• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت کا تصور سنت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٧)۔تجربہ و مشاہدہ سے متعلقہ افعال
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپ کے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے متعلق ہیں وہ بھی ہمارے لیے ایسی سنت نہیں ہیں کہ جس کا اتباع لازم اور باعث اجر و ثواب ہو۔ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
ما صدر عنہ بمقتضی خبرتہ الانسانیة فی الأمور الدنیویة' مثل: تنظیم الجیوش' و القیام بما یقتضیہ تدبیر الحرب' و شؤون التجارة و نحو ذلک۔ فھذہ الأفعال لا تعتبر تشریعا للأمة' لأن مبناھا التجربة لا الوحی' والرسولۖ لم یلزم المسلمین بھا و لم یعتبرھا من قبیل تشریع الأحکام(١٤١)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپ سے امور دنیویہ میں انسانی خبروں اور تجربات سے حاصل شدہ علم کی بنا پر صادر ہوئے ہیں 'مثلاً لشکروں کو منظم کرنا' جنگی معاملات کی تدبیر اور تجارت سے متعلقہ معاملات وغیرہ' تو یہ تمام افعال ایسے ہیں جوکہ اُمت کے لیے شریعت نہیں ہیں' کیونکہ آپ کے ان امور کی بنیاد وحی کے علم کی بجائے انسانی تجربات کے علم پر ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایسے افعال کو اُمت کے لیے لازم بھی قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی ان کو شرعی احکام میں شمار کیا ہے'' ۔
علامہ احمد العدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے افعال کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
ثبت فی الصحیح: أن النبیۖ فی یوم بدر جاء لی أدنی ماء من بدر فنزل عندہ' فقال الحباب بن المنذر: یا رسول اللہ أرأیت ھذا المنزل' أ منزلا أنزلکہ اللہ لیس لنا أن نتقدمہ و لا نتأخر عنہ' أم ھو الرأی و الحرب و المکیدة؟ قال: بل ھو الرأی و الحرب و المکیدة۔ فقال: یا رسول اللّٰہ لیس ھذا المنزل' فانھض بالناس نأتی أدنی ماء من القوم فننزلہ' ثم نغور ما وراءہ الخ ما قال' فقال لہ النبیۖ: لقد أشرت بالرأی و عمل برأیہ' و ھذا یدل علی أن محض الفعل لا یفید أنہ قربة۔ ووجہ الدلالة أن الصحابة لا یرون أن کل فعل للنبیۖ عن وحی من اللہ تعالی' بل منہ ما ھو مستند الی وحی کالفعل الذی یظھر فیہ قصد القربة' ومنہ ما ھو مبنی علی رأی و اجتھاد' ولذلک سأل الحباب بن المنذر بجمع من الصحابة عن المنزل الذی نزل النبیۖ ھل النزول فیہ عن وحی حتی یذعنوا لہ' أو عن رأی و اجتھاد حتی یشارکوہ فیہ…ولو کان فعل الرسول لا یکون لا عن وحی ما کان لذلک السؤال وجہ' وما صح منہ موافقتھم و ترک الوحی(١٤٢)
''صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر والے دن بدر کے میدان میں 'عدوئہ دنیا'کے قریب پڑاؤ ڈالاتو حضرت حباب بن منذر سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہاں پر پڑاؤ ڈالنا آپ کی ذاتی رائے ہے 'یا آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہاں قیام کا حکم دیا ہے اورہمارے لیے اس مقام سے آگے یا پیچھے ہونا جائز نہیں ہے' یا یہ کوئی جنگی چال اور تدبیر وغیرہ ہے؟آپ نے فرمایا: یہ ایک جنگی چال اور تدبیر ہے ۔ حضرت حباب نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! پھر یہ ہمارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے 'بلکہ آپ لوگوں کواٹھائیں 'ہم مشرکین مکہ کے سب سے قریبی پانی کے پاس پڑاؤ ڈالتے ہیں تاکہ ہم مشرکین اور ان کے پانی کے درمیان حائل ہو جائیں ...آپ نے ان کی بات سن کر کہا: حباب نے اچھی رائے دی ہے اور پھرآپ نے ان کی رائے پر عمل کیا۔اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا محض فعل اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ نے وہ کام تقرب الی اللہ کے لیے کیا ہو۔اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے ہر فعل کو وحی نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپ کے بعض افعال وحی پر مبنی ہوتے تھے مثلاً وہ افعال کہ جن میں آپ نے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے اور بعض افعال آپ کا اجتہاد اور ذاتی رائے ہوتی تھی۔اسی لیے حضرت حباب نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں آپ سے یہ سوال کیاتھا کہ آپ کا اس جگہ پڑاؤ ڈالنا وحی کی وجہ سے تھا کہ جس پرانہیں سرتسلیم خم کر دینا چاہیے یا آپ کی ذاتی رائے اور اجتہادتھا کہ جس میں صحابہ بھی آپ کو مشورہ دے سکتے تھے...اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل وحی ہوتا تو صحابی کبھی بھی یہ سوال نہ کرتااور نہ ہی آپ وحی کو چھوڑ کر ایک صحابی کی رائے پر عمل کرتے''۔
یہ واضح رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو اگر اللہ کی تصویب حاصل ہو جائے تو پھر وہ وحی بن جاتا ہے۔ مثلاً آپ نے کسی دینی مسئلے میں اجتہاد کیا' اب اللہ کی طرف سے آپ کے اس اجتہاد پرخاموشی ہے تو آپ کا یہ اجتہاد، اللہ کی تقریر وتصویب کہلائے گا اور وحی الٰہی ہو گا۔
ابن العربی رحمہ اللہ نے 'احکام القرآن' میں اس روایت کو 'ثابت ' کہا ہے۔(١٤٣)جبکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے 'فقہ السیرة ' میں'ضعیف' کہا ہے ۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت بطور حدیث ضعیف ہے کیونکہ حدیث کی جانچ پڑتال کے اصولوں پر پوری نہیں اترتی لیکن سیرت کے ایک واقعے کے طور پر ثابت ہے جیسا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس کو قابل استدلال قرار دیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٨)۔افعالِ مختلفہ یا متنوعہ
بعض اوقات ایک ہی مسئلے میں آپ سے دو یا دو سے زائد افعال مروی ہوتے ہیں جبکہ کوئی امتی ان میں سے صرف ایک فعل کو سنت سمجھ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ دونوں افعال ہی سنت ہوتے ہیں۔جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں طرف سے پھرتے ہوئے صحابہ کی طرف رخ کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اَنَّ النَّبِیَّۖ کَانَ یَنْصَرِفُ عَنْ یَمِیْنِہ(١٤٤)
''اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد) دائیں طرف پھرتے تھے''۔
جبکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے :
لاَ یَجْعَلَنَّ اَحَدُکُمْ لِلشَّیْطَانِ مِنْ نَفْسِہ جُزْئً'ا لاَ یَرٰی اِلاَّ اَنَّ حَقًّا عَلَیْہِ اَنْ لَایَنْصَرِفَ اِلاَّ عَنْ یَمِیْنِہ' اَکْثَرُ مَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِۖ یَنْصَرِفُ عَنْ شِمَالِہ(١٤٥)
''تم میں کوئی ایک اپنے نفس میں شیطان کاکوئی حصہ اس طرح مقرر نہ کر لے کہ وہ اپنے اوپر یہ لازم ٹھہر الے کہ وہ نماز کے بعد دائیں طرف سے ہی پھرے۔میں نے (نماز کے بعد) اکثر و بیشتراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں طرف پھرتے ہوئے دیکھا ہے ''۔
دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے 'بلکہ ہر صحابی نے اپنے مشاہدے کو بیان کیا ہے' لہٰذا فرض نماز سے فارغ ہو کر دائیں اور بائیں دونوں طرف سے پھرنا سنت ہے اور صرف دائیں پھرنے کو ہی سنت سمجھتے ہوئے اس پر لزوم اختیار کرنادرست نہیں ہے ۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے:
رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ یَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا وَیُصَلِّیْ حَافِیًا وَمُنْتَعِلًا وَیَنْصَرِفُ عَنْ یَمِیْنِہ وَعَنْ شِمَالِہ(١٤٦)
''میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پانی پیتے دیکھاہے اور آپ کو جوتے پہن کر اور اُتار کر نماز پڑھتے دیکھا ہے اور آپ کو نماز کے بعد دائیں اور بائیں پھرتے دیکھا ہے''۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے ۔اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینا بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ہمارے ہاں عام طور پر یہی معروف ہے کہ بیٹھ کر ہی پانی پینا چاہیے اور یہی سنت ہے 'لیکن یہ درست نہیں ہے ۔حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو کر پانی پیااور کہا :
اِنَّ نَاسًا یَکْرَہُ اَحَدُھُمْ اَنْ یَشْرِبَ وَھُوَ قَائِم وَاِنِّیْ رَأَیْتُ النَّبِیَّۖ فَعَلَ کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ فَعَلْتُ(١٤٧)
''بعض لوگ کھڑا ہو کر پانی پینے کو مکروہ (ناپسندیدہ)سمجھتے ہیں 'جبکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے جیسا کہ میں نے کیا ہے'' ۔
