• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" اہمیتِ استحکام اور مستحکم معاشرہ بنانے کے ذرائع" از عبد الباری ثبیتی حفظہ اللہ 15-07-2016

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
13669105_1063646570338234_8557944389440016492_n.png


بسم الله الرحمن الرحيم


" اہمیتِ استحکام اور مستحکم معاشرہ بنانے کے ذرائع"

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 10-شوال-1437 کا خطبہ جمعہ " اہمیتِ استحکام اور مستحکم معاشرہ بنانے کے ذرائع" کے موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے انسانی زندگی میں استحکام کی اہمیت متعدد زاویوں سے اجاگر کی اور بتلایا کہ شرعی مقاصد بھی حصولِ استحکام کیلیے مقرر کیے گئے ہیں، نیز انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ افواہیں اور بے بنیاد خبریں ، حرام کاموں کو معمولی سمجھنا اور ناشکری کرنا استحکام میں دراڑیں ڈالتا ہے جبکہ پختہ ایمان، کتاب و سنت پر پابندی سے عمل، اندرونی اختلافات بھلا کر باہمی اتحاد پیدا کرنا، مفید علم حاصل کرنا ، اللہ کا فضل یاد کر کے شکر الہی ادا کرنا، نظامِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا قیام اور رفاہی سرگرمیوں کو فروغ دینا ٹھوس اور مضبوط استحکام کا ضامن ہے۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے ہمیں امن و استحکام کی نعمت عطا فرمائی، میں اسی کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں اور اسی سے نصیحت و عبرت پکڑنے کی توفیق مانگتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اسی نے فرمایا:

{وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ}

اللہ کے ہاں ہر چیز کی مقدار مقرر ہے [الرعد: 8]،

میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے لوگوں کو اللہ تعالی کی جانب دعوت دیتے ہوئے حکمت و اقتدار کا استعمال کیا، جب تک دن اور رات رہیں اس وقت تک اللہ تعالی آپ پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا}

اللہ تعالی نے ہی تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا[غافر: 64]

یعنی تمہارے لیے زمین کو ٹھہری ہوئی بنایا جس میں تمہاری زندگی مستحکم ہو ، تم زمین پر زندگی گزارو، اس پر محنت کرو اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آؤ جاؤ۔

زندگی کے تمام امور کا تعلق استحکام کے ساتھ ہے، زندگی استحکام کے بغیر بے مزا ہے، حصولِ استحکام ہر شخص کا ہدف اور ضرورت ہے استحکام کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔

جب تک استحکام سایہ فگن نہ ہو انسان کو زندگی کا مزا نہیں آتا اور نہ ہی خوشیاں اچھی لگتی ہیں ، بلکہ زمین کی آباد کاری کیلیے کچھ کرنے کو دل بھی نہیں کرتا ، انسانیت کیلیے استحکام ہی سب سے بڑا ہدف اور اللہ تعالی کی طرف سے عظیم ترین نعمت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ}

ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں استحکام اور فائدہ ہے۔ [البقرة: 36]

دنیا کی نعمتوں اور لذتوں کا لب لباب اور دنیاوی خوشیاں گلے لگانے کا موقع اسبابِ استحکام پائے جانے سے ہی منسلک ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(جو شخص اپنے گھر میں پر امن صبح کرے، جسمانی طور پر صحیح سلامت ہو، اس دن کا کھانا پینا اس کے پاس ہو؛ گویا کہ اس کیلیے دنیا [کی نعمتیں]سمیٹ دی گئی)

مومن کو امن و استحکام کی جستجو کیلیے محنت کرنے کا حکم دیا گیا ، فرمانِ باری تعالی ہے:

{إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا}

اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں کی روح قبض کرتے ہوئے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں: تم کن میں شمار ہوتے تھے؟ وہ کہتے ہیں: کمزور میں ۔ فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم [امن و استحکام کی جستجو میں]ہجرت کر جاتے؟[النساء: 97]

استحکام کا معاملہ ہی بہت اعلی اور ارفع ہے، اللہ تعالی نے اہل جنت اور جنتوں کی نعمتوں کو بھی استحکام سے متصف فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:

{أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا}

اہل جنت اس دن مستحکم ٹھکانوں اور اچھی آرام گاہوں میں ہوں گے۔[الفرقان: 24]

