• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بالوں کا جوڑا؟؟؟؟؟؟؟

ماہا

مبتدی
شمولیت
مئی 18، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
233
پوائنٹ
0
اسلام علیکم ٹو آل ممبرز
میرا سوال یہ ہے کہ اکثر خواتین گرمی کی وجہ سے بالوں کو کیچر لگا کر اوپر کی طرف کر لیتی ہیں یعنی جوڑے کی شکل دے دیتی ہیں اس حالت میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟؟؟؟؟
براہ کرم راہنمائی فرمایئں
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
ہمارے ہاں عام طور پر اہل علم خواتین کے لیے جوڑا بنانے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اور اسے کفار عورتوں کے ساتھ مشابہت قرار دیتے ہیں لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس کا جواز ہے کیونکہ اگر کوئی عادت مسلمانوں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کے معاشرے کا عرف بن جائے تو وہاں کفار کے ساتھ مشابہت کا اصول لاگو نہیں ہوتا ہے بشرطیکہ وہ عادت وعرف شریعت کے کسی مبین حکم سے ٹکرا نہ رہی ہو جیسا کہ چمچ کے ساتھ کھانا، میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا وغیرہ۔
شیخ صالح المنجد اس بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
سوال : شادى بياہ كے موقع پر عورت كا مختلف اشكال ميں اپنے بال بنوانے كا حكم كيا ہے، يعنى بالوں كو اوپر اٹھانا، اور دلہن كے ليے ايسا كرنے كا حكم كيا ہے، كيونكہ غالبا دلہن اپنى سہاگ رات كے ليے ايسا كرتى ہے ؟
الحمد للہ:
عورت كے ليے اپنى سہاگ رات ميں بال كنگھى كرنے اور مختلف اشكال بنانے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ ايك اچھا اور مطلوب امر ہے، اور اس ميں معاونت كرنے پر بھى كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں كفار يا فاجر قسم كى عورتوں سے مشابہت نہ ہوتى ہو.
اور مشابہت سے مقصود يہ ہے كہ بال اس شكل ميں نہ بنائے جائيں جو كافر عورتوں كے ساتھ مخصوص ہوں، يا پھر يہ كٹنگ كسى كافرہ يا فاجرہ عورت كے نام سے پہچانى جاتى ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كسى قوم كے ساتھ مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع الصغير ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ممنوعہ مشابہت كا ضابطہ اور قاعدہ سوال نمبر ( 32533 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا ماڈلنگ كرنے والى عورتوں كے بالوں جيسى كٹنگ كروانا جائز ہے ؟
اور كيا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں شامل ہوتى ہے:
" جس كسى نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے " ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اسى طرح بالوں كا مسئلہ ہے، چنانچہ عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ كافرہ يا فاجرہ عورتوں كى كٹنگ اور شكال جيسے بال بنوائے، كيونكہ جو كوئى كسى قوم سے مشابہت اختيار كرے تو وہ انہيں ميں سے ہے.
اس مناسبت ميں مسلمان مومن عورتوں اور ان كے اولياء و ذمہ داران كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ ان ميگزين اور رسالوں اور بالوں كى اس طرح كى اشكال سے دور رہيں جو انہيں كفار كى جانب سے حاصل ہوتى ہيں، اور كفار اور ان كے بے پردہ لباس كے ليے ان كے دلوں ميں محبت و دوستى پيدا كريں، جو شرم و حياء سے عارى ہيں، اور شريعتا سلاميہ كے ساتھ اس كا كوئى تعلق بھى نہيں، يا وہ نت نئے ماڈل جن پر نئے نئے بالوں كے فيشن ہوں، ان سے دور رہيں.
اور مسلمانوں كو دوسروں سے ممتاز رہنا چاہيے كيونكہ شريعت اسلاميہ كا تقاضا بھى يہى ہے، اور اسلامى طبيعت بھى يہى ہے، تا كہ امت مسلمہ كو اس كى عزت و كرامت اور بلندى واپس مل سكے، اور اللہ تعالى كے ليے يہ كوئى مشكل بھى نہيں. انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 12 ) سوال نمبر ( 188 ).
