• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت کا اللہ تعالیٰ سے اختلاف

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
" یعنی امت شرک میں مبتلاء ہوجائے گی رسول اللہﷺ کو اس بات کو یہ خوف نہیں تھا بلکہ خوف تھا تو یہ کہ " تم دیناداری میں پڑ جاؤ گے اور ہم یہی دیکھتے ہیں کہ لوگ ڈالر اور ریال کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں ۔
یہ آپ کی کم علمی اور جہالت ہے، آپ کا وہ ناقص فہم ہے جو آپ لیتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا (مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے لئے تھا۔باقی رہا امت کا معاملہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بھی شرک موجود ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
1۔اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو شرک کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی غرض سے اٹھارہ انبیاء کے ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
''لو اشركوا لحبط عنهم ما كانوا يعملون''
''اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وه سب اکارت ہوجاتے۔''(الانعام:88)
آیت کی تفسیر
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت میں انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے لیے تعریض ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اگر انہوں نے بالفرض شرک کیا توان کے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے تو ان کی امتیں کس گنتی ميں شمارہیں۔(تبیان القرآن:3/293)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقم طراز ہیں:
پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں، مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اورہلاکت سے آگاہ کرنا ہے۔(تفسیر احسن البیان: 359)
2۔دوسرےمقام پر فرمایا:
''وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ''
'' اور بالتحقیق آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف وحی کی گئی جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر آپ نےشرک کیا تو آپ کے عمل ضرور ضائع ہوں گے اور آپ ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔''(الزمر:65)
اس آیت کی تفسیر میں غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:
اس آیت میں تعریض ہے ذکر آپ کا ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ یعنی اگر بالفرض آپ نے بھی شرک کیا توآپ کے اعمال ضائع ہو جائیں گے تو اگر آپ کی امت کے کسی شخص نے شرک کیا تو اس کے اعمال توبطریق اولیٰ ضائع ہو جائیں گے۔(تبیان القرآن:10/293)۔
یہ آیت دلیل ہیں کہ شرک انتہائی مہلک گناہ ہے اور امت مسلمہ کے کسی فرد سےشرک کا ارتکاب اس کے سابقہ اعمال کی تباہی کا باعث اور ہلاکت و بربادی کاشاخسانہ ہے۔
3۔ذیل کی آیت واضح نص ہے کہ اہل ایمان سے شرک کا ظہور ممکن ہے اور کامیاب وہ مسلمان ہوں گے جو شرک کی آلائش سے پاک ہوں گے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
''الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ۔''
وہ لوگ جو ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ ملتبس نہ کیا انہی کے لیے امن ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔(الانعام:82)
اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، درج حدیث میں مزید وضاحت ہے۔
عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں :جب یہ آیت نازل ہوئی
''الذين امنوا و لم يلبسوا ايمانهم بظلم ''
تو اصحاب رسولﷺ پر یہ بات شاق گزری اور انہوں نے عرض کیا: ہم میں سے کون ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس سے وہ مراد (عام ظلم) نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ اس(ظلم) سے مراد شرک ہے۔ کیا تم نے لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو وہ اپنے بیٹے کو کر رہے تھے
''یٰبنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم''
'' اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا، بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔'' (صحیح بخاری :3429،صحیح مسلم:124)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ سے شرک کا ارتکاب ممکن ہے اور روز قیامت وہی مسلمان کامیاب قرار پائے گا جو شرک کی نحوست سے محفوظ ہوا ہوگا اوراس آیت کے مخاطب مسلمان ہی ہیں تبھی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت کے نزول سے کبیدہ خاطر ہو ئے۔ اس میں ان لوگوں کے نظریہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ وہابی ان آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں جو کفارکےلیےنازل ہوئی ہیں، جب کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت کا مخاطب مسلمانوں کو ہی سمجھ رہےہیں۔
4۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
''فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ۔ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ۔
''پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہئے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہئے-اللہ کی توحید کو مانتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے۔ سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے واﻻ گویا آسمان سے گر پڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی۔(الحج:30،31)
5۔درج ذیل آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ صالح مو منین کو شرک سے ممانعت کا حکم دے رہے ہیں-
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
'' فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا و لا يشرك بعبادة ربه احدا''
''چنانچہ جو شخص اپنےرب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو وہ نیک عمل کرے اوراپنے رب کی عبادت کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے-'' (الکہف :110)
یہ آیت واضح دلیل ہے کہ اہل ایمان شرک کا نہ صرف ارتکاب کرتے ہیں،بلکہ دعویٰ ایمان کے باوجود نام نہاد مسلمانوں کی اکثریت میں شرک موجود ہی رہتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے
''و ما يؤمن اكثرهم بالله الا و هم مشركون''
'' اور ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے مگر وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔''(یوسف :106)
ان کے علاوہ کئی قرآنی آیات جو اس بات کی شاہد ہیں کہ امت مسلمہ سےشرک کا ارتکاب ممکن ہے اور جیسے گزشتہ امتیں شرک وکفر کے ارتکاب کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئی تھیں، امت مسلمہ میں بھی شرک کا وجود ان کی تباہی و بربادی کا باعث ہوگا۔
ذیل میں وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن میں امت مسلمہ کےشرک کے مرتکب ہونے کے دلائل ہیں۔
1۔عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ » وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ »
'' جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا ہو تو آگ میں داخل ہوگا اور میں(ابن مسعود ) کہتا ہوں کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو اس نے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہو گا تو و ہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری :1238،صحیح مسلم:92)
2۔جابر بن عبد اللہ سےمروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوسنا، آپ ﷺنے فرمایا:
« مَنْ لَقِىَ اللَّهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَقِيَهُ يُشْرِكُ بِهِ دَخَلَ النَّارِ »
'' جو شخص اللہ تعالی کو اس حال میں ملا کہ وہ اس کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اللہ سے اس حالت میں ملاقات کی کہ اس کے ساتھ کچھ شرک کرتا ہو گا تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔(صحیح مسلم:93)
3۔ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا »
'' ہر نبی کی ایک دعا ہے جسے شرف قبولیت بخشا جاتا ہے،چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعوت کو عجلت میں کرلیا ہے، لیکن میں نے اپنی دعا کو روز قیامت کو اپنی امت کےلیے بطور سفارش چھپایا ہے پس وہ ان شاء اللہ میری امت میں سے ہراس شخص کو پہنچے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔(صحیح مسلم:199).
4۔ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ حَوْلَ ذِى الْخَلَصَةِ ». وَكَانَتْ صَنَمًا تَعْبُدُهَا دَوْسٌ فِى الْجَاهِلِيَّةِ بِتَبَالَةَ »
'' اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ ذو الخلصہ(بت) کے گرد دَوس قبیلہ کی عورتوں کی سرینیں حرکت کریں گی۔اور ذو الخلصہ ایک بت تھا دور جاہلیت میں قبیلہ دوس اس کی پرستش کرتا تھا۔(صحیح بخاری:7116صحیح مسلم:2906)
5۔عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
« لاَ يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللاَّتُ وَالْعُزَّى ». فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لأَظُنُّ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ (هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ) أَنَّ ذَلِكَ تَامًّا قَالَ « إِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَوَفَّى كُلَّ مَنْ فِى قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَيَبْقَى مَنْ لاَ خَيْرَ فِيهِ فَيَرْجِعُونَ إِلَى دِينِ آبَائِهِمْ »
'' دن رات کا سلسلہ ختم نہ ہوگا حتیٰ کہ لات ومنات کی عبادت ہو نے لگے گی۔ اس پر میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! میں سمجھتی تھی جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے
'' هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِ‌هَ الْمُشْرِ‌كُونَ''
''وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ و ہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے ،اگرچہ مشرکین اسے نا پسند کریں''(التوبۃ:33)
تو یہ آیت تام ہے (یعنی امت میں دوبارہ شرک نہ ہوگا) آپ ﷺنے فرمایا:جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی یہی صورت حال ہوگی، پھر اللہ تعالیٰ ایک خوش گوار ہوا بھیجیں گے تو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا وہ فوت ہو جائے گا، پھر وہ لوگ باقی بچیں گے جن میں ذرا خیر نہ ہوگی تووہ اپنے آباء کے دین (شرک)کی طرف پلٹ جائیں گے۔(صحیح مسلم :2907)
مذکورہ احادیث واضح دلیل ہیں کہ امت مسلمہ میں شرک کا وجود نہ صرف ممکن ہے، بلکہ امت مسلمہ کے کئی قبائل وافراد شرک کا ارتکاب ہی کریں گے اور قرب قیامت مسلمانوں کی اولاد شرک کے ارتکاب ہی کی وجہ سے ظہور قیامت کی راہ ہموار کرے گی۔ امت مسلمہ میں شرک کا وجود عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی میں شروع ہوگیا تھااور مرور زمانہ کے ساتھ مختلف تاویلات و تحریفات کے سہارے شرکیہ عقائد مسلمانوں میں راسخ ہو تے رہے اور مذہب کی آڑمیں اس کی مسلسل ترویج ہوتی رہی، بالآخر بعض متجددین نے امت مسلمہ سے شرک کو شجر ممنوعہ قراردے دیا، لیکن وہ شرکیہ عقائد ونظریات جن کے ارتکاب سے سابقہ امتیں زوال ونامرادی کاشکار ہوئی تھیں، اگر امت مسلمہ وہی عقائد ونظریات اختیار کرے گی تویہ بھی درگاندہ راہ ٹھہرے گی
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
شاید آپ تغافل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں میں نے جو صحیح بخاری کی حدیث پیش کی اس میں ہے کہ قیامت کے دن لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے استغاثواْ یعنی مدد طلب کریں گے پھر بتدریج حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس آئیں گے اور آپ کے عقیدے کے مطابق انبیاء علیہم السلام سے مانگنا شرک ہے اور امام بخاری کے مطابق یہ نام نہاد شرک قیامت کے دن بھی لوگ کررہے ہونگے جبکہ اس دن اللہ تبارک تعالیٰ اپنی شان کے لائق جلو افروز ہوگا
چلیں اس کا مطلب مدد طلب کرنا ہی لے لیں تو ماتحت الاسباب طریقے سے مدد کرنا شرک نہیں، قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ۔۔۔سورۃ المائدہ
ترجمہ: نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو
عیسی علیہ السلام کے بارے میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّـهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖقَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ﴿١٤﴾۔۔۔سورۃ الصف
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ۔ جس طرح حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راه میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راه میں مددگار ہیں، پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان ﻻئی اور ایک جماعت نے کفر کیا تو ہم نے مومنوں کی انکے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وه غالب آ گئے
تو ماتحت الاسباب طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے، لیکن مافوق الاسباب طریقے سے مدد کرنے کا عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ ایسی مدد کرنے پر کوئی قادر نہیں سوائے اللہ کے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦ ءَالِهَةًۭ لَّا يَخْلُقُونَ شَيْا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّۭا وَلَا نَفْعًۭا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًۭا وَلَا حَيَوٰةًۭ وَلَا نُشُورًۭا ﴿3﴾
ترجمہ: اور انہوں نے الله کے سوا ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نقصان اور نفع کے مالک نہیں اور موت اور زندگی اور دوبارہ اٹھنے کے بھی مالک نہیں (سورۃ الفرقان،آیت3)
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ ﴿22﴾
ترجمہ: کہہ دوالله کے سوا جن کا تمہیں گھمنڈ ہے انہیں پکارو وہ نہ تو آسمان ہی میں ذرّہ بھر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان میں کچھ حصہ ہے اور نہ ان میں سے الله کا کوئی مددکار ہے (سورۃ سبا،آیت22)

اور جو آپ نے حدیث پیش کی اس میں بیان ہوا کہ
لوگ قیامت کے دن آدم علیہ السلام ، پھر نوح علیہ السلام ، پھر ابراہیم علیہ السلام، پھر موسیٰ علیہ السلام پھر عیسی علیہ السلام پاس جائے گے اور ان سے کہیں گے آپ اللہ کے حضور ہماری شفاعت کیجئے اس پر یہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام ان الفاظ میں معذرت فرمائیں گے " میں اس کے لائق نہیں ہوں " نہیں ہوں اور انبیاء علیہم السلام کا یہ فرمانا کہ " میں اس کے لائق نہیں ہوں " اس وجہ سے ہے کہ شفاعت کا یہ درجہ یعنی شفاعت کبریٰ کا درجہ کسی کو بھی حاصل نہیں سوائے ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے ایسی کو علماء اسلام مقام محمود سے تعبیر فرماتے ہیں جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ سے قرآن مجید میں فرمایا ہے اس درجہ شفاعت کے سوال پر تمام انبیاء علیہم السلام ایسی بناء پر معذرت فرمائیں گے کہ میں اس قابل نہیں لیکن جبکہ یہ بھی ثابت ہے کہ اس کم درجہ کی شفاعت دیگر انبیاء علیہم السلام فرمائیں گے نہ صرف یہ کہ انبیاء بلکہ اللہ کے نیک بندے بھی شفاعت فرمائیں گے
لیکن جب لوگ اس شفاعت کبریٰ کا سوال رسول اللہﷺ سے کریں گے تو جواب میں رسول اللہﷺ کیا جواب ارشاد فرمائیں دیکھتے ہیں
ولكن عليكم بمحمد صلى الله عليه وسلم ، فيأتونني ، فأقول : أنا لها
ترجمہ داؤد راز
رسول اللہﷺنے فرمایا کہ : (عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں ) ہاں تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا کہ میں شفاعت کے لیے ہوں
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7510
یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی نبی ایسا نہیں جو اس شفاعت کبریٰ یا مقام محمود پر فائز ہو سوائے حضرت محمد مصطفیٰ ٖ کے ایسی لئے جب لوگ اس شفاعت کبریٰ کا سوال رسول اللہ ﷺ کریں گے تو جواب میں آپ ﷺ ارشاد فرمائیں کہ أنا لها یعنی ہاں میں ہی اس شفاعت کبریٰ کے لئے ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود ملنے پر کوئی اختلاف نہیں ، یہ حدیث میں آیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کے لئے جانا بھی حدیث میں ہے، یہ بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ہے، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت فضیلت والے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٧﴾۔۔۔سورۃ الانبیاء
ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے
نیز فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٤٥﴾ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ﴿٤٦﴾۔۔۔سورۃ الاحزاب
ترجمہ: اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے واﻻ، خوشخبریاں سنانے واﻻ، آگاه کرنے واﻻ بھیجا ہے (45) اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے واﻻ اور روشن چراغ
تو لہذا اس بات میں اختلاف نہیں، ہاں لیکن شفاعت بھی کس طرح کریں گے یہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں پوری تفصیل ایک بار دوبارہ بیان کر دیتا ہوں
((یہاں تو کسی ایسی مافوق الاسباب طریقے سے فریاد کا ذکر نہیں ہے، ہاں البتہ شفاعت کا ذکر ہے، کہ قیامت کے دن لوگ آدم علیہ السلام ، پھر نوح علیہ السلام ، پھر ابراہیم علیہ السلام، پھر موسیٰ علیہ السلام پھر عیسی علیہ السلام اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر تمام انبیاء یہ کہیں گے۔(لست هناكم) جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں سفارش کریں گے تو پہلے اللہ سے اجازت طلب کریں گے۔ (فيأتوني فأنطلق حتى أستأذن على ربي فيؤذن ‏ {‏ لي‏}‏) اور یہی بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے (مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ)۔۔۔ سورۃ البقرۃ) اور جب اجازت لے لیں گےاس وقت کیا کیفیت یہ ہو گی (فإذا رأيت ربي وقعت ساجدا) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے سفارش کرنے سے پہلے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے اور فرمایا (فيدعني ما شاء الله) یہاں سے علم الغیب کی بھی نفی ہوتی ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب پتہ ہے ان کو جان لینا چاہئے کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے گا قیامت کے دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہی حمد بیان کریں گے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دنیا میں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ وہ حمد کیا ہو گی ، کیونکہ اگر معلوم ہوتی تو یہ نا کہتے (فيدعني ما شاء الله) اور اللہ کا حکم بھی قرآن میں یہ ہے ( يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ۔۔۔سورۃ المائدہ) تب اللہ کا حکم ہو گا (ثم يقال ارفع رأسك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وسل تعطه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقل يسمع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واشفع تشفع) تو اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سب اللہ کے محتاج ہوں گے جس طرح دنیا میں سب اللہ کے محتاج ہیں۔ کسی نبی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں دنیا یا آخرت میں مافوق الاسباب طریقے سے دینے کی قدرت رکھتا ہوں۔ ایسا دعویٰ میں نے کبھی نہ پڑھا ، نہ سنا، کیونکہ یہ انبیاء کا منہج نہیں (مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾۔۔۔سورۃ آل عمران) بلکہ انبیاء و رسولوں کی دعوت تو یہ ہے کہ (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ۔۔۔سورۃ النحل)) اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مجھے خود کو بھی نہیں معلوم کہ میری وہ پوسٹ کہاں ہے، لیکن میرا دوسری پوسٹ میں اپنی پہلی بات کی وضاحت کر دینے کے بعد آپ کا اعتراض کرنا درست نہیں۔ اگرچہ میری پوسٹ میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کے لفظ نہیں تھے لیکن مطلب یہی تھا، چونکہ یہ نیت کا مسئلہ ہے لہذا یہاں آپ کو مزید صفائی دینا کوئی اہم بات نہیں۔
چلیں میں نے تو پہلے ہی مان لیا کہ میں آپ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں پھر بھی آپ نے وضاحت کی آپ کی اس وضاحت سے میرے ذہین میں ایک بات آئی کہ کیا کوئی اچھی نیت رکھ کر کچھ بھی الٹا سیدھا لکھ سکتا ہے ؟؟؟


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دلیل بنا کر ان کے بارے میں مافوق الاسباب اختیارات کا عقیدہ رکھنا آپ کی کم علمی اور جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے، آج مجھے آپ کی بات پڑھ کر یقین ہو گیا ہے کہ آپ علم سے کتنے دور ہیں، قرآن و حدیث کا احسن فہم لینا بھی بہت مستحسن عمل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّـهُ ۖوَأُولَـٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿١٨﴾۔۔۔سورۃ الزمر
ترجمہ: جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں

لیکن چونکہ یہ دولت بھی اہل ایمان کو نصیب ہے اسی لئے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں قرآن و حدیث کا علم بھی عطا فرمایا اور ہم اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم فہم بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا لیتے ہیں جو قرآن کے اولین مخاطب تھے اور جن کے دلوں میں تقویٰ تھا۔
یعنی رسول اللہ ﷺ کے معجزات کو دلیل بنا کسی بات کو ثابت نہیں کیا جاسکتا
کہتے کہ رسول اللہﷺ کا سب بڑا معجزہ قرآن مجید ہے اور ایسی قرآن مجید کی آیت کو آپ بطور دلیل پیش فرمارہے ہیں اب ایسے میں کیا نام دوں ؟؟؟
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ جو دلائل آپ نے مافوق الاسباب طریقے سے دینے کے متعلق دئیے ہیں وہ کیسے ہیں، آپ کا کہنا (امام بخاری نے جس ترجمہ باب کے تحت اس حدیث کو بیان کیا وہ ہے علامات النبوة في الإسلام یعنی امام بخاری کی فیقہ کے مطابق رسول اللہﷺ کا مافوق الاسباب سے پانی دینا " اسلام میں نبوت کی علامات " اب کون مسلمان ایسا ہے جو نبوت کی علامات کا انکار کرے ؟) خود اس بات کا اقرار ہے کہ یہ معجزات کے متعلق دلائل ہیں، چونکہ انبیاء کو اللہ معجزات عطا فرماتا ہے جو ان کے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے رسول اور نبی ہونے کی دلیل ہوتے ہیں، لہذا اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ معجزات کا ظہور پذیر ہونا بھی اللہ کے حکم سے ہے اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی بھی نبی اور رسول معجزہ نہیں دکھا سکتا۔ عیسی علیہ السلام کو اللہ نے معجزات عطا فرمائے تو فرمایا:
وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٤٩﴾۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: اور وه بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا، کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی نشانی ﻻیا ہوں، میں تمہارے لئے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرنده بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وه اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرنده بن جاتاہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے میں مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مرددوں کو زندہ کرتا ہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اور جو اپنے گھروں میں ذخیره کرو میں تمہیں بتا دیتا ہوں، اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے، اگر تم ایمان ﻻنے والے ہو
نیز فرمایا:
إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ﴿١١٠﴾۔۔۔سورۃ المائدہ
ترجمہ: جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والده پر ہوا ہے، جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی۔ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرنده کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وه پرند بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر دیتے تھے مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں
غور کریں عیسی علیہ السلام کے معجزات اللہ کے حکم سے تھے، لیکن جب لوگ بدعقیدگی کا شکار ہوئے، عیسی علیہ السلام کی شان میں غلو کرنے لگے اور عیسی علیہ السلام کو الوہیت کے درجے پر فائز کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٧﴾۔۔۔سورۃ المائدہ
ترجمہ: یقیناً وه لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والده اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں و زمین اور دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
