باب 4: بریلوی تعلیمات
جس طرح بریلوی حضرات کے مخصوص عقائد ہیں، اسی طرح ان کی کچھ مخصوص تعلیمات بھی ہیں جو اکل و شرب اور کسب معاش کے گرد گھومتی ہیں۔ مذہب بریلویت میں اکثر مسائل صرف اس لئے وضع کیے گئے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے سادہ لوح عوام کو اپنے جال میں پھنسا کر کھانے پینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ بریلوی ملّاؤں نے نئے نئے مسائل وضع کر کے اور نئی نئی بدعات گھڑ کے دین کو ایسی نفع بخش تجارت بنا لیا ہے، جس میں راس المال کی بھی ضرورت نہیں رہی۔
بریلوی حضرات نے مزارات کی تعمیر کا حکم دیا اور خود ان کے دربان اور مجاور بن کر بیٹھ گئے۔ نذر و نیاز کے نام پر جاہل لوگوں نے دولت کے انبار لگا دئیے۔ انہوں نے اسے سمیٹنا شروع کیا اور ان کا شمار بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں میں ہونے لگا۔
غریبوں کا خون چوس کر بزرگوں کے نام کی نذر و نیاز پر پلنے والے یہ لوگ دین کے بیوپاری اور دنیا کے پجاری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک اسلامی معاشرہ نہیں کہلا سکتا، جب تک وہ توحید باری تعالیٰ کے تصور سے آشنا نہ ہو۔ پاکستان میں جب تک شرک و بدعت کے یہ مراکز موجود ہیں، اس وقت تک اسلامی نظام کے نفاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
مریدوں کی جیبوں پر نظر آنے والے یہ دنیا کے بھوکے پیران و مشائخ جب تک انسان کو انسان کی غلامی کا درس دیتے رہیں گے،اس وقت تک ہمارا معاشرہ توحید کی شان و شوکت سے آشنا نہیں ہو سکتا، اور جب تک کسی معاشرے میں توحید کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں، اس وقت تک الحاد و لادینیت کا مقابلہ ایں خیال است و محال است و جنوں کا مصداق ہے !
ہمیں الحاد و لادینیت کے سیلاب کو روکنے کے لیے انسان کی غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش کرنا ہو گا اور معاشرے کے افراد کو توحید کا درس دینا ہو گا۔
"اللہ ہو" کے سر پہ سر دھننا، قوالی کے نام پر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ناچتے اور غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہوئے، دامن پھیلا کر مانگتے ہوئے اور سبز چادر کے کونے پکڑ کر دست سوال دراز کرتے ہوئے مزاروں پر چڑھاوے کے لیے جانا۔ ۔ ۔ ۔ مضحکہ خیز قصے کہانیوں کو کرامتوں کا نام دینا، کھانے پینے کے لئے نت نئی رسموں کا نکالنا چنانچہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جب سوچتا ہے کہ اگر اس کا نام مذہب ہے، تو وہ الحاد و لادینیت کے خوب صورت جال کا شکار بن جاتا ہے۔
برا ہو ان ملّاؤں اور پیروں کا، جو دین کا نام لے کر دنیا کے دھندوں میں مگن رہتے اور حدود اللہ و شعائر اللہ کو پامال کرتے ہیں۔ یہ قبر پرستی کی لعنت، یہ سالانہ عرس اور میلے، یہ گیارہویں، قل اور چالیسواں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ سب دنیا کی دولت کو جمع کرنے کے ڈھنگ ہیں، مگر کون سمجھائے ان مشائخ و پیران طریقت کو؟
یہ لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باند کر دنیا میں بھی اپنا منہ کالا کر رہے ہیں اور اپنی عاقبت کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ جو لوگ انہیں روکتے اور ان کی حرکتوں سے منع کرتے ہیں، انہیں وہابی اور اولیائے کرام کا گستاخ کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کو دیکھنا 1اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ 2
مبادا لوگ ان کی وعظ و نصیحت سے متاثر ہو کر راہ راست پر آ جائیں اور ان کی دنیا داری خطرے میں پڑ جائے۔
آئیے اب بریلویت کی تعلیمات کا جائزہ لیں اور کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ خود فقہ حنفی کے ساتھ ان کا موازنہ کریں، تاکہ پتہ چلے کہ ان لوگوں کے افکار و تعلیمات کی سند نہ کتاب و سنت سے ملتی ہے اور نہ فقہ حنفی سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احمد یار گجراتی لکھتے ہیں :
"صاحب قبر کے اظہار عظمت کے لیے قبہ وغیرہ بنانا شرعاً جائز ہے۔ 3"
مزید:
"علماء اور اولیاء و صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے، جب کہ اس سے مقصود ہو کہ لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ جانیں۔ 4"
جب کہ حدیث میں صراحت موجود ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر کو چونا گچ کرنے، پختہ بنانے اور اس پر کوئی قبہ وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔ 5"
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی طور پر حکم دیا تھا کہ وہ اونچی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں۔ 6
حضرت عمر بن الحارث رضی اللہ عنہ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے کہ انہوں نے کہا:
"روم میں ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا تو حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کا حکم دیتے ہوئے سنا ہے۔ 7"
اب فقہ حنفی کی نصوص ملاحظہ فرمائیں :
"قبروں کا پختہ بنانا ممنوع ہے۔ 8"
امام محمد بن الحسن سے پوچھا گیا کہ کیا قبروں کو پختہ بنانا مکروہ ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا"ہاں !9"
امام سرخسی رحمہ اللہ المسبوط میں فرماتے ہیں :
"قبروں کو پختہ نہ بناؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔ 10"
قاضی خاں اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں :
"قبر کو پختہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی اس پر قبہ وغیرہ تعمیر کیا جائے، کیونکہ امام ابوحنیفہ سے اس کی نہی وارد ہوئی ہے۔ 11"
امام کاسانی کا ارشاد ہے :
"قبر کو پختہ بنانا مکروہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ نے قبر پر قبہ وغیرہ بنانا مکروہ سمجھا ہے۔ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ البتہ قبر پر پانی چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں، مگر امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ پانی چھڑکنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے قبر پختہ ہوتی ہے۔ 12"
ملاحظہ ہو بحرالرائق،13
بدائع الصنّائع14
فتح القدیر15
ردّ المختار علی درّ المختار16
فتاویٰ ہندیہ،17
فتاویٰ بزازیہ18
کنز الدّقائق19 وغیرہ۔
قاضی ابراہیم حنفی فرماتے ہیں :
"وہ قبے جو قبروں پر تعمیر کئے گئے ہیں، انہیں گرانا فرض ہے۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معصیت اور نافرمانی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ اور وہ عمارت جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی معصیت پر تعمیر کی گئی ہو اسے گرانا مسجد ضرار کے گرانے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ 20"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے :
لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائھم مساجد21
"اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔ "
یہ تو ہیں کتاب و سنت اور فقہ حنفیہ کی واضح نصوص۔ ۔ ۔ ۔ مگر بریلوی قوم کو اصرار ہے کہ قبروں کو پختہ کرنا اور ان پر قبے وغیرہ بنانا ضروری ہیں۔
جناب احمد رضا خاں بریلوی کہتے ہیں :
"قبوں وغیرہ کی تعمیر اس لیے ضروری ہے تاکہ مزارات طیّبہ عام قبور سے ممتاز رہیں اور عوام کی نظر میں ہیبت و عظمت پیدا ہو۔ 22"
چادریں ڈالنا اور شمعیں جلانا یہ بھی جائز ہے تاکہ :
عوام جس مزار پر کپڑے اور عمامے رکھیں، مزار ولی جان کر اس کی تحقیر سے باز رہیں۔ اور تاکہ زیارت کرنے والے غافلوں کے دلوں میں خشوع و ادب آئے اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ مزارات کے پاس اولیاء کرام کی روحیں حاضر ہوتی ہیں۔ 23"
مزید لکھتے ہیں :
"شمعیں روشن کرنا قبر کی تعظیم کے لیے جائز ہے، تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ یہ بزرگ کی قبر ہے اور وہ اس سے تبرک حاصل کریں۔ 24"
ایک اور بریلوی عالم رقمطراز ہیں :
"اگر کسی ولی کی قبر ہو تو ان کی روح کی تعظیم کرنے اور لوگوں کو بتلانے کے لیے کہ ولی کی قبر ہے، تاکہ لوگ اس سے برکت حاصل کر لیں چراغ جلانا جائز ہے۔ 25"
یہ تو ہیں بریلوی اکابرین کے فتوے مگر حدیث میں اس کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
( لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زائرات القبور و المتخذین علیھا مساجد والسّروج)26
یعنی"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں کی زیارت کے لیے آنے والی عورتوں، قبروں پر سجدہ گاہ تعمیر کرنے والوں اور ان پر چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ "
ملّا علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
یعنی " قبروں پر چراغ جلانے کی ممانعت اس لیے آئی ہے کہ یہ مال کا ضیاع ہے۔ اور اس لیے کہ یہ جہنم کے آثار میں سے ہے۔ اور اس لیے آئی ہے کہ اس میں قبروں کی تعظیم ہے۔ 27"
قاضی ابراہیم حنفی رحمہ اللہ قبر پرستوں کے اصول ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"آج بعض گمراہ لوگوں نے قبروں کا حج کرنا بھی شروع کر دیا ہے اور اس کے طریقے وضع کر لیے ہیں۔ اور دین و شریعت کے مخالف امور میں سے یہ بھی ہے کہ لوگ قبروں اور مزاروں کے سامنے عاجزی و انکساری کا ظہار کرتے ہیں اور ان پر دیئے وغیرہ جلاتے ہیں۔ قبروں پر چادریں چڑھانا، ان پر دربان بٹھانا، انہیں چومنا اور ان کے پاس رزق و اولاد طلب کرنا، ان سب امور کا شریعت اسلامیہ میں کوئی جواز نہیں۔ 28"
خود احمد یار نے فتاویٰ عالمگیری سے نقل کیا ہے کہ :
"قبروں پر شمعیں روشن کرنا بدعت ہے۔ "
اسی طرح فتاویٰ بزازیہ میں بھی ہے کہ "قبرستان میں چراغ لے جانا بدعت ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔ 29"
ابن عابدین فرماتے ہیں :
"مزاروں پر تیل یا شمعوں وغیرہ کی نذر چڑھانا باطل ہے۔ 30"
علامہ حصکفی حنفی فرماتے ہیں :
"وہ نذر و نیاز جو عوام کی طرف سے قبروں پر چڑھائی جاتی ہے، خواہ وہ نقدی کی صورت میں ہو یا تیل وغیرہ کی شکل میں، وہ بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔ 31"
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
"قبروں پر روشنی کرنا جاہلیت کی رسموں میں سے ہے۔ 32"
علامہ آلوسی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"قبروں پر سے چراغوں اور شمعوں کو ہٹانا ضروری ہے۔ ایسی کوئی نذر جائز نہیں۔ 33"
اسی طرح
"چادر وغیرہ سے قبر کو ڈھانپنا بھی درست نہیں 34"
"یہ سب باطل کام ہے۔ ان کاموں سے بچنا چاہیے۔ 35"
نیز
"چراغ جلانا اور چادریں چڑھانا حرام ہے۔ 36"
علمائے احناف حضرت علی کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ:
"وہ کسی ایسی قبر کے پاس سے گزرے جسے کپڑے وغیرہ سے ڈھانپ دیا گیا تھا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے منع فرما دیا۔ 37"
ان ساری بدعات کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود نہیں تھا اور نہ ہی یہ قروں اولیٰ سے ثابت ہیں اگر اس میں کسی قسم کا کوئی دینی فائدہ ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ وغیرہ سے اس کا عمل ثابت ہوتا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو دعاء فرمائی تھی :
اللہم لا تجعل قبری وثنا یعبد38
