• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث کا منہج اور احناف سے اختلاف کی حقیقت و نوعیت

ج انصاری

مبتدی
شمولیت
دسمبر 11، 2011
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
194
پوائنٹ
16

آج مطالہ کی میز پر اہل حدیث کا منہج اور احناف سے اختلاف کی حقیقت ونوعیت ہےکتا ب کے مؤلف برصغیر کے نامور اور سنجیدہ عالم دین حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ہیں ، یہ کتاب در اصل مختلف مضامین کا مجموعہ ہے ۔
بر صغیر کا مذہبی منظر نامہ کچھ ایسا ہے کہ اختلافی مسائل پر ڈھنگ کی اور معروضی انداز کی کوئی کتاب مشکل سے ملے گی ، زیر نظر کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں اختلاف فکر ونظر اور مسائل کے اخذ و استدلال کے فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ اختلاف کی اصل بنیا د کیا ہے، اختلاف اور مخالفت میں کیا فرق ہے، نیت میں خیر ہو اور فہم دین کا مصدر صحیح ہو تو اختلاف فکرو نظر کا واقع ہو نا معیوب نہیں یہ کتاب مسلکی منافرت اور علمی تعصب
کو کم کر نے اور مسئلہ کی واقعی نوعیت اور اصل حقیقت تک پہونچانے میں کہاں تک کامیاب ہےیہ قارئین مطالعہ کے بعد ہی فیصلہ کر سکتےہیں ۔ پڑھئے اور معلومات میں اضافہ کیجئے ۔ صفحات کی تعداد ٢٨٨ ہے ۔ہندوسان میں یہ کتاب
مکتبہ الفہیم نے شائع کر کے ایک نعمت فراہم کردی ہے ۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سے اللہ تعالیٰ اسی طرح کا مفید کام لیتا رہے ۔ آمین
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اہل حدیث کا منہج اور احناف سے اختلاف کی حقیقت و نوعیت
تالیف: حافظ صلاح الدین یوسف﷾
صفحات: 287... ناشر:اُمّ القریٰ پبلی کیشنز، سیالکوٹ روڈ، فتومند، گوجرانوالہ
تبصرہ:حافظ طاہراسلام عسکری
حافظ صلاح الدین یوسف﷾ کی ہستیِ گرامی دنیاے علم و تحقیق میں عموماً اور جماعت اہل حدیث میں خصوصاً چنداں محتاجِ تعارف نہیں۔ محترم حافظ صاحب مبدءِ فیض سے بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں سے بہرہ مند ہیں۔ وہ بنیادی طور پر میدانِ قلم و قرطاس کے شہ سوار ہیں اور ان کے موضوعاتِِ تحریر میں انتہائی وسعت اور بو قلمونی پائی جاتی ہے؛ چنانچہ قرآنِ حکیم کی تفسیر و توضیح ہو یا حدیث کی شرح و وضاحت؛ فکر و عقیدہ کے مباحث ہوں یا فقہ واجتہاد کے مسائل؛ آئینی و قانونی معاملات ہوں یا معاشرتی اُمور؛ انھوں نے ہر موضوع پر تحریر و تحقیق کے جوہر دکھلائے ہیں۔ موضوعات کے تنوع سے جہاں ان کی دقتِ نگاہ اور وسعتِ نظر کا اندازہ ہوتا ہے، وہیں اُن کی نگارشات کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ان کا اُسلوبِ تحریر انتہائی دل آویز، جاذبِ توجہ اور زبان و ادب کی چاشنی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔حافظ صاحب موصوف فی زمانہ اہل حدیث کے اُن معدودے چند اربابِِ قلم میں سر فہرست ہیں، جن کا اندازِ تحریر معیاری اور زبان و بیان کے پہلو سے اس لائق ہے کہ قاری کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کرسکتا ہے، بلکہ اہل ذوق کی تسکین کا پورا سامان بھی اپنے دامن میں رکھتا ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
