل حدیث اس لئے نہ بنادے کہ اہل حدیث بننااچھی چیز ہے بلکہ اس لئے بنادے کہ پھر اس کے بعد زندگی بھراس مصیبت کو برداشت کرتارہے۔اورمجھ سے بغض رکھنے کی سزاپاتارہے۔ اب یہ سمجھنامشکل ہے کہ دورحاضر کے اہل حدیث امام مسعربن کدام سے بغض رکھنے کی پاداش میں اہل حدیث بنادیئے گئے ہیں یاپھرکچھ اورماجراہے۔
اولا:
میرے سامنے آج تک ایک بھی مثال نہیں کہ اہل حدیثوں نے لفظ ’’محدث ‘‘ سے جماعت اہل حدیث کا ترجمہ کشید کیا ، معلوم نہیں جمشید صاحب کن کی بات کررے ہیں !

ثانیا :
یہ قول طلبائے حدیث سے متعلق ہے جیساکہ قول کے اخیر میں بالکل صراحت ہے ، اسی لئے جمشید صاحب نے چالاکی کرتے ہوئے قول کے آخری حصہ کو غائب کردیا ، لیجئے ہم یہ قول مکمل نقل کرتے ہیں:
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463):
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ، نا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ، نا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مِسْعَرًا، يَقُولُ: «مَنْ أَبْغَضَنِي جَعَلَهُ اللَّهُ مُحَدِّثًا، وَوَدِدْتُ أَنَّ هَذَا الْعِلْمَ كَانَ حِمْلَ قَوَارِيرَ حَمَلْتُهُ عَلَى رَأْسِي فَوَقَعَ فَتَكَسَّرَ فَاسْتَرَحْتُ مِنْ طُلَّابِهِ»[جامع بيان العلم وفضله: 2/ 255]


ثالثا:

یہ قول ثابت نہیں سند میں ’’ علي بن سعيد بن بشير الرازي‘‘ ہیں کما مضی، اور یہ ضعیف ہیں۔

انہیں مسلمہ بن القاسم نے ثقہ کہا ہے لیکن گذشتہ سطور میں بتایا جاسکتاہے خود جمشید صاحب نے بھی مسلمہ کی ذات کو معرض تنقید بتلایا ہے ۔
مسلمہ بن القاسم کے برعکس متعدد ناقدین نے ان پر جرح کی ہے ، چنانچہ:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن یونس المصری کی کتاب سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وقال ابن يونس في تاريخه: تكلموا فيه [لسان الميزان ت أبي غدة 5/ 543]۔

حمزة السھمی امام دارقطنی (المتوفى385) سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وسألت الدارقطني عن عليك الرازي فقال ليس في حديثه كذاك فإنما سمعت بمصر أنه كان والي قرية وكان يطالبهم بالخراج فما كانوا يعطونه قال فجمع الخنازير في المسجد فقلت له إنما أسأل كيف هو في الحديث فقال قد حدث بأحاديث لم يتابع عليها ثم قال في نفس منه وقد تكلم فيه أصحابنا بمصر وأشار بيده وقال هو كذا وكذا كأنه ليس هو بثقة [سؤالات حمزة للدارقطني: ص: 244]۔

یادرہے کہ یہاں پر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے جرح مفسر کی ہے اور ان کی سیاسی حالت سے ہٹ کر بات کی ہے اس لئے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ سیاسی سرگرمی کی وجہ سے امام دارقطنی نے ان پر جرح کردی جیساکہ بعض اہل علم نے کہا ہے۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
علي بن سعيد بن بشير الرازي قال الدارقطني ليس بذاك تفرد بأشياء[المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 83 وانظر: ذيل ديوان الضعفاء ص: 49]۔


