• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برکت یا تمناوٴں کی قربانی؟۔۔۔۔ مجھے اس مضمون نے آبدیدہ کر دیا۔۔۔۔۔

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
برکت یا تمناوٴں کی قربانی؟

تحریر : تابش نیاز (اندھیری،ممبئی )
-----------------------علماء طبقہ جس معاشی بدحالی وتنگ دستی کاشکارہے،اس کاحقیقی ادراک وہی کرسکتاہے جوخوداسی طبقہ کا ہو، رہے اہل ثروت واغنیاء اورقوم کے رکھوالے تو ان کی نظر میں علماء کی بدحالی وتنگ دستی کاتصوربھی کبیرہ گناہ ہے بلکہ اس طرح کی باتیں کرنا علماء کی توہین اوران کے ساتھ سوء ظن ہے ،کیونکہ ان کی نظر میں علماء کی تنخواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو اس میں بڑی خیروبرکت ہوتی ہے اورایک عالم حیرت انگیزطور پرمحض دوتین ہزار ماہانہ مشاہر ہ میں اپنی پوری فیملی کی دیکھ بھال احسن طریقے سے کرلیتاہے۔
بعض اہل ثروت ایک پل کے لیے حیرت واستعجاب میں پڑتے ہیں کہ آخراتنی قلیل آمدنی میں یہ سفید پوش کیسے گزارہ کرلیتے ہیں لیکن دوسرے انھیں یہ کہہ کرمطمئن کردیتے ہیں کہ بھائی یہ عالم لوگ ہیں، اللہ سبحانہ تعالی ان کی قلیل آمدنی میں ایسی برکتیں نازل کرتاہے جس کی توقع ہم اپنی کروڑوں کی دولت میں نہیں کرسکتے۔ برکت کا یہ نام سن کر اہل ثروت نہ صرف مطمئن ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے تئیں بے فکر بھی ہوجاتے ہیں اوربعید نہیں کہ بعض حسدوکینہ کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہوں کہ یہ لوگ محض چند کوڑیوں کے مالک ہوکر خوشحال زندگی کیسے بسرکرلیتے ہیں۔
ذراسوچئے کہ جب اہل ثروت کی یہ ذہن سازی کی گئی ہے کہ علماء طبقہ ہرحال میں حوشحال اور آسمانی برکتوں سے مالامال ہے تو بھلاکس کو پڑی ہے کہ ان کی حالت زارپرترس کھائے اورانھیں بدحالی سے نجات دلانے کی کوئی تدبیر کرے۔
جہاں تک علماء کا حال ہے تو یہ بے چارے فقط یہ سن کرہی پھولے نہیں سماتے کہ وہ زہد وتقوی اورمعرفت باللہ کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے مال ومتاع میں حیرت انگیزطور پر برکت ہوتی ہے،یقینابعض علماء برکت کام نام سن کر ضرور تلملاتے ہوں گے لیکن یہ سوچ کر خاموشی ا ختیار کرلیتے ہوں گے کہ اگرہم نے برکت سے انکارکیا تو ہمارے زہدوتقوی پرسوالیہ نشان لگ جائے گا! اس لیے قوم اگر ہمیں مفت میں برکت کا تمغہ دے رہی ہے تو آج کے پرنفرت ماحول میں یہی غنیمت ہے۔
برکت کے تمغہ پر سمجھوتہ کرنے والے مسکین علماء یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ تنخواہ کے معاملے میں جوقوم انھیں بابرکت سمجھتی ہے وہی قوم ان کے کرداروعمل کی دن رات دھجیاں بکھیرتی ہے،ہرگلی چوراہے اورہوٹل پر بیٹھے اہل ثروت انھیں موضوع بحث بناتے ہیں اورنہ صرف یہ کہ انھیں بدکرداروبدعمل گردانتے ہیں بلکہ ان کے مقدراورقسمت کے فیصلے بھی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔
آخریہ کیساتضادہے کہ جب علماء کے کرداروعمل کی بات آئے تو قوم انھیں حد درجہ بے عمل اورانتہائی بدکرداربتلائے ، لیکن جب یہی قوم ان کی تنخواہوں پر بات کرے توانھیں سراپا بابرکت اورنفوس قدسیہ گردانے!!!
سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی علماء کی قلیل تنخواہیں بڑی بابرکت ہوتی ہیں؟ غورکیجیے کہ آج کے علماء کی تنخواہوں میں برکت کی جس جھوٹی تسلی کا چرچا ہورہا ہے اس کی نظیر تو عہد صحابہ وتابعین کے علماء میں بھی نہیں ملتی ، علمائے سلف کی سیرتوں میں ہمیں یہ توملتاہے کہ انھوں نے بڑی مفلسی کی زندگی گزاری اورحصول علم کی خاطراپناسب کچھ قربان کردیا لیکن ایساکوئی سراغ نہیں ملتاکہ ان کی قلیل آمدنی میں اس قدر برکت ہوئی ہوکہ انھوں نے اپنے بال بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی بسرکی، پھر سوال پیداہوتاہے کہ آج کے علماء کے پاس یہ برکت کہاں سے آگئی؟؟؟ اگرکہا جائے کہ آج کے علماء کی آمدنی میں برکت نہیں ہوتی ہے تو پھر اس عقدہ کا کیا حل ہے کہ وہ اپنی کم سے کم تنخواہوں میں بھی زندگی بسرکرلیتے ہیں،اگریہ برکت نہیں ہے توپھر اورکیاہے؟؟
توآئیے ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ آج کے علماء کن برکتوں سے مالال ہیں، ایک عالم بے چارہ کبھی مارکیٹ کی سیر کرتاہے توکئی تمنائیں اس کے سامنے ہاتھ جوڑکر کھڑی ہوجاتی ہے ، گڑگڑا کرفریادکرتی ہیں کہ برسوں سے مجھے دھتکارتے آئے ہو اس بار توگلے لگالو ، کپڑے کی دوکان پر نظر پڑتی ہے اورتمنا جاگتی ہے کہ اس بار یہ عمدہ کپڑا سلانا چاہیے، لیکن جوں ہی جیب ٹٹولتا ہے ساری تمنائیں ہوا ہوجاتی ہیں، اوراس کی جگہ اپنی کچھ تقریریں یاد آنے لگتی ہیں کہ ہم نے عوام کے سامنے کتنی بار تواضع وانکساری پر بیانات دیے ہیں، آخر ہمیں بھی تو اس پر عمل کرنا چاہیے ،پھریکایک اس کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں اوروہ یہ سوچ کر مگن ہوجاتاہے کہ ہمارے پاس توعلم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہے ، ارے ہم تو عالم باعمل ہوگئے پھراسے ان لوگوں پر غصہ آنے لگتاہے جو علماء پرآوازیں کستے ہیں اورکہتے ہیں کہ آج کے علماء باعمل نہیں ہوتے، بالآخراس کی یہ تمناتواضع وانکساری کے خوبصورت کفن میں لیٹ کرزندہ درگوہوجاتی ہے۔
آگے بڑھتاہے موبائل کی دوکان نظرآتی ہے ،سوچتاہے کیونکہ نہ ایک اچھا اورنیا موبائیل فون خریدلیا جائے جو تمام تر سہولیات سے لیس ہو ، دفعتہ ذہن کے کسی گوشے سے آوازآتی ہے کہ یہ فضول خرچی ہے، اس آواز کا محرک زہدوتقوی نہیں بلکہ متواتر محرومی اورمسلسل تنگ دستی ہے جس نے فضول خرچی کی گردان ازبرکرادی ہے اورایک نئی تمنا کے ظہور پر عادتاً ذہن اس طرف منتقل ہوگیا ،لیکن چونکہ ابھی جیب پرنظر نہیں ہے اس لیے عالم ہونے کافائدہ اٹھاتے ہوئے بے بس دل چند مطلب کی آیات و روایات مستحضرکرنے کی کوشش کرتا ہے بالآخراس کے ذہن میں﴿وَلَا تَنْسَ نَصِیبَکَ مِنَ الدُّنْیَا﴾جیسی آیت اوراس سے ملتی جلتی روایات آتی ہیں اوراس پرمستزاد یہ خیال کہ نئے موبائل سے اہل علم کے بیانات محفوظ کرسکتے ہیں،کبار اہل علم سے سوالات کرکے ان کے جوابات ریکارڈ کرسکتے ہیں،یعنی اس سے تو دعوت وتبلیغ میں بھی آسانی ہوگی۔
آیات واحادیث اورجوش تبلیغ کے سایے میں اس نیک تمنا کاجنم تو ہوجاتاہے لیکن جب اصل مرحلہ آتاہے جیب سے پیسہ نکالنے کا، توبے چارہ عالم اپنے دلائل کے ضعف اوراستدلال کی کمزوری پرماتم کرنے لگتاہے، اپنی غربت و افلاس کوکوئی نام نہیں دے سکتا تو اسے شیطانی وسوسہ باورکرتاہے، جھٹ اس کی رگ عا لمیت پھڑک اٹھتی ہے اوروہ چنددوسری آیات واحادیث کی تلاش میں لگ جاتاہے اورانجام کاراس کی یہ تمنا بھی شہیدہوکررہ جاتی ہے۔