یعنی" اے اللہ! میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا کہ اس کی پوجا شروع کر دی جائے۔ "
بریلوی حضرات نے عرسوں، محافل میلاد، فاتحہ کی نذر، قل، گیارہویں اور چالیسویں وغیرہ کی شکل میں بہت سی اس طرح کی بدعات ایجاد کیں، تاکہ وہ ان کے ذریعہ سے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کر سکیں۔ وہ لکھتے ہیں :
"اولیاء اللہ رحمت رب کے دروازے ہیں۔ رحمت دروازوں سے ملتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے :
ھْنَالِکَ دَعَا زَکَرِّیَّا رَبّہْ
ثابت ہوا کہ زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کے پاس کھڑے ہو کر بچے کی دعاء کی 39
یعنی ولیہ کے پاس دعا کرنا باعث قبول ہے۔ 40
نیز:
"قبروں پر عرس اولیاء کی خدمت میں حاضری کا سبب ہے اور یہ تعظیم شعائر اللہ ہے اور اس میں بے شمار فوائد ہیں۔ 41"
احمد رضا کے ایک اور شاگرد کہتے ہیں :
"اولیائے کرام کی قبروں پر عرس کرنا اور فاتحہ پڑھنا برکات کا باعث ہے۔ بے شک اولیاء اللہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور مرنے کے بعد ان کی طاقتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 42"
نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں :
"عرس کرنا اور اس موقع پر روشنی، فرش اور لنگر کا انتظام کرنا شریعت 43سے ثابت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے۔ 44"
نیز:
اولیاء کے مزارات میں نماز پڑھنا اور ان کی روحوں سے مدد طلب کرنا برکات کا باعث ہے۔ 45"
"وہابیوں کا یہ کہنا کہ قبروں کو چومنا شرک ہے، یہ ان کا غلو ہے۔ 46"
نیز
نذر غیر اللہ سے آدمی مشرک نہیں ہوتا۔ 47"
قبروں کے گرد طواف کرنا بھی بریلوی شریعت میں جائز ہے :
"اگر برکت کے لیے قبر کے گرد طواف کیا تو کوئی حرج نہیں۔ 48"
اس لیے کہ : اولیاء کی قبریں شعائر اللہ میں سے ہیں اور ان کی تعظیم کا حکم ہے۔ 49"
نیز:طواف کو شرک ٹھہرانا وہابیہ کا گمان فاسد اور محض غلو و باطل ہے۔ 50"
عرس کی وجہ تسمیہ:عرس کو عرس اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ عروس یعنی دولہا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار کا دن ہے۔ 51"
احمد یار گجراتی کا فتویٰ ہے :
"نماز صرف اس کے پیچھے جائز ہے جو عرس وغیرہ کرتا ہو۔ اور جو ان چیزوں کا مخالف ہو، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ 52"
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی غیر اسلامی عید ہے۔ قرون اولیٰ میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ خود دیدار علی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میلاد شریف کا سلف صالحین سے قرون اولیٰ میں کوئی ثبوت نہیں۔ یہ بعد میں ایجاد ہوئی ہے۔ 53
اس کے باوجود ان کا عقیدہ ہے کہ:
"محفل میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادت پاک کی خوشی منانا، اس کے ذکر کے موقعہ پر خوشبو لگانا، گلاب چھڑکنا، شیرینی تقسیم کرنا، غرضیکہ خوشی کا اظہار کرنا جو جائز طریقے سے ہو، وہ مستحب ہے اور بہت ہی باعث برکت۔ آج بھی اتوار کو عیسائی اس لیے عید مناتے ہیں کہ اس دن دسترخوان اترا تھا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری اس مائدہ سے کہیں بڑھ کر نعمت ہے۔ لہٰذا ان کی ولادت کا دن بھی یوم العید ہے۔ 54"
نیز:میلاد شریف قرآن و حدیث اور ملائکہ اور پیغمبروں سے ثابت ہے۔ 55"
نیز:میلاد ملائکہ کی سنت ہے۔ اس سے شیطان بھاگتا ہے۔ 56"
دیدار علی لکھتے ہیں :"میلاد سنت اور واجب ہے 57"
نیز:ذکر میلاد کے وقت کھڑے ہونے کا قرآن مجید (کون سے قرآن مجید؟) میں حکم ہے۔ 58"
اور یہی دیدار علی ہیں، جنہوں نے کہا ہے کہ میلاد شریف کی اصل قرون اولیٰ سے ثابت نہیں۔
جناب بریلوی کہتے ہیں :"میلاد شریف میں رلا دینے والے قصے بیان کرنا ناجائز ہے۔ 59"
بریلوی قوم نے اکل و شرب کو دوام بخشنے کے لیے اس طرح کی بدعات جاری کی ہیں اور دین اسلام کو غیر شرعی رسوم و رواج کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم کے مقدس نام کو بھی استعمال کیا، تاکہ کھانے پینے کا بازار بخوبی گرم ہو سکے۔
حالانکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :
من احدث فی امرنا ھٰذا فھو ردّ60
"جس نے دین کے معاملے میں کوئی نئی چیز ایجاد کی، اسے ردّ کر دیا جائے گا۔ "
نیز:ایّاکم و محدثات الامور کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة61
"دین میں نئی نئی رسموں سے بچو۔ ہر نئی رسم بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ "
اور خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کسی عزیز کی عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد قل وغیرہ کروائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیٹوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی وفات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موجودہ رسموں میں سے کوئی رسم ادا نہیں کی۔ اگر ان رسموں کا کوئی فائدہ ہوتا یا ایصال ثواب کا ذریعہ ہوتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ضرور عمل فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔
اگر کسی قبر پر عرس وغیرہ کرنا باعث ثواب اور حصول برکات کا سبب ہوتا تو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کسی صورت میں بھی اس سے محروم نہ رہتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان سے زیادہ محبت کس کو ہو سکتی ہے؟ مگر ان میں سے کسی سے بھی اس قسم کے اعمال ثابت نہیں۔ معلوم ہوا، یہ سب رسمیں کسب معاش کے لیے وضع کی گئیں ہیں۔ ثواب و برکات حصول محض ایک دھوکہ ہے !
