محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۰ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۰ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا۳ۭ
۱؎ اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں دنیا کا قانون حیران وششدر ہے ۔ اس نے اس کا درجہ اتنا بلند اور رفیع قرار دیا ہے کہ وہاں تک غیر مسلم عورتوں کی رسائی ناممکن ہے۔
تعدد ازدواج ایک مسئلہ ہے جوبظاہر عقل وانصاف رکھنے والوں کے دل میں کھٹکتا ہے اورغیر مسلم دنیا کے دل میں عورت کی حیثیت کی نسبت شکوک پیدا کردیتا ہے اور وہ یہ دیکھ کر کہ اسلام بیک وقت چارعورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔کہہ اٹھتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں سے کوئی اچھاسلوک روا نہیں رکھا، حالانکہ ایسا نہیں۔ تعدد ازدواج کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے رکھنے چاہییں۔
اسلام سے پہلے کثرت بعول اورکثرت ازواج کی بلاتعین اجازت تھی۔ یعنی مرد جس قدر چاہتے، عورتیں نکاح میں رکھتے اور اسی طرح عورتیں جس قدر چاہتیں، خاوند بنالیتیں۔
(۱) اسلام نے کثرت بعول کی جو درحقیقت غیر مہذب زمانے کی رسم ہے ،قطعی ممانعت کردی اورکثرت ازواج کی تحدید کردی۔اس لیے اسلام تعدد ازدواج کا حامی بصورت تعیین ہے ، نہ موجد ومخترع کی حیثیت سے۔
(۲) اسلام سے پہلے عدل وانصاف کی شرط غیر ضروری تھی۔ا سلام نے اس شرط کو ضروری قرار دیا۔
(۳) تعددازدواج کو ہرحالت میں اسلام نے اچھا نہیں سمجھا۔ البتہ حالات کے مطابق اس کو موزوں قرار دیا۔
(۴) مرد بالطبع تنوع پسند ہے اوریہی وجہ ہے ،یورپ میں وحدت زوج کی ا سکیم کامیاب نہیں رہی۔
(۵) عورت ایک آلۂ تولید ہے جس کی کثرت میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(۶) مردمادی حیثیت سے اتنا قوی ہے کہ بعض اوقات وہ ایک عورت پر اکتفا نہیں کرسکتا۔
(۷) ملکی حالات بعض دفعہ مجبور کردیتے ہیں کہ کثرت ازدواج کی رسم کو جاری کیاجائے ۔جیسے یورپ میں جنگ عظیم کے بعد۔
کیا ان حقائق کی روشنی میں کثرت ازواج کی اجازت نہ دینا انسانیت پر بہت بڑا ظلم نہیں؟ اورآج جب کہ '' اقلیت واکثریت'' کا مسئلہ دنیا کی سیاسیات کا اہم عنصر ہے ، تعددازدواج کی خوبیوں سے کون انکار کرسکتا ہے ۔ ہندستان میں اگرمسلمان کثرت ازدواج پرعمل کرنے لگیں توصرف پچاس سال کے بعد اقلیت بغیر کسی تبلیغ کے مبدل بہ اکثریت ہوجائے ۔
عورت کی صنفی کمزوریاں اوربیماریاں بجائے خود تعدد ازدواج کی دعوت ہیں مگرچونکہ ہندستان میں اس کا رواج نہیں، اس لیے ہم اسے اچھا نہیں سمجھتے اوریہ ہماری غلطی ہے۔ یورپ آج کثرت اولاد پر بڑا زور دے رہا ہے۔
مگراسلام نے پہلے سے لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی ہے اور اس کی صورت تعددازدواج ہے ۔عام عورتوں میں کوئی خاص تعداد معین نہیں۔
اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی کے معنی یہ ہیں کہ اگرتم یتیم عورتوں کو اپنے عقد میں لاکر انصاف نہ کرسکو توپھردوسری عورتوں کے ساتھ جو تمھیں پسند ہوں، نکاح کرلو، تاکہ بے انصافی کا موقع نہ رہے ۔
مَاطَابَ میں بتایا ہے کہ جو عورت جسم وروح دونوں کے لحاظ سے تمھیں اچھی معلوم ہو، وہ اس قابل ہے کہ رفیقۂ حیات بنائی جائے ۔
اور اگرتمھیں خوف ہوکہ یتیم لڑکیوں میں عدل نہ کرسکوگے تو سوائے ان کے عورتوں میں سے جو تمھیں پسند آئیں،دو دو تین تین، چار چار نکاح میں لاؤ ۔اور اگر خوف ہوکہ برابری نہ رکھ سکوگے تو ایک ہی نکاح کرو یا وہ جو تمہارے ہاتھوں کا مال ہوا(یعنی باندی) اس دستور سے قریب ہے کہ تم ایک طرف نہ جھک پڑو۔۱؎ (۳)
تعدد ازدواج
۱؎ اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں دنیا کا قانون حیران وششدر ہے ۔ اس نے اس کا درجہ اتنا بلند اور رفیع قرار دیا ہے کہ وہاں تک غیر مسلم عورتوں کی رسائی ناممکن ہے۔
تعدد ازدواج ایک مسئلہ ہے جوبظاہر عقل وانصاف رکھنے والوں کے دل میں کھٹکتا ہے اورغیر مسلم دنیا کے دل میں عورت کی حیثیت کی نسبت شکوک پیدا کردیتا ہے اور وہ یہ دیکھ کر کہ اسلام بیک وقت چارعورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔کہہ اٹھتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں سے کوئی اچھاسلوک روا نہیں رکھا، حالانکہ ایسا نہیں۔ تعدد ازدواج کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے رکھنے چاہییں۔
اسلام سے پہلے کثرت بعول اورکثرت ازواج کی بلاتعین اجازت تھی۔ یعنی مرد جس قدر چاہتے، عورتیں نکاح میں رکھتے اور اسی طرح عورتیں جس قدر چاہتیں، خاوند بنالیتیں۔
(۱) اسلام نے کثرت بعول کی جو درحقیقت غیر مہذب زمانے کی رسم ہے ،قطعی ممانعت کردی اورکثرت ازواج کی تحدید کردی۔اس لیے اسلام تعدد ازدواج کا حامی بصورت تعیین ہے ، نہ موجد ومخترع کی حیثیت سے۔
(۲) اسلام سے پہلے عدل وانصاف کی شرط غیر ضروری تھی۔ا سلام نے اس شرط کو ضروری قرار دیا۔
(۳) تعددازدواج کو ہرحالت میں اسلام نے اچھا نہیں سمجھا۔ البتہ حالات کے مطابق اس کو موزوں قرار دیا۔
(۴) مرد بالطبع تنوع پسند ہے اوریہی وجہ ہے ،یورپ میں وحدت زوج کی ا سکیم کامیاب نہیں رہی۔
(۵) عورت ایک آلۂ تولید ہے جس کی کثرت میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(۶) مردمادی حیثیت سے اتنا قوی ہے کہ بعض اوقات وہ ایک عورت پر اکتفا نہیں کرسکتا۔
(۷) ملکی حالات بعض دفعہ مجبور کردیتے ہیں کہ کثرت ازدواج کی رسم کو جاری کیاجائے ۔جیسے یورپ میں جنگ عظیم کے بعد۔
کیا ان حقائق کی روشنی میں کثرت ازواج کی اجازت نہ دینا انسانیت پر بہت بڑا ظلم نہیں؟ اورآج جب کہ '' اقلیت واکثریت'' کا مسئلہ دنیا کی سیاسیات کا اہم عنصر ہے ، تعددازدواج کی خوبیوں سے کون انکار کرسکتا ہے ۔ ہندستان میں اگرمسلمان کثرت ازدواج پرعمل کرنے لگیں توصرف پچاس سال کے بعد اقلیت بغیر کسی تبلیغ کے مبدل بہ اکثریت ہوجائے ۔
عورت کی صنفی کمزوریاں اوربیماریاں بجائے خود تعدد ازدواج کی دعوت ہیں مگرچونکہ ہندستان میں اس کا رواج نہیں، اس لیے ہم اسے اچھا نہیں سمجھتے اوریہ ہماری غلطی ہے۔ یورپ آج کثرت اولاد پر بڑا زور دے رہا ہے۔
مگراسلام نے پہلے سے لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی ہے اور اس کی صورت تعددازدواج ہے ۔عام عورتوں میں کوئی خاص تعداد معین نہیں۔
اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی کے معنی یہ ہیں کہ اگرتم یتیم عورتوں کو اپنے عقد میں لاکر انصاف نہ کرسکو توپھردوسری عورتوں کے ساتھ جو تمھیں پسند ہوں، نکاح کرلو، تاکہ بے انصافی کا موقع نہ رہے ۔
مَاطَابَ میں بتایا ہے کہ جو عورت جسم وروح دونوں کے لحاظ سے تمھیں اچھی معلوم ہو، وہ اس قابل ہے کہ رفیقۂ حیات بنائی جائے ۔