• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برما کے مسلم کش فسادات اور عالمی ضمیر

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
برما
برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر دو سال پہلے کا ایک معلوماتی کالم پیش ھے۔

برما کے مسلم کش فسادات اور عالمی ضمیر

کالم: لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
21 جون 2013


قدیم سلطنت برما کا جدید نام میانمار ہے۔ یہ ملک علاقے کے لحاظ سے جنوب مشرقی ایشیا کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ بحر ہند کے شمال مشرقی کونے میں واقع دنیا کی اس سب سے کشادہ خلیج کو کہتے ہیں۔ جس کے دلربا مشرقی کنارے کی 1930 کلومیٹر لمبی اور دو سو کلومیٹر گہری ساحلی پٹی برما کیلئے بحر ہند میں تجارت اور بے پناہ سمندری حیات سے مستفید ہونے کے مواقع میسر کرتی ہے۔ برما کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ اس ملک میں تیل گیس کے ذخیرے اور قیمتی پتھر بہتات سے ہیں۔

برما کیساتھ 1824 سے 1885 تک تین جنگیں لڑنے کے بعد انگریزوں نے یکم جنوری 1886 کو برما پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ہندوستانی سپاہی، سول ملازمین، دستکار اور تاجر پیشہ لوگ ہندوستان سے برما آنا شروع ہو گئے جن میں تقریباً نصف آبادی ہندوستانی مسلمانوں کی تھی۔ انگریزوں نے برما کے سب سے بڑے ساحلی شہر رنگون کو اس ملک کا دارلحکومت بنا دیا۔ برما کے عوام نے، جو زیادہ تر بدھسٹ ہیں، انگریزوں کی لگاتار مزاہمت کی لیکن آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

دوسری جنگ عظیم کی ابتدا میں 1942 میں پہلے جاپان نے برما کو روند ڈالا اسکے بعد جولائی1945 میں انگریزوں نے جوابی کارروائی کر کے برما کو دوبارہ فتح کر لیا جس میں ایک لاکھ پچاس ہزار جاپانی ہلاک ہوئے۔ انگریزوں کے تسلط سے جان چھڑانے کیلئے برمی لگاتار قربانیاں دیتے رہے اور آخر کار 4 جنوری 1948 کو برما ایک آزاد ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا لیکن بد قسمتی سے اس ملک میں 2 مارچ 1962 سے لیکر آج تک فوجی حکومت ہے۔

آج کے برما میں موجود تقریباً 24 لاکھ مسلمانوں میں سے زیادہ تر ہندوستان ، بنگلہ دیش اور چین سے آئے ہیں۔ کچھ مسلمان مشرقی وسطیٰ سے آکر بھی برما میں رہائش پذیر ہوئے۔ لیکن سب سے پہلا مسلمان جو 1050AD میں برما میں داخل ہوا اس کا نام Byat Wi تھا جسکے بھائی کے دو بیٹوں کو اس لئے قتل کر دیا گیا کہ وہ مذہب اسلام کیخلاف برما کے بادشاہ کے احکامات ماننے سے انکاری تھے۔ یہاں سے برما میں مسلمانوں کا قتال شروع ہوا۔

اسکے بعد جب مغل بادشاہ شاہجہان کے دوسرے بڑے بیٹے شجاع نے اپنے بھائی سے ڈر کر سترویں صدی عیسوی میں برما کے شہر Arakan کا رخ کیا تو وہاں کے بادشاہ Sand Thudama نے تقریباً تمام مسلمانوں کو تہ تیغ کر ڈالا لیکن شاہ شجاع بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ دراصل ہندوستانیوں اور مسلمانوں کیخلاف برمی حقارت کی اصل ابتدا انگریز دور میں ہی پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوئی۔ 1921 میں برما میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 5لاکھ تھی۔ بدھسٹ برمی کی مسلمانوں کیخلاف موجودہ حقارت کا پس منظر کچھ یوں ہے۔

۱) برمی سمجھتے ہیں کہ مغلیہ دور میں ہندوستان میں بسنے والے بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ اس وقت کے مسلمان حکمرانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا ۔

۲) بھارتی مسلمان برما میں جائیدادوں اور ملازمتوں پر قابض ہو کر برمیوں کا حق مار ہے ہیں۔

۳) پیشہ ورانہ تعصب کی وجہ سے برمی بدھسٹ مسلمانوں کیخلاف ہیں۔

۴) 1930 کے معاشی بحران نے برما میں لوگوں کی مالی حالت دگرگوں کی تو زبردست خونی Anti Indian بلوے ہوئے۔

۵) 1938 کے مسلم کش فسادات میں بھی متعصب برمی بدھسٹ کا نعرہ تھا ©
"برما صرف برمی لوگوں کیلئے ہے "

۶) 1962 میں جب فوجی ڈکٹیٹر جنرل Ne Win نے حکومت سنبھالی تو مسلمانوں کو فوج سے نکال دیا گیا جس سے مزید نفرتوں نے جنم لیا۔

۷) انڈونیشیا میں جب مسلمانوں کے انتہا پسند گروپوں نے کارروائیاں کیں تو اس کا خمیازہ بھی برما میں مسلم اقلیت کو بھگتنا پڑا ۔

۸) افغانستان میں طالبان حکومت کے دوران جب بامیان میں بدھا کی عبادت گاہ اور بتوں کو توڑا گیا تو برمی بدھ مت کے مانکس نے برما میں Han Tha مسجد تباہ کرنے کا حکم دیا جسے زمین بوس کر دیا گیا۔ اسکے بعد مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں جھگڑے نے شدت اختیار کر لی اسکے بعد

1997 میں مسلمانوں کی جانوں، مساجد، کاروباری مراکز اور جائیدادوں پر حملے شروع ہو گئے۔

ان میں 5 مارچ 2013 کو ایک برمی بدھسٹ مانک Shin Thabita مارا گیا جس سے مسلم کش فسادات نے زور پکڑا تو برمی مسلمانوں نے بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ لی اسکے علاوہ آج بھی ایک لاکھ دس ہزار برمی مسلمان مہاجرین برما۔ تھائی لینڈ سرحد پر 9 کیمپوں میں بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہیومن رائٹ واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برمی حکومت ، بدھ مانکس، سیاست دان اور بیوروکریسی ایک خاص منصوبے کے تحت برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں شریک ہے۔ پچھلے ہفتے وسطی میانمار میں تقریباً 400 بدھسٹ کا مسلمان آبادی پر حملہ اسی مزموم سازش کا حصہ تھا۔ شمال مشرقی برما کے شہر Lashio میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مسجدیں شہید کی گئیں، قرآن کریم نذر آتش کئے گئے اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔

قارئین ابھی ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر پاکستان کا موقف کیا ہونا چاہئیے۔ ایک مکتبہ فکر تو یہ کہتا ہے کہ ہمیں صرف اپنے گھر کی فکر ہونی چاہیے۔ انسانیت کیخلاف بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ظلم و ستم میں پیش پیش رہنا ہمارے ملکی مفاد میں نہیں۔

دوسرا مکتبہ فکر ہماری توجہ قائد اعظم محمد علی جناح کے فروری 1948میں اس خطاب کیطرف مبذول کرواتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مندرجہ ذیل نقاط پر زور دیا تھا۔

۱) دنیا کے تمام ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اور کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہ رکھنا۔

۲) ملکی اور بین الاقوامی سیاسی تعلقات میں دیانتداری اور انصاف پسندی کے اصولوں پر قائم رہنا۔

۳) بین لاقوامی امن کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنا۔

۴) دنیا کے (Opressed or Suppressed People) یعنی مظلوم عوام کیلئے اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں مالی اور اخلاقی امداد فراہم کرنا۔

ہمارے آئین کا آرٹیکل 40 بھی اسلامی اتحاد، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام کے مشترکہ مفادات کی حمائت اور سارے بین الاقوامی جھگڑوں کے پر امن طریقے سے حل کرنے کی بات کرتا ہے۔

اس لئے قائد اعظم کے فرمودات اور پاکستان کے آئین کی روشنی میں ہم برمی مسلمانوں پر ظلم وستم، ان کی نسل کشی، مساجد کی شہادت اور برما میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ اس انسانیت سوز کارروائیوں کو روکا جائے۔ ہم اقوام متحدہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ برما کی حکومت کے اس نسل کشی میں برابر کی شرم ناک شرکت پر ان کی جواب طلبی کرے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یہ مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھائیں۔ پاکستان سمیت دنیا کی ہر مہذب قوم کو ایسے ظلم و ستم کیخلاف اس لئے آواز اٹھانی چاہیئے کیونکہ ایسی جارحیت کا نشانہ پاکستان سمیت کوئی بھی ملک بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں اپنے دوستوں کی تعداد بڑھا کر ہی ہم اپنی قومی سلامتی کیخلاف خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھنے والے احتجاج کے اہم نقاط میں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم بدھ ازم کو دنیا کا ایک پرامن مذہب سمجھتے ہیں جو مذہب اسلام کی طرح انسانیت کیخلاف مظالم کا بالکل پر چار نہیں کرتا۔ پاکستانیوں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ٹیکسلا اور قندھارا سے پھوٹنے والی بدھ مت کی قدیم تہذیبوں نے، ہمیشہ انسانی اقدارکا پرچم بلند کیا لیکن برما میں بدھ مانکس کی طرف سے مسلم کش بربریت کی سرپرستی اور برمی حکومت اور اسکی اپوزیشن لیڈر سوچی، اقوام متحدہ، مغربی طاقتوں، OIC اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی خاموشی ناقابل فہم ہے۔ دراصل امریکہ اور مغربی دنیا کے بد قسمتی سے دوہرے معیار ہیں۔ ان کیلئے صرف اور صرف اپنے معاشی مفادات ہی مقدم ہیں جن کے سامنے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمیں برمی مسلمانوں کو انصاف دلوانے کیلئے عالمی ضمیر کو ضرور جنجھوڑنا چاہئیے۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
برما کے روہنگیا مسلمان دراصل کون ہیں، تمام ضروری معلومات جو قارئیں جاننا چاہتے ہیں

07 جون 2015


لاہور (وسعت اللہ) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔ اس تعریف پر اگر آج کی دنیا میں کوئی گروہ پورا اترتا ہے تو وہ برما کے روہنگیا مسلمان ہیں جو برما کے دو صوبوں اراکان اور رکھین میں آباد ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون کے مطابق روہنگیا کرہِ ارض کا سب سے ستم رسیدہ نسلی گروہ ہے۔

برما کہتا ہے کہ یہ بنگالی تارکین ِوطن ہیں جو برسوں پہلے تلاشِ معاش کی خاطر غیرقانونی طور پر برما میں داخل ہوئے۔

بنگلہ دیش کہتا ہے کہ ہمارا بھلا ان سے کیا لینا دینا ، برما جانے روہنگیا جانیں اور

تھائی لینڈ ، ملیشیا اور انڈونیشیا سمیت ہمسائیہ ایشیائی ممالک کہتے ہیں کہ جب برما یا بنگلہ دیش کو ہی اس نسلی گروہ کے مسائل کی پرواہ نہیں تو ہمارا ان روہنگیوں سے کیا تعلق۔

اس کہانی کے ڈانڈے انیسویں صدی سے جا کے ملتے ہیں۔ 1826 کی اینگلو برما جنگ کے نتیجے میں برما مختصر وقت کے لیے برٹش انڈیا کا حصہ بن گیا اور اس کے بنگال سے لگنے والے صوبے اراکان کو عارضی طور پر برٹش انڈین ایمپائر کا حصہ بنا لیا گیا۔ (بعد ازاں برما کے لیے علیحدہ برطانوی نوآبادیاتی ڈھانچہ مرتب ہوا تاہم برٹش انڈین وائسرائے کا دفتر ہی برما کے بھی معاملات دیکھتا تھا )

انیسویں صدی کے وسط سے ہندوستانی مزدور کاشتکاری اور تعمیراتی ڈھانچے میں کھپانے کے لیے برطانوی سلطنت کے کونے کونے میں بھیجے جانے لگے۔ جنوبی افریقہ ہو کہ مشرقی افریقہ یا بحرالکاہل کے جزائر فجی کہ بحیرہ کیریبئین کے گنے کی پیداوار والے ویسٹ انڈین جزائر۔ بنگال ، اڑیسہ، بہار، مشرقی یوپی اور ترائی کے علاقوں سے بے روزگاروں کی فوج بحری جہازوں میں بھر بھر کے برطانوی نوآبادیات میں بھجوائی گئی۔ اس پالیسی کے تحت برما کے صوبے اراکان میں بھی بنگالی کسان آباد ہوئے۔ 1859 کی مردم شماری کے مطابق صوبہ اراکان کی پانچ فیصد آبادی مسلمان تھی۔ ان میں کچھ نسلی برمی بھی تھے جو پندھرویں صدی یا بعد میں مسلمان ہوئے اور باقی وہ تھے جن کے نسلی ڈانڈے چٹاگانک کے پہاڑی علاقے میں بولی جانے والی زبان سے جا ملتے ہیں۔

جب 1948 میں برما کو برطانیہ سے آزادی ملی تب شہریت کا کوئی جھگڑا نہیں تھا اور برما کے بودھ اکثریتی سماج کے درمیان مسلمان اقلیت بھی زندگی گذار رہی تھی۔ مسئلہ تب شروع ہوا جب فوجی جنرل نے ون نے جمہوری بساط لپیٹ کر 1962 میں اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اس اقتدار کو دوام دینے کے لیے متبادل نظریے کے طور پر برمی قوم پرستانہ جذبات کو ابھارا۔ سب سے پہلے تھائی لینڈ سے متصل شان صوبے کی نسلی اقلیت اکثریتی تعصب کا نشانہ بنی مگر اس نے سرجھکانے کے بجائے اپنے تحفظ کی خاطر ہتھیار اٹھا لیے۔ یوں جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے طویل نسلی جنگ کا بگل بج گیا۔

1971 میں مغربی سرحد پر واقع مشرقی پاکستان میں جاری خانہ جنگی سے تنگ آ کے بنگالیوں کی ایک تعداد نے سرحد پار بھارت میں پناہ لی تو چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں بسنے والی بنگالی آبادی میں سے بھی لگ بھگ پانچ لاکھ نے برما کے اندر سر چھپانے کی کوشش کی۔ چنانچہ مقامی بودھ اکثریت میں بے چینی پھیلنی شروع ہوئی اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی حکومت نے ڈیڑھ پونے دو سو برس سے آباد روہنگیوںکو بھی عارضی پناہ گیر بنگالیوں کے ساتھ نتھی کردیا۔جنرل نے ون کی حکومت نے بنگلہ دیش کی مجیب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بنگالی پناہ گزینوں کو واپس بلائے۔

1975 میں برما میں بنگلہ دیش کے سفیر خواجہ محمد قیصر نے کہا کہ بنگلہ دیش 1971 کے بعد برما میں پناہ لینے والے بنگالی شہریوں کو چھان پھٹک کے بعد واپس لینے کو تیار ہے۔ تاہم برما کا اصرار تھا کہ ان سب کو بنگلہ دیش قبول کرے جو نسلاً برمی نہیں۔

1978 میں جنرل نے ون کی حکومت نے لگ بھگ دو لاکھ افراد کو سرحد پار دھکیل دیا۔ ان کے بارے میں حکومتِ بنگلہ دیش نے کہا کہ نوے فیصد بنگلہ دیشی نہیں بلکہ اراکان کے روہنگیا مسلمان ہیں اس لیے برما کو انھیں واپس لینا پڑے گا۔

اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے برما کی حکومت ان پناہ گزینوں کو واپس لینے پر آمادہ تو ہوگئی لیکن 1982 میں شہریت کے قانون میں تبدیلی کر کے روہنگیا مسلمانوں کو برما میں آباد 135 نسلی گروہوں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔جب شہریت چھن گئی تو بطور غیر ملکی ان سے رہائش، صحت ، تعلیم اور روزگار سمیت بنیادی سہولتوں کا حق بھی چھن گیا اور اکثریت کے لیے وہ کھلونا بن گئے۔ برمی فوج نے اس اقلیت کو بیگار کے قلیوں کے طور پر استعمال کیا۔ ان کے چھوٹے موٹے کاروبار تباہ ہونے لگے۔ ان کے خلاف ہونے والے جرائم کی چھان بین سے پولیس نے منہ موڑ لیا۔ وہ بلا سرکاری اجازت شادی نہیں کر سکتے۔ دو سے زائد بچے پیدا نہیں کر سکتے اور اجازت نامے کے بغیر نہ املاک کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایک سے دوسری جگہ آ جا سکتے ہیں۔ گویا روہنگیوں کا مقام غریب کی جورو سے بھی ابتر ہو گیا۔

تازہ قیامت دو ہزار بارہ میں ٹوٹی جب ساحلی صوبہ رکھین میں افواہ پھیلی کہ کسی روہنگیا نے ایک بودھ لڑکی کو ریپ کر دیا۔ حقیقت کھلتے کھلتے دو سو کے لگ بھگ روہنگیا ہلاک ، ایک لاکھ چالیس ہزار بے گھر اور پچاس ہزار سے زائد بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں میں ایک بار پھر پناہ گیر ہو گئے۔ تب سے آج تک کوئی مہینہ نہیں گذرا کہ رکھین صوبہ سے جہاں روہنگیا اقلیت کا تناسب پچیس فیصد کے لگ بھگ ہے کسی نہ کسی پر تشدد نسلی واردات کی خبر نہ آتی ہو۔