غور کریں یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ جس اللہ نے عیسی علیہ السلام کو معجزات عطا فرمائے ہیں وہ چاہے تو اپنے بندے اور رسول کو اور اس کی والدہ مریم کو ہلاک کر دینا چاہے تو کوئی ان کو بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ کس قدر کھول کھول کر اللہ نے بیان فرما دیا ہے۔
آپ نے ارشاد فرمایا
معجزات کا ظہور پذیر ہونا بھی اللہ کے حکم سے ہے اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی بھی نبی اور رسول معجزہ نہیں دکھا سکتا۔
لیکن ایک بات تو ہے کہ معجزات کا ظہور ہوتا انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھوں سے ہے اور اگر اللہ نہ چاہے تو انبیاء معجزات تو کیا کوئی انسان سانس بھی نہ لے سکے لیکن آپ ایک انسان کو اتنا با اختیار مانتے ہیں کہ وہ جو چاہے کرے لیکن انبیاء اکرام علیہم السلام کے لئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انھیں کوئی اختیار نہیں ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
چلیں اس کا مطلب مدد طلب کرنا ہی لے لیں تو ماتحت الاسباب طریقے سے مدد کرنا شرک نہیں، قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ۔۔۔سورۃ المائدہ
ترجمہ: نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو
عیسی علیہ السلام کے بارے میں ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّـهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖقَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ﴿١٤﴾۔۔۔سورۃ الصف
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ۔ جس طرح حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسیٰ نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راه میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راه میں مددگار ہیں، پس بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت تو ایمان ﻻئی اور ایک جماعت نے کفر کیا تو ہم نے مومنوں کی انکے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی پس وه غالب آ گئے
تو ماتحت الاسباب طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے، لیکن مافوق الاسباب طریقے سے مدد کرنے کا عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ ایسی مدد کرنے پر کوئی قادر نہیں سوائے اللہ کے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦ ءَالِهَةًۭ لَّا يَخْلُقُونَ شَيْا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّۭا وَلَا نَفْعًۭا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًۭا وَلَا حَيَوٰةًۭ وَلَا نُشُورًۭا ﴿3﴾
ترجمہ: اور انہوں نے الله کے سوا ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نقصان اور نفع کے مالک نہیں اور موت اور زندگی اور دوبارہ اٹھنے کے بھی مالک نہیں (سورۃ الفرقان،آیت3)
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ ﴿22﴾
ترجمہ: کہہ دوالله کے سوا جن کا تمہیں گھمنڈ ہے انہیں پکارو وہ نہ تو آسمان ہی میں ذرّہ بھر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان میں کچھ حصہ ہے اور نہ ان میں سے الله کا کوئی مددکار ہے (سورۃ سبا،آیت22)


قیامت کے لوگوں کا انبیاء علیہم السلام سے مدد مانگنا کس دلیل کی بناء پر ماتحت الاسباب ہے ؟؟؟

حضرت سلیمان علیہ السلام کا مافوق الاسباب سوال
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
سورہ نمل : 40
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں
اب حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے کہ وہ اپنے درباریوں سے ایک ایسے امر کا سوال فرمارہے ہیں جو ماتحت الاسباب کے تحت نہیں آتا اگر ہزاروں مل دور سے تحت بلقیس کا ملکہ بلقیس کے دربار سلیمانی میں آنے پہلے لانا اگر ماتحت الاسباب ہے تو پھر مافوق الاسباب کس چیز کا کہا جاتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود ملنے پر کوئی اختلاف نہیں ، یہ حدیث میں آیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کے لئے جانا بھی حدیث میں ہے، یہ بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ہے، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت فضیلت والے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٧﴾۔۔۔سورۃ الانبیاء
ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے
نیز فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٤٥﴾ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّـهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا ﴿٤٦﴾۔۔۔سورۃ الاحزاب
ترجمہ: اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے واﻻ، خوشخبریاں سنانے واﻻ، آگاه کرنے واﻻ بھیجا ہے (45) اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے واﻻ اور روشن چراغ
تو لہذا اس بات میں اختلاف نہیں، ہاں لیکن شفاعت بھی کس طرح کریں گے یہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں پوری تفصیل ایک بار دوبارہ بیان کر دیتا ہوں
بے شک اللہ نبی مکرم کو گواہیاں دینے والا بنا کر بھیجا
کیا رسول اللہ ﷺ پوری امت کی گواہی دیں گے یا صرف صحابہ کی ؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
فوت ہونے کے بعد قبرستان جانا اس لئے کہ آخرت کی فکر ہو اور انسان کو اپنی موت یاد آئے، اور وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے عقائد و اعمال کی اصلاح کرے تو یہ بات درست ہے۔ اس نیت سے قبرستان جانا اور بات ہے
زوروا القبور فانها تذكركم الاخرة (صحيح مسلم حديث نمبر ٩٧٦)
''قبروں کی زیارت کیا کرو یہ تمھیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں''
لیکن اگر کوئی قبرستان جا کر قبروں پر مجاور بن کر بیٹھے، وہاں رکوع و سجود کرے، وہاں غیر اللہ کے نذرونیاز تقسیم کرے یا دیگر غیر شرعی اور شرکیہ امور کا مرتکب ہو تو یہ انتہائی مذموم ہے، بلکہ اپنے ایمان و عقیدے اور آخرت کی تباہی کا سبب ہے۔ ایسی باتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا ہے۔
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا(صحیح مسلم:972)
''قبروں کی طرف منہ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔''
أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ(صحیح مسلم:532)
''خبردار ! بلاشبہ تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء و صلحاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا کرتے تھے ۔ تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔''


یعنی یہ بات ثابت ہوگئی کہ زیارت قبور سنت نبی مکرم ہے
اور اللہ کے نیک بندوں کی قبور پر جانا بھی رسول اللہﷺ عمل ہے



یہاں آپ حدیث کے ان الفاظوں کے ساتھ ساتھ قرآن کی یہ دو آیات بھی لازم یاد رکھیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ﴿٥٠﴾۔۔۔سورة الانعام
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟
نیز
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّـهُ خَيْرًا ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٣١﴾۔۔۔سورة هود
میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں، ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ﻇالموں میں ہو جائے گا
ان دو آیات اور احادیث میں تطبیق دیں لیں۔ میں چونکہ علوم الحدیث میں اتنا ماہر نہیں ہوں لہذا علماء کو ٹیگ کر دیتا ہوں۔ انس حافظ عمران الٰہی
اس کی تطبیق بہت آسان ہے کیونکہ آپ نے جو آیت کوٹ کی اس میں ہے " جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے " اور بات بھی مسلم ہے کہ رسول اللہﷺ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی الہی کے تحت ہی ہوتا جو حدیث میں نے پیش کی وہ حدیث رسول اللہﷺ کے وصال سے کچھ عرصہ پہلے کی ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ "مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی " اور یہ آیت یقینا اس فرمان نبویﷺ سے پہلے نازل ہوئی ہے
اب آپ اپنے عقائد کی اصلاح کر لیں، میں نے ایک اور بات بھی کی تھی جس کا جواب آپ سے نہیں بن پایا (کسی نبی یا رسول نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مافوق الاسباب طریقے سے دنیا یا آخرت میں کچھ دے سکتے ہیں)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
