• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویوں کی ملفاظات اعلیٰ حضرت میں ایک اور تحریف

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اسی لیے ”محرف“چیزیں دین نہیں ہوتیں اور جو ”دین“ ہوتا ہے ہمیشہ”برقرار“ رہتا ہے۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ملفوظات اعلیٰ حضرت میں تحریف سے ہم اظہار براء ت کرتے ہیں۔
تخریج وتسہیل کے نام سے مکتبہ المدینہ نے جو ملفوظات اعلیٰ حضرت
شائع کئے اُس کے پہلے ایڈیشن میں بھی تحریف کی گئی،
پھر جب دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تواُس میں کچھ جدید تحریفات کی گئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ادارے کو توفیق
دے کہ یہ کام جب اتنی محبت سے کیاہے تو اس میں کی گئی تحریف کو ختم کرے
اورتحقیقی بورڈ میں جونادان دوست یا چالاک دشمن چھپا ہے اور اہل سنت کو بدنام
کر رہا ہے تواُسے بے نقاب کرکے مسلک پراحسان کیا جائے۔
آیات توصحیح بخاری میں بھی غلط لکھی ہیں مگرکسی نے بخاری میں تحریف نہ کی۔
اسی طرح احادیث کے نقل کرنے میں محدثین کو سہو ہوئے مگر کسی نے سہو
متن میں درست کرکے تحریف نہ کی۔
یہاں زیرِ بحث حدیث میں کہیں (ابن)اورکہیں(صبی)لکھا ملتا ہے۔اگر سہو
سے (صبی)کو (صبیہ)بولاگیا تو ایسے سہو بھی کتب میں ملتے ہیں۔ چنانچہ
مطالب العالیہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ایک روایت لکھی ہے اور
اس کی سندکو بھی صحیح لکھا:۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ الله عَنْه قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى صَبِيٍّ أَوْ صَبِيَّةٍ
بے شک نبی پاک نے ناسمجھ بچے یا بچی کی نمازجنازہ پڑھائی۔
یہاں (صبی او صبیہ)میں (او)کا لفظ شک اورسہو کی نشاندہی کرتا ہے۔
لہذا بھول کومتن میں درست کرنے کی بجائے حاشیہ میں درست کیا جائے۔یہ علمی طریقہ ہے۔
ہم ادارے کی شائع کردہ اس کتاب میں کی گئی تحریفات سے اظہارِ براء ت کرتے ہیں۔
2
طبی ضرورت کے باعث کسی عورت کے چہرے یا بالائی صدر پر ہاتھ لگانا درست ہے۔ اس
پراعتراض کرنے والے غلطی پر ہیں، چنانچہ۔
امام ابن حجر عسقلانی کی مطالب عالیہ سے ہی ایک روایت پیش ہے۔
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حدثنا عَفَّانُ، ثنا عَبْدُ الْوَارِثِ، ثنا حَنْظَلَةُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ الله عَنْه
قَالَ: إِنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ امْسَحْ وَجْهِي، وادع الله عز وجل لِي،
قَالَ: فَمَسَحَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجْهَهَا ودعا الله تعالى لَهَا.
قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَفِّلْ يَدَكَ. فَسَفَّلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِهَا.
فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَفِّلْ يَدَكَ. فَأَبَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَاعَدَهَا.
ترجمہ معترض خود کرلے۔
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
وہ بچی چھوٹی تھی ،،ورنا نبی ےاکرم ﷺ اسکے سینے پر ہاتھ نہیں مارتے۔۔۔۔یے میرا امان ہیں ، اللہ اسی پے موت دے ۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 03، 2012
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
94
پوائنٹ
63
ان دونوں صحابیوں نے عرض کیا ، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ ! ان پر آپ کا جملہ بڑاشاق گزرا
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے امام زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی ، اور انہیں نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی حضرت صفیہ ؓ نے خبر دی کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں جب رسول اللہ ﷺ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ ﷺ سے ملنے مسجد میں آئیں تھوڑی دیر تک باتیں کیں پھر واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئیں ۔ نبی کریم ﷺ بھی انہیں پہنچانے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ جب وہ ام سلمہ ؓ کے دروزے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں ، تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریم ﷺ کو سلام کیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کسی سوچ کی ضرورت نہیں ، یہ تو ( میری بیوی ) صفیہ بنت حیی ( ؓ ) ہیں ۔ ان دونوں صحابیوں نے عرض کیا ، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ ! ان پر آپ کا جملہ بڑاشاق گزرا ۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے ۔ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے ۔
صحیح بخاری
کتاب الاعتکاف
باب: کیا معتکف اپنی ضرورت کے لیے مسجد کے دروازے تک جا سکتا ہے؟
حدیث نمبر : 2035
حدثنا أبو اليمان،‏‏‏‏ أخبرنا شعيب،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ قال أخبرني علي بن الحسين ـ رضى الله عنهما ـ أن صفية،‏‏‏‏ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أنها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوره في اعتكافه في المسجد،‏‏‏‏ في العشر الأواخر من رمضان،‏‏‏‏ فتحدثت عنده ساعة،‏‏‏‏ ثم قامت تنقلب،‏‏‏‏ فقام النبي صلى الله عليه وسلم معها يقلبها،‏‏‏‏ حتى إذا بلغت باب المسجد عند باب أم سلمة مر رجلان من الأنصار،‏‏‏‏ فسلما على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ على رسلكما إنما هي صفية بنت حيى ‏"‏‏.‏ فقالا سبحان الله يا رسول الله‏.‏ وكبر عليهما‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن الشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم،‏‏‏‏ وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا ‏"‏‏.‏
