• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بچھڑے کی محبت

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
520
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
بچھڑے کی محبت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ جمہوریت کو سامری کا بچھڑا شمار کریں یا ہندوؤں کی مقدس گائے قرار دیں، کیونکہ یہ شیطانی بچھڑا لاکھوں موحدین کا خون پی کر اور کروڑوں مسلمانوں کا ایمان ہڑپ کرکے ایک موٹی تازی گائے بن چکا ہے، ایک ایسی گائے کہ جس کی پوجا صرف ہندو نہیں کرتے، بلکہ اس کی پوجا پاٹ میں عرب و عجم کے کفارِ اصلی اور مرتد مشرکین نہ صرف برابر کے شریک ہیں، بلکہ مرتد طواغیت اپنے صلیبی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے اس جمہوری بچھڑے کی خاطر مسلمانوں کی قتل و غارت گری میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں۔

“متحدہ ہندوستان” کو تقسیم کر کے اس میں سے قومیت کی بنیاد پر ایک علیحدہ ریاست بنانے کا ابلیسی منصوبہ درحقیقت انگریزوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت کا شاخسانہ تھا کہ مسلمانوں کے اس عظیم خطے کو بھی دیگر خطوں کی طرح تقسیم کر دیا جائے اور خود اس قوم کے بھی حصے بخرے کر دیئے جائیں، تاکہ انگریزوں کے یہاں سے دفع ہو جانے کے بعد ان کا وجود ایک عظیم قوم کی حیثیت سے باقی نہ رہ سکے بلکہ تقسیم ہو کر ہندی مسلمان ، پاکستانی مسلمان اور “بنگالی” مسلمان کی صورت میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اسی استعمار کے غلام رہیں ، جن کی غلامی میں پچھلی تین چار صدیاں گزاری تھیں۔

یہ کلہاڑا مسلمانوں کی سیاسی جماعت مرتد لیگ اور اس کے دروغ گو دیوتا مرتد محمد علی جناح کے کندھوں پر رکھ کر چلایا گیا! کیونکہ یہ حقیقت تو نوشتہ دیوار تھی کہ مسلمان ہندوؤں پر اخلاقی، دینی، علمی اور نظریاتی برتری رکھتے ہیں، یہ تو وہ برتری اور فوقیت ہے جس کی چھاپ عقیدۃِ توحید اپنے ماننے والوں کے نفوس میں چھوڑ دیتا ہے، لہذا اسی وجہ سے ہندو بہت سے دیگر غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ یہاں صدیوں تک مسلمانوں کی رعایا رہ چکے تھے ، جن کے سامنے ہندووں کی دال گلتے نظر نہیں آرہی تھی ۔

لہذا مسلمانوں کی عقیدوی و منہجی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے بیچ مزید بٹوارا ڈالنا ہی ہندوؤں اور صلیبیوں کا مشترکہ منصوبہ تھا، جس کی انجام دہی کے لیے مرتد رافضی محمد علی جناح کو خصوصی طور پر برطانیہ سے واپس بلایا گیا ، دجالی پروپیگنڈہ کے ذریعے اس کو سحر انگیز شخصیت کے بہروپ میں منظر پر لا یاگیا، جس کے لیے اس وقت کے دجالی علمائے سوء کی بھرپور خدمات حاصل کی گئیں، تاکہ خطے کے سادہ لوح اور جاہل عوام اسے اپنی آزادی کا ضامن بلکہ ایک دیوتا کے طور پر قبول کر لیں۔

لہذا اس بد بخت کو مذکورہ شاطرانہ منصوبے کی کامیابی کے لیے کلیدی مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا! اس بد بخت کے کردار کو مغربی نظامِ تعلیم کی نصابی کتابوں میں نہیں دیکھیں! بلکہ کسی کے کردار کو جانچنے کی اصل کسوٹی تو عقیدہِ توحید اور الولاء و البراء ہے، جس کا سر چشمہ کتاب و سنت ہے۔

اور ان کفریہ سرحدوں کے پیچھے ریوڑوں کی طرح ہانکے جانے والے مسلمانوں کی اکثریت تو اس حد تک جہالت کی ماری ہوئی تھی اور ابھی تک ہے کہ ان کا تو سارا علمِ دین صرف چند گا گا کر تقریریں کرنے والے اور زور سے سبحان اللہ کہلوانے والوں کے گرد ہی گھومتا ہے، انہیں تو حجروں کے حواریوں اور پیٹ کے پجاریوں نے بس یہی سکھایا کہ یہ مملکت تو “خداداد” ہے، بالفاظِ دیگر کہ شرکیہ جمہوریت کے تحت صلیبیوں کی لکیری ہوئی یہ ریاست الله کا اوتار ہے، معاذ الله، وہ نہیں جانتے کہ پاک و ہند کا یہ بٹوارہ تاریخِ مسلمانان میں ان کے عقائد و اعمال میں اور ان کے اتحاد و استحکام کی راہ میں کتنا عظیم نقصان ہے کہ جس کی تلافی کے لیے شاید صدیاں لگ جائیں گی۔

