• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک حدیث کے متعلق اہل حدیث حضرات سے ایک سوال

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی۔ اس کے کافی سارے دلائل پیچھے گزر چکے ہیں، جن کی طرف تلمیذ صاحب نے توجہ نہیں کی۔

بہرحال اس سے قطع نظر!

میرا تلمیذ صاحب سے سوال یہ ہے کہ کیا ان کے نزدیک عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے؟

اگر نہیں تو کیوں؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہو سکتا ہے کہ کل کو آپ یہ اعتراض بھی کریں کہ اس حدیث میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ "جس طرز پر مجھے پڑھتے ہوے دیکھتے ہو" - تو اس مراد آپ صل الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں نہ کہ ہم لوگ - کیوں کہ انہوں نے ہی نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا - جب کہ ہم نہیں دیکھا - کیا کہتے ہیں آپ ؟؟؟
دیوبندیوں کے مایہ نازمحقق الیاس گھمن صاحب یہ ارشاد فرما چکےہیں کہ اس حدیث کا تعلق صحابہ کرام سے ہے بعد والوں سے نہیں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
دیوبندیوں کے مایہ نازمحقق الیاس گھمن صاحب یہ ارشاد فرما چکےہیں کہ اس حدیث کا تعلق صحابہ کرام سے ہے بعد والوں سے نہیں ۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ نے جو صرف اجماع کی بات کی اور جمھور علماء کی رائے کے متعلق کہا کہ یہ غلط بھی ہوسکتا ہے تو پہلی بات یہ جن آیات و احادیث سے ہم اجماع کا مطلب لیتے ہیں تو وہاں جمھور علماء کے اقوال کی روشنی میں لیتے ہیں ، وہاں بھی اجماع نہیں ، یعنی اجماع کے ثبوت میں بھی جو قرآنی آیات پیش کی جاتیں ہیں یا احادیث پیش کی جاتیں ہیں ان سے استنباط میں بذات خود اجماع نہیں بلکہ وہاں اجماع کا ثبوت بذات خود جمہور علماء کے اقوال کی روشنی میں کیا جاتا ہے (1)

موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے

آپ نے جو یہ کہا حدیث صلوا کما رایتمونی اصلی سے عورت کی مردوں کی امامت کا جواز نہیں نکل سکتا کیوں کہ یہ اجماع امت کے خلاف ہے ۔ تو محترم عورت کی جو مردوں کی امامت ہے تو یہ جمھور علماء کے اقوال ہے اجماع امت نہیں (2)
ملاخطہ ہو کچھ فقہاء کے اقوال
امام الطبری اور امام ابو ثور نے عورت کی مردوں کی امامت کی مطلق اجازت دی ہے خواہ فرق ہو یا نفل نماز (حوالہ بدایہ المجتھد لابن راشد)
بعض نےعورت کی محارم مردوں کی امامت کا جواز دیا ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل اور اس صورت میں وہ مردوں کی پیچھے کھڑے ہو کر امامت کروائے گي
کتاب الانصاف للمرداوي
بعض نے فرض میں تو عورت کی مردوں کی امامت کا جواز نہیں دیا لیکن نفل میں جائز کہا ہے جیسا کہ تراویح میں امامت کے متعلق بعض حنابلہ کا قول ہے
(کتاب الانصاف )
تو عورت کی مردوں کی امامت کی نفی کرنے میں آپ کا اجماع امت کی دلیل تو غلط ہے کیوں اس نفی پر جمھور علماء کے اقوال تو ہیں اجماع نہیں
تو اب آپ کیا دلیل دیتے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ حدیث سے امامہ المرأه للرجال کے معنی نکلنے کی نفی ثابت ہوجائے (3)

