• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایصال ثواب میں افراط وتفریط

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
تمام قارئین کرام کو احقر کی جانب سے سلام مسنون !
محترم قارئین عظام نہایت احتیاط کے ساتھ فورم میں داخل ہورہاہوں آج ایک نہایت ہی حساس موضوع پیش خدمت ہے معلوم نہیں کہاں کہاں کھینچائی ہو اور کیسی کیسی تنقید کاسامنا کرنا پڑے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہی میں نے اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کی ہےائمہ میں سے کسی کا بھی کوئی قول یا کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے آخیر میں بطور تاریخ کے ایک دو واقعہ لکھ دئے ہیں وہ صرف واقعہ ہی ہیں کوئی دلیل نہیں ہے۔ دیگر میں نے اس مضمون کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے کوئی خامی نظر آئے تو آگاہ فرمادیں میں خود بھی اس کا مطالعہ کروں گا اور جیسے جیسے مناسب ہوگا ایڈیتنگ کرتا رہوں گا۔ کوئی غلطی نظر آئے تو بشری تقاضے کے تحت نظر انداز فرمائیں لیکن آگا ضرور فرمادیں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
از: مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
ایصال ثواب میں افراط تفریط



تِلْكَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ۝۰ۚ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ۝۰ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۳۴ [٢:١٣٤]
یہ جماعت گزرچکی۔ ان کو اُن کے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمھارے اعمال (کا) اور جو عمل وہ کرتے تھے ان کی پرسش تم سے نہیں ہوگی
یہ دنیا دار الاسباب ہے یہاں بغیر کوئی سبب اختیارکئے کچھ حاصل نہیں ہوتا اگرچہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ بغیر اسباب کے بھی عطا کرتا ہے مگر مخصوص حالات میں اور مخصوص ضرورتوں کے تحت،کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرماتا بھی رہتا ہے اور بغیر کسب کے بھی عطا فرما دیتا ہے۔ مگر یہ اس کی جاری وساری عادت نہیں ہے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خالقِ کائنات کی عادت بھی اُس کی قدرتِ کاملہ ہی کے تحت ہوتی ہے، تاہم اِصطلاحاً اللہ کی عادت سے مُراد اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ نظامِ فطرت یا تکوینی نظام ہے، جس کے تحت یہ کائناتِ پست و بالا مسلسل حرکت پذیر ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کائنات کا آغاز تکوینی نظام کے تحت ہوا اور بالآخر اِس کا اِنجام بھی اِس تکوینی نظام کے تحت ہو گا۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے اس وقت میرا موضوع سخن یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات شامل کردی ہے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہاں جیسا بوئے گا وہاں ویساہی کاٹے گاجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۝۰ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۝۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۝۶۴ [٢٩:٦٤]
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور( ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ (لوگ) سمجھتے
اس دنیاوی کھیتی کے کچھ اصول اور ضابطےہوتے ہیں اگر ان اصول اور ضابطوں کے تحت کھیتی کی جائے گی تو اس کو ایک کامیاب کاشتکار کہا جاتا ہے اور دنیاوی زندگی بڑی آسودگی اور فرحت سے گزرتی ہے ۔یہی معاملہ اخروی کھیتی کا ہے جہاں کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔کہ اس کے بھی کچھ اصول اور ضابطے ہیں اگر ان اصول اور ضوابط کا لحاظ رکھتے ہوئے آخرت والی زندگی کی تیاری کی جائے تو ایسے انسان کو ایک کامیاب انسان کہا جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۝۱۴ۙ [٨٧:١٤] وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰى۝۱۵ۭ [٨٧:١٥]
