- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,038
- ری ایکشن اسکور
- 1,225
- پوائنٹ
- 425
تمہید:
میرا اسی فورم پر ایک تھریڈ "الوہیت کا مدار کس چیز پر ہے" میں اس جگہ پر ابو امامہ صاحب سے بات ہو رہی تھی تو بیچ میں ایمان کے اجزاء پر بات آگئی تو میں نے وہاں انکو پوسٹ نمبر 50 میں کہا کہ اسکے لئے علیحدہ تھریڈ شروع کر دیتے ہیں پس اسی یعنی ایمان کے اجزاء کے سلسلے میں یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے پس یہاں میں مندرجہ ذیل ترتیب سے بات کروں گا
1-ابو امامہ صاحب کا ایمان کے بارے نظریہ لکھوں گا
2-پھر اپنی جماعت اہل حدیث کا نظریہ لکھوں گا
3-پھر اختلاف کی وجہ پر اپنی رائے لکھوں گا
4-آخر میں پھر باقاعدہ مکالمے کا آغاز سوال و جواب سے ہو گا
1-ابو امامہ کا نظریہ:
اوپر بتائے گئے تھریڈ کی پوسٹ نمبر 49 میں ابو امامہ صاحب نے یہ نظریہ ایسے بیان کیا ہے
اور قول ایمان کا رکن بالکل نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کے اجرا کے لئے شرط کے طور پر قول کو لیا جاتا ہے یعنی شریعت میں اسکو مسلمان سمجھنا اور حدود وغیرہ کا نافذ کرنا وغیرہ قول کی شرط پوری ہونے کے بعد کیا جائے گا
اور عمل نہ تو ایمان کا رکن ہے اور نہ شریعت کے اجرا پر اسکا کوئی اثر ہو گا (یعنی ایک مسلمان کے ساتھ شریعت جو تعامل بتاتی ہے اس کا انحصار عمل پر نہیں ہو گا) بلکہ یہ عمل کامل ایمان کے لئے شرط ہو گا جسکا تعلق اللہ کے اجر دینے کے ساتھ ہو سکتا ہے مسلمانوں کے باہمی تعامل کے ساتھ نہیں
اگر میں درست نہیں سمجھا تو ابو امامہ صاحب میری اصلاح کر سکتے ہیں ظاہر ہے اپنی بات کی درست وضاحت وہی بہتر کر سکتے ہیں
2-اہل حدیث کا ایمان کے اجزاء بارے نظریہ:
ہمارا نظریہ وہی ہے کہ جسکی اہمیت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے بیان کیا ہے کہ
كتبت العلم عن ألف نفر من العلماء وزيادة ولم أكتب إلا عمن قال الإيمان قول وعمل ولم أكتب عمن قال : الإيمان قول . شرح أصول اعتقاد أهل السنة 5/889
یعنی ہم عمل کو بھی اور قول کو بھی ایمان کی جز سمجھتے ہیں اور اس میں کچھ وضاحت ہے جو میں اختلاف کی وجہ میں لکھوں گا
یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ سلف صالحین کے اقوال میں جو اختلاف آتا ہے کہ کبھی کہ ایمان کو قول اور عمل کہتے ہیں اور کبھی قول اور عمل اور اعتقاد کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ صرف لفظی اختلاف ہے پس جو صرف قول اور عمل کہتے ہیں انکے ہاں قول دل کا (اعتقاد) اور زبان کا(قول لسان) اور عمل دل کا(دلی اعمال مثلا محبت وغیرہ) اور جوارح کا (عام اعمال) ہے پس اختلاف نہیں ہے
ویسے تفصیل کے لئے اس لنک پر اہل حدیث کے منہج پر دلائل دئے ہوئے ہیں
3-میری رائے:
میرے خیال میں اہل حدیث اور دوسروں میں ایمان کے اجزا پر جو اختلاف ہے اس میں کچھ تو واقعی اختلاف ہے اور کچھ صرف لفظی ہیر پھیر ہے
اس لفظی اختلاف کی وجہ میرے خیال میں شاید یہ ہو کہ جو ایمان کو صرف دل کی تصدیق کا نام دیتے ہیں اور قول اور عمل کو رکن نہیں مانتے وہ نفس ایمان کو کفر کے مقابل سمجھ رہے ہوتے ہیں یعنی انکے نزدیک وہ چیز ہی ایمان کا حصہ یا جز یا رکن ہو سکتی ہے جس کی عدم موجودگی سے ایمان ہی جاتا رہے دوسری طرف جو قول اور عمل کو بھی ایمان کا جز مانتے ہیں تو ہو یہ نظریہ نہیں رکھتے کہ کسی جزء کے معدوم ہونے سے کفر لازم آئے گا