اور جنہوں نے اسلام کے احکام کو قرآن و سنت کی بجائے اپنے سکول کی کتاب “اسلامیات” سے پڑھا، تو انہوں نے اتنا ہی اسلام سیکھا ہے جتنا کٹّے سے دودھ دوہا جاسکتا ہے، اپنے ناموں کے ساتھ “اسلامی” کے الفاظ لگانے والی بہت سے جماعتوں، تنظیموں اور طبقوں کی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، نفاذِ شریعت کا دھندھلا سا تصور رکھنے والے ان طبقات کے لیے جمہوریت کی نجاست پر دودھ کے چند قطرے ڈال کر اس کا “اسلامی” ورژن تیار کیا گیا، اور پھر دین کی الف بے سے خواندہ و ناخواندہ اس “علمی” طبقے کے حلق میں اسلامی جمہوریت کا لالی پاپ ٹھونس دیا گیا، اور یہ کام چونکہ قدرے مشکل تھا سو اس کے لیے “اکابر” کی خدمات بروئے کار لائی گئیں، جنہیں طواغیت نے “مفتیِ اعظم” اور “شیخ الاسلام” کے القابات سے نواز کر مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط کر رکھا ہے۔

چنانچہ یہ طبقات اور جماعتیں بھی شیطان اور اس کے چیلے چانٹوں کے مکر و فریب کا شکار ہوگئیں، انہیں چکر یہ دیا گیا کہ آئین میں “قرار داد مقاصد” کی یہ ابتدائی چند شقیں شامل کر لی گئی ہیں: مثلا: (١) حاکم اعلی اللہ تعالی کی ذات ہے، (٢) ملک کا آئین اسلامی ہو گا۔ اور(٣) جو قانون بھی دین اسلام سے متصادم ہوا، اسے رفع کیا جائے گا۔

پس یہ “علماء” کی جماعت اور “اسلامی” جماعتیں اسی پر پھول کر کپا ہوگئیں، اور اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ یہ ترمیمیں اور قرار دادیں بھی تو آخر کار جاہل و بے دین لوگوں کی خواہشات ہی کی مرہونِ منت ہیں، اور اللہ خالق و رازق جل جلالہ کی حاکمیتِ اعلی بھی گھوم گھما کر محتاج و بے بس مخلوق کی ایماء اور صوابدید کے تابع ہے، معاذ اللہ من ذلك۔ یعنی قانون ساز اور شارع حقیقی.، اللہ خالق و مالک کی بجائے عوام اور مقننہ کو بنا دیا گیا۔

اب پہلی مذکورہ تین شقوں کی موجودگی میں نام نہاد مذہبی قیادتوں نے مان لیا کہ اب جمہوری آئین مسلمان ہوگیا۔ لہذا اب انتخابات میں حصہ لینا حلال ٹھہرا، لیکن انہوں نے بات پر جہلا یا تجاہلا غور نہیں کیا کہ جمہوریت کی چھتری تلے جب آپ خالق و مالک اور ربِ حقیقی کے بجائے انسانوں کی بنائی ہوئی مقننہ کو قانون ساز کا مقام دیں گے یا رب عز وجل کی شریعت کے نفاذ کو انسانوں کی صوابدید پر چھوڑیں گے تو یہ آئین کی اسلامیت اور مسلمان کی مسلمانیت کو تار تار کرکے اسے کفر و ارتداد کی گہرائیوں میں جا گرائے گا، اور پھر اس “اسلامی” جمہوریت کو پون صدی گزر جانے کے باوجود بھی، شیطان نے اپنے چیلوں کو جو نقشہ اور ایجنڈا بنا کے دیا تھا اسی پر جوں کا توں عمل درآمد ہوتا رہا اورابھی تک ہو رہا ہے۔

