شام میں ایک سال سے جاری خون خرابے کے باوجود سرکاری میڈیا "سب ٹھیک ہے" کی رپورٹ دینے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا ہے۔ سرکاری نشریاتی ادارے "اجرتی قاتلوں" اور اسد نواز فوجیوں کی موجودگی میں بندوق کی نوک پر شہریوں سے ان کے تاثرات لیتے ہوئے انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ بشارالاسد کی حمایت میں بات کریں۔
"العربیہ ڈاٹ نیٹ" کے مطابق سرکاری گماشتوں اور حکومت نواز میڈیا کی اس دھوکہ دہی کی قلعی اس وقت کھل گئی جب اسد نواز نیوز چینل " دنیا" کی ایک ٹیم نے ادلب شہر میں معمولات زندگی کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کرتے ہوئے لوگوں کے تاثرات لینے کی کوشش کی۔ اس دوران ٹی وی کی ٹیم جو اجرتی قاتلوں کی معیت میں تھی ایک کار سوار خاتون کے پاس گئی۔ خاتون نے دھوپ کے چشمے لگا رکھے تھے۔ عینک کے شیشے میں واضح طور پر دوسری جانب کھڑے مسلح اہلکاروں کو دیکھا جاسکتا ہے، جواس بات کی علامت ہے کہ حکومت نواز میڈیا اجرتی قاتلوں کی معیت میں لوگوں کے تاثرات اس لیے لیتا ہے تاکہ لوگ بشارالاسد کی حمایت میں بات کریں۔
ادلب میں کار سوار خاتون بندوق کی نوک پر"الدنیا" ٹی وی کی ٹیم کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ "ملک میں سیکیورٹی کا بحران ختم ہوچکا، شامی اپوزیشن کی جانب سے ٹی وی پر دکھائے جانے والے خون ریز مناظر محض جھوٹ کا پلندہ ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں۔ شام کے عوام صدر بشارالاسد کے سائے میں نہایت سکون اور خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شہروں میں کسی قسم کی خون ریزی نہیں ہو رہی اور نہ ہی سرکاری فوج شہریوں پر گولیاں چلاتی ہے۔ البتہ مٹھی بھر شرپسند عناصر بیرونی مدد کے تحت ملک کےخلاف سازش ضرور کر رہے ہیں لیکن فوج اور امن وامان قائم کرنے والے ادارے ان سےآہنی ہاتھوں نمٹ رہے ہیں"۔ خاتون کی اس گفتگو کے دوران دوسری جانب کھڑے مسلح افراد کا عکس اس کے چشموں میں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے اس کی کار کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
بشارالاسد کے حامی میڈیا کی جانب سے ملک میں امن وامان کے بارے میں جعلی رپورٹنگ اور شہریوں کو بندوق کی نوک پر حکومت کے حق میں بولنے پر مجبور کرنے کے اقدام پر عوام میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس "فیس بک" اور "ٹیوٹر" پر شامی عوام نے "دنیا" ٹی وی جیسے حکومت نواز نشریاتی اداروں پر فوری پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سابق وزیراطلاعات نے امن مساعی روک دی
درایں اثناء ایک دوسری پیش رفت میں شام میں سابق وزیر اطلاعات محمد سلیمان نے انٹیلی جنس اداروں کی دھمکیوں کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن بات چیت کے لیے مساعی روک دی ہیں۔
حکومتی فورسز کی جانب سے سابق وزیرکو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپوزیشن کو متحد کرنے کی کسی بھی کوشش سے سختی سے گریز کریں، کیونکہ حکومت اپوزیشن کو متحد نہیں بلکہ اندرون اور بیرون ملک منقسم کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کا اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایسے میں کسی بھی سابق حکومتی شخصیت کی جانب سے مفاہمتی کوششیں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اطلاعات نے گذشتہ برس مارچ میں مختلف سابق وزراء، سیاست دانوں اور دانشوروں کے تعاون سے ایک "امن قومی روڈ میپ" تیارکیا تھا، جس پر اپوزیشن کے تمام دھڑوں کو متفق کرنے کے بعد اسے حکومت کے سامنے پیش کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں تاہم آٹھ ماہ گذر جانے کے باوجود یہ قومی اقدام حکومتی دباؤ اور اپوزیشن میں پائے جانے والے اختلافات کے باعث ثمر آورثابت نہیں ہوسکا۔