بے شک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا
چنانچہ وہ آدمی کامیاب اور با مرادہے جس نے اپنی زندگی کو اللہ کے ذکر سے سنوارااور ذکر رب ہی اصل کھیتی ہے اور یہ ذکر رب ہی ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت میں کامیاب و کامران بناتا ہے اور جو لوگ اللہ کا ذکر نہیں کرتے ان کو غافلین میں شمار کیا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ’’اعمیٰ‘‘ یعنی نابینا کہہ کر خطاب کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۝۷۲ [١٧:٧٢]
اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور (نجات کے) رستے سے بہت دور
اس آیت میں (ا ند ھا ) سے مر اد ظا ہر ی نا بینا نہیں ہے بلکہ اس سے مر اد دل کا اندھا ہو نا ہے ،جیسا کہ دوسری آیت میں ارشا د ہوتاہے :
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۝۴۶
کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے۔ اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہوتے ہیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اعراض کرتے ہیں یا اس کو بھلا دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کو بھلا دیتے ہیں جس سے اس کی دنیاوی زندگی بھی برباد ہوجاتی ہے اورعمر میں سے بھی برکت ختم ہوجاتی ہے گو بظاہر دنیاوی اعتبار سے وہ خوش حال ہوتا ہے لیکن ان کی قلبی دنیا ویران ہوجاتی ہے اور زندگی میں سکون نہیں ہوتا، سکون حاصل کرنے کے لیے رات دن ناچتے گاتے پھرتے ہیں شراب نوشی کرتے ہیں کلبوں میں شب گزاری کرتے ہیں لیکن یہ سکون ہے کہ ان سے کوسوں دور ہے اور جب ایک اذان دینے والے’’ ملا ‘‘کی زندگی پر سکون دیکھتے ہیں تو ان کو بڑی حسرت ہوتی ہے یہاں ان کا قلب ان کو نادم کرتا ہے لیکن اپنی ظاہری آن بان اور شیطانی سوچ اور نفسانی لذتوں کی وجہ سے یہ ’’ملا‘‘اس کو دشمن نظر آنے لگتا ہے اور اپنی خفت مٹانے کے لیے اس غریب’’ ملا ‘‘ کو مورد الزام ٹھہرا دیتا ہےبہر حال اس طرح کے لوگوں کو قلبی سکون بڑی سے بڑی دولت خرچ کرنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتا۔ چنانچہ اسکو اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى۝۱۲۴ [٢٠:١٢٤]
اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۝۱۲۵ [٢٠:١٢٥]
وہ کہے گا میرے پروردگار تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا میں تو دیکھتا بھالتا تھا
قَالَ كَذٰلِكَ اَتَتْكَ اٰيٰتُنَا فَنَسِيْتَہَا۝۰ۚ وَكَذٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسٰى۝۱۲۶ [٢٠:١٢٦]
خدا فرمائے گا کہ ایسا ہی (چاہیئے تھا) تیرے پاس میری آیتیں آئیں تو تونے ان کو بھلا دیا۔ اسی طرح آج ہم تجھ کو بھلا دیں گے
جو بھی اللہ کے ذکر سے اعراض کر یگا اس کو اپنی زندگی میں سختیوں اورپر یشا نیوں کا سامنا کر نا پڑے گا قیامت میں بڑی ذلت کا سامنا ہوگااور اس سے بڑی ذلت اور رسوائی کیا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس سے اعراض فرمالیں گے۔
ذکر دو طرح کا ہوتا ہے ایک ذکر لسانی اور دوسرا ذکر قلبی ۔ پہلے پہل ذکر لسان یعنی زبان پر ہی آتا ہے اور پھر اس پر مداومت کی وجہ سے وہ قلب میں اترتا چلا جاتاہے، اور یہی ذکر کا مغز اور ما حصل ہے جب ذکر قلب میں سرایت کرجاتا ہے تو اس کی کیفیت ہی دوسری ہوجاتی ہے، جس کو میں ایک دنیاوی مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔جواری یا سٹہ باز جب جوا کھیلتا ہے ،(جوا کھیلنا یہ دنیاوی قانون میں بھی جرم ہے اسلامی قانون میں تو ہے ہی )تو جب یہ جواری لوگ جوا کھیلتے ہیں تو بظاہر تو ان کا دل دماغ اس کھیل میں منہمک ہوتا ہے لیکن ان کے دل و دماغ میں یہ بات بھی گردش کررہی ہوتی ہے کہ کہیں پولیس نہ آجائے نہایت چوکنا ہوتےہیں ذرا بھی پتہ کھڑکتا ہے اوران کا دل ڈھڑکتا ہےاور یہ فواراًکھڑا ہوتا ہے ۔