اسی طرح 'موطأ' میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیراور حضرت عبد اللہ بن عمرکھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے 'جبکہ حضرت عائشہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کھڑے ہو کر پانی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔اسی طرح کا عمل حضرت عمر ' حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے بھی' موطأ 'میں مروی ہے۔(١٤٨)
بلکہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے تو یہاں تک مروی ہے کہ ہم صحابہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے میں کھڑے کھڑے اورچلتے پھرتے کھانا بھی کھا لیتے تھے 'جبکہ آج کل اس فعل کو مغربی تہذیب کی نقالی کا نام دیا جاتا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
کُنَّا نَاْکُلُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ وَنَحْنُ نَمْشِیْ وَنَحْنُ قِیَام(١٤٩)
''ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کے زمانے میں چلتے چلتے اور کھڑے کھڑے کھاپی لیتے تھے ''۔
علامہ البانی نے اس روایت کو ' صحیح ' کہا ہے(١٥٠) جبکہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے 'حسن'قرار دیا ہے(١٥١)۔امام ترمذی نے بھی اس کو 'صحیح ' کہا ہے۔(١٥٢)
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جن روایات میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع کیا ہے یا ڈانٹا ہے یا قے کرنے کا حکم دیا ہے تو اس کے بارے میں علماء کااختلاف ہے ۔ بعض علماء نے احادیث میں ترجیح کا طریقہ کار اختیار کیا اور یہ کہا کہ جن احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کا بیان ہے وہ ان احادیث کے مقابلے میں سند کے اعتبار سے راجح ہیں جن میں کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع کیاگیاہے۔امام ابو بکر الأثرم کا یہی قول ہے ۔بعض علماء نے ان احادیث کے بظاہر تعارض کو حل کرنے کے لیے نسخ کا قول اختیار کیا ہے۔امام ابن شاہین کے مطابق نہی والی احادیث صحیح ہونے کے باوجود منسوخ ہیں جبکہ امام ابن حزم نے جواز والی احادیث کو منسوخ کہا ہے ۔بعض علماء نے دو نوں احادیث کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے 'لہٰذا علماء کے ایک گروہ کے نزدیک نہی والی احادیث میں نہی کراہت تنزیہی کے لیے ہے 'لہٰذا کھڑے ہو کر پانی پینا جائز امر ہے' کیونکہ مکروہ کا ارتکاب باعث گناہ نہیں ہے۔ یہ رائے امام خطابی ' امام طحاوی'امام ابن جریر طبری ' امام نووی ' علامہ ابن حجر عسقلانی اور ابن بطال رحمہم اللہ وغیرہ کی ہے۔علماء کے دوسرے گروہ کی جمع کے مطابق جن احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز ہے وہ عذر کے سبب سے ہے۔ یہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے ہے۔تیسرے گروہ کی جمع کے مطابق نہی والی روایات میں نہی کسی شرعی حکم کے طور پر وارد نہیں ہوئی بلکہ آپ نے طبی نقطہ نظر سے کھڑے ہو کر پانی پینے کو نقصان دہ سمجھتے ہوئے اس طرح پانی پینے سے منع کیا تھا۔سوائے امام ابن تیمیہ کے قول کے ان تمام اقوال کو اما م ابن حجر نے 'فتح الباری' میں نقل کیا ہے ۔امام صاحب کا قول 'مجموع الفتاویٰ' میں موجود ہے۔
ہمارے نزدیک یہ آخری رائے درست ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کا خاص طور پر خلفائے راشدین اور حضرت عبد اللہ بن عمر کا کھڑے ہو کر پانی پینا یہ واضح کرتا ہے کہ امام ابن حزم کا نسخ کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ وغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ عام حالات میں بھی کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے' لہٰذاعذر والا قول درست نہیں ہے 'کیونکہ عذر تو کبھی کبھی ہوتا ہے۔علاوہ ازیں حضرت علی کی روایات سے کراہت والے قول کا غلط ہونا بھی واضح ہوتا ہے' کیونکہ حضرت علی نے یہ کہہ کر کھڑے ہو کر پانی پیا کہ لوگ اس عمل کو مکروہ سمجھتے ہیں 'یعنی ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ مکروہ یا دین میں ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔علاوہ ازیں حضرت علی نے بغیر کسی عذر کے کھڑے ہو کر پانی پیا تھا۔امام ابو بکر الاثرم کے نزدیک جواز والی احادیث راجح جبکہ نہی والی مرجوح ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ مرجوح حدیث پر عمل نہیں ہوتا' لیکن صحابہ نے نہی والی احادیث پر بھی عمل کیا ہے۔ یہی معاملہ امام ابن شاہین کے اس دعویٰ کا ہے کہ نہی والی احادیث منسوخ ہیں 'جبکہ صحابہ نے آپ کی وفات کے بعد نہی والی روایات پر بھی عمل کیا ہے۔ اس لیے 'موطأ' میں حضرت عائشہ اور حضرت سعد بن وقاص سے مروی ہے کہ وہ کھڑے ہو کر پانی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۔پس بظاہر یہی قول درست معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے شرعی حکم کے طور پر منع نہیں کیا بلکہ اس کے بعض طبی نقصانات کی وجہ سے اُمت کو اس طرح پانی پینے سے سختی سے منع فرمایا جیسا کہ ایک باپ بعض اوقات اپنے بیٹے کو کسی دنیاوی معاملے میں نقصان سے بچانے کے لیے ڈانٹ ڈپٹ کے انداز میں کوئی حکم جاری کرتا ہے اور اس میں اصل وجہ باپ کی اپنے بیٹے سے پدرانہ محبت ہوتی ہے نہ کہ کوئی شرعی حکم ۔ یہی محبت آپ کو اپنی اُمت سے بھی تھی۔
اسی طرح ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں :
کَانَ النَّبِیُّۖ یَاْتِیْ مَسْجِدَ قُبَائٍ کُلَّ سَبْتٍ مَاشِیًا وَرَاکِبًا' وَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ یَفْعَلُہ(١٥٣)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!ہر ہفتے کے دن مسجد قبا میں پیدل اور سوار دونوں طرح آتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابھی ایساہی کرتے تھے(یعنی کبھی پیدل آتے تھے اور کبھی سوار اور اب کے بعض لوگوں نے صرف پیدل جانے کو ہی سنت سمجھ لیا ہے)''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٩)۔افعال مبنی بر علت و سبب
بعض اوقات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کسی ضرورت یا سبب سے کرتے تھے 'لہٰذا اس ضرورت اور سبب کی عدم موجودگی میں اس مسئلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی مخالفت زیادہ افضل ہے۔جیسا کہ ایک روایت میں ہے 'حضرت ابو طفیل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے کہا:
اَخْبِرْنِیْ عَنِ الطَّوَافِ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَاکِبًا اَسُنَّة ھُوَ؟ فَاِنَّ قَوْمَکَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہ سُنَّة ' قَالَ صَدَقُوْا وَکَذُبْوا ' قُلْتُ وَمَا قَوْلُکَ صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا؟ قَالَ: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِۖ کَثُرَ عَلَیْہِ النَّاسُ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مُحَمَّد ھٰذَا مُحَمَّد حَتّٰی خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنَ الْبُیُوْتِ' قَالَ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِۖ لَا یُضْرَبُ النَّاسُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَلَمَّا کَثُرَ عَلَیْہِ رَکِبَ وَ الْمَشْیُ وَالسَّعْیُ اَفْضَلُ(١٥٨)
''مجھے صفا اور مروہ کے درمیان سواری پر طواف کرنے کے بارے میں بتائیں کہ کیا وہ سنت ہے؟ بے شک آپ کی قوم کے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایسا کرنا سنت ہے۔ تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا : انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ بھی بولا۔میں نے پھر پوچھا کہ آپ کے اس قول کا کیامطلب ہے کہ انہوں نے سچ بھی کہاا ور جھوٹ بھی بولا؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لوگوں نے ہجوم کر لیا تھا اور یہ کہہ رہے تھے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں 'یہاں تک کہ بوڑھی عورتیں بھی اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں۔حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا: لوگ آپ کے سامنے ہجوم نہیں کرتے تھے' لیکن جب انہوں نے آپ پر اکٹھ کر لیاتو آپ نے سوار ہو کر سعی کی' جبکہ پیدل سعی کرنا زیادہ افضل ہے''۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وھذا الذی قالہ ابن عباس مجمع علیہ اجمعوا علی أن الرکوب فی السعی بین الصفا والمروة جائز وان المشی افضل منہ لا لعذر و اللّٰہ أعلم(١٥٩)
''اور جوبات حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہی ہے اس پر اجماع ہے ۔علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کے دورن سوار ہونا جائز ہے لیکن پیدل چلنا زیادہ افضل ہے 'سوائے اس کے کہ کوئی عذر لاحق ہو''۔
اور آج کل اگر کوئی شخص مطاف یا مسعی میں طواف یا سعی کے لیے اونٹ داخل کرے تو یہ سنت تو کجافتنہ اور منکر ہے جس سے زبردستی روکا جائے گا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١٠)۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بعض پسندیدہ افعال
