• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک بہن کو شادی کے وقت کچھ نصیحتیں !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایک بہن کو شادی کے وقت کچھ نصیحتیں

سوال: مجھے نصیحت کریں، میں نوجوان لڑکی ہوں اور میری شادی ہونے والی ہے، مجھے نصیحت کریں کہ میں اپنی نئی زندگی کو کیسے شروع کروں؟ کہ اللہ تعالی مجھ سے راضی ہوجائے، اور ہماری شادی میں اللہ تعالی برکت بھی ڈالے۔

الحمد للہ:

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپکو سیدھا راستہ دیکھائے اور کامیاب کرے، اور آپکی شادی کے معاملات اللہ کی پسند اور رضا کے مطابق مکمل ہوں۔

ہماری آپکو نصیحت ہے کہ خلوت وجلوت میں تقوی الہی ساتھ رکھیں، اللہ سبحانہ وتعالی کو راضی کرنے کیلئے احکام کی تعمیل اور ممنوعات سے پرہیز کرتے ہوئے نیکیاں کریں، احسن انداز سے اسی کی طرف متوجہ رہیں، اور اچھے انداز سے توکل کرتے ہوئے اسی سے ہر قسم کی مدد کے طلبگار رہیں۔

اور اپنے خاوند کو راضی کرتے ہوئے اللہ کی رضا تلاش کریں-



چنانچہ امام احمد حصین بن محصن سے روایت کرتے ہیں-

کہ انکی ایک پھوپھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی ضروری کام سے آئیں، اور انہوں نے اپنا ضروری کام جب مکمل کرلیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (کیا تم شادی شدہ ہو؟) تو اس نے جواب دیا: جی ہاں! تو آپ نے فرمایا: (تم اسکے لئے کیسی ہو؟) تو اس نے جواب دیا: میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتی الا کہ معاملہ میری طاقت سے باہر ہوجائے، تو آپ نے فرمایا: (دیکھتے رہنا! تمہارا اپنے خاوند کے ہاں کیا مقام ہے، یقینا وہی تمہاری جنت اور تمہاری جہنم ہے)

اسے البانی نے صحیح الجامع میں (1509) حسن قرار دیا ہے۔


حدیث کے عربی متن میں مذکور: " ما ألوه " کا مطلب ہے کہ : میں اسکی خدمت اور راضی کرنے کیلئے کسی قسم کی کسرباقی نہیں چھوڑتی۔

چنانچہ خاوند کے ساتھ اپنی زندگی کی ابتداء اسکی اطاعت ، فرمانبرداری، اور اسکی حاجات و ضروریات کو پورا کرتے ہوئے کرو ، بشرطیکہ اللہ کی نافرمانی اس میں نہ ہو۔

اور اطاعتِ الہی کیلئے باہمی معاونت نکاح کے مقاصد میں سے ہونی چاہئے-

جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ :

(اللہ تعالی اپنے اس بندے پر رحم کرے جو رات کو قیام کرنے کیلئے کھڑا ہو، اور نماز پڑھ کر اپنی بیوی کو بھی قیام کیلئے اٹھاتا ہے، اگر بیدار نہ ہو تو اسکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتا ہے، ایسے ہی اللہ تعالی اس عورت پر رحم کرے جو رات کو قیام کیلئے جاگتی ہے، اور نماز پڑھ کر اپنے خاوند کو بھی جگاتی ہے، اگر خاوند نہ جاگے تو اسکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی ہے)

اسے ابو داود (1308) نے روایت کیا ہے اور البانی نے "صحيح ابو داود" میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اپنے لباس اور زیب وزینت کا خاص خیال رکھنا، اور اسکے سامنے ہمیشہ اسکی پسندیدہ اچھی سے اچھی صورت میں رہنا ، اور کوشش کرنا کہ جب بھی وہ آپکی طرف متوجہ ہو تو آپکے چہرے پر مسکراہٹ ہونی چاہئے۔

اپنی ذاتی اور گھریلو صفائی ستھرائی کا خوب اہتمام کرنا، پورے گھر میں ہر چیز بہترین انداز میں مرتب نظر آئے، اور ہر وقت خوشبوئیں پھوٹیں۔

اسی طرح اسکے پسندیدہ کھانوں کے متعلق بھی خیال کرنا، کیونکہ آدمی عام طور پر ڈیوٹی سے تھکا ہوا آتا ہے، اور اپنے گھر میں پیار ومحبت اور مسرت دیکھنا چاہتا ہے، تاکہ تھکاوٹ ختم ہو جائے، اور یہ چیزیں کسی نیک خاتون کی بہترین پلاننگ ، اور اسکے اندازِ استقبال و اظہار ِمحبت سے ہی ممکن ہے۔

اور کسی دن اسے غصہ آبھی جائے تو جلدی سے اُسے منانے کی کوشش کرنا، چاہے آپکی غلطی نہ بھی ہو پھر بھی، اسکی وجہ سے آپ جنت کی خواتین میں شامل ہوسکتی ہیں۔

غور کرنا کہ وہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کس چیز کو پسند کرتا ہے، اور پھر اس کام کو کر گزرنا، اور جس چیز کو پسند نہ کرتا ہو اس سے پرہیز رکھنا۔

بحث وتکرار مت کرنا، کیونکہ یہ اچھی عادت نہیں ہے، اور اسکے نتائج بھی اچھے نہیں ہوتے۔

اور اگر اسے کسی گناہ میں ملوث دیکھ لو تو اچھے انداز و گفتگو سے اسے روکنا، اور اللہ کی یاد دلانا۔

اور اگر خاوند کی طرف سے کوئی تکلیف یا اذیت پہنچے تو صبر کرنا، اور اپنے اہل خانہ یا رشتہ داروں میں کسی کو بتلانے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا، چنانچہ اگر گھر کے رازوں سے پردہ اٹھ جائے اور دوسروں کے سامنے بات نکل پڑے تو اس سے خاوند کو تکلیف ہوگی اور جھگڑا کھڑا ہوجائے گا۔

اسکے والدین اور بہنوں کا خاص خیال کرنا، حقیقت میں یہ ایک ایسی نیکی ہے جس کی وجہ سے ایک عورت اپنے خاوند کے مزید قریب ہوسکتی ہے۔

اور آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ذہن نشین کر لیں کہ:

(جب کوئی خاتون پانچوں نمازیں پڑے، ایک ماہ کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے، اور خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا: جنت میں جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ)

اسے امام احمد نے (1664) عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح الجامع (660)میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اور آخر ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ: "بارك الله لكما ويجمع بينكما على خير" اللہ تعالی تم دونوں کیلئے برکت ڈالے، اور خیر پر دونوں کو متحد فرمائے۔.

اسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/132263
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دین اسلام کے ضروری مسائل کے علم سے واقفیت رکھ لے، اور چونکہ
شوہر کی اطاعت جنت میں لے جانے کا باعث ہے، تو عورت کو دین کا زیادہ فہم رکھنے کی کیا ضرورت رہی۔۔۔۔!!!
پھر تو عورت کا دین بھی شوہر کی خاطر محدود ہو جاتا ہے۔کیا اس میں بھی "تطبیق" کی کوئی صورت ہے؟؟
یہ خاصا پیچیدہ مسئلہ ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ دین اسلام کے ضروری مسائل کے علم سے واقفیت رکھ لے، اور چونکہ
شوہر کی اطاعت جنت میں لے جانے کا باعث ہے، تو عورت کو دین کا زیادہ فہم رکھنے کی کیا ضرورت رہی۔۔۔۔!!!
پھر تو عورت کا دین بھی شوہر کی خاطر محدود ہو جاتا ہے۔کیا اس میں بھی "تطبیق" کی کوئی صورت ہے؟؟
یہ خاصا پیچیدہ مسئلہ ہے۔
سسٹر ! ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ (مرد کی) جنت ماں (یعنی ایک عورت) کے قدموں تلے ہے۔ تو کیا یہ حدیث سن کر کوئی مرد ایسی ہی بات کہہ سکتا ہے؟

اصل میں یہ دونوں احادیث مرد و زن کے ”دنیوی معاملات“ سے متعلق ہیں۔ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے (کم از کم) اوامر و نواہی کا علم حاصل کرنا تو مرد وزن دونوں پر لازم ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے اوپر عائد فرائض خود ادا کرنے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی سے نہ شوہر بیوی کو روک سکتا ہے نہ ماں بیٹے کو روک سکتی ہے۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایسا کرے تو ایسی اطاعت کی نہ بیوی ذمہ دار ہے اور نہ بیٹا۔ اسی طرح حرام کاموں کا علم حاصل کرنا اور ان سے حتیٰ الامکان بچنا ہر مرد و زن کی ذمہ داری ہے۔ نہ ماں اپنے بیٹے کو کوئی کارِ حرام کرنے کو کہہ سکتی ہے اور نہ ہی شوہر بیوی کو حرام کرنے کو کہہ سکتا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایسا کہے بھی تو ایسا نہیں کرنا۔ واضح رہے کہ اگر (اللہ نہ کرے) کوئی شوہر اپنی بیوی کو یا کوئی ماں اپنے بیٹے کو کسی فرض کام سے روکے یا حرام کام کرنے کو کہے تب ایسی صورت میں بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ بیٹا ماں کے ساتھ اور بیوی شوہر کے ساتھ (ان کے غیر شرعی حکم کی بنا پر) بد تمیزی کےساتھ پیش آئے ہا انہیں ترکی بہ ترکی جواب دے۔ بلکہ حکم یہی ہے حکمت اور نرمی کے ساتھ انہیں بتلادے کہ وہ اپنے فرائض کو چھوڑ نہیں سکتے البتہ جہاں کہیں ممکن ہو، شوہر یا ماں کی ”سہولت“ کی خاطر اپنے فرائض کی ادائیگی کو آگے پیچھے کرلے یا ان کے سامنے انہیں ادا نہ کرے۔ وغیرہ وغیرہ

ہمارے روزمرہ کے معمولات زندگی میں ”کارِ فرائض اور کارِ حرام“ کا تناسب بہت کم ہیں۔ بیشتر معاملات ہمارے لئے ”اوپن“ ہوتے ہیں کہ چاہیں تو ہم کریں چاہیں تو نہ کریں۔ چاہیں تو ایسے کریں، چاہیں تو ویسے کریں۔ ایسے ہی ”معاملات دنیوی“ میں ایک گھرانے میں شوہر کو ”ٹیم لیڈر“ اور قوام کی حیثیت حاصل ہے۔ اور انہی معملات مین عورت کو حکم ہے کہ وہ نہ صرف شوہر کی اطاعت کرے بلکہ اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کی ” منشا“ کے مطابق ہی عمل کرے تب ہی نہ صرف یہ کہ وہ دنیا میں بھی ازدواجی زندگی میں خوش و خرم رہے گی بلکہ آخرت میں جنت کی بھی حقدار ہوگی۔ یہی حال مرد کے ساتھ ہے کہ اگر ایسے ہی دنیوی معاملات میں اگر اس کی ماں اسے کسی کام کے کرنے کا حکم دے یا کسی کام سے روکے (جو خلاف شرع نہ ہو) تو مرد بھی ماں کی اطاعت کرکے ہی جنت حاصل کرے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب تک لڑکی جوان ہوتی ہے، اس وقت تک اس کی ”سمجھ“ میں یہ دو باتیں نہیں آتیں کہ (1) وہ اپنے ہی جیسے ایک مرد (شوہر) کی ہر دنیوی معاملہ میں ”اطاعت“ کیوں کرے؟ (2) اور اس کا شوہر اس کی بات ماننے کی بجائے اپنی ماں یعنی اس کی ساس کی بات کیوں مانے ؟۔ لیکن جب یہی عورت ایک جوان مرد کی ماں بن جاتی ہے تب اسے بآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ اس کا جوان بیٹا اپنی بیوی کی بات پر اس کی بات کو کیوں فوقیت دے۔ اور جب اس کی بیٹی کی شادی ہو جاتی ہے تب وہ بڑی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے یہی مشورہ دیتی ہے کہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔ اس کی نافرمانی کرکے اپنی دنیا اور آخرت خراب نہ کرے۔

واللہ اعلم
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
سسٹر ! ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ (مرد کی) جنت ماں (یعنی ایک عورت) کے قدموں تلے ہے۔ تو کیا یہ حدیث سن کر کوئی مرد ایسی ہی بات کہہ سکتا ہے؟

اصل میں یہ دونوں احادیث مرد و زن کے ”دنیوی معاملات“ سے متعلق ہیں۔ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے (کم از کم) اوامر و نواہی کا علم حاصل کرنا تو مرد وزن دونوں پر لازم ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے اوپر عائد فرائض خود ادا کرنے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی سے نہ شوہر بیوی کو روک سکتا ہے نہ ماں بیٹے کو روک سکتی ہے۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایسا کرے تو ایسی اطاعت کی نہ بیوی ذمہ دار ہے اور نہ بیٹا۔ اسی طرح حرام کاموں کا علم حاصل کرنا اور ان سے حتیٰ الامکان بچنا ہر مرد و زن کی ذمہ داری ہے۔ نہ ماں اپنے بیٹے کو کوئی کارِ حرام کرنے کو کہہ سکتی ہے اور نہ ہی شوہر بیوی کو حرام کرنے کو کہہ سکتا ہے۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایسا کہے بھی تو ایسا نہیں کرنا۔ واضح رہے کہ اگر (اللہ نہ کرے) کوئی شوہر اپنی بیوی کو یا کوئی ماں اپنے بیٹے کو کسی فرض کام سے روکے یا حرام کام کرنے کو کہے تب ایسی صورت میں بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ بیٹا ماں کے ساتھ اور بیوی شوہر کے ساتھ (ان کے غیر شرعی حکم کی بنا پر) بد تمیزی کےساتھ پیش آئے ہا انہیں ترکی بہ ترکی جواب دے۔ بلکہ حکم یہی ہے حکمت اور نرمی کے ساتھ انہیں بتلادے کہ وہ اپنے فرائض کو چھوڑ نہیں سکتے البتہ جہاں کہیں ممکن ہو، شوہر یا ماں کی ”سہولت“ کی خاطر اپنے فرائض کی ادائیگی کو آگے پیچھے کرلے یا ان کے سامنے انہیں ادا نہ کرے۔ وغیرہ وغیرہ

ہمارے روزمرہ کے معمولات زندگی میں ”کارِ فرائض اور کارِ حرام“ کا تناسب بہت کم ہیں۔ بیشتر معاملات ہمارے لئے ”اوپن“ ہوتے ہیں کہ چاہیں تو ہم کریں چاہیں تو نہ کریں۔ چاہیں تو ایسے کریں، چاہیں تو ویسے کریں۔ ایسے ہی ”معاملات دنیوی“ میں ایک گھرانے میں شوہر کو ”ٹیم لیڈر“ اور قوام کی حیثیت حاصل ہے۔ اور انہی معملات مین عورت کو حکم ہے کہ وہ نہ صرف شوہر کی اطاعت کرے بلکہ اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کی ” منشا“ کے مطابق ہی عمل کرے تب ہی نہ صرف یہ کہ وہ دنیا میں بھی ازدواجی زندگی میں خوش و خرم رہے گی بلکہ آخرت میں جنت کی بھی حقدار ہوگی۔ یہی حال مرد کے ساتھ ہے کہ اگر ایسے ہی دنیوی معاملات میں اگر اس کی ماں اسے کسی کام کے کرنے کا حکم دے یا کسی کام سے روکے (جو خلاف شرع نہ ہو) تو مرد بھی ماں کی اطاعت کرکے ہی جنت حاصل کرے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب تک لڑکی جوان ہوتی ہے، اس وقت تک اس کی ”سمجھ“ میں یہ دو باتیں نہیں آتیں کہ (1) وہ اپنے ہی جیسے ایک مرد (شوہر) کی ہر دنیوی معاملہ میں ”اطاعت“ کیوں کرے؟ (2) اور اس کا شوہر اس کی بات ماننے کی بجائے اپنی ماں یعنی اس کی ساس کی بات کیوں مانے ؟۔ لیکن جب یہی عورت ایک جوان مرد کی ماں بن جاتی ہے تب اسے بآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ اس کا جوان بیٹا اپنی بیوی کی بات پر اس کی بات کو کیوں فوقیت دے۔ اور جب اس کی بیٹی کی شادی ہو جاتی ہے تب وہ بڑی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے یہی مشورہ دیتی ہے کہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔ اس کی نافرمانی کرکے اپنی دنیا اور آخرت خراب نہ کرے۔

واللہ اعلم

جزاک اللہ خیرا یوسف بھائی۔
میں کہہ سکتی ہوں ، شاید آپ میری بات سمجھے نہیں۔
میں واضح کر دوں کہ شوہر کی اطاعت کے خلاف نہیں ہوں ، نہ کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہوں۔
عموما دین دار لڑکیاں شادی سے قبل جو دین کے لیے سرگرمی یا جستجو رکھتی ہیں ، بسا اوقات شوہر کے مزاج اور مفاہمت کی فضا قائم کرنے کے لیے دینی معاملات سے پیچھے رہ جاتیں ہیں، کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر شوہر ان سب چیزوں کو اہم سمجھے، تب بھی شوہر کی اطاعت کی جائے تو بے شک یہ ثواب ہے۔مگر لڑکی کی دینی جستجو کہاں گئی؟ کیا خواتین کا اسلام محدود ہونا چاہیئے؟
یہ دینی جستجو فرائض میں نہیں آتی شاید۔۔۔
اس سے قبل یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ عورت شوہر کی اطاعت میں سرگرم رہے تو زیادہ اجر وثواب ہے یا دین کے لیے کوشش جیسے قرآن وحدیث کا
علم حاصل کرنا ، اسے دوسروں تک پہنچانا ، اور زندگی بھر انھی کاموں کی لگن میں رہنا؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جزاک اللہ خیرا یوسف بھائی۔
میں کہہ سکتی ہوں ، شاید آپ میری بات سمجھے نہیں۔
میں واضح کر دوں کہ شوہر کی اطاعت کے خلاف نہیں ہوں ، نہ کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہوں۔
مجھے ایسا کوئی شبہ نہیں ہے کہ آپ خدا نخواستہ ”شوہر کی اطاعت“ کے خلاف ہیں۔ بس آپ کی ”کنفیوزن“ کو دور کرنے کی ایک کوشش کی تھی، جس میں شاید ناکام رہا۔ اب آپ کی واضح کردہ ”پریشانیوں“ کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں

(1) عموما دین دار لڑکیاں شادی سے قبل جو دین کے لیے سرگرمی یا جستجو رکھتی ہیں ، بسا اوقات شوہر کے مزاج اور مفاہمت کی فضا قائم کرنے کے لیے دینی معاملات سے پیچھے رہ جاتیں ہیں، کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر شوہر ان سب چیزوں کو اہم سمجھے، تب بھی شوہر کی اطاعت کی جائے تو بے شک یہ ثواب ہے۔