یا دوسری مثال کوّے کی لےلیجئے کتنا چوکنا ہوتا ہے ۔بس یہی حال ایک مومن کا ہونا چاہیے کہ تمام مشاغل میں مشغول رہتے ہوئے بھی وہ اللہ تعالیٰ کو اسی طرح حاضر و ناضر جانے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اس کو کہتے ہیں اللہ کا یاد رکھنا ۔ بہر حال جب اس طرح کا انسان اس دینا سے رخصت ہوتا ہے تو آخرت میں اس کا اعلیٰ مقام ہوتا ہے ۔
تو معلوم یہ ہوا انسان کے جس طرح کے اعمال ہوں گے آخرت میں اس کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ ہوگا جیسا اس نے دنیا میں کمایا ہوگا ویسا ہی اسکو وہاں اجر دیا جائیگااور قیامت کے دن صرف اعمال ہی کام آئیں گے کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۝۳۸ۙ وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ وَاَنَّ سَعْيَہٗ سَوْفَ يُرٰى۝۴۰۠ ثُمَّ يُجْزٰىہُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى۝۴۱ۙ [٥٣:٤١]
یہ کہ کوئی شخص دوسرے (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ
جو کوئی نیک کام کرتاہے تو اپنے لیے اور برائی کرتا ہے تو اپنے سر پر اور آپ کا رب تو بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا( سورة فصلت، آیت(۷۶
اور رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عن أبی هريرة أن رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم قال: إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة: إلا من صدقة جاريةو علم يتفع به وولد صالح يعوله (رقم ٣٠٨٤)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس سے تین چیزیں مستثنیٰ ہیں: صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہو یا نیک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے۔
یہاں یہ بات واضح ہورہی ہے کہ انسان کے مرنے کےبعدعمل سے اس کارشتہ ختم ہوجاتا ہے ۔اس لیے اب عمل کا وقت ختم ہوگیا عمل کا تعلق دنیا تک تھا ،اب چونکہ نقشہ بدل گیا ہے ایک
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
دنیا سے دوسری دنیا میں پہونچ گیا جہاں عمل ختم ہوجاتے ہیں اور کئے ہوئے کا اجر ملنا شروع ہوجاتا ہے ۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے کہ اس نے انسان کو مرنے کے بعد بھی کچھ راحت دی ہے ۔چنانچہ اگر کسی انسان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہےاور دنیا میںوہ جو’’ سعی‘‘ کرکے آیا ہے اس میں سے اس کو ثواب ملتا رہے گا وہ ’’سعی ‘‘ کیا ہے وہ اس کی اپنی کمائی ہے جس سے اس کو فائدہ حاصل ہوگا جب تک وہ ’’سعی ‘‘قائم رہے گی ، لیکن کسی دوسرے کی سعی( عمل) اس کے کام نہیں آئیگی(اس کو میں آگے واضح کروں گا) اب ’’سعی ‘‘ کیا ہےتو اس کو نبی کریم ﷺ نے ’’صدقہ جاریہ ‘‘سے تعبیر کیا ہے ۔اور وہ ہیں رِفاہ عامہ کی ضرورتیں مثلاً نہر، پانی کے نل، باغات، اشجار، مدارس مساجد کی تعمیر میں حصہ لینا خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں ،کسی کو علم دین سکھا دینا ،چنانچہ یہ سلسلہ جب تک جاری رہیگا اس کو ثوب ملتا رہیگا ،اور علم دین کی کوئی قید نہیں ہے اس میں تمام اسلامی تعلیمات شامل ہیں ۔اب رہاتیسرا صدقہ جاریہ کہ وہ کیا ہے وہ ہے’’اولاد صالحہ‘‘ یہ انسان کی’’ سعی‘‘(کمائی) ہے اگر کوئی انسان اپنے پیچھے اولاد صالحہ چھوڑ کر آیا ہے ان کی دعائیں اور کے نیک اعمال کی وجہ سے اس مرنے والے کو بھی فائدہ حاصل ہوگا ۔اب رہی رِفاہ عامہ کی بات تو عرض کردوں کہ رِفاہ عامہ میں کوئی تخصیص نہیں بلکہ ہر وہ عمل جس سے اللہ کی تمام مخلوق کو راحت اور فائدہ حاصل ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کواس فائدہ اور راحت پہنچنےےکی وجہ سے مرنے والے کو اس کا اجر ملتا رہے گا جب تک وہ باقی رہیں گی ۔ان سب باتوں سے یہ معلوم ہوا کہ’’مرنے والے سے انقطاع عمل ہوا ہے انقطاع ثواب نہیں ہوا تبھی تو اس کو اس کی کمائی (سعی) سے فائدہ ہوگا۔ایک چوتھی چیز اور ہے جس سے مرنے والے کو فائدہ پہونچتا ہے اور وہ ہے دعاءاس بارے میں ایک حدیث مبارکہ پیش خدمت ہے:
عن أبی أمامةالباهی عن رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم قال: أربع تجری عليهم أجورهم بعد الموت: رجل مات مرابطا فی سبيل اﷲ، ورجل علم علما فأجره يجری عليه ما عمل به، ورجل أجری صدقة فأجرها يجری عليه ما جرت عليه، ورجل ترك ولدا صالحا يدعو له( رقم۲۲۳۷۲)
حضرت ابو امامہ باہلی (رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : چار لوگ ہیں جن کا اجر ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے: ایک وہ جو سرحد پر نگہبانی کرتے ہوئے مر گیا۔ دوسرا وہ جس نے علم سکھایا اور اس کے لیے اس کا اجر جاری ہے، جب تک اس پر عمل ہوتا ہے۔ تیسرا وہ جس نے کوئی خیرات کا سلسلہ قائم کیا، اسے بھی اس وقت تک اجر ملتا رہے گا، جب تک یہ عمل جاری رہتا ہے۔ چوتھا وہ شخص جس نے اپنے پیچھے صالح اولاد چھوڑی اور وہ اس کے لیے دعا کرتی ہے۔
ایک دوسری حدیث مبارکہ میں ہے:
عن جرير قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم: من سن سنة حسنة فعمل بها کان له أجرها ومثل أجر من عمل بها لا ينقص من أجورهم شيا ومن سن سنة سيئة فعمل بها کان عليه وزرها ووزر من عمل بها لا ينقص من أوزارهم شيأ(رقم۲۰۳)
حضرت جریر( رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، جس نےکوئی اچھا طریقہ رائج کیا۔ پھر اس پر عمل بھی کیا تو اس کواپنے عمل کا بھی اجرملے گا اور اس کے اجر کے برابر بھی اجر ملے گا جس نے اس پر عمل کیا اور ان عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ رائج کیا۔ پھر اس پر عمل کیا تو اس پر اپنے گنا ہ کا بوجھ بھی ہو گا اور ان کے گناہ کا بوجھ بھی جو اس کو اختیار کریں گے اور ان کے بوجھوں میں کوئی کمی نہ ہو گی۔
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے:
ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون بااللہ شیئا الا شقعھم اللہ فیہ۔ ( ابو داؤد)
اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میت کے حق میں اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ یعنی بخش دیتا ہے۔
ان سب روایات سے معلوم ہوا کہ صرف انسان کا عمل منقطع ہوتا ہے لیکن اجر جاری رہتا ہے ۔ اب رہی دعاء کی بات کہ دعاء سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں تو اس کی دوتین مثال پیش کرتا ہوں ،ایک تو جنازہ کی نماز ہی دعاء ہوتی جس میں مرنے والے کے حق میں اچھے اجر کی دعاء کی جاتی ۔ملاحظہ فرمائیں نوح علیہ السلام کی یہ دعاء:
رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ۝۰ۭ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِـمِيْنَ اِلَّا تَبَارًا۝۲۸ۧ [٧١:٢٨]
اے میرے پروردگار مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لا کر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو معاف فرما اور ظالم لوگوں کے لئے اور زیادہ تباہی بڑھا ۔
رَبَّنَا اغْفِرْلِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ۝۴۱ۧ [١٤:٤١]
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
اے پروردگار حساب (کتاب) کے دن مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور مومنوں کو مغفرت کیجیو
