• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برکت کا معنی و مفہوم....... خطبہ جمعہ حرم مکی

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
برکت کا معنی و مفہوم.......23 محرم1434ھ

خطبہ جمعہ حرم مکی​
خطیب: صالح آل طالب
مترجم: عمران اسلم​
پہلا خطبہ
الحمد لله، تباركَ في ذاته وباركَ من شاءَ من خلقه، الحمدُ لله العليِّ الأكرم، لا يُوفِي قدرَه بشرٌ ولا يقومُ بحقِّه، ولا ينفكُّ مخلوقٌ من رِقِّه، ولا يستغنِي بشرٌ عن جُودِه ورِزقِه، هو الأولُ في هذا الوجود وله وحده القيامُ والسُّجود، وجودُه - سبحانه - لا يُشبِهُه وجود، وجُودُه - سبحانه - لا يُشبِهُه جُود، وبطشُه يبغَتُ المُعرِضين وهم في صحوِهم أو هم هُجود، أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبدُه ورسولُه، صلَّى الله وسلَّم وبارَك عليه، وعلى آله وصحبه والتابعين، ومن تبِعَهم بإحسانٍ إلى يوم الدين.
أما بعد!
اے لوگو میں تمھیں اور اپنے آپ کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہی وہ زاد راہ ہے جو مشکل وقت میں کام آنے والا ہے، غموں کا ساتھی، روح کے لیے باعث طمانیت، صبر و سکینت سے آگاہ کرنے والا، قوت و یقین عطا کرنے والا، انسان کو آسمان کی بلندیوں تک لے جانے والا، بہکتے وقت صائب راہ دکھانے والا اور دلوں کو فتنوں سے بچانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا [الأحزاب: 70، 71]
’’ اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو (70) اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی ۔‘‘
اے مسلمانو!
ہماری روز مرہ کی گفتگو کی میں ایک چیز ایسی ہے جو دنیا و آخرت کی بہت ساری بھلائیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اور وہ ہے ایک دوسرے کو برکت کی دعا دینا۔
جب ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے ملتا ہے تو کہتا ہے: السلامُ عليكم ورحمةُ الله وبركاته
اس دعا کے معنی برکت کو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں۔
اسی طرح جب ہم درود پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں:
«وبارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ كما باركتَ على إبراهيم»
اور قیام اللیل میں دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
«وبارِك لي فيما أعطيتَ»
ہم نوبیاہتا دلہا دلہن کو مبارک باد دیتے ہوئے کہتے ہیں:
«باركَ الله لكما، وباركَ عليكما»
ان تمام تر برکات کی کیا حقیقت ہے؟
اللہ کے بندو!
برکت کے اصل معنی استحکام، ہمیشگی اور پختگی کے ہیں۔ اور یہ بڑھوتری، نشوونما اور خیر کثیر کا نام ہے۔ کہا جاتا ہے: بارکہ اللہ و بارک فیہ و بارک علیہ و بارک لہ۔ اور مبارک وہ چیز ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ
’’ اور اب یہ بابرکت "ذکر" ہم نے (تمہارے لیے) نازل کیا ہے۔‘‘
مسلمانان گرامی! دنیا کی کسی بھی چیز میں برکت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت ہے، اس کا کلام مبارک ہے، اس کا رسول مبارک ہے، اس کا مؤمن بندہ خلق خدا کے لیے نفع کا باعث ہے، اس کا گھر بیت اللہ باعث برکت ہے، زمین کا ایک ٹکڑا جس کو شام کہا جاتا ہے، برکت کا باعث ہے، اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ کی بعض آیات میں اس کی برکت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ اور اس کے قریب جگہ کو بھی بابرکت بنایا ہے۔
یاد رہے کہ لفظ ’تبارک‘ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ بلند اور بزرگی والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور ہستی کے لیے لفظ ’تبارک‘ نہیں بولا جا سکتا۔ وہ ذات خود بھی بابرکت ہے اور جس چیز میں چاہتا ہے برکت ڈال دیتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: تعاظم و تعالی۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ذات کثرت خیر کی جامع، باعظمت اور صفات کمال کی حامل ہے۔ دنیا میں تمام تر منافع اور احسانات اسی ذات کے باوصف ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں اس کا جا بجا تذکرہ کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا:
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا [الفرقان: 1]
’’ نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو۔ ‘‘
اسی طرح فرمایا:
إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ [الأعراف: 54].