جواب: یہ مسئلہ اکثر دیندار لڑکیوں کو پیش آتا ہے۔ بالخصوص ایسی لڑکیوں کو قبل از شادی دین کی تعلیم یا دین کی دعوت کو ”کل وقتی“ طور پر انجام دے رہی ہوتی ہیں۔ شادی کے بعد ظاہر ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتیں، خواہ شوہر دیندار ہی کیوں نہ ہو۔ شادی کے بعد وہ بالعموم ریگولر کلاسز (خواہ دینی ہو یا دنیوی) اٹینڈ نہیں کرسکتیں نہ ہی شادی کے بعد وہپہلے کی طرح آزادانہ تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہ سکتی ہیں۔ یہ تو ایک ”زمینی حقیقت“ ہے۔ جو لڑکی اس زمینی حقیقت کو نہ سمجھے، وہ شادی کے بعد یقیناً پریشان ہوگی، بلکہ شادی کے ”خوف“ سے قبل از وقت بھی پریشان ہوگی۔
”دینی معاملات“ میں ”پیچھے“ رہ جانے والی بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ تو طے ہے کہ وہ شادی کے بعد، شادی سے پہلے والے دینی ”میدان“ میں پہلے جیسی سرگرم نہیں رہ سکتی۔ شاید اپنی اُس ”سابقہ ٹیم“ سے الگ ہوکر انہی کی طرح کام نہ کرسکنے کو ”پیچھے“ رہ جانا سمجھ لیا گیا ہے، جبکہ حقیقت مین ایسا نہیں ہے
سائنس کے طالب علم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ”تھیوری کلاسز“ اور ”پریکٹیکل کلاسز“ میں کیا ”فرق“ ہوتا ہے۔ تھیوری کلاسز میں جو کچھ سیکھا ہوتا ہے، لیبارٹری میں اُسی نظری تعلیم کو ”عملی تجربہ“ میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ لیبارٹری میں کوئی طالب علم ”تھیوریز“ پر بحث نہیں کرتا۔ دینی علوم میں بھی تھیوریز اور پریکٹیکلز ہوتے ہیں۔ جیسے نماز پڑھنے کا طریقہ سیکھنا اور جاننا تھیوری ہے تو نماز پڑھنا پریکٹیکل۔ کہا جاتا ہے کہ شادی سے قبل لڑکی کی زندگی ”تھیوریٹیکل“ ہوتی ہے تو شادی کے بعد وہ ”پریکٹیکل مرحلہ“ میں داخل ہوتی ہے۔ عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری ”نئی نسل“ کی پرورش اور تعلیم و تربیت ہے۔ یہ بہت بڑا اور عظیم کام ہے اور اس کا اجر بھی بہت بڑا ہے۔ اسی فریضہ کی ادائیگی کے لئے اسے شوہر بطور ”معاون“ عطا کیا جاتا ہے۔

(2) مگر لڑکی کی دینی جستجو کہاں گئی؟ کیا خواتین کا اسلام محدود ہونا چاہیئے؟یہ دینی جستجو فرائض میں نہیں آتی شاید۔۔۔
جواب: دینی جستجو بلکہ حصول علم ”برقرار“ رہے گا۔ لیکن بعد از شادی اس کا ”طریقہ“ جدا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ شادی کے بعد وہ اپنے پہلے والے ”ادارے“ اپنی پہلی والی ”ٹیم“ سے جدا ہوجائے۔ وہ ریگولر کلاسز، اجتماعات اٹینڈ نہ کرسکے، بیرون خانہ پہلے کی طرح وقت نہ دے سکے۔ لیکن شادی کے بعد گھریلو فرائض کی ادائیگی کے بعد وقت نکال کر وہ اب بھی ”دینی جستجو“ کو جاری رکھ سکتی ہے۔ کتب کا مطالعہ کرسکتی ہے۔ انٹر نیٹ اور فون کے ذریعہ اپنی سابقہ ٹیم اور ادارے سے بھی ربط رکھ سکتی ہے۔ بس اب اسے ”ٹائم مینجمنٹ“ کرنا ہوگا۔ اولیت شوہر، گھر، بچوں کو دینا ہوگا اور اس میں سے وقت نکال کر ایسا کرنا ہوگا۔ اور اگر وقت نہ نکلے تو وہ پہلے کی طرح ”سرگرم عمل“ ہونے کی وہ اللہ کے نزدیک ”مکلف“ ہی نہیں ہے۔ جو ”بوجھ“ (ازدواجی زندگی کا) اسے اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے، پہلے وہ اسے احسن طریقہ سے نمٹائے۔ فرائض کی بھی ایک ”ترتیب“ ہوتی ہے، جو قرآن و سنت میں موجود ہے۔ ہم اپنی ”پسند“ کے مطابق فرائض کی ترتیب قائم نہیں کرسکتے۔

