- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,409
- پوائنٹ
- 562
بنگلہ دیش کی جیل سے پیغام
پروفیسر غلام اعظم
۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ ڈھاکہ نے پروفیسر غلام اعظم کی ضمانت کی درخواست خارج کردی اور انھیں گرفتار کر کے جیل بھجوادیا ۔ ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے پہلے انھوں نے قوم کے نام اپناایک تحریری پیغام ،اپنے معاونِ خصوصی جناب نظم الحق کے سپردکرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کرلیا جائے تو میرا یہ پیغام پریس کے ذریعے قوم تک پہنچا دیاجائے۔(ترجمہ: ایس اے جہاں/ ابن حیدر)
۲۰۰۹ء میں بنگلہ دیش میں جو حکومت برسراقتدار آئی ہے، وہ خوفِ خدا رکھنے والے اہلِ ایمان کے سخت خلاف ہے۔ اسی لیے وہ بنگلہ دیش میں اسلامی جماعتوں کو کالعدم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس گھناؤنے مقصد کے حصول کے لیے، ۱۹۷۳ء میں طے پا نے والے معاملات کوپھر زندہ کیاجارہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ نام نہاد ’انٹرنیشنل ٹریبونل ‘کے ذریعے ،ایک خودساختہ’ جنگل کے قانون ‘کے تحت انھیں کڑی سزا ئیں دینے کی سازش کی جارہی ہے۔ اسی قانون کے تحت ایک تفتیشی ادارہ بنایا گیا، جس نے میرے خلاف بھی ۶۲الزامات تیار کیے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ جیل بھیجنے کے بعد میرے خلاف یک طرفہ جھوٹے پروپیگنڈا کا طومار باندھا جائے گاجب اپنی بات عوام تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں رہے گا۔ اس لیے میں نے پیغام لکھ دیا ہے تا کہ گرفتار ہونے سے پہلے میں اپنا موقف اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کردوں ۔ حال ہی میں یہاں کے کئی ٹیلی ویژن چینلوں نے میرا انٹرویو نشر کیا ہے، لیکن میں اس کے علاوہ بھی کچھ کہنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
نومبر۲۰۱۱ء میں ،میں ۸۹سال کی عمر کو پہنچ گیا تھا اور اب میں ۹۰سال کے پیٹے میں ہوں۔ بڑھاپا سوبیماریوں کو ساتھ لاتاہے اور میرے دائیں پاؤں اوربائیں گھٹنے میں مسلسل تکلیف رہتی ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے مجھے دن میں دو مرتبہ exerciseکرنا پڑتی ہے جس کے لیے میں کسی دوسرے فرد کا سہارا لینے پر مجبور ہوتاہوں ۔ میں اکیلا چل پھر بھی نہیں سکتا لہٰذا میں دائیں ہاتھ میں بیساکھی کا سہارالے کر اور اپنا بایاں ہاتھ کسی کے کندھے پر رکھ کر نماز کے لیے مسجد جاتاہوں۔اس حالت میں غیر ضروری طور پر کہیں آ جابھی نہیں سکتا۔ پھربلڈ پریشر اور دیگر متعدد بیماریوں کے حوالے سے مجھے روزانہ کئی بار باقاعدگی سے دوائیاں لینی پڑتی ہیں۔ اس حال میں بھی حکومت مجھے جیل بھیج رہی ہے ۔ میں اس سے پہلے چار بار جیل جا چکاہوں۔ مجھے جیل یا موت سے کوئی خوف نہیں ۔ الحمد للہ میں اللہ تعالیٰ کے سواکسی سے ڈرتا نہیں ۔ میں شہید ہونے کی تمنّا لے کر ہی اسلامی تحریک میں شامل ہوا تھا۔اب اگر اس جھوٹے مقدمے میں مجھے پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا تو مجھے شہادت کا درجہ ملے گا ،جو یقیناًمیرے لیے خوش قسمتی کا باعث ہوگا۔ اس عمر رسیدگی اور بیماریوں کی بھرمار کے ساتھ ،جیل میں میرا و قت کس طرح گزرے گا ، اس کو میں اپنے اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگاکہ ۱۱برس پہلے یعنی۲۰۰۰ء میں رضا کارانہ طور پر جماعت اسلامی کے امیر کی ذمہ داری سے از خود فراغت لینے کے بعد میں نے کبھی کوئی سیاسی بیان نہیں دیا ۔ لیکن گذشتہ کچھ دنوں سے میرے خلاف میڈیا میں جو جھوٹا ،بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا کیا جارہاہے، میں سمجھتاہوں کہ اس سلسلے میں سچائی کو سامنے لانے کے لیے مجھے کچھ کہنا چاہیے۔
میں پیدایشی لحاظ سے اس ملک کا باشندہ ہوں ۔۱۹۲۲ء میں ،لکشمی بازار ڈھاکہ میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوا۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان بھی ڈھاکہ ہی کے تعلیمی اداروں سے پاس کیا، اور پھر ڈھاکہ یونی ورسٹی سے بی اے اور ایم اے (سیاسیات) مکمل کیا اور طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔۱۹۴۷اور ۱۹۴۹ء میں لگا تاردوبار میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ میں فضل الحق مسلم ہال کی سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری جنرل بھی رہا۔ نومبر۱۹۴۸ء میں بنگلہ زبان کو بھی پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دلانے کامیمورنڈم ،میں نے خود اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خاں کو پیش کیا تھا۔اسی تحریک کی قیادت کرنے کی وجہ سے ۱۹۵۲ء اور۱۹۵۵ء میں دودفعہ گرفتارہوا اور جیل کاٹی۔میں نے ۱۹۵۴میں،جماعت اسلامی میں شمولیت اختیارکی اوریوں میری سیاسی زندگی کاباقاعدہ آغازہوا۔