’’ در حقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے بڑا با برکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بعض اشخاص کو بابرکت بنایا۔ ان میں خیر و بھلائی جمع کر دی اور لوگوں کو ان سے نفع پہنچایا۔ جیسا کہ مسیحؑ نے فرمایا:
وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ [مريم: 31]
’’ اور میں جہاں ہوں (اور جس حال میں ہوں) مجھے صاحب برکت کیا ہے۔ ‘‘
برکت اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا فضل ہے جو ایسی جگہ سے آتاہے جہاں سے انسان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
ہر وہ امر جس میں بڑھوتری غیر محسوس طریقہ سے ہو اسے مبارک کہا جاتا ہے۔ اور اس میں برکت ہوتی ہے۔
برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا تحفہ ہے جو مادی اسباب سے ماوریٰ ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کی عمر میں برکت دیتا ہے تو اس کو اپنی اطاعت پر باقی رکھتا ہے یا اس میں بہت سی بھلائیاں جمع کر دیتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ مال میں برکت دیتا ہے تو اس کو بڑھا دیتا ہے اور صاحب مال کو توفیق دیتا ہے کہ وہ مال بھلائی اور اچھے کاموں میں خرچ کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اولاد میں برکت دیتا ہے تو اولاد کو ہدایت دے دیتا ہے اور اس کو نیک و صالح بنا دیتا ہے۔ اور جب اللہ بیوی میں برکت دیتا ہے تو شوہر کے لیے اس کو باعث راحت بنا دیتا ہے۔ جب وہ اس کی طرف دیکھتا ہے تو خوش ہو جاتا ہے۔ اور شوہر کی عدم موجودگی میں وہ اپنی عزت کی حفاظت کرتی ہے۔
جب اللہ تعالیٰ کسی کے اعمال میں برکت ڈالتا ہے تو اس کے تمام اعمال خالص اللہ کے لیے اور نبیﷺ کی اتباع میں ہو جاتے ہیں۔
امام ابن قیم فرماتے ہیں:
وكلُّ شيءٍ لا يكونُ لله فبركتُه منزوعةٌ؛ فإن الله تعالى هو الذي تباركَ وحده، والبركةُ كلُّها منه
’’ ہر وہ چیز جو اللہ کے لیے نہ ہو وہ برکت سے خالی ہوتی ہے۔ بابرکت ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور کامل برکت صرف اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔‘‘
امام احمد ’الزہد‘ میں صحیح سند کے ساتھ ایک روایت لائے ہیں جس میں ہے:
«يقول الربُّ - تبارك وتعالى -: إني إذا أُطِعتُ رضيتُ، وإذا رضيتُ باركتُ، وليس لبركتي نهاية»
’’اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: جب میں پیروی کیا جاتا ہوں تو میں خوش ہوتا ہوں۔ اور جب میں خوش ہوتا ہوں تو برکت دیتا ہوں اور میری برکت کی کوئی حد نہیں ہے۔‘‘
سلف صالحین کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو نزول برکت کی بہت ساری مثالیں اور حیران کن واقعات ملتے ہیں۔ حالانکہ وہ ہماری ہی طرح کے انسان تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال و عمروں میں برکت دی۔ پوری مخلوق سے سب سے زیادہ صاحب شرف شخصیت نبی کریمﷺ کی ہے۔ جیسا کہ دنوں میں سب سے اعلیٰ و اشرف دن جمعہ کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شخصیت میں ایسی برکت ڈالی کہ صرف 23 سال کی دعوت و تبلیغ کے بعد پوری زمین کا وارث بنا دیا۔
حضرت ابوبکر کا دور خلافت صرف دو سال اور کچھ ماہ پر مشتمل تھا۔ آپ کے دور میں حقیقی برکت آئی جس کا اندازہ تاریخ کے سرسری مطالعے سے کیا جا سکتا ہے۔
امام شافعیؒ کی عمر صرف 54 سال تھی اسی طرح امام طبری، نووی اور ابن تیمیہؒ وغیرہم نے ہمارے لیے بطور وراثت جو علم اور تالیفات چھوڑی ہیں ان کے لیے بہت لمبی لمبی عمریں درکار ہیں۔ انھوں نے جس قدر کام کیا وہ اب جماعتیں مل کر بھی نہیں کر سکتیں۔ یہ سب اللہ کی مدد کے بغیر اور ان کے اوقات میں برکت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
جہاں تک لوگوں کی زندگی میں برکت کی بات ہے تو ان کو تھوڑا سا رزق پورے دن کے لیے کافی ہوتا تھا، ایک ایک گھر میں پورا خاندان رہ لیتا تھا، ایک شخص کا کھانا دو لوگوں کو کفایت کر جاتا، ان پر قناعت سایہ فگن تھی، رضا ان کے لیےموجود تھی اور ان پر سعادت کی برکھا برس رہی تھی۔
