• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایسی بھی کیا حرماں نصیبی –

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایسی بھی کیا حرماں نصیبی –

علی عمران

جاوید احمد غامدی صاحب حدیث کو مستقل ذریعہ تشریع نہیں مانتے.. اس سلسلے میں ایک مزے کی بات پڑھ لیجیے.

اہل السنہ کے ہاں حدیث مستقل ذریعہ تشریع ہے، اور اس سے بھی عین اس طرح احکام وارد ہوتے ہیں اور اشیاء کی حلت وحرمت ثابت ہوتی ہے، جیسے قرآن سے. حدیث سے حلال کردہ اشیاء میں دو چیزیں مچھلی اور ٹڈی بھی ہیں. جنوری سے جون2008ء تک غامدی صاحب نے اشراق میں اس پر سلسلہ بحث جاری رکھا. اس ساری بحث کا جو خلاصہ بنتا ہے، وہ یوں ہے کہ ان احادیث میں مچھلی اور ٹڈی کے حلال ہونے کا حال بیان ہوا ہے، یہ کوئی نئی اور جدید تشریع تو ہے نہیں. قوم عرب ان کو پہلے سے ہی حلال سمجھتی تھی. جب وہ حرام تھے ہی نہیں عربوں کے ہاں، تو حلال کیے جانے کا کیا مطلب؟ گویا زائد از قرآن تشریع کا حق عرف کو تو حاصل ہے، حدیث مبارک کو نہیں.

پھر مزید وہ فرماتے ہیں کہ دیکھیے ان کو تو ہم مردار کہہ ہی نہیں سکتے. مردار کا اطلاق ہی ان پر درست نہیں کیونکہ ان میں دم مسفوح (بہنے والا خون) تو ہوتا نہیں، لہذا یہ مردہ حالت میں مثل ذبیحہ کے ہیں. اب دیکھیے یہاں پر لغت کی گواہی تو قبول کی جا رہی ہے، مگر حدیث مبارکہ کو رد کیا جا رہا ہے. جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ جناب یہ جو احادیث میں ان کو پہلے مردار قرار دیا گیا اور پھر حلال بنا کر باقاعدہ قانون کے طور پر بیان کیا. یہ کیا چیز ہے؟ تو آں جناب فرماتے ہیں کہ یہ تو ایک زائد از ضرورت شے ہے، جو بس ”اخلاقاً“ ذکر کر دی گئی.

ہم کہتے ہیں ایسی بھی کیا حرماں نصیبی کہ حدیث سے فرار اور بےفیض نکتوں کی تلاش…!

اگر غامدی صاحب کے قانون اتمامِ حجت کو مان لیں، تو جو کم ازکم خرابی پیدا ہوتی ہے، وہ یہ کہ دورِ صحابہ سے لے کر آج تک دنیا میں جتنا بھی جہاد ہوا، یہ سب فساد تھا.. اور جہاد کی بنیاد پر جتنے احکام فقہیہ کی تخریج ہوئی، اور جو سیکنڑوں نہیں، بلاشبہ ہزاروں کتابیں اس موضوع پر منصہ شہود پہ آئیں، وہ سب محض ضیاع وقت تھا.. یعنی امام محمد رح نے سیر الصغیر اور سیر الکبیر لکھ کر وقت ہی ضائع کیا..

اگر ”نظم قرآن“ کی بات کو مان لیں، تو امت کے پاس جو علوم میں سب سے زیادہ رائج اور وسیع علم یعنی ”علم اصول فقہ“ بالکل ہی بلا ضرورت رہ جاتا ہے. اور اس پر زندگیاں ضائع کرنے والے محض احمق!

غامدی صاحب اور تکفیر:

غامدی صاحب یہ نہیں کہتے جیسا کہ معتزلہ قدیم نے کہا تھا کہ کفر اور اسلام کے بیچ میں ایک کیٹگری ہے، اور گناہ کبیرہ کا مرتکب اس درمیانی حالت میں ہوتا ہے. یعنی نہ تو کافر ہوتا ہے اور نہ ہی مسلمان، جس کو انہوں نے منزلۃ بین المنزلتین کا نام دیا تھا، بلکہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ دنیا میں اب کافر نام کی مخلوق ہی باقی نہ رہی. یعنی کافر رہا کافر کے مقام پر، مگر ”کافر“ نہ رہا، بلکہ غیر مسلم رہ گیا.. اور اگر ان کی اگلی فکر کو بھی ساتھ ملا لیں کہ مسلمان بننے کے لیے نبوت محمدی پر ایمان لانا بھی ضروری نہیں، تب تو گویا وہ کافر غیر مسلم ہی نہیں ”مشرف باسلام“ بھی ہو جاتا ہے.

غامدی صاحب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہما:

ویسے ایک طرف جب جہاد کا معاملہ آتا ہے، تو غامدی صاحب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان بلند کرتے نظر آتے ہیں. فرماتے ہیں کہ وہ دلیل اتمامِ حجت ہیں. جب مقاصد نبوت اور کارنبوت کی بات آتی ہے، تو فرماتے ہیں کہ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم ترین مقصد یہ بھی تھا کہ آپ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی خداوندی منشا کے اعتبار سے تربیت کرسکیں. مگر دوسری طرف جب دین فہمی میں انھی نبوی تربیت یافتہ حضرات کی فہم کا سوال آتا ہے، تو غامدی صاحب ایک دم ان کی ساری حیثیتیں بھول کر ”ھم رجال ونحن رجال“ کی سطح پر اتر آتے ہیں. وہ قران فہمی کے لیے اس وقت کے ماحول میں بولی جانے والی عربی کو تو دلیل مانتے ہیں، مگر اسی ماحول میں عربی بولنے والوں کی فہم کو دلیل نہیں مانتے. عجیب بات ہے نا.

http://daleel.pk/2017/01/22/27026
 
Top