• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلیک فرائیڈے"یا "سیاہ جمعہ"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کفار کے تہوار کرسمس وغیرہ میں پیش کی جانی والی رعائتی قیمتوں پر کپڑوں وغیرہ کی خریداری کرنے کا کیا حکم ہے؟

سوال: آسٹریلیا میں کپڑوں، گھریلو سامان، اور الیکٹرانکس وغیرہ دیگر اشیاء پر کافی بڑی بڑی آفریں آتی ہے، تو کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ میں ان آفروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خریداری کروں؟ یہ آفر سال میں انہی دنوں میں دی جاتی ہے۔

Published Date: 2014-03-05

الحمد للہ:

کپڑے، گھریلو سامان وغیرہ کی خریداری کفار کے تہوار کرسمس وغیرہ میں کی جاسکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، شرط یہ ہے کہ انسان ایسی کسی چیز کی اِن دنوں میں خریداری نہ کرے جو اُن کےتہوار کیلئے معاون ثابت ہوں۔

پہلے بھی ایک سوال نمبر (69558)کے جواب میں گزر چکا ہے کہ کفار کے تہواروں میں مسلمانوں کیلئے دکانداری جائز ہے، اسکی دو شرائط ہیں:

اول:

اُنہیں ایسی اشیاء فروخت نہ کرے جنہیں وہ گناہ کیلئے استعمال کریں، یا تہوار میں ان کیلئے معاون ثابت ہو۔

دوم:

اور مسلمانوں کو ایسی اشیاء فروخت نہ کرے جن سے وہ کفار کی مشابہت کر پائیں۔

جبکہ انسان کیلئے ضروری سامان کی خریداری دکانداری کرنے سے کہیں آسان ہے، اور خریداری کیلئے اصل جواز ہے، چنانچہ انکے تہوار کے موقع پر اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/145676
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كفار كے تہوار والے دن تجارت كرنا اور دوكانيں كھولنے كا حكم

كيا عيد اور تہوار كے روز تجارت كرنے اور دوكان كھولنے كى كوئى ممانعت ہے ؟

Published Date: 2008-10-02

الحمد للہ:

اول:

مسلمان شخص كے ليے مسلمانوں كے تہوار ( عيد الفظر اور عيد الاضحى ) كے موقع پر اپنى دوكان اور سپر ماركيٹ كھولنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ايسى اشياء فروخت نہ كرے جو بعض لوگوں كے ليے اللہ كى معصيت اور نافرمانى ميں ممد و معاون ہوں.

دوم:

رہا مسئلہ ان تہواروں كے روز دوكانيں اور سپر ماركيٹ كھولنے كا حكم جو غير مسلموں كے تہوار ہيں مثلا: كرسمس، اور يہود و نصارى يا بدھ مت يا دوسرے ہندو تہوار تو اس ميں بھى دوكانيں كھولنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ان كے ليے كوئى ايسى چيز فروخت نہ كرے جس سے وہ اپنى اس معاصى اور نافرمانى والے كاموں ميں معاونت حاصل كر سكيں، مثلا جھنڈياں اور تصاوير اور تہنيتى كارڈ اور فانوس، اور پھول، اور رنگ برنگے انڈے، اور ہر وہ چيز جو اپنا تہوار منانے ميں استعمال كرتے ہيں.

اور اسى طرح وہ مسلمانوں كے ليے كوئى ايسى چيز فروخت نہ كرے جس كے استعمال سے وہ ان تہواروں ميں كفار كے ساتھ مشابہت ميں ممد و معاون ہوں.

اس ميں اصل اور دليل يہ ہے كہ مسلمان شخص كو معصيت و نافرمانى كرنے اور اس كى معاونت كرنے كى بھى ممانعت ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور تم گناہ و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى سے ڈرتے رہو اس كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى شديد سزا دينے والا ہے ﴾المآئدۃ ( 2 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور وہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے كوئى ايسى چيز فروخت نہ كرے جو مسلمان ان كے تہوار ميں ان كى مشابہت اختيار كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہوتى ہے، چاہے وہ كھانا ہو يا لباس وغيرہ؛ كيونكہ اس ميں برائى اور منكر ميں معاونت ہوتى ہے " انتہى.

ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 520 ).