اور آج لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ ان کے رزق تنگ ہو گئے ہیں یا زندگیاں کم ہو گئی ہیں؟ ان کے اوقات مختصرہو گئے ہیں یا ان کی ہمتیں جواب دے گئی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت لوگوں پر خوشحالی کے جو دروازے کھلے ہوئے ہیں اس سے پہلے کبھی نہ تھے، زمین نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے ہیں۔ اموال اور تجارتوں میں حد درجہ اضافہ ہو گیا ہے۔ نئی ایجادات نے کمانے کے ذرائع میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ تو پھر بھی کیا لوگوں کی غربت میں اضافہ نہیں ہوا؟ کیا ان کے حصے میں فقط بدبختی ہی نہیں آئی۔
دنیا کی اکثریت غربت، افلاس اور وقت کی کمی کا رونا رو رہی ہے۔ لوگوں کو مستقبل کی فکر ہلکان کیے ہوئے ہے۔ باوجودیکہ خوشحالی کےتمام اسباب موجود ہیں۔ تو سوچنے کی بات یہ کہ خرابی کس جگہ پر ہے؟ برکت کیوں غائب ہو گئی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ليست البركةُ من الكثرة، ولكنَّ الكثرةَ من البركة
’’کثرت کی وجہ سے برکت نہیں ہوتی بلکہ برکت کی وجہ سے کثرت ہوتی ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«ليست السَّنةُ بألا تُمطَروا، ولكنَّ السنةَ أن تُمطَروا وتُمطَروا ثم لا يُبارَكُ لكم فيه»؛ رواه مسلم.
’’سنت یہ نہیں ہے کہ بارش ہونا بند ہو جائے بلکہ سنت یہ ہے کہ بارش تو ہو لیکن وہ تمہارے لیے باعث برکت نہ ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [الأعراف: 96]
’’ اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے۔ تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔ سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا ۔‘‘
بلاشبہ ایمان و تقویٰ اور عمل صالح برکت، اطمینان اور رضا کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا [طه: 124]
’’ اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے۔ ‘‘
ہاں یہ اللہ تعالیٰ سے اعراض ہی ہے کہ ہم پر زندگی تنگ ہو گئی ہے۔
بڑی بڑی اقتصادی طاقتوں کو بہت سارے علم و تدبر کے باوجود تباہ ہونے کا خوف کیوں طاری ہے؟ دنیا کے بہت سارے طاقتورممالک نقض امن کا شکار ہیں۔ وہ بہت سارے قوانین، سہولتوں اور انتظامات کے باوجود جنگوں، قتل و غارت گری اور اضطراب کا شکار ہیں۔
دنیا کے تمام تر معاملات چلانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور دنیا کے معاملات صرف اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ہی درست چل سکتے ہیں۔ا س کے احکامات کے بغیر خوشحالی اور خوش بختی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ [البقرة: 276]
’’ خدا سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے۔ ‘‘
ایک جگہ فرمایا:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ [الأنعام: 82]
’’ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا۔ان کے امن (اور جمعیت خاطر) ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔ ‘‘
مزید فرمایا:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل: 97]
’’ جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔‘‘
ایمان، تقویٰ اور اعمال صالحہ برکت ، خوش بختی اور رضا کا سبب جبکہ گناہ برکت اور سکون کے خاتمے اور رزق میں تنگی کا باعث ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ [النحل: 112]
’’ اور خدا ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے کہ (ہر طرح) امن چین سے بستی تھی ہر طرف سے رزق بافراغت چلا آتا تھا۔ مگر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا) مزہ چکھا دیا۔ ‘‘
بھوک اور خوف ایسی چیزیں ہیں جو ہر انسان کو پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
اللہ کی سنت افراد پر بھی اسی طرح جاری ہوتی ہے جس طرح امتوں اور بستیوں پر جاری ہوتی ہے۔
حکیم بن حزامسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«البيِّعانِ بالخِيار ما لم يتفرَّقَا، فإن صدَقَا وبيَّنَا بُورِكَ لهما في بيعِهما، وإن كذَبَا وكتَمَا مُحِقَت بركةُ بيعِهما»؛ رواه مسلم.