(3) اس سے قبل یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ عورت شوہر کی اطاعت میں سرگرم رہے تو زیادہ اجر وثواب ہے یا دین کے لیے کوشش جیسے قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا ، اسے دوسروں تک پہنچانا ، اور زندگی بھر انھی کاموں کی لگن میں رہنا؟

جواب: یہ بہت اچھا اور بنیادی سوال ہے۔ اس کا صحیح جواب بلکہ فتویٰ تو علماء اور مفتیان کرام ہی دے سکتے ہیں۔ میں تو محض اپنی رائے پیش کرسکتا ہوں۔
  1. قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنا سے مراد اگر کسی دارالعلوم سے وابستہ ہوکر ایسا کرنا ہے تو یہ کام شادی سے قبل تو کیا جاسکتا ہے، شادی کے بعد عموماً ایسا کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن گھر پر رہتے ہوئے، گھریلو فرائض ادا کرتے ہوئے بھی قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا جسکتا ہے۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
  2. جہاں تک دین کو دوسروں تک پہنچانے کی بات ہے۔ یہ عمل شادی کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن پہلے کی طرح نہیں۔ ازدواجی زندگی کو بھرپور طریقہ سے گزارتے ہوئے جو جو افراد آپ کے سامنے آتے جائیں، آپ ان کے سامنے ”غیر رسمی انداز“ میں دین کی تبلیغ کرتے جائیں۔ اگر آپ انہیں فرائض ادا کرتے ہوئے نہ دیکھیں تو انہیں اس طرف توجہ دلائیے اور اگر خدا نخواستہ وہ حرام کام کرتے نظر آئیں تو انہیں اس سے روکنے کی اپنی سی کوشش کیجئے۔ شادی سے قبل اگر داعی لڑکیاں لوگوں کے پاس جا کر انہیں دین کی تعلیم سے آشنا کیا کرتی تھیں تو شادی کے بعد تبلیغ کا ”رُخ“ موڑ دیں۔ اب جب جب اور جو جو لوگ اُس کی زندگی کے سفر میں سامنے آتے جائیں، وہ انہی لمحات مین ان پر ”تبلیغ“ کرتی رہیں۔
  3. اگر آپ کے سوال میں بین السطور یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ کوئی خاتون شادی کرنے کی بجائے اپنی زندگی ”تبلیغ دین“ کے لئے وقف کردے تو کیا اس کا زیادہ اجر ہے یا شادی کے بعد شوہر کی اطاعت کرتے ہوئے زندی گذارنے کا زیادہ اجر ہے۔ تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی۔ اسلام میں ”رہبانیت“ نہیں ہے۔ اسلام ایک دین فطرت ہے۔ مردو زن دونوں کو ازدواجی زندگی کے اندر رہتے ہوئے سب کچھ کرنا ہے، بشمول تبلیغ دین بھی۔
  4. البتہ اگر بوجوہ کسی مرد یا خاتون کی کسی بھی وجہ سے شادی ہی نہ ہو، باوجود اس کی کوشش اور خواہش کے ۔ اوروہ ”رہبانیت“ جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو تب یقیناً اسے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ دین کی مروجہ، بیرون خانہ سرگرمیوں میں اپنی ساری یعنی بقیہ زندگی گزاردے تو یقیناً یہ ایک بہتر کام ہوگا، اس شخص کی بہ نسبت جو ایسی صورت حال میں بھی محض ایک عام دنیا دار کی طرح زندگی گذارے۔
واللہ اعلم
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت خوب یوسف بھائی۔
آپ کی رائے مفید ہے۔ٹائم مینیجمنٹ سب سے اہم ہے، اگر کوئی عورت گھر داری کے ساتھ دینی تعلیمات کو بھی مینیج کر سکتی ہے تو کرنا چاہیئے۔
اس میں اعتدال کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں شوہر حضرات کو بھی تعاون کی ضرورت ہے۔اگر ہم حیات نبی کریم ﷺ کا مطالعہ کریں تو آج کے بیشتر خود ساختہ مسائل کا سرے سے وجود ہی نہیں ملتا۔آپ ﷺ نے کھانے میں کبھی نقص نہیں نکالا بلکہ خاموش رہتے یا چھوڑ دیتے ، گھر کے کاموں میں ہاتھ بھی بٹاتے، ازواجات مطہرات کے مزاج بھی سمجھتے ، کبھی خفا بھی ہوئے اور کبھی منایا بھی، دین اسلام کی تعلیمات انھیں بھی دیتے ، اس لیے شوہر کا تعاون اور ان معاملات کا فہم ہونا بھی ضروری ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دعوت الی اللہ کے بارے عورت کاکردار !!!


