• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

با جماعت نماز :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
باجماعت نماز ادا کرنے کی فرضیت :

بہت سارے لوگ نماز باجماعت ادا کرنے سے کوتاہی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں،اور اس پر بعض علماء کے فتاویٰ کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر میں نے ضروری سمجھا کہ اس خطرناک نظریہ کی وضاحت کر دوں ۔

کسی مسلمان کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ،اورسینکڑوں احادیث میں نبی کریم ﷺ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔اورپابندی کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

((حَافِظُوْا عَلٰی الصَّلَوٰاتِ وَالصَّلَاۃِالْوُسْطیٰ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ)) [البقرۃ:۲۳۸]


’’ نمازوں کی حفاظت کرو،بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑ ے رہا کرو۔‘‘


دوسری جگہ فرمایا:

((وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَآتُوْا الزَّکوٰۃَوَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ)) [البقرۃ:۴۳]


’’اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دواور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘


یہ آیات نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں ۔اگر مقصود صرف نماز قائم کرناہی ہوتا تو آیت کے آخر میں ((وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ)) ’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘کے الفاظ نہ ہوتے ،جو نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔جبکہ نماز قائم کرنے کا حکم تو آیت کے پہلے حصہ ((وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃ))’’اور نمازوں کو قائم کرو ‘‘ میں ہی موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے ،جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حالت امن میں بالاولیٰ نماز باجماعت فرض ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

((وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَأَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلَاۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا أَسْلِحَتَھُمْ فَاِذَا سَجَد ُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَأَسْلِحَتَھُمْ۔۔۔)) [النساء :۲ ۱۰ ]

’’جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چائییے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو ،پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آجائے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہیں۔‘‘

اگرکسی کونماز بلاجماعت اداکرنے کی اجازت ہوتی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو اجازت دیتے جو میدان جنگ میں دشمن کے سامنے صفیں بنائے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

((لقد ھممت أن آمر بالصلاۃ فتقام ، ثم آمر رجلا أن یصلی بالناس،ثم أنطلق برجال معھم حزم من حطب الی قوم لا یشھدون الصلاۃ ،فأحرق علیھم بیوتھم۔۔۔۔))[بخاری، مسلم]


’’میرا ارادہ ہے کہ نماز کھڑی کر دی جائے ،پھر میں کسی شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں ،اور اپنے ساتھ چند لوگوں کو لے جاؤں جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں،اور نماز میں حاضر نہ ہونے والے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں۔‘‘


حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں:

((لقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ الا منافق علم نفاقہ ،أو مریض،وان کان المریض لیمشی بین الرجلین حتی یأتی الصلاۃ))[مسلم]


’’کہ ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے ،اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا ،یا پھر مریض،اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لئے آجاتا۔


دوسرے مقام پر حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:

((ان رسول اللّٰہ ﷺ علمنا سنن الھدیٰ، وان من سنن الھدی الصلاۃ فی المسجد الذی یؤذن فیہ))


’’کہ نبی کریمﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھلائے،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس مسجد میں اذان ہو اس میں جا کر نمازباجماعت ادا کرنا۔‘‘

مزید فرماتے ہیں:

جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ کل قیامت والے دن مسلمان ہو کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اسے چاہئیے کہ وہ نمازوں کی حفاظت کرے۔بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لئے ہدایت کے طریقے مشروع کئے ہیں ،جن میں سے نمازوں کی حفاظت بھی ہے ۔اور اگر تم نے گھروں میں ہی نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں تو تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا اور جب تم نے نبی کریم ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔جو شخص بھی گھر سے بہترین وضو کر کے مسجد کا رخ کرتا ہے ،تو اس کے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے،ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے ،اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا ،یا پھر مریض،اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لئے آجاتا۔

حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا!یا رسول اللہ !میرے پاس کوئی گائیڈ نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لے آیا کرے،کیا مجھے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟نبی کریمﷺ نے پوچھا!
((ھل تسمع النداء بالصلاۃ؟))

’’کیا تو اذان کی آواز سنتا ہے؟
‘‘اس صحابی نے کہا !ہاں یا رسول اللہﷺ!تو اللہ کے نبی نے فرمایا:
((فأجب ))

’’اگر تو اذان کی آواز سنتا ہے تو پھر اس ندا پر لبیک کہہ (یعنی مسجد میں ہی آکر نماز ادا کر)‘‘

نماز باجماعت کی فرضیت ،اور مساجد میں قیام ِنماز کے وجوب پر دلالت کرنے والی أحادیث کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔لہذا ہر مسلمان پر نمازکا خیال رکھنا،اس کی طرف جلدی کرنا،اپنے اہل وعیال پڑوسی اور تمام مسلمانوں کو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔تا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اوامر پر عمل ہو اور نواہی سے بچا جاسکے،اور انسان منافقین کی صفات سے دور رہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی صفات بیان کرتے ہو ئے ان کی یہ صفت بھی بیان کی کہ وہ نمازوں میں سستی کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

((اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ وَاِذَا قَامُوْا اِلیٰ الصَّلَاۃقَامُوْا کُسَالیٰ یُرَآئُ ْونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلاً٭مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاَ اِلٰی ھٰؤٓلآئِ وَلاَ اِلٰی ھٰؤٓلآئِ وَمَنْ یُضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلاً))[النسائ:۱۴۳]


’’بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے،اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں۔وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں،نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح ان کی طرف،اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے توتو اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔‘‘نماز باجماعت ادا کرنے سے پیچھے رہ جانا، نماز چھوڑنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔

جان بوجھ کربلا عذر نماز چھوڑنا کفر،گمراہی اور دائرہ اسلام سے خروج ہے،نبی کریمﷺ نے فرمایا:

((بین الرجل وبین الکفر والشرک ترک الصّلاۃ))[مسلم]


’’مومن اور کافر ومشرک کے درمیان حدّ فاصل نماز ہے۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

((العھدالذی بیننا وبینھم الصّلاۃ فمن ترکھا فقد کفر)) [احمد]


’’ہمارے اورکافروں کے درمیان نماز کا عہد ہے،جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔‘‘

تیسری جگہ فرمایا:

((رأس الأمر الاسلام وعمودہ الصّلاۃ))[احمد]


’’معاملے کی چوٹی اسلام ہے اور اس کاستون نماز ہے۔‘‘


نماز باجماعت کی فرضیت ،اور مساجد میں قیام ِنماز کے وجوب پر دلالت کرنے والی أحادیث کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔لہذا ہر مسلمان پر نمازکا خیال رکھنا،اس کی طرف جلدی کرنا،اپنے اہل وعیال پڑوسی اور تمام مسلمانوں کو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔تا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اوامر پر عمل ہو اور نواہی سے بچا جاسکے،اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے حفاظت ہو سکے۔

مذکورہ قرآنی آیات اور أحادیث مبارکہ سے حق واضح ہو جانے کے بعد کسی مسلمان کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ نمازوں میں سستی کرے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات پر کسی عالم دین کے فتوے کو ترجیح دے اور کہے کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

((یَأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ اْلآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً))[النسائ:۵۹]


’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تواسے لوٹاؤ،اللہ کی طرف اور رسول کی طرف،اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ہے۔یہ بہت بہترہے اورباعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ ‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

((فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ)) [النور:۶۳]

’’سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئیے کہ کہیں ان پر کوئی زبر دست آفت نہ آن پڑے یا انہیں درد ناک عذاب (نہ ) پہنچے۔ ‘‘

بہرحال ولاۃ الامر(ذمہ داران قوم وملت) پرواجب ہے کہ تارک نماز سے توبہ کروائیں۔اگروہ توبہ کر لے تو درست، ورنہ ادلہ واردہ کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے۔ نماز باجماعت ادا کرنے میں بہت ساری مصلحتیں اور فوائد ہیں جو کسی سے مخفی نہیں۔اس سے نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہوتا ہے۔ایک دوسرے کی مشکلات کا علم ہوتا ہے جن کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔پیچھے رہ جانے والے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جاہل کو تعلیم ملتی ہے،اور شعائر اللہ کا اظہار ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نیک بنائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے اور ہمیں وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کو وہ پسند کرتا ہے۔آمین

ماخوذ از مقالات فضیلۃ الشیخ/ عبد العزیز بن عبد اللّٰہ بن باز
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
1908117_829327803802157_5545838123737139475_n.jpg


اُتنا ہی اجر و ثواب
-------------------

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ، جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا ، اور پھر مسجد کی طرف (نماز باجماعت کے لئے) چل نکلا ، لیکن اس نے دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں ، تو اللہ تعالی اسے بھی اتنا ہی اجر و ثواب عطا فرمائے گا ، جتنا کہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے والوں کو عطا کرے گا ، اِس سے جماعت سے صلاۃ ادا کر نے والوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی

-----------------------------------------------------
(سنن أبي داود : 564 ، ، صحيح الجامع: 6163 ، ،
الترغيب والترهيب : 1/202 ، ، صحيح الترغيب : 410 ، ،
فتح الباري لابن حجر : 159/6)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
11403504_829332523801685_552586983713186236_n.jpg


جو شخص گھٹنوں کے بل چل کر بھی عشاء و صبح کی نمازوں کو باجماعت ادا کر سکتا ہو ، تو اسے ایسا ضرور کرنا چاہئے

(فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

------------------------------------------------
(الترغيب و الترهيب : 1/205 ، ، صحيح الترغيب : 418 ، ،
السلسلة الصحيحة : 1474)​
 
Top