اجماع کی حجیت کے دلائل کے حوالے سے میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔ لیکن اس سے اجماع کی حجیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ ہم نے یہ کہا ہےکہ جمہور کا موقف غلط بھی ہوسکتا ہے یہ نہیں کہا کہ جمہور کا موقف ہر حال میں غلط ہوتا ہے ۔ اجماع کے حوالے سے ہمارے نزدیک جمہور کاموقف درست ہے ۔ اس حوالے سےاگر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو الگ سے عنوان قائم کرلیتےہیں ۔
2۔ اس مسئلے پر ابن حزم علیہ الرحمہ نے امت کا اجماع نقل کیا ہے فرماتے ہیں :
اتفقوا أن المرأة لا تؤم الرجال وهم يعلمون أنها امرأة فان فعلوا فصلاتهم فاسدة بإجماع ( مراتب الإجماع ص 27 )
ابن حزم کے نقل کردہ اجماع کو توڑنے کے لیے آپ نے الطبری اور ابوثور کا نام بحوالہ بدایۃ ابن رشد اور دیگر ثانوی کتابوں سے نقل کیا ہے ۔ گزارش ہے کہ اس طرح سے یہ قول ثابت نہیں ہوسکتا ۔ کسی ایسی کتاب سے نقل فرمائیں جس میں بالأسانید ان حضرات کے قول نقل کیے گئے ہوں ۔ بلکہ الطبری کی کتابیں موجود ہیں ان میں تلاش کرکے دیکھ لیں ۔

مشہور حدیث ہے:
خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها ( مسلم )
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مرد اور عورت اکٹھے باجماعت نماز پڑھیں گے تو مردوں کے کھڑے ہونے کی جگہ آگے ہے جبکہ عورتوں کی جگہ مردوں کے بعد ہے ۔ مطلب عورت مردوں کے ساتھ صف میں بھی کھڑی نہیں ہوسکتی ۔ اور پھر عورت کو مردوں کا امام بنا کر آگےکھڑا کردینا یہ بطریق اولی ممنوع ہے ۔
اس سے بھی واضح الفاظ میں یوں کہ اس حدیث کے مطابق عورتوں کے کھڑے ہونے کی آخری حد مردوں کے بعد عورتوں کی پہلی صف ہے ۔ یعنی
1۔ عورت مردوں کے ساتھ نہیں کھڑی ہوسکتی ۔
2۔ عورت مردوں کے آگے بھی کھڑی نہیں ہوسکتی ۔
لہذا عورت مردوں کی امامت نہیں کرواسکتی کیونکہ
1۔وہ نہ تو ان سے آگے کھڑی ہوسکتی ہے
2۔اور نہ ہی ان کے ساتھ صف کےاندر کھڑی ہوسکتی ہے ۔
3۔ اور تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ عورت پیچھے ہو اور مرد آگے ہوں یہ صورت امامت و اقتداء کے حوالے سے درست صورت نہیں ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی۔ اس کے کافی سارے دلائل پیچھے گزر چکے ہیں، جن کی طرف تلمیذ صاحب نے توجہ نہیں کی۔
محترم وہ دلائل آپ کے ہاں معتبر نہیں ہیں کیوں جن روایت کر فقہ حنفی سے نکال کر پیش کیا گيا وہ آپ حضرات کے ہاں ضعیف ہیں
بہرحال اس سے قطع نظر!
میرا تلمیذ صاحب سے سوال یہ ہے کہ کیا ان کے نزدیک عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے؟
اگر نہیں تو کیوں؟؟؟
میں نے پہلے بھی کہا کہ فقہ حنفی میں عورت کی مردوں کی امامت کی کوئي گنجائش نہیں ، آپ حضرات بھی یہی کہتے ہیں کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ۔ اب بقول آپ کے ہم تو تقلید کرتے ہیں اور حنفی فقہ قران و حدیث کے مخالف چلتی ہے اور آپ حضرات دلیل پر چلتے ہیں بس میں وہی دلیل جاننا چاہ رہا ہوں

چلو ہم نے تو تقلید میں آکر اس فتوی پر عمل کیا ، آپ کیوں بلا دلیل اس فتوی پر عمل کر رہے ہیں

اور ایک بات کی مذید وضاحت رہے ایک تھریڈ میں جب احناف پر رمضان و غیر رمضان کے فجر کی وقت کے حوالہ سے تقدیم و تاخیر پر اعتراض اٹھا تھا تو کسی بھائی نے کہا تھا عشاء کی نماز میں ایسی تقدیم و تاخیر اہل حدیث کی مساجد میں ہوتی ہے تو آپ نے کہا تھا عشاء کی نماز میں مذکورہ تقدیم و تاخیر نص سے ثابت ہے لیکن فجر میں نہیں ، وہاں آپ فجر کو عشاء پر قیاس کرکے فجر میں تقدیم و تاخیر کا انکار کرہے تھے جب کہ دونوں نماز فرض ہیں تو یہاں کیوں دور دراز کی تاویلات لائی جارہی ہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191