جمہوریت کے کفر کو اختیار کرنے یا اس پر گونگے شیطان کی طرح چپ سادھ کر بیٹھنے کے نتائج آج آپ دیکھ لیں کہ آج کافر و زندیق جمہوری گدھے کے بالمقابل ایک عالم اور مفتی کی کیا حیثیت ہے؟، لیکن ابھی کہاں! ابھی وقت آیا چاہتا ہے کہ یہ جمہوریت، جمہوری عالم ، مفتی اور مذہبی قائد کو اس کی داڑھی سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹے گی! لیکن اے کاش جمہوری! تجھے عبرت پھر بھی نہیں آئے گی، اس لیے کہ اس نظام نے تیری مت ہی ایسی مار دی ہے کہ تیرے اندر کے روئیں روئیں سےغیرت نام کا گوہر نایاب دہائیوں سے ناپید ہوچکا ہے۔

اس لیے کہ تو نے اللہ، اس کے رسول ، اس کے دین اور اس کے مؤمن و مجاہد بندوں سے ولاء اور دوستی کی بجائے اپنے ولاء اور دوستی کو بے جان شرکیہ وطنی سرحدوں کے ساتھ جوڑ لیا ہے، فيا للخزي و الخسران!!

جمہوریت وہ نظام ہے کہ اگر انسان کا ایک ووٹ ہے اور اس کے بالمقابل جمہوری گدھے کے دو ووٹ ، تو گدھا انسان سے بازی لے جائے گا! چنانچہ دیکھ سکتے ہیں کہ آج جمہوری گدھے کا کیا مقام ہے اور جمہوری عالم اور مفتی کہاں کھڑا ہے!! دونوں میں فقط داڑھی کا فرق ہے جبکہ بے لگامی تو اب دونوں کی ہی سرشت ہے! افلا تبصرون!

آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ چنگیزی آئین “یاسق” کو ماننے والے سلف و خلف کے نزدیک کافر اور واجب القتل ہیں، اور ان کی تکفیر شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن القیم اور امام ابن کثیر وغیرہم رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر فقہاء و مفسرین نے کی ہے، اور ایک آج کے جمہوری علمائے سوء کا طبقہ ہے جو اپنے رب کے قرآن کے مقابلے میں اس ملکی قانون “یاسق” کو گلے لگائے بیٹھا ہے، اور چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا، اس دور کے رہبان و احبار اور کاہنانِ معبد کا یہ ٹولہ اس کفری یاسق کی تو مانتا ہے، لیکن اللہ کے قرآن میں کیڑے نکالتا ہے، جبکہ ایمان تو ماننے اور عمل کرنے کا نام ہے!

حرف اس قوم کا بے سوز ، عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر​

یہ عقل کے اندھے کہتے ہیں کہ ہمارا آئین اسلامی ہے۔ کیونکہ اس کی ابتدائی تین شقیں اسے اسلامی بناتی ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے: کسی دائمی بے نماز شخص نے اپنے کمرے میں نقشہ اوقات نماز بازار سے لا کر لٹکا دیا ہو ۔ اور اس کا اصرار ہو کہ اسے نمازی کہا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے: شراب کی بوتل پر شہد کا لیبل لگا دیا جائے، یہ ایسے ہی ہے جیسے: کفریہ تھانے کچہریوں کے باہر “دار الامن” لکھ دیا جائے، کہ جہاں رشوتیں بٹوری جاتی ہیں، اموال غصب کیے جاتے ہیں، اور زور زبردستی اقبالِ جرم کرواکر پسِ زندان یا پھر پھانسی کے گھاٹ اتارا جاتا ہے، جبکہ کوئی شریف آدمی ان تھانوں کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے: انسانوں کی خواہشات کے تابع من گھڑت کفریہ قوانین کے ساتھ فیصلہ کرنے والی عدالتوں کے باہر نشانِ ترازو کے نیچے (ان الحکم الا لله) لکھ دیا جائے، جبکہ یہیں اللہ کی الوہیت اور ربوبیت کو سب سے زیادہ چیلنج کیا جاتا ہے۔ پس یہ ایسے ہی ہے جیسے: کفر و شرک کی نجاست سے اٹے برِ صغیر کے باہر ہندوستان اور پاکستان کی تختیاں آویزاں کردی جائیں، جبکہ در حقیقت تو یہ دونوں ہی کفرستان ہیں۔

بلاشبہ اسلام سے نسبت رکھنے والی کثیر جماعتوں اور طبقات نے اسلام کے مدِ مقابل موجودہ دور کے سب سے بڑے طاغوت یعنی نظام جمہوریت کو اپنا لیا ہے، اور اگر مبالغہ نہ لگے تو سچ تو یہ ہے کہ بنی اسرائیلی بچھڑے کی طرح اس نصرانی جمہوری بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں انڈیل دی گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ اقامتِ شریعت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد و قتال کرنے والے مجاہدین و موحدین کے خلاف ہذیان گوئی کرتے ہوئے ذرہ بھر نہیں شرماتے، اور اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ ان کے ہاں تو جمہوری جدو جہد کو عین جہاد کہا جاتا ہے اور بڑے شد و مد سے اسے شرعی جہاد اور تمام انبیاء کی سنت ثابت کرنے کی غلیظ و گھٹیا کوششیں کی جاتی ہیں، قاتلهم الله أنى يؤفكون!!

