• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک دوسرے پر لعنت کرنے اور اللہ کے غضب کی اور دوزخ کی آگ کی بددعا دینے کی ممانعت

m.ali.m

مبتدی
شمولیت
مئی 31، 2011
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
18
ایک دوسرے پر لعنت کرنے اور اللہ کے غضب کی اور دوزخ کی آگ کی بددعا دینے کی ممانعت


حدیث: وعن سمرة بن جندب رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لا تلاعنوا بلعنة اﷲ ولا بغضب اﷲ ولا بجھنم (وفی روایة) ولا بالنار [اخرجة ترمذی و ابوداؤد فی سنن]

ترجمہ: حضرت سمرة بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک دوسرے پر لعنت نہ ڈالو، اور آپس میں یوں نہ کہو کہ تجھ پر اللہ کا غضب ہواور نہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے یوں کہو کہ تو جہنم میں جائے (اور روایت میں ہے)کہ نہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے یوں کہو کہ آگ میں جلے۔ (مشکوة 413 بحوالہ ترمذی اور ابوداؤد)

تشریح: اس حدیث مبارکہ میں تین نصیحتیں فرمائیں۔
پہلی نصیحت یہ کہ آپس میں ایک دوسرے پر لعنت نہ کرو اللہ تعالی شانہ کی رحمت سے دور ہونے کی بددعا کو لعنت کہا جاتا ہے۔ کسی کو کہنا کہ ملعون ہے یا لعین ہے یا مردود ہے یا اس پر اللہ کی مار ہے یا اللہ کی پھٹکار ہے یہ سب لعنت کے مفہوم میں شامل ہے اور کسی پر بے وجہ لعنت کرنا بہت سخت بات ہے۔
لعنت کس پر کرنا درست ہے؟
عام طور پر یوں کہہ سکتے ہیں کہ کافروں پر اللہ کی لعنت ہو اور جھوٹوں اور ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ لیکن کسی کا نام لے کر لعنت کرنا جائز نہیں ہے جب تک کہ یہ یقین نہ ہو کہ وہ (جس پر لعنت کی جارہی ہے) کفر پر مرگیا۔ آدمی تو آدمی نجار کو، ہوا کو، جانور کو بھی لعنت کرنا جائز نہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے ہوا پر لعنت کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے ہی حکم دی ہوئی ہے۔ اور جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت کرے جو لعنت کے مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ جاتی ہے جس نے لعنت کی (ترمذی)
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ بلاشبہ انسان جب کسی پر لعنت کرتا ہے تو کعنت آسمان کی طرف لوٹ جاتی ہے ، وہاں دروازے بند کردئے جاتے ہیں (اوپر کو جانے کا کوئی راستہ نہیں ملتا) پھر زمین کی طرف اتاری جاتی ہے زمین کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں (یعنی کوئی جگہ ایسی نہیں ملتی جہاں وہ نازل ہو) پھر دائیں بائیں کا رخ کرتی ہے جب کسی جگہ کوئی راستہ نہیں پاتی تو پھر اس شخص پر لوٹ آتی ہے جس پر لعنت کی ہے اگر وہ لعنت کا مستحق تھا تو اس پر پڑ جاتی ہے ورنہ اس شخص پر آکر پڑتی ہے جس نے منہ سے لعنت کے الفاظ نکالے تھے۔ (ابوداؤد)
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زبان سے ایک موقعہ پر بعض غلاموں کے بارے میں لعنت کے الفاظ نکل گئے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گذر رہے تھے آپ نے (کراہت اور تعجب کے انداز میں ) فرمایا لعانین و صدّقین کلا ورب الکعبة یعنی لعنت کرنے والے اور صدیقین (کیا یہ دونوں جمع ہوسکتے ہیں) رب کعبہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا (یعنی کوئی شخص صدیق بھی ہو اور لعنت کرنے والا بھی ہو) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اس کا بہت اثر ہوا اور اس روز انہوں نے اپنے بعض غلام آزاد کردئے اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اب ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ (بیہقی) حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ بہت لعنت کرنے والے قیامت کے دن کسی کے حق میں گواہ نہ بن سکے گے اور نہ سفارش کرسکیں گے (صحیح مسلم)
عورتیں لعنت بہت بکتی ہیں:
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عید الفطر کی نماز کے لئے تشریف لکے جارہے تھے عورتوں پر آپ کا گذر ہوا آپ نے فرمایا کہ اے عورتوں! صدقہ کرو کیونکہ مجھے دوزخ میں تم سب سے زیادہ دکھائی گئی ہو، عورتوں نے عرض کیا کیوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ آپ نے فرمایا تکثرن اللعن وتکفرن العشیر یعنی تم بہت لعنت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ۔ (بخاری و مسلم)
عورت لعنت بہت کرتی ہیں یعنی کوسنا، پیٹنا، برا بھلا کہنا اور الٹی سیدھی باتیں زبان سے نکالنا یہ عورتوں کا خاص مشغلہ ہے، شوہر اولاد اوربھائی بہن، گھر، جانور، چوپایہ، آ گ پانی ہر چیز کو کوستی رہتی ہیں۔ اسے آگ نگے، وہ لگٹی لگا ہے، یہ ناس پیٹی ہے، اسے ڈھائی گھڑی کی آئے، وہ موت کالیا ہے، اس کا ناس ہو، وہ اللہ کا مارا ہے، اس پر پھٹکار ہو۔ اسی طرح کی ان گنت باتیں عورتوں کی زبان پر جاری رہتی ہیںاس میں بددعا کے کلمات بھی ہوتے ہیں، گالیاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ بات اللہ کو ناپسند ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوزخ میں داخل ہونے کا سبب بتایا۔
