• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایم فل کے مقالہ کے سلسلے میں ایک مشکل کا حل چاہیے۔

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بھائی جان،ابھی تک نہیں بنایا۔کوشش کررہاہوں۔مدد درکار ہے تاکہ اس رسمی کاروائی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے بعد میں ان شاء اللہ اصل کام شروع ہوگا،اس وقت مناسب ترمیم و اضافہ جات’’تبویب میں کرلیں گے،موضوع کی اہمیت وضرورت پر ایک تعارفی نوٹ درکار ہے،میں بھی لکھ رہا ہوں،آپ بھی اس سلسلے میں رہنمائی کریں
ان شاء اللہ آج ہماری جامعہ میں الدفاع عن الحرمین الشریفین کانفرنس ہے اس سلسلسے میں پچھلے دو ہفتے سے شدید مصروفیت تھی اس سے فارغ ہو کر میں آپ کے ساتھ عملی تعاون کرتا ہوں
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
موضوع تعارف:

قرآن مجید کے علاوہ اور جتنی آسمانی کتابیں ہیں جو مختلف ادوار میں پیغمبروں پر نازل ہوتی رہی ہیں،ان میں کوئی بھی کتاب آج دنیا میں ایسی حالت میں نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ دعوی کیا جاسکے کہ یہ وہی نسخہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر نازل کیا تھا۔زبور کے ماننے والوں کا وجود نظر نہیں آتا البتہ تورات اور انجیل کے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد آج دنیا میں پائی جاتی ہے لیکن ان کا کوئی بھی بڑےسے بڑا عالم یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ ہمارے پاس تورات یا انجیل کاجو نسخہ ہے وہ بالیقین وہی ہے جو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔

حقیقت کچھ یوں ہے کہ قطعی دلائل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آسمانی کتابوں میں اسقدر تحریف وترمیم ہوچکی ہے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ اس کون سا حصہ منزل من اللہ ہے؟ اور کون سا حصہ علماء یہودو نصاری کی خیانتوں کا شاہکار ہے؟

قرآن مجید ہی وہ واحد کتاب ہے جو اپنے نازل ہونے کے وقت سے لے کر اب تک اورتاقیامت کسی بھی طرح کی امیزش،کمی بیشی اورحذف واضافہ سے محفوظ رہے گی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود رب العالمین نے لیا ہے۔ڈیڑھ ہزار برس کی طویل مدت بھی اثر انداز نہ ہوسکی اور آج اس کا ایک ایک حرف،ایک ایک نقطہ ٹھیک اسی حالت میں ہے جس حالت میں نبی کریمﷺپر نازل ہوا تھا۔

دشمنانِ اسلام کے لیے یہ تو ممکن نہ ہوسکا کہ قرآن مجید میں ترمیم وتحریف کی جسارت کر سکیں البتہ انہوں نے ایک زبردست سازش تیار کی کہ قرآن مجید کے جن واقعات کو مختصر بیان کیا گیا تھا ان کی تفصیلات میں جھوٹے قصے،مہمل باتیں،خلاف عقل ومشاہدہ اورمحیر العقول واقعات اس ضمن میں بیان کرکے مسلمانوں میں پھیلا دئیے تا کہ قرآن مجید کی بے داغ صداقت بڑی آسانی سے داغدار کی جاسکے۔


یہودیوں کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ظاہری اسلام کے لبادے میں اسلام ہی کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے لگے اوریہودیانہ سماج میں پھیلی ہوئی انبیاء علیہ السلام کے متعلق من گھڑت باتوں کو مسلمانوں کی مجالس میں بیان کرنے لگے تاکہ مسلمانوں کے صحیح وسالم عقائد میں شکوک وشبہات کے بیج بو دئیے جائیں،ان تمام دجل وفریب میں یہودیت کا رنگ جھلکتا تھا،یہی وجہ ہے کہ ان روایتوں کو’’اسرائیلیات‘‘سے منسوب کیا جانے لگا۔

اسرائیلیات ،اسلامی اصطلاح میں جہاں ان روایتوں کو لفظ’’اسرائیلیات‘‘ سے منسوب کیا جاتا ہے جن کا سرچشمہ یہودیت ہے،وہیں ان واقعات و قصص پر بھی ان کا اطلاق ہونے لگا ہے جن کا اصل منبع یہودیت تو نہیں بلکہ ان روایات کو گھڑنے(وضع) کرنے والے منافقین اورمشرکین بشمول نصاری ہیں۔

جیسے قصہ غرانیق ہے،جو اصل میں یہودیوں کا تراشیدہ نہیں بلکہ یہ زنادقہ کا وضع کردہ ہوا افسانہ ہے۔اسی طرح زینب بنت جحش کا واقعہ بھی مشرکین کا گھڑا ہوا ہے لیکن اصطلاح میں ان روایتوں کو بھی اسرائیلیات میں شمار کیا گیا ہے کیونکہ ہر وہ واقعہ جو جس میں یہودیت کا رنگ جھلکتا ہے جو یہودی ذہن کی ترجمانی کرتا ہے وہ اصطلاحاً اسرائیلیات کے زمرے میں ہی آئے گا۔


ان میں بہت سی ایسی روایات ہیں جو اسلامی تعلیمات کی روح اور اس کی تصریحات کے منافی ہیں۔

مسلمانوں میں اسرائیلی روایات کا دخل مختلف طریق سے ہوا،اول عرب تجار کے یمن اور شام کے تجارتی اسفار جہاں یہودیوں اور اہل کتاب کی اکثریت تھی،نتیجہ یہ نکلا کہ عربوں اور یہودیوں میں قربت پیدا ہوتی چلی گئی اور پھر عرب اپنی بدویت اوراَن پڑھ ہونے کی وجہ سے ان کی تہدیب وتمد ن اور مذہبی روایات سے مرعوب ہونے لگے اور ان کے دلوں میں یہودیوں کے لیے نرم گوشہ ضرور پیدا ہوگیا ہاں یہ حقیقت ہے کہ یہ تاثر کم تھا۔

ظہور اسلام کے بعد سب سے بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ یہودیوں کے مشہور علماء میں سے کئی ایک نے اسلام قبول کر لیا جیسے عبداللہ بن سلام،عبداللہ بن صوریا( رضی اللہ عنہم)یہ لوگ تورات کے عالم تھے اورروایات تورات سے بخوبی واقف تھے اورمسلمان ان کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

مسلمان قرآن کے مجمل واقعات کی تفصیل ان شخصیات سے پوچھتے تو یہ اصحاب رسول ان کو یہودی مذہب کی جو روایات معلوم ہوتی تھیں وہ بیان کر دیتے تھے اس طرح اسلامی روایات میں اسرائیلی روایات مخلوط ہوگئیں۔

اسرائیلیات کی حدیثی لٹر یچر میں دخل اندازی میں قصہ گو واعظین،منافقین کی سازشیں اور فرضی سندوں کا عنصر نمایاں رہا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
یہ تمام عنوانات دو ،تین عربی کتب سے میں نے نقل کیے ہیں،مقالہ کے سلسلے میں تبویب کرنی ہے،ہدایات کے مطابق چار ابواب تک اپنے مقالے کو محدود رکھیں اور ہر باب کی تین یا چار فصول بنا لیں۔
کم از کم ہم نے ان عنوانات میں سے تین ابواب منتخب کرنے ہیں،چوتھا باب’’اسرائیلیات فی الحدیث‘‘کے لیے مخصوص ہے،اس سلسلے میں بھائیوں سے رہنمائی کا طلب گار ہوں

نوٹ:اردو میں ابواب بندی کرنی ہے

معنی الاسرائیلیات
کیف تسربت الاسرائیلیات الی التفسیر والحدیث
مدی خطورۃ الاسرائیلیات علی عقائد المسلمین وقدسیۃ الاسلام
امتزاج الثقافۃ الاسرائیلیۃ بالثقافۃ الاسلامیۃ
الإسرائيليات والمسألة العقدية
تحذر من خطر الإسرائيليات على عقيدة المسلمين
الخلفية التاريخية وإسرائيليات الإصابة

اقسام الاسرائیلیات
حکم روایۃ الاسرائیلیات
1:ادلۃ المنع
2:أدلۃ الجواز
التوفیق بین أدلۃ المنع والدلۃ الاباحۃ
خلاصۃ القول فی حکم روایۃ الاسرائیلیات
مقالۃ ابن تیمیہ
مقالۃ البقاعی

أشھر رواۃ الاسرائیلیات
اشھر من عرف بروایۃ الاسرائیلیات من الصحابہ
1ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
2عبداللہ بن عباسؓ رضی اللہ عنہ
3عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ
5تمیم داری رضی اللہ عنہ
اشھر من عرف بروایۃ الاسرائیلیات من التابعین
کعب الاحبار
وھب بن منبہ
اشھر من عرف بروایۃ الاسرائیلیات من اتباع التابعین
1محمد بن سائب الکلبی
2عبدالمالک بن عبدالعزیز بن جریج
3مقاتل بن سلیمان
4محمد بن مروان السدی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

بندہ ھذا’’جی سی یونیورسٹی فیصل آباد‘‘میں ایم فل اسلامیات کا طالب علم ہے۔ایک سال اختتام پذیر ہو چکا ہے یعنی دو سمسٹر مکمل ہوچکے ہیں،اب ایک سال کا عرصہ’’Thesis‘‘کے لیے وقف ہے۔سب سے پہلا مرحلہsynopsis}‘‘کا ہے،بعد اس کے مکمل مقالہ۔

ڈین آف شعبہ عربی واسلامیات’’ڈاکڑ ہمایوں عباس صاحب‘‘ہیں(جو مسلکا بریلوی ہیں اورصوفیانہ افکار میں یدطولیٰ رکھتے ہیں،ان کی زیادہ تر کوشش یہی ہوتی ہے کہ طلبا سے صوفیانہ تالیفات،تصنیفات پر کام کرایا جائے)
ڈاکڑ صاحب چونکہ میرے احوال سے باخوبی واقف تھے تو انہوں نے مجھے ایک مختلف ٹاپک دیا،جس پر میرے کافی تحفظات تھے لیکن ڈاکڑ صاحب نے کہا کہ ہمارا بینچ یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ آپ اس پر کام کریں گے تو لنگوٹ کس کر اس کام کو شروع کریں۔

عنوان:

’’کتب احادیث میں اسرائیلی روایات کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘

بلکہ قوسین میں یہ بھی لکھ دیا’’خصوصاً مسند احمد کی مرویات‘‘کا جائزہ

اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ’’اسرائیلیات‘‘کا اصل میدان’’کتب تفاسیر‘‘ہیں ناکہ’’کتب احادیث‘‘سوائے چند کے مثلاً’’مسند فردوس دیلمی‘‘ اور حکیم ترمذی کی ایک عدد تصنیف

فورم میں موجود اہل علم بھائیوں سے التماس ہے کہ وہ اس سلسلہ میں میری بھرپور مدد کریں کہ اس ٹاپک پر کام ہوسکتا ہے یا دوسرا آپشن منت سماجت کرکے اس کو تبدیل کرایا جاسکے۔

نوٹ:

بندہ عربی میں اتنا ماہر نہیں کیونکہ میں نے درس نظامی نہیں کیا۔لیکن تین چار ماہ سے کوشش جاری ہے اور کچھ علماء سے بھی عربی کے سلسلے میں استفادہ جاری ہے

اسلام علیکم

اپ کا مراسلہ ملا آپ کا ٹاپک بہت وسیع ہے اور مسند احمد بھی

آپ کعب الاحبار کی روایات مسند سے اکھٹی کریں یہ عمر راضی الله کے دور میں ایمان لائے پھر دوسرے وھب بن منبہ ہیں یہ عثمان راضی الله کے دور میں پیدا ہوئے

یہ دونوں یہودی تھے ممکن ہے کچھ اہل کتاب سے نقل کیا ہو

وسلام
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
@عکرمہ

اہل علم خصوصاً تفاسیر قرآن سے شغف رکھنے والوں کے لیے کعب احبارؒ کوئی غیر معروف نام نہیں، اسرائیلیات کی روایت کے باب میں کعب احبارؒ کا تذکرہ تقریباً تمام تفاسیر میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔ کعب احبارؒ کے متعلق صحابہ کرام ؓکے مختلف رویوں کی بنا پر کعب احبارؒ کی شخصیت اور ان کی ثقاہت اہل علم کے ہاں زیر بحث رہتی ہے۔ علامہ کوثریؒنے کعب احبارؒ کے متعلق اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں ایک مضمون تحریر کیا تھا، جو اپنی جامعیت کے ساتھ ساتھ اپنی افادیت میں بھی بھرپور ہے۔ اس مضمون میں ’’اسرائیلیات ‘‘کے باب میں ایک فیصلہ کن موقف بیان کیا گیا ہے۔اس عربی مضمون کا ترجمہ اردو دان طبقے کے فائدے کے لیے پیش خدمت ہے۔ (از مترجم)

قریبی علاقوں کے کچھ فضلاء اہل علم کی خواہش تھی کہ میں مندرجہ ذیل سوال کے جواب کے بارے میں اپنی رائے پیش کروں، چنانچہ اس موضوع کے متعلق میں نے اپنی بساط کے مطابق کچھ تحریر کیا۔ ذیل میں سوال کی عبارت اور پھر اس کے متعلق میرا جواب حاضر خدمت ہے:

سوال:

جنت و جہنم کے متعلق اہل اسلام کے افکار و نظریات پرکعب احبار(یہودی یا مسلمان) کی ذکر کردہ روایات کا کس قدر اثر ہے؟ مثلاً قصۂ اسراء و معراج کے بارے میں مولائے مسلمانان ابن عباسؓ سے کعب احبار کی ذکر کردہ روایت جس کا ہماری قوم میں خوب شہرہ ہے، اور ’’التفسیر الحدیث‘‘ (جلد ثانی)میں بھی موجود ہے؟

جواب:

اب میرا جواب ملاحظہ کیجیے: سائل نے ’’التفسیر الحدیث ‘‘ سے اپنی مراد واضح نہیں کی، اور نہ ہی اس قصے ہی کو بتایا ہے جو قوم میں مشہور ہے کہ اس کے متعلق کسی طور پر کھل کر بات کی جا سکے، اگر سائل کی مراد اس قصے سے وہ طویل قصہ ہے جس کو ابن جریرؒ وغیرہ مفسرین نے سورۂ اسراء کی تفسیر میں ذکر کیا ہے، تو اس کی سند میں نہ تو کعبؒ ہیں اور نہ ہی ابن عباسؓ،بلکہ اس روایت میں ابو جعفر عیسی بن ماہان رازی ہیں جو اپنے ضعف حافظہ کی وجہ سے معروف ہیں۔ اسی طرح اس روایت میں ابو ہارون عمارہ بن جوین اور خالد بن یزید بن ابو مالک ہیں، اور یہ دونوں متہم بالکذب ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان روات کی روایت حجت نہیں ہو سکتی، خاص طور پر اس طویل قصے جیسی روایات میں۔ اس طویل قصے کا کعبؒ سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، مزید یہ کہ جنت و جہنم دونوں ایسے موضوعات ہیں جن کے ذکر سے موجودہ تورات کے نسخے جو آج یہود کے پاس ہیں‘خالی ہیں، حتیٰ کہ ان دونوں کے ذکر سے تورات کا خالی ہونا تورات کے محرف ہونے پر واضح دلائل میں سے شمار کیا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ تورات جنت وجہنم کے اس اہم موضوع سے خالی ہے، جو انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کے خاص پہلو ’’ایمان بالبعث بعد الموت ‘‘(موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے پر ایمان) سے متعلق ہے۔ لہٰذا یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کعبؒ جنت و جہنم کے متعلق قصے کتب یہود سے نقل کرتے ہوں، بلکہ ’’تلمود ‘‘ میں تو تناسخ (آواگون) کے متعلق بھی نص موجود ہے، جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کے سراسر منافی عقیدہ ہے۔

رؤیتِ باری تعالیٰ اور کعبؒ و ابن عباس ؓکا مکالمہ

البتہ معراج کی رات رؤیتِ باری تعالیٰ کے بارے میں جو گفتگو کعبؒ اور ابن عباسؒکے درمیان ہوئی ہے، وہ امام ترمذیؒنے اپنی جامع میں ’’سورۃ النجم ‘‘کی تفسیر کے ذیل میں روایت کی ہے، لیکن اس کی سند میں مجالد بن سعید موجود ہیں جو حافظے کے کمزور اور مختلط ہیں۔ اس روایت میں جو شعبیؒ کے الفاظ ہیں، وہ اس روایت کے اتصال کا فائدہ نہیں دیتے ہیں اورکچھ احادیث صحاح بھی اس روایت کے معارض مروی ہیں۔

کعبؒ کا تعارف

یہ کعبؒ جو موضوع بحث ہیں، انہیں ’’کعب احبار ‘‘اور ’’کعب حبر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’’ابن مانع حمیری ‘‘ہیں۔ یہود کے سرکردہ اہل علم میں سے تھے اور کتب یہود کے بارے میں سب سے وسیع اطلاع رکھتے تھے۔ مخضرمین میں سے تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام دونوں پائے۔ یمن میں پیدا ہوئے، اور وہیں رہائش پذیر رہے، تا آنکہ وہاں سے ہجرت فرمائی، اور سن ۱۲ ہجری حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اسلام لائے۔ابن سعد ؓنے اہل شام کے تابعین میں آپ کو طبقۂ اولیٰ میں ذکر کیا ہے، اور مزید کہتے ہیں کہ :’’آپ دین یہود پر تھے، پھر اسلام لائے اور مدینہ منورہ ہجرت فرمائی، شام کی طرف روانہ ہوگئے اور تاحیات حمص ہی میں رہے۔ سن ۳۲ ہجری حضرت عثمان ؓکے دور خلافت میں آپؒ کی وفات ہوئی۔سن وفات کے بارے میں ایک سے زائد قول ہیں۔

ابن حبان ’’الثقات‘‘میں فرماتے ہیں: آپؒ نے سن ۳۴ ہجری میں وفات پائی، اور ایک قول کے مطابق سن ۳۳ ہجری میں وفات پائی۔ ۱۰۴ سال زندگی پائی۔ ابن سعد ؓ نے ابن مسیب ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ابن عباس ؓنے کعبؒ سے فرمایا : آپ کو عہد نبوی، اور عہد صدیقی میں اسلام لانے سے کیا چیز مانع تھی کہ آپ عہد فاروقی میں اسلام لائے؟ تو کعبؒ نے جواب میں کہا: میرے والد نے میرے لیے تورات کے منتخبات سے ایک کتاب تیار کی تھی اور کہا تھا کہ : ’’بس! اس پر عمل کرو‘‘، اور باقی تمام کتب کو مہربند کردیا تھا،اور مجھ سے باپ بیٹے کا عہد لیا تھا کہ میں ان کتب سے مہر کو نہ توڑوں، جب میں نے اسلام کے غلبے کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ شاید میرے والد نے مجھ سے ان کتب میں کوئی علم چھپا کر رکھا ہے، چنانچہ میں نے اس مہر کو کھولا تو اس میں آپ ﷺ اور آپﷺ کی امت کا تذکرہ موجود تھا، چنانچہ میں مسلمان ہو کر آگیا۔



اس قصے کی سند میں حماد بن سلمہ ہیں جو مختلط تھے، اور جن کی روایت سے امام بخاری ؒو امام مسلم ؒدونوں پرہیز کرتے ہیں۔البتہ حماد بن سلمہ کی دوسری روایات جو ثابتؒ سے ہیں، وہ چونکہ مرضِ اختلاط کے بعد بھی ویسی ہی تھیں، جیسی مرض اختلاط سے پہلے تھیں، اس لیے وہ روایات بخاری ؒ و مسلمؒ نے ذکر کی ہیں۔ نیز اس روایت میں علی بن زید بن جدعان بھی ہیں، جنہیں کئی اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔

کعب ؒ کی ثقاہت وعدمِ ثقاہت

جمہور اہل علم نے کعبؒ کی توثیق کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ضعفاء و متروکین کی کتب میں آپ کو ان کا تذکرہ نہیں ملے گا۔امام ذہبی ؒنے انہیں طبقات الحفاظ میں ذکر کیا ہے، اور ان کا مختصر سا تعارف ذکر کیا ہے۔ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق میں آپ کاکھل کر تعارف پیش کیا ہے۔ابو نعیم ؒ نے ’’حلیۃ الأولیاء‘‘ میں کعب ؒ کے قصص، آپ کے مواعظ، آپ کی مجالس، آپ کی حضرت عمرؓکو نصائح، اور جنت و جہنم کے متعلق آپ کی روایات کو طویل سندکے ساتھ مفصل ذکر کیا ہے، جس سند میں فرات بن سائب بھی ہیں، البتہ ابو نعیم ؒنے ان کا ماخذ ذکر نہیں کیا۔ ابن حجرؒ نے ’’الإصابۃ‘‘ اور ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں آپ کا تعارف پیش کیا ہے۔ بہرحال نقاد محدثین آپ کی ثقاہت پر متفق ہیں، لیکن امام بخاری ؒنے اپنی صحیح کی ’’کتاب الاعتصام‘‘ میں حضرت معاویہ ؓ کا مقولہ نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے کعبؒ کا ذکر کرتے ہوئے فرما یا :’’ہم اس کے جھوٹ کا امتحان لیتے ہیں‘‘۔ ’’الإصابۃ ‘‘ میں حضرت حذیفہ ؓسے کعبؒ کی تکذیب مروی ہے۔اسی طرح ابن عباس ؓنے بھی کعبؒ کو جھوٹ کی طرف منسوب کیا ہے۔

ملاعلی قاری ؒموضوعات کبریٰ (صفحہ: ۱۰۰، طبع ہند )میں فرماتے ہیں: حضرت عمرؓنے جب مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو لوگوں سے مشورہ کیا کہ مسجد کی تعمیر’’ صخرہ ‘‘ کے آگے کی جائے یا پیچھے؟ کعبؒ نے حضرت عمرؓسے کہا: امیر المؤمنین! صخرہ کی پچھلی جانب تعمیر کیجیے۔ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے یہودی عور ت کے بیٹے! تجھ میں یہودیت سرایت کی ہوئی ہے، میں اس مسجد کو صخرہ کی اگلی جانب تعمیر کروں گا، تاکہ نمازی اس صخرہ کا استقبال نہ کریں، چنانچہ حضرت عمرؓنے اس کو اسی طرح تعمیر کیا جس طرح اب تک موجود ہے۔

یہ حضرت عمرؓکی فکر و نظر تھی کہ وہ کعب ؒ کو کسی طور یہ موقع نہ دینا چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی مسجد میں یہود کے قبلے کی طرف رخ کرسکے۔کعبؒ نے حضرت عمرؓکی جانب سے اپنے اوپر لگنے والی تہمت کو دل میں رکھا تھا، حتیٰ کہ حضرت عمرؓکے خلاف سازشیوں کے ساتھ بھی کعبؒ کے تعلقات دیکھے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کعبؒ ، اہل کتاب کی کتب سے نقل کردہ روایت باور کر واکر حضرت عمرؓسے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ وہ عنقریب قتل کیے جائیں گے، حالانکہ حضرت عمرؓاور اہل کتاب کی سابقہ کتب کا کیا تعلق!!! اگر شریعت اسلامیہ میں متہم بالظن کو پکڑنے کی گنجائش ہوتی تو حضرت عمرؓکے قتل کے معاملے میں شرعی عدالت حضرت کعبؒ سے بھی تفتیش کرتی۔حضرت ابو ذر ؓ کوحضرت معاویہ ؓ کی شکایت کی بنا پر دمشق سے مدینہ منورہ بھیج دیاجانا، کعبؒ کا حضرت عثمان ؓ کی مجلس میں حضرت ابوذرؓ کی مال جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کے بارے میں رائے کی تردید اور حضرت ابو ذرؓ کا کعبؒ سے یوں خطاب فرمانا: اے یہودی عورت کے بیٹے! یہ تیرے مسائل میں سے نہیں ہے (کہ تو اس پر گفتگو کرے)، یہ واقعات کتب تاریخ میں معروف ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ عوف بن مالک ؓنے کعبؒ کو قصہ گوئی سے منع کیا تھا، یہاں تک کہ حضرت معاویہ ؓ نے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔

مذکورہ بحث کا نتیجہ

ماقبل کی تفصیل سے واضح ہوا کہ حضرت عمرؓ، حضرت حذیفہؓ، حضرت ابوذرؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت عوف بن مالکؓ اور حضرت معاویہ ؓکعبؒ پر کلی اطمینان نہیں رکھتے تھے، جب کہ حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے کعبؒ سے کچھ روایات بھی نقل کی ہیں، اس لیے کہ تمام اسرائیلیات ایک فیصلہ کن قاعدے کے تحت آتی ہیں کہ ان میں سے جس روایت کی شریعت اسلامیہ تصدیق کرے، اس کی تصدیق کی جائے اور شریعت اسلامیہ جس روایت کی تکذیب کرے، اس کی تکذیب کی جائے، اور اس کے علاوہ دیگر روایات کی تصدیق و تکذیب کے بارے میں توقف کیا جائے۔ صحیح بخاریؒ کی ایک روایت ہے: ’’اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ہی تکذیب، اور یوں کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے، اور اس پر جو ہماری طرف نازل ہوا، اور جو تمہاری طرف نازل ہوا، ہمارا ور تمہارا الٰہ و معبود ایک ہی ہے، اور ہم اسی کے تابعدار ہیں‘‘۔

یہی وہ درست راہ ہے، جس پر اسرائیلیات کے کسی خطرے کا خوف نہیں ہے، اس لیے کہ جنہوں نے اسرائیلیات ذکر کیں، انہوں نے اسی نظریے کے ساتھ ذکر کیں کہ یہ اسرائیلیات اس خالص اور سچی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ نہ کعبؒ اور نہ ہی اسرائیلیات کا کوئی اور راوی ہی اسلامی افکار، نظریات اور تعلیمات پرکسی بھی طرح اثر انداز ہو سکتا ہے، جب تک کہ ان کی روایات اس دقیق معیار پر جانچی جاتی رہیں گی۔ اسی بنا پر آپ نے بہت کئی مفسرین کو دیکھا ہوگا کہ وہ ہر نفع بخش روایت کو نقل ضرور کرتے ہیں، تاکہ ان مفسرین کے زمانے میں مروج یہودوغیرہ اہل کتاب سے منقول معارف و روایات کی روشنی میں قرآن کریم کی ذکر کردہ اخبار وقصص کے بعض پہلو واضح ہو جائیں، ساتھ ہی یہ مفسرین ان روایات کی چھان بین بعد میں آنے والے نقاد کے حوالے کرتے ہیں۔اس طرح اسرائیلیات کے ذکر کرنے کا مقصد ان کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ کم از کم یہ معارف بعد میں آنے والوں تک پہنچ ضرور جائیں، اس لیے کہ یہ احتمال تو بجا طور پر موجود ہوتا ہے کہ ان اسرائیلیات سے قرآن کریم کے اجمالی بیانات کی وضاحت میں مدد لی جاسکے۔ مفسرین کی یہ غرض نہیں ہوا کرتی کہ ان روایات کو مسلمانوں کی نظر میں حقائق و عقائد کا درجہ دے دیا جائے، جن کے صحیح ہونے کا عقیدہ رکھا جانا ضروری ہو، اور کسی چھان بین کے بغیر ان روایات کو ان کی کمزوریوں کے باوجود قبول کر لیا جائے۔چنانچہ اسرائیلیات کی تدوین کرنے والوں پر۔جب تک کہ ان کا مقصد یہی ہو۔کسی قسم کی ملامت وتنقید نہیں کی جاسکتی۔

سلیمان بن عبد القوی طوفیؒ نے اپنی کتاب ’’الاکسیر فی قواعد التفسیر‘‘میں مفسرین کے اپنی تفاسیر کو اسرائیلیات سے بھر دینے کے بارے میں اعتذار پیش کرتے ہوئے ان کا مقصد یہی بیان کیا ہے۔ ’’الاکسیر فی قواعد التفسیر‘‘مکتبہ قرا حسام الدین جو آستانہ میں واقع ہے، محفوظ ہے۔ انہوں نے مفسرین کے اس طریق کار کی مثال روات حدیث کے طریق کار سے دی ہے کہ جس طرح انہوں نے شروع شروع میں تمام روایات کے بلا کم و کاست نقل کردینے کا اہتمام کیا اور ان روایات کے صحیح و ضعیف ہونے کا معاملہ آنے والے ناقدین پر چھوڑ دیا، یہی طرز عمل ان مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے۔یہ عذر واقعی عمدہ ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ باطل اسرائیلیات سے صرف وہی شخص دھوکہ کھاسکتا ہے جو کثیر پہلو مباحث میں بھی اہل علم کی طرف رجوع کیے بغیر ہر ایک سے روایات لے لینے کا عادی ہو۔ مزید یہ کہ اہل علم کی ایک کثیر تعداد نے ان کھوٹی روایات کی، جو امت کو کسی طرح نقصان پہنچاتیں، جانچ کا خصوصی اہتمام فرمایا ہے، چنانچہ انہوں نے تفسیر کو باطل اسرائیلیات سے خالی کرنے کی خدمت بھی انجام دی ہے، جیسا کہ شیخ عبد الحق بن عطیہ ؒنے اپنی تفسیر’’ المحرر الوجیز فی تفسیر کتاب اللّٰہ العزیز‘‘ میں کیا۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیلیات اور اسی قسم کی ساری خرافات اسلامی تعلیمات پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ ان سے بعض عوام اور وہ حضرات جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتے ہیں اور اہم مسائل و معاملات میں بھی علماء اور مستند مآخذ کی طرف رجوع کرنے سے اپنے آپ کو مستغنی خیال کرتے ہیں‘ ضرور متأثر ہو سکتے ہیں۔اللہ ہی سیدھی راہ دکھلانے والے ہیں۔

لنک
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
آپ کعب الاحبار کی روایات مسند سے اکھٹی کریں یہ عمر راضی الله کے دور میں ایمان لائے پھر دوسرے وھب بن منبہ ہیں یہ عثمان راضی الله کے دور میں پیدا ہوئے
بھائی جان،کعب الاحبارؒ اوروہب بن منبہؒ طبقہ تابعین سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی مرویات مسند احمد میں نہیں ہیں۔سند میں بطور راوی نام آسکتا ہے ۔

مسند کی تعریف:
’’ان میں احادیث رسول اللہﷺکو اسانید کے ساتھ ہر صحابی کی احادیث کو یکجا کردیا گیا ہے اور ان کو مسند کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے‘‘
اسرائیلی روایات:
’’اسرائیلی روایات کا تعلق صحابہ،تابعین اور تبع تابعین سے ہے،یہ روایات نبی کریمﷺکی بیان کردہ نہ بالذات ہیں اور نہ بالواسطہ‘‘

ان کلمات کو سامنے رکھا جائے تو’’مسند احمد‘‘اسرائیلی روایات سے پاک متصور ہوگی،پھر اس میں اسرائیلی روایات کو تلاش کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
بھائی جان،کعب الاحبارؒ اوروہب بن منبہؒ طبقہ تابعین سے تعلق رکھتے ہیں،ان کی مرویات مسند احمد میں نہیں ہیں۔سند میں بطور راوی نام آسکتا ہے ۔