ان تمام آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلینی چاہیے ۔ ایک تو یہ کہ جن کاموں کی اجازت دی گئی ہے ان میں سے ایک تو اولاد کا اپنے والدین کے لئے دعا مغفرت کرنے کا ذکر ہے لیکن اس بارے میں یہ بات غور طلب ہے کہ اگر والدین شرک کے حالت میں وفات پا گئے تو پھر ان کے لیے دعاء مغفرت کی بھی اجازت نہیں۔ جس کی دلیل’’ سورۃ التوبہ‘‘ کی مندرجہ ذیل آیات میں اس طرح ہے۔
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
اوران میں سے جو مرجائے کسی پر کبھی نماز نہ پڑھ اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو بے شک انہوں نے الله اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مر گئے۔ سورۃ التوبہ، آیت ۸٤
اور دوسرا دیگر مومن اور مؤمنات کے لیے دعاء کرنا۔اور بس ،لیکن ان میں قران خوانی یا موجودہ دور میں ایصال ثواب کے دیگر طریقوں کا کوئی ذکر نہیں ۔یہان دو بات سمجھ لینا نہایت ضروری ہے جہاں ہم سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر غلطی ہورہی ہے ۔ایک تو ہے انتقال عمل اور دوسرا ہےدعاء۔دعاء کے بارے میں تو میں عرض کرچکا ہوں کسی بھی مومن کے حق میں دعاء کی جاسکتی ہے لیکن کسی کو عمل بخشانا یہ بدعت اور نا سمجھی ہےعقلاً بھی اور نقلاً بھی اس کو اس طرح سمجھیں گے تو بات جلدی سمجھ میں آجائے گی۔ایک آدمی جو ساری زندگی بد اعمالی میں گزارتا ہے مرنے سے پہلے وہ کچھ رقم اس کام کے لیے وقف کردیتا ہے کہ اس کے انتقال کے بعد اتنے قرآن پاک میری طرف سے پڑھوادینا ،بس اس کی تو بخشش ہوگئی دوسری طرف ایک غریب ہے کہ وہ ساری زندگی شریعت کے مطابق گزارتا ہے لیکن اس کی بخشش کی پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں ۔چنانچہ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ ساری زندگی موج مستی کرو کچھ رقم ایصال ثواب (قرآن خوانی) کے لیے وقف کردو،اللہ اللہ خیر صلا ۔تو میرے بھائی اگر اس میں کوئی اصل ہوتی تو عمل کی کوئی ضرورت ہی باقی نہ رہی اورپھر اسلامی قانون اور دستور کی بھی کوئی ضرورت باقی نہ رہی۔بیشک قرآن پاک کی تلاوت کی بہت برکتیں اور عظمتیں ہیں اور باعث ثواب ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کے ذریعہ مردوں کی بخشش ہوتی ہے سچ پوچھو تو قیامت کے دن یہ بڑوں بڑوں کے لیے مصیبتں کھڑی کردیگا،زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں نہ یہ ہمارا موضوع ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ عمل کوئی کرے اور ثواب کسی کو ملے ایسا نہیں یہ سب دھوکا ہے کسی کے عمل سےکسی کو فائد نہیں ہوتا فریب نفس اور شیطانی چال ہے کہ مسلمانوں کو عمل سے بیگانہ کردیا جائے اور اسلامی تعلیمات ایک تماشہ بن کر رہ جائے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت واضح طور پر فرمادیا ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کے کام نہیں آئیگا صرف اس کا عمل اس کے کام آئیگا نہ بیٹا باپ کے کام آئیگا اور نہ باپ بیٹے کے کام آئیگا اور نہ کوئی حسب ونسب کام آئیگا نہ مال دولت کام آئیگی کام آئیں گے تو صرف اعمال صالحہ کام آئیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه، عَشْرُ اَمْثَالِهَا وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزی اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ
جو نیکی لے کر آئے گاتو اس کو اس کا دس گنا بدلہ ملے گا اور جو برائی لے کر آئے گاتو اس کو بس اس کے مثل بدلہ ملے گااور ان پر ظلم نہیں ہو گا۔(الانعام ٦:١٦٠)
بات طویل ہوتی جارہی ہے اب میں دوسری طرف آتا ہوں ،کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قبرستان جانا بدعت ہے اور وہاں قرآن پاک کی تلاوت کرنا اذان دینا غلط ہے لیکن اس بارے میں اسلامی تعلیمات اور حضور ﷺ کا کیا طریقہ عمل تھا وہ پیش خدمت ہے:
نمازِ جنازہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
