• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک نیک عمل کے وسیلے سے دعا کتنی دفعہ کی جاسکتی ہے؟

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلا م علیکم
صحیح حدیث کے مطابق بنی اسرائیل کے تین شخصوں نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ دیکر مشکل سے نجات پائی تھی۔

میرافورم کے شرکاء اور خاص طور پر علماء کرام سے یہ سوال ہے کہ کسی نیک عمل وسیلہ کتنی دفعہ دیا جاسکتا ہے ۔ اور اگر اس وسیلے کی نتیجے میں دعا پوری ہوجائے تو کیا وہ نیک عمل ختم ہوجائے گا۔
مثال کے طور میں نے کسی کی مدد کی یا کوئی دوسرا نیک کام کیا اب میں اپنی دعا میں اس کا ذکر کب تک کر سکتا ہوں۔کیا ایک نیک عمل کے تحت ایک بار ہی دعا کی جاسکتی ہے۔ یا بار بار بھی مانگی جاسکتی ہے ۔
اور اگر دعا پوری نہ ہو تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ میرا وہ عمل جس کے وسیلے سے میں دعا کر رہا ہوں وہ اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے۔
@اسحاق سلفی
@خضرحیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سوال ہے کہ کسی نیک عمل وسیلہ کتنی دفعہ دیا جاسکتا ہے ۔ اور اگر اس وسیلے کی نتیجے میں دعا پوری ہوجائے تو کیا وہ نیک عمل ختم ہوجائے گا۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
کسی نیک عمل سے جتنی بار کوئی اہم دعاء کرنی ہو توسل کرسکتا ہے ، کیونکہ یہ کوئی لین دین کا سودا تو ہے نہیں !
یعنی : توسل بالاعمال میں ۔۔ عوض ، معاوضہ کا معاملہ نہیں ہوتا ، بلکہ کسی نیک عمل کو محض قبولیت کے ۔۔ سبب ۔۔ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ،
کیونکہ عمل صالح تو محبت اور اطاعت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ، کسی وقتی ،دنیاوی مفاد کیلئے نہیں ہوتا ، اگر دنیاوی وقتی مفاد مقصود ہو تو ہوسکتا ہے وہ مفاد حاصل ہوجائے ، لیکن اللہ کی رضا ، اور اخروی فائدہ نہیں ملتا ،
قرآن مجید میں ارشاد ہے ؛
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (سورۃ ھود15)
یعنی : جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی آسائش کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ انہیں یہیں چکا دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی (ھود ۱۵)
ان تین غار والوں کے واقعہ میں الفاظ یہ ہیں :
(( فَقَالُوا: إِنَّهُ لاَ يُنْجِيكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ بِصَالِحِ أَعْمَالِكُمْ،۔۔۔۔ )(صحیح البخاری )
جب غار کا منہ بند ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اس غار سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ، سوائے اس کے کہ : تم اللہ سے کسي ايسے نیک عمل کا واسطہ دے کر دعا کرو جو تم نے کيا ہو ؛)
اب سب نے اپنا ایک ایک عمل توسل کے طور پر پیش کیا اور ساتھ کہا :
( اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ )
یعنی : اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ ميں نے صرف تيري رضا کے لئے ايسا کيا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا ‘‘
مطلب واضح ہے کہ : انہوں یہ نیک اعمال کرتے وقت صرف اللہ کی رضا ، مقصود تھی ، کسی دنیوی مفاد کے پیش نظر یہ عمل نہیں کئے تھے اسی لئے وہ اسی تعلق باللہ کا محض حوالہ دے رہے ہیں ،
اس دنیا میں انسان کے پاس سب سے بڑی پونجی اور دولت ایمان ہے ، قرآن کریم میں خود اللہ عزوجل فرماتا ہے :
{إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ} (المؤمنون: 109)
دنیا میں ) میرے کچھ بندے ایسے تھے کہ
جو برابر یہی کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما تو سب مہربانوں سے زیاده مہربان ہے۔ (109)
یہاں بھی اہل ایمان نے اپنے ایمان کو بخشش کے حصول کیلئے وسیلہ ۔۔سبب ۔۔ بنایا ہے ، نہ کہ معاوضہ مانگا ہے ،
کیونکہ ایمان لانے کے بعد کسی نے چالیس سال بڑے بڑے عمل کئے ، اور کسی کو بحالت ایمان چند گھڑیاں دنیا میں نصیب ہوئیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے یاد رہے :
اعمال کا توسل دعاء کی قبولیت کیلئے شرط نہیں ،
کیونکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
(وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ {غافر: 60}
اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وه جلد ہی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔ (60)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اور اگر دعا پوری نہ ہو تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ میرا وہ عمل جس کے وسیلے سے میں دعا کر رہا ہوں وہ اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے۔
بالکل نہیں ، دعاء کی عدم قبولیت سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نیک عمل مقبول نہیں ،
نیک اعمال کی مقبولیت و رد ہونا ایک راز ہے جو مرنے کے بعد پتا چلے گا ، اگر یہ پردہ نہ ہوتا تو لوگ سبھی ایمان والے ہوتے ،
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
بہت عمدہ شیخ محترم
اللہ مزید دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے آمین
 
Top