یعنی جس خبیث نظام کے خلاف جہاد کرنا تھا اور اس کے خلاف شرعی جہاد کے ذریعے اس کی سر کوبی کر کے اس کی جگہ اللہ کا نظام یعنی نظام شریعت کو قائم کرنا تھا، اس کی بجائے یہ مرتدین اسی کفری جمہوری جدوجہد کو عین جہاد باور کرانے لگ گئے، اور یہ تو صرف یہ ہے، بات تو اس سے بھی آگے نکل گئی، یہاں تک کہ اسلامی لبادہ اوڑھنے والے جمہوریت کے بعض طاغوتوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ووٹ دینے کے لیے رمضان کا اعتکاف بھی چھوڑا جاسکتا ہے اور ایک مرتد نے تو اس سے بھی بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ جس مسجد کا امام جمہوریت میں شریک نہیں اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، العیاذ بالله ثم العیاذ باللہ۔

ارشادِ باری تعالی ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ [النحل: 116]

ترجمہ: اور تم اپنی زبانوں کے بل بوتے پر اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہوئے یہ مت کہتے پھرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں وہ فلاح نہیں پاسکیں گے۔

انسانی حقوق کا چورن بیچنے والے یہ جمہوری مرتدین قانونِ ربانی کی بالا دستی کو جبر قرار دیتے ہیں، اور پھر کہتے ہیں کہ (لاإکراه في الدين) اسلام میں کوئی جبر نہیں، بے شک یہ یہود و نصاری کے پیروکار بھی اپنے آقاؤں کی طرح کتاب الله میں ہیر پھیر کرتے ہوئے پل بھر نہیں ٹھٹھکتے، وہ کہ جن کے بارے میں حق تعالی نے فرمادیا ہے کہ (يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ) یعنی وہ کلمات کو ان کی اصل سے پھیر دیتے ہیں، یہ مرتدین چاہتے ہیں کہ ہر صورت شریعت کی بالا دستی کا انکار کردیں، تاکہ ان کی جمہوری شریعت ایسی ہو کہ اس میں زانی کو زنا سے نہ روکا جائے اور شرابی کو شراب سے نہ روکا جائے اور نتیجتاً مشرک کو اس کے شرک سے نہ روکا جائے، کیونکہ اس طرح تو اکراہ فی الدین ہوجائے گا، جبکہ دوسری طرف یہی مرتدین برطانوی و بھارتی جاہلی و کفری قوانین کی اطاعت بھی واجب قرار دیتے ہیں، اور مرتد جمہوری حکمرانوں کے خلاف قتال کے شرعی فریضے پر کمر بستہ مجاہدین پر خوارج کی تہمتیں اور دہشت گردی کے عنوانات چسپاں کرتے ہیں، تاکہ ان کے جمہوری خداؤں پر پڑنے والے ہر وار کو یہ مرتدین اپنے چہرے اور سینے پر لے سکیں، بلا شبہ یہ جمہوری بچھڑے کی محبت ہی ہے جو ان بدبختوں کے دلوں میں انڈیل دی گئی ہے۔

ہاں بالکل! مجاہدین کو بھی اس میں کوئی عار نہیں وہ جمہوری خداؤں کے مونہہ پر وار کرنے کی بجائے ان کی ٹخنوں پر ضرب لگائیں، کیونکہ ان کا جہاد تو سارے کے سارے مشرکین کے خلاف ہے، جیسا کہ ان کے رب نے ان کو (قاتلوا المشركين كافة) کا حکم دیا ہے، اور مجاہدین یہ ایمان رکھتے ہیں کہ طواغیت اور ان کے لشکر و چیلے چانٹے بھلے جتنے بھی فنکار ہوجائیں، لیکن آخر کار انہی کا وار خطا جائے گا، کیونکہ ان کے رب نے فرمادیا ہے: إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ [القصص:8]
ترجمہ: بے شک فرعون، ہامان، اور ان کے لشکر خطاکاروں میں سے ہیں۔

ہاں! فرعون و ہامان نے تو کچھ دنیا کی عیاشی پالی تھی، لیکن ان بد بختوں نے تو دنیا اور آخرت دونوں کی ذلت و رسوائی جا سمیٹی اور اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کا سود در سود بو جھ بھی اپنے کندھوں پر لاد لیا!

