• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اے کشتگانِ خاکِ شام !

شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

اے کشتگانِ خاکِ شام !!

ارضِ شام آتش و آہن کے شراروں میں جل رہا ہے ، انبیاء کی مقدس سر زمین آہوں اور سسکیوں سے گونج رہی ہے --- مگر --- کب سے ؟ گزشتہ پانچ برسوں سے بشار الاسد کی بہیمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں کتنے خاندان اجڑ گئے اور کتنے بے گھر ہو گئے اور کتنے ہی ہیں جنہیں مرنے کے بعد دو گز زمین بھی نصیب نہ ہوئی۔ کیا ہمارے ان سر گشتگانِ خواب غفلت کو جگانے کے لیے سر ساحل ایک معصوم بچے کی لاش دکھانی پڑے گی ؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ گزشتہ پانچ برسوں میں کتنے ہی بچے تھے جو زندہ در گورِ زمیں کر دیئے گئے ، کتنوں ہی کو خود انہی کے خون میں نہلا دیا گیا اور کتنے ہی اس ملک سے امن و امان کی خاطر ہجرت کرتے ہوئے سمندر کی ظالم لہروں کی نذر ہو گئے ۔

لیکن یہ کیا ہے ، اے امت مسلمہ کے غم گساروں !

ساحلِ سمندر پر ملی اس ایک لاش نے تمہیں فرصت ماتم عطا کر دی۔ لیکن یہ ماتم بھی کب تک ؟ چند دن یا ایک ڈیڑھ ہفتے ، اور بس ! !

گزشتہ چند برسوں سے ایسا کئی بار اور تسلسل سے ہوا ہے ، معصومانِ غزہ کے لاشے نظر آئی تو اس پر دو اشک بہا لیے ، مظلومانِ میانمار کی کھلے آسماں تلے سمندر کی لہروں کے درمیان ڈگمگاتی کشتیاں نظر آئیں تو اس پر بھی چند قطرہ ندامت بہا کر اپنے دل کو تسلی دے ڈالی اور اب یہ نوحہ شام !!

ہمارے المیے حقیقی ہیں اور ہمارے یہ آنسو محض ہماری منافقت کی یادگار۔ ہم اپنے ان آنسوؤں سے اپنے دل کا بوجھ تو بڑھا سکتے ہیں مگر امت مسلمہ آگ کے جن شعلوں کی نذر ہو چکی ہے اسے بجھا نہیں سکتے۔

کسی بے بس کی بے بسی اور کسی بے کس کی بے کسی پر ہمارا اپنے گناہگار آنسوؤں کے چند قطروں کو اپنا نفاق چھپانے کے لیے بہا دینا ان لاچاروں کی عجز و ناتوانی کا مذاق اڑانا نہیں تو اور کیا ہے ؟

معصومانِ غزہ ، مظلومانِ میانمار ، لاچارگانِ ارض کشمیر اور کشتگانِ خاکِ شام کو تمہارے ان آنسوؤں کی ضرورت نہیں۔ اے روتی ہوئی دلوں اپنے آنسوؤں کو ضبط کرو اور کرسکو تو وہ طوفانِ درد و فغاں اٹھاؤ کہ پھر کبھی کسی معصوم کو سمندر کی لہروں میں غرق نہ ہونا پڑے۔ کسی بے کس خاندان کو ڈگمگاتی کشتی پر سمندر کی لہروں میں زندگی نہ گزارنی پڑے۔ کسی مظلوم کے جنازے پر اسرائیلی حملے سے لوگ لقمہ اجل نہ بنیں اور اپنے حق کی آواز اٹھانے پر کسی ریاست کو دہشت گردی کرنے کی ہمت نہ ہو۔لیکن اگر ہم ایسا نہ کر سکے اور جلد نہ کر سکے تو وہ دن بھی دور نہیں جب یہی مظلومانِ امت محمدیہ روزِ حشر اللہ کے دربار میں کہیں گے کہ ذرا دیکھو تو سہی میرے ان کلمہ گو بھائیوں نے میری بے بسی کا کیسا مذاق اڑایا!!

