• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان کے اجزاء پر مکالمہ

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
تمہید:
میرا اسی فورم پر ایک تھریڈ "الوہیت کا مدار کس چیز پر ہے" میں اس جگہ پر ابو امامہ صاحب سے بات ہو رہی تھی تو بیچ میں ایمان کے اجزاء پر بات آگئی تو میں نے وہاں انکو پوسٹ نمبر 50 میں کہا کہ اسکے لئے علیحدہ تھریڈ شروع کر دیتے ہیں پس اسی یعنی ایمان کے اجزاء کے سلسلے میں یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے پس یہاں میں مندرجہ ذیل ترتیب سے بات کروں گا
1-ابو امامہ صاحب کا ایمان کے بارے نظریہ لکھوں گا
2-پھر اپنی جماعت اہل حدیث کا نظریہ لکھوں گا
3-پھر اختلاف کی وجہ پر اپنی رائے لکھوں گا
4-آخر میں پھر باقاعدہ مکالمے کا آغاز سوال و جواب سے ہو گا

1-ابو امامہ کا نظریہ:
اوپر بتائے گئے تھریڈ کی پوسٹ نمبر 49 میں ابو امامہ صاحب نے یہ نظریہ ایسے بیان کیا ہے
میرے نزدیک ایمان دل کی تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے کہ جس میں حقیقت ایمان یعنی نفس ایمان کا تعلق دل سے ہے جبکہ اقرار لسانی کا تعلق شریعت اسلامیہ کے اجراء کے لیے بطور شرط جبکہ عمل بالجوارع کا تعلق کامل مرتبہ ایمان کے حصول کے لیے بطور شرط ہے جبکہ ایمان میں کمی و زیادتی کا تعلق بھی اسی کامل مرتبہ ایمان کے ساتھ خاص ہے نہ کہ" اصل ایمان" یعنی نفس ایمان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
یعنی انکے نزدیک ایمان کا رکن صرف دل کی تصدیق ہے
اور قول ایمان کا رکن بالکل نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کے اجرا کے لئے شرط کے طور پر قول کو لیا جاتا ہے یعنی شریعت میں اسکو مسلمان سمجھنا اور حدود وغیرہ کا نافذ کرنا وغیرہ قول کی شرط پوری ہونے کے بعد کیا جائے گا
اور عمل نہ تو ایمان کا رکن ہے اور نہ شریعت کے اجرا پر اسکا کوئی اثر ہو گا (یعنی ایک مسلمان کے ساتھ شریعت جو تعامل بتاتی ہے اس کا انحصار عمل پر نہیں ہو گا) بلکہ یہ عمل کامل ایمان کے لئے شرط ہو گا جسکا تعلق اللہ کے اجر دینے کے ساتھ ہو سکتا ہے مسلمانوں کے باہمی تعامل کے ساتھ نہیں
اگر میں درست نہیں سمجھا تو ابو امامہ صاحب میری اصلاح کر سکتے ہیں ظاہر ہے اپنی بات کی درست وضاحت وہی بہتر کر سکتے ہیں

2-اہل حدیث کا ایمان کے اجزاء بارے نظریہ:
ہمارا نظریہ وہی ہے کہ جسکی اہمیت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے بیان کیا ہے کہ
كتبت العلم عن ألف نفر من العلماء وزيادة ولم أكتب إلا عمن قال الإيمان قول وعمل ولم أكتب عمن قال : الإيمان قول . شرح أصول اعتقاد أهل السنة 5/889
یعنی ہم عمل کو بھی اور قول کو بھی ایمان کی جز سمجھتے ہیں اور اس میں کچھ وضاحت ہے جو میں اختلاف کی وجہ میں لکھوں گا
یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ سلف صالحین کے اقوال میں جو اختلاف آتا ہے کہ کبھی کہ ایمان کو قول اور عمل کہتے ہیں اور کبھی قول اور عمل اور اعتقاد کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ صرف لفظی اختلاف ہے پس جو صرف قول اور عمل کہتے ہیں انکے ہاں قول دل کا (اعتقاد) اور زبان کا(قول لسان) اور عمل دل کا(دلی اعمال مثلا محبت وغیرہ) اور جوارح کا (عام اعمال) ہے پس اختلاف نہیں ہے
ویسے تفصیل کے لئے اس لنک پر اہل حدیث کے منہج پر دلائل دئے ہوئے ہیں