اور فرمایا:

{خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا}

وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ رہنے کیلیے بہترین اور مستحکم جگہ ہے۔[الفرقان: 76]

دھرتی پر استحکام اور بہتری کے بعد شر انگیزی پھیلانے پر اسلام نے شدید ترین وعید دی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (204) وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205) وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ }

اور لوگوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جس کی بات آپ کو دنیا کی زندگی میں بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی نیک نیتی پر اللہ کو گواہ بھی بناتا ہے حالانکہ وہ کج بحث قسم کا جھگڑالو ہوتا ہے [204] اور جب اسے اقتدار ملتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے ‘ کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا [205] اور جب اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کیلیے کہا جائے تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے بس جہنم ہی کافی ہے اور یقیناً وہ بدترین جگہ ہے ۔[البقرة: 204 - 206]

جس نے بھی زمین پر فساد پھیلایا ، بہتری و ترقی کے نام پر استحکام میں رخنے ڈالے اور یہ دعوی کیا کہ وہ حق پر ہے تو وہ حقیقت میں فسادی ہے جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (11) أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ}

اور جب ان سے کہا جاتا ہے زمین پر فساد انگیزی مت کرو ۔ تو وہ کہتے ہیں: ہم تو بہتری کے خواہاں ہیں [11] خبردار! وہی فسادی ہیں لیکن انہیں شعور ہی نہیں ۔[البقرة: 11- 12]

ربانی منہج کی وجہ سے اسلام مستحکم معاشرے کیلیے سر چشمہ اور منبع ہے، اسلامی تعلیمات میں ہی نفسیاتی ، امنی اور معاشرتی استحکام پنہاں ہے، اسلام ہی بے چینی اور پریشانی کیلیے اکسیر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ }

جس شخص کو اللہ ہدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کے سینہ میں اتنی گھٹن پیدا کر دیتا ہے، جیسے وہ بڑی دقت سے بلندی کی طرف چڑھ رہا ہو [الأنعام: 125]

اللہ تعالی نے زمین میں جتنے بھی خزانے رکھے اور انسانوں کے اختیار میں جو بھی وسائل دیے ہیں اسلام ان سب کو استحکام پیدا کرنے کیلیے مختص کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ}

وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے تابع کر رکھا ہے اس کی اطراف میں [تلاش رزق کیلیے]چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ ، اسی کے پاس تمہیں زندہ ہو کر جانا ہے۔ [الملك: 15]

تمام کے تمام شرعی احکامات اور شرعی مقاصد و ضروریات حقیقت میں انسانی زندگی کے اندر استحکام پیدا کرنے کیلیے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی احکامات صادر ہی اس لیے کیے گئے ہیں کہ معاشرے میں شرعی مقاصد کو تحفظ ملے، دین و دنیا کی کامیابی کیلیے شرعی مقاصد کا حصول از بس ضروری ہے چنانچہ اگر شرعی مقاصد حاصل نہ ہوں تو دنیاوی مقاصد بھی حاصل نہیں ہو سکتے، بلکہ فساد اور باہمی قتل و غارت ہو گا نیز زندگی ختم ہو جائے گی، شرعی مقاصد یہ ہیں: دین، جان، مال، نسل اور عقل کا تحفظ۔

تعمیر و ترقی کے آرزو مند معاشرے سب سے پہلے استحکام کیلیے بنیادی چیزوں کو راسخ کرتے ہیں، یہی کام رسول اللہ ﷺ نے مدینہ آمد پر کیا؛ چنانچہ محبت اور سلامتی بھرے پیغام میں استحکام کے تمام مفاہیم جمع فرما دیے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(لوگو! سلام عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، لوگ سوئے ہوئے ہوں تو رات کے وقت نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے)

  • اسلام نے استحکام کیلیے ٹھوس منہج دیا ، جس کی بنیاد بھائی چارے پر مبنی برتاؤ پر ہے، جس میں شدت اور انتہا پسندی کی بجائے باہمی تعاون کی فضا پروان چڑھائی گئی؛ اس منہج کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدینے کا معاشرہ سلامتی ، باہمی محبت اور استحکام کیلیے اپنی مثال آپ بن گیا۔

