- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
(٧)۔تجربہ و مشاہدہ سے متعلقہ افعال
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپ کے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے متعلق ہیں وہ بھی ہمارے لیے ایسی سنت نہیں ہیں کہ جس کا اتباع لازم اور باعث اجر و ثواب ہو۔ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
ما صدر عنہ بمقتضی خبرتہ الانسانیة فی الأمور الدنیویة' مثل: تنظیم الجیوش' و القیام بما یقتضیہ تدبیر الحرب' و شؤون التجارة و نحو ذلک۔ فھذہ الأفعال لا تعتبر تشریعا للأمة' لأن مبناھا التجربة لا الوحی' والرسولۖ لم یلزم المسلمین بھا و لم یعتبرھا من قبیل تشریع الأحکام(١٤١)
ثبت فی الصحیح: أن النبیۖ فی یوم بدر جاء لی أدنی ماء من بدر فنزل عندہ' فقال الحباب بن المنذر: یا رسول اللہ أرأیت ھذا المنزل' أ منزلا أنزلکہ اللہ لیس لنا أن نتقدمہ و لا نتأخر عنہ' أم ھو الرأی و الحرب و المکیدة؟ قال: بل ھو الرأی و الحرب و المکیدة۔ فقال: یا رسول اللّٰہ لیس ھذا المنزل' فانھض بالناس نأتی أدنی ماء من القوم فننزلہ' ثم نغور ما وراءہ الخ ما قال' فقال لہ النبیۖ: لقد أشرت بالرأی و عمل برأیہ' و ھذا یدل علی أن محض الفعل لا یفید أنہ قربة۔ ووجہ الدلالة أن الصحابة لا یرون أن کل فعل للنبیۖ عن وحی من اللہ تعالی' بل منہ ما ھو مستند الی وحی کالفعل الذی یظھر فیہ قصد القربة' ومنہ ما ھو مبنی علی رأی و اجتھاد' ولذلک سأل الحباب بن المنذر بجمع من الصحابة عن المنزل الذی نزل النبیۖ ھل النزول فیہ عن وحی حتی یذعنوا لہ' أو عن رأی و اجتھاد حتی یشارکوہ فیہ…ولو کان فعل الرسول لا یکون لا عن وحی ما کان لذلک السؤال وجہ' وما صح منہ موافقتھم و ترک الوحی(١٤٢)
ابن العربی رحمہ اللہ نے 'احکام القرآن' میں اس روایت کو 'ثابت ' کہا ہے۔(١٤٣)جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے 'فقہ السیرة ' میں'ضعیف' کہا ہے ۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت بطور حدیث ضعیف ہے کیونکہ حدیث کی جانچ پڑتال کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی لیکن سیرت کے ایک واقعے کے طور پر ثابت ہے جیسا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس کو قابل استدلال قرار دیا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپ کے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے متعلق ہیں وہ بھی ہمارے لیے ایسی سنت نہیں ہیں کہ جس کا اتباع لازم اور باعث اجر و ثواب ہو۔ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
ما صدر عنہ بمقتضی خبرتہ الانسانیة فی الأمور الدنیویة' مثل: تنظیم الجیوش' و القیام بما یقتضیہ تدبیر الحرب' و شؤون التجارة و نحو ذلک۔ فھذہ الأفعال لا تعتبر تشریعا للأمة' لأن مبناھا التجربة لا الوحی' والرسولۖ لم یلزم المسلمین بھا و لم یعتبرھا من قبیل تشریع الأحکام(١٤١)
علامہ احمد العدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے افعال کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپ سے امور دنیویہ میں انسانی خبروں اور تجربات سے حاصل شدہ علم کی بنا پر صادر ہوئے ہیں 'مثلاً لشکروں کو منظم کرنا' جنگی معاملات کی تدبیر اور تجارت سے متعلقہ معاملات وغیرہ' تو یہ تمام افعال ایسے ہیں جوکہ اُمت کے لیے شریعت نہیں ہیں' کیونکہ آپ کے ان امور کی بنیاد وحی کے علم کی بجائے انسانی تجربات کے علم پر ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایسے افعال کو اُمت کے لیے لازم بھی قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی ان کو شرعی احکام میں شمار کیا ہے'' ۔
