تحریک طالبان پاکستان کا جاری حالات وواقعات کی بابت کیا موقف ہے؟ وہ پاکستان سمیت خطے میں رونما ہونے والے حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ ان کی سوچ کیا ہے؟ جہادِ پاکستان کے اہداف ومقاصد کیا ہیں؟
ناپاک فوج اور میڈیا نمائندوں کی طرف سے ٹی ٹی پی پر مساجد اور بازاروں پر حملے کرنے کے لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟
تحریک طالبان پاکستان انڈیا کیخلاف ہونے والے جہاد اور کشمیری عوام، پولیو، صحافیوں، ڈرون حملوں، اہل تشیع، قیدیوں کو چھڑانے، پاکستانی سیاسی تنظیموں سمیت ہمسائے ملکوں کے معاملات کی بابت کیا موقف اور پالیسی رکھتی ہے؟
ان سب سوالات کے جوابات دینے کے لیے عمر میڈیا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان کے میڈیا کو دیئے گئے مختلف ویڈیو انٹرویو سے اقتباسات کو اکٹھا کرکے نشر کیا گیا ہے ۔
انصار اللہ اردو اس ویڈیو انٹرویو کا مکمل تحریری مسودہ پیش کرتا ہے تاکہ تحریک طالبان پاکستان کا اصل چہرہ اور صحیح امیج منظر عام پر آسکے، جسے میڈیا یلغار میں جھوٹے پروپیگنڈے کرکے دشمنان اسلام نے خراب کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
صحافی:
ناظرین ! السلام وعلیکم ! سن ۲۰۰۱ میں امریکہ نے افغانستان پر حملے کی ٹھانی تو پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کیا ۲۰۰۱ سے لے کر ۲۰۱۳ تک پاکستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ملک ایک میدانِ جنگ میں بدل چکا ہے۔ اب امن مذاکرات کی بات ہورہی ہے بڑے فریق اس میں "تحریک طالبان پاکستان" اور "حکومت پاکستان" ہیں۔ معاملہ کس طرف جارہا ہے؟ اس پر بات کرنے کے لئے ہم اس وقت موجود ہیں جنوبی وزیرستان کے ایک نامعلوم مقام پر اور ہمارے ساتھ ہیں تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان
السلام علیکم !
وعلیکم السلام
سوال: احسان اللہ احسان صاحب اس سے پہلے کہ ہم تحریک طالبان، مذاکرات اور دیگر امور پر بات کریں، احسان اللہ احسان پر نظر ڈال لیتے ہیں، بہت سے لوگ بلکہ بعض لوگ آپ کے وجود کو ہی نہیں مانتے، بعض لوگوں کا ماننا ہے شاید آپ اسلام آباد میں کسی غیر ملکی سفارتخانے میں رہتے ہیں، اپنا تعارف ذرا کرادیجئے۔
جواب: نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد!
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اللہ تعالٰی: ان الحکم الا للہ۔ صدق اللہ العظیم
حسن صاحب! میرا تعلق مہمند ایجنسی کے تحصیل صافی سے ہے۔۔ اور میں ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوا۔۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی اور پھر اعلی تعلیم کے لئے میں سوات تشریف لے گیا وہاں سے میں نے تعلیم حاصل کی۔۔ اور میرا کیرئیر کچھ یوں ہے کہ میں کالج کے دور میں کسی سیاسی پارٹی سے منسلک نہیں رہا۔۔ ہاں البتہ کچھ فلاحی اور سماجی تنظیمیں ہوتی ہیں اس میں خدمت کی ہے۔۔ پشتو ادب سے بھی میرا قریبی تعلق رہا ہے۔۔ اور جب ۲۰۰۷ میں تحریک طالبان پاکستان معرض وجود میں آیا تو میں نے مہمند ایجنسی کے مقامی امیر "امیر محترم عمر فاروق خراسانی" صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس کے ساتھ ہی میں تحریک میں شامل ہوگیا ۔۔ میں نے تحریک کے دوسرے شعبوں کے مسئول کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں ۔۔ اور مہمند ایجنسی کا ترجمان بھی رہا ہوں اور آج کل تحریک طالبان پاکستان مرکزی ترجمان کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا ہوں ۔۔ اور میری جو پسندیدہ اور آئیڈیل شخصیت ہے وہ میرا امیر ہی ہے یعنی جس کے ہاتھ پر میں نے بیعت کی ہے۔
سوال: تحریک طالبان پاکستان کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟
جواب: تحریک طالبان پاکستان ۔۔ کے بنیادی مقاصد اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ کرنا ہے یہ ہمارا بنیادی اور واضح مقصد ہے۔۔ اس کے لئے ہم جدو جہد کرتے ہیں ہماری کوششیں اس کے لئے ہیں۔۔ باقی اس نظام کے تحت جو دوسرے Issues آتے ہیں وہ اسی انظام سے ہی Related ہیں یعنی ہمارے جو دوسرے مطالبات ہیں۔۔ لیکن ہمارا پہلا، آخری اور واضح مقصد اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔
سوال: کیا یہ درست نہیں کے آپ ﷺ نے اسلام کے نفاذ کے لئے ذہن سازی اور اصلاح کا طریقہ اپنایا تھا؟
جواب: بالکل درست آپ ﷺ نے اصلاح اور ذہن سازی کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سیدھے راستے پر لگایا ہے۔۔ لیکن اگر آپ ادھر دیکھیں گے کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔۔ تو یہاں جنگ کی ابتداء ہم نے نہیں کی، جنگ کی ابتداء حکومتِ پاکستان کی طرف سے، اس کے Establishment کی طرف سے ہوا ہے اور امریکہ کی ایما پر ہوا ہے۔۔ تو ہم مظلوم ہیں۔۔ ہم دفاعی پوزیشن میں ہیں۔۔ ہم اپنا دفاع کررہے ہیں۔۔ اسلام میں جو بھی مظلوم ہوتا ہے اس کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہوتا ہے۔۔ ہم پر مظالم ڈھائے گئے۔۔ وانا میں، جنوبی وزیرستان میں، سوات میں، باجوڑ میں، مدارس کو شہید کردیا گیا، وہاں بچوں کو شہید کردیا گیا۔۔ تو ہم مظلوم ہیں۔۔ اور مظلوم کی یعنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی کہ وہ اگر اپنا دفاع کرے تو آپ اس کو کسی ظلم یا جبر سے تو تصور نہیں کرسکتے۔
سوال: اچھا صحافیوں کا آپ نے ذکر کیا بعض صحافیوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کو آپ کی طرف سے دھمکی بھی موصول ہوئی ہے اور آپ کیوں ناراض ہیں وجہ کیا ہے ان دھمکیوں کی ؟
جواب: ہم صحافیوں کو دھمکیاں نہیں دیتے۔۔ لیکن بعض لوگ ایسی ہوتے ہیں۔۔ میڈیا میں کچھ عناصر ایسی شامل ہیں کہ۔۔ اس کو میں صحافی نہیں کہہ سکتا۔۔ وہ صحافی کہلانے کے حق دار نہیں۔۔ کیوں کہ وہ کسی مخصوص گروہ، ریاست یا کسی مخصوص فرد کے لئے کام کرتا ہے۔۔ اور کسی مخصوص فرد کے لئے یا ریاست کے لئے کام کرنا، یہ میڈیا میں جو صحافت کے اصول ہیں اس کے بالکل منافی ہے۔۔ یعنی آپ ایک فریق کا دفاع کریں گے اور دوسرے فریق کو ظالم ثابت کریں گے۔۔ تو یہ کسی خاص فرد کے لئے کام کرنا ہے۔۔ یعنی وہ مغرب زدہ ہیں۔۔ اور اس پر سیکولرزم کا اثر ہے۔۔ صحیح ۔۔ تو ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ حق کا ساتھ دے اور باطل کا ساتھ نہ دے۔۔ تو اگر کوئی باطل کا ساتھ دیتا ہے۔۔ تو وہ بھی باطل ہوجاتا ہے۔۔ تو واضح ہے۔۔ ہم تو حق کے ساتھی ہیں۔۔ تو باطل کے ساتھ ہماری کوئی محبت نہیں ہے۔۔ ہمارا کوئی معاملہ نہیں چل سکتا۔
سوال: انتخابات بھی سر پر ہیں، ان کی بہت بات ہورہی ہے آپ کا انتخابات پر کیا نقطہ نظر ہے ؟
جواب: میں زیادہ تو نہیں کہوں گا۔۔ البتہ انتخابات جمہوریت کا حصہ ہے اور جمہوریت "سیکورلزم" کا حصہ ہے اور ہم سیکولرزم کے مخالف ہیں۔۔ ہم اس ملک میں اسلامی نظریے کی پرچار، اسلامی ایجنڈا نافذ اور اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔۔ تو میں زیادہ سے زیادہ کہوں گا کہ اس ملک میں ہم اسلامی نظام چاہتے ہیں اور "سیکولرزم" کے ہم مخالف ہیں۔۔ جمہوریت اس کی بنیادی اکائی ہے۔۔ تو ہم اس کے حق میں نہیں۔
سوال: افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی انخلا کی بھی اب بات ہورہی ہے ۲۰۱۴ کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا کیا منصوبے ہونگے کیا اس کے Objectives ہوں گے؟
جواب: ۲۰۱۴ میں ہم حالات اور واقعات کو دیکھیں گے۔۔ تو حالات و واقعات کے مطابق ہم اپنی حکمت عملی مرتب کریں گے۔۔ ہاں یہ بات میں واضح کردوں کہ افغانستان طالبان جن کو امیر مانتے ہیں "امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظ اللہ" وہ ہمارے بھی امیر ہیں۔۔ ہمارے امیر صاحب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔۔ ہم اپنے امیر صاحب کے مامورین ہیں۔۔ ہم نے انکے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔۔ تو ہم ان کے مامور ہیں۔۔ ۲۰۱۴ کے بعد حالات و واقعات دیکھ کر ہی کوئی پولیسی بنائے گے۔
بہت شکریہ آپ کا احسان اللہ احسان صاحب! تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان !!
بہت شکریہ آپ کا بھی۔۔ آپ تشریف لائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار پھر ہم پاکستان کے قبائلی علاقے کے ایک نامعلوم مقام پر تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان صاحب کے ساتھ انٹرویو لینے جارہے ہیں۔
سوال: احسان اللہ احسان صاحب سے سب سے پہلے سوال یہ کریں گے کہ چھ سال گزرے تحریک طالبان کی جو ابتداء ہوئی تھی بیت اللہ محسود امیر نے کی تھی اس کے بعد اب تحریک کا کیا پوزیشن ہے، کیا پایا ابھی تک چھ سال کے اندر؟؟؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم
پہلے تو آپ کے آنے کا شکریہ! آپ نے کہا کہ تحریک نے ان چھ سالوں میں کیا پایا۔۔ تو عموماً جتنی بھی تحریکیں ہوتی ہیں، ابتدائی مراحل میں تحریک کی حیثیت منوانا ہی بڑی بات ہوتی ہے۔۔ تو ابتدائی طور پر۔۔ ہم نے اپنی حیثیت پوری دنیا پر منوائی ہے ۔۔ کہ ہم ایک حیثیت ہے۔۔ ہم ایک قوت ہیں۔۔ اور دوسرے یہ کہ ہمارے جو مطالبات تھے۔۔ وہ دنیا کے سامنے لائیں ہیں کہ ہمارے مطالبات یہ ہیں۔۔ یعنی ہم اس ملک میں ایک نظام کے لئے کوشش اور جدوجہد کررہے ہیں۔۔ تو ابتدائی طور پر ہم نے اپنے آپ کو اپنی حیثیت کو منوایا ہے۔۔ ہم نے تنظیمِ نو کی ہے۔۔ ہم نے اپنے مطالبات لوگوں کے سامنے رکھیں ہیں۔۔ یعنی ہمارا جو تجربہ تھا وہ ابتدائی طور پر ہمارے کام آگیا۔ ۔ باقی عسکری لحاظ سے بھی الحمد اللہ ہم نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔۔ ہم ایک ملک کے۔۔ یعنی دنیا کے چھٹے ساتویں نمبر پر بڑی قوت کے جی ایچ کیو میں پہنچ سکتے ہیں۔۔ ہم اس کے پشاور بیس میں پہنچ سکتے ہیں، الحمرا بیس میں پہنچ سکتے ہیں۔۔ مہران بیس میں پہنچ سکتے ہیں۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکری لحاظ سے بھی ہم نے اپنے آپ کو منوایا ہے۔۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے۔۔ تو ہم نے الحمد اللہ عسکری لحاظ سے بھی۔۔ اور سیاسی لحاظ سے بھی۔۔ دونوں لحاظوں سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔۔ حتی کہ ہم اس ملک کے سابق وزیراعظم تک پہنچ سکے۔۔ ہم انٹیریر منسٹر تک پہنچے۔۔ یعنی بہت سے لوگوں تک ہم پہنچے۔۔ ہماری کاروائیاں وہاں تک پہنچیں۔۔ میرے خیال میں یہ ہمارے لئے بڑی کامیابیاں ہیں۔۔ اور اس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔
سوال: جی بالکل اسی سوال کے ساتھ جڑا ہوا سوال اگر ہم کرنا چاہیں، آپ نے کہا تحریک طالبان ہر جگہ پہنچ سکتی ہے حملہ کرکے واپس لوٹ سکتی ہے۔۔ تو اسی طرح مساجد میں بھی حملے ہوتے رہتے ہیں۔۔ کیا تحریک طالبان مساجد میں بھی گھس کر حملے کرتے ہیں اور اس میں بھی وہ اپنی کامیابیاں سمجھتے ہیں۔۔ فخر کرتے ہیں؟؟
جواب: نہیں، ایسا بالکل نہیں ہے۔۔ تحریک طالبان پاکستان ایک اسلامی عسکری تنظیم ہے۔۔ اور ہم کبھی بھی غیر اسلامی، غیر شرعی کام نہیں کرتے۔۔ تو مساجد میں جو حملے ہوتے ہیں۔۔ پہلے تو ہم اسکی تردید کرتے ہیں۔۔ اسکی مذمت کرتے ہیں اور ہم اپنا تردیدی بیان جاری کردیتے ہیں۔۔ لیکن بعض اوقات میڈیا ہمارے ساتھ ایسا رویہ رکھتے ہیں کہ ہماری بات عوام تک نہیں پہنچاتے۔۔ تو جتنے بھی حملے ہوتے ہیں۔۔ بازاروں میں حملے ہوئے۔۔ مساجد میں حملے ہوئے۔۔ ہم نے اس سے براءت کا اعلان کیا۔۔ ہم نے اسکی تردید کی۔۔ اور ہم نے واضح کردیا کہ اس میں ہم ملوث نہیں ہیں۔۔ لیکن میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ ہماری آواز کو لوگوں تک پہنچائے۔۔ تو ہم آج بھی مساجد میں اور بازاروں میں حملے کے مخالف ہیں۔۔ اور کل بھی مخالف تھے اور رہیں گے۔۔ ہم ہر غیر شرعی کام کے مخالف ہیں اور اسکی مخالفت کرتے ہیں۔۔ اور ہم کوئی کام غیرقانونی نہیں کرتے۔۔ اسلام ایک مکمل، ایک جامع نظام حیات ہے۔۔ تو اسلام کے اندر جتنی بھی باتیں ہیں، ہم اس پر عمل پیرا ہیں، اور ہر کام اسلامی حدود کے اندر اور اس کے مطابق کرتے ہیں۔
سوال: بار بار کہا جارہا ہے پاکستان کی سطح پر مسلح کاروائیاں کم ہوتی جارہی ہیں ۔۔۔ تحریک طالبان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، کیا کہیں گے؟
جواب: کاروائیاں تو کم نہیں ہوئیں۔۔ البتہ جنگ کا طریقہ کار بدلتا رہتا ہے۔۔ اور کسی عسکری بندے کے لئے ایک طریقے سے لڑنا ۔۔ یہ میرے خیال میں اگر دشمن یا میڈیا یہ کہے۔۔ کہ ہم ایک طریقے سے لڑیں۔۔ پہلے کی طرح کارروائیاں نہ کریں۔۔ اس وجہ اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کمر ٹوٹ گئی تو بالکل نہیں ہے۔۔ ہماری کارروائیاں الحمد اللہ ہر جگہ جاری ہیں۔۔ اور ہم کرتے ہیں کامیابی کے ساتھ ۔۔ ہم ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں ۔۔ اور آنے والے دنوں میں ان شاءاللہ اس کا عملی مظاہرہ آپ دیکھیں گے۔
سوال: دوسری تنظیمیں جیسے القائدہ کے ساتھ ساتھ تحریک طالبان بھی ڈرون سے کس حد تک خوف زدہ ہے؟ کہاں کہاں تک چھپتے ہیں ان سے اور اس سے بچاؤ کا کوئی طریقے کار اپنایا ہے تحریک طالبان نے ؟؟
جواب: اصل میں یہ کہ ڈرون حملے جو ہمارے اوپر کر رہے ہیں، وہ ہمارے نظریاتی دشمن ہیں۔ دشمن کے کسی عمل سے ایک نڈر مسلمان، بے باک مسلمان کے لئے اس سے ڈرنا۔۔ میرے خیال میں مناسب نہیں ہوگا۔۔ میں ایسا کوئی لفظ استعمال کرنا نہیں چاہوں گا۔۔ ہم اس سے نہیں ڈرتے۔۔ اور الحمد اللہ ہمارے ساتھی کہتے ہیں۔۔ ساتھیوں کے درمیان یہ جذبہ ہوتا ہے کہ جب انسان ڈرون سے شہید ہوجاتا ہے۔۔ تو آسانی سے شہید ہوجاتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ کے پاس جلدی جاتا ہے۔۔ تو ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ نظریاتی دشمن کے ہاتھوں ہمیں شہادت ملتی ہے۔۔ یہ تو اس کا نظریاتی پہلو ہے۔۔ دوسرا آپ نے اس سے بچاؤ کا طریقے کار کے بارے میں سوال کیا۔۔ تو جو عسکری تنظیم ہوتی ہے۔۔ جو ہماری حفاظت کے طریقے ہوتے ہیں۔۔ وہ میں آپ کو میڈیا پر آکر نہیں بتا سکتا۔۔ یہ ہماری سیکیورٹی کے اصول کے منافی ہے۔
سوال: بہر حال مقصد یوں لیا جائے کہ بچاؤ کے طریقے آپ لوگوں کے پاس موجود ہیں اور آپ لوگ کافی حد تک اس سے بچنے میں کامیاب ہیں ؟؟
جواب: بالکل، یعنی جنگوں میں ایسا ہوتا ہے۔۔ کہ آپ کے خلاف۔۔ آپ کا مخالف فریق کوئی منصوبہ بنائے، تو دوسرے فریق کو بھی سوچنا پڑتا ہے۔۔ تو ہم بھی الحمد اللہ عسکری لوگ ہیں۔۔ اور ہم سمجھ دار ہیں۔۔ سمجھتے ہیں کہ جنگ کس طرح لڑی جاتی ہے۔
سوال: غیر ملکی افراد کتنی تعداد میں تحریک طالبان کے پاس موجود ہیں ؟ کیا ان کے نام بتانا پسند کریں گے؟
جواب: اصل میں ایک عسکری تنظیم ہونے کے ناتے، نہ میں آپ کو تعداد بتا سکتا ہوں، نہ میں آپ کو نام بتا سکتا ہوں، لیکن آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ ہمارے پاس نظریہ کی بنیاد پر عقیدے کی بنیاد پر پوری دنیا سے لوگ موجود ہیں۔۔ اور ہم ایک دوسرے کے لئے احترام رکھتے ہیں۔۔ اور یقیناً لوگ ہیں اور ہمارے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
سوال: تحریک طالبان صحافیوں کو کیوں تنگ کرتے ہیں؟
جواب: ہم صحافیوں کو تنگ نہیں کرتے۔۔ بلکہ صحافی ہمیں تنگ کرتے ہیں۔۔ تو صحافی حضرات جتنے بھی ہیں۔۔ پاکستان میں جو سیکولر لابی ہے۔۔ اس کی طرف زیادہ مائل ہیں۔۔ اور جو اسلامی صحافی ہیں۔۔ یعنی نظریہ کی بنیاد پر صحافت کرتے ہیں۔۔ ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔۔ ان کی قدر کرتے ہیں۔۔ لیکن میں یہ بتادوں۔۔ کہ ہم صحافت کے خلاف نہیں۔۔ ہم ان افراد کے خلاف ہیں کہ، میڈیا میں چند افراد ہیں، جو ایک خاص نظریے، ایک خاص گروہ، ایک خاص فریق اس کے لئے کام کرتے ہیں۔۔ میرے خیال میں کسی خاص بندے کے لئے کام کرنا، کسی خاص گروہ کے لئے کام کرنا، خاص فریق کے لئے کام کرنا، ایک فریق کی بات سننا اور دوسرے کی بات نہیں سننا۔۔ یہ صحافت کے اصولوں کے منافی ہے۔۔ ہم آزاد صحافت کے قائل ہیں۔۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ صحافت ایسی ہو۔۔ جس میں ہر کسی کو۔۔ ظالم کو، مظلوم کو، ہر کسی کو اپنا حق ملے۔۔ تو میڈیا آجکل پروپیگنڈے کا حصہ بنی ہوئی ہے۔۔ جو جنگ کا حصہ بنی ہوئی ہے۔۔ تو میڈیا ہمیں تنگ کررہی ہے۔۔ ہم نے میڈیا کو کبھی تنگ نہیں کیا۔
سوال: ایم کیو ایم اور اے این پی کے حوالے سے تحریک طالبان کا مؤقف اب کس پوزیشن میں ہے ؟
جواب: بالکل وہی مؤقف ہے جو پرانا تھا۔۔ اور ہم اسی مؤقف پر قائم ہیں۔۔ ایم کیو ایم ایک سیکولر، بے دین، ظالم جابر، کراچی پر قبضہ کیے ہوئے، علماء کے قاتل، بے گناہ عام مسلمان کے قاتل ہیں۔۔ تو ہم کسی قاتل کا ساتھ کبھی بھی نہیں دے سکتے۔۔ ان کے لئے ہم احترام نہیں رکھتے۔۔ اور میں یہ بھی بتادوں کہ ہم ہمیشہ عام مسلمانوں کے حق میں ہیں۔۔ صحیح۔۔ یہ جو علماء کو مارتا ہے۔۔ جو عام مسلمانوں کو مارتا ہے۔۔ ہم اس کے شدید مخالف ہیں۔۔ اور ہم ان شاء اللہ۔۔ ہر مسلمان کے خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لیں گے۔۔ ہم اس کے لئے تیاری کر رہے ہیں اور تیاری کی ہوئی ہے اور اس کی ابتداء ہم نے کی بھی ہے۔
سوال: ٹھیک، اے این پی کے حوالے سے آپ نے اپنا موقف نہیں دیا ؟
جواب: عوامی نیشنل پارٹی تو ۔۔ پہلے سے۔۔ آپ کو پتہ ہے۔۔ ہم نے اس کے سینئر رہنماؤں کو بھی مارا ۔۔ تو جس طرح ایم کیو ایم کے لئے ہے۔۔ اس طرح عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے لئے بھی ہے۔
سوال: ٹھیک، تحریک طالبان پاکستان، افغانستان میں جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، کیا آپ افغانستان میں بھی لڑتے ہیں یا صرف پاکستان کے اندر جہاد جاری ہے ؟
جواب: تحریک طالبان پاکستان، امارتِ اسلامیہ افغانستان کا ایک جز ہے۔۔ ایک حصہ ہے اور امیر المومنین کے امر اور بیعت تلے جہاد کر رہے ہیں۔۔ یعنی ہم افغانی طالبان سے الگ نہیں ہیں۔۔ اس کو ہم اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔۔ باقی وہاں جہاد کرنا، وہاں لڑنے کی بات کرنا۔۔ تو نظم کے حوالے سے۔۔ تنظیم کے حوالے سے۔۔ ہماری جدوجہد پاکستان میں ہے، اس لئے ہم پاکستان پر زیادہ فوکس کرتے ہیں، ہاں جب افغانستان میں ہماری ضرورت پڑی ہے تو وہاں کے مجاہدین نے ہم کو آفر کی ہے۔۔ تو ہم وہاں گئے ہیں۔۔ اور ہم نے کاروائیاں کی ہیں۔۔ اور ہم نے وہاں جنگوں میں حصہ لیا ہے ۔۔ اور لیتے رہیں گے ان شاء اللہ۔
سوال: پاکستان بھر میں اہلِ تشیع کے خلاف حملے ہوتے رہتے ہیں، کہا جاتا ہے لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان اس میں ملوث ہیں؟ کیا کہیں گے تحریک طالبان کہاں پر اس میں ملوث ہے؟
جواب: جو بھی کاروائیاں ہم کرتے ہیں۔۔ اس کی ذمہ داری ہم قبول کرلیتے ہیں۔۔ جو بھی کاروائیاں لشکرِ جھنگوی کرتے ہیں لشکر جہنگوی اس کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں۔۔ تو ہمارا آپس میں تعلق کے بارے میں جو سوال ہے۔۔ تو ہم ہر مسلمان مجاہد کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔۔ اسلام کے لئے۔۔ اسلامی نظام کے لئے جو لڑتا ہے ۔۔ ہم اس کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔۔ ہمارے دل میں ان کے لئے ہمدردی ہے اور لشکر جہنگوی کی جو جدوجہد ہے ۔۔ میرے خیال میں وہ اسلامی جدوجہد ہے۔۔ اور ہم اس کو سراہتے ہیں۔
سوال: چند ہفتوں پہلے کشمیر کے اندر حملہ ہوا ہے ایر فورسس کی کیمپ پر ۔۔ کیا تحریک طالبان کا اس سے ملحقہ تنظیم کا اس میں ملوث ہونے کا کوئی چانس ہے ؟
جواب: تحریک طالبان پاکستان نے افضل گروہ اور اجمل قصاب کی شہادت کے بعد اعلان کیا تھا کے ہم انتقام لیں گے۔۔ لیکن انتظامی طور پر یہ کاروائیاں ہماری نہیں ہیں۔۔ ہم نے نہیں کیا۔۔ دوسری تنظیم کا میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان ہوں۔۔ اور جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے۔۔ تو اس امر کو سراہتا ہوں۔۔ جس نے بھی کیا نیک امر ہے اچھا کام ہے میں اس کو شاباش دیتا ہوں۔۔ اور اس کو اس امر پر سلام کرتا ہوں۔۔ کیوں کہ انڈیا ایک غاصب حکومت ہے۔۔ ہمیشہ کشمیریوں کی حقوق کی حق تلفی کی ہے۔۔ ہمیشہ کشمیریوں پر مظالم ڈھائے ہیں۔۔ ہم کشمیری عوام کے ساتھ ہیں۔۔ اور ہماری دل کی جو طلب ہے، ہماری جو محبت ہے، وہ کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔۔ اور ہم ان شاء اللہ عنقریب کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی کے لئے اپنا ایک مہم لانچ کرنے والے ہیں۔۔ ہم کوشش کریں گے وہ کشمیر کے جہاد سے Related ہو۔۔ ہم کوشش کرتے رہیں گے اور کشمیری عوام کی آزادی تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور میرے خیال میں یہ خطہ۔۔ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان بھی حاصل کیا گیا تھا اور کشمیر بھی۔۔ تو میں چاہتا ہوں۔۔ ہماری تنظیم بھی چاہتی ہے کہ ہم اس خطے کو حاصل کریں اور اس پر اسلامی نظام کا نافذ کریں۔
سوال: ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ آئی ہے، پاکستان کے اندر ڈرون حملوں کو پاکستان کی خودمختاری اور عام شہری کی ہلاکت پر تنقید کی گئی ہے اس بارے میں تحریک طالبان کا کیا موقف ہے ؟
جواب: اقوام متحدہ ۔۔ میرے خیال میں۔۔ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل اور دوسرے غاصب اور سیکولر، بے دین اور ہمارے نظریاتی دشمن ممالک کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ مسلمانوں کا خون جب بھی بہانا چاہیں بہا سکتے ہیں۔۔ اقوام متحدہ کو میں ایک دشمن کی نظر سے دیکھتا ہوں۔۔ کیوں کہ انہوں نے ہمیشہ۔۔ افغانستان میں۔۔ دوسرے ممالک میں۔۔ اسلامی ممالک میں۔۔ عراق میں مسلمان کا خون بہایا ہے۔۔ تو ان کا صرف تشویش کا اظہار کرنا۔۔ اور یہ کہنا کہ ابھی پتہ تو چل گیا ہے کہ بے گناہ لوگ مارے گئے ۔۔ تو عملی اقدامات انہوں نے کتنے کیے ہیں۔۔ پتہ تو سب کو ہے کہ بے گناہ لوگ اس ڈرون حملوں میں مارے جارہے ہیں۔۔ تو ان کے عملی اقدامات سے پتہ چلے گا کہ وہ کتنا غیر جانبدار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔۔ لیکن میرے خیال میں ایسا ہوگا نہیں۔۔ ہم اس خوش فہمی میں کبھی بھی مبتلا نہیں ہونا چاہتے۔۔ کہ اقوام متحدہ کچھ کرے گی۔
سوال: اس کے ساتھ ایک ملحقہ سوال ہے کہ جب بھی ڈرون حملہ ہوتا ہے اس میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں تو کیا وہی بے گناہ لوگ طالبان بن کر یا اشتعال میں آکر حکومت کے خلاف یا امریکہ کے خلاف لڑنے کے لئے پھر یک بستہ ہوتے ہیں ؟
جواب: اشتعال میں نہیں آتے۔۔ البتہ نظریاتی پہلو۔۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ڈرون حملے ہم پر کیوں ہورہے ہیں، تو جب لوگ اس بات پر سوچ لیتے ہیں تو اس کا نظریاتی پہلو سامنے آجاتا ہے۔۔ کہ ایک خاص نظریہ کی بنیاد پر ہمیں مارا جارہا ہے۔۔ تو جب نظریاتی پہلو سامنے آجاتا ہے تو لوگ بہت شدید ردعمل کا اظہار بھی کرلیتے ہیں۔۔ اور ہماری جو نئی نسل ہمارے ساتھ ملتی ہے تو ہمارے لئے اس میں بھی بڑی آسانی ہوتی ہے۔۔ اور لوگ آتے ہیں۔۔ حتی کے لوگ فدائی بھی کرتے ہیں۔۔ اور جاتے ہیں۔۔ حملے کرتے ہیں۔۔ یعنی نظریاتی طور پر، سیاسی طور پر ڈرون حملوں کا ہمیں کوئی نقصان نہیں ہے۔
سوال: ٹھیک ڈرون حملوں کے نتیجے میں جو عام لوگ مارے جاتے ہیں، کیا ان کے رشتے دار بھائی اسی طرح ان کے بیٹے کیا تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کرتے ہیں یا خود جاکر فدائی خود کش حملے کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں؟
جواب: بالکل، جب بھی کوئی ڈرون حملہ ہوتا ہے تو اکثر ۔۔ میں اکثر کا لفظ استعمال کروں گا۔۔ اکثر لوگ اس کے ری ایکشن میں آجاتے ہیں۔۔ طالبان کے ساتھ۔۔ اور جہادی تنظیموں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔۔ مختلف مقامات پر کارروائیاں کرتے ہیں۔۔ یعنی ہمارے لئے لوگوں کو Capture کرنا، لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا۔۔ ڈرون حملے اس میں ہمارے لئے آسانی پیدا کردیتے ہیں۔۔ اور ہمیں کم محنت کرنی پڑتی ہے۔۔ یعنی ڈرون حملے کسی علاقے میں ہوتا ہےتو ہم آسانی کے ساتھ لوگوں کو اٹھا سکتے ہیں۔۔ آسانی سے۔۔ نظریاتی پہلو اور اس میں جو ان کا اپنا رد عمل ہوتا ہے۔۔ اس کے ساتھ وہ ہمارے ساتھ مل جاتے ہیں۔
سوال: یعنی آپ کا مقصد یہ ہے ڈرون حملے جب بھی کیئے جاتے ہیں تو طالبان کی تعداد میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور آپ کے لئے کوئی مشکل بھی پیش نہیں، کیوں کے پھر وہی لوگ انتقامی کاروائی کے طور پرفدائی یا خود کش حملے کے لئے تیار ۔۔۔؟
جواب: بالکل یعنی اس کا مطلب یہ ہے وہ ہمیں ڈرون سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔۔ تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔۔ کیوں کے ڈرون حملوں کے ری ایکشن میں اگر وہ ہمارے تین افراد کو کو ماردیتے ہیں۔۔ ہمارے تین ساتھیوں کو ماردیتے ہیں شہید کردیتے ہیں۔۔ اس کے بدلے میں ہمارے ساتھ تیس اور آجاتے ہیں۔۔ تو ہماری تعداد میں اضافہ ہوتا ہے نہ کہ ہماری تعداد میں کمی ہوتی ہے۔
سوال: اچھا جی ڈرون حملوں کی وجہ سے تعداد میں اضافہ ہوتا ہے کمی نہیں ہوتی ؟
جواب: بالکل۔
سوال: ہم تو یہ سمجھتے ہیں تحریک طالبان حکومت حمایت یافتہ نہیں لیکن جو حکومت حمایت یافتہ ہے انہوں نے پولیو پر پابندی لگائی ہے اب تک تحریک طالبان اس حوالے سے پیچھے ہیں، کیا وہ بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں کیا اس کو صحیح مانتے ہیں، کیا چکر ہے ؟
جواب: میں تو اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ یہ صحیح ہے شرعی ہے، غیر شرعی ہے یہ الگ موضوع ہے۔۔ لیکن تحریک طالبان پاکستان نے ابھی تک پولیو پر پابندی نہیں لگائی ہے۔۔ اور عنقریب ہم اپنا ان شاء اللہ تعلیمی پالیسی اور صحت کے حوالے سے پالیسی ہے وہ دے دیں گے۔۔ بہت جلد ہی۔۔ لیکن یہ ہماری پالیسی میں شامل نہیں ہے کسی صحت کے یا تعلیم کے کسی بھی Process پر پابندی لگائیں۔
سوال: مطلب یہ کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے کچھ میٹھی باتیں ہوں گی کہ قوم مطمئن ہوجائے؟
جواب: جب باتیں آئیں گی تو آپ محسوس کریں گے کہ میٹھی ہیں یا کڑوی۔
سوال: مستقبل میں تحریک طالبان سیاسی Setup کا حصہ بنے گی؟
جواب: تحریک طالبان صحت مند اسلامی سیاست کی قائل ہے ۔۔ ہم اسلامی سیاست کرتے ہیں۔۔ آج بھی کررہے ہیں۔۔ اور کل بھی اس کے قائل ہیں۔۔ لیکن اب اگر سیاست سے یہ مطلب آپ کا اس جمہوری نظام کے تحت آگے اس نظام کا حصہ بننا ہے۔۔ تو یہ قطعی طور پر نہیں ہوگا۔۔ ہم اسلامی لوگ ہیں۔۔ ہم مسلمان ہیں ۔۔ ہم عسکری تنظیم ہیں ۔۔ ہم ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں ۔۔ اور اسلام کے مطابق جو سیاست ہے ۔۔ ہم اس کے قائل ہیں ۔۔ لیکن اگر آپ کی مراد اس جمہوری، سیکولر، بے دین سیاست سے ہے ۔۔ تو ہم اس کا کبھی بھی حصہ نہیں بن سکتے۔
سوال: قاری حسین جو فدائی اور خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔۔ تحریک طالبان کا اہم کمانڈر تھا۔۔ انہوں نے ایک مرتبہ فیصل شہزاد کے حوالے سے ویڈیو پیغام بھی دیا۔۔ اور ذمہ داری بھی لی کہ ہمارا بندہ ہے، اس کا تحریک طالبان سے تعلق ہے، بعد میں باقاعدہ ویڈیو بھی منظر عام پر آئیں۔۔ اس کی رہائی کے حوالے سے تحریک طالبان نے کبھی کوئی کاروائی کا سوچ لیا یا کبھی اس کی پلاننگ میں ہے ؟
جواب: ہم اپنے قیدی ساتھیوں کو کبھی بھولتے نہیں ہیں۔۔ ہم نے ہر ساتھی کے چھڑانے کے لئے بندوبست کیا ہوا ہے۔۔ اس کے لئے Struggle، کوشش محنت کرتے ہیں۔۔ اس کے مثال بنوں جیل پر حملوں سے واضح ہوتی ہے۔۔ تو جتنے بھی ہمارے ساتھی ہیں، خواہ فیصل شہزاد ہوں یا دوسرے ساتھی ہوں۔۔ وہ ہمارے دلوں میں ہیں ۔۔ وہ ہمیں یاد ہیں ۔۔ اور ان شاء اللہ وقت آنے پر جب بھی ہمیں موقع ملے گا ۔۔ ہم ان کی رہائی کے لئے جدوجہد کریں گے اور ہم اپنی جانوں کے نزرانے دے کر بھی ان شاء اللہ ان کو رہائی دلائیں گے۔
سوال: احسان اللہ احسان کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے، اس کو ختم کرنے جارہے ہیں، اس کی جگہ دوسرے بندے کی تعیناتی ہورہی ہے ؟
جواب: انتظامی امور ہماری شوریٰ طے کرتی ہے، ہماری جو تحریک شوریٰ ہے۔۔ وہ طے کرتی ہے، فیصلے کرتی ہے، اور پہلے باقاعدہ امیر صاحب کے پاس جاتی ہے، امیر صاحب اس فیصلے پر دستخط کردیتے ہیں تو پھر یہ منظور ہوجاتی ہے، تو ہماری شوریٰ جو فیصلہ کرے گی۔۔ خواہ وہ کسی کو بھی ترجمان مقرر کردے۔۔ کسی کو بھی امیر مقرر کردے ۔۔ کسی کو بھی عسکری کماندان مقرر کردے ۔۔ ہم کرسیوں کے پیچھے، عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگتے ۔۔ جو بھی ہوگا ان شاء اللہ، جو بھی مناسب بندہ ہوگا، آئے گا کرسی پر بیٹھے گا، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔ لیکن ابھی تک میرے خیال میں اس بارے میں کوئی فیصلہ یا کچھ سوچا نہیں ہے ۔۔ جب بھی فیصلہ ہوگا، تو ان شاء اللہ ہم خود آپ کو آگاہ کردیں گے۔
بڑی مہربانی تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان صاحب۔
آپ کا بھی شکریہ ۔۔