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام بطور عبادت کرنے کا ارادہ کرتے 'لیکن آپ وہ کام کسی سبب سے بالفعل نہیں کرتے تھے 'تاہم آپ کی یہ خواہش ہوتی کہ آپ وہ کام کریں۔ اس معاملے میں اگرچہ آپ نے ایک کام نہیں کیا لیکن جس کے کرنے کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش کی تھی تو وہ کام اُمت کے لیے مستحب ہو گا۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں صرف تین دن تراویح پڑھائی تھے اور چوتھے دن صحابہ آپ کا انتظار کرتے رہے لیکن آپ تراویح پڑھانے کے لیے اپنے حجرے سے باہر تشریف نہ لائے ۔فجر کی نماز کے بعد آپ نے صحابہ کو بتلایا:
((فَاِنَّہ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ شَاْنُکُمُ الَّیْلَةَ وَلٰکِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ صَلَاةُ اللَّیْلِ فَتَعْجِزُوْا عَنْھَا)) (١٥٤)
''تمہاری رات کی کیفیت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے 'لیکن مجھے یہ اندیشہ تھا کہ تم پر رات کی نماز(یعنی تراویح) فرض نہ کر دی جائے اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز آ جاؤ(اور گناہ گار ہو)''۔
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :
((فَلَمْ یَمْنَعْنِیْ مِنَ الْخُرُوْجِ اِلَیْکُمْ اِلاَّ اَنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ)) (١٥٥)
''اور مجھے تراویح کی نماز کے لیے اپنے حجرے سے باہر نکلنے کے لیے سوائے اس چیز کے اور کسی امر نے نہیں روکا کہ مجھے یہ اندیشہ تھاکہ وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے''۔
اس روایت سے معلوم ہو ا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین دن تروایح کی جماعت کروائی ہے ' باقی دنوں میں آپ اور صحابہ نے تراویح کی نماز انفرادی طور پر پڑھی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا ہے۔اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آپ کی سنت تو صرف تین دن جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھنا ہے تو وہ غلطی پر ہے 'کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ مکمل رمضان میں تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔لہٰذا زیادہ افضل یہ ہے کہ تمام رمضان میں تراویح کی نماز ادا کی جائے۔صحیح بخاری کی ایک روایت میں عبد الرحمن بن عبدالقاری فرماتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت عمر کے ساتھ مسجد نبوی میں گیا تو حضرت عمر نے دیکھا کہ صحابہ الگ الگ ٹکڑیوں میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔بعض صحابہ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے' جبکہ بعض کچھ دوسروں کو نماز پڑھا رہے تھے ۔حضرت عمر نے جب یہ منظر دیکھا تو سب کو جمع کر کے ایک جماعت بنا دیا اور حضرت اُبی بن کعب کو قاری مقرر کر دیا۔اگلی رات جب حضرت عمر دوبارہ مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے صحابہ کو ایک جماعت میں نماز پڑھتے دیکھ کر کہا:
نِعْمَ الْبِدْعَةُ ھٰذِہ' وَالَّتِیْ یَنَامُوْنَ عَنْھَا اَفْضَلُ مِنَ الَّتِیْ یَقُوْمُوْنَ' یُرِیْدُ آخِرَ اللَّیْلِ' وَکَانَ النَّاسُ یَقُوْمُوْنَ اَوَّلَہ (١٥٦)
''یہ کیا ہی خوب بدعت(یعنی نیا کام) ہے! اور جو لوگ سو رہے ہیں وہ ان قیام کرنے والوں سے افضل ہیں ۔راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی مراد وہ سونے والے لوگ تھے جو آخر رات میں قیام کرتے تھے اور عام لوگ اول وقت میں قیام کرتے تھے''۔
بعض اوقات ایسے کام کو کرنا جائز نہیں ہوتا جس کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا ہو لیکن آپ نے اس کو بالفعل نہ کیا ہو'اور اس کا علم احوال و قرائن سے ہوتا ہے 'جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے بارے میں جو مسجد میں آکر جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے تھے 'فرمایا:
((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ اُخَالِفَ اِلٰی رِجَالٍ فَاُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ' وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَوْ یَعْلَمُ اَحَدُھُمْ اَنَّہ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا اَوْمِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَاءَ)) (١٥٧)
امام نووی نے 'شرح مسلم' میں لکھا ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والوں کو یہ سزا دینا جائز نہیں ہے 'کیونکہ آپ نے یہ سزا نہیں دی ۔امام نووی نے یہ بھی لکھا ہے کہ حدیث کا سیاق یہ بتلاتا ہے کہ آپ کا یہ ارشادمنافقین کے بارے میں تھا 'کیونکہ صحابہ سے یہ بعید ہے کہ وہ ایک یا دو ہڈیوں کو جماعت کی نماز پر ترجیح دیں۔ بعض دوسری روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فجر اور عشاء کی نماز منافقین پر بھاری ہوتی تھی اور اس روایت میں بھی عشاء کی نماز کا تذکرہ ہے۔
اسی طرح آپ نے حطیم کو بھی بیت اللہ میں شامل کرنے کی خواہش کا ظہار کیا تھا لیکن کچھ موانع کی وجہ سے آپ نے اس پر عمل نہ کیا۔اُمت نے بھی آج تک اس فعل پر آپ کی خواہش کے باوجود عمل نہیں کیا ہے ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(١١)۔مقصد سے مربوط فعل
بعض اوقات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فعل میں اصلاً مقصود وہ فعل نہیں ہوتابلکہ اس فعل سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ مسواک کرنا آپ کی سنت ہے اور اس سنت کا مقصود منہ کی صفائی ہے ۔آپ کا ارشاد ہے :
((اَلسِّوَاکُ مَطْھَرَة لِلْفَمِ مَرْضَاة لِلرَّبِّ))(١٦٠)
''مسواک کرنا منہ کی صفائی کا ذریعہ ہے اور ربّ کی رضا ہے ''۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسواک کی سنت میں اصل حکمت طہارت ہے نہ کہ دانتوں پر کوئی لکڑی پھیرنا۔امام طیبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ مسواک کی حکمت منہ کی صفائی ہے اور پھر منہ کی صفائی کو اللہ کی رضا قرار دیا گیا ہے۔مسواک عربی زبان کے اعتبار سے اسم آلہ کا وزن بنتا ہے اور اس کا معنی 'مَایُستاک بِہ' ہے'یعنی جس کے ذریعے کسی چیز کو رگڑا جائے یا مَلا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسواک لکڑی ہی کی ہوتی تھی اور مسواک میں سب سے افضل پیلو کی مسواک ہے 'جیسا کہ صحیح روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کُنْتُ اَجْتَنِیْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ سِوَاکًا مِنَ الْاَرَاکِ (١٦١)
''میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیلو کی مسواک چنا کرتا تھا''۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اپنی زندگی کے آخری لمحات میں آپ نے کجھور کی تازہ شاخ کومسواک کے طور پر استعمال کیا تھا جبکہ آپ ۖ کا سرمبارک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تھا۔بعض علماء نے زیتون کی مسواک کو بھی اس کے درخت کے بابرکت ہونے کی وجہ سے افضل کہا ہے لیکن زیتون کی مسواک کی فضیلت میں وارد شدہ تمام روایات ضعیف ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگلی کے دانتوں پر پھیرنے سے مسواک کی سنت ادا ہوجاتی ہے؟علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انگلی اگر نرم ہے یعنی اس سے کسی قدردانتوں کی صفائی ممکن نہیں ہے تو یہ سنت ادا نہ ہو گی' لیکن اگر انگلی سخت اور کھردری ہے تو اس کےبارے میں علماء کا اختلاف ہے ۔احناف' مالکیہ اور ایک روایت کے مطابق حنابلہ کے نزدیک اس سے سنت ادا ہو جائے گی جبکہ شوافع اور حنابلہ کے مشہور موقف کے مطابق سنت ادا نہ ہو گی۔امام نووی ' حافظ عراقی اور ابن قدمہ رحمہم اللہ نے پہلے مسلک ہی کو ترجیح دی ہے اور ہمارے نزدیک بھی پہلا مسلک درست ہے جس کی دلیل درج ذیل روایت ہے :
اِنَّ رَجُلًا مِّنَ الْاَنْصَارِ مِنْ بَنِیْ عَمْرٍو بْنِ عَوْفٍ قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِۖ اِنَّکَ رَغَّبْتَنَا فِی السِّوَاکِ' فَھَلْ دُوْنَ ذٰلِکَ مِنْ شَیْئٍ؟ قَالَ : ((اِصْبَعَاکَ سِوَاک عِنْدَ وُضُوْئِکَ تَمُرُّھَا عَلٰی اَسْنَانِکَ)) (١٦٢)
''انصار میں بنو عمر بن عوف کے ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں مسواک کرنے میں رغبت دلائی ہے' تو کیا مسواک کے علاوہ بھی کوئی شے کفایت کر جائے گی؟ تو آپ نے فرمایا:''تمہاری انگلیاں تمہارے وضو کے وقت تمہاری مسواک ہیں' تم ان کو اپنے دانتوں پر رگڑ لیا کر''۔