اس سلسلے میں اہل علم سے وضاحت چاہئے تاکہ پھر آگے مکالمے میں آسانی ہو پس میں مکالمے میں اس پر بھی اپنے سوال پیش کروں گا
4-مکالمے کا آغاز:
اوپر وضاحت کے بعد میں مکالمے کا آغاز نمبر وار سوالات سے کرتا ہوں ابو امامہ صاحب اور باقی اہل علم ان کے جوابات دے دیں
1-ابوامامہ کے ایمان بارے نظریے کی میں نے اوپر وضاحت کی ہے اگر غلط ہے تو اسکی اصلاح کر دیں
2-اہل حدیث کے ایمان بارے نظریے کی اوپر وضاحتکی ہے اس میں غلطی کی اسلاح کر دیں
3-اختلاف کی وجہ جو اوپر میں نے لکھی ہے اس میں غلطی کی اصلاح کر دیں
4- @ابو امامہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ نفس ایمان کے بارے بتائیں کہ کیا انکے نزدیک نفس ایمان سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جس کے عدم سے کفر اکبر لازم آتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ سوال ایسے ہے کہ کیا ہر اس شخص کو ایمان والا اور مسلمان کہا جائے گا کہ جس سے کفر اکبرسرزد نہ ہو یا پھر کوئی اور بات ہے
باقی باتیں بعد میں اگر کسی نے مجھ سے کوئی سوال اوپر لکھی گئی باتوں کے بارے کرنا ہے تو وہ بھی کر سکتے ہیں جزاک اللہ خیرا
میرا اسی فورم پر ایک تھریڈ "الوہیت کا مدار کس چیز پر ہے" میں اس جگہ پر ابو امامہ صاحب سے بات ہو رہی تھی تو بیچ میں ایمان کے اجزاء پر بات آگئی تو میں نے وہاں انکو پوسٹ نمبر 50 میں کہا کہ اسکے لئے علیحدہ تھریڈ شروع کر دیتے ہیں پس اسی یعنی ایمان کے اجزاء کے سلسلے میں یہ تھریڈ شروع کیا گیا ہے پس یہاں میں مندرجہ ذیل ترتیب سے بات کروں گا
1-ابو امامہ صاحب کا ایمان کے بارے نظریہ لکھوں گا
2-پھر اپنی جماعت اہل حدیث کا نظریہ لکھوں گا
3-پھر اختلاف کی وجہ پر اپنی رائے لکھوں گا
4-آخر میں پھر باقاعدہ مکالمے کا آغاز سوال و جواب سے ہو گا
1-ابو امامہ کا نظریہ:
اوپر بتائے گئے تھریڈ کی پوسٹ نمبر 49 میں ابو امامہ صاحب نے یہ نظریہ ایسے بیان کیا ہے
یعنی انکے نزدیک ایمان کا رکن صرف دل کی تصدیق ہےمیرے نزدیک ایمان دل کی تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے کہ جس میں حقیقت ایمان یعنی نفس ایمان کا تعلق دل سے ہے جبکہ اقرار لسانی کا تعلق شریعت اسلامیہ کے اجراء کے لیے بطور شرط جبکہ عمل بالجوارع کا تعلق کامل مرتبہ ایمان کے حصول کے لیے بطور شرط ہے جبکہ ایمان میں کمی و زیادتی کا تعلق بھی اسی کامل مرتبہ ایمان کے ساتھ خاص ہے نہ کہ" اصل ایمان" یعنی نفس ایمان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
اور قول ایمان کا رکن بالکل نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کے اجرا کے لئے شرط کے طور پر قول کو لیا جاتا ہے یعنی شریعت میں اسکو مسلمان سمجھنا اور حدود وغیرہ کا نافذ کرنا وغیرہ قول کی شرط پوری ہونے کے بعد کیا جائے گا
اور عمل نہ تو ایمان کا رکن ہے اور نہ شریعت کے اجرا پر اسکا کوئی اثر ہو گا (یعنی ایک مسلمان کے ساتھ شریعت جو تعامل بتاتی ہے اس کا انحصار عمل پر نہیں ہو گا) بلکہ یہ عمل کامل ایمان کے لئے شرط ہو گا جسکا تعلق اللہ کے اجر دینے کے ساتھ ہو سکتا ہے مسلمانوں کے باہمی تعامل کے ساتھ نہیں
