عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
تمام قارئین کرام کو احقر کی جانب سے سلام مسنون !
محترم قارئین عظام نہایت احتیاط کے ساتھ فورم میں داخل ہورہاہوں آج ایک نہایت ہی حساس موضوع پیش خدمت ہے معلوم نہیں کہاں کہاں کھینچائی ہو اور کیسی کیسی تنقید کاسامنا کرنا پڑے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہی میں نے اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کی ہےائمہ میں سے کسی کا بھی کوئی قول یا کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے آخیر میں بطور تاریخ کے ایک دو واقعہ لکھ دئے ہیں وہ صرف واقعہ ہی ہیں کوئی دلیل نہیں ہے۔ دیگر میں نے اس مضمون کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے کوئی خامی نظر آئے تو آگاہ فرمادیں میں خود بھی اس کا مطالعہ کروں گا اور جیسے جیسے مناسب ہوگا ایڈیتنگ کرتا رہوں گا۔ کوئی غلطی نظر آئے تو بشری تقاضے کے تحت نظر انداز فرمائیں لیکن آگا ضرور فرمادیں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
از: مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
ایصال ثواب میں افراط تفریط
تِلْكَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ۰ۚ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ۰ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۱۳۴ [٢:١٣٤]
یہ دنیا دار الاسباب ہے یہاں بغیر کوئی سبب اختیارکئے کچھ حاصل نہیں ہوتا اگرچہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ بغیر اسباب کے بھی عطا کرتا ہے مگر مخصوص حالات میں اور مخصوص ضرورتوں کے تحت،کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرماتا بھی رہتا ہے اور بغیر کسب کے بھی عطا فرما دیتا ہے۔ مگر یہ اس کی جاری وساری عادت نہیں ہے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ خالقِ کائنات کی عادت بھی اُس کی قدرتِ کاملہ ہی کے تحت ہوتی ہے، تاہم اِصطلاحاً اللہ کی عادت سے مُراد اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ نظامِ فطرت یا تکوینی نظام ہے، جس کے تحت یہ کائناتِ پست و بالا مسلسل حرکت پذیر ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کائنات کا آغاز تکوینی نظام کے تحت ہوا اور بالآخر اِس کا اِنجام بھی اِس تکوینی نظام کے تحت ہو گا۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے اس وقت میرا موضوع سخن یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات شامل کردی ہے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یہاں جیسا بوئے گا وہاں ویساہی کاٹے گاجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ۰ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۶۴ [٢٩:٦٤]
اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشہ ہے اور( ہمیشہ کی) زندگی (کا مقام) تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ (لوگ) سمجھتے
اس دنیاوی کھیتی کے کچھ اصول اور ضابطےہوتے ہیں اگر ان اصول اور ضابطوں کے تحت کھیتی کی جائے گی تو اس کو ایک کامیاب کاشتکار کہا جاتا ہے اور دنیاوی زندگی بڑی آسودگی اور فرحت سے گزرتی ہے ۔یہی معاملہ اخروی کھیتی کا ہے جہاں کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔کہ اس کے بھی کچھ اصول اور ضابطے ہیں اگر ان اصول اور ضوابط کا لحاظ رکھتے ہوئے آخرت والی زندگی کی تیاری کی جائے تو ایسے انسان کو ایک کامیاب انسان کہا جاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۱۴ۙ [٨٧:١٤] وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰى۱۵ۭ [٨٧:١٥]
بے شک وہ مراد کو پہنچ گیا جو پاک ہوا ۔اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا
چنانچہ وہ آدمی کامیاب اور با مرادہے جس نے اپنی زندگی کو اللہ کے ذکر سے سنوارااور ذکر رب ہی اصل کھیتی ہے اور یہ ذکر رب ہی ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت میں کامیاب و کامران بناتا ہے اور جو لوگ اللہ کا ذکر نہیں کرتے ان کو غافلین میں شمار کیا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ’’اعمیٰ‘‘ یعنی نابینا کہہ کر خطاب کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَفِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۷۲ [١٧:٧٢]
اور جو شخص اس (دنیا) میں اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اور (نجات کے) رستے سے بہت دور
اس آیت میں (ا ند ھا ) سے مر اد ظا ہر ی نا بینا نہیں ہے بلکہ اس سے مر اد دل کا اندھا ہو نا ہے ،جیسا کہ دوسری آیت میں ارشا د ہوتاہے :
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِہَا۰ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ۴۶
کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے۔ اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں (وہ) اندھے ہوتے ہیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