حافظ عراقی نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اس کے تمام رواة کو ثقہ قرار دیاہے۔اس کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت((یُجْزِیْ مِنَ السِّوَاکِ الْاَصَابِعِ)) یعنی انگلیاں تمہیں مسواک کے بالمقابل کفایت کریں گی' بھی ہے 'جس کے بعض طرق کوابن حجرعسقلانی نے صحیح کہا ہے۔(١٦٣)
مسواک کا مقصد یعنی منہ کی صفائی عصر حاضر میں ٹوتھ پیسٹ اور برش وغیرہ سے بھی پورا ہو جاتا ہے تو کیا اگر کوئی شخص اس نیت سے برش کرے کہ سنت اد اہو جائے تو اسے سنت کا ثواب ملے گا؟علماء کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ برش کرنے سے بھی سنت کا ثواب ملے گا بشرطیکہ سنت کی ادائیگی کی نیت ہو۔ڈاکٹر عبد اللہ الفقیہ لکھتے ہیں :
و أما عن السواک فالسنة أصلا أن یکون بعود الأراک اللین نظرا لأنہ أکثر انفاء و ملائمة للفم و أطیب ریحا۔ أما ذا حصل الانفاء بغیرہ أو وجد ما ھو أبلغ فی الانفاء' فمن نظرا لی ان المقصود الانفاء فانہ یکتفی بالفرشاة و المعجون۔ ومن نظرا لی أن الأمر تعبدی' وأن السنة لا تحصل لا بالعود فانہ یجعل السواک بالعود سنة۔ ولعل الراجح ان شاء اللّٰہ تعالی أن الفرشاة و المعجون تحصل بھما السنة لأن تنظیفھما للفم وتطھیرھما أبلغ من تطھیر وتنظیف العود۔ وقد قال بعض أھل العلم بحصول السنة بالسواک بالصبع والخرقة (١٦٤)
''جہاں تک مسواک کا معاملہ ہے تو اصل سنت یہی ہے کہ وہ پیلو کی نرم لکڑی کی ہونی چاہیے کیونکہ اس سے منہ کی بدبو اچھی طرح دور ہوتی ہے اورو ہ ملائم بھی ہوتی ہے اور خوشبودار بھی۔اگر اس کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی منہ کی صفائی حاصل ہو جائے یا کوئی اور چیز مسواک سے بھی زیادہ اچھی طرح منہ صاف کرنے والی ہو تو جن علماء نے مقصود کو دیکھا تو ان کے نزدیک پیسٹ اور برش وغیرہ بھی مسواک کی جگہ کفایت کرتے ہیں 'اور جن علماء نے مسواک کو تعبدی امور میں شمار کیا ہے تو ان کے نزدیک سنت صرف لکڑی کے استعمال میں ہے 'لہٰذا ان کے نزدیک لکڑی استعمال کرنا ہی سنت ہے۔اور راجح مسلک ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پیسٹ اور برش وغیرہ سے بھی سنت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں لکڑی سے زیادہ اچھی طرح منہ کو صاف اور پاک کرنے والے ہیں۔بعض سلف صالحین کے نزدیک انگلی اور پرانے کپڑے کو رگڑنے سے بھی مسواک کی سنت حاصل ہو جاتی ہے''۔
اب تو ایسے ٹوتھ پیسٹ بھی آ گئے ہیں جو کہ مسواک کے قدرتی اجزا پر مشتمل ہیں جیسا کہ دبئی سے ''سواک'' کے نام سے مسواک کے قدرتی اجزاء پر مشتمل ایک ٹوتھ پیسٹ بنایا گیا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ برش کے ساتھ ساتھ مسواک کی سنت کو ترک نہیں کرنا چاہیے 'کیونکہ مسواک کرنے کے بہت سے ایسے مواقع سنت سے ثابت ہیں جن میں برش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔مثلاً آپ کا فرمان ہے :
((لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ مَعَ کُلِّ صَلَاةٍ)) (١٦٥)
''مجھے اگر یہ اندیشہ نہ ہوتاکہ میں اپنی اُمت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو میں ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا''۔
لہٰذا ہر نماز کے وقت مسواک کرنا سنت ہے۔ اسی طرح بعض صحیح احادیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب کتا تمہارے کسی برتن میں اپنا منہ ڈال دے تو تم اس برتن کو سات مرتبہ دھوؤاور پہلی مرتبہ مٹی سے دھوؤ۔اب اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصود برتن کی صفائی ہے اور اگر برتن کی صفائی آج کل صابون یاسَرف وغیرہ سے اچھی طرح ہوتی ہے تو ہمیں مٹی کی جگہ وہی استعمال کرنا چاہیے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی صابون سے غسل نہیں کیا یا سر کے بالوں کے لیے شیمپو استعمال نہیں کیا۔صحیح روایات میں ہے کہ جب آپ کے زمانے میں کسی مردے کوغسل دیاجاتا تھا تو پانی میں بیری کے پتے اور کافور( خوشبو )ملا دی جاتی تھی اور اس سے مقصود طہارت اور جسم کی صفائی تھی ۔اب یہی مقصد صابون اور شیمپو وغیرہ سے اچھی طرح حاصل ہوتا ہے تو کیا ان کا استعمال خلافِ سنت اور خباثت ہو گا؟ ؟؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ایجادات سے استفادہ کی حیثیت
ایک چیز جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں تھی اس کو استعمال کرنا خلافِ سنت نہیں ہے ۔مثلاً آپ کے دور میں کرسی ' ٹیبل' چمچ'گاڑی' لاؤڈ اسپیکر' گھڑی' کمپیوٹر' پنکھا' اے سی'ریفریجریٹر' گیزر'عینک' ہیٹر'ٹیلی فون' موبائل'بجلی' گیس' جہاز' ریل' بحری جہاز'سکول ' کالج ' یونیورسٹی' جدید آلات حرب' ادویات' گولیاں ' انجکشن ' ہسپتال اور تمام میڈیکل سائنس وغیرہ کچھ بھی نہ تھا۔کوئی بھی صاحب عقل ان اشیاء کے استعمال کو خلاف سنت یاخباثت نہیں کہہ سکتا 'سوائے اس کے کہ جوجہالت کے اعلیٰ مراتب پرفائز ہو۔ یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ ان اشیائے جدیدہ کے وہ استعمالات جو کہ شریعتِ اسلامیہ کی صریح نصوص کے خلاف ہوں ' یا وہ ایجادات مقاصد شریعہ کو فوت کرنے والی ہوں یعنی وہ انسان کے دین' جان' عقل' نسل' مال اور عزت کے فروغ اور حفاظت کے لیے نقصان دہ ہوں' ناجائز ہیں۔ اگر کرسی کا استعمال خلافِ سنت ہے توپھر موبائل' بجلی ' گیس' فون' گاڑی' جہاز' گھڑی وغیرہ سب کا استعمال بھی خلافِ سنت ہے۔اگر اس طرح کے سطحی اصولوں کی روشنی میںسنت کے تصورات قائم کیے گئے تو ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ صحابہ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں بچے گا جس نے سنت سے اختلاف نہ کیا ہو۔اگر اس اصول کو درست مان لیاجائے تو تمام صحابہ (معاذاللہ!)مخالفین سنت ہیں 'کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن 'بَیْنَ الدُّفتین' موجود نہ تھا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کو ایک جگہ جمع کیا گیا'تو صحابہ نے ایک ایسا کام کیا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیاتھا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں لوگوں کو ایک رسم الخط پر جمع کرنے کے لیے صحابہ سے ان کے مصاحف لے کر جلوا دیے تھے ' یہ بھی ''خلافِ سنت'' کام تھا اور اکابر صحابہ نے اس کام میں حضرت عثمان کی معاونت کی تھی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن کے نہ تو تیس پارے تھے ' نہ ٥٤٥ رکوع تھے ' نہ احزاب تھے ' نہ اعراب و حرکات تھیں 'حتیٰ کے نقطے اور رموزِ اوقاف بھی نہ تھے 'اور یہ سب چیزیں تو خلفائے راشدین کے دور میں بھی نہ تھیں' بلکہ صحابہ کے زمانے کے بعد علماء نے ان کو قرآن پڑھنے میں سہولت و آسانی کے لیے لیے متعارف کروایا ' یہ سب بھی'' خلافِ سنت'' ہے' لہٰذا آج کے دور میں طبع ہونے والے ہر قرآن کی تلاوت ''خلافِ سنت'' ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ احادیث کی کتابیں تھیں ' نہ سیرت و تاریخ کی ' لہٰذا حدیث ' سیرت اور تاریخ کی کتابوں کو لکھنا' ان کے ترجمے کرنا ' ان ترجموں کو پڑھنا اور ان ترجموں سے علم حاصل کرنا سب خلاف سنت اور خباثت ہے' کیونکہ ان میں کوئی ایک فعل بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاصحابہ و تابعین سے ثابت نہیں ہے۔ واللّٰہ المُستعان علٰی ما تَصِفُوْنَ ۔
اسی نقطۂ نظر کی یہ انتہا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عورتوں کو مطلقاً سکول و کالج کی تعلیم دلواناخلافِ سنت ہے' کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں کالج نہیں تھے' جبکہ معاصر علماء اس باتکو امت مسلمہ کے لیے فرض کفایہ قرار دیتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں اتنی خواتین لیڈی ڈاکٹرز موجود ہوں جو عورتوں کے ذاتی مسائل میں کفایت کرتی ہوں۔اگرعورتوں کا میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا خلاف سنت ہے تو ایک عورت کا ایک مرد ڈاکٹر کے سامنے جاکر اپنا ستر کھولنا کون سی سنت سے ثابت ہے ؟ اس تصورِ سنت کے مطابق تو گولی (tablet)کھانا' دوائی لینا' انجکشن لگوانااور ڈاکٹر کے پاس جانا بھی خلافِ سنت ہونا چاہیے۔ فیا للعجب!ان میں سے بعض کا یہ کہنا بھی ہے کہ درس قرآن دنیا بھی سنت سے ثابت نہیں ہے اور ظالم حکمرانوں کے خلاف مظاہرہ کرنابھی سنت سے ثابت نہیں ہے۔ دینی مجلات اور رسائل کی اشاعت بھی خلاف سنت ہے وغیرہ ذلک۔
حق یہ ہے کہ یہ سب افعال مباحات کا دائرہ ہے جس میں انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ ان اشیاء کو استعمال کرے یا نہ کرے۔اور بعض اوقات تو ان جدید آلات کو اسلام کی نشرو اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لیے استعمال کرنا فرضیت کے درجے کو پہنچ جاتا ہے ۔اسی طرح میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کی تعلیم کو علماء نے فرض کفایہ قرار دیا ہے ۔
جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد الرحمن اشرفی ایک دن دورانِ کلاس کہنے لگے کہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ الہ ایک دفعہ چمچ سے کھانا کھا رہے تھے تو کسی نے کہا:حضرت ہاتھ سے کھانا سنت ہے۔ شاہ صاحب نے جواب دیا : ہاتھ ہی سے تو کھا رہا ہوں۔
جن علماء کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دین کی گہرائی اور حکمت عطا فرمائی ہے انہیں کبھی اس مسئلے میں الجھن درپیش نہیں ہوتی کہ کیا چیز سنت ہے اور کیاخلاف سنت ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ سے کھانے پر زور دیا ہے اور چمچ سے کھاتے وقت یہ سنت پوری ہوتی ہے ۔صحیح روایات کے مطابق آپ تین انگلیوں (یعنی انگوٹھا' شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی) سے کھانا کھاتے تھے 'جیسا کہ صحیح مسلم ' سنن ابو داؤد' سنن ترمذی اور مسند احمد وغیر ہ میں ہے۔یہ سنت اگرچہ ہاتھ سے بھی پوری ہوتی ہے لیکن بعض لوگوں کو اس میں مشکل ہوتی ہے۔اب اگر یہ لوگ چمچ سے کھانا کھائیں تو یہ سنت بھی باآسانی پوری ہو جاتی ہے۔صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ نے کھانا کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے سے پہلے ان کو چاٹ لینے یا چٹوا لینے کا حکم جاری کیا ہے تا کہ کھانے کی برکت ضائع نہ ہواور یہ حکمت چمچ سے کھانے میں باحسن پوری ہوتی ہے۔ ہمارا مقصود یہ ہر گز نہیں ہے کہ لوگ ہاتھ سے کھانا چھوڑدیں 'بلکہ ہمارے نزدیک ہاتھ سے کھانا چمچ سے کھانے سے زیادہ افضل ہے 'لیکن یہ بتانا مقصود ہے کہ چمچ سے کھانا بھی خلافِ سنت نہیں ہے اور کھانے کے تمام آداب چمچ سے کھانے میں بھی باحسن و خوبی پورے ہوتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ برگر وغیرہ کو کھانے کا طریقہ خلافِ سنت ہے 'کیونکہ اس کو ہاتھ سے توڑے بغیر براہ راست منہ سے نوچ کر کھایا جاتا ہے ۔اصل سنت دائیں ہاتھ سے کھانا ہے جو کہ برگر کو کھانے میں بھی پوری ہوتی ہے ۔مثلاً ایک شخص کے پاس سیب ہے اور اس کو کاٹنے کے لیے کوئی چھری یا چاقو وغیرہ نہیں ہے تو اب یہ شخص سیب کو کیسے کھائے گا؟ کیا اس کے لیے اس حالت میں سیب کھاناممنوع ہو گا تاکہ کفار کی مشابہت نہ ہو جائے؟یا جائز ہو گا؟ایک روایت کے الفاظ ہیں:
اَنَّ النَّبِیَّۖ انْتَھَسَ مِنْ کَتِفٍ ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ یَتَوَضَّاْ(١٦٦)
''اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! نے شانے والی بوٹی سے گوشت نوچ کر کھایا' پھر آپۖ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا۔''
شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے اس روایت کی سند کو 'صحیح ' کہا ہے۔(١٦٧)
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو قت کا ہی کھانا ہے اور ناشتہ کرنا بدعت ہے۔ حالانکہ یہ صریح روایات کے خلاف بات ہے۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناشتہ کرتے تھے ۔ایک روایت کے الفاظ ہیں'حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ النَّبِیُّۖ یَاْتِیْنِیْ فَیَقُوْلُ: اَعِنْدََکَ غَدَائً؟ فَاَقُوْلُ: لَا' فَیَقُوْلُ : اِنِّیْ صَائِم ' قَالَتْ فَاَتَانِیْ یَوْمًا فَقُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہ قَدْ اُھْدِیَتْ لَنَا ھَدِیَّة' قَالَ : وَمَا ھِیَ؟ قُلْتُ: حَیْس' قَالَ: اَمَا اِنِّیْ قَدْ اَصْبَحْتُ صَائِمًا' قَالَتْ: ثُمَّ اَکَلَ(١٦٨)
''اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس آتے تھے اور سوال کرتے تھے کہ کیا تمہارے پاس ناشتہ کرنے کو کچھ ہے؟ تو میں کہتی کہ نہیں ہے۔ تو آپ فرماتے :میں نے روزہ کی نیت کر لی ہے۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن آپ میرے پاس آئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آج ہمیں کچھ ہدیہ ملا ہے ۔آپ نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ تو میں نے کہا وہ حلوہ ہے۔تو آپ نے فرمایا: میں نے صبح روزے کی نیت کی تھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ نے پھر وہ حلوہ کھا لیا''۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کو'حسن' کہا ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی روایت کو 'حسن صحیح ' کہا ہے۔(١٦٩)
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ موٹر سائیکل پر بیٹھنا خلاف سنت بلکہ دجالی تہذیب کا مظہر ہے' کیونکہ اگر عام حالات میں دو اشخاص اس طرح بیٹھے ہوں جس طرح موٹر سائیکل پر دو افراد بیٹھتے ہیں یعنی آگے پیچھے تو یہ فعل بے حیائی معلوم ہوتا ہے۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر صحابہ کے زمانے میں اونٹ یا گھوڑے پر دو افراد بیٹھتے تھے تو اس کا کیا طریقہ تھا؟ کیا ایک دوسرے کے کندھے پر بیٹھتے تھے ؟؟؟صحیح روایات میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر اونٹ پر سواری کی ' مثلاًصحیحین کی ایک روایت کے مطابق حجة الوداع کے موقع پرعرفات سے منیٰ واپسی کی طرف راستے میں حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ آپ کے پیچھے ایک ہی اونٹ پر سوارتھے۔(١٧٠)
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ زمین پر بیٹھنا ہی سنت ہے اور کرسی پر بیٹھنا خلاف سنت اور خباثت ہے' کیونکہ آپ کبھی کرسی پر نہیں بیٹھے۔ہمارے علم کی حد تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ مروی نہیں ہے کہ آپ'کرسی پر بیٹھے ہیں یا نہیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک فعل کے مروی نہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ نے وہ فعل کیا ہی نہیں ہے 'کیونکہ عدم ذکر ' عدم فعل کو 'مستلزم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہاں سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کرسی پیش کی گئی ہو اور آپ نے اس پر بیٹھنے سے انکار کیا ہو۔تیسری بات یہ ہے کہ بعض صحابہ کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھے ۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں'حضرت ابو وائل الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جَلَسْتُ مَعَ شَیْبَةَ عَلَی الْکُرْسِیِّ فِی الْکَعْبَةِ فَقَالَ: لَقَدْ جَلَسَ ھٰذَا الْمَجْلِسَ عُمَرُ(١٧١)
''میں حضرت شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ العبدری کے ساتھ خانہ کعبہ میں موجود ایک کرسی پر بیٹھا تو انہوں نے کہا: اس جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے تھے''۔
اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانے میں ایسی کرسیاں نہیں تھیں جیسی آج کل ہیں' لیکن کرسی کا تصور تاریخ انسانی میں بہت پرانا چلا آرہا ہے ۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کا بھی تذکرہ ہے ۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق اوائل نبوت میں آپ نے جب حضرت جبرئیلعلیہ السلامکو دیکھا تھا تو وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔'لسان العرب' میں کرسی کی تعریف میں لکھا ہے: الذی نعرفہ من الکرسی فی للغة الشیء الذی یعتمد علیہ ویجلس علیہ یعنی کرسی کا لغت عرب میں جو معنی معروف ہے وہ یہ ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے اور جس پر بیٹھا جائے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منبرپر بیٹھنا صحیح روایات سے ثابت ہے ' آپ کے زمانے میں اصحابِ صفہ کے لیے ایک چبوترہ تھا جس پر وہ بیٹھا کرتے تھے ۔صحیح روایات کے مطابق حضرت عائشہ کے پاس ایک چارپائی تھی جس پر وہ سویا کرتی تھیں اور امام بخاری تو اپنی صحیح میں 'کتاب الاستئذان' کے تحت 'باب السریر' لے کر آئے ہیں۔ایک صحیح روایت کے مطابق آپ کے پاس بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں سے بنی ہوئی ایک چارپائی تھی جس پر بستر بھی بچھایا ہوا تھا۔(١٧٢)
ان سب روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ہر حال میں زمین پر نہیں بیٹھے تھے' بعض اوقات آپ نے زمین سے بلند چیزوں مثلاً چبوترہ' منبراورچارپائی وغیرہ کو بھی بیٹھنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔حاصل یہ ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ایک فعل کو خلافِ سنت یا خباثت کہہ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ فعل سنت سے ثابت ہوتا ہے۔
ایک ذاتی واقعہ
ایک دفعہ ایک جگہ راقم الحروف کو درس دینے کا اتفاق ہوا تو ایک صاحب کہنے لگے کہ ماشاء اللہ!آپ کا درس بہت عمدہ تھا لیکن اگر آپ کے کپڑے بھی سفید ہوتے تو سنت کی اتباع بھی ہو جاتی اور لوگ بھی آپ کی باتوں سے زیادہ متأثر ہوتے۔