الغرض یہ کہ یہ راوی ضعیف ہے اس لئے اس کی یہ روایت غیرمقبول ہے ۔

رابعا:
امام مسعر سے صرف یہی منقول نہیں ہے کہ محدث بننا ان کی بددعاء کے اثر ہے بلکہ ان سے یہ بھی منقول ہے مفتی بننا بھی ان کی بددعاء کا اثر ہے چنانچہ:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے :
أنا الْقَاضِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْحِيرِيُّ، نا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ، نا الْخَضِرُ بْنُ أَبَانَ الْهَاشِمِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مِسْعَرًا، - أَوْ حَدَّثَنِي بَعْضُ، أَصْحَابِنَا عَنْهُ - قَالَ: «مَنْ أَرَادَ بِيَ السُّوءَ فَجَعَلَهُ اللَّهُ مُفْتِيًا أَوْ مُحَدِّثًا»[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي 1/ 222 رجالہ ثقات غیر الخضربن ابان وھو ضعیف]۔
یعنی امام مسعررحمہ اللہ نے کہا کہ جو میرے ساتھ برا ارادہ رکھے ، اللہ اسے مفتی یا محدث بنادے ۔
قارئیں غورکریں اس قول میں امام مسعر رحمہ اللہ نے اپنی بدعاء میں پہلے مفتی ہی کا ذکر کیا اورمحدث کو بعد میں رکھا ہے ۔
اب کیا خیال ہے ؟
میرے خیال سے اس بددعا کا سب سے زیادہ اثر بر صغیر کے دیوبندیوں پر ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ ایک طرف خود کو مقلد بھی کہتے ہیں اور دوسری طرف مفتی کا کورس بھی پڑھاتے پھرتے ہیں اور ہرسال ان کے یہاں سے مفتیوں کی اچھی خاصی کھیپ نکلتی ہے ، میرے خیال سے امام مسعر کی بدعا سب سے زیادہ انہیں بدنصیبوں کولگی ہے۔ (ابتسامہ)

جاری ہے۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722

امام شافعی کو اہلحدیثوں سے تکلیف
امام شافعی کااہل حدیث حضرات پر بڑااحسان ہے کہ انہوں نے ان کو اصول استنباط واستدلال بتایااورحدیث کے اصول وضوابط سے آگاہی بخشی اس خدمت کے صلے میں ان کو ناصرالحدیث کا بھی خطاب دیاگیالیکن اپنے اس محسن کوبھی انہون نے نہیں چھوڑااورتکلیف پہنچاکر ہی دم لیا۔
سَمِعْتُ الرَّبِيعَ بْنَ سُلَيْمَانَ , يَقُولُ: أَلَحَّ عَلَى الشَّافِعِيِّ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَآذَوْهُ (الفقیہ والمتفقہ 2/320)
ربیع بن سلیمان کہتے ہیں امام شافعی سے اہل حدیث کی ایک جماعت نے اصرار کیاحتی کہ ان کوتکلیف پہنچادی۔
امام شافعی کے سلسلہ میں احناف کو کوساجاتاہے اورکہاجاتاہے کہ فلاں حنفی فقیہہ نے ایساکہہ دیا ویساکہہ دیا ۔کبھی اپنی جانب بھی نگاہ گئی کہ خود انہوں نے کیاکیاہے۔کسی کے صدیوں بعد کوسنے کا اثر امام شافعی تک نہیں پہنچتا لیکن ان کے حین حیات جنہوں نے تکلیف دی وہ کون تھے۔اہل حدیث تھے یاکوئی اورتھے۔مشہور اہل حدیث اشہب سجدے میں دعامانگتے تھے کہ اے اللہ شافعی کو دنیاسے اٹھالے ۔ورنہ امام مالک کا علم مٹ جائے گا۔یہ اشہب کون تھے؟ذرااہل حدیث حضرات ہی ہمیں جواب دیں؟

اگراہل حدیث حضرات کہیں کہ وہ مالکی تھے تودورحاضر کے بالخصوص برصغیر ہندوپاک کے اہل حدیثوں کااعتراف ہے کہ صرف حنفیہ اہل الرائے ہیں بقیہ مالکیہ،شافعیہ ،حنابلہ اہل حدیث ہیں لہذا اس اعتبار سے بھی اشہب اہل حدیث ہی ہوتے ہیں۔
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنا أَبُو الْقَاسِمِ: رِضْوَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الدِّينَوَرِيُّ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَنَزِيِّ , بِالرَّيِّ , يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ الْحُسَيْنِ الشُّرُوطِيُّ , يَقُولُ: سَمِعْتُ الرَّبِيعَ بْنَ سُلَيْمَانَ , يَقُولُ: أَلَحَّ عَلَى الشَّافِعِيِّ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فَآذَوْهُ , فَقَالَ: " لَا تُكَلِّفُونِي أَنْ أَقُولَ لَكُمْ مَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ لِرَجُلٍ أَلَحَّ عَلَيْهِ: إِنَّكَ إِنْ كَلَّفْتَنِي مَا لَمْ أُطِقْ ... سَاءَكَ مَا سَرَّكَ مِنِّي مِنْ خُلُقِ"[الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي 2/ 320]۔

اولا:
یہ روایت ثابت ہی نہیں امام خطیب سے اوپر مسلسل تین رواۃ کی توثیق نا معلوم ہے ہمیں کسی بھی کتاب میں ان حضرات کی توثیق نہیں ملی۔

