ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ کو کوئی ایسا کام بتلائیے جب میں اس کو کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ کو دوست رکھے اور لوگ بھی دوست رکھیں۔ آپ نے فرمایا دنیا سے بے رغبتی اختیار کر اللہ تعالیٰ تجھ کو دوست رکھے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے نیاز ہوجاؤ لوگ تجھ کو دوست رکھیں گے۔ سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 982 زہد کا بیان :
دنیا سے بے رغبتی کا بیان
فوائد (از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ):
زہد ،دنیا اور اس کے علائق سے کنارہ کشی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ زہد کا مطلب ہے کی رزق حلال پر قناعت کرنااور کمائی کے ناجائز ذرائع سے اجتناب کرنا کیونکہ اسلام میں ترک دنیا کی اجازت ہے نہ مال و دولت کے حصول کی سعی و کوشش مذموم ۔اس لیے دنیا سے تعلق اورمعاش کے لیے سعی و جہد ،زہد کے منافی نہیں ۔بلکہ صرف حلال ذرائع اور حلال آمدنی پر کفایت ،اسے عبادت کا درجہ عطا کر دیتی ہے۔ اسی طرح لوگوں کے مال و دولت سے بے نیازی اور ان سے صرف نظر کر لینابھی زہد کا اور استغناءو قناعت کا حصہ ہے ۔ اس سے ایک اضافی فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ انسان لوگوں کی نظروں میں محبوب اور معزز ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ کے برعکس لوگوں کے سامنے دست طلب دراز کرنے سے انسان ذلیل ہوتا ہےاورلوگ اسے پسند نہیں کرتے۔جبکہ اللہ کا معاملہ ہے کہ اس سے جتنا مانگو وہ اتنا ہی خوش ہوتا ہے بلکہ نہ مانگنے پر وہ ناراض ہوتا ہے ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
لا تسئل بنی آدم حاجته واسئل الذی ابوابه لا تحجب
اللہ یغضب ان ترکت سواله وابن آدم حین یسئل یغضب
یعنی انسان کے سامنے اپنی ضروریات کے لیے ہاتھ مت پھیلاؤ،اس سے مانگوجس کے فضل و کرم کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ اگر بندہ اللہ سے مانگنا چھوڑ دے تو وہ ناراض ہوتااور بندے سے مانگاجائے تو وہ غضبناک ہوتا ہے ۔
سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دو بھوکے بھیڑئیےجنہیں بکریوں کے ریوڑ میں بھیجا جائے (بکریوں کو)اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال اور جاہ کی حرص اس کے دین کو پہنچاتی ہے(ترمذی۔حسن صحیح)
فوائد (از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ):
مال و جاہ کی محبت کی یہ حشر سامانیاں،جس کی نشاندہی اس حدیث میں کی گئی ہے ۔ آج ہر طرف دیکھی جاسکتی ہے۔ حتٰی کہ علماء اور مدعیان زہد و تقوی بھی،جب ان کے اندر ان چیزوں کی حرص آگئی تو وہ ان ہلاکتوں سے اپنا دامن نہ بچا سکے ۔ آج دینی جماعتیں جس انتشار اور شدید اختلافات کا شکار ہیں ان کے اسباب میں بھی مال و جاہ کی محبت سرفہرست ہے ۔ جس میں علماء کی اکثریت بھی بد قسمتی سے مبتلا ہے ۔
فالی اللہ المشتکی
دنیا سے بے رغبتی کا بیان
فوائد (از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ):
زہد ،دنیا اور اس کے علائق سے کنارہ کشی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ زہد کا مطلب ہے کی رزق حلال پر قناعت کرنااور کمائی کے ناجائز ذرائع سے اجتناب کرنا کیونکہ اسلام میں ترک دنیا کی اجازت ہے نہ مال و دولت کے حصول کی سعی و کوشش مذموم ۔اس لیے دنیا سے تعلق اورمعاش کے لیے سعی و جہد ،زہد کے منافی نہیں ۔بلکہ صرف حلال ذرائع اور حلال آمدنی پر کفایت ،اسے عبادت کا درجہ عطا کر دیتی ہے۔ اسی طرح لوگوں کے مال و دولت سے بے نیازی اور ان سے صرف نظر کر لینابھی زہد کا اور استغناءو قناعت کا حصہ ہے ۔ اس سے ایک اضافی فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ انسان لوگوں کی نظروں میں محبوب اور معزز ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ کے برعکس لوگوں کے سامنے دست طلب دراز کرنے سے انسان ذلیل ہوتا ہےاورلوگ اسے پسند نہیں کرتے۔جبکہ اللہ کا معاملہ ہے کہ اس سے جتنا مانگو وہ اتنا ہی خوش ہوتا ہے بلکہ نہ مانگنے پر وہ ناراض ہوتا ہے ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
لا تسئل بنی آدم حاجته واسئل الذی ابوابه لا تحجب
اللہ یغضب ان ترکت سواله وابن آدم حین یسئل یغضب
یعنی انسان کے سامنے اپنی ضروریات کے لیے ہاتھ مت پھیلاؤ،اس سے مانگوجس کے فضل و کرم کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ اگر بندہ اللہ سے مانگنا چھوڑ دے تو وہ ناراض ہوتااور بندے سے مانگاجائے تو وہ غضبناک ہوتا ہے ۔
سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دو بھوکے بھیڑئیےجنہیں بکریوں کے ریوڑ میں بھیجا جائے (بکریوں کو)اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان آدمی کے مال اور جاہ کی حرص اس کے دین کو پہنچاتی ہے(ترمذی۔حسن صحیح)
فوائد (از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ):
مال و جاہ کی محبت کی یہ حشر سامانیاں،جس کی نشاندہی اس حدیث میں کی گئی ہے ۔ آج ہر طرف دیکھی جاسکتی ہے۔ حتٰی کہ علماء اور مدعیان زہد و تقوی بھی،جب ان کے اندر ان چیزوں کی حرص آگئی تو وہ ان ہلاکتوں سے اپنا دامن نہ بچا سکے ۔ آج دینی جماعتیں جس انتشار اور شدید اختلافات کا شکار ہیں ان کے اسباب میں بھی مال و جاہ کی محبت سرفہرست ہے ۔ جس میں علماء کی اکثریت بھی بد قسمتی سے مبتلا ہے ۔
فالی اللہ المشتکی