• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل مغرب کی اندھی تقلید !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
مغرب کی تقلید اور نوجوان نسل

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

کسی بھی معاشرے کی بنیاد اس کے نظریات اور افکار پر ہوتی ہے۔ نظریے سے مراد کسی تہذیبی، سیاسی یا معاشرتی لائحہ عمل سے ہے جو کسی بھی قوم کا مشترکہ نصب العین ہو، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظریہ ہی وہ بنیاد اور ستون ہے جسے وسعت دے کر قومیں پروان چڑھتی ہیں اور قومی زندگی کا نظام وجود میں آتا ہے۔ اگر عقیدے اور نظریے کی اہمیت نہ ہو تو کوئی بھی قوم اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہوسکتی۔ قانون بھی اسی کے زیر سایہ پروان چڑھتے ہیں اور سیاسی سرگرمیاں بھی اسی سے ہم رشتہ ہوکر رہتی ہیں۔ ہمارے دین اسلام نے جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ہماری زندگی کے ہر ہر پہلو کے متعلق رہنمائی کی ہے۔ جب نظریات و افکار کی جڑیں کمزور ہونے لگیں تو مغربی افکار و تہذیب ان کی جگہ لینے لگتے ہیں، اور عام مشاہدہ ہے کہ اس صورت حال میں نوجوان نسل تقلید میں سب سے آگے رہتی ہے۔ آج ہمارے ملک میں مغربی افکار کے اثرات تیزی سے نمایاں ہورہے ہیں۔ پہلے جن افعال کو اسلامی تعلیمات کی رو سے معیوب سمجھا جاتا تھا اب وہ برائی، برائی محسوس نہیں ہوتی، اور انہیں وہ تمام خیالات پرانے اور دقیانوسی معلوم ہوتے ہیں جو کبھی مسلم تہذیب کا خاصا تھے۔ انہیں جدیدیت اور روشن خیالی کے نام پر اس دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے جس میں گرنے کے بعد انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو مقصدِ زندگی سے ہٹاکر ''کھا لے، پی لے، جی لے'' کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اگر ہم اپنے قومی نظام تعلیم کو نظریہ اسلام سے ہم آہنگ کردیں تو اس کے ذریعے مغربی تقلید کے اثرات کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں۔ کاش کہ ہماری نوجوان نسل میں اس امر کا شعور پیدا ہوکہ مغربی تقلید ان کے معاشرے میں بھی انہی برائیوں کا باعث بن رہی ہے جس میں آج مغربی معاشرہ خود مبتلا ہے۔ مسلم ممالک میں بے عملی اور اخلاقی تباہی دشمنانِ اسلام و پاکستان کی سوچی سمجھی سازش ہے۔

اجاڑا ہے تمیز ملت و آئین نے قوموں کو
میرے اہلِ وطن کے دل میں کچھ فکرِ وطن بھی ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
غیر مسلموں کی تقلید اور مسلم خواتین

اللہ ربّ العزت نے دین اسلام میں عورتوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا ہے کیونکہ ایک عورت کی وجہ سے پوراگھرانہ راہ راست پر آسکتاہے۔ لیکن موجودہ دور میں عورت کی دین اسلام سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لاعلمی کی وجہ سے عورتیں، بے حیائی ، بے پردگی اور فحاشی جیسے خطرناک گناہوں میں مردوں کی نسبت زیادہ ملوث ہیں۔ موجودہ معاشرے میں عورتوں میں بڑی برائی بے پردگی اور فحاشی ہے۔ عورتیں بغیرے پردے کے بازاروں ، دفتروں ، ہسپتالوں اور بینکوں میں موجود ہیں۔ آج عورتیں کرکٹ کے میدانوں اور میرج ہالوں میں بھی موجود ہیں اور ہندو عورتوں کی نقالی کر رہی ہیں۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''

من تشبہ بقومٍ فہو منہم''(سنن ابی داؤد، باب فی لبس الشھرۃ رقم الحدیث :4031)
''جو کوئی دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔''