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابی خاتون کے پاس تشریف لے گئے ان کو ام السائب کہا جاتا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ کپکپا رہی ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ہے تم کو کپکپی کیوں آرہی ہے؟ جواب دیا : بخار چڑھ آیا ہے خدا اس کا برا کرے آپ نے فرمایا بخار کو برا نہ کہو کیونکہ وہ انسانوں کے گناہوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو ختم کردیتی ہے۔ ( صحیح مسلم)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ:
دوسری نصحیت یہ فرمائی کہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے یوں نہ کہو کہ تجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، مومن اللہ کی رحمت کے لئے ہے اس کو ہمیشہ رحمت کی دعا دینا چاہیئے۔ اللہ کا غضب کافروں پر ہوتا ہے کسی مومن کے حق میں یہ کہنا کہ تجھ پر اللہ کا غضب ہو جہالت کی بات ہے۔
تیسری نصحیت یہ فرمائی کہ آپس میں ایک دوسرے کے حق میں یوں نہ کہو کہ جہنم میں جائے بہت سے جاہل بلکہ پڑھے لکھے لوگ بات بات میں دوسروں کے حق میں کہہ دیتے ہیں کہ ہماری بلا سے جائے جہنم میں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی کیونکہ مسلمان دوزخ کے لئے نہیںہے۔ وہ جنت کے لئے ہے اسے ہمیسشہ جنتی ہونے کی دعا دو، اخلاق بلند کرو اگر کوئی شخص ستائے تب بھی اس کو دعا دو بددعا دینے کا کوئی ثواب حدیث میں نہیں آیا البتہ دعا دینے کی ترغیب احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف تشریف لے گئے اور وہاں لوگوں نے (اس وقت) اسلام قبول نہ کیا اور کو بری طرح جواب دیا اور بری طرح ستایا تو ملک الجبال (پہاڑوں پر مقررہ فرشتے) نے آکر عرض کیا کہ آپ فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا (میں ان کو عذاب دلانا نہیں چاہتا بلکہ) اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ انکی پشتوں (یعنی نسلوں) سے ایسے لوگ نکال دے گا جو تنہا اللہ کی عبادت کریں گے اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کریں گے (بخاری و مسلم)
فھل نظرت عین کمثل محمدﷺ رؤفا علی الاعدا بعد التبصر
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ مشرکین کے حق میں بددعا کیجئے آپ نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا میں تو رحمت ہی بناکر بھیجا گیا ہوں (مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ فحش گو تھے، نہ لعنت کرنے والے، نہ گالی دینے والے تھے۔ ناراضگی کے وقت پر یہ فرماتے تھے کہ ﴾مالہ ترب جبینہ﴿ یعنی اس کو کیا ہوا اس کے چہرے پر مٹی لگے۔ (بخاری) بعض شراح نے فرمایا ہے کہ اس میں دعا ہے کہ اس کو سجدہ کی توفیق ہو۔
یزید پر لعنت کا مسئلہ:
بہت سے لوگ روافض سے متاثر ہوکر یزید پر لعنت کرتے ہیں۔ بھلا اہلسنت کو روافض سے متاثر ہونے کی کیا ضرورت ؟ ان اسلامی اصول پر چلنا چاہیئے۔ روافض کے مذہب کی تو بنیاد ہی اسی پر ہے کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہیں اور یزید اور اس کے لشکر پرلعنت کریں قرآن کی تحریف کے قائل ہوں اور متعہ کیا کریں اور جب اہلسنت میں پھنس جائے تو تقیہ کے داؤ پیچ کو استعمال کرکے اپنے عقیدے کے خلاف سب کچھ کہہ دیں۔ بھلا اہلسنت ان کی کیا ریس کرسکتے ہیں؟ اہلسنت اپنے اصول پر قائم رہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ان ہی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لعنت صرف اسی پر کی جاسکتی ہے جس کا کفر پر مرنا یقینی ہو۔ یزید اور اس کے اعوان و انصار کا کفر پر مرنا کیسے یقنی ہوگیا؟ جس کی وجہ سے ان پر لعنت جائز ہو؟
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاءالعلوم میں اول یہ سوال اٹھایا ہے کہ یزید پر لعنت جائز ہے یا نہیں اس وجہ سے کہ وہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا قاتل ہے یا قتل کا حکم دینے والا ہے؟ پھر اس کا جواب دیا کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔ یا اس کا حکم دیا یہ بالکل ثابت نہیں ہے۔ لہذا یزید پر لعنت کرنا تو درکنار یہ کہنا بھی جائز نہیںکہ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی مسلمان کو گناہ کبیرہ کی طرف بے تحقیق کے منسوب کرنا جائز نہیں۔ نیز امام غزالیؒ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ مخصوص نام لے کر افراد و اشخاص پر لعنت کرنا بڑا خطرہ ہے۔اس سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ اور جس پر لعنت کرنا جائز ہے اسپر لعنت کرنے سے سکوت اختیار کرنا کوئی گناہ اور مواخذہ کی چیز نہیںہے۔ ار کوئی ابلیس پر لعنت نہ کرے اس میں کوئی خطرہ نہیں چہ جائے کہ دوسروں پر لعنت کرنے سے خاموشی اختیار کرنے میں کچھ حرج ہو۔ پھر فرمایا ﴾ فالاشتغال بذکر اللہ اولی فان لم یکن ففی السکوت سلامة﴿ یعنی خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا اولی اور افضل ہے اگر ذکر اللہ میں مشغول نہ ہو تو پھر خاموشی میں سلامتی ہے (کیونکہ لعنت نہ کرنے میں کوئی خطرہ نہیں اور نام لے کر لعنت کرنا پُر خطر ہے کیونکہ وہ لعنت کا مستحق نہ ہو ا تو لعنت کرنے والے پر لوٹ کر آئے گی پھر کسی حدیث میں مستحق لعنت پر بھی لعنت کرنے کا کوئی ثواب وارد نہیں ہوااور لعنت کے الفاظ زبان پر لانے سے کوئی فائدہ بھی نہیں)