اگر میں درست نہیں سمجھا تو ابو امامہ صاحب میری اصلاح کر سکتے ہیں ظاہر ہے اپنی بات کی درست وضاحت وہی بہتر کر سکتے ہیں
2-اہل حدیث کا ایمان کے اجزاء بارے نظریہ:
ہمارا نظریہ وہی ہے کہ جسکی اہمیت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے بیان کیا ہے کہ
كتبت العلم عن ألف نفر من العلماء وزيادة ولم أكتب إلا عمن قال الإيمان قول وعمل ولم أكتب عمن قال : الإيمان قول . شرح أصول اعتقاد أهل السنة 5/889
یعنی ہم عمل کو بھی اور قول کو بھی ایمان کی جز سمجھتے ہیں اور اس میں کچھ وضاحت ہے جو میں اختلاف کی وجہ میں لکھوں گا
یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ سلف صالحین کے اقوال میں جو اختلاف آتا ہے کہ کبھی کہ ایمان کو قول اور عمل کہتے ہیں اور کبھی قول اور عمل اور اعتقاد کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ صرف لفظی اختلاف ہے پس جو صرف قول اور عمل کہتے ہیں انکے ہاں قول دل کا (اعتقاد) اور زبان کا(قول لسان) اور عمل دل کا(دلی اعمال مثلا محبت وغیرہ) اور جوارح کا (عام اعمال) ہے پس اختلاف نہیں ہے
ویسے تفصیل کے لئے اس لنک پر اہل حدیث کے منہج پر دلائل دئے ہوئے ہیں
3-میری رائے:
میرے خیال میں اہل حدیث اور دوسروں میں ایمان کے اجزا پر جو اختلاف ہے اس میں کچھ تو واقعی اختلاف ہے اور کچھ صرف لفظی ہیر پھیر ہے
اس لفظی اختلاف کی وجہ میرے خیال میں شاید یہ ہو کہ جو ایمان کو صرف دل کی تصدیق کا نام دیتے ہیں اور قول اور عمل کو رکن نہیں مانتے وہ نفس ایمان کو کفر کے مقابل سمجھ رہے ہوتے ہیں یعنی انکے نزدیک وہ چیز ہی ایمان کا حصہ یا جز یا رکن ہو سکتی ہے جس کی عدم موجودگی سے ایمان ہی جاتا رہے دوسری طرف جو قول اور عمل کو بھی ایمان کا جز مانتے ہیں تو ہو یہ نظریہ نہیں رکھتے کہ کسی جزء کے معدوم ہونے سے کفر لازم آئے گا
اس سلسلے میں اہل علم سے وضاحت چاہئے تاکہ پھر آگے مکالمے میں آسانی ہو پس میں مکالمے میں اس پر بھی اپنے سوال پیش کروں گا
4-مکالمے کا آغاز:
اوپر وضاحت کے بعد میں مکالمے کا آغاز نمبر وار سوالات سے کرتا ہوں ابو امامہ صاحب اور باقی اہل علم ان کے جوابات دے دیں
1-ابوامامہ کے ایمان بارے نظریے کی میں نے اوپر وضاحت کی ہے اگر غلط ہے تو اسکی اصلاح کر دیں
2-اہل حدیث کے ایمان بارے نظریے کی اوپر وضاحتکی ہے اس میں غلطی کی اسلاح کر دیں
3-اختلاف کی وجہ جو اوپر میں نے لکھی ہے اس میں غلطی کی اصلاح کر دیں
4- @ابو امامہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ نفس ایمان کے بارے بتائیں کہ کیا انکے نزدیک نفس ایمان سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جس کے عدم سے کفر اکبر لازم آتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ سوال ایسے ہے کہ کیا ہر اس شخص کو ایمان والا اور مسلمان کہا جائے گا کہ جس سے کفر اکبرسرزد نہ ہو یا پھر کوئی اور بات ہے
باقی باتیں بعد میں اگر کسی نے مجھ سے کوئی سوال اوپر لکھی گئی باتوں کے بارے کرنا ہے تو وہ بھی کر سکتے ہیں جزاک اللہ خیرا
Last edited by a moderator: