• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک اہم سوال

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بھائیو ایک اہم سوال پوچھ رہا ہوں تفصیل کے ساتھ مساجد کی تعمیر کے بارے میں۔میں نے آج کل دیکھا ہے کہ مساجد کی تعمیر میں بہت زیادہ خرچا کیا جاتا ہے۔بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا ہونا ضروری ہے مثلا وضو کرنے کی جگہ ،مسجد کا صحن،اور بھی دیگر چیزیں۔لیکن بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے نہ ہونے سے نا تو مسجد کی شان میں کوئی کمی واقع ہو گی۔اور نا ہی مسجد کا مقام کم ہو جائے گا۔
سیلینگ کی چھت
سیلینگ کی چھت میں ایک ہی لائنوں میں کئی کئی بلب۔
دیواروں پر ماربل کی ٹیلیں۔
کھڑکیاں اور ان پر بیڈنگز۔
وضو والی جگہ پر بھی ماربل۔
اے سی۔
کیا یہ چیزیں مسجد کے لئے ضروری ہیں یا ان کے بغیر بھی مسجد مکمل ہے۔جس مسجد میں یہ تمام چیزیں لگ رہی ہوں کیا اس میں فی سبیل اللہ خرچا کرنا جائز ہے۔ایک جگہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایک شخص نے لکھا ہوا تھا کہ وہاں بھی اتنی کنسٹرکشن صحیح نہیں لیکن میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور تمام مساجد کی بات کر رہا ہوں کیونکہ ان دو مساجد کی شان اور مسجدوں سے علیحدہ ہے لہذا میں ان مساجد پر کچھ نہیں کہنا چاہوں گا۔آپ اس بارے میں بتائیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
١۔جو اشیاء آپ نے بیان کی ہیں ، ان میں سے ہر ایک شیئ کا حکم تو ایک جیسا ممکن نہیں ہے ، ہاں ایک قاعدہ ضرور بیان کیا جا سکتا ہے جو چیز آرائش اور تزئین میں داخل ہے مثلا دیواروں پر ٹائلیں لگانا وغیرہ یا ضرورت سے زائد لائٹنگ وغیرہ تو وہ ممنوع ہے اور جس میں راحت وسکون کا پہلو ہو تو اس کی اجازت نکلتی ہے جیسا کہ اے۔سی وغیرہ ۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : ( لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِى الْمَسَاجِدِ )۔
رواه أبو داود ( 449 ) والنسائي ( 689 ) وابن ماجة ( 739 ) وصححه الألباني في " صحيح أبي داود "۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ لوگوں مساجد میں باہم فخر نہ کرنے لگیں۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اثر میں ہے:
روى البخاري ( 1 / 171 ) عن ابْن عَبَّاسٍ قولَه : " لَتُزَخْرِفُنَّهَا ، كَمَا زَخْرَفَتِ الْيَهُودُ ، وَالنَّصَارَى "۔
وهذا الأثر وصله ابن أبي شيبة في " المصنف " ( 1 / 309 ) وغيره ، وصححه الألباني في تحقيق " إصلاح المساجد من البدع والعوائد " لجمال الدين القاسمي ( 94 ) ، وفي " صحيح أبي داود " الكامل ( 2 / 347 )۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تم مساجد کی تزئین وآرائش اسی طرح کرو گے جیسا کہ یہود ونصاری نے اپنی عبادت گاہوں کی کی ہے۔
۲۔ جب مساجد کی تزئین وآرائش جائز نہیں ہے تو اس میں فی سبیل اللہ کی مد میں خرچ بھی درست نہیں ہے۔الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے کہ حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک مال وقف کےساتھ مساجد کی تزئین وآرائش حرام کام ہے۔ شافعیہ کا قول بھی یہی ہے کہ مال وقف کو اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
وفي " الموسوعة الفقهية " ( 11 / 275 ) :
يحرُم تزيين المساجد بنقشها ، وتزويقها بمال الوقف ، عند الحنفية ، والحنابلة ، وصرَّح الحنابلة بوجوب ضمان الوقف الذي صرف فيه ؛ لأنه لا مصلحة فيه ، وظاهر كلام الشافعية : منع صرف مال الوقف في ذلك ، ولو وقف الواقف ذلك عليهما - النقش ، والتزويق - : لم يصح في القول الأصح عندهم ، أما إذا كان النقش والتزويق من مال الناقش : فيُكره – اتفاقاً - في الجملة إذا كان يُلهي المصلي ، كما إذا كان في المحراب ، وجدار القبلة ۔
انتهى۔
نوٹ:اس جواب کے حوالہ جات اسلام سوال وجواب سے لیے گئے ہیں۔
 
Top