شادی بیاہ کی رسومات ، مہندی،مایوں،ابٹن، جہیز، بری،بارات گانا بجانا، بسنت کا تہوار اور ویلنٹائن ڈے کیا یہ ہندؤں کی رسمیں نہیں ہیں؟ اور کیا یہ ہندؤں کی نقالی نہیں ہے؟ آج مسلمان عورتیں بے پردہ ہوکر ہوٹلوں اور بازاروں میں پھرتی ہیں ۔ بغیر کسی مجبوری کے شوقیہ ملازمت کرتی ہیں۔ کرکٹ کے میدانوں میں جاتی ہیں جہاں درمیانی نشستیں عورتوں کے لیے مخصوص کردی جاتی ہیں۔(تاکہ اردگرد والے بھی نظارہ کرسکیں)۔

ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہندؤں کی تمام رسمیں دھرائی جاتی ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر منائی جاتی ہیں۔ بسنت کا تہوار ہندؤں سے بڑھ کر مناتے ہیں۔ مردوزن، زرد لباس جوکہ ہندؤں کا مخصوص لباس ہے، پہنتے ہیں۔ ہندؤں کا لباس زیب تن کرنا، دعوت نامے بھیجنا، تحفے بھیجنا۔ کیا یہ ہندؤں کی نقالی نہیں ہے؟اگر کوئی منع کرے تو جواز پیش کرتی ہیں۔
حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
''تحفے بھیجو، آپس میں محبت بڑھتی ہے۔''
کیا یہ دین اسلام کے بارے میں لاعلمی او رکم عقلی نہیں ہے۔ کیا یہ دین اسلام سے ناآشنائی نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار کو عقیدت اور جوش وخروش سے منایا جائے۔

بسنت والے تو یہ بھی نہیں جانتے کہ بسنت کے بعد اخبارات خبروں سے بھرے ہوئے ہیں کہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تیسری منزل سے پتنگ بازی کرتے ہوئے گر کر ہلاک ہوگیا ہے یا پتنگ اتارنے کیلئے لڑکے بجلی کی تاروں پر چڑھنے سے کرنٹ لگنے سے مرگئے۔ اللہ تبارک وتعالی انہیں اس دنیا میں اپنے کیے کی سزا دیتے ہیں لیکن ان میں اتنا شعور بھی نہیں ہوتا کہ وہ سمجھ سکیں کہ یہ اپنے کیے کی سزا ہے اور اللہ کی طرف سے پکڑ ہے۔ انہیں یہ یا دہی نہیں رہتا کہ یہ غیر مسلموں کی نقالی ہے جو اسلام میںمنع ہے۔

قرآن ہمیں پردے کا حکم دیتاہے ۔ نامحرم کے سامنے سجنے سنورنے اور بے پردہ ہونے سے منع کرتا ہے۔
جیسے کہ قرآن مجید میں سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوتاہے۔
{وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الأولی فأقمن الصلاۃ وآتین الزکاۃ وأطعن اللہ ورسولہ}(سورۃ الاحزاب:۳۳)

''اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور پہلی جاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔''
ادھر قرآن یہ حکم دیتاہے کہ اپنے گھروں میں قرار پکڑو لیکن آج موجودہ معاشرے میں اسلامی ملک میں اس کے برعکس کام ہورہا ہے۔ہر طرف آزادی نسواں ، آزادی نسواں کے نعرے لگ رہے ہیں ۔

ارشاد ربانی ہے:
{یاأیھا الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان ومن یتبع خطوات الشیطان فانہ یأمرکم بالفحشاء والمنکر}(النور۲۱)

''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے قدم بہ قدم مت چلو جو کوئی اس کی پیروی کرے گا وہ گمراہ ہوگا اس لیے کہ شیطان تو بے حیائی اور برائی کے کام کرنے کو کہے گا۔''
اب اس موجودہ معاشرے میں عورت کی عقل ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھائے کہ یہ آزادی نسواں ہے یا عذاب نسواں؟

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں معذور ہیں مردانِ خردمند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیِ نسواں کہ زمرد کا گلوبند؟

اللہ نے عورت کوگھر کی ملکیت سونپی ہے۔ گھر کا حکمران بنایا ہے لیکن عورت شمع خانہ بننے کی بجائے شمع محفل بن گئی ہے۔ وہ عورت جو کل تک عزت وعصمت کا پیکر تھی وہ آج تباہی وبربادی کا محور ہے ، جو کل اسلامی تہذیب کا چلتا پھرتا نمونہ تھی وہ اسلام کی حدود کو توڑ چکی ہے ۔والی اللہ المشتکی