ویسے تو 2009 کے بعد سے ہی وہ روہنگیا جو انسانی اسمگلروں کو پیسے دینے کی سکت رکھتے تھے برما سے فرار ہو کے پاکستان اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے لگے۔ مگر اس سال فروری سے کشتیوں کے زریعے فرار ہونے کے رجہان میں یوں تیزی آ گئی کہ اسمگلروں نے پیشگی معاوضہ وصول کرنے کی شرط ہٹا دی اور مصیبت زدگان سے وعدہ کیا کہ انھیں تھائی لینڈ، ملیشیا اور انڈونیشیا تک پہنچا دیا جائے گا۔ آگے آنے کی قسمت۔ تاہم جب تینوں ممالک نے ساحلی گشت بڑھا دیا اور پناہ گزینوں سے بھری کشتیوں کو کھلے سمندر میں واپس دھکیلنا شروع کیا تو اسمگلرز ان مصیبت کے ماروں کو بیچ سمندر میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ جنوبی تھائی لینڈ اور ملیشیا میں تارکینِ وطن کی کئی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں جنھیں اسمگلروں سے ملی بھگت کرنے والے بعض مقامی قبائل نے معاوضہ ملنے تک یرغمال بنائے رکھا اور پھرمایوس ہو کے دفنا دیا۔ ان قبروں سے ملنے والی اکثر لاشوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روہنگیوں کی ہیں۔

اس وقت صورت یہ ہے کہ کھلے سمندر میں لگ بھگ پچیس ہزار روہنگیا بے یارو مددگار کشتیوں میں ڈول رہے ہیں۔ بنگلہ دیش نے یہ کہہ کر انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ پہلے ہی ہزاروں روہنگیوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔

( 2014 کے قانون کے تحت برما میں روہنگیا کی اصطلاح پر ہی پابندی لگا دی گئی اور ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم مدساں ساں فرنٹئیر کو رکھین سے باہر نکال دیا گیا )۔

تھائی لینڈ ، ملیشیا اور انڈونیشیا نے بین الاقوامی لعن طعن کے بعد بیچ سمندر پھنسے روہنگیوں میں سے سات ہزار کو عارضی پناہ دینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ رومن کیتھولک اکثریتی ملک فلپینز نے انسانی ہمدردی کے تحت روہنگیا کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی ہے۔ گیمبیا واحد دور دراز مسلمان اکثریتی افریقی ملک ہے جس نے تمام پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسنے کی پیش کش کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان ہزاروں بھوکوں ننگوں بیماروں کو ہزاروں میل پرے گیمبیا کون پہنچائے کہ جس کا اپنا شمار دنیا کے دس غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔

اس پورے المئیے میں سب سے زیادہ صدمے کی بات انسانی و سیاسی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور ذاتی قربانیاں دینے والی برما کی ہیروئن آنگ سان سوچی کی مسلسل خاموشی ہے۔ ان کا صرف ایک حمائیتی بیان روہنگیوں کی زندگی قدرے آسان بنا سکتا تھا لیکن جب بھی ان سے اس بارے میں کوئی رپورٹر پوچھتا ہے تو وہ گول مول جواب سا جواب دے کے ٹال جاتی ہیں۔

برما میں اگلے برس پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ چونکہ سوچی کو اپنی انتخابی کامیابی کا یقین ہے لہذا روہنگیوں کی حالت کے بارے میں کوئی بیان دے کر برما کی نوے فیصد بودھ اکثریت کو سیاسی طور پر خود سے بدظن نہیں کرنا چاہتیں۔

ہائے… یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ انسانی حقوق کی علم برداری کے اعتراف میں ملنے والے نوبیل انعام کی حامل آنگ سان سوچی جیسی عالمی شخصیت محدود سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے اپنے بنیادی آدرش سے پیچھے ہٹ جائے۔

ح
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
خبر سنی ہے کہ پاکستان نے برمی مسلمانوں کو پناہ دینے کا فیصلہ دے دیا ہے ۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
السلام علیکم
@خضر حیات
میں نے خبر پڑہی ہے کہ حکومت پاکستان نے 50 ملین ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا ہے جو شاید انڈونیشیا کو دی جائے گی پناھ دینے کی بات ابھی تک نیوز میں نہیں آئی ، اس کے علاوہ سعودیہ اور عرب امارات بھی برمی مسلمانوں کی بحالی میں بہت بڑی امداد دیں گے وہ بھی شاید انڈونیشیا کے زریعے تو اس سے تاثر یہ ابھرتا ہے کہ انڈونیشیا کے جزائر پر فی الحال ان تاریکین کو آباد کیا جائے گا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے کل تاشقند میں خصوصی طور پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے ملاقات کی ہے اور ان کو برمی حکومت پر دباو ڈالنے پر زور دیا ہے ۔
 
Top