مسلکِ اہل حدیث اور اس کے اُصول و مبادی کی توضیح و تنقیح بھی محترم حافظ صاحب کی دل چسپی کا موضوع ہے؛ اس ضمن میں ان کی متعدد تحریریں شائع ہو کر اربابِِ علم وفکر سے خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب در اصل وہ ضخیم اور مفصل مقدمہ ہے جو موصوف نے حضرت الامام حافظ محمد صاحب محدث گوندلوی قدس اللّٰہ روحہ کی مایہ ناز تصنیف 'الاصلاح' پر لکھا تھا۔ بعد ازاں اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسے مستقل کتاب کی صورت میں طبع کیا گیا۔ اس میں بنیادی و کلیدی حیثیت تو اسی مقدمہ کی ہے، تاہم اس مستقل اشاعت میں موضوع سے متعلق دیگر اہل علم کی بعض تحریریں بھی شامل کرلی گئی ہیں۔ کتاب کی ترتیب اس طرح ہے:
سب سے پہلے 'حرفِ اوّل'ہے، جو برادرم حافظ شاہد محمود کا تحریر کردہ ہے۔ اس کے بعد حافظ صلاح الدین صاحب یوسف﷾ کا'عرضِ مرتب' ہے، جس میں کتاب کے مقالات ومندرجات کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ کتابِ ہٰذا کے مقدمہ کے طور پر مولانا محمد حنیف ندوی کا مضمون 'تعارفِ اہل حدیث'شامل کیا گیا ہے، جس میں انتہائی دل نشین اور ادبی پیراے میں اہل حدیث کے مسلک اور نقطہ نظر کی وضاحت کی گئی ہے۔
9 صفحات کے مقدمہ کے بعد اصل کتاب کا آغاز ہو تا ہے۔سب سے پہلا مقالہ محترم حافظ صاحب کا ہے، جو 'اہل حدیث کا مسلک و منہج اور احناف سے اختلاف کی حقیقت و نوعیت؛ ایک نہایت اہم مبحث کی وضاحت' کے زیر عنوان ایک صد صفحات (ص27تا126) پر پھیلا ہوا ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
دوسرا مقالہ 'عقائد علماے دیوبند' کے نام سے ہے۔ یہ'تکملۂ مضمون ماسبق' ہے اور صفحہ127سے شروع ہو کر صفحہ 153 پر اختتام پذیر ہورہا ہے۔
تیسرے مقالے کا عنوان ہے: 'شخصیت پرستی اور مشیخیت کے دینی و اخلاقی مفاسد'، یہ مولانا محمد عیسیٰ صاحب منصوری کے قلم سے ہے اور 19 صفحات (ص154تا172) پر مشتمل ہے۔
چوتھا مقالہ امام العصر مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی کی کتاب ’تاریخ اہل حدیث‘ سے لیا گیا ہے۔ یہ مبحث بہ عنوان 'اہل حدیث کا طرزِ استدلال و تحریکِ اجتہاد اور احناف کا خودساختہ اُصولوں کی بنیاد پر احادیث کا انکار' کافی طویل ہے اور کتاب کے 88 صفحات کو محیط ہے۔
پانچویں نمبر پر مولانا عبدالرحمٰن صاحب ضیا (سابق شیخ الحدیث، جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ) کا مضمون 'اہل حدیث اور اہل تقلید کے منہج کا فرق'شامل کیا گیا ہے، جس کا آغاز ص262سے اور اختتام ص284پر ہوتا ہے۔
آخر میں تین صفحات پر مبنی ایک مختصر تحریر محدثِ زماں علامہ ناصر الدین البانی کی ہے جو دراصل ایک مکالمہ ہے۔ اس کا موضوع ہے: ''ہم سلفی (اہل حدیث) کیوں کہلائیں؟''
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