اور بال اوپر اٹھانے، يا پھر ان كو اكٹھا كر كے سر كے اوپر جوڑا بنانا، يا سر كى ايك جانب مانگ نكالنا بعض اہل علم نے اس سے منع كيا ہے اس كى علت كفار عورتوں سےمشابہت ہے، اور كچھ علماء نے تو جوڑا بنانے كو اس حديث كے تحت شامل كيا ہے جس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مذمت فرمائى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" دو قسميں ايسى ہيں جنہيں ميں نے ابھى تك نہيں ديكھا: وہ لوگ جن كے پاس گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے اور وہ لوگوں كو مارتے پھريں گے، اور وہ عورتيں جنہوں نے لباس تو پہنا ہوا ہو گا ليكن وہ ننگى ہونگى، لوگوں كى طرف مائل ہونے والى اور لوگوں كو اپنى طرف مائل كرنے والى ہونگى، ان كے سر بختى اونٹوں كى طرح ہونگے، وہ جنت ميں داخل نہيں ہونگى اورنہ ہى جنت كى خوشبو پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو تو اتنى اتنى مسافت سے آ جاتى ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2128 ).
اور اگر فرض كر ليا جائے كہ مثلا سر كى ايك سائڈ پر مانگ نكالنا كسى دور ميں كافرہ اور فاجرہ عورتوں كا شعار اور علامت رہى اور پھر يہ خصوصيت زائل ہو كر مسلمان عورتوں ميں عام ہو گئى كہ ايسا كرنے كرنے والى عورت كا كافر يا فاجرہ گمان نہ كيا جاتا ہو تو مشابہت ختم ہو گئى ہو تو پھر يہ حرام نہيں ہو گا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ المياسر الارجوان ( يہ تكيہ كى طرح ہوتا ہے جو گھڑ سوار سوارى كے وقت اپنے نيچے ركھتا ہے، اور يہ اعاجم استعمال كيا كرتے تھے ): كے متعلق كلام كرتے ہوئےكہتے ہيں:
" اگر ہم يہ كہيں كہ اعاجم كے ساتھ مشابہت كى بنا پر يہ ممنوع ہے، تو يہ دينى مصلحت كے ليے ہے، ليكن يہ ان كى علامت اس وقت تھى جب وہ كفار تھے، پھر جبكہ اب يہ علامت ان كے ساتھ مخصوص نہيں رہى تو يہ معنى زائل اور ختم ہو گيا، تو اس كى كراہت بھى ختم ہو گئى " واللہ تعالى اعلم. اھـ
ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 307 ).
اور طيلسان ( سبز رنگ كا لباس جو عجمى استعمال كرتے ہيں ) زيب تن كرنے كو مشابہت قرار دينے والے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں، كيونكہ يہ يہوديوں كا لباس تھا، جيسا كہ دجال والى حديث ميں بيان ہوا ہے، ابن حجر رحمہ اللہ ا سكا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس سے استدلال كرنا اس وقت صحيح ہو گا جب طيالسہ يعنى برانڈى يہوديوں كا شعار ہو، اور اس دور ميں يہ ختم ہو چكا ہے تو يہ چيز عمومى مباح ميں داخل ہو گئى ہے " اھـ
ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 274 ).
ابھى اوپر ہم نے جس سوال نمبر كے جواب كى طرف اشارہ كيا ہے اس ميں ہم ان كے علاوہ دوسروں سے بھى كلام بيان كر چكے ہيں جس سے اس كى تائيد ہوتى ہے. واللہ تعالى اعلم.