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
ملفوظات اعلیٰ حضرت میں تحریف سے ہم اظہار براء ت کرتے ہیں۔
تخریج وتسہیل کے نام سے مکتبہ المدینہ نے جو ملفوظات اعلیٰ حضرت
شائع کئے اُس کے پہلے ایڈیشن میں بھی تحریف کی گئی،
پھر جب دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تواُس میں کچھ جدید تحریفات کی گئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ادارے کو توفیق
دے کہ یہ کام جب اتنی محبت سے کیاہے تو اس میں کی گئی تحریف کو ختم کرے
اورتحقیقی بورڈ میں جونادان دوست یا چالاک دشمن چھپا ہے اور اہل سنت کو بدنام
کر رہا ہے تواُسے بے نقاب کرکے مسلک پراحسان کیا جائے۔
آیات توصحیح بخاری میں بھی غلط لکھی ہیں مگرکسی نے بخاری میں تحریف نہ کی۔
اسی طرح احادیث کے نقل کرنے میں محدثین کو سہو ہوئے مگر کسی نے سہو
متن میں درست کرکے تحریف نہ کی۔
یہاں زیرِ بحث حدیث میں کہیں (ابن)اورکہیں(صبی)لکھا ملتا ہے۔اگر سہو
سے (صبی)کو (صبیہ)بولاگیا تو ایسے سہو بھی کتب میں ملتے ہیں۔ چنانچہ
مطالب العالیہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ایک روایت لکھی ہے اور
اس کی سندکو بھی صحیح لکھا:۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ الله عَنْه قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى صَبِيٍّ أَوْ صَبِيَّةٍ
بے شک نبی پاک نے ناسمجھ بچے یا بچی کی نمازجنازہ پڑھائی۔
یہاں (صبی او صبیہ)میں (او)کا لفظ شک اورسہو کی نشاندہی کرتا ہے۔
لہذا بھول کومتن میں درست کرنے کی بجائے حاشیہ میں درست کیا جائے۔یہ علمی طریقہ ہے۔
ہم ادارے کی شائع کردہ اس کتاب میں کی گئی تحریفات سے اظہارِ براء ت کرتے ہیں۔
2
طبی ضرورت کے باعث کسی عورت کے چہرے یا بالائی صدر پر ہاتھ لگانا درست ہے۔ اس
پراعتراض کرنے والے غلطی پر ہیں، چنانچہ۔
امام ابن حجر عسقلانی کی مطالب عالیہ سے ہی ایک روایت پیش ہے۔
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حدثنا عَفَّانُ، ثنا عَبْدُ الْوَارِثِ، ثنا حَنْظَلَةُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ الله عَنْه
قَالَ: إِنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ امْسَحْ وَجْهِي، وادع الله عز وجل لِي،
قَالَ: فَمَسَحَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجْهَهَا ودعا الله تعالى لَهَا.
قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَفِّلْ يَدَكَ. فَسَفَّلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِهَا.
فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ سَفِّلْ يَدَكَ. فَأَبَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَاعَدَهَا.
ترجمہ معترض خود کرلے۔
[/QUOT
السلام علیکم
محترم رانا صاحب
نمبر 2 پر نقل کی جانے والی روایت بھی ضعیف ہے۔ اس طرح کی تمام روایات کا مدار ایک روای حنظلہ السدوسی پر ہے جو ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔ وہ اخیر عمر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔ مزید برآں اس کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کی جانے والی روایات مرسل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
قال المزي في "تهذيب الكمال" : قال على ابن المديني : سمعت يحيى بن سعيد و ذكر حنظلة السدوسى ، فقال : قد رأيته و تركته على عمد . قلت ليحيى : كان قد اختلط ؟ قال : نعم . و قال أبو الحسن الميمونى ، عن أحمد بن حنبل : ضعيف الحديث . و قال أبو بكر الأثرم : سألت أبا عبد الله عن حنظلة السدوسى فقال : حنظلة ـ و مد بها صوته ـ ثم قال : ذاك منكر الحديث ، يحدث بأعاجيب
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
السلام علیکم
محترم رانا صاحب
مسند احمد کی مندرجہ بالا زیر بحث روایت ضعیف ہے۔ اس کا ایک راوی المنهال بن عمرو ضعيف ہے اور کا یعلی بن مرہ سے سماع ثابت نہیں۔
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
محترم راناصاحب

نمبر 2 پرنقل کی جانے والی روایت ضعیف ہے ۔ اسطرح کی تمام روایات کا مدار ایک روای حنظلہ السدوسی پر ہے جوضعیف اور منکر الحدیث ہے۔ وہ اخیرعمرمیں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا ۔ مزید برآں اس کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کی جانے والی روایات مرسل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

علامہ مزی کی تھذیب الکمال سے اقتباس:

قال المزي في "تهذيب الكمال" : قال على ابن المديني : سمعت يحيى بن سعيد و ذكر حنظلة السدوسى ، فقال : قد رأيته و تركته على عمد . قلت ليحيى : كان قد اختلط ؟ قال : نعم . و قال أبو الحسن الميمونى ، عن أحمد بن حنبل : ضعيف الحديث . و قال أبو بكر الأثرم : سألت أبا عبد الله عن حنظلة السدوسى فقال : حنظلة ـ و مد بها صوته ـ ثم قال : ذاك منكر الحديث ، يحدث بأعاجيب۔
 
Top