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی قبر کی طرف خصوصی طور پر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور قبروں پر ہونے والی بدعات بہت بری ہیں۔ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی قبر کو میلہ نہ بننے کی دعاء فرمائی تھی۔ 62
مشہور حنفی مفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں :
"آج کل کچھ جاہل لوگوں نے قبروں کے پاس غیر شرعی حرکات شروع کر دی ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔ عرس وغیرہ اور روشنی کرنا سب بدعات ہیں۔ 63
قبروں کے گرد طواف کے بارے میں ابن نجیم الحنفی کا ارشاد ہے :
"کعبہ کے سوا کسی دوسری چیز کے گرد طواف کفر ہے۔ 64"
ملا علی قاری صاحب فرماتے ہیں :
"روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد طواف کرنا بھی جائز نہیں، کیونکہ یہ کعبة اللہ کی خاصیت ہے۔ آج کل کچھ جاہل لوگوں نے مشائخ اور علماء کا لبادہ اوڑھ کر یہ کام شروع کر دیا ہے، ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان کا یہ فعل جہالت پر مبنی ہے۔ 65"
جہاں تک عید میلاد کا تعلق ہے، تو یہ ساتویں صدی ہجری میں ایک بدعتی بادشاہ مظفر الدین کی ایجاد ہے۔
"وہ ایک فضول خرچ بادشاہ تھا۔ وہ سب سے پہلا شخص تھا۔ جس نے یہ کام شروع کیا۔ 66"
نیز:"وہ ہر سال تقریباً تین لاکھ روپے اس بدعت پر خرچ کیا کرتا تھا۔ 67"
نیز:اس کے دور میں ایک بدعتی عالم عمر بن دحیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار دینار انعام دیا۔ 68"
البدایہ والنہایہ میں عمر بن دحیہ کے متعلق لکھا ہے کہ:
"یہ جھوٹا شخص تھا۔ لوگوں نے اس کی روایت پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی بہت زیادہ تذلیل کی تھی۔ 69"
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے متعلق فرمایا ہے :
"یہ بہت جھوٹا شخص تھا۔ احادیث خود وضع کر کے انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر دیتا۔ سلف صالحین کے خلاف بد زبانی کیا کرتا تھا۔ ابوالعلاء اصبہانی نے اس کے متعلق ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ:
" وہ ایک دن میرے والد کے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں ایک مصلیٰ بھی تھا۔ اس نے اسے چوما اور آنکھوں سے لگایا اور کہا کہ یہ مصلیٰ بہت بابرکت ہے۔ میں نے اس پر کئی ہزار نوافل ادا کیے ہیں اور بیت اللہ شریف میں اس پر بیٹھ کر قرآن مجید ختم کیا ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اسی روز ایک تاجر میرے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا، آپ کے مہمان نے آج مجھ سے بہت مہنگا جائے نماز (مصلیٰ) خریدا ہے۔ میرے والد نے وہ مصلیٰ جو مہمان عمر بن دحیہ کے پاس تھا، اسے دکھلایا تو تاجر نے کہا کہ یہی وہ جائے نماز ہے جو اس نے مجھ سے آج خریدا ہے۔ اس پر میرے والد نے اسے بہت شرمندہ کیا اور گھر سے نکال دیا۔ 70
بہرحال ایسے شخص نے اس بادشاہ کی تائید کی اور میلاد کے سلسلے میں اس کا ساتھ دیا۔
عید میلاد صرف عیسائیوں کی مشابہت میں جاری کی گئی ہے، اسلامی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
محفل میلاد میں بریلوی حضرات میلاد پڑھتے وقت کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ معاذ اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم خود اس میں حاضری کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ بریلوی حضرات اکثر یہ شعر پڑھتے ہیں۔ دم بدم پڑھو درود حضور بھی ہیں یہاں موجود
ان کا کہنا ہے :میلاد شریف کے ذکر کے وقت قیام فرض ہے۔ 71"
حالانکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے :
"جسے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ لوگ اس کی تعظیماً قیام کریں، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ 72"
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے، کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ناپسند فرماتے ہیں۔ 73"
بریلوی حضرات پر تعجب ہے کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا یوم میلاد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تاریخ وفات کے روز مناتے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے 12 ربیع الاول کو انتقال فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تاریخ ولادت9 ربیع الاول ہے اور جدید تقویم سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ
چند سال قبل بریلوی حضرات اسے بارہ وفات کہا کرتے تھے، مگر اب بارہ وفات سے بدل کر عید میلاد کر دیا۔
جہاں تک قل، ساتویں، دسویں اور چالیسویں وغیرہ کا تعلق ہے، یہ سب خود ساختہ بدعات ہیں۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا ثبوت ملتا ہے، نہ اصحاب رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور نہ ہی فقہ حنفی سے۔ حقیقت میں یہ لوگ حنفی نہیں، کیونکہ یہ فقہ حنفی کی پابندی نہیں کرتے۔ ان کی الگ اپنی فقہ ہے، جس پر یہ عمل پیرا ہیں۔
