• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اے اللہ ،میرے والدین

شمولیت
نومبر 24، 2012
پیغامات
265
ری ایکشن اسکور
502
پوائنٹ
73
اے اللہ! میرے والدین
ہسپتال کا عملہ آپریشن تھیٹر کے عملے کا مخصوص لباس پہنے بابا جان کو اسٹریچر پر لٹائے تیزی سے آپریشن تھیٹر کی طرف لئے جا رہا تھا۔ راستے میں آنے والے لوگوں کو تیزی سے پیچھے ہٹا کر اسٹریچر کو آگے سے آگے دھکیلتا جا رہا تھا۔ آپریشن کے مقررہ ٹائم سے وقت زیادہ ہو چکا تھا، اس لئے سب افراد تیزی سے حرکت میں تھے۔ آخر بابا جان تھیٹر پہنچ گئے، بے ہوش کرنے والاڈاکٹر، سرجری کرنے والا سرجن اور دوسرے چھوٹے ڈاکٹر مستعد و تیار کھڑے تھے، بابا جان کے جسم کو چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ ہلکا سا بلڈ پریشر ہائی ہے۔ بابا جان کا فوری ٹریٹ منٹ کیا گیا۔ اب بابا جان مکمل نارمل تھے اور ڈاکٹر اپنے آلات اور آپریشن کی مشینوں اور کمپیوٹر کی مدد سے جسم پر کٹ دیئے جانے کی جگہ کا تعین کر رہے تھے کہ یہاں سے جسم کو کٹ لگا کر آپریشن کی ابتداء کی جا سکے ۔
ابھی وہ کٹ لگانے ہی والے تھے لیکن اس سے پہلے بابا جان کو بے ہوش کرنا ضروری تھا۔ بے ہوش کرنے والا عملہ آگے بڑھا تو اچانک بابا جان کے ہونٹ ہلنے لگے۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے ڈاکٹرز ایک منٹ کے لئے پنے ہاتھ روک کر بابا کی بات سننے کے لئے متوجہ ہوئے کہ اللہ جانے بابا کو کیا تکلیف ہے جو وہ بتانا چاہتا ہے اور آپریشن کی کامیابی کیلئے اس کی ہر بات کو غور سے سننا، اہمیت دینا اور ہر تکلیف و شکایت کا الزالہ کرنا ضروری تھا تاکہ انسانی جان بچانے کیلئے ہر ممکنہ اقدام کو بروئے کار لایا جا سکے… بابا نے اپنے گلے کو صاف کرتے ہوئے کہا: آج جمعۃ المبارک کا دن ہے، میری درخواست ہے مجھے جمعہ پڑھ لینے دیا جائے اور میرے روزانہ کے معمول کے چند اذکار مسنونہ ہیں وہ بھی پڑھ لینے دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں وہ پڑھنے سے رہ جائوں اور مجھے کچھ ہو جائے، پھر اس کے بعد جو آپ کے دل میں آئے کر لینا۔
لہٰذا بابا جان کو آپریشن تھیٹر سے باہر لایا گیا۔ بابا جان نے جمعۃ المبارک کا خطبہ سنا اور نماز باجماعت ادا کی۔ بابا ذکر و اذکار کرتا رہا۔ تلاوت کرتا رہا، وقت گزرتا رہا۔ ایک عزیز نے پوچھا، وہ کون سا وظیفہ یا ذکر تھا کہ جس کے چھوٹ جانے کے ڈر سے آپ نے آپریشن ملتوی کروا دیا۔ آپ کوعلم ہے نہ کہ آپ کینسر کے مریض ہیں۔ اس مرض میں ایک ایک منٹ بہت قیمتی ہوتاہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک ایک منٹ اور سیکنڈ مریض کو موت و حیات کے قریب کر دیتا ہے جبکہ آپ نے اتنی جلدی بازی آنے کے باوجود عین وقت پر خود ملتوی کروا دیا۔ مجھے بھی پتہ چلے کہ وہ آپ کا کون سا اتنا اہم ورد، وظیفہ یا ذکر تھابابا جی بولے:
’’پتر! صبح و شام کے مسنون اذکار کرنا تو ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ نمازوں کے بعد کے اذکار بھی ہم ضرور پڑھتے ہیں اور میرا خیال ہے، ہر صاحب فکر کا یہ معمول ہوتاہے۔ قرآن کی تلاش سے ہر وقت اٹھتے بیٹھتے بندے کی زبان تر رہنی چاہئے۔ اس کے علاوہ نماز والا درود جب آدمی کو کہیں خاموش ہونے کے لئے ایک منٹ کا بھی موقع ملے ضرور پڑھتا رہنا چاہئے، اس سے بندے پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔ را تکو سونے کے اذکار بھی بندے کو نہیں بھولنے چاہئیں کہ کیا علم صبح اٹھنا بھی ہے، چھوٹی موت (نیند) کی بہن (بڑی موت) کے پاس چلے جانا ہے اور بندے کو یہ سوچ کر وضو کر کے اور آیۃ الکرسی پڑھ کر سونا چاہئے کہ شاید یہ رات میری زندگی کی آخری رات ہو…
