• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیے؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیے؟



اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟

قرآن محدود تعداد میں عورتوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے

’’چنانچہ تم ان عورتوں سے شادی کرو جو تمھیں اچھی لگیں دو دو، تین تین یا چارچار (عورتوں) سے، لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم (ان کے ساتھ) انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک سے(نکاح کرو)۔‘‘ النساء : 3/4


نزولِ قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئی مرد بیسیوں بیویاں رکھتے تھے۔ اور بعض کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔ لیکن اسلام نے بیویوں کی تعداد 4تک محدود رکھی ہے۔ اسلام مرد کو دو، تین یا چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کر سکے۔
اسی سورت، یعنی سورئہ نساء کی 129 ویں آیت کہتی ہے:

’’تم عورتوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے۔‘‘النساء : 129/4
اس لیے زیادہ شادیاں کرناکوئی قانون نہیں بلکہ استثنا ہے۔ بہت سے لوگ یہ غلط نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔

حلّت و حرمت کے اعتبار سے اسلامی احکام کی پانچ اقسام ہیں

٭ فرض: یہ لازمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔
٭ مستحب: اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔
٭ مباح: یہ جائز ہے، یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔
٭ مکروہ: یہ اچھاکام نہیں، اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
٭ حرام: اس سے منع کیا گیا ہے، یعنی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑنا باعثِ ثواب ہے۔

ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مذکورہ احکام کے درمیانے درجے میں ہے۔ اس کی اجازت ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک مسلمان جس کی دو، تین یا چار بیویاں ہیں، اُس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔

عورتوں کی اوسط عمر

قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریباً برابر پیدا ہوتے ہیں لیکن ایک بچی میں ایک بچے کی نسبت قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی بیماریوں کا ایک بچے کی نسبت بہتر مقابلہ کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکوں کی شرح اموات لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہے۔

اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ حادثات اور امراض کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ مرتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں کی نسبت زیادہ ہے اور دنیا میں رنڈوے مردوں کی نسبت بیوہ عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔
عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے


امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً 78 لاکھ زیادہ ہے۔ صرف نیویارک میں عورتیں مردوں سے 10 لاکھ زیادہ ہیں،نیز مردوں کی ایک تہائی تعداد ہم جنس پرست ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عورتوں سے شادی کی خواہش نہیں، اسی طرح برطانیہ میں عورتوں کی تعداد مردوں سے 40 لاکھ زیادہ ہے۔ جرمنی میں مردوں کی نسبت عورتیں 50 لاکھ زیادہ ہیں، اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں 90 لاکھ زیادہ
ہیں۔فی الجملہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔



ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابلِ عمل ہے

اگر ایک مرد صرف ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین کروڑ عورتیں بے شوہر رہیں گی (یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اڑھائی کروڑ امریکی مرد ہم جنس پرست ہیں۔) اسی طرح 40 لاکھ برطانیہ میں، 50 لاکھ جرمنی میں اور 90 لاکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنھیں خاوند نہیں مل سکے گا۔


فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیر شادی شدہ خواتین میں سے ہے یا فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے صرف دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا پھر ’’پبلک پراپرٹی‘‘ (اجتماعی ملکیت) بنے۔ اس کے علاوہ اورکوئی راستہ نہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ یقیناپہلی صورت کو ترجیح دیں گی۔ بہت سی خواتین دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسلامی معاشرے میں جب صورتحال گمبھیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحبِ ایمان عورت اپنا معمولی ذاتی نقصان برداشت کر سکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اُس کی دوسری مسلمان بہنیں ’’پبلک پراپرٹی‘‘ یعنی اجتماعی ملکیت بن کر رہیں۔

شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے سے بہتر ہے۔ مغربی معاشرے میں عام طور پر ایک شادی شدہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے بھی جنسی تعلقات رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زندگی بسر کرتی اور عدمِ تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد کو جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا، حالانکہ اس تعددِ ازواج کی صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقار زندگی بسر کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو وہ شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا ’’اجتماعی ملکیت‘‘ بن جائے۔ اسلام پہلی صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام دِلاتا ہے اور دوسری صورت کی قطعًااجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اوربھی کئی اسباب ہیں جن کے پیش نظر اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ ان اسباب میں اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت اسلام کے نزدیک فرض اور لازم ہے۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیے؟

اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قرآن محدود تعداد میں عورتوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے
’’چنانچہ تم ان عورتوں سے شادی کرو جو تمھیں اچھی لگیں دو دو، تین تین یا چارچار (عورتوں) سے، لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم (ان کے ساتھ) انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک سے(نکاح کرو)۔‘‘ النساء : 3/4
نزولِ قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئی مرد بیسیوں بیویاں رکھتے تھے۔ اور بعض کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔ لیکن اسلام نے بیویوں کی تعداد 4تک محدود رکھی ہے۔ اسلام مرد کو دو، تین یا چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کر سکے۔
اسی سورت، یعنی سورئہ نساء کی 129 ویں آیت کہتی ہے:
’’تم عورتوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے۔‘‘النساء : 129/4
اس لیے زیادہ شادیاں کرناکوئی قانون نہیں بلکہ استثنا ہے۔ بہت سے لوگ یہ غلط نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔
حلّت و حرمت کے اعتبار سے اسلامی احکام کی پانچ اقسام ہیں
٭ فرض: یہ لازمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔
٭ مستحب: اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔
٭ مباح: یہ جائز ہے، یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔
٭ مکروہ: یہ اچھاکام نہیں، اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
٭ حرام: اس سے منع کیا گیا ہے، یعنی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑنا باعثِ ثواب ہے۔
ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مذکورہ احکام کے درمیانے درجے میں ہے۔ اس کی اجازت ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک مسلمان جس کی دو، تین یا چار بیویاں ہیں، اُس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔
عورتوں کی اوسط عمر

قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریباً برابر پیدا ہوتے ہیں لیکن ایک بچی میں ایک بچے کی نسبت قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی بیماریوں کا ایک بچے کی نسبت بہتر مقابلہ کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکوں کی شرح اموات لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہے۔
اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ حادثات اور امراض کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ مرتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں کی نسبت زیادہ ہے اور دنیا میں رنڈوے مردوں کی نسبت بیوہ عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔
عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے
امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً 78 لاکھ زیادہ ہے۔ صرف نیویارک میں عورتیں مردوں سے 10 لاکھ زیادہ ہیں،نیز مردوں کی ایک تہائی تعداد ہم جنس پرست ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عورتوں سے شادی کی خواہش نہیں، اسی طرح برطانیہ میں عورتوں کی تعداد مردوں سے 40 لاکھ زیادہ ہے۔ جرمنی میں مردوں کی نسبت عورتیں 50 لاکھ زیادہ ہیں، اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں 90 لاکھ زیادہ
ہیں۔فی الجملہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔
ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابلِ عمل ہے

اگر ایک مرد صرف ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین کروڑ عورتیں بے شوہر رہیں گی (یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اڑھائی کروڑ امریکی مرد ہم جنس پرست ہیں۔) اسی طرح 40 لاکھ برطانیہ میں، 50 لاکھ جرمنی میں اور 90 لاکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنھیں خاوند نہیں مل سکے گا۔
فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیر شادی شدہ خواتین میں سے ہے یا فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے صرف دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا پھر ’’پبلک پراپرٹی‘‘ (اجتماعی ملکیت) بنے۔ اس کے علاوہ اورکوئی راستہ نہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ یقیناپہلی صورت کو ترجیح دیں گی۔ بہت سی خواتین دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسلامی معاشرے میں جب صورتحال گمبھیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحبِ ایمان عورت اپنا معمولی ذاتی نقصان برداشت کر سکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اُس کی دوسری مسلمان بہنیں ’’پبلک پراپرٹی‘‘ یعنی اجتماعی ملکیت بن کر رہیں۔
شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے سے بہتر ہے۔ مغربی معاشرے میں عام طور پر ایک شادی شدہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے بھی جنسی تعلقات رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زندگی بسر کرتی اور عدمِ تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد کو جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا، حالانکہ اس تعددِ ازواج کی صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقار زندگی بسر کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو وہ شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا ’’اجتماعی ملکیت‘‘ بن جائے۔ اسلام پہلی صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام دِلاتا ہے اور دوسری صورت کی قطعًااجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اوربھی کئی اسباب ہیں جن کے پیش نظر اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ ان اسباب میں اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت اسلام کے نزدیک فرض اور لازم ہے۔
درست کہاآپ نے وقت کےساتھ ساتھ اسلام کی حکمتیں اورمصلحتیں مزیدآشکارہوتی جاتی ہیں۔اس لیکن اہل مغرب چاہےخودکوکتناہی غیرجانب کہیں وہ کسی صورت میں اسےتسلیم نہیں کریں گےکیونکہ اس سے انہیں شدید تہذیبی دھچکالگے گا اور نظریاتی وتہذیبی مغلوبیت سے وہ ختم ہوجائیں گے۔سو اس طرح کےتمام مسائل میں وہ کسی صورت شکست نہیں مانیں گےکیونکہ چاہےوہ کتنی ہی معقولیت پرمبنی ہوں۔
 
Top