مافوق الاسباب کے متعلق قرآن میں درج حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول پیش گیا ہے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ آپ کی کم علمی اور جہالت ہے، آپ کا وہ ناقص فہم ہے جو آپ لیتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا (مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے لئے تھا۔باقی رہا امت کا معاملہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بھی شرک موجود ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں:
1۔اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو شرک کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی غرض سے اٹھارہ انبیاء کے ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
''لو اشركوا لحبط عنهم ما كانوا يعملون''
''اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وه سب اکارت ہوجاتے۔''(الانعام:88)
آیت کی تفسیر
غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت میں انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے لیے تعریض ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اگر انہوں نے بالفرض شرک کیا توان کے نیک اعمال ضائع ہوجائیں گے تو ان کی امتیں کس گنتی ميں شمارہیں۔(تبیان القرآن:3/293)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقم طراز ہیں:
پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں، مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اورہلاکت سے آگاہ کرنا ہے۔(تفسیر احسن البیان: 359)
2۔دوسرےمقام پر فرمایا:
''وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ''
'' اور بالتحقیق آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف وحی کی گئی جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر آپ نےشرک کیا تو آپ کے عمل ضرور ضائع ہوں گے اور آپ ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔''(الزمر:65)
اس آیت کی تفسیر میں غلام رسول سعیدی بریلوی رقم طراز ہیں:
اس آیت میں تعریض ہے ذکر آپ کا ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔ یعنی اگر بالفرض آپ نے بھی شرک کیا توآپ کے اعمال ضائع ہو جائیں گے تو اگر آپ کی امت کے کسی شخص نے شرک کیا تو اس کے اعمال توبطریق اولیٰ ضائع ہو جائیں گے۔(تبیان القرآن:10/293)۔
یہ آیت دلیل ہیں کہ شرک انتہائی مہلک گناہ ہے اور امت مسلمہ کے کسی فرد سےشرک کا ارتکاب اس کے سابقہ اعمال کی تباہی کا باعث اور ہلاکت و بربادی کاشاخسانہ ہے۔
3۔ذیل کی آیت واضح نص ہے کہ اہل ایمان سے شرک کا ظہور ممکن ہے اور کامیاب وہ مسلمان ہوں گے جو شرک کی آلائش سے پاک ہوں گے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
''الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ۔''
وہ لوگ جو ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ ملتبس نہ کیا انہی کے لیے امن ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔(الانعام:82)
اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، درج حدیث میں مزید وضاحت ہے۔
عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں :جب یہ آیت نازل ہوئی
''الذين امنوا و لم يلبسوا ايمانهم بظلم ''
تو اصحاب رسولﷺ پر یہ بات شاق گزری اور انہوں نے عرض کیا: ہم میں سے کون ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہیں کرتا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس سے وہ مراد (عام ظلم) نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ اس(ظلم) سے مراد شرک ہے۔ کیا تم نے لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو وہ اپنے بیٹے کو کر رہے تھے
''یٰبنی لا تشرک باللہ ان الشرک لظلم عظیم''
'' اے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا، بلاشبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔'' (صحیح بخاری :3429،صحیح مسلم:124)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ سے شرک کا ارتکاب ممکن ہے اور روز قیامت وہی مسلمان کامیاب قرار پائے گا جو شرک کی نحوست سے محفوظ ہوا ہوگا اوراس آیت کے مخاطب مسلمان ہی ہیں تبھی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت کے نزول سے کبیدہ خاطر ہو ئے۔ اس میں ان لوگوں کے نظریہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ وہابی ان آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں جو کفارکےلیےنازل ہوئی ہیں، جب کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت کا مخاطب مسلمانوں کو ہی سمجھ رہےہیں۔
4۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
''فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ۔ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ۔
''پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہئے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہئے-اللہ کی توحید کو مانتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے۔ سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے واﻻ گویا آسمان سے گر پڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی۔(الحج:30،31)
5۔درج ذیل آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ صالح مو منین کو شرک سے ممانعت کا حکم دے رہے ہیں-
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
'' فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا و لا يشرك بعبادة ربه احدا''
''چنانچہ جو شخص اپنےرب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو وہ نیک عمل کرے اوراپنے رب کی عبادت کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے-'' (الکہف :110)
یہ آیت واضح دلیل ہے کہ اہل ایمان شرک کا نہ صرف ارتکاب کرتے ہیں،بلکہ دعویٰ ایمان کے باوجود نام نہاد مسلمانوں کی اکثریت میں شرک موجود ہی رہتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے
''و ما يؤمن اكثرهم بالله الا و هم مشركون''
'' اور ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے مگر وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔''(یوسف :106)
ان کے علاوہ کئی قرآنی آیات جو اس بات کی شاہد ہیں کہ امت مسلمہ سےشرک کا ارتکاب ممکن ہے اور جیسے گزشتہ امتیں شرک وکفر کے ارتکاب کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئی تھیں، امت مسلمہ میں بھی شرک کا وجود ان کی تباہی و بربادی کا باعث ہوگا۔
ذیل میں وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن میں امت مسلمہ کےشرک کے مرتکب ہونے کے دلائل ہیں۔
1۔عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ » وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ »
'' جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا ہو تو آگ میں داخل ہوگا اور میں(ابن مسعود ) کہتا ہوں کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو اس نے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہو گا تو و ہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح بخاری :1238،صحیح مسلم:92)
2۔جابر بن عبد اللہ سےمروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوسنا، آپ ﷺنے فرمایا:
« مَنْ لَقِىَ اللَّهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَقِيَهُ يُشْرِكُ بِهِ دَخَلَ النَّارِ »
'' جو شخص اللہ تعالی کو اس حال میں ملا کہ وہ اس کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اللہ سے اس حالت میں ملاقات کی کہ اس کے ساتھ کچھ شرک کرتا ہو گا تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔(صحیح مسلم:93)
3۔ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا »
'' ہر نبی کی ایک دعا ہے جسے شرف قبولیت بخشا جاتا ہے،چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعوت کو عجلت میں کرلیا ہے، لیکن میں نے اپنی دعا کو روز قیامت کو اپنی امت کےلیے بطور سفارش چھپایا ہے پس وہ ان شاء اللہ میری امت میں سے ہراس شخص کو پہنچے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔(صحیح مسلم:199).