مشمولاتِ کتاب کے سرسری تعارف کے بعد اب ہم اس کے مرکزی و اساسی مضمون پر اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب کا مرکزی موضوع یعنی اہل حدیث اور احناف کے مابین اختلاف کی حقیقت و نوعیت، انتہائی اہمیت اور حساسیت کا حامل ہے؛ اس حوالے سے اگرچہ بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، تاہم محترم حافظ صلاح الدین یوسف نے اپنے مخصوص انداز میں اس پر جو خامہ فرسائی کی ہے، وہ بعض پہلوؤں سے بالکل نئی چیز ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا، حافظ صاحب نے یہ تحریر محدث گوندلوی کی کتاب 'الاصلاح' کے مقدمہ کے طور پر حوالۂ قلم کی تھی۔ محدث گوندلوی نے لکھا ہے کہ ''اہل حدیث اور حنفیہ میں نہ اُصولی اختلاف ہے، نہ فروعی۔''1 حافظ صاحب نے اپنے تفصیلی مقدمے میں اسی نکتے کی توجیہ و توضیح فرمائی ہے۔ اُنھوں نے حنفیہ کو تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے:
پہلے گروہ میں امام ابوحنیفہ، قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی آتے ہیں۔ ان کے طرزِ فکر و عمل کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ صاحب کا کہنا ہے کہ دراصل یہی وہ طائفہ ہے، جس سے اہل حدیث کا اُصولی و فروعی کوئی اختلاف نہیں۔ ان کے بقول مذکورہ ائمہ کے اُصول میں یک سر اختلاف نہیں اور فروع اُصول کے تابع ہوتے ہیں؛ فلہٰذا فروعی اختلاف بھی کوئی معتد بہ حیثیت نہیں رکھتا۔ فاضل مصنف نے اپنے استدلال کے حق میں جو دلائل دیے ہیں اُن سے یہ نتیجہ بالکل واضح طور پر سامنے آتا ہے؛ مثلاً امام ابوحنیفہ کا یہ فرمان کہ ''کتاب و سنت اور اقوال صحابہ کے بالمقابل میری راے کو نظر انداز کردو۔'' 2اسی طرح امام صاحب کا یہ ارشاد کہ "إذا صحّ الحدیث فهو مذهبی"3 یعنی ''جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے، تو وہی میرا مذہب ہے۔'' حضرت الامام کی انھی تصریحات کے پیش نظر ان کے باکمال شاگردوں (صاحبین) نے ہمیشہ نصوصِ قرآن و حدیث ہی کو مقدم رکھا، یہاں تک کہ اپنے ہی اُستاد کے دو تہائی مسائل سے بر بناے دلیل اختلاف کیا۔ وہ حنفی علما بھی اسی گروہ میں شامل ہیں، جنھوں نے اس منہاجِ فکر و عمل کی پیروی کرتے ہوئے اتباعِ کتاب و سنت کو خلافِ نصوص فقہی جزئیات پر ترجیح دی اور فقہی جمود، گروہی تعصب اور اندھی تقلید کے خلاف آواز بلند کی۔ ان میں حجۃ الہند شاہ ولی اللّٰہ صاحب محدث دہلوی اور مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی مرحوم خاص طور سے لائق تذکرہ ہیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
دوسرا گروہ جمہور احناف پر مشتمل ہے؛ یہ زبانی طور پر اپنے ائمہ متقدمین کی روش پر چلنے کا دعویٰ کرتا اور حدیث و آثار کے اخذ و قبول سے متعلق محدثین کے اُصولوں کو درست قرار دیتا ہے؛ لیکن عملاً اس سے انحراف کی راہ پر گامزن ہے۔ اس ضمن میں محترم حافظ صاحب نے عرب و عجم کے بعض حنفی علما کی مثالیں دی ہیں کہ کس طرح ایک مقام پر ایک اُصول کا اعتراف و اقرار کرتے اور دوسری جگہ کھلم کھلا بڑی بے دردی سے اسے پا مال کرتے ہیں۔ یہ گروہ تقلید جامد پر کاربند ہے اور اپنے فقہی مذہب کے برخلاف احادیث کو مختلف طریقوں اور حیلوں سے ردّ کردیتا ہے، جس کی تفصیل مع مثالوں کے حافظ صاحب نے بیان کی ہیں۔
 
Top