یہ بات تو درست ہے کہ اگر واقعتا کسی جگہ سفید لباس یا عمامہ یا ٹوپی پہن کر جانے سے کسی مدرس کے سامعین اس کی باتوں کا اثر لیں گے تو اس چیز کا لحاظ رکھنا دین کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے ۔لیکن ہم پھریہی کہیں گے کہ اگر مقصود سامعین پر اپنی شخصیت کا اثر ڈالنا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو توجہ سے سنیں تو آپ کے بعض سامعین ایسے بھی ہوں گے کہ عمامہ یا سفید لباس پہننے کی بجائے آپ تھری پیس سوٹ میں ان سے خطاب کریں گے توآپ کی بات زیادہ توجہ سے سنیں گے اور ایک عام مولوی سمجھتے ہوئے آپ کو اجنبی نگاہ سے نہ دیکھیں گے ۔ جہاں تک دین کا معاملہ ہے تو یہ بات ثابت ہے کہ سفید لباس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا ہے اور اس کے پہننے کی ترغیب دی ہے 'لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفیدکے علاوہ رنگوں کے لباس بھی پہنتے تھے بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ ''حبرة''لباس پسند تھا ۔بعض شارحین بخاری نے اس کا ترجمہ دھار ی دار یمنی لباس جبکہ بعض علماء نے یمنی سبز چادر کیا ہے۔ (١٧٣)ہوا یہ کہ سفید لباس والی روایت تو نقل ہوئی اور لوگوں میں عام بھی ہو گئی لیکن دھاری دار یا سبز کپڑوں والی روایت عام نہ ہوئی 'جس سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ شایدصرف سفید لباس پہننا ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ضعیف و موضوع روایات کا درجہ
ضعیف اورموضوع روایت سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی ۔ البتہ ایک ضعیف روایت اگر 'حسن لغیرہ' کے درجے کو پہنچ جائے تو اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابت ہوتی ہے ۔ ایک صاحب ایک دفعہ دوران گفتگو فرمانے لگے کہ فجر کی نماز کے بعد سونا ممنوع ہے 'آپ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اس کی دلیل یہ روایت ہے :
((اِذَا صَلَّیْتُمُ الْفَجْرَ فَلَا تَنَامُوْا عَنْ طَلَبِ اَرْزَاقِکُمْ)) (١٧٤)
''جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنے رزق کو تلاش کرنے کی بجائے سو نہ جاؤ۔''
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت' ضعیف' ہے ۔علامہ البانی نے اس روایت کو 'ضعیف' کہا ہے (١٧٥)۔بعض اصحاب کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ضعیف ہے تو کیا ہے 'روایت تو ہے نا؟ضعیف کی محدثین نے سترہ کے قریب اقسام بیان کی ہیں اور ان میں سے ایک موضوع بھی ہے۔علماء نے اس مسئلے میں مستقل کتابیں اور مقالے لکھے ہیں کہ ضعیف حدیث دینی مسائل میں حجت نہیں ہے ۔ہم یہاں پر اس کے دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اتنی بات کہیں گے کہ اگر یہ حضرات ضعیف حدیث کی کتابوں میں موجود ضعیف روایات کو دیکھ لیں تو ان کو احساس ہو گا کہ مطلقاًضعیف روایات کو قبول کرنے کا اصول بنانے سے یہودیت ' عیسائیت ' ہندو مت اورا سلام کا ایک ملغوبہ تو وحدتِ ادیان کی شکل میں تیار ہو سکتا ہے لیکن اللہ کا وہ خالص دین جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیاگیا'اپنی اصل حالت میں برقر ار نہیں رہے گا۔جب یہ حضرات ضعیف احادیث کو قبول کرنے کا اصول بناتے ہیں تو پھرا نہیں وہ تمام ضعیف روایات بھی قبول کرنی پڑیں گی جو شرک و بدعات اور توہمات و خرافات کی تعلیمات پر مبنی ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کو قبول کر لیا جائے 'تو پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ کاش! یہ حضرات ضعیف حدیث پر مبنی کوئی کتاب اٹھاکر دیکھ لیتے تو انہیں احساس ہوتا کہ ضعیف حدیث کے نام پر کیسی کیسی بدعات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ائمہ سلف نے بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں صرف ضعیف یا موضوع روایات کو جمع کیا گیا ہے اور ہمارے نزدیک ان کتب کی تالیف میں ضعیف و موضوع روایات سے باخبر کرنے کے علاوہ مؤلفین کے پیش نظر ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ ضعیف و موضوع روایات سے ثابت ہونے والی خرافات کی ایک تصویر پیش کی جا سکے تا کہ صحیح احادیث سے ثابت شدہ دین اسلام اور اس دینِ خرافات کے زمین و آسمان جیسے فرق کو واضح کیاجائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر متذکرہ بالا ضعیف روایت کو بطور دلیل قبول بھی کر لیا جائے تو پھر بھی اس میں فجر کے بعد سونے کی نہی نہ تو حرمت کے لیے ہے 'اور نہ ہی کراہت کے لیے ہے بلکہ یہ ''ارشاد'' ہے' یعنی آپ اپنی اُمت سے حد درجہ محبت کی وجہ سے بعض اوقات ان کے دنیاوی معاملات میں بھی ان کو کوئی بات بطور مشورہ بیان کر دیتے تھے جس کا دین سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا۔لہٰذ ایہ حدیث بیانِ ا رشاد ہے نہ کہ بیانِ شرع۔
اس ساری بحث سے ہمارا مقصود قطعا ً یہ نہیں ہے ہم فجر کے بعد سونے کو پسند کرتے ہیں یا اس کے حامی ہیں ' ہمارے نزدیک فجر کے بعد سونا ایک ناپسندیدہ فعل ہے ' اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رات سونے کے لیے بنائی ہے نہ کہ دن'لیکن اگر کوئی شخص فجر کے بعد سونے کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی قرار دے گا تو ہمارے نزدیک یہ شخص ایک ایسی چیز کو سنت یا دین قرار دے رہا ہے جو سنت یا دین نہیں ہے 'اور ایسے شخص کا رد کرنا اور دین اسلام کو اس قسم کی آلائشوں سے پاک کرنا علماء کا بنیادی فریضہ ہے 'تاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی ایسی چیز کی نسبت نہ ہو جو انہوں نے نہ کہی تھی اور نہ اس کوچا ہا تھا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقاریر
تقریر سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی کام ہوا ہو اور آپ نے اس پر خاموشی اختیار کی ہو ۔آپ کا کسی کام کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا اس کے جواز کی علامت ہے۔محمد بن المنکدرفرماتے ہیں :
رَاَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللّٰہ عنہ یَحْلِفُ بِاللّٰہِ اَنَّ ابْنَ الصَّائِدِ الدَّجَّالُ' قُلْتُ : تَحْلِفُ بِاللّٰہِ؟ قَالَ اِنِّیْ سَمِعْتُ عُمَرَ یَحْلِفُ عَلٰی ذٰلِکَ عِنْدَ النَّبِیِّۖ فَلَمْ یُنْکِرْہُ النَّبِیُّ ۖ(١٧٦)
''میں نے حضرت جابربن عبد اللہ کودیکھاکہ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے۔ میں نے کہا کیا آپ اللہ کی قسم کھا کر یہ بات کہہ رہے ہیں ؟تو حضرت جابر نے کہا: میں نے حضرت عمر کو اس بات پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھاتے ہوئے دیکھا اور آپ نے حضرت عمر کاانکار نہیں کیا''۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ آپ کی تقریر کوحجت سمجھتے تھے۔بعض اوقات صحابہ کا اندازیہ ہوتاہے کہ ہم آپ کے زمانے میں یہ کام کرتے تھے اور آپۖ کو اس علم بھی ہوتا 'اگرچہ یہ کا م آپ کے سامنے نہیں ہو ا ہوتا 'یہ بھی آپ کی تقریر میں شامل ہے۔مثلاً:
کُنَّا نَعْزِلُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ فَبَلَغَ ذٰلِکَ نَبِیَّ اللّٰہِۖ فَلَمْ یَنْھَنَا(١٧٧)
''ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے اور آپۖ' کویہ بات معلوم بھی ہو گئی تھی لیکن آپ نے ہمیں منع نہیں فرما یا تھا''۔
کسی صحابی یا صحابہ کا عمل جو انہو ں نے آپ کے زمانے میں کیاہو 'لیکن آپ کے سامنے نہ کیا ہو اور نہ ہی آپ کو اس کی خبر دی گئی ہو' توکیاوہ بھی آپۖ کی تقریر میں شامل ہے ؟اس قسم کے اور مسائل میں بھی تفصیل ہے جو کہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں درج ہے ۔اُمت کے حق میں دین نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل یا تقریر و تصویب پر جمہور و جلیل القدر صحابہ' کا عمل تھا یا نہیں' اس کے لیے کتب احادیث' سیرت النبی' سیرتِ صحابہ اور تاریخ کی کتب سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
حاصل بحث
خلاصۂ کلام یہی ہے کہ ایک عامی شخص کا محض قرآن و سنت کے ترجموں سے کسی نئی فکر کا استوار کرنا یا کوئی نیا نظریہ قائم کرنا عصر حاضر کا ایک بہت بڑا فتنہ ہے جس میں کثیر لوگ مبتلا ہیں۔اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو ایسے فتنوں سے بچائے جو اُمت کو انتشارِ ذہنی کی طرف لے کر جانے والے ہوں اور لوگوں کے دلوں میں علمائے سلف اور علم دین کی قدر اور عظمت کا احساس پیدا کرے۔ آمین!
نوٹ:یہاں پر یہ مضمون مکمل ہوا۔ اب اس کے حواشی پیش کیے جائیں گے۔ لیکن ان حواشی کے بعد ایک اور قسط بھی پیش کی جائے گی ۔ یہ آخری قسط در اصل اس مضمون کے بارے ملنے والے متعدد سوالات کے جوابات اور اس نقطہ نظر کی مزید تفہیم وتشریح پر مشتمل ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
(١) سنن النسائی' کتاب مناسک الحج' باب التقاط الحصی۔