’’دو بیع کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہو جائیں۔ اگر تو وہ سچ بولیں اور (چیز میں اگر عیب ہے تو) بیان کردیں تو ان کی بیع میں برکت ڈالی جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور عیب چھپائیں تو ان کی بیع میں سے برکت جاتی رہتی ہے۔‘‘
حضرت ابن عمر سے مروی ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے برکت کو ختم کرنے والے، غربت اور تنگی بڑھانے والے کام بتائے ہیں۔ جن میں فحاشی کا پھیلنا، کم تولنا، زکوٰۃ ادا نہ کرنا، وعدوں کی پاسداری نہ کرنا، امانت میں خیانت کرنا اور اللہ کی شریعت سے ہٹ کر فیصلے کرنا ہے۔
کیا یہ چیزیں تاجروں اور دکانداروں کے حاشیہ خیال میں ہیں؟ کیا یہ چیزیں ان کو یاد ہیں جو رشوت زنی، دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی پر لگے ہوئے ہیں۔ کیا یہ چیزیں ان لوگوں کو یاد ہیں جو مؤمنین میں غیر اخلاقی حرکات اور فحاشی پھیلانے میں مصروف ہیں؟
بے شبہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ [الشورى: 30]
’’ اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے فعلوں سے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف ہی کردیتا ہے۔‘‘
مزید فرمایا:
أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ [آل عمران: 165].
’’ (بھلا یہ) کیا (بات ہے کہ) جب (اُحد کے دن کافر کے ہاتھ سے) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوچند مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑچکی ہے توتم چلا اٹھے کہ (ہائے) آفت (ہم پر) کہاں سے آپڑی۔کہہ دو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبر کے حکم کے خلاف کیا)۔ ‘‘
اللہ کے بندو!
تقوی و للّٰہیت کو لازم پکڑو، جس کے اثرات تمہارے جسموں میں نظر آئیں گے، تمہارے نفوس کو سکون حاصل ہو گا، تمھیں خوش بختی عطا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سے برکت کا سوال کرتے رہو اور اس کے اسباب کی تلاش میں رہو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ [آل عمران: 132]
’’اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
اللهم بارِك لنا في القرآن العظيم، واهدِنا صراطَك المُستقيم، أقولُ قولي هذا، وأستغفر الله تعالى لي ولكم.
دوسرا خطبہ
الحمد لله رب العالمين، الرحمن الرحيم، مالك يوم الدين، وأشهد أن لا إله إلا الله الملكُ الحقُّ المُبين، وأشهد أن محمدًا عبدُه ورسولُه الصادقُ الأمين، صلَّى الله وسلَّم وبارَكَ عليه، وعلى آله وصحبه أجمعين.
أما بعد، اللہ کے بندو!
صحیحین میں حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ مجھے کعب بن عجرۃ ملے اور کہنے لگے: میں آپ کو وہ تحفہ نہ دوں جو میں نے اللہ کے رسولﷺ سے سنا تھا؟ میں نے کہا ضرورعنایت کیجئے! تو آپ نے کہا ہم نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا یا رسول اللہ ہم آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو:
«اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد»
”اے اللہ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے۔‘‘
ہم ان لفاظ کے ساتھ نبی کریمﷺ کے لیے دعا کرتے ہیں:
«وبارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على آل إبراهيم»
یہ چیز اس بات کو متضمن ہے کہ جو خیر اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم کو عطا کیا وہ نبی کریمﷺ او ر آپﷺ کی آل کو بھی عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ سے متعلق فرمایا:
وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ [الصافات: 113]
’’ ور ہم نے ان پر اور اسحاق پر برکتیں نازل کی تھیں۔ ‘‘
اور ابراہیم اور ان کی آل سے متعلق فرمایا:
رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود: 73]
’’ اے اہل بیت تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔ وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے۔ ‘‘
فاللهم صلِّ وسلِّم وبارِك على عبدك ورسولِك محمدٍ، وعلى آله الطيبين الطاهرين، وارضَ اللهم عن صحابةِ رسولِك أجمعين، ومن تبِعَهم بإحسانٍ إلى يوم الدين.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، اللهم أعِزَّ الإسلام وانصُر المسلمين، واخذُل الطغاةَ والملاحِدةَ والمُفسِدين، اللهم انصُر دينكَ وكتابك وسنةَ نبيك وعبادكَ المُؤمنين.
اللهم أبرِم لهذه الأمة أمرَ رُشدٍ يُعزُّ فيه أهلُ طاعتك، ويُهدَى فيه أهلُ معصيتِك، ويُؤمَرُ فيه بالمعروف، ويُنهَى عن المُنكر يا رب العالمين.
اللهم من أرادَ الإسلامَ والمسلمين بسوءٍ فأشغِله بنفسه، ورُدَّ كيدَه في نحرِهِ، واجعل دائرةَ السَّوءِ عليه يا رب العالمين.
اللهم انصُر المُجاهدِين في سبيلك في فلسطين، وفي بلاد الشام، وفي كل مكانٍ يا رب العالمين، اللهم فُكَّ حِصارَهم، وأصلِح أحوالَهم، واكبِت عدوَّهم.
اللهم حرِّر المسجدَ الأقصى من ظُلم الظالمين، وعُدوان المُحتلِّين.
اللهم أصلِح أحوالَ المسلمين في كل مكان، اللهم أصلِح أحوالَ المسلمين في كل مكان، اللهم أصلِح أحوالَهم في سوريا، اللهم اجمَعهم على الحقِّ والهدى، اللهم احقِن دماءهم، وآمِن روعاتهم، وسُدَّ خَلَّتهم، وأطعِم جائعَهم، واحفَظ أعراضَهم، واربِط على قلوبهم، وثبِّت أقدامَهم، وانصُرهم على من بغَى عليهم، اللهم فُكَّ حِصارَهم، اللهم فرَجك القريب.
اللهم وفِّق وليَّ أمرنا خادمَ الحرمين الشريفين لما تحبُّ وترضى، وخُذ به للبرِّ والتقوى، اللهم وفِّقه ونائبَه وإخوانَهم وأعوانَهم لما فيه صلاحُ العباد والبلاد.
اللهم لك الحمدُ على ما أنعمتَ به من شفاء خادم الحرمين الشريفين، اللهم أتِمَّ عليه عافيتك، وألبِسه لباسَ الصحة وتمام الشفاء، اللهم وفِّق وُلاةَ أمور المُسلمين لتحكيم شرعِك، واتباع سنة نبيِّك محمدٍ - صلى الله عليه وسلم -، اللهم اجعلهم رحمةً على عبادك المُؤمنين.
اللهم انشُر الأمنَ والرخاءَ في بلادنا وبلاد المُسلمين، واكفِنا شرَّ الأشرار، وكيدَ الفُجَّار، وشرَّ طوارِق الليل والنهار.
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201]، رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ [آل عمران: 147].
اللهم اغفر ذنوبنا، واستُر عيوبَنا، ويسِّر أمورنا، وبلِّغنا فيما يُرضِيك آمالنا، اللهم اغفر لنا ولوالدينا ووالدِيهم وأزواجنا وذُرِّياتنا، إنك سميعُ الدعاء. اللهم إنا نسألُك رِضاك والجنةَ، ونعوذُ بك من سخَطك ومن النار، اللهم اجعلنا من عُتقائِك من النار. نستغفِرُ الله، نستغفِرُ الله، نستغفِرُ الله الذي لا إله إلا هو الحيَّ القيومَ ونتوبُ إليه.
اللهم أنت الله لا إله إلا أنت، أنت الغني ونحن الفقراء، أنزِل علينا الغيثَ ولا تجعلنا من القانِطين، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا غيثًا هنيئًا مريئًا سحًّا طبَقًا مُجلِّلاً، عامًّا نافعًا غيرَ ضارٍّ، تُحيِي به البلاد، وتسقِي به العباد، وتجعلُه بلاغًا للحاضِر والبَادِ.
اللهم سُقيا رحمة، اللهم سُقيا رحمة، اللهم سُقيا رحمة، لا سُقيا عذابٍ ولا بلاءٍ ولا هدمٍ ولا غرق.
ربَّنا تقبَّل منا إنك أنت السميعُ العليم، وتُب علينا إنك أنت التوابُ الرحيم.
سبحان ربِّك رب العزة عما يصفون، وسلامٌ على المرسلين، والحمد لله رب العالمين.


لنک
 
Top