اجماع کی حجیت کے دلائل کے حوالے سے میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔ لیکن اس سے اجماع کی حجیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ ہم نے یہ کہا ہےکہ جمہور کا موقف غلط بھی ہوسکتا ہے یہ نہیں کہا کہ جمہور کا موقف ہر حال میں غلط ہوتا ہے ۔ اجماع کے حوالے سے ہمارے نزدیک جمہور کاموقف درست ہے ۔ اس حوالے سےاگر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو الگ سے عنوان قائم کرلیتےہیں ۔
۔
کبھی موقع ملا تو ضرور ان شاء اللہ
2۔ اس مسئلے پر ابن حزم علیہ الرحمہ نے امت کا اجماع نقل کیا ہے فرماتے ہیں :
اتفقوا أن المرأة لا تؤم الرجال وهم يعلمون أنها امرأة فان فعلوا فصلاتهم فاسدة بإجماع ( مراتب الإجماع ص 27 )
پہلی بات کہ ابن حزم نے کئی معاملات میں اجماع ذکر کیا ہے لیکن ان میں ان سے اجماع نقل کرنے میں خطا ہوئی ہے اس کی وجہ ان کا اختلاف کرنے والے علماء کو عالم نہ ماننا شامل ہے جیسا کہ انہوں کتاب کے مقدمہ میں بھی کہا ہے ، لھذا ان کا اجماع کہنا معتبر نہیں
دوم ابن تيمیہ رحمہ اللہ نے یہاں ابن حزم کے اجماع کی نفی کی ہے (حوالہ نقد مراتب الاجماع )
اس لئیے صرف ابن حزم کا نقل کرکے سمجھ لینا کہ یہاں اجماع ہوا ہے ایک شدید غلط فہمی ہے
ابن حزم کے نقل کردہ اجماع کو توڑنے کے لیے آپ نے الطبری اور ابوثور کا نام بحوالہ بدایۃ ابن رشد اور دیگر ثانوی کتابوں سے نقل کیا ہے ۔ گزارش ہے کہ اس طرح سے یہ قول ثابت نہیں ہوسکتا ۔ کسی ایسی کتاب سے نقل فرمائیں جس میں بالأسانید ان حضرات کے قول نقل کیے گئے ہوں ۔ بلکہ الطبری کی کتابیں موجود ہیں ان میں تلاش کرکے دیکھ لیں ۔

اول

میں نے ابن حزم کے اجماع کو توڑنے کے لئیے کچھ نقل نہیں کیا ، کیوں کہ اس کو اجماع کہنا ابن حزم کی خطا ہے جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا (حوالہ بالا )
دوم
امام الثور اور امام الطبری کے قول برائے جواز امامہ النساء للرجال کے بارے میں صرف ابن رشد نے نہیں کہا ، یہ بات امام النووی نے کتاب المجوع میں اور ابن القدامہ نے المغنی میں اور صاجب عون المعبود نے بھی کہی ہے تو اتنے فقہاء کو کیسے غلط فہمی ہوئی ، یہ بات اس کی عکاس کہ ان تک ضرور ان فقہاء کی کتب پہنچی ہوں گی جو ہم تک نہیں پہنچیں
سوم
الامام النووی نے جب عورت کی مردوں کی امامت کی نفی کی ہے تو جمھور العلماء کا لفظ استعمال کیا نہ کے اجماع کا
چہارم
اتنے سارے مجتھدین کیا امام الطبری اور امام ابو ثور کے حوالہ سے غلطی کرسکتے ہیں ؟؟ اگر آپ ابھی بھی فقہی مقالات میں سند کے متقاضی ہیں اور ہر فن میں سند کے بغیر کوئي قول نہیں مانتے تو فن و جرح میں تو ہم بھی آپ پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ جب آپ کہتے ہیں کہ اگر امام بخاری دو صحابی کی ملاقات کی تردید کریں تو امام بخاری سے دلیل نہیں مانگي جائے گی بلکہ امام کا قول بذات خود دلیل ہے تو وہاں امام بخاری کی صحابہ تک کی سند کہاں چلی جاتی ہے ؟
پنجم
جب امام ابو حنیفہ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یوں کہا تو اکثر ان کے بے سند اقوال ذکر کیے جاتے ہیں وہاں سند کہاں چلی جاتی ہے ۔