3-میری رائے:
میرے خیال میں اہل حدیث اور دوسروں میں ایمان کے اجزا پر جو اختلاف ہے اس میں کچھ تو واقعی اختلاف ہے اور کچھ صرف لفظی ہیر پھیر ہے
اس لفظی اختلاف کی وجہ میرے خیال میں شاید یہ ہو کہ جو ایمان کو صرف دل کی تصدیق کا نام دیتے ہیں اور قول اور عمل کو رکن نہیں مانتے وہ نفس ایمان کو کفر کے مقابل سمجھ رہے ہوتے ہیں یعنی انکے نزدیک وہ چیز ہی ایمان کا حصہ یا جز یا رکن ہو سکتی ہے جس کی عدم موجودگی سے ایمان ہی جاتا رہے دوسری طرف جو قول اور عمل کو بھی ایمان کا جز مانتے ہیں تو ہو یہ نظریہ نہیں رکھتے کہ کسی جزء کے معدوم ہونے سے کفر لازم آئے گا
اس سلسلے میں اہل علم سے وضاحت چاہئے تاکہ پھر آگے مکالمے میں آسانی ہو پس میں مکالمے میں اس پر بھی اپنے سوال پیش کروں گا

4-مکالمے کا آغاز:
اوپر وضاحت کے بعد میں مکالمے کا آغاز نمبر وار سوالات سے کرتا ہوں ابو امامہ صاحب اور باقی اہل علم ان کے جوابات دے دیں
1-ابوامامہ کے ایمان بارے نظریے کی میں نے اوپر وضاحت کی ہے اگر غلط ہے تو اسکی اصلاح کر دیں
2-اہل حدیث کے ایمان بارے نظریے کی اوپر وضاحتکی ہے اس میں غلطی کی اسلاح کر دیں
3-اختلاف کی وجہ جو اوپر میں نے لکھی ہے اس میں غلطی کی اصلاح کر دیں
4- @ابو امامہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ نفس ایمان کے بارے بتائیں کہ کیا انکے نزدیک نفس ایمان سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جس کے عدم سے کفر اکبر لازم آتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ سوال ایسے ہے کہ کیا ہر اس شخص کو ایمان والا اور مسلمان کہا جائے گا کہ جس سے کفر اکبرسرزد نہ ہو یا پھر کوئی اور بات ہے
باقی باتیں بعد میں اگر کسی نے مجھ سے کوئی سوال اوپر لکھی گئی باتوں کے بارے کرنا ہے تو وہ بھی کر سکتے ہیں جزاک اللہ خیرا
 
Last edited by a moderator:

ابو امامہ

مبتدی
شمولیت
جون 04، 2015
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
3
باقی پیارے بھائی مسئلہ ایمان پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہ تھی پہلے ہی امت اس مسئلہ بہت کچھ کہہ چکی،مگر امت میں باہم اختلاف ہونے کہ باوجود ہر فریق ایک دوسرے کی قدر کرتا ہے سو میں اور آپ یہاں کچھ نیا نہیں ثابت کرسکیں گے اور یہ کہ میرے پاس وقت بھی نہیں ہوتا ۔ یہاں پردیس میں رزق کی تلاش سے ہی چھٹکارا پانا بہت مشکل ہےکہاں اور کون اتنی لمبی لمبی ابحاث میں سر کھپائے خیرمیں نے اپنا مؤقف بتا دیا ہے اور وہ وہی ہے جو کہ جمہور فقہاء متکلمین و اصولیین کا ہے اگر آپکو زیادہ دلچسپی ہے تو عمدۃ القاری کا مطالعہ فرمالیں وہاں مسئلہ ایمان پر تفصیلا گفتگو موجود ہے۔والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
باقی پیارے بھائی مسئلہ ایمان پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہ تھی پہلے ہی امت اس مسئلہ بہت کچھ کہہ چکی،مگر امت میں باہم اختلاف ہونے کہ باوجود ہر فریق ایک دوسرے کی قدر کرتا ہے سو میں اور آپ یہاں کچھ نیا نہیں ثابت کرسکیں گے اور یہ کہ میرے پاس وقت بھی نہیں ہوتا ۔ یہاں پردیس میں رزق کی تلاش سے ہی چھٹکارا پانا بہت مشکل ہےکہاں اور کون اتنی لمبی لمبی ابحاث میں سر کھپائے خیرمیں نے اپنا مؤقف بتا دیا ہے اور وہ وہی ہے جو کہ جمہور فقہاء متکلمین و اصولیین کا ہے اگر آپکو زیادہ دلچسپی ہے تو عمدۃ القاری کا مطالعہ فرمالیں وہاں مسئلہ ایمان پر تفصیلا گفتگو موجود ہے۔والسلام
میرے پیارے بھائی مجھے تو اسکی سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کے نزدیک امت کو کس چیز کی ضرورت ہے اگر آپ کے نزدیک امت کو واقعی اس ایمان کے اجزاء پر بحث کی ضرورت نہیں تو اس پر بحث آپ نے ہی شروع کی تھی میں نے نہیں کی تھی آپ نے سوال پوچھا تھا اور میں نے جواب دیا تھا مگر وہ سوال آپ نے ایک دوسرے دھاگہ (موضؤع) میں شروع کر دیا تھا تو اس لئے میں نے اسکو یہاں علیحدہ دھاگہ میں منتقل کر دیا تاکہ وہ موضوع خراب نہ ہو اس موضؤع کا لنک مندرجہ ذیل ہے
الو ہیت کا مدار کس چیز پر ہے