4۔ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
« لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ حَوْلَ ذِى الْخَلَصَةِ ». وَكَانَتْ صَنَمًا تَعْبُدُهَا دَوْسٌ فِى الْجَاهِلِيَّةِ بِتَبَالَةَ »
'' اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ ذو الخلصہ(بت) کے گرد دَوس قبیلہ کی عورتوں کی سرینیں حرکت کریں گی۔اور ذو الخلصہ ایک بت تھا دور جاہلیت میں قبیلہ دوس اس کی پرستش کرتا تھا۔(صحیح بخاری:7116صحیح مسلم:2906)
5۔عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
« لاَ يَذْهَبُ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى تُعْبَدَ اللاَّتُ وَالْعُزَّى ». فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُ لأَظُنُّ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ (هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ) أَنَّ ذَلِكَ تَامًّا قَالَ « إِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ ذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَوَفَّى كُلَّ مَنْ فِى قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ فَيَبْقَى مَنْ لاَ خَيْرَ فِيهِ فَيَرْجِعُونَ إِلَى دِينِ آبَائِهِمْ »
'' دن رات کا سلسلہ ختم نہ ہوگا حتیٰ کہ لات ومنات کی عبادت ہو نے لگے گی۔ اس پر میں نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! میں سمجھتی تھی جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے
'' هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِ‌هَ الْمُشْرِ‌كُونَ''
''وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ و ہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے ،اگرچہ مشرکین اسے نا پسند کریں''(التوبۃ:33)
تو یہ آیت تام ہے (یعنی امت میں دوبارہ شرک نہ ہوگا) آپ ﷺنے فرمایا:جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی یہی صورت حال ہوگی، پھر اللہ تعالیٰ ایک خوش گوار ہوا بھیجیں گے تو جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا وہ فوت ہو جائے گا، پھر وہ لوگ باقی بچیں گے جن میں ذرا خیر نہ ہوگی تووہ اپنے آباء کے دین (شرک)کی طرف پلٹ جائیں گے۔(صحیح مسلم :2907)
مذکورہ احادیث واضح دلیل ہیں کہ امت مسلمہ میں شرک کا وجود نہ صرف ممکن ہے، بلکہ امت مسلمہ کے کئی قبائل وافراد شرک کا ارتکاب ہی کریں گے اور قرب قیامت مسلمانوں کی اولاد شرک کے ارتکاب ہی کی وجہ سے ظہور قیامت کی راہ ہموار کرے گی۔ امت مسلمہ میں شرک کا وجود عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی میں شروع ہوگیا تھااور مرور زمانہ کے ساتھ مختلف تاویلات و تحریفات کے سہارے شرکیہ عقائد مسلمانوں میں راسخ ہو تے رہے اور مذہب کی آڑمیں اس کی مسلسل ترویج ہوتی رہی، بالآخر بعض متجددین نے امت مسلمہ سے شرک کو شجر ممنوعہ قراردے دیا، لیکن وہ شرکیہ عقائد ونظریات جن کے ارتکاب سے سابقہ امتیں زوال ونامرادی کاشکار ہوئی تھیں، اگر امت مسلمہ وہی عقائد ونظریات اختیار کرے گی تویہ بھی درگاندہ راہ ٹھہرے گی
اصل مسئلہ یہ کہ یہ ظلم عظیم شرک ہے کیا اس کی ڈیفنشن کیا ہے کیونکہ جو عامی وہابی ہیں وہ رسول اللہﷺ کے میلاد منانے کو بھی شرک کہتے ہیں جبکہ کہ میلاد منانے کو شرک کہا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ وہابی صرف اللہ تعالیٰ کا ہی میلاد بنا تے ہو(نعوذباللہ) ایسا کہنے سے کفر لازم آئے گا ۔
اور وہابی علماء کا حال کیا ہے وہ ان کی کتابوں میں درج ہے مثلا اسماعیل دہلوی نے ایک کتاب لکھی تقویۃ الایمان کے نام سے اس میں" شرک کے کام " کے عنوان سے درج ذیل امور لکھے ہیں
"بیماریوں سے بچانے کے لیے اپنے بیٹوں کو انھیں کی طرف منسوب کرتے ہیں کسی کا نام عبدالنبی کسی کا علی بخش کسی کا حسین بخش کسی کا پیربخش کسی کا سالار بخش کسی کا غلام محی الدین اور کسی کا غلام معین الدین رکھتے ہیں"
اسماعیل دہلوی ، تقویۃ الایمان صفحہ 40 ایڈیشن 2006

اس میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اس کتاب کا مقدمہ جن صاحب نے لکھا ہے ان کا نام غلام رسول مہرہے
صفحہ 34
جب خود وہابی ان سب باتوں کو شرک نہیں مانتے تو وہ دوسروں پر ان امور کی انجام دہی پر شرک کا بہتان کیوں لگاتے ہیں
اسی کتاب کے صفحہ 95 پر عبادت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے
"عبادت ان کاموں کو کہاجاتا ہے جو حق تعالیٰ نے اپنی تعظیم کے واسطے مقرر فرماکر سکھاے ہیں"
بلکل ٹھیک تعریف بیان کی عبادت کی
لیکن ایک دوسری جکہ کچھ ایسا بھی لکھا ہوا کہ
قبروں کو چومے یا قبروں یا دیگرمقامات کیلے دورسے سفر کرکے جاے یا وہاں چراغ جلاے قبر پر چادر چڑھاے یا مور چھل جھلے یا شامیانہ تانے یا اس قسم کا کوئی کام کرے تواس نے کھلا شرک کیا اس کو شرک فی العبادات کہتے ہیں"
تقویۃ الایمان صفحہ 50،49
ان عبارات کو پڑھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ اسماعیل دہلوی جس خدا کو مانتے ہیں اس خدا نے اس سے کہا ہوگا کہ تم صرف میری ہی قبر کو چومنا صرف میری ہی قبر کی زیارت کیلے سفر کرنا صرف میری ہی قبر پر چادر چڑھانا مورچھل جھلنا یا شامیانہ تانہ اگر تم نے کسی اور کی قبر پر اس قسم کے کام کیے تو یہ کھلا ہوا شرک ہو گا اور شرک فی العبادات کہلاے گا اور یہ سارے امور اس کے خدا نے اپنی تعظیم کے واسطے مقرر کیے ہیں نعوذباللہ
یعنی وہابی عالم ایسے امور کو بھی شرک ٹہراتے ہیں کہ اگر ایک مسلمان انہیں شرک مانے تو وہ کافر ہوجائے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
چلیں میں نے تو پہلے ہی مان لیا کہ میں آپ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں پھر بھی آپ نے وضاحت کی آپ کی اس وضاحت سے میرے ذہین میں ایک بات آئی کہ کیا کوئی اچھی نیت رکھ کر کچھ بھی الٹا سیدھا لکھ سکتا ہے ؟؟؟
میں پہلے بھی اس بات کو دھرا چکا ہوں، کہ یہ نیت کا مسئلہ ہے ، آپ نے میرے دل میں جھانک کر نہیں دیکھا ہوا کہ میں نے کس نیت سے کہا تھا، اور آپ کے دماغ میں آنے والی باتوں کا میں مکلف نہیں ہوں، لہذا نیکسٹ ٹائم آپ کو اس موضوع پر کوئی وضاحت نہیں کی جائے گی۔ حسن ظن کا شکریہ
یعنی رسول اللہ ﷺ کے معجزات کو دلیل بنا کسی بات کو ثابت نہیں کیا جاسکتا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ان کے رسول ہونےکی دلیل تھے، کفارِ مکہ کو چاہئے تھا کہ وہ معجزات دیکھ کر ہی سچے نبی کو پہچان لیتے اور ان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی کر کے اپنی آخرت سنوارتے۔ معجزات دینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ امتی اللہ کو چھور کر نبی کی عبادت کرنا شروع کر دیں۔عیسی علیہ السلام کو جو معجزات ملے ، وہ آپ نے اپنی امت کو دکھائے پھر کہا:
إِنَّ اللَّـهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿٥١﴾۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: یقین مانو! میرا اور تمہارا رب اللہ ہی ہے، تم سب اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راه ہے
نیز فرمایا:
وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴿٧٢﴾۔۔۔سورۃ المائدہ
ترجمہ: حاﻻنکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے واﻻ کوئی نہیں ہوگا