مشہور حدیث ہے:
خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها ( مسلم )
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مرد اور عورت اکٹھے باجماعت نماز پڑھیں گے تو مردوں کے کھڑے ہونے کی جگہ آگے ہے جبکہ عورتوں کی جگہ مردوں کے بعد ہے ۔ مطلب عورت مردوں کے ساتھ صف میں بھی کھڑی نہیں ہوسکتی ۔ اور پھر عورت کو مردوں کا امام بنا کر آگےکھڑا کردینا یہ بطریق اولی ممنوع ہے ۔
اس سے بھی واضح الفاظ میں یوں کہ اس حدیث کے مطابق عورتوں کے کھڑے ہونے کی آخری حد مردوں کے بعد عورتوں کی پہلی صف ہے ۔ یعنی
1۔ عورت مردوں کے ساتھ نہیں کھڑی ہوسکتی ۔
2۔ عورت مردوں کے آگے بھی کھڑی نہیں ہوسکتی ۔
لہذا عورت مردوں کی امامت نہیں کرواسکتی کیونکہ
1۔وہ نہ تو ان سے آگے کھڑی ہوسکتی ہے
2۔اور نہ ہی ان کے ساتھ صف کےاندر کھڑی ہوسکتی ہے ۔
3۔ اور تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ عورت پیچھے ہو اور مرد آگے ہوں یہ صورت امامت و اقتداء کے حوالے سے درست صورت نہیں ہے
محترم آپ حضرات تو عشاء کی تقدیم و تاخیر کی حدیث کو فجر پر اپلائی نہیں کرسکتے تو مقتدی کی حدیث سے امامت کے مسائل کیوں استنباط کر رہے ہیں یا للعجب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پہلی بات کہ ابن حزم نے کئی معاملات میں اجماع ذکر کیا ہے لیکن ان میں ان سے اجماع نقل کرنے میں خطا ہوئی ہے اس کی وجہ ان کا اختلاف کرنے والے علماء کو عالم نہ ماننا شامل ہے جیسا کہ انہوں کتاب کے مقدمہ میں بھی کہا ہے ، لھذا ان کا اجماع کہنا معتبر نہیں
دوم ابن تيمیہ رحمہ اللہ نے یہاں ابن حزم کے اجماع کی نفی کی ہے (حوالہ نقد مراتب الاجماع )
اس لئیے صرف ابن حزم کا نقل کرکے سمجھ لینا کہ یہاں اجماع ہوا ہے ایک شدید غلط فہمی ہے (1)