ثبت فی الصحیح: أن النبیۖ فی یوم بدر جاء لی أدنی ماء من بدر فنزل عندہ' فقال الحباب بن المنذر: یا رسول اللہ أرأیت ھذا المنزل' أ منزلا أنزلکہ اللہ لیس لنا أن نتقدمہ و لا نتأخر عنہ' أم ھو الرأی و الحرب و المکیدة؟ قال: بل ھو الرأی و الحرب و المکیدة۔ فقال: یا رسول اللّٰہ لیس ھذا المنزل' فانھض بالناس نأتی أدنی ماء من القوم فننزلہ' ثم نغور ما وراءہ الخ ما قال' فقال لہ النبیۖ: لقد أشرت بالرأی و عمل برأیہ' و ھذا یدل علی أن محض الفعل لا یفید أنہ قربة۔ ووجہ الدلالة أن الصحابة لا یرون أن کل فعل للنبیۖ عن وحی من اللہ تعالی' بل منہ ما ھو مستند الی وحی کالفعل الذی یظھر فیہ قصد القربة' ومنہ ما ھو مبنی علی رأی و اجتھاد' ولذلک سأل الحباب بن المنذر بجمع من الصحابة عن المنزل الذی نزل النبیۖ ھل النزول فیہ عن وحی حتی یذعنوا لہ' أو عن رأی و اجتھاد حتی یشارکوہ فیہ…ولو کان فعل الرسول لا یکون لا عن وحی ما کان لذلک السؤال وجہ' وما صح منہ موافقتھم و ترک الوحی(١٤٢)
یہ واضح رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو اگر اللہ کی تصویب حاصل ہو جائے تو پھر وہ وحی بن جاتا ہے۔ مثلاً آپ نے کسی دینی مسئلے میں اجتہاد کیا' اب اللہ کی طرف سے آپ کے اس اجتہاد پرخاموشی ہے تو آپ کا یہ اجتہاد، اللہ کی تقریر وتصویب کہلائے گا اور وحی الٰہی ہو گا۔''صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن بدر کے میدان میں 'عدوئہ دنیا'کے قریب پڑاؤ ڈالاتو حضرت حباب بن منذر سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہاں پر پڑاؤ ڈالنا آپ کی ذاتی رائے ہے 'یا آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام کا حکم دیا ہے اورہمارے لیے اس مقام سے آگے یا پیچھے ہونا جائز نہیں ہے' یا یہ کوئی جنگی چال اور تدبیر وغیرہ ہے؟آپ نے فرمایا: یہ ایک جنگی چال اور تدبیر ہے ۔ حضرت حباب نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! پھر یہ ہمارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے 'بلکہ آپ لوگوں کواٹھائیں 'ہم مشرکین مکہ کے سب سے قریبی پانی کے پاس پڑاؤ ڈالتے ہیں تاکہ ہم مشرکین اور ان کے پانی کے درمیان حائل ہو جائیں ...آپ نے ان کی بات سن کر کہا: حباب نے اچھی رائے دی ہے اور پھرآپ نے ان کی رائے پر عمل کیا۔اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا محض فعل اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ نے وہ کام تقرب الی اللہ کے لیے کیا ہو۔اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے ہر فعل کو وحی نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپ کے بعض افعال وحی پر مبنی ہوتے تھے مثلاً وہ افعال کہ جن میں آپ نے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے اور بعض افعال آپ کا اجتہاد اور ذاتی رائے ہوتی تھی۔اسی لیے حضرت حباب نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں آپ سے یہ سوال کیاتھا کہ آپ کا اس جگہ پڑاؤ ڈالنا وحی کی وجہ سے تھا کہ جس پرانہیں سرتسلیم خم کر دینا چاہیے یا آپ کی ذاتی رائے اور اجتہادتھا کہ جس میں صحابہ بھی آپ کو مشورہ دے سکتے تھے...اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل وحی ہوتا تو صحابی کبھی بھی یہ سوال نہ کرتااور نہ ہی آپ وحی کو چھوڑ کر ایک صحابی کی رائے پر عمل کرتے''۔
ابن العربی رحمہ اللہ نے 'احکام القرآن' میں اس روایت کو 'ثابت ' کہا ہے۔(١٤٣)جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے 'فقہ السیرة ' میں'ضعیف' کہا ہے ۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت بطور حدیث ضعیف ہے کیونکہ حدیث کی جانچ پڑتال کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی لیکن سیرت کے ایک واقعے کے طور پر ثابت ہے جیسا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس کو قابل استدلال قرار دیا ہے۔