مسند کی تعریف:
’’ان میں احادیث رسول اللہﷺکو اسانید کے ساتھ ہر صحابی کی احادیث کو یکجا کردیا گیا ہے اور ان کو مسند کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے‘‘
اسرائیلی روایات:
’’اسرائیلی روایات کا تعلق صحابہ،تابعین اور تبع تابعین سے ہے،یہ روایات نبی کریمﷺکی بیان کردہ نہ بالذات ہیں اور نہ بالواسطہ‘‘

ان کلمات کو سامنے رکھا جائے تو’’مسند احمد‘‘اسرائیلی روایات سے پاک متصور ہوگی،پھر اس میں اسرائیلی روایات کو تلاش کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

جی یہ بات درست ہے اس حد تک لیکن آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا ایسی روایات بھی ہیں جو اہل کتاب کی بات کی تائید کرتی ہوں مثلا الله کو دیکھنا
توریت کے مطابق موسی نے الله کو دیکھا یہی چیز کتب حدیث میں بھی اتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله کو سبز لباس میں دیکھا وغیرہ

یہ ایک مثال ہے

مسند احمد میں کعب الاحبار کا ایک روایت میں ذکر ہے

قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ: مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ إِلَى الطُّورِ، فَلَقِيتُ كَعْبَ الْأَحْبَارِ، فَجَلَسْتُ مَعَهُ، فَحَدَّثَنِي عَنِ التَّوْرَاةِ، وَحَدَّثْتُهُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ فِيمَا حَدَّثْتُهُ أَنْ قُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُهْبِطَ، وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ، وَفِيهِ مَاتَ، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، وَمَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ مُسِيخَةٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ حِينِ تُصْبِحُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، شَفَقًا مِنَ السَّاعَةِ، إِلَّا الْجِنَّ وَالْإِنْسَ، وَفِيهَا سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي، يَسْأَلُ اللَّهَ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ» [ص:205]، قَالَ كَعْبٌ: «ذَلِكَ فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً» ، فَقُلْتُ: بَلْ هِيَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ، فَقَرَأَ كَعْبٌ التَّوْرَاةَ، فَقَالَ: «صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ، فَحَدَّثْتُهُ بِمَجْلِسِي مَعَ كَعْبٍ، وَمَا حَدَّثْتُهُ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ كَعْبٌ: «ذَلِكَ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَوْمٌ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: كَذَبَ كَعْبٌ، ثُمَّ قَرَأَ كَعْبٌ التَّوْرَاةَ، فَقَالَ: «بَلْ هِيَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ» ، فَقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ صَدَقَ كَعْبٌ


اس کے مطابق تورات میں جمعہ کے دن کی فضیلت کا ذکر ہے البتہ ہمارے علم میں ایسی کوئی آیت تورات میں نہیں

وھب کی روایات ہیں

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ إِدْرِيسَ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِيهِ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” سَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلَ أَنْ يَرَاهُ فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ: ادْعُ رَبَّكَ “. قَالَ: «فَدَعَا رَبَّهُ» ، قَالَ: فَطَلَعَ عَلَيْهِ سَوَادٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، قَالَ: فَجَعَلَ يَرْتَفِعُ وَيَنْتَشِرُ، قَالَ: «فَلَمَّا رَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَعِقَ، فَأَتَاهُ فَنَعَشَهُ، وَمَسَحَ الْبُزَاقَ عَنْ شِدْقِهِ»


حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عَقِيلُ بْنُ مَعْقِلٍ، سَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ مُنَبِّهٍ، يُحَدِّثُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّشْرَةِ، فَقَالَ: «مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ» [ص:41] حَدَّثَنَا عبد الله، قال أبي: عَقِيلُ بْنُ مَعْقِلٍ هُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ بْنُ عَقِيلٍ، قَالَ: ذَهَبْتُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَقِيلٍ، وَكَانَ عَسِرًا لَا يُوصَلُ إِلَيْهِ، فَأَقَمْتُ عَلَى بَابِهِ بِالْيَمَنِ يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ، حَتَّى وَصَلْتُ إِلَيْهِ فَحَدَّثَنِي بِحَدِيثَيْنِ، وَكَانَ عِنْدَهُ أَحَادِيثُ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ، فَلَمْ أَقْدِرْ أَنْ أَسْمَعَهَا مِنْ عُسْرِهِ، وَلَمْ يُحَدِّثْنَا بِهَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ لِأَنَّهُ كَانَ حَيًّا، أَفَلَمْ أَسْمَعْهَا مِنْ أَحَدٍ
 
Top