اب مجھے تو حیرانی اس بات پر ہے کہ اگر واقعی آپ نے اس پر بحث نہیں کرنی تھی تو اوپر والے لنک یعنی الوہیت کا مدار میں اس ایمان کے اجزاء کے بارے جواب کیوں دیا جو کہ متعلقہ موضوع ہی نہیں اس پر مجھے داغ کی مندرجہ ذیل غز یاد آ گئی ہے

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں----------باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں-----------صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں--------------جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتےبھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو-----------جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں

اب میں اگلی پوسٹ میں انکا جواب وہاں سے یہاں کاپی کے کے اسکا جواب دیتا ہوں اور گر انکے پاس وقت نہیں ہو تو بے شک جواب نہ دیں مگر اگر انکو وقت نہیں ملتا اور جواب نہیں دے سکتے تو کیا یہ انصاف ہو گا کہ پورے محدث فورم والوں کو ہی اسکا پابند کر دیں کہ میں چونکہ جواب نہیں دے رہا پس تم بھی جواب نہ دو
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ابوامامہ بھائی نے یہاں جواب دینے کی بجائے الوہیت کے مدار والے موضؤع میں مندرجہ ذیل جواب دیا ہوا ہے
اسلام علیکم بھائی !
پیارے بھائی بات کچھ الجھ سی گئی ہے خیر سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یعنی جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ ۔۔"ہمارے ہاں ایمان دل سے تصدیق یعنی عقیدہ پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایمان قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے"
یعنی اگر آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط ظاہری اعمال سے بھی ہوجایا کرتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کے آیا اس وقت جب آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط کسی ظاہری عمل سے ہورہا ہواس وقت قائل یا فاعل کے ایمان وعقیدہ کو دل کی تصدیق سے جاننے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے یا نہیں ؟؟؟اگر نہیں رہتی تو کیوں نہیں ؟؟؟ حالانکہ ایمان و عقیدہ کا اصل محل ہی دل ہے اور یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ ایمان و عقیدہ آپکے ہاں بھی دل کی تصدیق کا محتاج ہے ۔تو پھر خالی کسی ظاہری فعل سے کس طرح سے ایمان سے انحراف ہوسکتا ہے جبتک اس ظاہری فعل کے پیچھے جو دلی نظریہ(یعنی عقیدہ و ایمان) ہے اسے نہ جان لیا جائے؟؟؟؟
مثلا ایک ہندو شخص گنگا جل کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پانی ہے ۔
اسی طرح ایک مسلمان آب زم زم کی تعظیم کرتا ہے وہ بھی ایک پانی ہے۔
اب دونوں کے عمل میں دو چیزیں مشترکہ پائی گئیں پہلی پانی اور دوسری پانی کی تعظیم۔
اسی طرح ایک مسلمان حجر اسود کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پتھر ہے ۔
اور ایک ہندو پتھر سے بنے ہوئے اپنے بت کی تعظیم کرتا ہے ۔
یہاں بھی پتھر اور اسکی تعظیم کا فعل دنوں میں مشترکہ پایا گیا ۔ تو سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر وہ کیا چیز تھی کہ جس نے دونوں کے بظاہر ایک جیسے عمل کے باوجود ایک کو مومن و موحد رکھا جبکہ دوسرے کو کافر و مشرک بنا دیا ؟؟؟
امید ہے آپ میری الجھن سمجھ گئے ہونگے اور جواب سے ضرور نوازیں گے ۔
یعنی یہاں مجھے چیلنج کے انداز میں لازمی جواب دینے کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف منع کر رہے ہیں
خیر میں اس پوسٹ کے ٹکڑے کر کے جواب دیتا ہوں