آگے بڑھتاہے کوئی بہترین ہوٹل نظر آتاہے ایک لمحہ کے لیے خیال آتاہے کہ اس میں کبھی کچھ تناول فرماناچاہیے لیکن یہاں بھی اس کی خواہش کا جنازہ نکل جاتاہے۔
یہ صرف چندمثالیں ہیں تمناوٴں کی قربانی کی،ایک عالم روزانہ نہ جانے کتنی تمناوٴں کی قربانی دیتاہے تب جاکراس کی صبح سے شام ہوتی ہے اوریہی حال پورے ماہ اورپورے سال کا ہوتا ہے۔
بات صرف تمناوٴں کی نہیں بلکہ ضروریات تک سے بھی دست بردارہوناپڑتاہے، نہ جانے کتنی بیماریاں آتی ہیں اوربغیرعلاج معالجہ کے رخصت ہوجاتی ہیں، کچھ اندازہ نہیں کتنے مہمان آئے اورمعمولی خاطرداری پر انھیں الواداع کہنا پڑا،کوئی حساب نہیں کتنے دن گزرے جن میں عدم بھوک کے نام پرفاقے کیے گئے وغیرہ وغیرہ۔
اسی پربس نہیں بلکہ ایسی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں جوتمناوٴں، ضروریات اور جذبات کا مجموعہ ہوتی ہیں، ایک عالم کسی ضرورت کے تحت اہل وعیال کے ساتھ باہر نکلاہے ،راہ میں قدم قدم پروہ قربانیاں تودے ہی رہا ہے اسی بیچ اس کے معصوم بچے کی نظرسیب ،انار، انگوریا اس جیسے مہنگے پھلوں پرپڑتی ہے اور مطالبہ کربیٹھتاہے، باپ کے بھی جذبات ہوتے ہیں لاچار جیب میں ہاٹھ ڈالتاہے مگرلاحاصل، ناسمجھ بچے کو سمجھانے کی کوشش کرتاہے لیکن بے سود، بالآخر جذبات کو برانگیختہ کرنے والے معصوم بچے کے آنسوہی اس کے جذبات کو سرد کردیتے ہیں ۔
الغرض یہ کہ کم آمدنی میں عالم کی تمنائیں پوری نہیں ہوتیں بلکہ عالم اپنی تمنائیں قربان کرتاہے، قلیل تنخواہ میں عالم کی ضروریات کی تکمیل نہیں ہوتی بلکہ عالم ان ضروریات سے دست بردارہوتاہے،یہ تمناوٴں، ضروریات اورجذبات کی قربانی ہے جسے قوم نے برکت کا نام دیا ہے ۔
دنیائے مظلومیت کی یہ کیسی بوالعجبی ہے ، برکت کے مقدس نام پر ظلم کیا جارہا ہے، اس سے بڑا ظلم کیا ہوگاکہ ایک عالم کوپریشانیوں سے نجات دلانا تودورکی بات، اس کی پریشانیوں کو خوشحالیوں کا نام دے دیا گیا!!
اس سے بڑاستم کیا ہوگا کہ ایک عالم کی قربانیوں کی قدرکرنا تودورکی بات ،اس پربرکت کاپردہ ڈال کرقوم کی نظروں سے اسے اوجھل کردیا گیاہے!!!
آج کے علماء ایسے مقام پرکھڑے ہیں کہ ان کے دکھ درد کو سوائے ان کے کوئی اورنہیں سمجھ سکتااس لیے اب انھیں خود حرکت میں آناہوگا، اللہ کا نام لے کرانھیں خود کوئی اقدام کرنا ہوگا، اگرایسانہ کیا گیا تو دنیاتو برباد آخرت کے بھی خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے ،ایسانہ ہوکہ علم دین ہی ان پریشانیوں اوردشواریوں کا سبب قرارپائے اوررفتہ رفتہ علم دین کے ساتھ ساتھ دین سے بھی نفرت ہونے لگے، اوردنیاکے ساتھ ساتھ عاقبت بھی برباد ہوجائے ،اس لیے دوسروں سے امیدوں کی وابستگی ختم کرکے اللہ کانا م لے کراپنے پاوٴں پرکھڑے ہوجاناہی موجودہ صورت حال میں مناسب اورکارآمد حل ہے۔
http://www.ahlulhdeeth.com/vb/showthread.php/100-برکت-یا-تمناوٴں-کی-قربانی؟?p=1476#.UjRfttLdedc
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آخریہ کیساتضادہے کہ جب علماء کے کرداروعمل کی بات آئے تو قوم انھیں حد درجہ بے عمل اورانتہائی بدکرداربتلائے ، لیکن جب یہی قوم ان کی تنخواہوں پر بات کرے توانھیں سراپا بابرکت اورنفوس قدسیہ گردانے!!!
میرے خیال سے اس پوری تحریر کا خلاصہ بالا دو سطروں میں موجود ہے ۔ لوگ واقعتا علماء کے بارے میں اس عملی تضاد کا شکار ہیں ۔
اللہ بہتر جانتا ہے ویسے آج کل وہ لوگ جو مذہبی پیشوا بن کر معاشرے میں منظر عام پر آئے ہیں وہ سارے کے سارے ایک جیسے نہیں ہیں ۔
 
Top