●سیاسی جدوجہد: متحدہ پاکستان میں ۱۹۵۵ء سے لے کر۱۹۷۱ء تک میں نے تمام جمہوری تحریکوں میں حصہ لیا۔ سی او پی(کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز) ،پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ)، ڈی اے سی (ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی)کی سرگرمیوں میں میرا بڑا مؤثر کردار رہا۔ شیخ مجیب الرحمن اوردیگرسیاسی لیڈرشپ کے شانہ بشانہ میں نے جمہوریت کے لیے کام کیا۔ ۱۹۶۴ء میں حکومت سے سیاسی اختلاف کے باعث میں گرفتارہوگیا۔۱۹۷۰ء میں جب عوامی لیگ نے عام انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی تومیں نے شیخ مجیب الرحمن اوراس کی پارٹی کو مبارک باد کا پیغام بھیجا اورساتھ ہی ساتھ صدر پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اقتدار بلا تاخیر کامیاب پارٹی کو منتقل کیا جائے۔ اس کے بعد مارچ ۱۹۷۱ء میں افراتفری کا ایک عالم برپا ہو گیا۔ صدر پاکستان کے ساتھ شیخ مجیب الرحمن کے سیاسی مذاکرات ہوئے۔ اس وقت شیخ مجیب الرحمن کے بہت قریبی ساتھی اور ان کی پارٹی کے مرکزی لیڈر سید نذر الاسلام اور عبدالصمد آزاد کے ساتھ میرا مسلسل رابطہ رہا۔ دونوں نے مجھے یہ بتایا کہ صدر پاکستان کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہورہے ہیں ،لہٰذا پاکستان ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ۔ عبدالصمد آزاد سے ۲۵مارچ کو بھی ٹیلی فون پر میری گفتگو ہوئی اور انھوں نے مجھے تسلی دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے اتحاد اور خود مختاری پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ۔ لیکن اسی رات ڈھاکہ میں ہونے والے فوجی آپریشن سے واضح ہو گیا کہ یحییٰ مجیب مذاکرات مکمل طور پر ناکام رہے تھے۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں عوامی لیگ کے پارلیمنٹ ممبروں اورپارٹی لیڈروں کی بڑی تعداد نے بھارت میں جاکرپناہ لے لی۔لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت جانے کی کوشش تک نہیں کی اوررضاکارانہ طورپرخود کوپاکستان آرمی کے سامنے پیش کردیا۔ اگروہ چاہتے توبآسانی بھارت جاسکتے تھے لیکن وہ نہیں گئے۔کیوں نہیں گئے؟ آج تک اس کی کوئی وضاحت سامنے نہیںآئی۔ لیکن یہ ضرورمعلوم ہواکہ عوامی لیگ کے جوذمہ دار بھارت چلے گئے تھے وہ اس کی مددسے مشرقی پاکستان کو ،پاکستان سے کاٹ کر، ایک الگ ملک بنانا چاہتے تھے۔۱۹۷۰ء کے الیکشن میں کامیاب ہونے والے عوامی لیگ کے ارکان اسمبلی بھارت چلے گئے تو اس وجہ سے ملک میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔ اس سے عوام میں مایوسی اور بے بسی کی فضا تھی اوروہ اپنے مسائل لے کر ہمارے پاس آنا شروع ہوگئے ۔
۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۹۷۰ء تک ہندستان نے ہمارے ساتھ جو توسیع پسندانہ رویّہ روا رکھا، اس سے ہمیں یہ پورا یقین ہوگیاتھاکہ اگر مشرقی پاکستان، بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش بنتاہے تو اس کی حیثیت بھارت کی ایک طفیلی ریاست سے زیادہ نہ ہوگی ۔ اس خدشے کے تحت بائیں بازو کے کچھ لوگ ، دائیں بازو کی تمام جماعتیں اور شخصیات ، علیحدگی کی اس تحریک میں شامل نہیں ہوئیں۔ اگر یہاں بھارت کی مداخلت نہ ہوتی توشاید ہمیں اس تحریک میں شریک ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں جو بھارت مخالف جماعتیں تھیں ان سب نے مل کر نور الامین کی رہایش گاہ پر، حالات کے جائزے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا ۔ طویل تبادلۂ خیالات کے بعد طے پایا کہ جنرل ٹکا خان کے ساتھ ملاقات کرکے فوجی کارروائیوں کو رکوایا جائے تاکہ بے سہارا اور مظلوم لوگوں کی داد رسی ہو سکے۔ اس مشاورت کی روشنی میں،ہم سات آٹھ افرادکا ایک وفد لے کر جنرل ٹکاخان سے ملے ۔ اس وفد میں، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)کے نورالامین، جماعت اسلامی کی طرف سے راقم، نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد، مسلم لیگ کی طرف سے خواجہ خیر الدین اور کسان مزدور عوامی پارٹی (KSP)کی طرف سے ایس ایم سلیمان شامل تھے۔ آج اسی میٹنگ کی تصویر کو عوامی لیگ میرے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کررہی ہے جو اس وقت پریس کو جاری کی گئی تھی۔ اُن کاکہنا ہے کہ تصویر بھی بولتی ہے ؟اگر ایسا ہی ہے تو پھرخودشیخ مجیب کے ساتھ مولانا مودودیؒ اور میری جو میٹنگ ہوئی تھی اس کی تصویر بھی تو موجودہے۔ ہماری اس میٹنگ میں شیخ مجیب کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی ؟وہ شاید ان لوگوں کو معلوم بھی نہ ہو۔ جنرل ٹکا خان کے ساتھ ہماری تصویر کو ہتھیار بنا کرہمارے خلاف جو ایک جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس میں دراصل کوئی جان نہیں ہے ۔ہم نے اس وقت عوامی جذبات کی بالکل صحیح نمایندگی کی تھی ۔
۱۹۷۱ء میں جن سیاسی لیڈروں نے اپنے اصولی موقف کی بنا پر ، بھارت میں پناہ نہیں لی، انھوں نے اس مشکل گھڑی میں مشرقی پاکستان ہی میں رہ کر اپنے آپ کو عوام کی خدمت میں کھپادیا۔ عوام کے منتخب نمایندے جب عوام کو بے یارو مدد گارچھوڑ کر بھارت چلے گئے تو ہم لوگ ہی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کرتے رہے۔ میں نے۱۴؍اگست ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی کے کارجن ہال میں منعقدہ ایک میٹنگ میں فوجی آپریشن پر سخت تنقید کی اور فوری طور پر اس کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح ’ڈھاکہ بیت المکرم ‘(نیشنل مسجد آف بنگلہ دیش ) کے سامنے بھی ایک جلسے میں، مَیں نے اس بات کو دہرایا تھا۔ لیکن میری یہ بات پریس میں چھپنے نہیں دی گئی، کیونکہ اس وقت اس طرح کی خبروں پر پابندی لگی ہوئی تھی ۔
● جنگی جرائم کی حقیقت: ان جنگی جرائم کا جو مسئلہ اس وقت اٹھایا جا رہا ہے اسے خود شیخ مجیب الرحمن نے حل کردیاتھا۔شیخ مجیب حکومت نے کڑی تفتیش کے بعد پاکستانی فوج کے ۱۹۵افسروں اور دیگر فوجی عہدے داروں کو جنگی مجرم قرار دیاتھا۔ ان لوگوں پر مقدمہ چلانے کے لیے ۱۹جولائی ۱۹۷۳ء کو پارلیمنٹ میں انٹرنیشنل کرائمزٹریبونل ایکٹ پاس کروایاگیا۔ لیکن ۹؍اپریل۱۹۷۴ء کو دہلی میں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے وزراے خارجہ کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے جن کے نتیجے میں ان ۱۹۵مجرم قرار دیے جانے والے افراد کو معاف کردیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ شیخ مجیب نے کبھی بھی کسی سویلین کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا۔ جو لوگ بنگلہ دیش بنانے کی مہم میں شامل نہ تھے، بلکہ اس کے مخالف تھے اور پاکستان آرمی کے ساتھ تھے، مجیب حکومت نے ان لوگوں کو collaboratorیعنی تعاون کرنے والا قرار دیا تھا۔ یہاں میں اس بات کا ذکرکرنا ضروری سمجھتاہوں کہ ۱۹۷۱ء میں پاکستان آرمی نے اپنی مدد کے لیے مقامی لوگوں پر مشتمل کئی تنظیمیں تشکیل دیں،ان عسکری تنظیموں میں البدر، الشمس اور رضاکارکے نام شامل ہیں ۔ ان کی تشکیل رضاکارانہ اور اس وقت کی حکومت کی رضا مندی سے ہوئی تھی ۔ ان تنظیموں کے افراد کو بھی شیخ مجیب حکومت نے collaboratorقرار دیا اور ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ۲۴.جنوری ۱۹۷۲ء کو collaborator's orderجاری کیاگیا۔ جس کے تحت ایک لاکھ لوگوں کو گرفتار کیاگیاتھا جن میں سے۳۷ہزار۴سو ۷۱افراد پر الزامات عائد کیے گئے۔ لیکن ان میں سے بھی ۶۲۳،۳۴کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مقدمہ دائر کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ آخر کار صرف ۲ہزار ۸سو ۴۸افراد کے خلاف مقدمات بنے اور عدالت نے ان میں سے ۷۵۲کے خلاف جرم ثابت ہونے پر، مختلف سزاؤں کے فیصلے دیے،جب کہ ۲ہزار ۹۶افرادکو باعزت طور پر بری کردیا گیا ۔ بعدازاں نومبر۱۹۷۳ء میں حکومت کی طرف سے عام معافی کا اعلان کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں مذکورہ بالا مختلف سزا یافتہ بھی رہا ہوگئے۔ لیکن وہ لوگ جو قتل ،عصمت دری ،لوٹ مار اور آگ لگانے جیسے جرائم میں سزایافتہ تھے، ان کو عام معافی کا فائدہ نہ دیا گیا۔ پھراس عام معافی کو بھی دوسال گزرنے کے باوجود ان میں سے بھی کسی پر مقدمہ قائم نہ ہوا تھااوراس طرح عام معافی کا یہ استثنا بھی خود بخود ختم ہوگیا۔
اس وقت جن لوگوں کے خلاف کسی قسم کے جرم کے الزامات بھی نہیں لگائے گئے تھے اور وہ گرفتار بھی نہیں کیے گئے تھے حکومت آج ۴۰برس گزرنے کے بعد ان بے گناہ لوگوں کو جنگی مجرم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔
● جماعت اسلامی ہی ہدف کیوں؟ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ۱۹۸۰ء کے عشرے میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جنرل حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف ، جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے مل کر جدوجہد کی تھی ۔ اس کے بعد۱۹۹۴ء سے لے کر ۱۹۹۶ء تک خالدہ ضیا کی جماعت بی این پی کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی نے عوامی لیگ کے ساتھ مل کر عبوری حکومت کی تشکیل کے لیے جدوجہد کی جس کا مقصدبنگلہ دیش میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس وقت جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی اس جدوجہد میں چھوٹی چھوٹی دوسری پارٹیاں بھی شامل تھیں ۔ ان تمام جماعتوں کے سربراہان پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ یہ کمیٹی اس پوری تحریک کے پروگرامات کا شیڈول طے کرتی تھی۔ جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی قیادت اکٹھے بیٹھ کر میٹنگیں کرتی تھی۔ اس دوران کبھی کسی نے نہیں کہا کہ ہمارے درمیان کوئی جنگی مجرم بھی بیٹھے ہیں۔ فروری۱۹۹۱ء میں بنگلہ دیش میں جو عام انتخابات ہوئے تھے، ان میں بی این پی اور عوامی لیگ میں سے کسی کو بھی اتنی سیٹیں نہیں ملی تھیں کہ وہ تنہا اپنے بل بوتے پر حکومت تشکیل دے لیں۔ عوامی لیگ کی قیادت حکومت قائم کرنے کی غرض سے جماعت اسلامی کے ووٹوں کی بھیک مانگنے، ہمارے پاس آئی تھی۔ عوامی لیگ کے ایک سینیر مرکزی رہنما امیرحسین عامو نے جماعت اسلامی کے سیکرٹر ی جنرل علی احسن مجاہد کو پیغام دیا کہ ہم لوگ پروفیسر غلام اعظم کو وزیر بنانے کے لیے تیار ہیں۔کیا اس وقت عوامی لیگ کی نظر میں ہم جنگی مجرم نہیں تھے؟اس کے بعد عوامی لیگ کی طرف سے بنگلہ دیش کی صدارت کے امیدوار جسٹس بدرالحیدر چودھری ،جماعت اسلامی کا تعاون حاصل کرنے کے لیے میرے پاس آئے تھے ۔ اس وقت بھی کسی نے نہیں کہاکہ یہ لوگ ہمیں جنگی مجرم سمجھتے ہیں ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اب ایسا کون سا واقعہ ہوگیا کہ ہم راتوں رات جنگی مجرم بن گئے ۔
اکتوبر۲۰۰۱ء میں ملک کے آٹھویں عام انتخابات منعقد ہوئے ۔۳۰۰کی پارلیمنٹ میں عوامی لیگ کو ۵۸اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو۱۹۷سیٹیں ملیں۔ بی این پی کی اس کامیابی کا راز جماعت اسلامی اور دوسری دوچھوٹی پارٹیوں کا اس سے اتحاد تھا ۔ اس اتحاد کی وجہ سے بی این پی کو ۲۰فی صد زیادہ ووٹ ملے۔اس الیکشن کے نتائج دیکھ کر عوامی لیگ کو اندازہ ہوگیا تھاکہ اگر جماعت اسلامی کو ختم نہ کیا گیا تو مستقبل میں اُن کے لیے اقتدار تک پہنچنا ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات لگانا اور جھوٹاپروپیگنڈا کرنا شروع کردیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد جن لوگوں پر محض پاکستان کا ساتھ دینے کا الزام تھا ،اب وہی لوگ جنگی مجرم قرار دیے جانے لگے ۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے عوامی لیگ نے کبھی بھی جماعت اسلامی کے لوگوں کو جنگی مجرم نہیں کہا لیکن ۱۹۷۳ء میں پاکستان کے آرمی افسروں اور دیگر فوجی عہدے داروں کے خلاف ٹرائل کرنے کے لیے جو قانون بنایاگیا تھا، اب اسی کوجماعت اسلامی کے خلاف استعمال کیا جارہاہے ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ عوامی لیگ ۱۹۷۱ء اور ۱۹۹۶ء میں دو دفعہ برسراقتدار آئی، اس دوران بھی عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کی قیادت کو نہ تو جنگی مجرم قرار دیا اور نہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہی بنایا ۔ عوامی لیگ کے اس اقتدار کا دورانیہ ساڑھے آٹھ سال بنتاہے۔ اس طویل دورانیے کے اقتدار میں بھی جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کا الزام کیوں نہ لگایا گیا؟ کیا عوامی لیگ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
● حکومت کے ناپاک عزائم : حکومت نے اب جو قدم اٹھایا ہے اس کے پیچھے کوئی نیک مقاصد نہیں بلکہ ناپاک سیاسی مقاصد ہیں ۔ عوامی لیگ چاہتی ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو ختم کرکے ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ آیندہ الیکشن میں جماعت اسلامی کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرسکے اور عوامی لیگ کو ۲۰۰۱ء کی طرح شرم ناک شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