پیارے بھائی بات کچھ الجھ سی گئی ہے خیر سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یعنی جب آپ یہ فرماتے ہیں کہ ۔۔"ہمارے ہاں ایمان دل سے تصدیق یعنی عقیدہ پر بھی مشتمل ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایمان قول سے بھی ہوتا ہے اور فعل سے بھی ہوتا ہے"
یعنی اگر آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط ظاہری اعمال سے بھی ہوجایا کرتا ہے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کے آیا اس وقت جب آپکے نزدیک ایمان کا تحقق فقط کسی ظاہری عمل سے ہورہا ہواس وقت قائل یا فاعل کے ایمان وعقیدہ کو دل کی تصدیق سے جاننے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے یا نہیں ؟؟؟اگر نہیں رہتی تو کیوں نہیں ؟؟؟ حالانکہ ایمان و عقیدہ کا اصل محل ہی دل ہے اور یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ ایمان و عقیدہ آپکے ہاں بھی دل کی تصدیق کا محتاج ہے ۔تو پھر خالی کسی ظاہری فعل سے کس طرح سے ایمان سے انحراف ہوسکتا ہے جبتک اس ظاہری فعل کے پیچھے جو دلی نظریہ(یعنی عقیدہ و ایمان) ہے اسے نہ جان لیا جائے؟؟؟؟
بات الجھ نہیں بلکہ میری بات سے بات سلجھ گئی ہے اور آپ بات کو الجھا رہے ہیں اور اس الجھانے کے لئے آپ ہماری دو علیحدہ نوعیت کی باتوں کو پیش کر رہے ہیں اور انکو ایک باور کرا کے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ہماری باتوں میں ہی تضآد ہے اصل میں آپ ہماری دو علیحدہ باتوں کو مکس کر رہے ہیں وہ باتیں مندرجہ ذیل ہیں جو میں نے اوپر بتائی ہیں
1۔ہمارے نزدیک دل کی تصدیق، زبان کا قول اور عمل بالجوارح کا ایمان کے اجزاء ہونا یعنی اصل میں ایمان ان ساری چیزوں کا مرکب ہے
2۔ہمارے نزدیک اور شاید آپ کے بھی نزدیک اللہ نے ہمیں چونکہ ظاہر کا مکلف بنایا ہے پس ہم صرف ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں دل کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے جیسا کہ فقہی قاعدہ ہے کہ لنا الحکم الظاہر وربنا یتولی السرائر
البتہ تکفیر کے معاملہ میں ایک تو کفر بواح کو دیکھا جائے گا اور دوسرا موانع تکفیر کے احتمالات کو بھی دیکھا جائے گا پس اس وقت اس فعل پر تو ظاہر کے مطابق حکم ہی لگے گا مگر فاعل پر حکم لگانے سے پہلے باقی شرائط پوری کرنا پڑیں گی مگر ان شرائط میں دل چیر کر دیکھنا شامل نہیں ہے

اب ان دونوں باتوں کو مکس کرتے ہوئے آپ نے لکھا کہ
اور یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ ایمان و عقیدہ آپکے ہاں بھی دل کی تصدیق کا محتاج ہے ۔تو پھر خالی کسی ظاہری فعل سے کس طرح سے ایمان سے انحراف ہوسکتا ہے جبتک اس ظاہری فعل کے پیچھے جو دلی نظریہ(یعنی عقیدہ و ایمان) ہے اسے نہ جان لیا جائے؟؟؟؟
بھائی میں نے دل کی تصدیق کے محتاج ہونے کی بات کہیں نہیں لکھی یہ تو شریعت کے مسلمہ اصول کے ہی خلاف ہے کہ کسی کے دل کی حالت ہم جان سکیں میں نے تو یہ لکھا کہ ایمان میں دل کی تصدیق بھی شامل ہے مگر ہم کسی کے دل کی بات کو نہیں جان سکتے
اسی لئے ہم لنا الحکم علی الظاہر کے تحت منافق کو دنیا کے لحاظ سے تو مسلمان ہی سمجھتے ہیں کیونکہ اسنے کفر کو دل میں چھپایا ہوتا ہے اور ظاہر اسلام کر رہا ہوتا ہے مگر وربنا یتولی السرائر کے تحت اللہ کے ہاں اسکا معاملہ فی الدرک الاسفل من النار والا ہو گا