ذيل ميں ہم جوڑے اور عورت كے ليے سر كى ايك جانب مانگ نكالنے كے متعلق علماء كرام كے فتاوى جات نقل كرتے ہيں:
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
سوال:سر كى ايك جانب مانگ نكالنے، اور صرف ايك چٹيا اور بالوں كا جوڑا بنانے كا حكم كيا ہے، عورت كا مقصد صرف اپنے خاوند كے ليے بناؤ سنگھار اور خوبصورتى اختيار كرنا، يا پھر اچھا اور لائق مظہر ظاہر كرنا ہے ؟
جواب:
" سر كے ايك جانب مانگ نكالنے ميں كفار كى عورتوں سے مشابہت ہوتى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كفار كى مشابہت كرنے كى حرمت ثابت ہے.اور رہا مسئلہ ايك يا ايك سے زائد چٹيا كرنے اور چٹيا كر كے يا بغير چٹيا كيے بال كمر كے پيچھے لٹكانا اگر تو بال چھپے ہوں تو پھر اس ميں كوئى حرج والى بات نہيں.ليكن بالوں كا جوڑا بنانا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ اس ميں كافرہ عورتوں سےمشابہت ہوتى ہے، اور ان سے مشابہت اختياركرنا حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا: " دو قسميں ايسى ہيں جنہيں ميں نے ابھى تك نہيں ديكھا: وہ لوگ جن كے پاس گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے اور وہ لوگوں كو مارتے پھريں گے، اور وہ عورتيں جنہوں نے لباس تو پہنا ہوا ہو گا ليكن وہ ننگى ہونگى، لوگوں كى طرف مائل ہونے والى اور لوگوں كو اپنى طرف مائل كرنے والى ہونگى، ان كے سر بختى اونٹوں كى طرح ہونگے، وہ جنت ميں داخل نہيں ہونگى اورنہ ہى جنت كى خوشبو پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو تو اتنى اتنى مسافت سے آ جاتى ہے"
اسے امام احمد اور مسلم نے روايت كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 126 ).
اور شيخ الفوزان حفظہ اللہ سے سوال كيا گيا:
سر كے وسط سے نہيں بلكہ ايك سائڈ سے مانگ نكالنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" عورت كے ليے سر كى ايك جانب سے مانگ نكالنا جائز نہيں شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اس دور ميں بعض مسلمان عورتيں اپنے سر كى ايك جانب مانگ نكالتى ہيں، اور بالوں كو گدى كى طرف جمع كر ليتى ہيں، يا پھر سر كے اوپر اكٹھے كر ليتى ہيں، جس طرح انگريزوں كى عورتيں كرتى ہيں، تو يہ جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں كفار كى عورتوں سے مشابہت ہے " انتہى.
ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 1 / 47 ).
انتہى. ماخوذ از: المنتقى ( 3 / 321 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
سر كے بالوں كا جوڑا بنانے كا حكم كيا ہے، يعنى بالوں كو سر كے اوپر جمع كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر تو بال سر كے اوپر جمع كيے جائيں تو اہل علم كے ہاں يہ ممانعت يا تحذير ميں شامل ہے جو درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ميں آئى ہے:
" دو قسميں ايسى ہيں جنہيں ميں نے ابھى تك نہيں ديكھا: وہ لوگ جن كے پاس گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے اور وہ لوگوں كو مارتے پھريں گے، اور وہ عورتيں جنہوں نے لباس تو پہنا ہوا ہو گا ليكن وہ ننگى ہونگى، لوگوں كى طرف مائل ہونے والى اور لوگوں كو اپنى طرف مائل كرنے والى ہونگى، ان كے سر بختى اونٹوں كى طرح ہونگے، وہ جنت ميں داخل نہيں ہونگى اورنہ ہى جنت كى خوشبو پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو تو اتنى اتنى مسافت سے آ جاتى ہے" اس ليے اگر تو بال اوپر ہوں تو اس ميں ممانعت ہے، ليكن اگر مثال كے طور پر بال گردن پر ہوں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر عورت نے بازار جائيگى تو اس حالت ميں يہ بےپردگى ميں شامل ہوگا، كيونكہ اس كے عبايا كے پيچھے علامت ظاہر ہو رہى ہوگى، اور يہ بےپردگى اور فتنہ كے اسباب ميں شامل ہو گى اس ليے جائز نہيں"
ماخوذ از: فتاوى المراۃ المسلمۃ جمع و ترتيب الشيخ المسند ( 218 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اسلام علیکم ٹو آل ممبرز
میرا سوال یہ ہے کہ اکثر خواتین گرمی کی وجہ سے بالوں کو کیچر لگا کر اوپر کی طرف کر لیتی ہیں یعنی جوڑے کی شکل دے دیتی ہیں اس حالت میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟؟؟؟؟
براہ کرم راہنمائی فرمائیں!