دیکھا آپ نے، معجزات دکھانے کے بعد وہی توحید و اطاعت رسول کی دعوت۔ کیونکہ انبیاء کا مقصد ہی یہی ہے، انبیاء اپنی دینی اور اخلاقی طور پر بگڑی ہوئی قوموں کے پاس اللہ کی شریعت لے کر جاتے ہیں اور وحی کے ذریعے ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ انبیاء کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ خود ان کی پوجا شروع کر دی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالیٰ کتاب وحکمت اور نبوت دے، یہ ﻻئق نہیں کہ پھر بھی وه لوگوں سے کہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ وه تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعﺚ اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب
کہتے کہ رسول اللہﷺ کا سب بڑا معجزہ قرآن مجید ہے اور ایسی قرآن مجید کی آیت کو آپ بطور دلیل پیش فرمارہے ہیں اب ایسے میں کیا نام دوں ؟؟؟
قرآن بھی معجزاہ ہے، اور یہ ہدایت بھی ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ: اس کتاب (کے اللہ کی کتاب ہونے) میں کوئی شک نہیں پرہیزگاروں کو راه دکھانے والی ہے
یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، یہ انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے، لیکن افسوس کچھ لوگ آج بھی پرانے لوگوں کی روش پر چل کر اس میں تحریف اور من مانی تاویلات کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿٧٥﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ: (مسلمانو!) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حاﻻنکہ ان میں ایسے لوگ بھی جو کلام اللہ کو سن کر، عقل وعلم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈاﻻ کرتے ہیں

آپ نے ارشاد فرمایا
معجزات کا ظہور پذیر ہونا بھی اللہ کے حکم سے ہے اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی بھی نبی اور رسول معجزہ نہیں دکھا سکتا۔
لیکن ایک بات تو ہے کہ معجزات کا ظہور ہوتا انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھوں سے ہے اور اگر اللہ نہ چاہے تو انبیاء معجزات تو کیا کوئی انسان سانس بھی نہ لے سکے لیکن آپ ایک انسان کو اتنا با اختیار مانتے ہیں کہ وہ جو چاہے کرے لیکن انبیاء اکرام علیہم السلام کے لئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انھیں کوئی اختیار نہیں ۔
آپ حقیقت مانیں تو آپ نے یہاں طفلانہ حرکت کی ہے، بھلا یہ بھی کوئی اعتراض ہے، کہ عام انسانوں کے لئے اتنے اختیارات مانتے ہیں، لیکن انبیاء کے لئے نہیں، میں نے کب عام انسانوں کے مافوق الاسباب اختیارات کی بات کی ہے۔ جہاں تک ظاہری طور پر اختیار کی بات ہے تو یہ سب ماتحت الاسباب ہے نا کہ مافوق الاسباب۔میں آپ کو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں فرق سمجھاتا ہوں
"اگر ایک شخص سمندر میں کشتی پر سفر کر رہا ہے، بیچ سمندر اسے طوفان گھیر لیتا ہے اور وہ موبائل کے یا کسی اور وائرلیس کے ذریعے کنارے پر کھڑۓ لوگوں کو آگاہ کر دیتا ہے اور وہ ہیلی کاپٹر لے کر مدد کے لئے آجاتے ہیں تو یہ سارا کچھ اسباب کے تحت ہے یہ شرک نہیں ہے۔ شرک یہ ہے کہ آپ وہاں کھڑۓ کھڑے کسی معین الدین چشتی کو یا غلام فرید کو یا قلندر وغیرہ یا جتنے بھی لوگوں ني باطل معبود بنا ركهے ہیں ان کو پکارنا شروع کر دیں تو یہ شرک اکبر ہے۔ کیونکہ یہاں سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں پکارا جا سکتا"
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ ﴿٦٥﴾۔۔۔سورۃ العنکبوت
ترجمہ: پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وه انہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قیامت کے لوگوں کا انبیاء علیہم السلام سے مدد مانگنا کس دلیل کی بناء پر ماتحت الاسباب ہے ؟؟؟
قیامت کے دن انبیاء بھی موجود ہوں گے، لوگ بھی موجود ہوں گے، وہ جا کر انبیاء کو سفارش کے لئے کہیں گے، کیا اتنی سی بات سے آپ انبیاء کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھ رہے ہیں۔ (نعوذباللہ من ذلک) اور پھر مافوق الاسباب طریقے سے مدد تو آج بھی لوگ غیراللہ سے مانگتے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اصل بات مافوق الاسباب طریقے سے مدد کر سکنا ہے، اور وہ اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی آخر اللہ کو اکیلا مشکل کشا، حاجت روا ماننے میں آپ کو کیا امر مانع ہے۔ آپ اتنی محبت اللہ سے کیوں نہیں کرتے؟ جس اللہ نے آپ کو پیدا کیا، روزی دی، آپ کو تو چاہئے کہ اسی اللہ کی عبادت کریں
حضرت سلیمان علیہ السلام کا مافوق الاسباب سوال
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
سورہ نمل : 40
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں
اب حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے کہ وہ اپنے درباریوں سے ایک ایسے امر کا سوال فرمارہے ہیں جو ماتحت الاسباب کے تحت نہیں آتا اگر ہزاروں مل دور سے تحت بلقیس کا ملکہ بلقیس کے دربار سلیمانی میں آنے پہلے لانا اگر ماتحت الاسباب ہے تو پھر مافوق الاسباب کس چیز کا کہا جاتا ہے
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کا خوبصورت اور جامع تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
"یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الہی کا علم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرامت اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک چھپکتے میں وہ تخت لے آیا ۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کے سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الہی ہی کی کارفرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئےجب انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا"
بے شک اللہ نبی مکرم کو گواہیاں دینے والا بنا کر بھیجا
کیا رسول اللہ ﷺ پوری امت کی گواہی دیں گے یا صرف صحابہ کی ؟؟؟
سب کی گواہی ۔۔۔ ان شاءاللہ
 
Last edited:

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یعنی یہ بات ثابت ہوگئی کہ زیارت قبور سنت نبی مکرم ہے
اور اللہ کے نیک بندوں کی قبور پر جانا بھی رسول اللہﷺ عمل ہے
جی بالکل، لیکن وہاں جا کر شرکیہ امور کا مرتکب ہونا حرام ہے۔
مافوق الاسباب کے متعلق قرآن میں درج حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول پیش گیا ہے ۔
جواب بھی دے دیا گیا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اس پوسٹ میں آپ نے صرف شخصیات پر بات کی ہے، لیکن چلیں آپ کو میں یہاں بھی جواب دے دیتا ہوں۔
اصل مسئلہ یہ کہ یہ ظلم عظیم شرک ہے کیا اس کی ڈیفنشن کیا ہے
اللہ کی ذات، صفات اور عبادت کے اندر کسی غیر کو شریک سمجھنا شرک ہے۔
کیونکہ جو عامی وہابی ہیں وہ رسول اللہﷺ کے میلاد منانے کو بھی شرک کہتے ہیں جبکہ کہ میلاد منانے کو شرک کہا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ وہابی صرف اللہ تعالیٰ کا ہی میلاد بنا تے ہو(نعوذباللہ) ایسا کہنے سے کفر لازم آئے گا ۔