ہاں میرا ایک خاص وظیفہ بھی ہے جو میرا اپنا بنایا ہوا یا ایجاد کیا ہوا نہیں ہے بلکہ مسنون ہے۔ میں اسے کسی بھی دن کبھی بھی چھوڑنا گوارا نہیں کرتا، اس کا ناغہ نہیں ہونے دیتا اور میں نے آپریشن دو وجوہات کی بناپر ملتوی کروایا ہے:
(1) کہ میری جمعہ المبارک کی باجماعت نماز اور پھر نماز عصر کہ جس کی قسم مولا کریم نے قرآن میں اٹھائی ہے، رہ جائیں اور مجھے کچھ ہو جائے، یہ مجھے گوارا نہیں۔
(2) میرا ایک خاص وظیفہ جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا ہے وہ اپنے مرحوم والدین کے لئے دعائے مغفرت ہے کہ جسے ہمارے پیارے رسولﷺ نے اپنی امت کو سکھایا ہے، کہ وہ اپنے دنیا سے رخصت ہو چکے والدین کے لئے اسے روزانہ مانگیں وہ یہ دعا ہے:
رب الرحمھما کما ربیانی صغیراً
’’اے میرے رب! میرے والدین (ماں باپ) کے ساتھ اس طرح شفقت اور رحمت کا برتائو کر (مطلب یہ کہ ان کے گناہ معاف کر کے انہیں بخش دے) کہ جس طرح انہوں نے چھوٹی سی ننھی عمر میں میرے ساتھ شفقت و رحمت کا برتائو کیا‘‘۔
مطلب دعا کا یہ ہے کہ میرے مولا کریم! میرے ماں باپ نے مجھ چھوٹے سے بچے کو شفقت و لاڈ پیار سے پال پوس کر بڑا کیا، اے مولا کریم! تو ان کی لغزشوں اور بشری کوتاہیوں کو معاف کر کے ان کو بخش دے اور جنتوں کا وارث بنا دے اور ان کی غلطیوں، کوتاہیوں کو اسی طرح نظرانداز کر دے جس طرح وہ مجھے چھوٹی سی عمر میں کئی چیزوں کو توڑ پھوڑ دینے، نقصان کرنے اور نادانی میں ان کے حکم پر توجہ نہ دینے پر سزا دینے کی بجائے درگزر کرتے اور معاف کر دیتے تھے تو بھی ان بے چاروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر۔ اس وظیفہ کے رہ جانے کے ڈر سے بھی میں نے آپریشن ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ آپریشن کے بعد اللہ جانے زندہ اٹھوں یا چل بسوں اور میرا آج اس وظیفہ سے کہیں ناغہ نہ ہو جائے کیوں نہ میں پہلے اسے پڑھ لوں پھر آپریشن کرائوں۔ یہی سوچ کر میں نے ڈاکٹر سے التجا کی تھی جو اس نے قبول کر لی۔ مہربانی اس پتر کی… لیکن یہ وظیفہ تو آپ اسٹریچر پر پڑے پڑے بھی پڑھ سکتے تھے۔ مشکل سے اسے پڑھنے پر ایک آدھ منٹ کا وقت صرف ہوتا تھا… نہیں پتر!ْ ایک آدھ دفعہ نہیں میں تو اس وظیفہ کو ایک دن میں اس کے الفاظ و معانی کو ذہن میں رکھ کر سمجھتے سوچتے ہوئے رب کے دربار میں حاضری دیتے ہوئے التجا کرنے کے تصور کے ساتھ مکمل سو مرتبہ پڑھتا ہوں، یعنی دن میں ایک سو مرتبہ نہایت عاجزی و انکساری سے التجا کرتا ہوں کہ اے جبار و قہار! اے کائنات کے مالک، ان کو معاف کر دے، ان کو بخش دے، ان پر رحم فرما، اللہ کریم ان پر کرم فرما، اگر صرف ایک دفعہ فقرہ زبان سے ادا کرنا ہوتا تو شاید میں سٹریچر پر لیٹے لیٹے کہہ لیتا۔
سوال کرنے والا عزیز حیران و پریشان اور گنگ بنا کھڑا تھا اور بابا کی عظمت کے پہاڑ کے نیچے تمام لوگوں، ہسپتالوں کے عملے سمیت خود اپنے آپ کو دبا ہوا محسوس کر رہا تھا کہ اس دور میں ایسی اولادیں بھی ہیں جو ساٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ کر بھی اپنے والدین سے اتنا پیار کرتی ہیں اور ان کی مغفرت کیلئے اتنی دعائیں کرتی ہیں حالانکہ اس عمر میں ہر بندے کو اپنی اور صرف اپنی پڑی ہوتی ہے۔ وہ سوچتاہے باقی لوگ جائیں جہنم میں، صرف میں بچ جائوں یعنی یہ عمر نفسانفسی کی عمر ہوتی ہے، جس میں انسان کو اپنی ذات سب سے اہم سب سے محفوظ و مامون مقصود ہوتی ہے۔