(٢) اقتضاء الصراط المستقیم: جلد١' ص ٣٢٧۔
(٣) المجموع: جلد٨' ص١٧١۔
(٤) صحیح النسائی: ٣٠٥٧۔
(٥) صحیح البخاری' کتاب العلم' باب کیف یقبض العلم۔
(٦) لسان العرب:باب س۔ن۔ن۔
(٧) تاج العروس: باب س۔ن۔ن۔
(٨) النھایة فی غریب الحدیث: باب السین مع النون۔
(٩) المفردات:باب س۔ن۔ن۔
(١٠) معجم مقاییس اللغة: باب س۔ن۔ن
(١١) اصول الفقہ السلامی: ص٤٥٠۔
(١٢) اصول الفقہ الاسلامی:ص٤٥٠۔
(١٣) الوجیز:ص٣٩۔
(١٤) الوجیز:ص٣٩۔
(١٥) اصول الفقہ الاسلامی:٧٨۔
(١٦) اصول الفقہ الاسلامی:٧٩۔
(١٧) الوجیز:ص٣٩۔
(١٨) علوم الحدیث فی ضوء تطبیقات المحدثین النقاد:ص١٥' ١٦۔
(١٩) الوجیز: ص١٦١' ١٦٢۔
(٢٠) سنن ابی داود' کتاب العلم' باب فی کتاب العلم۔
(٢١) فتح الباری' جلد١' س٢٥٠۔
(٢٢) صحیح ابی داود:٣٦٤٦۔
(٢٣) الوجیز:ص١٦٤' ١٦٥۔
(٢٤) المعجم الطبرانی' جلد ٥' ص١٤٠۔
(٢٥) مجمع الزوائد: جلد٩' ص٢٠۔
(٢٦) ھدایة الرواة:جلد ٥ ص٢٨٦۔
(٢٧) الشمائل المحمدیة:٢٩٤۔
(٢٨) صحیح البخاری' کتاب العلم'باب الانصات للعلمائ۔
(٢٩) شرح عقیدة طحاویة لابن ابی العز الحنفی متوفی ٩٧٢ھ' ص٣٠٣'٣٠٤۔
(٣٠) سنن الترمذی' کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللّٰہۖ' باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برأیہ۔
(٣١) ھدایة الرواة: جلد١'ص ١٥٨۔
(٣٢) فتاوی ابن الصلاح:٢٦۔
(٣٣) عمدة التفسیر: جلد١' ص٤٥۔
(٣٤) ضعیف الترمذی:٢٩٥٢۔
(٣٥) صحیح البخاری' کتاب الادب' باب من کفر أخاہ بغیر تأویل فھو کما قال۔
(٣٦) سنن ابی داود' کتاب الأدب' باب فی النھی عن البغی۔
(٣٧) صحیح ابی داود:٤٤٠١۔
(٣٨) عمدة التفسیر:جلد١' ص٥٢٢۔
(٣٩) سنن أبی داود' کتاب النکاح' باب ما یؤمر بہ من غض البصر۔
(٤٠) مجموع الفتاوی:جلد٢٢' ص١٢٨ ۔
(٤١) صحیح ابی داود:٢١٤٨۔
(٤٢) اصول فقہ پر ایک نظر:ص٢٠۔
(٤٣) صحیح البخاری' کتاب الصلاة' باب ذا دخل أحدکم المسجد فلیرکع رکعتین قبل أن یجلس۔
(٤٤) فتح الباری مع صحیح البخاری' کتاب الصلاة' باب ذا دخل أحدکم المسجد فلیرکع رکعتین قبل أن یجلس۔
(٤٥) صحیح البخاری' کتاب اللباس' باب الخضاب۔
(٤٦) فتح الباری مع صحیح البخاری' کتاب اللباس' باب الخضاب۔
(٤٧) صحیح البخاری' کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة' باب نھی النبی علی التحریم لا ما تعرف اباحتہ۔
(٤٨) فتح الباری مع صحیح البخاری۔
(٤٩) صحیح البخاری'کتاب أحادیث الأنبیائ' باب ما ذکر عن بنی اسرائیل۔
(٥٠) فتح الباری مع صحیح البخاری'کتاب أحادیث الأنبیائ' باب ما ذکر عن بنی اسرائیل۔
(٥١) الوجیز: ص٤٨۔
(٥٢) صحیح مسلم' کتاب اللباس والزینة' باب استحباب لبس النعل فی الیمنی اولاً والخلع من الیسریٰ۔
(٥٣) شرح النووی مع صحیح مسلم' کتاب اللباس والزینة' باب استحباب لبس النعل فی الیمنی اولاً۔
(٥٤) صحیح البخاری' کتاب التمنی' باب کراھیة التمنی لقاء العدو۔
(٥٥) الوجیز:ص٥٤۔
(٥٦) صحیح مسلم' کتاب النکاح' باب تحریم الخطبة علی خطبة اخیہ حتی یاذن او یترک۔
(٥٧) شرح النووی مع صحیح مسلم' کتاب النکاح' باب تحریم الخطبة علی خطبة اخیہ حتی یاذن او یترک۔
(٥٨) اصول فقہ پر ایک نظر ' ص ٢٩۔
(٥٩) صحیح مسلم' کتاب الحیض' باب الوضوء مما مست النار۔
(٦٠) سنن الترمذی' کتاب الطھارة عن رسول اللہۖ' باب ما جاء فی الوضوء مما غیرت النار۔
(٦١) صحیح الترمذی: ٧٩۔
(٦٢) شرح سنن الترمذی' ج١' ص ١٤٤۔
(٦٣) سنن النسائی' کتاب الطھارة' باب ترک الوضوء مما غیرت النار۔
(٦٤) المجموع' ج٢' ص ٥٦۔
(٦٥) موافقة الخبر الخبر: جلد٢' ص٢٧٣۔
(٦٦) البدر المنیر:جلد٢' ص٤١٢۔
(٦٧) شرح معانی الآثار: جلد١' ص٦٧۔
(٦٨) المحلی: جلد١' ص٢٤٣۔
(٦٩) المغنی: جلد١' ص٢٥۔
(٧٠) صحیح مسلم' کتاب الفضائل' باب وجوب امتثال ما قالہ شرعا دون ما ذکرہ من معایش۔
(٧١) سنن ابی داود' کتاب الطلاق' باب فی المملوکة تعتق وھی تحت حر او عبد۔
(٧٢) المحلی: جلد٩' ص٢٣٤۔
(٧٣) مجموع الفتاویٰ : جلد١' ص٣١٧۔
(٧٤) صحیح ابی داود:٢٢٣١۔
(٧٥) مسند احمد' جلد٣' ص٢٥٤۔
(٧٦) صحیح البخاری' کتاب الشھادات' باب من اقام البینة بعد الیمین۔وصحیح مسلم' کتاب الاقضیة' باب الحکم بالظاھر واللحن بالحجة۔
(٧٧) صحیح البخاری' کتاب الاضاحی' باب قول النبیۖ لابی بردة ضح بالجذع من المعز۔وصحیح مسلم' کتاب الاضاحی' باب وقتھا۔
(٧٨) صحیح مسلم' کتاب الرضاع' باب رضاعة الکبیر۔
(٧٩) سنن ابی داود' کتاب النکاح' باب فیمن حرم بہ ۔
(٨٠) صحیح ابی داود: ٢٠٦١۔
(٨١) صحیح مسلم' کتاب اللباس والزینة' باب النھی عن الجلوس فی الطرقات واعطاء الطریق حقہ۔
(٨٢) صحیح مسلم' کتاب الاضاحی' باب بیان ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی۔
(٨٣) صحیح مسلم' کتاب الاضاحی' باب بیان ما کان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی۔
(٨٤) سنن الترمذی' کتاب الطلاق واللعان عن رسول اللہۖ ' باب ماجاء فی الرجل یسالہ ابوہ ان یطلق زوجتہ۔
(٨٥) سنن الترمذی: ١١٨٩۔
(٨٦) عارضة الاحوذی' ج٣' ص ١٣٥۔
(٨٧) صحیح الترمذی: ١١٨٩۔
(٨٨) مسند احمد' ج٧' ص ١٣٢۔
(٨٩) مسند احمد: ٤٤٨١۔
(٩٠) مصنف ابن ابی شیبة'ج٤' ص ١٧٣۔
(٩١) صحیح ابن حبان' جلد٢' ص١٦٧۔
(٩٢) صحیح الترغیب:٢٤٨٦۔
(٩٣) فتاوی الأزھر' جلد ٩' ص٤٣٩۔
(٩٤) فتاوی الجنة الدائمة' جلد٢٠' ص٣٢۔
(٩٥) صحیح البخاری' کتاب اللباس' باب تقلیم الأظافر۔
(٩٦) صحیح مسلم' کتاب الصلاة' باب خروج النساء الی المساجد اذا لم یترتب علیہ الفتنة۔
(٩٧) صحیح البخاری' کتاب الجمعة' باب ھل علی من لم یشھد الجمعة غسل من النساء والصبیان۔
(٩٨) صحیح البخاری' کتاب الاذان' باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس۔
(٩٩) صحیح مسلم' کتاب الصلاة' باب خروج النساء الی المساجد اذا لم یترتب علی الفتنة۔
(١٠٠) صحیح البخاری' کتاب تفسیر القرآن' باب قولہ وقاتلوھم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین للّٰہ۔
(١٠١) صحیح مسلم' کتاب الجھاد والسیر' باب المبادرة بالغزو وتقدیم اھم الامرین المتعارضین۔
(١٠٢) صحیح البخاری' کتاب الصلح' باب کیف یکتب ھذا ما صالح فلان بن فلان وفلان بن فلان۔
(١٠٣) الوجیز' ص ١٦٥۔
(١٠٤) علوم الحدیث فی ضوء تطبیقات المحدثین النقاد' ص ١٥'١٦۔
(١٠٥) الوجیز' ص ١٦٥۔
(١٠٦) الاحکام فی اصول الاحکام' جلد١' ص٢٢٧' ٢٢٨۔
(١٠٧) الوجیز' ص٧٤۔
(١٠٨) مجموع الفتاویٰ'ج١' ص٢٨٠۔
(١٠٩) مجموع الفتاوی:جلد١' ص٢٨٠۔
(١١٠) سنن البیہقی الکبری' جلد٥' ص١٥٣۔
(١١١) صحیح ابی داود:١٨٧٨۔ وصحیح ابن ماجہ:٢٤٠٢۔
(١١٢) الالمام' ج١' ص ١٩٠۔
(١١٣) عارضة الاحوذی' ج٢' ص ٢٩٤۔
(١١٤) علامہ احمد العدوی' اصول فی البدع والسنن:ص٥٦۔
(١١٥) صحیح البخاری' کتاب الأطعمة' باب الشوائ۔
(١١٦) صحیح مسلم' کتاب المساجد ومواضع الصلاة' باب نھی من أکل ثوما أو بصلا أو کراثا أو نحوھا…۔
(١١٧) صحیح البخاری' کتاب اللباس' باب البرانس۔
(١١٨) صحیح البخاری' کتاب الصلاة' باب عقد الزار علی القفا فی الصلاة۔
(١١٩) صحیح البخاری' کتاب الصلاة' باب ذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیہ۔
(١٢٠) صحیح البخاری' کتاب الصلاة' باب الصلاة فی القمیص والسراویل والتبان والقبائ۔
(١٢١) فتاویٰ اللجنة الدائمة: ج١٤'ص ٤٣۔ (١٢٢) فتاویٰ اللجنة الدائمة: ج١٤' ص٤٤۔
(١٢٣) صحیح البخاری' کتاب الصوم' باب الوصال…
(١٢٤) صحیح البخاری' کتاب مواقیت الصلاة' باب ما یصلی بعد العصر من القوائت ونحوھا۔
(١٢٥) صحیح البخاری' کتاب الحج' باب الطواف بعد الصبح والعصر۔
(١٢٦) صحیح البخاری' کتاب الجمعة' باب اذا کلم وھو یصلی فاشار بیدہ واستمع۔
(١٢٧) صحیح البخاری' کتاب مواقیت الصلاة' باب لا تتحری الصلاة قبل غروب الشمس۔
(١٢٨) الاحکام' جلد١' ص٢٢٨۔
(١٢٩) صحیح البخاری' کتاب الاذان' باب الاذان للمسافر…
(١٣٠) صحیح الجامع الصغیر: ٧٨٨٢۔ وسنن النسائی' کتاب مناسک الحج' باب الرکوب الی الجمار…
(١٣١) صحیح بخاری' کتاب الصلاة' باب ذا حمل جاریة صغیرة علی عنقہ فی الصلاة۔
(١٣٢) صحیح مسلم' کتاب المساجد ومواضع الصلاة' باب جواز حمل الصبیان فی الصلاة۔
(١٣٣) سنن البیہقی الکبری' جلد٥' ص١٥٣۔
(١٣٤) صحیح مسلم' کتاب الحج' باب استحباب النزول بالمحصب یوم النفر والصلاة بہ۔
(١٣٥) صحیح مسلم' کتاب الحج' باب استحباب النزول بالمحصب یوم النفر والصلاة بہ۔
(١٣٦) صحیح البخاری' کتاب اللباس' باب ینزع نعلہ الیسریٰ' ح ٥٤٠٧۔
(١٣٧) الحکام' جلد١' ص٢٢٨۔
(١٣٨) الحکام' جلد١' ص٢٢٨'٢٢٩۔
(١٣٩) صحیح مسلم' کتاب الصیام' باب صحة صوم من طلع علیہ الفجر و ھو جنب۔
(١٤٠) الاحکام' جلد١' ص٢٢٩۔
(١٤١) الوجیز:ص١٦٥۔
(١٤٢) اصول فی البدع و السنن:ص٥٦۔
(١٤٣) احکام القرآن' جلد١' ص٣٩١۔
(١٤٤) صحیح مسلم' کتاب صلاة المسافرین وقصرھا' باب جواز الانصراف من الصلاة عن الیمین والشمال۔
(١٤٥) صحیح مسلم' کتاب صلاة المسافرین وقصرھا' باب جواز الانصراف من الصلاة عن الیمین والشمال۔