"العربیہ ڈاٹ نیٹ" کے مطابق سرکاری گماشتوں اور حکومت نواز میڈیا کی اس دھوکہ دہی کی قلعی اس وقت کھل گئی جب اسد نواز نیوز چینل " دنیا" کی ایک ٹیم نے ادلب شہر میں معمولات زندگی کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کرتے ہوئے لوگوں کے تاثرات لینے کی کوشش کی۔ اس دوران ٹی وی کی ٹیم جو اجرتی قاتلوں کی معیت میں تھی ایک کار سوار خاتون کے پاس گئی۔ خاتون نے دھوپ کے چشمے لگا رکھے تھے۔ عینک کے شیشے میں واضح طور پر دوسری جانب کھڑے مسلح اہلکاروں کو دیکھا جاسکتا ہے، جواس بات کی علامت ہے کہ حکومت نواز میڈیا اجرتی قاتلوں کی معیت میں لوگوں کے تاثرات اس لیے لیتا ہے تاکہ لوگ بشارالاسد کی حمایت میں بات کریں۔
ادلب میں کار سوار خاتون بندوق کی نوک پر"الدنیا" ٹی وی کی ٹیم کے سامنے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ "ملک میں سیکیورٹی کا بحران ختم ہوچکا، شامی اپوزیشن کی جانب سے ٹی وی پر دکھائے جانے والے خون ریز مناظر محض جھوٹ کا پلندہ ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں۔ شام کے عوام صدر بشارالاسد کے سائے میں نہایت سکون اور خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شہروں میں کسی قسم کی خون ریزی نہیں ہو رہی اور نہ ہی سرکاری فوج شہریوں پر گولیاں چلاتی ہے۔ البتہ مٹھی بھر شرپسند عناصر بیرونی مدد کے تحت ملک کےخلاف سازش ضرور کر رہے ہیں لیکن فوج اور امن وامان قائم کرنے والے ادارے ان سےآہنی ہاتھوں نمٹ رہے ہیں"۔ خاتون کی اس گفتگو کے دوران دوسری جانب کھڑے مسلح افراد کا عکس اس کے چشموں میں بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے اس کی کار کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
بشارالاسد کے حامی میڈیا کی جانب سے ملک میں امن وامان کے بارے میں جعلی رپورٹنگ اور شہریوں کو بندوق کی نوک پر حکومت کے حق میں بولنے پر مجبور کرنے کے اقدام پر عوام میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس "فیس بک" اور "ٹیوٹر" پر شامی عوام نے "دنیا" ٹی وی جیسے حکومت نواز نشریاتی اداروں پر فوری پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سابق وزیراطلاعات نے امن مساعی روک دی
درایں اثناء ایک دوسری پیش رفت میں شام میں سابق وزیر اطلاعات محمد سلیمان نے انٹیلی جنس اداروں کی دھمکیوں کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن بات چیت کے لیے مساعی روک دی ہیں۔
حکومتی فورسز کی جانب سے سابق وزیرکو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپوزیشن کو متحد کرنے کی کسی بھی کوشش سے سختی سے گریز کریں، کیونکہ حکومت اپوزیشن کو متحد نہیں بلکہ اندرون اور بیرون ملک منقسم کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کا اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایسے میں کسی بھی سابق حکومتی شخصیت کی جانب سے مفاہمتی کوششیں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اطلاعات نے گذشتہ برس مارچ میں مختلف سابق وزراء، سیاست دانوں اور دانشوروں کے تعاون سے ایک "امن قومی روڈ میپ" تیارکیا تھا، جس پر اپوزیشن کے تمام دھڑوں کو متفق کرنے کے بعد اسے حکومت کے سامنے پیش کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں تاہم آٹھ ماہ گذر جانے کے باوجود یہ قومی اقدام حکومتی دباؤ اور اپوزیشن میں پائے جانے والے اختلافات کے باعث ثمر آورثابت نہیں ہوسکا۔