مثلا ایک ہندو شخص گنگا جل کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پانی ہے ۔
اسی طرح ایک مسلمان آب زم زم کی تعظیم کرتا ہے وہ بھی ایک پانی ہے۔
اب دونوں کے عمل میں دو چیزیں مشترکہ پائی گئیں پہلی پانی اور دوسری پانی کی تعظیم۔
اسی طرح ایک مسلمان حجر اسود کی تعظیم کرتا ہے جو کہ ایک پتھر ہے ۔
اور ایک ہندو پتھر سے بنے ہوئے اپنے بت کی تعظیم کرتا ہے ۔
یہاں بھی پتھر اور اسکی تعظیم کا فعل دنوں میں مشترکہ پایا گیا ۔ تو سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر وہ کیا چیز تھی کہ جس نے دونوں کے بظاہر ایک جیسے عمل کے باوجود ایک کو مومن و موحد رکھا جبکہ دوسرے کو کافر و مشرک بنا دیا ؟؟؟
امید ہے آپ میری الجھن سمجھ گئے ہونگے اور جواب سے ضرور نوازیں گے ۔
بڑی زبردست مثال اپنی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے آپ نے خود ہی دے دی پس اب آپ بتائیں کہ آپ ایک مسلم اور ہندو کے پتھر کی اس طرح تعظیم کرنے میں فرق کیسے کرتے ہیں کیا دونوں کے دلوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں یا پھر دونوں کے باقی اقوال اور اعمال کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ فلاں ہندو اس بت کو مشکل کشا سمجھ کر عبادت کر رہا ہے اور فلاں مسلمان حجر اسود کو عمر رضی اللہ عنہ کے قول کی طرح غیر نافع سمجھ کر سنت کی پیروی میں اسکی تعظیم کر رہا ہے یہ مثال تو سب کچھ ہی سمجھا گئی کہ ہم دلوں کو نہیں دیکھ سکتے

نوٹ :- باقی پیارے بھائی مسئلہ ایمان پر نیا دھاگا کھولنے کی ضرورت نہ تھی پہلے ہی امت اس مسئلہ بہت کچھ کہہ چکی،مگر امت میں باہم اختلاف ہونے کہ باوجود ہر فریق ایک دوسرے کی قدر کرتا ہے سو میں اور آپ یہاں کچھ نیا نہیں ثابت کرسکیں گے اور یہ کہ میرے پاس وقت بھی نہیں ہوتا ۔ یہاں پردیس میں رزق کی تلاش سے ہی چھٹکارا پانا بہت مشکل ہےکہاں اور کون اتنی لمبی لمبی ابحاث میں سر کھپائے خیرمیں نے اپنا مؤقف بتا دیا ہے اور وہ وہی ہے جو کہ جمہور فقہاء متکلمین و اصولیین کا ہے اگر آپکو زیادہ دلچسپی ہے تو عمدۃ القاری کا مطالعہ فرمالیں وہاں مسئلہ ایمان پر تفصیلا گفتگو موجود ہے۔والسلام
بھائی جہاں تک صرف لفظی اختلاف کا معاملہ ہے تو میں اس میں کسی کو گمراہ نہیں کہتا اور ان لوگوں میں سے نہیں جو اجتہادی غلطی کی وجہ سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اشعری ماتریدی وغیرہ کو اسلام سے خارج کر دیتے ہیں البتہ اجتہادی طور پر جسکو کوئی انسان درست سمجھتا ہے تو جب کوئی اسکے خلاف کرتا ہے تو اسکو حکمت سے سمجھانا بھی شریعت کا تقاضا ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں جب تک تعصب نہ برتا جائے پس آپ کے عمدۃ القاری کے مطالعہ کی نصیحت پر میں آپ کو یہ نہیں کہتا کہ آپ بخاری کا مطالعہ کر لو کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی ایسے عالم سے علم ہی نہیں لیا کہ جو کہے کہ ایمان دل کی تصدیق اور قول ہی ہے بلکہ اپنی رائے دلائل سے لکھی ہے آپ اسکی اصلاح فرما دیں یا اگر واقعی وقت کی قلت ہے تو معذرت کر لیں شکریہ
 
Top