پروفیسر غلام اعظم
۱۱جنوری ۲۰۱۲ء کو ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ ڈھاکہ نے پروفیسر غلام اعظم کی ضمانت کی درخواست خارج کردی اور انھیں گرفتار کر کے جیل بھجوادیا ۔ ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے پہلے انھوں نے قوم کے نام اپناایک تحریری پیغام ،اپنے معاونِ خصوصی جناب نظم الحق کے سپردکرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے گرفتار کرلیا جائے تو میرا یہ پیغام پریس کے ذریعے قوم تک پہنچا دیاجائے۔(ترجمہ: ایس اے جہاں/ ابن حیدر)
۲۰۰۹ء میں بنگلہ دیش میں جو حکومت برسراقتدار آئی ہے، وہ خوفِ خدا رکھنے والے اہلِ ایمان کے سخت خلاف ہے۔ اسی لیے وہ بنگلہ دیش میں اسلامی جماعتوں کو کالعدم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس گھناؤنے مقصد کے حصول کے لیے، ۱۹۷۳ء میں طے پا نے والے معاملات کوپھر زندہ کیاجارہا ہے۔ جماعت اسلامی کے سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ نام نہاد ’انٹرنیشنل ٹریبونل ‘کے ذریعے ،ایک خودساختہ’ جنگل کے قانون ‘کے تحت انھیں کڑی سزا ئیں دینے کی سازش کی جارہی ہے۔ اسی قانون کے تحت ایک تفتیشی ادارہ بنایا گیا، جس نے میرے خلاف بھی ۶۲الزامات تیار کیے ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ جیل بھیجنے کے بعد میرے خلاف یک طرفہ جھوٹے پروپیگنڈا کا طومار باندھا جائے گاجب اپنی بات عوام تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں رہے گا۔ اس لیے میں نے پیغام لکھ دیا ہے تا کہ گرفتار ہونے سے پہلے میں اپنا موقف اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کردوں ۔ حال ہی میں یہاں کے کئی ٹیلی ویژن چینلوں نے میرا انٹرویو نشر کیا ہے، لیکن میں اس کے علاوہ بھی کچھ کہنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
نومبر۲۰۱۱ء میں ،میں ۸۹سال کی عمر کو پہنچ گیا تھا اور اب میں ۹۰سال کے پیٹے میں ہوں۔ بڑھاپا سوبیماریوں کو ساتھ لاتاہے اور میرے دائیں پاؤں اوربائیں گھٹنے میں مسلسل تکلیف رہتی ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے مجھے دن میں دو مرتبہ exerciseکرنا پڑتی ہے جس کے لیے میں کسی دوسرے فرد کا سہارا لینے پر مجبور ہوتاہوں ۔ میں اکیلا چل پھر بھی نہیں سکتا لہٰذا میں دائیں ہاتھ میں بیساکھی کا سہارالے کر اور اپنا بایاں ہاتھ کسی کے کندھے پر رکھ کر نماز کے لیے مسجد جاتاہوں۔اس حالت میں غیر ضروری طور پر کہیں آ جابھی نہیں سکتا۔ پھربلڈ پریشر اور دیگر متعدد بیماریوں کے حوالے سے مجھے روزانہ کئی بار باقاعدگی سے دوائیاں لینی پڑتی ہیں۔ اس حال میں بھی حکومت مجھے جیل بھیج رہی ہے ۔ میں اس سے پہلے چار بار جیل جا چکاہوں۔ مجھے جیل یا موت سے کوئی خوف نہیں ۔ الحمد للہ میں اللہ تعالیٰ کے سواکسی سے ڈرتا نہیں ۔ میں شہید ہونے کی تمنّا لے کر ہی اسلامی تحریک میں شامل ہوا تھا۔اب اگر اس جھوٹے مقدمے میں مجھے پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا تو مجھے شہادت کا درجہ ملے گا ،جو یقیناًمیرے لیے خوش قسمتی کا باعث ہوگا۔ اس عمر رسیدگی اور بیماریوں کی بھرمار کے ساتھ ،جیل میں میرا و قت کس طرح گزرے گا ، اس کو میں اپنے اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگاکہ ۱۱برس پہلے یعنی۲۰۰۰ء میں رضا کارانہ طور پر جماعت اسلامی کے امیر کی ذمہ داری سے از خود فراغت لینے کے بعد میں نے کبھی کوئی سیاسی بیان نہیں دیا ۔ لیکن گذشتہ کچھ دنوں سے میرے خلاف میڈیا میں جو جھوٹا ،بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا کیا جارہاہے، میں سمجھتاہوں کہ اس سلسلے میں سچائی کو سامنے لانے کے لیے مجھے کچھ کہنا چاہیے۔
میں پیدایشی لحاظ سے اس ملک کا باشندہ ہوں ۔۱۹۲۲ء میں ،لکشمی بازار ڈھاکہ میں اپنے ننھیال میں پیدا ہوا۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان بھی ڈھاکہ ہی کے تعلیمی اداروں سے پاس کیا، اور پھر ڈھاکہ یونی ورسٹی سے بی اے اور ایم اے (سیاسیات) مکمل کیا اور طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔۱۹۴۷اور ۱۹۴۹ء میں لگا تاردوبار میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ میں فضل الحق مسلم ہال کی سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری جنرل بھی رہا۔ نومبر۱۹۴۸ء میں بنگلہ زبان کو بھی پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دلانے کامیمورنڈم ،میں نے خود اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواب زادہ لیاقت علی خاں کو پیش کیا تھا۔اسی تحریک کی قیادت کرنے کی وجہ سے ۱۹۵۲ء اور۱۹۵۵ء میں دودفعہ گرفتارہوا اور جیل کاٹی۔میں نے ۱۹۵۴میں،جماعت اسلامی میں شمولیت اختیارکی اوریوں میری سیاسی زندگی کاباقاعدہ آغازہوا۔