کل تک جنہیں نہ چھوسکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتی ہے

کیا یہ شیطانی چال نہیں ہے کہ عورت حکومت کرے۔پھر کچھ عورتیں ، بینکوں، دفتروں میں سیکرٹری کی نشست سنبھال کر خو کو حکمران تصور کرتی ہیں۔ بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ میرج ہالوںکی زینت بن گئی ہیں۔ دینی مدارس میں جانے کی بجائے سینما گھروں اور بیوٹی پارلروں میں جاتیں ہیں۔ جہاں انہیں پہلے تو عزت دی جاتی ہے پھر طرح طرح سے انہیں تنگ کیا جاتا۔ چاہے وہ دفتروں میںہوں یا کسی سفر میں فل میوزک، ہوٹنگ کے علاوہ فقرے کسے جاتے ہیں۔ اس میں سراسر قصور عورتوں کا ہے ، اس کی دو وجہ ہیں ''بے پردہ ہو کر گھروں سے نکلنا اور میک اپ اور خوشبو میں ڈوبا ہونا۔''
ارشاد باری تعالی ہے:
{یا أیہا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیہن من جلابیبہن ذلک أدنی أن یعرفن فلا یؤذین }(سورۃ الاحزاب:۵۹)

'' اے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہ وہ اوڑھنیوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیں۔ اس سے وہ جلد پہچان لی جایا کریں گی اور اس سے انہیں ستایا نہ جائے گا۔''
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
''جو عورت خوشبو لگا کر نامحرم مردوں کے پاس سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو پالیں، بدکار عورت ہے۔''(کتب ستہ)
اور یادرکھنا یہ جو مغرب والے اپنی نقالی میں تمہیں دوستی، محبت ، آزادی نسواں اور روشن خیالی کا سبق دے رہے ہیں۔ یہ سب دھوکہ جھوٹ اور مکر وفریب ہے۔ سوچ لودے رہے ہیں جو لوگ تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے

آخرمیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں نیک کام کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے اور گمراہیوں سے نکال لائے اور جو مسلمان بہنیں اس فتنہ پروری میں جہالت کے اندھے پن میں ہیں۔ جہالت کی گمراہیوں میں اور مغرب کی تقلید میں اندھی ہورہی ہیں۔

اللہ تعالی خاص طور پر انہیں اور باقی مسلمانوں کو بھی ہدایت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
مغربی اقدار کی اندھی تقلید

20جنوری کومیرے دوست کے بیٹے کی سالگرہ تھی، میں اس دوران مصروف تھا، اس کے گفٹ کیلئے میں نے اپنے کلاس فیلو سے کچھ دن پہلے کہا کہ "اگر آپ کا 19تاریخ کو بازار جانے کا موڈ ہو تو مجھے بتانا، مجھے کسی کی برتھ ڈے کیلئے گفٹ منگوانا ہے"، میں یہ کہہ کر اس کا انتظار کرتا رہا، 19تاریخ کی رات وہ میرے گھر آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک گفٹ پیک تھا، میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ "آپ نے برتھ ڈے کیلئے جس گفٹ کی بات کی تھی وہ لے کر آیا ہوں"۔ اسی اثناء میں پیکٹ میں حرکت ہوئی تو میں چونکا، جب پیکٹ کھولا تو اس میں کتے کا بچہ (puppy) تھا، اس کے جسم پر مختلف رنگوں سے 'برتھ ڈے وش' لکھا تھا، میں حیران کہ "یہ کیا؟" کہنے لگا کہ "آپ ہی نے تو برتھ ڈے گفٹ لانے کیلئے کہا تھا"، تو میں نے غصے سے کہا کہ "گفٹ کی بات کی تھی،کتے کے بچے کیلئے تو نہیں کہا تھا"، وہ کہنے لگا "آج کل کی ماڈرن لڑکیاں کتے اور بلیوں کے بچوں کو بڑا پسند کرتی ہیں، ان کو گود میں بٹھا کر پیار کرتی ہیں، سو میں نے سوچا کہ..." میں نے غصے میں اس کی بات کاٹ کر کہا کہ "تجھے کیسے پتہ کہ میں نے یہ گفٹ کسی لڑکی کیلئے منگوایا ہے یا کسی اور کیلئے؟" بعد میں اس نے بتایا کہ کس طرح اس نے گلی سے ایک آوارہ کتے کے اس بچے کو اٹھایا اور اسے صابن سے صاف کرنے کے بعد اس کے جسم پر مختلف رنگ کیے۔