فقہ حنفی کے امام ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"ہمارے مذہب میں علماء کا اتفاق ہے کہ تیجا اور ساتواں وغیرہ جائز نہیں۔ 74"
ابن بزار حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"تیجا اور ساتواں مکروہ ہے۔ اسی طرح مخصوص دنوں میں ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا اور ختم وغیرہ بھی مکروہ ہیں۔ 75"
مگر بریلوی حضرات کسی شخص کے مر جانے کے بعد اس کے ورثاء پر قل وغیرہ کرنا فرض قرار دیتے ہیں اور ایصال ثواب کے بہانے شکم پروری کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
گیارہویں کے متعلق بریلوی قوم کا اعتقاد ہے :
"گیارہویں تاریخ کو کچھ مقررہ پیسوں پر فاتحہ کی پابندی کی جائے تو گھر میں بہت برکت رہتی ہے۔ کتاب "یازدہ مجالس" میں لکھا ہے کہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی بارہویں یعنی 12 تاریخ کے میلاد کے بڑے پابند تھے۔ ایک بار خواب میں سرکار نے فرمایا کہ عبدالقادر! تم نے بارہویں سے ہم کو یاد کیا، ہم تم کو گیارہویں دیتے ہیں۔ یعنی لوگ گیارہویں سے تم کو یاد کیا کریں گے۔ یہ سرکاری عطیہ ہے۔ 76"
یہ ہے گیارہویں اور "یازدہ مجالس" سے اس کی عظیم الشان دلیل۔ نامعلوم کون کون سے دن انہوں نے حصول برکات کے لیے وضع کر رکھے ہیں۔ بریلوی مذہب میں جمعرات کی روٹی بھی معروف ہے۔ کیونکہ:
"جمعرات کے روز مومنوں کی روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں اور دروازے کے پاس کھڑے ہو کر دردناک آواز سے پکارتی ہیں کہ: اے میرے گھر والوں اے میرے بچو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقے سے مہربانی کرو۔ چنانچہ میت کی روح اپنے گھر میں جمعہ کی رات کو آ کر دیکھتی ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ کیا گیا ہے یا نہیں؟77"
صرف جمعرات کے روز ہی روحیں صدقہ خیرات کا مطالبہ کرنے کے لیے نہیں آتیں،بلکہ:
"عید، جمعۃ المبارک، عاشورہ اور شب برات کے موقعہ پر بھی آتی اور اس قسم کا مطالبہ کرتی ہیں 78"
اکل و شرب کے لیے ایجاد کی جانے والی بریلوی حضرات کی "رسم ختم شریف" جہلا میں بہت مشہور ہے۔ ان کے ملّاؤں نے پیٹ کے لیے ایندھن فراہم کرنے کی غرض سے اس رسم کو رواج دے کر شریعت اسلامیہ کو بہت بدنام کیا ہے۔ اس رسم سے علمائے کرام کے وقار کو بھی سخت دھچکا لگا ہے اور ہمارے یہاں یہ رسم علمائے کرام کے لیے گالی سمجھی جانے لگی ہے۔ ان ملّاؤں کی شکم پروری کا سامان مہیا ہوتا رہے، باقی کسی چیز سے انہیں کوئی غرض نہیں۔
اسی طرح یہ حضرات کسی سرمایہ دار کے گھر اکھٹے ہو کر قرآن مجید ختم کرتے ہیں اور پھر اس کا ثواب میت کو ہبہ کر دیتے ہیں۔ سرمایہ دار خوش ہو جاتا ہے کہ چند ٹکوں کے عوض اس کا عزیز بخشا گیا۔ اور یہ حضرات خوش ہو جاتے ہیں کہ تھوڑے سے وقت کے عوض مختلف انواع کے کھانے بھی مل گئے اور جیب بھی گرم ہو گئی، حالانکہ فقہائے احناف کی صراحت ہے:
"اجرت لے کر قرآن ختم کرنے کا ثواب خود پڑھنے والے کو نہیں ملتا، میت کو کیسے پہنچے گا؟79"
امام عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"اس طرح قرآن مجید ختم کر کے اجرت لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ گار ہیں۔ اس طرح کرنا جائز نہیں۔ 80"
ابن عابدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"ایسا کرنا کسی مذہب میں جائز نہیں، اس کا کوئی ثواب نہیں ملتا!81"
امام شامی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :
"قرآن مجید اجرت پر پڑھنا اور پھر اس کا ثواب میت کو ہبہ کرنا کسی سے ثابت نہیں ہے۔ جب کوئی شخص اجرت لے کر پڑھتا ہے تو اسے پڑھنے کا ثواب نہیں ملتا، پھر وہ میت کو کیا ہبہ کر سکتا ہے۔ 82"
رب تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَشتَرْوا بِایٰٰاتِی ثَمَنًا قَلِیلاً (البقرہ)
"میری آیات کے بدلے مال کا کچھ حصہ نہ خریدو۔ "
مفسرین کہتے ہیں :"یعنی اس پر اجرت نہ لو۔ 84"
شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے :
"کچھ لوگوں کا اجرت دے کر قرآن مجید ختم کروانا اور پھر اس کا ثواب میت کو ہبہ کرنا، یہ سلف صالحین میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں۔ اور نہ اس طرح ثواب میت تک پہنچتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اجرت دے کر اس سے نوافل وغیرہ پڑھوائے اور ان کا ثواب میت کو ہبہ کر دے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ وصیت کر جائے کہ اس کے مال کا کچھ حصہ قرآن مجید کی تلاوت کر کے اسے ہبہ کرنے والوں کو دیا جائے، تو ایسی وصیت باطل ہے۔ 85"
بہرحال اس بدعت کا ذاتی خواہشات کی تکمیل سے تو تعلق ہو سکتا ہے، دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں !
بریلوی حضرات نے مال و دولت جمع کرنے کے لیے "تبرکات" کی بدعت بھی ایجاد کی ہے، تاکہ جبہ و دستار کی زیارت کراکے دنیوی دولت کو سمیٹا جائے۔
بریلوی اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں :
"اولیاء کے تبرکات شعائر اللہ میں سے ہیں۔ ان کی تعظیم ضروری ہے۔ 86"
مزید:جو شخص تبرکات شریفہ کا منکر ہو، وہ قرآن و حدیث کا منکر اور سخت جاہل، خاسر اور گمراہ و فاجر ہے۔ 87"
نیز:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ جو چیز حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے پہچانی جاتی ہے، اس کی تعظیم کی جائے۔ 88"
چنانچہ کسی بھی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر دو اور پھر ا س کی زیارت کروا کے صدقے اور نذرانے جمع کرنے شروع کر دو۔ کوئی ضرورت نہیں تحقیق کی کہ اس "تبرک" کا واقعی آپ سے تعلق ہے بھی یا نہیں؟ جناب بریلوی تصریح فرماتے ہیں :
"اس کے لیے کسی سند کی حاجت نہیں، بلکہ جو چیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پاک سے مشہور ہو، اس کی تعظیم شعائر دین میں سے ہے۔ 89"
تعظیم کا طریقہ کیا ہے؟ جناب احمد رضا بیان کرتے ہیں :
"در ودیوار اور تبرکات کو مس کرنا اور بوسہ دینا اگرچہ ان عمارتوں کا زمانہ اقدس میں وجود ہی نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی دلیل؟ مجنوں کا قول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا خوب کسی نے کہا ہے۔
امر علی الدیار دیار لیل
اقبل ذا الجدار وذا الجدار
وماحب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا
"میں لیلیٰ کے شہروں پر گزرتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو بوسہ دیتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو۔ اور یہ شہر کی محبت کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ تو شہر والوں کی محبت ہے۔ 90"
نیز:حتیٰ کہ بزرگوں کی قبر پر جانے کے وقت دروازے کی چوکھٹ چومنا بھی جائز ہے۔ 91"
بریلوی قوم کے نزدیک مدینہ منورہ اور بزرگوں کی قبروں کو چومنا ہی نہیں، بلکہ مزاروں وغیرہ کی تصویروں کو بھی چومنا ضروری ہے۔ بریلوی صاحب ارشاد کرتے ہیں :
"علمائے دین نعل مطہر و روضہ حضور سید البشر علیہ افضل الصلوۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پر بنانے اور انہیں بوسہ دینے، آنکھوں سے لگانے اور سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے۔ 93"
نیز:"علمائے دین ان تصویروں سے دفع امراض و حصول اغراض کے لیے توسل فرماتے تھے۔ 94"
بریلوی اعلیٰ حضرت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے نعل مبارک کی خیالی تصویر کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
جس کے پا س نقشہ متبرکہ ہو، ظالموں اور حاسدوں سے محفوظ رہے۔ عورت درد زہ کے وقت اپنے داہنے ہاتھ میں رکھے، آسانی ہو۔ جو ہمیشہ پاس رکھے گا معزز اور اسے زیارت روضہ رسول نصیب ہو۔ جس لشکر میں ہو نہ بھاگے، جس قافلے میں ہو نہ لٹے، جس کشتی میں ہو نہ ڈوبے، جس مال میں ہو نہ چرایا جائے، جس حاجت میں اس سے توسل کیا جائے پوری ہو، جس مراد کی نیت اپنے پاس رکھیں حاصل ہو۔ 95"
ان خرافات اور دور جاہلیت کی خرافات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ان خرافات کو ختم کیا تھا، یہ لوگ دوبارہ اسے زندہ کر رہے ہیں۔
خاں صاحب نقل کرتے ہیں :
"اگر ہو سکے تو اس خاک کو بوسہ دے جسے نعل مبارک کے اثر سے نم حاصل ہوئی ورنہ اس کے نقشہ ہی کو بوسہ دے۔ 96"
مزید:اس نقشے کے لکھنے میں ایک فائدہ یہ ہے کہ جسے اصل روضہ عالیہ کی زیارت نہ ملی، وہ اس کی زیارت کر لے۔ اور شوق سے اسے بوسہ دے کہ یہ مثال اس اصل کے قائم مقام ہے۔ 97"
نیز: "روضہ منورہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی نقل صحیح بلاشبہ معظمات دینیہ سے ہے۔ اس کی تعظیم و تکریم بروجہ شرعی ہر مسلمان صحیح الایمان کا مقتضائے ایمان ہے۔ 98"
ان چیزوں کی زیارت کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا تصور ذہن میں لائیں اور درود شریف کی کثرت کریں۔ 99"
