• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بات بات میں فرق

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کہتے ہیں کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اُس کے سارے دانت ٹوٹ کر گر پڑے ہیں

بادشاہ نےخوابوں کی تعبیر و تفسیر بتانے والے ایک عالم کو بلوا کر اُسے اپنا خواب سُنایا

مفسر نے خواب سُن کر بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟

بادشاہ نے جواب دیا؛ ہاں، میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

مفسر نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور بادشاہ سے کہا؛ بادشاہ سلامت، اسکی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپکے سارے گھر والے آپ کے سامنے مریں گے۔

بادشاہ کا چہرہ غیض و غضب کی شدت سے لال ہو گیا۔ دربانوں کو حکم دیا کہ اس مفسر کو فی الفور جیل میں ڈال دیں اور کسی دوسرے مفسر کا بندوبست کریں۔

دوسرے مفسر نے آ کر بادشاہ کا خواب سُنا اور کُچھ ویسا ہی جواب دیا اور بادشاہ نے اُسے بھی جیل میں ڈلوا دیا۔

تیسرے مفسر کو بلوایا گیا، بادشاہ نے اُسے اپنا خواب سُنا کر تعبیر جاننا چاہی۔ مفسر نے بادشاہ سے پوچھا؛ بادشاہ سلامت، کیا آپکو یقین ہے کہ آپ نے یہی خواب دیکھا ہے؟

بادشاہ نے کہا؛ ہاں مُجھے یقین ہے میں نے یہی خواب دیکھا ہے۔

مفسر نے کہا؛ بادشاہ سلامت تو پھر آپکو مُبار ک ہو۔ بادشاہ نے حیرت کے ساتھ پوچھا؛ کس بات کی مبارک؟

مفسر نے جواب دیا؛ بادشاہ سلامت، اس خواب کی تعبیر یہ بنتی ہے کہ آپ ماشاء اللہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائیں گے۔

بادشاہ نے مزید تعجب کے ساتھ مفسر سے پوچھا؛ کیا تمہیں یقین ہے کہ اس خواب کی یہی تعبیر ہی بنتی ہے؟

مفسر نے جواب دیا؛ جی بادشاہ سلامت، اس خواب کی بالکل یہی تعبیر بنتی ہے۔

بادشاہ نے خوش ہو کر مفسر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔

سبحان اللہ، کیا اس بات کا یہی مطلب نہیں بنتا کہ اگر بادشاہ اپنے گھر والوں میں سے سب سے لمبی عمر پائے گا تو اُسکے سارے گھر والے اُس کے سامنے ہی وفات پائیں گے؟

جی مطلب تو یہی ہی بنتا ہے مگر بات بات میں فرق ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ما شاء اللہ عمدہ مثال ہے۔ اس میں بات کرنے کا اسلوب سکھایا گیا ہے کہ ہمیشہ مثبت ہونا چاہیے نہ کہ منفی، یعنی ایک ہی بات کو بیان کرنے کا اسلوب مثبت بھی ہوتا ہے اور منفی بھی اور مثبت اور منفی اسالیب بات کرنے والے کی ذہنی ساخت اور نفسیات کے عکاس ہوتے ہیں۔
مثلا میں ایک نے پرسوں رات تراویح کے دوران درس میں حصن المسلم کے بارے بتلایا کہ اس میں مختلف مواقع و کیفیات کی مستند دعائیں اور اذکار موجود ہیں اور نظر لگ جانے کی دعا بھی موجود ہے۔ کل رات ایک بزرگ ساتھی نے مجھ سے اس انداز سے بات شروع کی کہ
حصن المسلم میں یہ دعا موجود نہیں ہے اور اس پر انہوں نے مجھ سے اچھی خاصی بحث لگا لی اور ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ نظر کا لگ جانا برحق نہیں ہے اور انہیں اس پر کچھ اعتراضات ہیں وغیرہ ذلک۔
اس وقت میرے ذہن میں آیا کہ اگر ان بھائی کے بات کرنے کا انداز یوں ہوتا ہے کہ میں حصن المسلم لے آیا ہوں، آپ ذرا مجھے اس دعا کی نشاندہی کر دیجیے یا نظر بد کے بارے میرے ذہن میں یہ وساوس پیدا ہوتے ہیں، آپ ذرا تشفی فرما دیں تو کس قدر پیارا اسلوب ہوتا اور سننے والے کو بھی محسوس ہوتا کہ مخاطب سیکھنا چاہتا ہے جبکہ پہلے انداز سے محسوس ہوتا ہے کہ مخاطب مناظرہ چاہتا ہے اور اپنی بات منوانا چاہتا ہے وغیرہ ذلک۔
بہر حال بات چیت میں اسلوب کلام بہت اہم چیز ہے۔ خاص طور پر ہمارے ہاں عوام الناس تو کجا عموما اہل علم تک کے ہاں بھی نقد کے باب میں اس پہلو سے بہت کمی ہے الا ما شاء اللہ۔ اگر ہماری باہمی نقد میں یہ اسلوب کلام پیدا ہو جائے کہ ہم کسی کی محنت، صلاحیت اور جذبے کی تعریف کرتے ہوئے اس کی خطا کی نشاندہی کریں تو اس سے واقعتا مخاطب کی اصلاح ہوتی ہے لیکن جب ہم کسی پر نقد کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس پر نقد اس لیے نہیں چاہتے کہ اس کی اصلاح ہو بلکہ اس لیے چاہتے ہیں کہ میری واہ واہ ہو۔ اس صورت میں ناقد اور منتقد دونوں کا عمل رائیگاں جاتا ہے۔
سرسید احمد خان سے کسی نے کہا کہ میں ایسا ہی معروف ہونا چاہتا ہوں کہ جیسے آپ ہیں، اس کے لیے کیا کروں تو سرسید نے کہا کہ میرے اوپر تنقید شروع کر دو، معروف ہو جاؤ گے۔ سرسید کے ناقدین بھی دو قسم کے تھے، ایک وہ جو اصلاح کے نام پر سر سید پر نقد کرتے ہوئے اپنا علمی قد کاٹھ اونچا کرنا چاہتے تھے تو ان میں اور سرسید میں کوئی فرق نہیں تھا جبکہ دوسرے وہ تھے جو سرسید کے ساتھ خیرخواہی اور ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہوئے اس پر نقد کرنے والوں میں سے تھے اور دونوں کے انداز بیان اور اسلوب تنقید میں واضح فرق معلوم ہوتا ہے۔
 
Top