جس مسلمان میت کی نمازِ جنازہ چالیس ایسے مسلمان ادا کریں جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ،تو اﷲ تعالیٰ اس میت کے حق میں ان کی سفارش کو ضرور قبول فرماتاہے ۔ (مسلم )
دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” جس میت کی نمازِ جنازہ امت مسلمہ کے سو افرادادا کرکے اس کی شفاعت کرتے ہیں تو ان کی سفارش اس میت کے حق میں قبول کی جاتی ہے ۔ (مسلم)
قبر کے پاس کھڑے ہوکر دعاء پڑھنا:
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو قبر میں رکھتے تو فرماتے
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
ِبسمِ اﷲِ وَعَلٰی سُنَّةِ رَسُولِ اﷲِ
اﷲ تعالیٰ کے نام سے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ۔(رواہ ابوداؤد)
نیز حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ :” جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوکر فرماتے : ” اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو، اور اس کے لیے ( اﷲ تعالیٰ سے ) ثابت قدمی مانگو ، اس لیے کہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا ۔ ( ابوداؤد )
قبرستان کی زیارت اور میت کے لیے دعائے مغفرت:
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے :
اَلسَّلاَمُ عَلٰی اَھلِ الدِّیَارِ مِنَ المؤُ مِنِینَ وَالمُسلِمِینَ وَیَرحَمُ اللّٰہُ المُستَقدِمِینَ مِنَّا وَالمُستَاخِرِی وَاِنَّا اِن شَائَ اللّٰہُ بِکُم لاَحِقُونَ ۔
ترجمہ :سلامتی ہو اِن گھروں میں رہنے والے مومنوں اور مسلمانوں پر، اوراللہ تعالی رحم کرے ہم سے پہلے فوت ہونے والوں پر اور پیچھے رہنے والوں پر۔ اور ہم بھی اگراﷲ نے چاہا تو تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں۔(رواہ مسلم)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کے بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ ( مشکوۃ)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالٰی نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے۔
ان کے علاوہ اور متعدد احدیث ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ قبرستان لے جا یا کرتے تھے ۔
اکابر امت کا قبرستان جانا:
عبداللہ بن مبارک کا شمارمشہور اور کبار محدثین میں ہوتا ہے ان کے بارے میں روایت ہے کہ جب یہ بغداد آئے تو امام ابوحنیفہؒ کی قبر پر گئے اور رو کر کہا ’’افسوس تم نے دنیا میں کسی کو جانشین نہ چھوڑا‘‘
تقریباً تمام اکابر کااپنے اساتذہ اور علماء عظام کی قبروں پر جانا ثابت ہے لیکن ان کا جانا کسی استفادہ کی غرض سے نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کے حق میں دعاء وغیرہ کرنا مقصود ہوتا تھا۔ ذیل میں بطور تذکرہ ،امام بخاری ؒ سے متعلق ایک واقعہ نقل کرتا ہوں اور بس۔
عوام الناس کی سید المحدّثین امام بخاری کے مزار پر حاضری:
امام ذہبی (748ھ) نے امیرالمؤمنین فی الحدیث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری (256ھ) کی قبر مبارک کے بارے میں ایک واقعہ لکھاہے:
ابو الفتح نصر بن حسن السکتی سمرقندی نے بیان کیا: کہ ایک بار سمرقند میں کچھ سالوں سے بارش نہ ہوئی تو لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی پس انہوں نے کئی بار نمازِ استسقاء ادا کی لیکن بارش نہ ہوئی. اسی اثناء میں اُن کے پاس ایک صالح شخص جو ’’صلاح‘‘ کے نام سے معروف تھا، سمر قند کے قاضی کے پاس گیا اور اس سے کہا : میں آپ سے اپنی ایک رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں. قاضی نے کہا : وہ کیا ہے؟ اس نے کہا :