دعوت الی اللہ میں عورت کے کردارکے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ؟

الحمد للہ:

عورت بھی مرد کی طرح ہے اوراس پردعوت الی اللہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرواجب ہے اس لیے کہ کتاب وسنت کی نصوص اوراہل علم کا کلام صریح دلالت کرتا ہے لھذا عورت کوچاہۓ کہ وہ دعوت الی اللہ اورامربالمعروف اورنہی عن المنکرکا کام کرے اوراس میں وہ بھی ان شرعی آداب کو مدنظررکھے جو آداب ایک مرد سے مطلوب ہیں ۔

اس بنا پرعورت کے ذمہ ہے کہ وہ بعض لوگوں کے مذاق اوراس پرسب شتم کرنے کی بنا پردعوت کا ختم نہ کردے اورجزع فزع کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ اسے ان تکالیف پرصبر کرنا چاہیے اگرچہ اس میں اسے لوگوں کی باتیں سننی اور مذاق کا بھی سامنا کرنا پڑے ۔

پھراس عورت پریہ بھی واجب ہے کہ وہ کچھ دوسرے امورکا بھی خیال رکھے جس میں عفت وپردہ اختیارکرنا اوربے پردگی سے اجتناب اوراجنبی مردوں سے اختلاط کرنے سےبھی اجتناب کرنا شامل ہے ، بلکہ اسے اپنی دعوت میں ہراس کام کا خیال رکھنا ہوگا جس کی بنا پراس پرعیب جوئ کی جاۓ ۔

اگرکسی مرد کودعوت دے توپردے میں رہتے ہوۓ اورخلوت کے بغیرہو ، اوراگر کسی عورت کودعوت دے تواس میں حکمت سے کام لے اوراپنی سیرت واخلاق میں صاف شفاف ہوتا کہ اس پرکوئ اعتراض نہ کرسکے اوریہ نہ کہے کہ اس نے یہ عمل خود کیوں نہیں کیا ۔

اورداعیۃ عورت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایسا لباس پہننے سے گریزکرے جو لوگوں کے فتنہ وفساد کا باعث بنے ، اوراسے فتنہ وفساد کے ہرقسم کے اسباب مثلا اپنے اعضاء کا ظاہرکرنا اوربات چیت میں سریلی آوازوغیرہ سے دور رہنا چاہیے ، اس لیے کہ اس طرح کی اشیاء کا اس پرانکارکیا جاۓ‎ گا ۔

بلکہ اسے چاہیے کہ وہ ایسے طریقے سے دعوت کا کام کرے جودین کے لیے فائدہ مند ہونہ کہ نقصان دے اور نہ ہی اس کی شہرت کوبھی نقصان پہنچاۓ ۔

فضیلۃ الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی .

الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ص ( 1010 )

http://islamqa.info/ur/21730
 
Top