نامہ اعمال میں لا الہ الا اللہ نکلے یہ اس سے کئی بہتر ہے کہ ا س کی جگہ پر لعن اللہ فلانا نکلے:
حضرت مکی بن ابراہیم نے بیان فرمایا کہ ہم ابن عون کے پاس تھےان کی مجلس میں بلال بن ابی بردہ کا ذکر آگیا لوگ ان پر لعنت کرنے لگے اور ان کی برائیاں بیان کرنے میں مشگول ہوگئے۔ ابن عون کاموش بیٹھے رہے لوگوں نے کہا اے ابن عون! ہم تو ان کا ذکر برائی کے ساتھ اس لئے کررہے ہیں کہ انہوں نے آپ کے ساتھ زیادتی کی (اور آپ خاموش بیٹھے ہیں) حضرت ابن عون نے فرمایا کہ دو کلمے ہیں ایک لا الہ الا اللہ اور دوسرا لعن اللہ فلانا جس کو بھی زبان سے نکالوں گا قیامت کے دن میرے نامہ اعمال میں ظاہر ہوجائے گا پس اگر میرے نامہ اعمال میںلا الہ الا اللہ نکلے یہ اس سے کئی بہتر ہے کہ ا س کی جگہ پر لعن اللہ فلانا نکلے۔ (کیونکہ کسی پر لعنت کرنے میں کوئی بھی ثواب نہیں اگرچہ وہ شخص مستحق لعنت ہو جس پر لعنت کی گئی )

[ماخوذ از : زبان کی حفاظت صفحہ 68 تا 73
مولف: مولانا عاشق الہی بلند شہری]
 
Top