اول

میں نے ابن حزم کے اجماع کو توڑنے کے لئیے کچھ نقل نہیں کیا ، کیوں کہ اس کو اجماع کہنا ابن حزم کی خطا ہے جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا (2) (حوالہ بالا )
دوم
امام الثور اور امام الطبری کے قول برائے جواز امامہ النساء للرجال کے بارے میں صرف ابن رشد نے نہیں کہا ، یہ بات امام النووی نے کتاب المجوع میں اور ابن القدامہ نے المغنی میں اور صاجب عون المعبود نے بھی کہی ہے تو اتنے فقہاء کو کیسے غلط فہمی ہوئی ، یہ بات اس کی عکاس کہ ان تک ضرور ان فقہاء کی کتب پہنچی ہوں گی جو ہم تک نہیں پہنچیں
سوم
الامام النووی نے جب عورت کی مردوں کی امامت کی نفی کی ہے تو جمھور العلماء کا لفظ استعمال کیا نہ کے اجماع کا
چہارم
اتنے سارے مجتھدین کیا امام الطبری اور امام ابو ثور کے حوالہ سے غلطی کرسکتے ہیں ؟؟ اگر آپ ابھی بھی فقہی مقالات میں سند کے متقاضی ہیں (3) اور ہر فن میں سند کے بغیر کوئي قول نہیں مانتے تو فن و جرح میں تو ہم بھی آپ پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ جب آپ کہتے ہیں کہ اگر امام بخاری دو صحابی کی ملاقات کی تردید کریں تو امام بخاری سے دلیل نہیں مانگي جائے گی بلکہ امام کا قول بذات خود دلیل ہے تو وہاں امام بخاری کی صحابہ تک کی سند کہاں چلی جاتی ہے ؟
پنجم
جب امام ابو حنیفہ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یوں کہا تو اکثر ان کے بے سند اقوال ذکر کیے جاتے ہیں وہاں سند کہاں چلی جاتی ہے ۔ (4)
ـــ
محترم آپ حضرات تو عشاء کی تقدیم و تاخیر کی حدیث کو فجر پر اپلائی نہیں کرسکتے تو مقتدی کی حدیث سے امامت کے مسائل کیوں استنباط کر رہے ہیں (5) یا للعجب
شدید غلط فہمی مان لی جاتی اگر آپ اجماع کے توڑ میں کوئی ایسی چیز پیش فرمادیتے جو دلیل کی حیثیت رکھتی ہوتی ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ابن حزم سے اجماع کرنے میں غلطی نہیں ہوسکتی لیکن مسئلہ یہ ہےکہ تردید میں کوئی قابل اعتبار بات تو نقل کریں ۔ چند متاخرین کی کتب سے آپ نے حوالے نقل کردیے ہیں جو ناکافی ہیں ۔ اگر یہ احتمال ہے کہ ابن حزم نے اجماع نقل کرنےمیں غلطی کی یہ بھی تو احتمال ہوسکتا ہے کہ ابوثور اور طبری کی طرف اختلاف منسوب کرنے والوں سے غلطی ہوگئی ہو ۔
دوسری بات یہ ہےکہ ابن حزم یہ اجماع نقل کرنےمیں منفرد بھی نہیں ہیں بلکہ
ابن عبد البر نے بھی اس مسئلے پر اجماع نقل کیا ہے فرماتے ہیں :
وأجمع العلماء على أن الرجال لا يؤمهم النساء ( الاستذکار ج 2 ص 79 )
اسی طرح علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں :
لا يجوز الاقتداء بالمرأة إجماعا ( تبیین الحقائق ج 1 ص 137 )
آپ کے نزدیک ابن حزم کا اجماع نقل کرنا خطاء ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں عین ممکن ہے ابو ثور اور طبری کے اقوال نقل کرنے والوں سےتساہل ہوا ہو ۔
ویسے بھی اصول یہی ہے کہ اگر کسی کی طرف کسی بات کی نسبت کرنی ہے تو باوثوق ذرائع سے ہونی چاہیے اور اس طرح کے مسائل میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اب اگر آپ کسی باوثوق ذارئع سے ثابت نہ کرسکے تو ہم ابن حزم ، ابن عبد البر وغیرہ کے اقوال کو بلا دلیل کیسے رد کرسکتے ہیں ؟
یہاں اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے جناب ۔ جناب کسی بات کو ابتداء ثابت کرنا شاید آسان کام ہوتا ہے لیکن کسی کا رد کرنا یہ ادھر ادھر کے اقوال سے نہیں ہوسکتا ۔ بہر صورت آپ سند کے تقاضے پر حیرانگی کا اظہار فرمارہےہیں حالانکہ سیدھی سے بات ہے کسی کی طرف کسی بات کی نسبت کرنے کے لیے سند ہونا تو ضروری ہے ۔ آپ کے پاس کوئی اور طریقہ ہے تو بتادیں ۔
آپ کے امام کے اقوال آپ کے لیے بطور الزام پیش کیے جاتے ہیں ۔ اگر کسی جگہ مستقل طور پر امام صاحب کی طرف کوئی بات منسوب کرنے کا معاملہ ہے تو بغیر سند کوئی چارہ نہیں ۔
میرے خیال سےآپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ ہم کسی مسئلے کو کسی پر قیاس کر رہے ہیں شاید اس وجہ سے کہ آپ اس حدیث کو صرف مقتدیوں کے ساتھ خاص کر رہے ہیں ذرا پھر غور کریں اور اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں :
مشہور حدیث ہے:
خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها ( مسلم )
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مرد اور عورت اکٹھے باجماعت نماز پڑھیں گے تو مردوں کے کھڑے ہونے کی جگہ آگے ہے جبکہ عورتوں کی جگہ مردوں کے بعد ہے ۔ مطلب عورت مردوں کے ساتھ صف میں بھی کھڑی نہیں ہوسکتی ۔ اور پھر عورت کو مردوں کا امام بنا کر آگےکھڑا کردینا یہ بطریق اولی ممنوع ہے ۔
اس سے بھی واضح الفاظ میں یوں کہ اس حدیث کے مطابق عورتوں کے کھڑے ہونے کی آخری حد مردوں کے بعد عورتوں کی پہلی صف ہے ۔ یعنی
1۔ عورت مردوں کے ساتھ نہیں کھڑی ہوسکتی ۔
2۔ عورت مردوں کے آگے بھی کھڑی نہیں ہوسکتی ۔
لہذا عورت مردوں کی امامت نہیں کرواسکتی کیونکہ
1۔وہ نہ تو ان سے آگے کھڑی ہوسکتی ہے
2۔اور نہ ہی ان کے ساتھ صف کےاندر کھڑی ہوسکتی ہے ۔
3۔ اور تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ عورت پیچھے ہو اور مرد آگے ہوں یہ صورت امامت و اقتداء کے حوالے سے درست صورت نہیں ہے
اس حدیث میں حالت نمازمیں عورتوں کو مردوں سے آگے یا ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی ممانعت ہے کہ نہیں ؟ اگر ہے تو پھر عورت کی امامت کی نفی کیوں نہیں ہے؟ حالانکہ ان دو صورتوں کے علاوہ امامت کی کوئی تیسری صورت ہی نہیں ۔
اور اگر اسی حدیث سے عورت کی امامت کی نفی ثابت ہورہی ہے تو پھر آپ قیاس کی بات کہاں سے لے آئے ہیں ؟