احادیث مبارکہ میں نماز میں کپڑوں اور بالوں کو فولڈ کرنے سے الگ طور سے بھی منع کیا گیا ہے، فرمانِ نبوی ہے: « أمرنا أن نسجد على سبعة أعظم ، ولا نكف ثوبا ولا شعرا » ... متفق عليه کہ ’’ہمیں سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی کہ کپڑوں اور بالوں کو جمع نہ کریں (یعنی نہ باندھیں)!‘‘
امام ابن حجر﷫ نے فتح الباری میں وضاحت فرمائی ہے کہ یہ حکم صرف سجدہ کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ پوری نماز کیلئے ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
عن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أُمِرْنَا أن نسجد على سبعة أعظم، ولا نكف ثوبا ولا شعرا"،
۱۔ عام طور پر اہل علم نے کپڑے سمیٹنے اور بال سمیٹنے سے مراد نماز اور نماز سے پہلے دونوں کو اس میں داخل کیا ہے اور اس عمل کو مکروہ قرار دیا ہے۔
۲۔ لیکن بعض اہل علم کی رائے ہے کہ یہاں بال اور کپڑے سمیٹنے سے مراد نماز میں ان کا سمیٹنا ہے کیونکہ یہ خشوع وخضوع کے منافی ہے اور انسان کی توجہ نماز اور اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات سے کپڑوں اور اس کے بالوں کی طرف لے جاتا ہے لہذا یہ عمل ممنوع ہے لیکن نماز سے پہلے اگر ایسا کر لیا جاءے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے مثلا کوئی شخص پینٹ فولڈ کر یا آستینیں چڑھا کر نماز پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے اور وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص کاٹن کا سوٹ پہن کر نماز کے کھڑا ہوا ہے کہ اور اس کی استری بچانے کے لیے اب سجدے میں جاتے اور اٹھتے وقت اس کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس روایت کا صحیح محل و مقام ہے اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی معاملہ بالوں کا بھی ہے اور اگر نماز سے پہلے سمیٹ لیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر نماز میں سمیٹے مثلا بال سجدے کے دوران ماتھے کے سامنے آ رہے ہوں اور وہ ان کو ہٹانے کی کوشش کرے تو یہ ایسے افعال ہے جو نماز میں رب سبحانہ وتعالی کی یاد سے غفلت کا باعث ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود اصل میں نماز میں اس قسم کے افعال سے روکنا تھا اور نماز سے پہلے یا بعد میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوئی وجہ یا علت یا حکمت سمجھ نہیں آتی ہے۔ میرا ذاتی رجحان ان اہل علم کے اس قول کی طرف ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
۳۔ بعض اہل علم نے نماز کے دوران اور نماز کے باہر کی بجائے نماز کے لیے اور نماز کے لیے نہ ہونے کو بنیاد بنایا ہے اور یہ مالکیہ کا معروف موقف ہے۔ یعنی اگر نماز کے لیے بال یا کپڑے اکھٹے کیے ہیں تو ممنوع ہیں، چاہے نماز سے پہلے کیے ہوں یا دوران نماز، اور اگر نماز کے لیے نہیں کیے ہیں بلکہ اپنی عادت و عرف یا کسی اور سبب سے کیے ہیں تو جائز ہے۔
تفصیل کے لیے یہ لنک دیکھیں:
http://www.islamway.com/?iw_s=Fatawa&iw_a=view&fatwa_id=34217
موقع الإسلام سؤال وجواب - حكم الصلاة مع كف أكمام الثوب
موقع الإسلام سؤال وجواب - النهي عن كف الثوب والشعر في الصلاة
 
Top