اور وہ كہتے ہيں:

" اور مسلمانوں كا انہيں ( يعنى كفار كو ) ان كے تہواروں كے موقع پر وہ اشياء فروخت كرنا جس سے وہ اپنے تہواروں ميں مدد و معاونت ليتے ہوں چاہے وہ كھانا ہو يا لباس يا خوشبو اور پھول وغيرہ، يا انہيں يہ اشياء بطور ہديہ دينا، يہ سب كچھ انہيں حرام تہوار منانے ميں ايك قسم كى معاونت ميں شمار ہوتا ہے "

اور ابن حبيب مالكى رحمہ اللہ نے ان كا يہ قول نقل كيا ہے كہ:

" كيا آپ ديكھتے نہيں كہ مسلمانوں كے ليے حلال نہيں كہ وہ نصارى كو كوئى بھى ايسى چيز فروخت كريں جو انہيں ان كے تہوار منانے ميں ممد و معاون ہو، نہ تو گوشت، اور نہ ہى سالن، اور نہ ہى لباس، اور نہ ہى انہيں كوئى سوارى عاريتا دى جائيگى، اور نہ ہى ان كے تہوار ميں ان كى كسى بھى قسم كى ممدد و معاونت كى جائيگى؛ كيونكہ يہ سب كچھ ان كے شرك كى تعظيم ميں شامل ہوتا ہے، اور ان كے كفر پر ان كى معاونت ہے، مسلمان حكمرانوں كى ايسے كام كرنے سے روكنا چاہيے. امام مالك وغيرہ كا بھى يہى قول ہے، اس ميں مجھے كسى بھى اختلاف كا علم نہيں "

ديكھيں: اقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 526 ) الفتاوى الكبرى ( 2 / 489 ) احكام اھل الذمۃ ( 3 / 1250 ).

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا يہ بھى قول ہے:

" اور اگر تو وہ اشياء جو يہ لوگ خريدتے ہيں ان سے حرام كرام كا ارتكاب كرتے ہيں، مثلا صليب، يا شعانين ( عيسائيوں كا تہوار ) يا معموديۃ ( انجيل كے كلمات پڑھ كر بچے پر پانى كے چھنٹے مار كر عسائى بنانا ) يا دھونى كے ليے خوشبو، يا غير اللہ كے ليے ذبح كرنا، يا تصاوير وغيرہ، تو بلاشك و شبہ يہ حرام ہيں، مثلا انہيں شراب بنانے كے ليے جوس فروخت كرنا، يا ان كے ليے گرجا اور چرچ تعمير كرنا.

اور رہا ان اشياء كا مسئلہ جن سے وہ اپنے ان تہواروں ميں كھانے پينے اور لباس ميں معاونت حاصل كرتے ہوں، تو احمد وغيرہ كى اصول تو اس كى كراہت پر دلالت كرتى ہيں، ليكن يہ كراہت تحريمى ہے، جيسا كہ امام مالك كا مسلك ہے، يا كہ كراہت تنزيہى ؟

زيادہ شبہ تو يہى ہے كہ اس كے ہاں اس طرح كى دوسرى اشياء كى طرح يہ بھى كراہت تحريمى ہے، كيونكہ فساق اور شرابى قسم كے افراد كے ليے روٹى اور گوشت وغيرہ فروخت كرنى جائز نہيں جو اس كے ساتھ شراب نوش كرينگے، اور اس ليے بھى كہ يہ اعانت باطل دين كے اظہار كى متقاضى ہے، اور ان كے تہواروں اور اسے ظاہر كرنے ميں لوگوں كا زيادہ جمع ہونا ہے، جو كہ كسى ايك معين شخص كى معاونت سے بھى بڑھ كر ہے "

ديكھيں: الاقتضاء الصراط المستقيم ( 2 / 552 ).

ابن حجر مكى رحمہ اللہ سے درج ذيل مسئلہ دريافت كيا گيا:

جس كافر كے متعلق علم ہو كہ وہ خوشبو اپنے بت كو لگاتا ہے اسے كستورى فروخت كرنے، اور جس كافر كے متعلق يہ علم ہو كہ وہ اسے ذبح كيے بغير كھائيگا جانور فروخت كرنے كا حكم كيا ہے ؟

ان كا جواب تھا:

" دونوں صورتوں ميں ہى اسے فروخت كرنا حرام ہے، جيسا كہ ان ( يعنى علماء ) كے قول ميں يہ بات شامل ہے كہ: جس كے متعلق بھى فروخت كرنے والے كو يہ علم ہو جائے كہ خريدار اس چيز كے ساتھ نافرمانى كا ارتكاب كريگا وہ چيز اسے فروخت كرنى حرام ہے، اور بت كو خوشبو لگانا اور ذبح كيے بغير اس جانور كا قتل كرنا جسے ذبح كيا جاتا ہو يہ دونوں ہى نافرمانياں اور عظيم معصيت ہيں، چاہے ان كى طرف بھى نسبت ہو، كيونكہ صحيح بات يہى ہے كہ كفار بھى مسلمانوں كى طرح ہى شريعت اسلاميہ كى فروعات پرعمل پيرا ہونے كے مخاطب ہيں، اس ليے كسى بھى ايسى چيز كو ان كے ليے فروخت كرنا جائز نہيں جو اس عظيم معصيت و نافرمانى ميں ممد و معاون ثابت ہوتى ہو، اور يہاں علم ظن غالب ہے.

واللہ اعلم. انتہى.

ماخوذ از: الفتاوى الفقھيۃ الكبرى ( 2 / 270 ).

حاصل يہ ہوا كہ: كفار كے تہواروں ميں مسلمانوں كے ليے اپنى دوكانيں اور سپر ماركيٹ دو شرطوں كے ساتھ كھولنى جائز ہيں:

پہلى شرط:

ان كفار كے ليے كوئى بھى وہ چيز فروخت نہ كى جائے جس سے وہ اپنا تہوار منانے ميں معاونت حاصل كريں، اور ا سے معصيت و نافرمانى ميں استعمال كريں.

دوسرى شرط:

مسلمانوں كو بھى وہ اشياء فروخت نہ كى جائيں جو ان تہواروں ميں كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنے ميں ممد و معاون ہوں.

بلا شك و شبہ اس وقت ان تہواروں كے ليے كچھ مخصوص اور معلوم اشياء پائى جاتى ہے جو ان تہواروں ميں استعمال ہوتى ہيں: مثلا تہنيتى كارڈ، اور تصاوير، اور مجسمے اور صليب، اور بعض درخت، تو ان اشياء كى فروخت جائز نہيں، اور اصل ميں انہيں اپنى دوكان اور سپر ماركيٹ ميں داخل ہى نہيں كرنا چاہيے.

اور اس كے علاوہ باقى وہ اشياء جن كا استعمال ان تہواروں ميں بھى استعمال ہو سكتا ہے، دوكان والے اور سپر ماركيٹ كے مالك كو اس سے بچنے كى كوشش كرنى چاہيے، اور وہ جس كى حالت سے علم ہو جائے كہ وہ يہ اشياء حرام كام ميں استعمال كريگا، يا وہ اس تہوار كو منانے ميں استعمال كريگا، يا اس كے متعلق اس كا ظن غالب ہو كہ وہ ايسا ہى كريگا مثلا لباس، خوشبو، اور كھانے والى اشياء تو وہ اسے يہ اشياء فروخت نہ كرے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/69558
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
امت مسلمہ جن بڑے بڑے فتنوں سے دوچار ہے ، ان میں سے سب سے بڑا فتنہ اندھی تقلید اور یہود ونصاریٰ اوردیگر کفار کےاخلاق و عادات کی قابل نفرت مشابہت اختیارکرنا ہے..

نبی اکرم ﷺ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ میری امت کا ایک گروہ سابقہ گمراہ امتوں یہود و نصاریٰ کی عادات و روایات کی تقلید کرےگا.

حضرت ابوہریرہ رضی الله تعاله عنو بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :

" قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک میری امت پہلے لوگوں کے راستے پرمن و عن قدم بقدم نہ چلنے لگے". عرض کیا یارسول اللہ ! کیا پہلے لوگوں سے آپکی مراد فارس اور روم ہیں ؟ آپﷺ نےفرمایا" تواور کون ! "

جن چیزوں سے الله کے نبی ﷺ نے ڈرایا تھا ان میں سے اکثرواقع ہو چکی ہیں..

اور جو رہ گئی ہیں وہ بھی یقینا واقع ہوں گی. جیسا کہ حضرت ابو سععید خدری رضی الله تعاله عنہو کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.

" تم لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی اس طرح پوری پوری پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے اورہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے حتہ کہ اگر وہ سانڈھے کی بل میں داخل ہوے تو تم بھی ضرورانکی پیروی کروگے".

ہم نے عرض کی یارسول الله ! کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ سے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا " تو اور کون !