گزارش : کوشش کریں کہ اگر کہیں سے کوئی بات نقل کریں تو اس کا حوالہ یعنی جلد نمبر صفحہ نمبر ضرور لکھ دیں ۔ اور اگر بالفاظ مؤلف نقل کردیں تو بہت بہتر ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
میرا تلمیذ صاحب سے سوال یہ ہے کہ کیا ان کے نزدیک عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے؟
اگر نہیں تو کیوں؟؟؟
میں نے پہلے بھی کہا کہ فقہ حنفی میں عورت کی مردوں کی امامت کی کوئي گنجائش نہیں ، آپ حضرات بھی یہی کہتے ہیں کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ۔ اب بقول آپ کے ہم تو تقلید کرتے ہیں اور حنفی فقہ قران و حدیث کے مخالف چلتی ہے اور آپ حضرات دلیل پر چلتے ہیں بس میں وہی دلیل جاننا چاہ رہا ہوں

چلو ہم نے تو تقلید میں آکر اس فتوی پر عمل کیا ، آپ کیوں بلا دلیل اس فتوی پر عمل کر رہے ہیں
محترم بھائی! ہم تو جو آپ کے بارے میں کہتے ہیں اسے آپ تسلیم نہیں کرتے، بلکہ الزام تصور کرتے ہیں۔ اسی لئے آپ سے آپ کا موقف پوچھا ہے تاکہ حقیقت حال سب کے سامنے واضح ہوجائے اور آپ کا موقف آپ ہی کی زبانی سب کے سامنے آئے۔

1۔ کیا آپ کی دلیل صرف اور صرف فقہ حنفی ہے؟؟؟ آپ سے آئندہ کتاب وسنت سے دلیل کا مطالبہ نہ کیا جائے؟؟؟ فقہ حنفی سے آپ کی مراد امام ابو حنیفہ کا قول ہے یا دیگر علمائے احناف کا؟؟؟

2۔ اگر آپ کی دلیل صرف اور صرف فقہ حنفی ہے تو پھر آپ سے کتاب وسنت کے دلائل مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

3۔ اور اگر آپ کے ہاں بھی دلیل کتاب وسنت ہے تو پھر آپ سے کتاب وسنت کی دلیل کا مطالبہ کیا جائے گا۔

آپ کا جو موقف بھی ہوں، واضح کر دیں!

اور پھر اس کے مطابق اس بات کی دلیل دیں کہ آپ کے نزدیک عورت مردوں کی امامت کیوں نہیں کرا سکتی؟؟؟
 
Top