بابا جان اپنے مخاطب عزیز کو چپ چاپ اور خیالوں کی دنیا میں کھوئے دیکھ کر بولے: پتر مجھ پر اللہ کریم کا بہت کرم ہے، میری اولاد کو علم ہے کہ میں روزانہ اپنے والدین یعنی ان کے دادا دادی کے لئے سو بار یہ دعا پڑھ کر کے رب کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں اور وہ اس بنا پر خوش بھی ہوتے ہیں، میری بہت زیادہ عزت و تکریم کرتے ہیں۔ پھر بابا بولا: میری خواہش ہے کہ وہ میرے مرنے کے بعد مجھے بھول نہ جائیں بلکہ یہی مسنون دعا میرے لئے بھی کرتے رہیں اور مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا، اس لئے کہ میں نے اپنے والدین کے ساتھ اس مسئلہ میں مکمل طور پر ’’وفا‘‘ کی ہے… انصاف کیا ہے… لہٰذا میرا رب مجھے اس سے محروم نہ کرے گا، ان شاء اللہ
واہ بابا جان واہ! ’’ آفرین ہے آپ کی ذات پر!… آپ ان پڑھ ہو کر بھی ملک و قوم اور ملت کے پڑھے ہوئوں کو درس حیات دے رہے ہیں‘‘۔ آپ ساٹھ ستر سالہ بوڑھے ہو کر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے جوان طلبہ و طالبات کو فلسفہ حقوق والدین پڑھا رہے ہیں۔ آپ جیسے فرزند ارجمند یقینا کسی کسی کو اور خاص طور پر اس کو نصیب ہوتے ہیں جس پر اللہ کریم کی خاص رحمت ہو۔ ایسے بیٹے اور بیٹی کی کون خواہش نہ کرے گا…
نماز مغرب کے بعد بابا جان کا آپریشن شروع ہوا،
ڈاکٹروں نے ان کے جسم میں کٹ لگایا تو پتہ چلا کہ کینسر کی جڑیں تو پورے جسم میں پھیل چکی ہیں وہ کہاں کہاں سے ختم کریں اور کٹ کو کہاں تک بڑھاتے جائیں کہ ہر طرف کینسر ہی کینسر پھیلا ہوا ہے۔ لہٰذا انہوں نے زخم ٹانکے لگاکر بند کر دیا اور بابا کو واپس وارڈ میںبھیج دیا۔ چند دن بعد بابا کی وفات ہو گئی اور بابا اپنے مولا کریم کے دربار میں پہنچ گیا۔ بابا اس دعا کو پڑھ کر، اللہ کی رضا اور رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہو کر، عملی محبت کاثبوت دینے کی بناء پر، آپﷺ کی شفاعت کا یقینا حقدار ٹھہرا ہو گا۔
اے جوانانِ رعنا! … اے طلباء و معزز طالبات بہنو! بیٹو اور بیٹیو! اے معزز مائوںاور بہنو! کیا آپ اپنے والدین، دادا جان، دادی جان یا نانی و نانا جان کو مرنے کے بعد خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو تحفے تحائف دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ آپ سے خوش ہو جائیں اور کامیابیوں و کامرانیوں، عزتوں و رفعتوں، دولتوں و چاہتوں کے دروازے آپ پر کھل جائیں تو دل ودماغ کی تختیوں پر اس حقیقت کو نقش کر لو کہ یہی وہ تحفہ ہے جو ان کو ان کی نامعلوم دنیا میں پہنچتا ہے اور انہیں خوش و خرم کرتاہے۔ ان کے درجات میں بلندی کا باعث بنتا ہے۔ ان کے لئے راحت و آرام اور تکلیف میں کمی کا باعث بنتا ہے تو بلاناغہ آپ یہ تحفہ ان کی خدمت میں بھیجیں … کہ جنہوں نے بچپن سے لے کر جوانی تک آپ کولاڈ لڈائے… آپ کے آنگن میں خوشیوں کے پھول اور کلیاں کھلانے اور مہکانے کے لئے اپنے آپ کو ایک نوکر خادم اور مزدور کی طرح آخر دم تک مصروف رکھا۔ مزدور کو مزدوری تو ملنی چاہئے۔ آج سے ہی اپنے معمولات میں ایک سنہری عمل کااضافہ کریں اور آج سے ہی ابتدا کر دیں، روزانہ ان کو یہ تحفہ بھیجیں۔ آپ کے بچے بھی آپ کو بھیجا کریں گے۔ پھر ہو گا کیا… اللہ ذوالجلال والا کرام کی رحمتیں آپ پرسایہ فگن ہوں گی… جنت میں آپ کے درجات بلند ہوں گے، حوریں آپ کا استقبال اور مہمانی کریں گی، ان شاء اللہ۔
بشکریہ۔۔ہفت روزہ جرار
لنک
 
Top