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

اہل ایمان کے لیے یہ دنیا دار المحن ہے اور اس دار المحن کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں۔ یہاں کسب و سعی کے بغیر فتح و نصرت کی آس نہیں لگائی جا سکتی۔ ایک ایسے وقت میں جب دشمن ہم پر حملہ آور ہو تو محض ختم خواجگان یا مجالس ذکر منعقد کر کے اپنا دفاع نہیں کیا جا سکتا بلکہ ایسے وقت میں شمشیر و سناں اوّل ہی کا اصول کار فرما ہوتا ہے۔ پہلے میدان کار زار میں سینہ سپر ہونا پڑتا ہے پھر فتح و نصرت کی دعائیں مانگیں جاتی ہیں نہ کہ کلمہ گو بہنوں کی عصمتیں لٹتی رہیں ، معصوم بچے درندگی و بہیمیت کی نذر ہوتے رہیں اور نوجوانانِ اسلام کا خون ارزاں ہوکر خاکِ ارضی پر خشک ہوتا رہے اور ہم گھروں میں بیٹھ کر ان مظلوموں کے لیے اشک باری کا فریضہ انجام دینے کے بعد ان ظالموں کے حق میں بد دعائیں کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

امید ہے کہ اب پاکستان اور سعودی عرب کو یہ اندازہ تو ہو گیا ہوگا کہ برسہا برس وہ جن کی دوستی کے سہارے اپنی سیاسی بساط کا سفر طے کر رہے تھے ۔ وہ دوستی محض ایک سراب ہے۔ جس کے نتیجے میں Do more کے فرائض تو آتے ہیں مگر فوائد نہیں آتے اور اگر اب بھی اندازہ نہیں ہوا تو امت مسلمہ کے مظلومان میں دو اور مملکتوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ ہم تو منافقانہ ہی سہی دو اشک ندامت بہا لیتے ہیں ہماری مظلومیت پر تو شاید کہیں سے آنسوؤں کی سوغات بھی نہ مل سکے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

پاکستان دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست ہے جو مذہب کے نام پر وجود میں آئی اور اسرائیل دنیا کی دوسری ریاست جو ہماری ہی طرح مذہب کے نام پر وجود میں آئی۔ یہ دونوں ریاستیں نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ پاکستان کو اپنے وجود کے ساتھ ہی نفرت اور تعصب وراثت میں ملے۔ 1947ء میں نفرت اور تعصب کا کمزور پودا اب تناور درخت بن چکا ہے۔ ہم تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں لا محالہ اپنے دشمن سے جنگ لڑنی ہی پڑے گی ۔

یہ وہی دشمن ہے جس کے گماشتوں کی بہت بڑی تعداد ہماری صفوں میں داخل ہے۔ ہمیں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر بر سر پیکار ہونا پڑے گا۔

جب ہم نے صرف اللہ کے سہارے اپنے دشمن کا مقابلہ کیا تو اللہ نے ہمیں فتح و نصرت کی کامرانی عطا کی اور جب ہم نے دوسروں کے سہارے اپنی بقا کی جنگ لڑی تو نتیجتاً ملک ہی دو ٹکروں میں تقسیم ہو گیا۔

" فرقہ پرستی تو خود ایک جہنم کدہ ہے۔ جس کے قعرِ مذلت میں تفرق و افتراق کی پرورش ہوتی ہے اور جو بالآخر ایمان و یقین کا مدفن بن جاتی ہے۔ كُلُّ حِزۡبِۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُونَ ( الروم : 32 ، المومنون : 53 ) تو قلب کا حجاب ہے ، روح محمد ﷺ کی خوشی تو وَ ٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعٗا وَ لَا تَفَرَّقُواْۚ ( آل عمران : 103 ) میں مستمر ہے۔ بہت خوش قسمت ہیں وہ دل جو اس راز کو جانتے ہیں۔"

ہمیں اس بار بحیثیت قوم فیصلہ کر لینا ہے کہ اب ہمیں کس کے سہارے یہ جنگ لڑنی ہے۔ وہ جس نے وَلَا تَهِنُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ١٣٩ کی بشارت دی ہے یا وہ دوست جن کی موجودگی میں کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

مجلہ الواقعۃ شمارہ 42-43 ذیقعد و ذی الحجہ 1436ھ کے لیے لکھا گیا اداریہ
 
Top