ایک جگہ لکھتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نعل مبارک کے نقشہ کو مس کرنے والے کو قیامت میں خیر کثیر ملے گی اور دنیا میں یقیناً نہایت اچھے عیش و عشرت اور عزت و سرور میں رہے گا۔ اسے قیامت کے روز کامیابی کی غرض سے بوسہ دینا چاہئے، جو اس نقشے پر اپنے رخسار رگڑے اس کے لیے بہت عجیب برکتیں ہیں۔ 100"
اندازہ لگائیں، بریلوی حضرات کی ان حرکات اور بت پرستی میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اپنے ہاتھوں سے ایک تصویر بناتے ہیں اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا تصور اپنے ذہن میں لا کر اسے چومتے ہیں، اپنی آنکھوں سے لگاتے اور اپنے گالوں پر رگڑتے ہیں اور پھر برکات کے حصول کی امید کرتے ہیں۔
ایک طرف تو تصویر اور مجسمے کی اس قدر تعظیم کرتے، اور دوسری طرف اللہ رب العزت کی شان میں اس قدر گستاخی اور بے ادبی کہ کہتے ہیں :
"نعل شریف (جوتے کا مجسمہ) پر بسم اللہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔نعوذباللہ 101"
جناب احمد رضا صاحب ان مشرکانہ رسموں کی اصل غرض وغایت کی طرف آتے ہیں :
"زائر کو چاہیے کہ وہ کچھ نذر کرے، تاکہ اس سے مسلمانوں کی اعانت ہو۔ اس طرح زیارت کرنے والے اور کرانے والے دونوں کو ثواب ہو گا۔ ایک نے سعادت و برکت دے کر ان کی مدد کی اور دوسرے نے متاع قلیل سے فائدہ پہنچایا۔ حدیث میں ہے " تم میں جس سے ہو سکے کہ اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچائے تو اسے چاہئے کہ نفع پہنچائے (طرز استدلال ملاحظہ فرمائیں ) حدیث میں ہے :
"اللہ اپنے بندوں کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہے۔ خصوصاً جب یہ تبرکات والے حضرات سادات ہوں تو ان کی خدمت اعلیٰ درجے کی برکت و سعادت ہے۔ 102"
یہ ہے بریلوی دین و شریعت اور یہ ہیں اس کے بنیادی اصول و ضوابط! عوام کو بے وقوف بنا کر کس طرح یہ لوگ اپنا کاروبار چمکانا چاہتے اور اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔
کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلام تصاویر اور مجسموں کی تعظیم کا حکم دے؟ انہیں بوسہ دینے اور ہاتھ سے چھونے کو باعث برکت بتائے اور پھر اس پر چڑھاوے چڑھانے کی ترغیب دے؟
حاشا وکلّا!
دین کو نفع بخش تجارت بنا لینے والے بعض بریلوی ملاؤں نے عوامی سرمائے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لیے بعض ایسی بدعات ایجاد کی ہیں، جو کھلم کھلا کتاب و سنت کے خلاف اعلان بغاوت ہیں۔ بریلوی حضرات کا عقیدہ ہے کہ اگر کسی نے ساری زندگی نماز نہ پڑھی ہو روزے نہ رکھے ہوں، مرنے کے بعد دنیوی مال و متاع خرچ کر کے اسے بخشوایا جا سکتا ہے۔ جسے یہ لوگ حیلہ اسقاط کا نام دیتے ہیں۔ اس کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں اور بریلوی ذہنیت کی داد دیں :
"میت کی عمر کا اندازہ لگا کر مرد کی عمر سے بارہ سال اور عورت کی عمر سے نو سال (نابالغ رہنے کی کم از کم مدت) کم کر دیئے جائیں۔ بقیہ عمر میں اندازہ لگایا جائے کہ ایسے کتنے فرائض ہیں جنہیں وہ ادا نہ کر سکا اور نہ قضا۔ اس کے بعد ہر نماز کے لیے صدقہ فطر کی مقدار بطور فدیہ خیرات کر دی جائے، صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع گندم یا ایک صاع جو ہے۔ اس حساب سے ایک دن کی وتر سمیت چھ نمازوں کا فدیہ تقریباً بارہ سیر ایک ماہ کا نو من اور شمسی سال کا ایک سو آٹھ من ہو گا۔ 103"
قرآن کریم میں ہے :
اِنَّ الَّذِینَ یَاکْلْونَ اَموَالَ الیَتٰمیٰ ظْلمًا اِنَّمَا یَاکْلْونَ فِی بْطْونِھِم نَارًا وَ سَیَصلَونَ سَعِیرًا
"بلاشبہ وہ ظالم جو یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں ایسے لوگ جہنم میں داخل ہوں گے۔ "
نیز فرمایا:
لَا تَزِرْ وَازِرَۃ وِّزرَ اْخریٰ
"کسی کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھا سکتا"
نیز: وَاَنَّ لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ
"انسان کو اسی کی جزا ملے گی، جو ا س نے خود کمایا۔ "
مگر بریلوی حضرات نے نامعلوم یہ حیلے کہاں سے اخذ کیے ہیں؟
ان کا ماخذ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تو ہو سکتا ہے، شریعت اسلامیہ میں ان کا کوئی وجود نہیں !