أَرَی أَنْ تَخْرُجَ وَيَخْرُجَ النَّاسُ مَعَکَ إِلٰی قَبْرِ الْإِمَامِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيْلِ الْبُخَارِيِّ، وَقَبْرُه بِخَرْتَنْکَ، وَنَسْتَسْقِي عِنْدَه فَعَسَی اﷲُ أَنْ يَسْقِيْنَا. قَالَ : فَقَالَ الْقَاضِي : نَعَمْ، مَا رَأَيْتُ. فَخَرَجَ الْقَاضِي وَالنَّاسُ مَعَه، وَاسْتَسْقَی الْقَاضِي بِالنَّاسِ، وَبَکَی النَّاسُ عِنْدَ الْقَبْرِ وَتَشَفَّعُوْا بِصَاحِبِه. فَأَرْسَلَ اﷲُ تَعَالَی السَّمَائَ بِمَائٍ عَظِيْمٍ غَزِيْرٍ، أَقَامَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِه بِخَرْتَنْکَ سَبْعَةَ أَيَامٍ أَوْ نَحْوِهَا لَا يَسْتَطِيْعُ أَحَدٌ اَلْوُصُوْلُ إِلٰی سَمَرْقَنْدَ مِنْ کَثْرَةِ الْمَطَرِ وَغَزَارَتِه، وَبَيْنَ خَرْتَنْکَ وَسَمَرْقَنْدَ نَحْوُ ثَ.لَاثَةِ أَمْيَالٍ.
ذکره الذهبي في سير أعلام النبلاء، 12 / 469.

’’میری رائے ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں کو امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک پر حاضری دینی چاہیے، ان کی قبر خرتنک میں واقع ہے، ہمیں قبر کے پاس جا کر بارش طلب کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کردے. قاضی نے کہا : آپ کی رائے بہت اچھی ہے. پس قاضی اور اس کے ساتھ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے سو قاضی نے لوگوں کو ساتھ مل کر بارش طلب کی اور لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے. اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت کثیر وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا، تمام لوگ تقریباً سات دن تک خرتنک میں رکے رہے، اُن میں سے کسی ایک میں بھی کثیر بارش کی وجہ سے سمرقند پہنچنے کی ہمت نہ تھی حالانکہ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا
(اس واقعہ کو میں نے بر سبیل تذکرہ ذکر کردیا ہے اس سے استمداد بالقبر وغیرہ ثابت کرنا مقصود نہیں)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قبرستان جانا اور اہل قبرستان کے لیےدعاء کرنا مسنون ہے لیکن وہاں جاکر منتیں ماننا چراغان کرنا رونا پیٹنا اچھل کود کرنا چادریں چڑھانا شیرنی وغیرہ بانٹنا اذان وغیرہ دینا شرک ہے اور بت پرستی ہے کیونکہ اس سے پہلی قومیں بھی اپنے اکابر کی قبروں کے پوچنے کی وجہ سے ہی برباد ہوئیں۔جو کام (دعاء )آدمی قبرستان جا کرکرنا چاہتا ہے وہ گھر بیٹھ کر بھی ہوسکتا ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے ۔بہت سارے مفاسد کی وجہ سے قبرستان نہ جانا ہی زیادہ افضل ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے شرک اور بدعات سے تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب آمین یا رب العالمین
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
گزشتہ سے پیوستہ:
تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے سو قاضی نے لوگوں کو ساتھ مل کر بارش طلب کی اور لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے. اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت (اپنے صالح بندہ کی برکت کے سبب) کثیر وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا،
عن سليمان بن بريدة عن أبيه قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم قد کنت نهيتکم عن زيارة القبور فقد أذن لمحمد في زيارة قبر أمه فزوروها فإنها تذکر الآخرة قال وفي الباب عن أبي سعيد وابن مسعود وأنس وأبي هريرة وأم سلمة قال أبو عيسی حديث بريدة حديث حسن صحيح والعمل علی هذا عند أهل العلم لا يرون بزيارة القبور بأسا وهو قول ابن المبارک والشافعي وأحمد وإسحق
حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا بلاشبہ اب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت مل گئی پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ اس باب میں حضرت ابوسعید، ابن مسعود، انس، ابوہریرہ اور ام سلمہ سے بھی روایت ہے۔ امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں حدیث بریدہ حسن صحیح ہے۔ اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ قبروں کی زیارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ابن مبارک، شافعی، احمد، اور اسحاق، کا بھی یہی قول ہے۔ (جامع ترمذی:جلد اول ، قبروں کی زیارت کی اجازت)۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه کان إذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبد المطلب فقال اللهم إنا کنا نتوسل إليک بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليک بعم نبينا فاسقنا قال فيسقون
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تو عمر بن خطاب، عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ہمیں سیراب کر، راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کیے جاتے یعنی بارش ہوجاتی۔ (صحیح بخاری)۔۔۔۔

اب سوال یہ ہے؟؟؟۔۔۔
کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے برکت لینے کی بجائے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاسے کیوں برکت حاصل کررہے ہیں؟؟؟۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
حرب بھائی
یہ روایت اس طرح بھی ہے
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے’’ عام الرمادہ‘‘ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہما کو وسیلہ بنایا اور اﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی اور عرض کیا : اے اﷲ! یہ تیرےپیارے نبی ﷺ کے معزز چچا حضرت عباس ہیں ہم ان کے وسیلہ سے تیری رحمت کے طلب گار ہیں ہمیں پانی سے سیراب کر دے ابھی وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمرؓنے لوگوں سے خطاب فرمایا : اے لوگو! حضورﷺحضرت عباسؓ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے (یعنی حضورﷺ حضرت عباسؓ کو بمنزل والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و تکریم فرمایا کرتےتھے اور ان کی قسموں کو پورا فرمایا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس ؓکے بارے میں نبی اکرم ﷺ کی اقتداء کرو اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔
اور تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کیوں کہ آپﷺ ان کی تکریم فرمایا کرتے تھے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ صرف رسول اللہ ﷺ کے اس اکرام کی وجہ سے انہوں نے یہ عمل کیا
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
عابد عبدالرحمٰن بھائی۔۔۔
آپ نے جو اوپر واقعہ پیش کیا تھا۔۔۔ اس سلسلے میں، میں نے یہ دو مختلف احایث پیش کی ہیں۔۔۔ وہاں پر آپ نے بریکٹ ((اپنے صالح بندہ کی برکت کے سبب)) میں جو الفاظ لکھے۔۔۔ اُس سے مجھے یہ تاثر مل رہا ہے کے برکت کی آڑ میں تبرک سمیٹا جارہا ہے۔۔۔ کیونکہ بزرگان دین واولیاء یعنی ان شخصیات اور اُن کے آثار سے برکت لینا جائز نہیں۔۔۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی کے لوگ بیعت رضوان والے درخت کے پاس جاتے ہیں تو انہوں نے اس کے کاٹ ڈالنے کا حکم دیا۔۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی اذیت ناک کیفیت سے دوچار تھے اور بار بار اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ لیتے جب دقت ہوتی تو ہٹالیتے تھے۔۔۔ آپ نے اس کیفیت میں ارشاد فرمایا۔۔۔

اللہ تعالٰی یہود ونصارٰی پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔۔۔

اس کا مقصود ان کے طرز عمل سے متنبہ فرمایا تھا۔۔۔
یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کے اولیاء وبزرگان دین کے آثار سے برکت حاصل کرنا، اُن کی قبروں اور اُن سے منسوب مقامات پر جاکر دعائیں مانگنا جائز نہیں۔۔۔
 
Top