قاضی عیاض رحمتہ الله علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں بالشت ، ہاتھ اورسانڈھے کےبل کی تشبیہ ان اقوام کی مکمل اقتدار اور اندھی تقلید کو واضح کرنے کےلئے دی گئی ہے.

یہود ونصاریٰ کی وہ تقلید جس کی حدیث پاک میں مذمت کی گئی ہے اس میں وہ چیزیں شامل نہیں ہیں جو ہمارے دین کےخلاف نہ ہوں.. مثلاً ہمارا ان کےساتھ معلومات و تجربات کا تبادلہ کرنا، انکی مفیدایجادات سے استفادہ کرنا اور انکے انتظامی نظم و نسق سے فائدہ اٹھانا اس مذموم اقتدار میں نہیں آتا.

یعنی اس تقلید سے مراد یہ ہے کہ انکے لباس وعادات اور معاشرتی رسم و رواج ، مثلاً اختلاط مرد و زن اور بے پردگی وغیرہ کی تقلید کی جاے یا انکے اس اقتصادی نظام کی پیروی کی جاے جو ہمارے دین کی تعلیمات کے خلاف ہو، جیسے سودی لین دین یا دوسرے مالی معاملات وغیرہ ہیں..

حدیث نمبر1: صحیح بخاری ، الاعتصام بلکتب، حدیث ٧٣١٩
(فتح الباری، شرح صحیح البخاری، الاعتصام بلکتب، والسنتہ، حدیث: ٧٣١٩)
حدیث نمبر2: صحیح بخاری ، احادیث الانبیا، ٣٤٥٦، و صحیح و مسلم ، العلم حدیث ٢٦٦٩.


اوپر دیئے گئے حدیث کے حوالے سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کا کافروں کی اندھی تقلید کرنا بلکل ناجائز عمل ہے خاص طور پر وہ اعمال جو دین کی روح سے غلط ہوں اور ایمان اور مسلمان کو نقصان پہنچا سکتے ہوں ..

اب ایک اور حوالہ دیتے ہیں .. کہ دنیا کے مال کی خاطر آپس میں لڑائی کرنے سے متعلق کیا حکم ہے .. !! اس کو سمجھآنے کے لئے مجھے ایک حدیث شریف یاد آ رہی ہے ..

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہو بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ترجمہ) " قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک فرات سے سونے کا پہاڑ ظاہر نہ ہو جاے. لوگ اس سونے کے لئے جنگ کریں گے. اس کے نتیجے میں ننانوے فیصد لوگ قتل ہو جایں گے. ان میں سے ہر شخص کو یہ توقع ہو گی کہ شید وہ زندہ بچ جاے" (ریفرنس حدیث : صحیح مسلم ، الفتن وا الشراط الساعہ، حدیث : ٢٨٩٤ )

ایک اور روایت میں ہے کہ " جو اس موقع پر موجوود ہو اسے چاہیے کہ اس میں سے کوئی چیز نہ لے"

(ریفرنس حدیث : صحیح البخاری ، الفتن، حدیث: ٧١١٩، و صحیح مسلم ، الفتن وا الشراط الساعہ، حدیث : ٢٨٩٤ )

یعنی دنیا کے مال کی خاطر لڑائی جھگڑا کرنے اور اسے حاصل کرنے کے لئے دھینگا مشتی کرنے سے
منع فرمایا گیا ہے .. مگر افسوس کے پیسے والے کم عقل بھی لالچ کی ایسی دلدل میں پھنسے چلے جا رہے ہیں کہ نہ انہیں دنیاوی مال و متاع کی خاطر لڑائی جھگڑا کرنے سے دار لگتا ہے کہ اگر ایسا کرتے ہوے موت آ گی تو الله کو کیا منہ دیکھایں گے ؟ میڈیا تو شاید انہیں شہید کہہ دے لیکن الله کو تو دھوکہ نہیں دے سکیں گے نا ؟ نہ ہی انہیں اپنی عزت کی کوئی فکر ہوتی ہے کہ دنیا کے چند پیسوں کی خاطر جھگڑا کرنا کس قدر ذلیل کام ہے ..


الله ہم سب کو اندھی تقلید سے بچاے .. اور ہمارے دلوں میں دنیاوی مال کی لالچ کو بلکل ختم کرے . یا الله ہم سب کو کبھی اس دنیا کے مل کا محتاج نہ کرنا اور ہمارا ایمان مضبوط کرنا .. آمین یا رب العالمین ..
 
Top