• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بس یہی حقیقت ہے

شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
boot.jpg
حدثنا إبراهيم بن موسى، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا هشام، ‏‏‏‏‏‏عن ابن جريج، ‏‏‏‏‏‏وقال عطاء:‏‏‏‏ عن ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏صارت الاوثان التي كانت في قوم نوح في العرب بعد اما ود كانت لكلب بدومة الجندل، ‏‏‏‏‏‏واما سواع كانت لهذيل، ‏‏‏‏‏‏واما يغوث فكانت لمراد، ‏‏‏‏‏‏ثم لبني غطيف بالجوف عند سبإ، ‏‏‏‏‏‏واما يعوق فكانت لهمدان، ‏‏‏‏‏‏واما نسر فكانت لحمير لآل ذي الكلاع، ‏‏‏‏‏‏اسماء رجال صالحين من قوم نوح، ‏‏‏‏‏‏فلما هلكوا اوحى الشيطان إلى قومهم ان انصبوا إلى مجالسهم التي كانوا يجلسون انصابا وسموها باسمائهم، ‏‏‏‏‏‏ففعلوا فلم تعبد حتى إذا هلك اولئك، ‏‏‏‏‏‏وتنسخ العلم عبدت".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے اور عطاء نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جو بت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔ یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔
(صحيح بخاري،كتاب التفسير،بَابُ: وَدًّا وَلاَ سُوَاعًا وَلاَ يَغُوثَ وَيَعُوقَ،حدیث نمبر: 4920)
وحدثني عباس بن عبد العظيم العنبري ، حدثنا النضر بن محمد اليمامي ، حدثنا عكرمة يعني ابن عمار ، حدثنا ابو زميل ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كان المشركون يقولون:‏‏‏‏ لبيك لا شريك لك، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " ويلكم قد قد "، ‏‏‏‏‏‏فيقولون:‏‏‏‏ إلا شريكا هو لك تملكه وما ملك، ‏‏‏‏‏‏يقولون:‏‏‏‏ هذا وهم يطوفون بالبيت.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مشرکین مکہ کہتے تھے «لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» ‏‏‏‏ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”خرابی ہو تمہاری یہیں تک رہنے دو۔“ (یعنی آگے نہ کہو) اور وہ اس کے آگے کہتے تھے کہ سوائے اس شریک کے جو تیرا ہی ہے تو اس کا مالک ہے اور وہ کسی شئے کا مالک نہیں۔ غرض یہی کہتے جاتے تھے اور بیت اللہ کا طواف کرتے جاتے تھے۔
(صحيح مسلم،كِتَاب الْحَجِّ،باب التَّلْبِيَةِ وَصِفَتِهَا وَوَقْتِهَا:حدیث نمبر: 2815)
اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ بھی اپنے شریکوں کو اللہ کے برابر نہیں جانتے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ کو ہر شے کا مالک جانتے تھے اور ان کو کسی شے کا مالک نہ جانتے تھے۔ تاہم ان کو پکارنا اور اپنا سفارشی اور وکیل قرار دینا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے مشرک ہونے اور ابدالآباد دوزخ میں جھونکنے کو کافی تھا۔ پس معلوم ہوا کہ جو اپنا حمایتی اور وکیل اور سفارشی سمجھ کر بھی کسی کی عبادت(نذرونیاز،قربانی) کرے اور اس کو دور دور سے پکارے تو وہ بھی مشرک ہوجاتا ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ لبیک لا شریک لک پر فرماتے تھے کہ یہیں تک رہنے دو۔ مگر وہ ملاعنین کب سنتے تھے۔

مشرکین مکہ جو کام اپنے بتوں سے لیتے تھے، وہی کام آج کا مسلمان اپنے زندہ یا فوت شدہ بزرگوں سے لیتا ہے۔ ان کے بت بھی فوت شدہ بزرگوں ہی کے مجسّمے ہوتے تھے۔ ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ ان مجسّموں سے ان بزرگوں کی روحوں کا تعلق قائم ہے جن کے یہ مجسّمے تھے اور یہی عقیدہ آج کے مسلمان کا ہے۔ وہ بھی قبروں پر چلہ کشی اسی لئے کرتا ہے کہ اس بزرگ کی روح کا تعلق بدستور اس قبر سے قائم ہے۔ مشرکین مکہ اور موجودہ مسلمان میں اگر کچھ فرق ہے تو صرف یہ کہ وہ کھلے دل سے یہ کہہ دیتے تھے کہ یہ ہیں تیرے شریک ہی، تیرے برابر نہ سہی چھوٹے سہی۔ گو ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے اور وہ حقیقتاً کسی چیز کے بھی مالک نہیں، تاہم وہ تیرے شریک ہیں۔ لیکن آج کامسلمان انہیں شریک نہ کہنے کے باوجود ان کے سپرد وہی کام کرتا ہے جو کام مشرکین اپنے بتوں کے سپرد کرتے تھے اور یہ تو ظاہر ہے کہ نام نہ لینے یا نام بدل لینے سے اصل حقیقت میں چنداں فرق نہیں پڑتا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔ بےشک اللہ اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا۔ (39-الزمر:3)
 
Last edited:
Top