یہ بات محض اتفاق نہیں بلکہ ہمارے رویوں کی نقالی اور معاشرتی روایات کا بگاڑ ہے، ہم نے مغربی روایات کی بغیر سوچے سمجھے نقالی کی روش جو اپنائی ہے اس نے ہماری اپنی قدریں بھلادی ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے مغرب کے مقرر کردہ مخصوص دنوں کو ہمارے لئے تہوار کے طور پرمرچ مسالے کے ساتھ ایسا پیش کیا کہ ہم ذہنی اور معاشرتی قدروں کی پختگی کی بجائے جدت کے چکر میں ایسے دن بھی منانے لگے جو ہماری انا اور غیر ت کو جھٹکا دینے لگے، جیسا کہ مدرز ڈے، فادرز ڈے اورمحبتوں کا دن یعنی ویلنٹائن ڈے وغیرہ اس طرح کے دنوں کی مثالیں ہیں۔ سال میں ماں یا باپ کا ایک دن تو وہ مناتے ہیں جنہوں نے اپنے والدین کو اولڈ ہاوٴس کے حوالے کردیا، ہمارے ہاں تو آج بھی والدین اولاد کیلئے کل کائنات مانے جاتے ہیں۔ ہم بھی مغربی پیروی میں اپنے رشتوں کو مخصوص دنوں تک محدود کررہے ہیں اور ان دنوں کے جائز ہونے کی طرح طرح کی تاویلات بھی پیش کرتے ہیں۔

کیا ہمارا معاشرہ مغرب کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے، صرف ایسی فضول اور واہیات چیزوں کی نقالی سے؟ کیا ہم نے ان کی طرح تعلیم، سائنس، طب، تحقیق، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں ان کی نقل کرنیکی کوشش بھی کی؟ پانی کی خاصیت ہے کہ مٹی کے کچے مٹکے میں اسے ڈالنے سے مٹکا اپنا وجود کھو دیتا ہے اور پانی بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ وہی مٹی کا مٹکا جسے آگ کی بھٹی میں پختہ کیا جاتا ہے، اسی پانی کو ٹھنڈ ا کردیتا ہے جونہ صرف لوگوں کی پیاس بجھاتا ہے بلکہ اپنا وجود بھی قائم رکھتا ہے۔ ہم اپنی نسل کے ذہنوں کی پختگی کیلئے تعلیم اور تربیت کا بندوبست کر نہیں سکے جبکہ فضول اور خرافات چیزیں ان کو وافر مقدار میں میسر کردیں، کیا وہ ان سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے یا اندھی پیروی کرتے ہوئے تباہ ہوجائیں گے؟ ہماری نسل موبائل فون، سوشل میڈیا اور مغربی ایام کی نقالی سے کیا حاصل کر رہی ہے سوائے وقتی تسکین کے، کیا یہ جائز ہے؟ حالانکہ ہر چیز میں توازن ہونا چاہیے۔

اسی طرح ماہ اپریل کی شروعات اپریل فول کی خرافات کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ یکم اپریل کو اپریل فول یا جھوٹ کا تہوار، پوری دنیا میں بڑے جوش و خروش سے غیرسرکاری طور پر منایا جاتا ہے، اس کو جھوٹوں کی عید بھی کہا جاسکتا ہے، اکثر و بیشتر اس موقع پر جو مذاق کیے گئے ان کے اثرات منفی ہی ظاہر ہوئے اور لوگوں کو نقصان کا سامنا بھی ہوا۔

اب ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہمیں مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ایسے ایام کو منانا چاہیے، یا ...

http://blog.jang.com.pk/blog_details.asp?id=6804
 
Top