(١٤٦) سنن النسائی' کتاب السھو' باب الانصراف من الصلاة۔
(١٤٧) صحیح البخاری' کتاب الاشربة' باب الشرف قائمًا۔
(١٤٨) موطأ مالک' کتاب الجامع' باب ما جاء فی شرب الرجل۔
(١٤٩) سنن الترمذی' کتاب الاشربة عن رسول اللّٰہۖ' باب ما جاء فی الرخصة فی الشرف قائمًا۔
(١٥٠) صحیح الترمذی:١٨٨٠۔
(١٥١) ہدایة الرواة' ج٤' ص ١٨٠۔
(١٥٢) سنن الترمذی' کتاب الاشربة عن رسول اللّٰہۖ' باب ما جاء فی الرخصة فی الشرف قائمًا۔
(١٥٣) صحیح البخاری' کتاب الجمعة' باب من اتی مسجد قباء کل سبت۔
(١٥٤) صحیح مسلم' کتاب صلاة المسافرین وقصرھا' باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح۔
(١٥٥) صحیح مسلم' کتاب صلاة المسافرین وقصرھا' باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح۔
(١٥٦) صحیح البخاری' کتاب صلاة التراویح' باب فضل من قام رمضان۔
(١٥٧) صحیح البخاری' کتاب الاذان' باب وجوب صلاة الجماعة۔
(١٥٨) صحیح مسلم' کتاب الحج' باب استحباب الرمل فی الطواف والعمرة۔
(١٥٩) شرح النووی علی صحیح مسلم' کتاب الحج' باب استحباب الرمل فی الطواف والعمرة۔
(١٦٠) صحیح البخاری' کتاب الصوم' باب سواک الرطب والیابس للصائم۔
(١٦١) ارواء الغلیل' جلد١' ص١٠٤۔
(١٦٢) طرح التثریب:جلد٢' ص٦٨۔
(١٦٣) الدرایة' جلد١' ص ١٨۔
(١٦٤) فتاویٰ' جلد٨' ص٢٣٧١۔
(١٦٥) صحیح البخاری' کتاب الجمعة' باب السواک یوم الجمعة۔ وسنن الترمذی' کتاب الطھارة عن رسول اللّٰہۖ' باب ما جاء فی السواک۔
(١٦٦) مسند احمد:٢٣٩٣۔ (١٦٧) مسند احمد' ج٥' ص ١٣٥۔
(١٦٨) سنن الترمذی' کتاب الصوم عن رسول اللّٰہۖ' باب صیام المتطوع بغیر تبییت۔
(١٦٩) صحیح الترمذی: ٧٣٤۔
(١٧٠) صحیح البخاری' کتاب المغازی' باب حجة الوداع۔
(١٧١) صحیح البخاری' کتاب الحج' باب کسوة الکعبة۔
(١٧٢) صحیح البخاری' کتاب المغازی' باب غزوة اوطاس۔
(١٧٣) صحیح البخاری' کتاب اللباس' باب البرود والحبر الشملة۔
(١٧٤) فیض القدیر' جلد١' ص٣٩٤' المکتبة التجاریة الکبری' مصر-
(١٧٥) ضعیف الجامع:٥٧٣۔
(١٧٦) صحیح بخاری' کتاب الاعتصام بالکتاب و السنة ' باب من رأی ترک النکیر من النبیۖ حجة لا من غیر الرسول۔
(١٧٧) صحیح مسلم' کتاب النکاح ' باب حکم العزل۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سہ ماہی حکمت قرآن کے گزشتہ دوشماروں بابت اپریل تا جون ٢٠٠٨ء اور جولائی تا ستمبر ٢٠٠٨ء میں 'اہل سُنّت کا تصور سُنّت' کے نام سے ہمارا ایک مضمون دو قسطوں میں شائع ہوا'جس میں اہل سُنّت کے متوازن و معتدل تصورِ سُنّت کو قرآن و سُنّت اور ائمہ سلف کی آراء کی روشنی میں اجاگر کیا گیاتھا۔بہت سے دوست و احباب نے اس مضمون کو سراہا اور بعض شائقین علم کی طرف سے کچھ سوالات بھی موصول ہوئے۔عام طور پر یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ چونکہ پاکستان میں حنفی مسلک کی اکثریت ہے لہٰذااہل سُنّت کے تصور سُنّت کے بیان میں فقہ حنفی کے متقدمین علماء کے حوالہ جات کو بھی کثرت سے پیش کیا جائے۔ ذیل میں ہم موصول ہونے والے اشکالات و سوالات کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ائمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں ان کا جواب واضح کر رہے ہیں ۔ممکن حد تک کوشش کی جائے گی کہ قارئین کو اس مضمون میںحنفی فقہاء کی تحقیقات سے زیادہ سے زیادہ روشناس کرایا جائے۔ طوالت کے پیش نظر اکثر مقامات پر صرف تراجم پر اکتفا کیا گیا ہے'اگرچہ ایک تحقیقی مضمون کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ اس میں متن کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ اس مضمون کے مطالعہ کے دوران یہ واضح رہے کہ سنت کی یہ بحث سنت سے متعلق بعض انتہا پسندانہ نظریات کے تناظر میں لکھی گئی ہے جن کی طرف ہم نے سابقہ دو اقساط میں اشارے کیے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ اس مضمون کی تفہیم زیادہ مناسب اور صحیح رہے گی۔​
سوال:'سُنّت' کا لغوی مفہوم بیان کریں اور یہ بھی واضح کریں کہ عربی ادب میں لفظ 'سُنّت' کس معنی میں استعمال ہو اہے؟
جواب:ابن عادل الحنبلی (متوفی٨٦٠ھ) لکھتے ہیں:
والسنن جمع سنة و ھی الطریقة التی یکون علیھا الانسان و یلازمھا و منہ سنة الأنبیاء قال خالد الھذلی لخالہ أبی ذؤیب:
فلا تجزعن من سنة أنت سرتھا
فأول راض سنة من یسیرھا

و قال آخر:
و ان الألی بالطف من آل ھاشم
تأسوا فسنوا للکرام التآسیا

و قال لبید:
من أمة سُنّت لھم آباؤھم
و لکل قوم سنة و امامھا

و قال المفضل: ''السنة الأمة'' وأنشد:
ما عاین الناس من فضل کفضلکم
ولا رأوا مثلکم فی سالف السنن

و لا دلیل فیہ لاحتمال أن یکون معناہ أھل السنن قال الخلیل سنّ الشیء بمعنی صوّرہ ومنہ من حمأ مسنون أی مصور و قیل: سنّ الماء و الدرع اذا صبھما و قولہ: من حمأ مسنون یجوز أن یکون منہ و لکن نسبة الصب الی الطین بعیدة و قیل: مسنون أی متغیر و قال بعض أھل اللغة: ھی من سن الماء یسنہ اذا والی صبہ و السن: صب الماء و العرق نحوھما و أنشد لزھیر:
نعودھا الطراد کل یوم
تسن علی سنابکھا القرون

أی یصب علیھا من العرق شبہ الطریقة بالماء المصبوب فانہ یتوالی جری الماء فیہ علی نھج واحد فالسنة بمعنی: مفعول کالغرفة۔و قیل اشتقاقھا من سننت النصل أسنہ سنا اذا جددتہ علی المسن و المعنی الطریقة الحسنة یعتنی بھا کما یعتنی بالنصل و نحوہ۔و قیل من سن الابل اذا أحسن رعایتھا و المعنی: أن صاحب السنة یقوم علی أصحابہ کما یقوم الراعی علی ابلہ و الفعل الذی سنہ النبیۖ سمی سنة بمعنی: أنہ ۖ أحسن رعایتہ و ادامتہ(١)
''لفظ سنن 'سُنّت 'کی جمع ہے اور 'سُنّت 'سے مراد وہ طریقہ ہے جس پر انسان چلتا ہے اور اس کو لازم پکڑ لیتا ہے ۔اسی معنی میں 'سنة الأنبیاء' یعنی ''انبیاء کا طریقہ'' کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ایک شاعر خالد الہذلی نے اپنے ماموں ابو ذؤیب کے بارے میں کہا ہے :
''جس رستے پر تو چل پڑے تو پھر اس پر گھبراہٹ محسوس نہ کر' کیونکہ سب سے پہلا شخص جو کسی رستے سے راضی ہوتا ہے وہ وہی ہوتا ہو جو اُس پر چلنے والا ہو''۔
ایک اور شاعر نے کہا ہے:
''آل ہاشم کے وہ لوگ جو 'طف' نامی مقام میں ہیں'انہوں نے صبر کیا ہے اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہوئے باعزت لوگوں کے لیے(صبر کا) ایک طریقہ چھوڑا ہے''۔
لبید کا شعر ہے:
''وہ لوگ ایک ایسی قوم میں سے ہیں جن کے لیے ان کے آباء واجداد نے ایک طریقہ چھوڑا ہے اور ہر قوم کا ایک طریقہ اور اس کا کوئی امام ہوتا ہے''۔
'مفضل 'نے کہاہے کہ 'سُنّت' سے مراد 'امت' ہے اور اس نے دلیل کے طور پر یہ شعر پڑھاہے:
''لوگوں نے تمہاری بزرگی جیسی بزرگی کسی میں نہیں پائی اور پچھلی اقوام میں تمہاری قوم جیسی قوم نہیں دیکھی''۔
اس میں'سُنّت' کا معنی 'قوم' لینے میں کوئی دلیل نہیں ہے 'کیونکہ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ 'سنن' سے مراد 'اہل سنن' ہوں۔امام خلیل کاکہناہے کہ 'سنّ الشیئ' کا معنی کسی شے کی صورت بنانا ہے اور 'حما مسنون ' کا لفظ بھی اسی سے ہے 'جس کا معنی 'صورت دیا گیا کیچڑ' ہے۔ایک قول یہ بھی ہے کہ 'سن الماء و الدرع' اس وقت کہاجاتاہے جبکہ ان کو انڈیل دیا جائے اور 'حمأ مسنون' کااس سے ہونا ممکن ہے 'لیکن انڈیلنے کی مٹی کی طرف نسبت بعید ہے۔ایک قول یہ بھی ہے کہ 'مسنون'سے مراد 'متغیر' ہے۔بعض اہل لغت کاکہنا ہے: یہ لفظ 'سنّ الماء' سے ہے 'یعنی جب کوئی شخص مسلسل پانی انڈیلتارہے۔پس 'سن' کا بنیادی معنی پانی اور پسینہ وغیرہ انڈیلناہے۔زہیر کا شعر ہے:
''ہم ان گھوڑوں کو دشمن کا سامنا کرنے کے لیے روزانہ تیار کرتے ہیں اور ان کے کھروں پر ان کا پسینہ بہایا جاتا ہے''۔
یعنی ان پر پسینہ بہایا جاتا ہے ۔اس شعر میں رستے کو انڈیلے ہوئے پانی سے تشبیہہ دی گئی ہے 'کیونکہ انڈیلے ہوئے پانی میں پانی کا بہنا مسلسل ایک ہی نہج پر ہوتا ہے۔پس 'سُنّت' کالفظ 'اسم مفعول' کے معنی میں ہے جیسا کہ 'غرفة' کا لفظ ہے۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ سُنّت کا لفظ 'سننتُ النصل' سے ہے 'یعنی میں نے چاقو کے پھل کو تیز کیا۔یعنی جب میں نے اس کو کسی سان پر تیز کیا ہو۔اور 'سُنّت' سے مراد اچھا طریقہ ہو گا کہ جس کا اہتمام کیا جائے 'جیسا کہ چاقو کے پھل کی پرواہ وغیرہ کی جاتی ہے۔ایک قول یہ بھی ہے کہ 'سُنّت' کا لفظ 'سنّ الابل' سے ماخوذ ہے 'یعنی انٹوں کی اچھی طرح نگہبانی کرنا اور' سُنّت' کا معنی یہ ہو گا کہ صاحب سُنّت کی حیثیت اپنی قوم کی نگرانی میں ایسی ہی ہو گی جیسا کہ ایک چرواہا اپنے اونٹوں کی نگہبانی کرتا ہے۔ اور جس کام کو اللہ کے رسولۖ نے جاری کیا اس کو 'سُنّت' کا نام اس لیے دیاگیاہے کہ آپۖ نے اس کام کی اچھی طرح نگہبانی کی اور اس کو دوام بخشا''۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top