ثانیا:
اہل حدیث الحمدللہ امام شافعی رحمہ اللہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان کی شان میں کسی بھی طرح کے نازیبا کلمات کے استعمال کو گناہ کبیرہ جانتے ہیں ۔
اہل حدیث پر بے شک امام شافعی رحمہ اللہ کے بہت سے احسانات ہیں اوریقنا وہ ناصر الحدیث تھے ، کوئی بھی اہل حدیث شخص امام شافعی رحمہ اللہ کو اذیت نہیں دے سکتا بلکہ اہل حدیث کے لئے اس بات کا تصور ہی سخت اذیتناک ہے اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کے درجات بلندفرمائے ، آمین ۔

اہل حدیث کے برعکس احناف ہی ہمیشہ امام شافعی رحمہ اللہ کو اذیت دینے کے درپے رہے ہیں ، بلکہ انہیں میں سے کسی بدبخت نے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے ایک حدیث بھی گڑھ لی جس میں ابوحنیفہ کی فضیلت کے ساتھ ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ کی شان میں سخت گستاخی تھی ، محدثین نے اس حدیث کو موضوعات داخل کیا ہے۔



جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے دور میں کوفہ کے علم وعمل کاحال


حافظ ذہبی کے دور میں اہل حدیث کا حال
حافظ ذہبی اہل حدیث حضرات کے بہت طرفدار ہیں۔ اوران کی تمام کتابیں اس پر شاہد عدل ہیں۔ اس کے باوجود اپنے زمانہ کے اہل حدیث حضرات کا انہوں نے جومختلف عنوان سے شکوہ کیاہے اس کودیکھتے چلئے۔
ُقلْتُ: كَذَا كَانَ وَاللهِ أَهْلُ الحَدِيْثِ العِلْمَ وَالعِبَادَةَ وَاليَوْمَ فَلاَ عِلْمَ، وَلاَ عِبَادَةَ بَلْ تَخْبِيْطٌ وَلَحنٌ، وَتَصْحِيْفٌ كَثِيْرٌ وَحِفْظٌ يَسِيْرٌ، وَإِذَا لَمْ يَرْتَكِبِ العَظَائِمَ، وَلاَ يُخِلَّ بِالفَرَائِضِ فَلِلَّهِ دَرُّهُ.
سیر اعلام النبلاء 8/299
متقدمین اہل حدیث علم اورعبادت سے متصف تھے اورآج کے اہل حدیث تونہ ان کے پاس علم ہے اورنہ ہی وہ عبادت گزار ہیں بلکہ تخبیط،لحن اوربہت زیادہ تصحیف اورتھوڑے سے حفظ متصف ہیں۔ اوراس کے ساتھ اگر وہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب نہ ہوں اورفرائض ہی اداکرلیں تو کیاکہنا۔
اس کے علاوہ مزید مقامات پر حافظ ذہبی نےاپنے زمانہ کے اہل حدیثوں کا رونارویاہے اوران کے قلت علم وحفظ اورعدم تفقہ کا شکوہ کیاہے۔ جہاں ایک اہلحدیث کے عدم تفقہ کی بات ہے تواس کا شکوہ اہل حدیث کے سب سے بڑے مدافع اورگن گان گانے والے خطیب نے بھی نصیحۃ اہل الحدیث اورالفقیہ والمتفقہ میں کیاہے۔ ان تمام نصوص کا ذکرکرناتطویل کاموجب ہوگا۔ اس لئے محض اشارات پر اکتفاء کررہاہوں۔ اس کے باوجود لوگوں کو یہی خوش فہمی رہتی ہے کہ جوجتنابڑامحدث وہ اتناہی بڑافقیہہ بھی ہو۔
یہ حافظ ذہبی نے اپنے زمانہ کے اہل حدیث کا رونارویاہے اسی سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آج کے اہل حدیث کیسے ہوں گے۔اورشب وروز کی آمدورفت اورگردش لیل ونہار کے ساتھ مزید کتنی پستیوں میں اترچکے ہوں گے۔
اولا:
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اہل حدیث کی جس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ہرگروہ کا معاملہ ہے ۔
ہم تو اب تک یہی جانتے ہیں کہ ہرگروہ اپنے آپ کو اپنے اسلاف سے علم وعمل میں کم تر ہی سمجھتاہے اور اور موجودہ لوگوں کی تربیت کی خاطر اسلاف کے پختہ علم وعمل کا حوالہ دیتا رہتاہے ۔