●سیاسی جدوجہد: متحدہ پاکستان میں ۱۹۵۵ء سے لے کر۱۹۷۱ء تک میں نے تمام جمہوری تحریکوں میں حصہ لیا۔ سی او پی(کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز) ،پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ)، ڈی اے سی (ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی)کی سرگرمیوں میں میرا بڑا مؤثر کردار رہا۔ شیخ مجیب الرحمن اوردیگرسیاسی لیڈرشپ کے شانہ بشانہ میں نے جمہوریت کے لیے کام کیا۔ ۱۹۶۴ء میں حکومت سے سیاسی اختلاف کے باعث میں گرفتارہوگیا۔۱۹۷۰ء میں جب عوامی لیگ نے عام انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی تومیں نے شیخ مجیب الرحمن اوراس کی پارٹی کو مبارک باد کا پیغام بھیجا اورساتھ ہی ساتھ صدر پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اقتدار بلا تاخیر کامیاب پارٹی کو منتقل کیا جائے۔ اس کے بعد مارچ ۱۹۷۱ء میں افراتفری کا ایک عالم برپا ہو گیا۔ صدر پاکستان کے ساتھ شیخ مجیب الرحمن کے سیاسی مذاکرات ہوئے۔ اس وقت شیخ مجیب الرحمن کے بہت قریبی ساتھی اور ان کی پارٹی کے مرکزی لیڈر سید نذر الاسلام اور عبدالصمد آزاد کے ساتھ میرا مسلسل رابطہ رہا۔ دونوں نے مجھے یہ بتایا کہ صدر پاکستان کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہورہے ہیں ،لہٰذا پاکستان ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہیں ۔ عبدالصمد آزاد سے ۲۵مارچ کو بھی ٹیلی فون پر میری گفتگو ہوئی اور انھوں نے مجھے تسلی دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے اتحاد اور خود مختاری پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ۔ لیکن اسی رات ڈھاکہ میں ہونے والے فوجی آپریشن سے واضح ہو گیا کہ یحییٰ مجیب مذاکرات مکمل طور پر ناکام رہے تھے۔ فوجی آپریشن کے نتیجے میں عوامی لیگ کے پارلیمنٹ ممبروں اورپارٹی لیڈروں کی بڑی تعداد نے بھارت میں جاکرپناہ لے لی۔لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت جانے کی کوشش تک نہیں کی اوررضاکارانہ طورپرخود کوپاکستان آرمی کے سامنے پیش کردیا۔ اگروہ چاہتے توبآسانی بھارت جاسکتے تھے لیکن وہ نہیں گئے۔کیوں نہیں گئے؟ آج تک اس کی کوئی وضاحت سامنے نہیںآئی۔ لیکن یہ ضرورمعلوم ہواکہ عوامی لیگ کے جوذمہ دار بھارت چلے گئے تھے وہ اس کی مددسے مشرقی پاکستان کو ،پاکستان سے کاٹ کر، ایک الگ ملک بنانا چاہتے تھے۔۱۹۷۰ء کے الیکشن میں کامیاب ہونے والے عوامی لیگ کے ارکان اسمبلی بھارت چلے گئے تو اس وجہ سے ملک میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔ اس سے عوام میں مایوسی اور بے بسی کی فضا تھی اوروہ اپنے مسائل لے کر ہمارے پاس آنا شروع ہوگئے ۔
۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۹۷۰ء تک ہندستان نے ہمارے ساتھ جو توسیع پسندانہ رویّہ روا رکھا، اس سے ہمیں یہ پورا یقین ہوگیاتھاکہ اگر مشرقی پاکستان، بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش بنتاہے تو اس کی حیثیت بھارت کی ایک طفیلی ریاست سے زیادہ نہ ہوگی ۔ اس خدشے کے تحت بائیں بازو کے کچھ لوگ ، دائیں بازو کی تمام جماعتیں اور شخصیات ، علیحدگی کی اس تحریک میں شامل نہیں ہوئیں۔ اگر یہاں بھارت کی مداخلت نہ ہوتی توشاید ہمیں اس تحریک میں شریک ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں جو بھارت مخالف جماعتیں تھیں ان سب نے مل کر نور الامین کی رہایش گاہ پر، حالات کے جائزے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا ۔ طویل تبادلۂ خیالات کے بعد طے پایا کہ جنرل ٹکا خان کے ساتھ ملاقات کرکے فوجی کارروائیوں کو رکوایا جائے تاکہ بے سہارا اور مظلوم لوگوں کی داد رسی ہو سکے۔ اس مشاورت کی روشنی میں،ہم سات آٹھ افرادکا ایک وفد لے کر جنرل ٹکاخان سے ملے ۔ اس وفد میں، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (PDP)کے نورالامین، جماعت اسلامی کی طرف سے راقم، نظام اسلام پارٹی کے مولوی فرید احمد، مسلم لیگ کی طرف سے خواجہ خیر الدین اور کسان مزدور عوامی پارٹی (KSP)کی طرف سے ایس ایم سلیمان شامل تھے۔ آج اسی میٹنگ کی تصویر کو عوامی لیگ میرے خلاف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کررہی ہے جو اس وقت پریس کو جاری کی گئی تھی۔ اُن کاکہنا ہے کہ تصویر بھی بولتی ہے ؟اگر ایسا ہی ہے تو پھرخودشیخ مجیب کے ساتھ مولانا مودودیؒ اور میری جو میٹنگ ہوئی تھی اس کی تصویر بھی تو موجودہے۔ ہماری اس میٹنگ میں شیخ مجیب کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی ؟وہ شاید ان لوگوں کو معلوم بھی نہ ہو۔ جنرل ٹکا خان کے ساتھ ہماری تصویر کو ہتھیار بنا کرہمارے خلاف جو ایک جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اس میں دراصل کوئی جان نہیں ہے ۔ہم نے اس وقت عوامی جذبات کی بالکل صحیح نمایندگی کی تھی ۔
۱۹۷۱ء میں جن سیاسی لیڈروں نے اپنے اصولی موقف کی بنا پر ، بھارت میں پناہ نہیں لی، انھوں نے اس مشکل گھڑی میں مشرقی پاکستان ہی میں رہ کر اپنے آپ کو عوام کی خدمت میں کھپادیا۔ عوام کے منتخب نمایندے جب عوام کو بے یارو مدد گارچھوڑ کر بھارت چلے گئے تو ہم لوگ ہی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کرتے رہے۔ میں نے۱۴؍اگست ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ یونی ورسٹی کے کارجن ہال میں منعقدہ ایک میٹنگ میں فوجی آپریشن پر سخت تنقید کی اور فوری طور پر اس کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح ’ڈھاکہ بیت المکرم ‘(نیشنل مسجد آف بنگلہ دیش ) کے سامنے بھی ایک جلسے میں، مَیں نے اس بات کو دہرایا تھا۔ لیکن میری یہ بات پریس میں چھپنے نہیں دی گئی، کیونکہ اس وقت اس طرح کی خبروں پر پابندی لگی ہوئی تھی ۔
● جنگی جرائم کی حقیقت: ان جنگی جرائم کا جو مسئلہ اس وقت اٹھایا جا رہا ہے اسے خود شیخ مجیب الرحمن نے حل کردیاتھا۔شیخ مجیب حکومت نے کڑی تفتیش کے بعد پاکستانی فوج کے ۱۹۵افسروں اور دیگر فوجی عہدے داروں کو جنگی مجرم قرار دیاتھا۔ ان لوگوں پر مقدمہ چلانے کے لیے ۱۹جولائی ۱۹۷۳ء کو پارلیمنٹ میں انٹرنیشنل کرائمزٹریبونل ایکٹ پاس کروایاگیا۔ لیکن ۹؍اپریل۱۹۷۴ء کو دہلی میں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے وزراے خارجہ کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے جن کے نتیجے میں ان ۱۹۵مجرم قرار دیے جانے والے افراد کو معاف کردیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ شیخ مجیب نے کبھی بھی کسی سویلین کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا۔ جو لوگ بنگلہ دیش بنانے کی مہم میں شامل نہ تھے، بلکہ اس کے مخالف تھے اور پاکستان آرمی کے ساتھ تھے، مجیب حکومت نے ان لوگوں کو collaboratorیعنی تعاون کرنے والا قرار دیا تھا۔ یہاں میں اس بات کا ذکرکرنا ضروری سمجھتاہوں کہ ۱۹۷۱ء میں پاکستان آرمی نے اپنی مدد کے لیے مقامی لوگوں پر مشتمل کئی تنظیمیں تشکیل دیں،ان عسکری تنظیموں میں البدر، الشمس اور رضاکارکے نام شامل ہیں ۔ ان کی تشکیل رضاکارانہ اور اس وقت کی حکومت کی رضا مندی سے ہوئی تھی ۔ ان تنظیموں کے افراد کو بھی شیخ مجیب حکومت نے collaboratorقرار دیا اور ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ۲۴.جنوری ۱۹۷۲ء کو collaborator's orderجاری کیاگیا۔ جس کے تحت ایک لاکھ لوگوں کو گرفتار کیاگیاتھا جن میں سے۳۷ہزار۴سو ۷۱افراد پر الزامات عائد کیے گئے۔ لیکن ان میں سے بھی ۶۲۳،۳۴کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مقدمہ دائر کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ آخر کار صرف ۲ہزار ۸سو ۴۸افراد کے خلاف مقدمات بنے اور عدالت نے ان میں سے ۷۵۲کے خلاف جرم ثابت ہونے پر، مختلف سزاؤں کے فیصلے دیے،جب کہ ۲ہزار ۹۶افرادکو باعزت طور پر بری کردیا گیا ۔ بعدازاں نومبر۱۹۷۳ء میں حکومت کی طرف سے عام معافی کا اعلان کر دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں مذکورہ بالا مختلف سزا یافتہ بھی رہا ہوگئے۔ لیکن وہ لوگ جو قتل ،عصمت دری ،لوٹ مار اور آگ لگانے جیسے جرائم میں سزایافتہ تھے، ان کو عام معافی کا فائدہ نہ دیا گیا۔ پھراس عام معافی کو بھی دوسال گزرنے کے باوجود ان میں سے بھی کسی پر مقدمہ قائم نہ ہوا تھااوراس طرح عام معافی کا یہ استثنا بھی خود بخود ختم ہوگیا۔
اس وقت جن لوگوں کے خلاف کسی قسم کے جرم کے الزامات بھی نہیں لگائے گئے تھے اور وہ گرفتار بھی نہیں کیے گئے تھے حکومت آج ۴۰برس گزرنے کے بعد ان بے گناہ لوگوں کو جنگی مجرم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔
● جماعت اسلامی ہی ہدف کیوں؟ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ۱۹۸۰ء کے عشرے میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جنرل حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف ، جماعت اسلامی اور عوامی لیگ نے مل کر جدوجہد کی تھی ۔ اس کے بعد۱۹۹۴ء سے لے کر ۱۹۹۶ء تک خالدہ ضیا کی جماعت بی این پی کی حکومت کے خلاف جماعت اسلامی نے عوامی لیگ کے ساتھ مل کر عبوری حکومت کی تشکیل کے لیے جدوجہد کی جس کا مقصدبنگلہ دیش میں شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس وقت جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی اس جدوجہد میں چھوٹی چھوٹی دوسری پارٹیاں بھی شامل تھیں ۔ ان تمام جماعتوں کے سربراہان پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی بنائی گئی تھی۔ یہ کمیٹی اس پوری تحریک کے پروگرامات کا شیڈول طے کرتی تھی۔ جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی قیادت اکٹھے بیٹھ کر میٹنگیں کرتی تھی۔ اس دوران کبھی کسی نے نہیں کہا کہ ہمارے درمیان کوئی جنگی مجرم بھی بیٹھے ہیں۔ فروری۱۹۹۱ء میں بنگلہ دیش میں جو عام انتخابات ہوئے تھے، ان میں بی این پی اور عوامی لیگ میں سے کسی کو بھی اتنی سیٹیں نہیں ملی تھیں کہ وہ تنہا اپنے بل بوتے پر حکومت تشکیل دے لیں۔ عوامی لیگ کی قیادت حکومت قائم کرنے کی غرض سے جماعت اسلامی کے ووٹوں کی بھیک مانگنے، ہمارے پاس آئی تھی۔ عوامی لیگ کے ایک سینیر مرکزی رہنما امیرحسین عامو نے جماعت اسلامی کے سیکرٹر ی جنرل علی احسن مجاہد کو پیغام دیا کہ ہم لوگ پروفیسر غلام اعظم کو وزیر بنانے کے لیے تیار ہیں۔کیا اس وقت عوامی لیگ کی نظر میں ہم جنگی مجرم نہیں تھے؟اس کے بعد عوامی لیگ کی طرف سے بنگلہ دیش کی صدارت کے امیدوار جسٹس بدرالحیدر چودھری ،جماعت اسلامی کا تعاون حاصل کرنے کے لیے میرے پاس آئے تھے ۔ اس وقت بھی کسی نے نہیں کہاکہ یہ لوگ ہمیں جنگی مجرم سمجھتے ہیں ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اب ایسا کون سا واقعہ ہوگیا کہ ہم راتوں رات جنگی مجرم بن گئے ۔
اکتوبر۲۰۰۱ء میں ملک کے آٹھویں عام انتخابات منعقد ہوئے ۔۳۰۰کی پارلیمنٹ میں عوامی لیگ کو ۵۸اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو۱۹۷سیٹیں ملیں۔ بی این پی کی اس کامیابی کا راز جماعت اسلامی اور دوسری دوچھوٹی پارٹیوں کا اس سے اتحاد تھا ۔ اس اتحاد کی وجہ سے بی این پی کو ۲۰فی صد زیادہ ووٹ ملے۔اس الیکشن کے نتائج دیکھ کر عوامی لیگ کو اندازہ ہوگیا تھاکہ اگر جماعت اسلامی کو ختم نہ کیا گیا تو مستقبل میں اُن کے لیے اقتدار تک پہنچنا ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات لگانا اور جھوٹاپروپیگنڈا کرنا شروع کردیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد جن لوگوں پر محض پاکستان کا ساتھ دینے کا الزام تھا ،اب وہی لوگ جنگی مجرم قرار دیے جانے لگے ۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے عوامی لیگ نے کبھی بھی جماعت اسلامی کے لوگوں کو جنگی مجرم نہیں کہا لیکن ۱۹۷۳ء میں پاکستان کے آرمی افسروں اور دیگر فوجی عہدے داروں کے خلاف ٹرائل کرنے کے لیے جو قانون بنایاگیا تھا، اب اسی کوجماعت اسلامی کے خلاف استعمال کیا جارہاہے ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ عوامی لیگ ۱۹۷۱ء اور ۱۹۹۶ء میں دو دفعہ برسراقتدار آئی، اس دوران بھی عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کی قیادت کو نہ تو جنگی مجرم قرار دیا اور نہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہی بنایا ۔ عوامی لیگ کے اس اقتدار کا دورانیہ ساڑھے آٹھ سال بنتاہے۔ اس طویل دورانیے کے اقتدار میں بھی جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کا الزام کیوں نہ لگایا گیا؟ کیا عوامی لیگ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟
● حکومت کے ناپاک عزائم : حکومت نے اب جو قدم اٹھایا ہے اس کے پیچھے کوئی نیک مقاصد نہیں بلکہ ناپاک سیاسی مقاصد ہیں ۔ عوامی لیگ چاہتی ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو ختم کرکے ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ آیندہ الیکشن میں جماعت اسلامی کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرسکے اور عوامی لیگ کو ۲۰۰۱ء کی طرح شرم ناک شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