کہتے ہیں اپنے عزیزوں کو بخشوانے کے لیے اتنی دولت شاید ہی کوئی خرچ کرے۔ پھر اس میں تخفیف کے لیے دوسرے کئی حیلے بیان کرتے ہیں تاکہ اسے استطاعت سے باہر سمجھ کر بالکل ہی ترک نہ کر دیا جائے۔
جو لوگ ان حیلوں کے قائل نہیں، ان کے متعلق ان کا ارشاد ہے کہ:
"وہابی وغیرہ کو دنیا سے رخصت ہونے والوں کے ساتھ نہ کوئی خیرخواہی ہے اور نہ فقراء و غرباء(بریلوی ملّاؤں ) کے لیے جذبہ ہمدردی۔
اگر کوئی شخص حساب کے مطابق فدیہ ادا کرے، تو کیا اچھا ہے۔ 107"
اگر ہر محلے کے لوگ اپنے اعزا کو بخشوانے کے لیے ان حیلوں پر عمل شروع کر دیں تو ان ملّاؤں کی تو پانچوں گھی میں ہو جائیں۔
ان حیلوں سے بے نمازوں اور روزہ خوروں کی تعداد میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، بریلوی اکابرین کی تجوریاں تو بھر سکتی ہیں، مگر عذاب کے مستحق مردوں کو بخشوایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ ان حیلوں کا نہ قرآن میں ذکر نہ حدیث میں۔ جس نے دنیا میں جو کمایا، آخرت میں اس کا پھل پائے گا۔ اگر نیک ہے تو اسے حیلوں کی ضرورت نہیں، اور اگر بد ہے تو اسے ان کو کوئی فائدہ نہیں !
انگوٹھے چومنا بھی ایک بدعت ہے، جس کا حدیث سے کوئی ثبوت نہیں۔
بریلوی حضرات اس بدعت کو ثابت کرنے کے لیے من گھڑت اور موضوع روایات ذکر کرتے ہیں۔ جناب بریلوی لکھتے ہیں "حضرت خضر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جو شخص (اشھدان محمدا رسول اللہ) سن کر اپنے انگوٹھے چومے گا اور پھر اپنی آنکھوں پر لگائے گا، اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی۔ 108"
جناب احمد رضا نے اس روایت کو امام سخاوی سے نقل کیا ہے۔ جب کہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کر کے لکھا ہے :
"اس روایت کو کسی صوفی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ اس کی سند میں جن راویوں کے اسماء ہیں، وہ محدثین کے نزدیک مجہول او رغیر معروف ہیں۔ یعنی خود ساختہ سند ہے۔ اور پھر خضر علیہ السلام سے کس نے سنا ہے؟ اس کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ 109"
یعنی امام سخاوی جس روایت کو صوفیہ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اس پر تنقید کر رہے ہیں اور اسے موضوع روایت قرار دے رہے ہیں، جناب احمد رضا مکمل علمی بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک غیر اسلامی بدعت کو رواج دینے کے لئے اس سے استدلال کر رہے ہیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں " وہ تمام روایات، جن میں انگوٹھوں کو چومنے کا ذکر ہے، وہ موضوع ومن گھڑت ہیں۔ 110"
اسی طرح امام سخاوی رحمہ اللہ، ملا علی قاری، محمد طاہر الفتنی اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان تمام روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔111
لیکن جناب احمد رضا صاحب کو اصرار ہے کہ "انگوٹھے چومنے کا انکار اجماع امت (بریلوی امت) کے منافی ہے۔ 112"
مزید:"اسے وہی شخص ناجائز کہے گا، جو سید الانام صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے جلتا ہے۔ 113"
بریلوی خرافات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں "جس نے
( لاالٰہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ) یہ ساری دعاء لکھ کر میت کے کفن میں رکھ دی، وہ قبر کی تنگیوں سے محفوظ رہے گا اور منکر نکیر اس کے پاس نہیں آئیں گے۔ 114"
اسی طرح بریلوی حضرات نے "عہد نامہ" کے نام سے ایک دعا وضع کر رکھی ہے، جس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس کے متعلق ان کا عقیدہ ہے کہ "اسے جس شخص کے کفن میں رکھا جائے، اللہ اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ 115"
احمد یار لکھتے ہیں :
عہد نامہ دیکھ کر میت کو یاد آ جاتا ہے کہ اس نے نکیرین کو کیا جواب دینا ہے؟116"
بریلوی حضرات کتاب و سنت اور خود فقہ حنفی کی مخالفت کرتے ہوئے بہت سی ایسی بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں، جن کا سلف صالحین سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ان میں سے ایک قبر پر اذان دینا بھی ہے۔ خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں :
"قبر پر اذان دینا مستحب ہے، اس سے میت کو نفع ہوتا ہے۔ 117"
نیز:قبر پر اذان سے شیطان بھاگتا ہے اور برکات نازل ہوتی ہیں۔ 118"
حالانکہ فقہ حنفی میں واضح طور پر اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"قبر پر اذان وغیرہ دینا یا دوسری بدعات کا ارتکاب کرنا درست نہیں۔ سنت سے فقط اتنا ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب جنت البقیع تشریف لے جاتے تو فرماتے (السلام علیکم دار قوم مومنین۔ ۔ ۔ ۔ الخ) اس کے علاوہ کچھ ثابت نہیں، ان بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے 119"
امام شامی کہتے ہیں :
"آج کل قبر پر اذان دینے کا رواج ہے۔ اس کو کوئی ثبوت نہیں، یہ بدعت ہے۔ 120"
محمود بلخی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :"قبر پر اذان دینے کی کوئی حیثیت نہیں۔ 121"
بہرحال یہ ہیں بریلوی حضرات کی وہ تعلیمات جو نہ صرف کتاب و سنت کے خلاف ہیں، بلکہ فقہ حنفی کے بھی خلاف ہیں۔ حالانکہ بریلوی قوم فقہ حنفی کا پابند ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں سنت پر عمل پیرا ہونے اور بدعات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!