دراصل یہ طرزفکر ہرگروہ کی تو ہے لیکن جمشدصاحب کے گروہ کا معاملہ ذرا الگ ہے یہ لوگ اپنے اسلاف سے بھی علم وعمل میں آگے ہیں ماشاء اللہ ۔
آئیے لگے ہاتھوں علم وعمل میں سے ہر ایک کی مثال بھی دیکھتے چلیں۔
اسی طرح ایک اورمثال دیکھیں کہ امام اعظم نے ابن المبارک کو رفع الیدین پر ٹوکا تو ابن المبارک نے ان کو ایسا کرا را جواب دیا کہ امام اعظم اپنی عظمت کوستے رہے ۔
لیکن آج ان کے مقلدین ان سے آگے بڑھ گئے اور بجائے اس کے کہ اپنے امام صاحب کی تقلید میں خاموش ہوجائیں ہو ، بحث ومباحثہ کے لئے چیلنج کرتے رہتے ہیں۔
یہ توعلم کے اعتبار سے اس گروہ کے متاخرین کی ترقی کا عالم تھا ۔
جہاں تک عمل کا معاملہ ہو تو اللہ کی پناہ !
ایسا عمل کہ کوئی تصور نہیں کرسکتا،حتی کہ اس گروہ کے متاخرین نہ صرف یہ کہ اپنے اسلاف سے بڑھ گئے بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری بھی کرلی بلکہ بعض حالات میں نعوذ باللہ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آگے بڑھ گئے۔ (اس مفہوم کی بات غالبا قاسم نانوتوی یا کسی دیوبندی عالم ہی نے کہی ہے اس وقت اصل کتاب میرے پاس موجود نہیں کسی بھائی کے پاس ہو تو اس موضوع میں پیش کردے)

جس گروہ کے یہاں آئے دن علم وعمل کی مضبوطی کی یہ رفتار ہو بھلا ہم ان کا کیا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔
اللہ ہماری لغزشوں کو معاف کرے ۔

ثانیا:
احناف بڑے فخر سے اپنی سند کوفہ اور کوفہ سے گذرکر عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ تک پہنچاتے ہیں ۔
آئیں دیکھتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے دور کے کوفیوں کی حالت زار کیا نقشہ کھینچا ہے ۔
مسنددارمی کی حسن روایت ہے کہ کوفہ کی مسجد میں کچھ لوگ بدعت ایجاد کرکے اس پرعمل کرنے لگے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو آپ وہاں آئے اور کہا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔«مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ؟» قَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حصًا نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ. قَالَ: «فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ، فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ». قَالُوا: وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ. قَالَ: «وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ» قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ "، وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ، ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ. فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ: رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ[سنن الدارمي 1/ 287 واسنادہ حسن]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ تم لوگ کیا کررہے ہو ؟ انہوں نے جواب دے اے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ! کچھ کنکریاں ہیں جن کے ذریعہ گن کر ہم ہم اللہ اکبر ، لاالہ الا اللہ اور سبحان اللہ پڑھ رہے ہیں۔ یہ سن کرعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا: پھر تم اپنے گناہوں کو شمار کرو ، میں ضمانت دیتاہوں کہ ایساکرنے سے تمہاری نیکیاں ضائع نہ ہوں گی ، تم پر افسوس اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم پر ہلاکت کتنی جلد آگئی ، یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ وافرمقدار میں موجود ہیں ، اور یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ہیں جو ابھی تک بوسیدہ نہیں ہوئے ، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن ہیں جو ابھی تک نہیں ٹوٹے ۔ اللہ کی قسم یا تو تم ایسی جماعت بن گئے جو جماعت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا تم گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو ۔ ان لوگوں نے کہا : اللہ قسم ! اے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہمارا ارادہ صرف خیر ہی کا ہے ۔ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنے خیر کا ارادہ کرنے والے ہیں جو خیر ہر گز نہیں پاسکتے ، بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیاکہ:’’ ایک قوم ایسی آئے گی جو قران پڑھے گی لیکن یہ ان کے حلق سے نہ اترے گا ‘‘ اور اللہ کی قسم کیا پتہ تم میں سے اکثریت انہیں کی ہو ، یہ کہہ کر عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے ۔ عمروبن سلمہ کہتے ہیں کہ ان حلقوں میں موجود لوگوں کی اکثرت کو ہم نے دیکھا وہ نہروان کے دن خوارج کے ساتھ ہمارے خلاف برسرپیکار تھے ۔
کیا خیال ہے جب عہدابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دور میں اہل کوفہ کے علم وعمل کا یہ حال تو آج انہیں کی طرف منسوب لوگوں کے علم وعمل کا کیاحال ہوگا؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 
Top