اختلاف کی تیسری قسم
3. الخلاف المعتبر أو خلاف الفهم والاجتهاد( جائز اختلاف یا فہم و اجتہاد کا اختلاف)
تعریف: وہ اختلاف جو ان اشخاص کی طرف سے ہو جن کے اندر مندرجہ ذیل تین صفات پائی جاتی ہوں۔
1.
اجتہاد کی اہلیت:یعنی اختلاف کرنے والے فریقین میں مجتہد کے وہ سارے شرائط موجود ہوں جن پر اہل سنت والجماعت کو اتفاق ہے ۔
2. ا
صول کی صحت:یعنی اصول دین ، اصول عقیدہ ، اور اصول فقہ و استنباط میں وہ اہل سنت والجماعت کے منہج پر ہوں۔
3.
مصادر کی صحت:یعنی جو فتویٰ یا حکم اس مجتہد نے صادر کیا ہے اس کی بنیاد ان مصادر پرہو جن پر اہل سنت والجماعت اعتبار کرتے ہیں ۔ یعنی قرآن ، سنت اور اجماع، لہذا مجتہد اجماع کی مخالفت نہ کررہا ہو، نہ کسی ایسی نص کی مخالفت کررہا ہو جس کا معنی و مفہوم اس طرح متفق علیہ ہے اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ۔ اور اس کا اجتہاد فقہ کے معتبر اصولوں پر مبنی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کا یہ فتویٰ محض مصلحت کی بنا پر یا بہتر نتائج کی امید پر دیا گیا ہویا فتوی سے محض کسی دینی پاپندی سے چھٹکارا حاصل کرنا مقصود ہو ، یا فتویٰ محض سہولت پیدا کرنےیا مشقت سے بچنے کے لیے دیا گیا ہو۔ یا اسی طرح کی دوسری وجوہات۔
مثال:جیسے بنی قریظہ میں عصر کی نما زپڑھنے کےحکم کے متعلق صحابہ کا اختلاف ، جہری نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قرات کے بارے میں علماء کا اختلاف ، عورت کے چہرہ کے پردہ کے واجب ہونے کے بارے میں علماء کا اختلاف وغیرہ
قاعدہ:
• ایسے اختلاف کے بارے میں ہمارا اصول ہے
نبين ولا نضلل، نصحح ولا نجرح،یعنی ہم وضاحت کریں گے لیکن گمراہ نہیں قرار دیں گے ، اور ہم تصحیح کریں گے لیکن جرح نہیں کریں گے ۔ یعنی ہر فریق، فریق مخالف کی خطا کو تو واضح کرنے کی کوشش کرے گا لیکن فریق ثانی کو اپنے موقف کے اختیار کرنے سے منع کرنے کا حق کسی کو نہیں ، کیونکہ منع منکر کام سے جاتا ہے ۔ اور سلف کا مذہب یہی رہا ہے کہ جس مجتہد میں مذکورہ شرائط موجود ہو اس کو اپنے موقف کے اختیار کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔
• اس قسم کے اختلاف میں ہر فریق، فریق ثانی کو معذو ر سمجھے گا۔ گرچہ اختلاف کا تعلق عقیدہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ ( عقیدہ میں اختلاف سے مراد جب اختلاف کا تعلق اصول عقیدہ یا ضروریات دین سے نہ ہو ، بلکہ اختلاف عقیدہ کے فروعی مسائل میں واقع ہوا ہو ، جیسے یہ اختلاف کہ اللہ نے پہلے عرش کو پیدا کیا یا قلم کو؟ یا اسی قسم کے اختلافات جن سے کسی فریق کا کافر یا فاسق ہوجانا لازم نہیں آتا۔)
• اس قسم کا اختلاف اس وقت تک جائز اختلافات کی قسم میں شمار کیا جائے گے جب تک مختلف فیہ مسئلہ میں واضح نص نہ مل جائے ، ایسی نص جس سے مسئلہ پوری طرح واضح ہوجائے ۔
• ایسے اختلافات میں کسی فریق کا اپنی رائے ترک کردینے میں بھی کوئی حرج نہیں ، اپنے سے زیادہ علم یا فضیلت رکھنے والے کے اجتہاد پر اعتبار کرتے ہوئے ، یا مسلمانوں کے اتحاد اور مصلحت کے پیش نظریا تالیف قلوب کے لیے یا کسی بڑے فساد سے بچنے کے لیے ۔
موقف:
طالب علم کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے اختلافات میں دلائل کی قوت کو دیکھ کر فیصلہ کرے اور جس کی دلیل قوی معلوم ہو اس کے موقف کو ترجیح دے ۔
اور عامی جو دلائل کی قوت جانچنے سے محروم ہے اس کو چاہیے کہ اس قسم کے اختلاف کی صورت میں وہ دو فتووں میں سے اس فتویٰ کی پیروی کرے جس پر اس کا دل مطمئن ہو۔ دل کا یہ اطمینان مختلف اسباب کی بنا پر ہوسکتا ہے ۔ جیسے دو علماء کے درمیان اختلاف کی صورت میں اس عالم کی بات مان لے جو زیادہ علم والا ہے ، یا اس عالم کی بات مان لے جو زیادہ متقی ہے ،یا وہ عمل اختیار کرلے جس میں زیادہ احتیاط ہے ، یا اس موقف کی اتباع کرے جس پر زیادہ علماء نے فتویٰ دیا ہو، یا اس عالم کی بات مان لے اس مسئلہ میں متخصص ہو۔ ان میں سے جس صورت میں بھی عامی کا دل مطمئن ہوجائے اس کےلیے اس کا اختیار کرلینا جائز ہے ۔