  • استحکام جن معاشروں سے چھن چکا ہے ان کے حالات پر نظریں دوڑانے والوں کو ایک لمحہ بھی بے چینی اور پریشانی کے بغیر کے نظر نہیں آئے گا، بلکہ وہاں پر لوگوں کو ہر وقت اپنے جان و مال کی فکر لگی رہتی ہے۔

  • استحکام کی قدر و قیمت انہی کو معلوم ہے جن سے یہ نعمت چھن چکی ہے ، جو اپنے علاقے سے در بدر ہو چکے ہیں ، اپنے اہل و عیال سے دور ہیں، جنہیں بھوک اور پیاس نے ستا رکھا ہے، یا جن کا ملک افراتفری اور بے چینی کے سامنے ڈھیر ہو چکا ہے، جہاں کی مٹی پر خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، خاک وطن پر کٹے پھٹے اعضا بکھرے پڑے ہیں اور ہر طرف چور اچکوں اور رہزنوں کا راج ہے۔

ان سب زمینی حقائق سے ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ گھر بار، مال و جان اور عزت آبرو کیلیے مستحکم امن و امان مومنین کیلیے اللہ تعالی کی زمین پر جنت اور رحمت ہے، بلکہ اقوامِ عالم اور معاشروں کو ملی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ (3) الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ}

وہ اس گھر کے پروردگار کی عبادت کریں [3] جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور دہشت سے امن عطا کیا۔[قريش: 3- 4]

کسی بھی صاحب عقل و دانش کو اس بات پر شک نہیں ہے کہ استحکام ہی خوشحالی کی بنیاد ہے، اور استحکام ہی دھرتی پر تعمیر و ترقی کیلیے پر فضا ماحول کا درجہ رکھتا ہے۔

استحکام کو دگر گوں کرنے کیلیے افواہیں اور جھوٹی خبریں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ، انہیں بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے آگے پھیلانے سے فتنے ابلتے ہیں نیز اندرونی اختلافات اور گروہ بندی کو فروغ ملتا ہے، بالکل اسی طرح لوگوں کی زندگی میں اس وقت سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والے سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے بھی تربیت کے مفاہیم میں تصادم پیدا کر دیا ہے ، جن کی وجہ سے نظریات ڈگمگا گئے ہیں، بہت سے مسلمہ امور اور اخلاقی اقدار منہدم ہو چکے ہیں؛ گویا کہ سوشل میڈیا اس وقت دیوارِ استحکام میں دراڑیں ڈالنے کیلیے کامیاب ترین کدال ہے۔

حرام کاموں کے ارتکاب کو معمولی سمجھنا، سودی لین دین میں ملوث ہونے سے اقتصادی استحکام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ}

اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اللہ تعالی کسی بھی گناہ گار نا شکرے کو پسند نہیں فرماتا۔[البقرة: 276]

نعمتوں کے استعمال میں سرکشی کرنا ، اترانا، فضول خرچی اور بخیلی کے ساتھ نا شکری کرنا معاشرتی استحکام کیلیے خطرہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ}

اور ہم نے بہت سی وہ بستیاں تباہ کر دیں جو اپنی عیش و عشرت میں اترانے لگی تھیں، یہ ہیں ان کی رہائش کی جگہیں جو ان کے بعد آباد نہیں ہوئیں۔ اور ہم ہی ہیں آخر سب کچھ کے وارث ۔[القصص: 58]

ہمارے آس پاس کے حالات و واقعات ہمیں سکھا اور پڑھا رہے ہیں کہ ملکی استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، نیز استحکام کو ٹھوس بنانے کیلیے بھر پور جد و جہد کرنا اور ملکی استحکام میں دراڑیں ڈالنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں نمٹنا شرعی اور قومی ضرورت ہے۔

استحکام کو تحفظ ان ذرائع سے ملتا ہے:

ایمان راسخ کیا جائے، کتاب و سنت پر سختی کے ساتھ پابندی ہو ، باہمی اتحاد کیلیے اختلافات بھلا کر عملی اقدامات کیے جائیں ، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا }

جو شخص راہ راست واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا اس نے خود رخ کیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بری جگہ ہے۔ [النساء: 115]

استحکام کے حصول اور اسے دوام بخشنے کیلیے علم کے ذریعے اندھیروں کو چھٹنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ جہالت کی گھٹائیں دور کر کے تعمیر و ترقی کی کرن جگائے، افراط و تفریط میں ملوّث ہوئے بغیر غلط نظریات و عقائد سے محفوظ رکھے؛ کیونکہ علم ہی انفرادی خوشی کی بنیاد اور پورے معاشرے کیلیے ترقی کا راز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ}

آپ کہہ دیں: کیا جاننے والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ [الزمر: 9]

اللہ تعالی کے فضل کو یاد کر کے شکر الہی بجا لانے سے بھی استحکام کو دوام ملتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ}

اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔ [ابراہیم: 7]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے مکمل طور پر درست انداز میں پیدا کیا اور صحیح تخمینہ لگا کر رہنمائی بھی فرمائی، میں اپنے رب کی لا تعداد و بے شمار نعمتوں پر اسی کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہی بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے ہمہ قسم کی خیر بھلائی کی جانب امت کی رہنمائی فرمائی، اللہ تعالی آپ پر ،آپ کے صحابہ کرام اور آپ کے پیروکاروں پر ڈھیروں رحمتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

استحکام کے حصول اور تحفظ کیلیے معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کریں، رفاہی اور خیراتی سرگرمیوں کو پروان چڑھائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}

اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونا چاہئیں جو خیر و سلامتی کی دعوت دیں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں [آل عمران: 104]

اس آیت کریمہ میں امت کیلیے استحکام کا بنیادی عنصر اسی وقت دیا گیا ہے جب امت میں باہمی کفالت، تعلق، محبت اور الفت پائی جائے گی، رفاہی اور خیراتی کام کسی بھی معاشرے کی خوشحالی اور آسودگی کا سبب ہوتے ہیں؛ کیونکہ وہاں پر یتیم، مسکین، بیوہ اور بیماروں سب کی زندگی خوش و خرم ہوتی ہے، رفاہی خدمات طبقاتی اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کے درمیان آڑے آ جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}

جو شخص بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ [مستحکم]زندگی بسر کرائیں گے اور ان کے بہترین اعمال کے مطابق انہیں ان کا اجر عطا کریں گے ۔[النحل: 97

رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب: 56]

یا اللہ! محمد -ﷺ- پر ان کی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، ، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے اور محمد -ﷺ- پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔

یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا اور اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اور کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی و بربادی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا! یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو خوشحال، ترقی یافتہ اور امن کا گہوارہ بنا دے، یا ارحم الراحمین

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر عمل اور قول کا سوال کرتے ہیں اور ہم جہنم یا اس کے قریب کرنے والے ہر عمل اور قول سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم جلدی یا دیر سے ملنے والی خیر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کی بھلائی کا تجھ سے سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جلدی یا دیر سے ملنے والے شر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہماری معیشت ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ،جامع ترین ، ظاہر ی و باطنی خیر و بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور تجھ سے جنت میں بلند درجات کا سوال کرتے ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کو غلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لیے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

یا اللہ! ہمارے تمام گناہ بخش دے، یا اللہ! ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کو بخش دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ، بیماروں کو شفا یا ب فرما، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتیں رفع فرما، فوت شدگان پر رحم فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو حق بات کی توفیق دے اور تیری رہنمائی کے مطابق انہیں توفیق دے، اور ان کے تمام کام اپنی رضا کیلیے بنا لے ، یا رب العالمین! یا اللہ!تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! سرحدوں پر مامور ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، یا اللہ! جہاں بھی ہمارے سیکورٹی کے جوان موجود ہیں ان کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی حفاظت کیلیے اپنی خصوصی رحمت فرما، یا اللہ! ان کا حامی و ناصر ، مدد گار اور پشت پناہ بن جا، یا رب العالمین!

یا اللہ! ان کے اہل خانہ، اہل و عیال، اولاد، مال و دولت ہر چیز کی حفاظت فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ }

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23]

{رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}

اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10]

{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}

ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔

پی ڈی ایف فارمیٹ کیلیے کلک کریں
عربی آڈیو ، ویڈیو اور انگلش وعربی ٹیکسٹ کیلیے کلک کریں
 
Top