میلاد منانا شرک نہیں بدعت ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے۔ ہاں میلاد کے موقعے پر پڑھی جانے والی غلو آمیز نعتیں شرک ہیں۔ میلاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور گستاخی کی جاتی ہے۔ جیسے لائٹیں بند کر کے نبی کی آمد کا کہنا۔ نبی کے لئے کرسی رکھنا وغیرہ وغیرہ۔ (اعوذباللہ ان اکون من الجاھلین)
وھابی کا اللہ کے بارے میں عقیدہ
قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾۔۔۔سورۃ اخلاص
اور
قَالُوا اتَّخَذَ اللَّـهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَـٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴿٦٨﴾۔۔۔سورۃ یونس
اور
قَالُوا اتَّخَذَ اللَّـهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَـٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴿٦٨﴾۔۔۔سورۃ یونس
اور
سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا﴿٤٣﴾۔۔۔سورۃ بنی اسرائیل
اور
مَا كَانَ لِلَّـهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ ۖسُبْحَانَهُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٣٥﴾۔۔۔سورۃ مریم
اور
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ﴿٢٦﴾۔۔۔سورۃ الانبیاء
اور
لَّوْ أَرَادَ اللَّـهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّـهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿٤﴾۔۔۔سورۃ الزمر

اور وہابی علماء کا حال کیا ہے وہ ان کی کتابوں میں درج ہے مثلا اسماعیل دہلوی نے ایک کتاب لکھی تقویۃ الایمان کے نام سے اس میں" شرک کے کام " کے عنوان سے درج ذیل امور لکھے ہیں
"بیماریوں سے بچانے کے لیے اپنے بیٹوں کو انھیں کی طرف منسوب کرتے ہیں کسی کا نام عبدالنبی کسی کا علی بخش کسی کا حسین بخش کسی کا پیربخش کسی کا سالار بخش کسی کا غلام محی الدین اور کسی کا غلام معین الدین رکھتے ہیں"
اسماعیل دہلوی ، تقویۃ الایمان صفحہ 40 ایڈیشن 2006
اس میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اس کتاب کا مقدمہ جن صاحب نے لکھا ہے ان کا نام غلام رسول مہرہے
صفحہ 34
جب خود وہابی ان سب باتوں کو شرک نہیں مانتے تو وہ دوسروں پر ان امور کی انجام دہی پر شرک کا بہتان کیوں لگاتے ہیں
اسی کتاب کے صفحہ 95 پر عبادت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے
"عبادت ان کاموں کو کہاجاتا ہے جو حق تعالیٰ نے اپنی تعظیم کے واسطے مقرر فرماکر سکھاے ہیں"
بلکل ٹھیک تعریف بیان کی عبادت کی
پہلی بات تو میں شخصیات پر بحث کرتا نہیں، کیونکہ حجت صرف قرآن و حدیث ہے، علماء اہلحدیث کے اقوال نہیں، آپ علماء اہلحدیث کے اقوال اگر قرآن و حدیث کے مخالف ثابت کر دو گے تو میں اسی وقت ان اقوال کو چھوڑ دوں گا، کیونکہ ہم نے رافضیت، بریلویت اور دیوبندیت کی طرح اپنے علماء کو اپنا رب نہیں بنا رکھا، ہمارے علماء قرآن و سنت کے مطابق ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ جہاں ان کی بات غلط ہو وہاں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال ، میرے استاد محترم قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ جو پچھلے سال مارچ میں فوت ہو گئے تھے انہوں نے مجھے ترجمہ و تفسیر قرآن مجید پڑھنا سکھایا ہے۔ وہ میرے استاد تھے میں ان کی بہت عزت کرتا تھا، الحمدللہ۔ لیکن وہ باجماعت نماز کے بعد اجتماعی دعا مانگتے تھے میں نے ان سے دلیل کا کہا تو انہوں نے کوئی قوی دلیل نہیں دی، لہذا میں اجتماعی دعا نہیں مانگتا تھا، میں ایسے ہی بیٹھا رہتا۔
تقویۃ الایمان میں نے کبھی پڑھی نہیں ہے، لیکن رافضیت اور بریلویت کو اس کتاب کے جملوں پر اعتراضات کرتے بہت دیکھا ہے، لیکن چونکہ شخصیات کے پیچھے اتنا نہیں پڑتا اسی لئے کبھی توجہ نہیں کی، اوپر جو آپ نے عبارت پیش کی ہے اس پر میں آپ کو اپنا نظریہ بیان کر دیتا ہوں۔ لیکن کس نے مقدمہ لکھا اور اس کا نام کیا ہے اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔
عبد
عبدکا معنی شرعی معنوں میں بندگی کرنے والا ہوتا ہے اور بندگی صرف اللہ کی کرنی چاہئے ، غیراللہ کی بندگی حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ۔۔۔سورۃ المومنون
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا:
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ ﴿٦٤﴾۔۔۔سورۃ الزمر
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے اے جاہلو! کیا تم مجھ سے اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کو کہتے ہو
لہذا اپنا نام عبدالنبی رکھنا شرک ہے، کیونکہ کوئی بھی انسان نبی کی بندگی نہیں کر سکتا یہ حرام ہے۔ خود انبیاء کی یہ دعوت نہیں تھی۔
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّـهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالیٰ کتاب وحکمت اور نبوت دے، یہ ﻻئق نہیں کہ پھر بھی وه لوگوں سے کہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ وه تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعﺚ اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب
انبیاء کی دعوت تھی
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ۔۔۔سورۃ النحل
ترجمہ: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو
بخش
اللہ کے سوا کوئی اولادیں دینے والا نہیں، خود ابوطالب کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ نے بخشا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ نے بخشے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ نے بخشی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لِّلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ﴿٤٩﴾ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ﴿٥٠﴾۔۔۔سورۃ الشوری
ترجمہ: آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے، وه بڑے علم واﻻ اور کامل قدرت واﻻ ہے
لہذا اولادیں دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، کسی اور سے اولادیں ملنے کی امید رکھنا یا مانگنا شرک اکبر ہے۔
لیکن ایک دوسری جکہ کچھ ایسا بھی لکھا ہوا کہ
قبروں کو چومے یا قبروں یا دیگرمقامات کیلے دورسے سفر کرکے جاے یا وہاں چراغ جلاے قبر پر چادر چڑھاے یا مور چھل جھلے یا شامیانہ تانے یا اس قسم کا کوئی کام کرے تواس نے کھلا شرک کیا اس کو شرک فی العبادات کہتے ہیں"
تقویۃ الایمان صفحہ 50،49
قبروں کے متعلق اوپر بیان کر چکا ہوں کہ موت کی یاددہانی اور آخرت کی فکر جیسے مقصد کے لئے قبرستان جانا درست ہے، لیکن وہاں جا کر شرکیہ امور کا مرتکب ہونا حرام ہے۔
ان عبارات کو پڑھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ اسماعیل دہلوی جس خدا کو مانتے ہیں اس خدا نے اس سے کہا ہوگا کہ تم صرف میری ہی قبر کو چومنا صرف میری ہی قبر کی زیارت کیلے سفر کرنا صرف میری ہی قبر پر چادر چڑھانا مورچھل جھلنا یا شامیانہ تانہ اگر تم نے کسی اور کی قبر پر اس قسم کے کام کیے تو یہ کھلا ہوا شرک ہو گا اور شرک فی العبادات کہلاے گا اور یہ سارے امور اس کے خدا نے اپنی تعظیم کے واسطے مقرر کیے ہیں نعوذباللہ
اللھم انی اعوذبک من الکفر
وھابی کا اللہ کے بارے میں عقیدہ
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚلَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ﴿٢٥٥﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ
 
Top