اللہ کے دین کی بالا دستی کو جبر اور دہشت گردی قرار دینے ان “اسلامی” جمہوری مرتدین سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا یہ جبر اور دہشت گردی نہیں؟ جو تم اپنی ناپاک فوج و پولیس اور کینہ خور خفیہ ادروں کے مرتدین کے ذریعے جبراً جمہوری نظام کو نافذ کرتے ہو، جو تم حدود و شریعت الہی کی راہ رخنہ ڈالتے ہو، بلکہ نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے والے مسلمانوں پر بمباریاں کرتے ہو، جو تم جبراً قوم کی بیٹیوں کو اور موحد مسلمانوں کو بیچ ڈالتے ہو، جو تم جبراً عام شہریوں کو ان کے گھروں، دوکانوں اور چوک چوراہوں سے اچک کر لاپتہ کردیتے ہو، جو تم بے گناہ مسلمانوں، عمرہ رسیدہ بوڑھوں اور نوخیز جوانوں کو رات کے اندھیروں میں بزدلانہ طور پر جعلی مقابلہ میں قتل کرتے ہو، جو تم قوم کو جبراً سود کھلاتے ہو، جو تم اپنے لائسنسوں کے ساتھ شراب نوشی ، شراب فروشی، زنا کاری و موسیقی پھیلاتے ہو، جو تم باقاعدہ پالیسیاں بناکر میڈیائی چینلوں اور اخباروں کے ذریعے گھر گھر فحاشی و عریانی کی ترویج کرتے ہو، جو تم مسلمانوں کی نسلوں کو جمہوری و الحادی تعلیمی اداروں میں مخلوط اور بے پردگی کے ماحول میں داخلوں پر مجبور کرتے ہو، جو تم ہم جنس پرستی اور لواطت کے قوانین بنا کر مسلمانوں کی ہزارہا نفرت کے باجود ان کے درمیان ایسے لوگوں کو بڑھاوا دیتے ہو، جو تم باقاعدہ سرکاری پالیسیوں کے تحت صلیبی شرکیہ عیدوں اور دیگر حرام تہواروں پر جبراً مسلمانوں کے کسب کار کو مسدود کرتے ہو، جی ہاں! اے جمہوری مرتدین کی جماعت! یقیناً تم تو یہی کہو گے یہ کہ جبر نہیں، تو ہم یہ کہتے ہیں کہ جب دل ٹیڑھے ہو جائیں اور کفر و ردت دل میں گڑھ کر جائے تو پھر زاویہ ہائے نظر اور وفاداریاں ایسے ہی تبدیل ہو جاتی ہیں۔

اور ان میں سے بعض تو ایک الگ قسم کا حیلہ اور بہانہ کرکے دھوکہ و فریب کا کھیل کھیلتے ہیں کہ “جی کیا کریں، مجبوری ہے!، فی الحال جمہوریت کا سہارا لینے اور اسے دین کی بالا دستی کے لیے بطور سیڑھی استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں” یا “بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی برائی کا انتخاب ایک مجبوری” وغیرہ، دراصل یہ احکامِ شریعت سے تجاہل یا اعراض کی صورتیں ہیں، ان جہلاء کی منطق کے مطابق ان کے نزدیک نجاست کھانے سے پیشاب پی لینا زیادہ بہتر ہے، جبکہ در حقیقت تو یہ جمہوری بچھڑے کی محبت ہے جو ان کے دلوں میں انڈیل دی گئی ہے اور یہ اس کے دفاع کے لیے ہر صحیح، غلط اور گھسی پھٹی بات بھی بطورِ حجت کے پیش کرنے سے نہیں کترائیں گے، اور یہ صرف اس طاغوتی نظام سے منسلک ہونے، چمٹے رہنے اور دین اسلام کے غلبے کی شرعی تگ و دو سے اعراض و فرار کے سوا کچھ بھی نہیں۔

آپ کسی بھی مجمع میں جمہوریت کی تردید کریں پورے مجمع میں صرف مولوی ہی جمہوریت کے دفاع اور آپ کی تردید کے لیے اٹھیں گے، حالانکہ اس مجمع میں دیگر جمہوری جماعتوں کے کارکنان اور پرستار بھی بیٹھے ہوں گے لیکن کفر کا دفاع دین سے نسبت رکھنے والے اس مولوی کے حصے میں آئے گا، نصیب اپنا اپنا، کیونکہ دیگر لوگوں نے تو جمہوریت کے شرک کو پیٹ پوجا کے لیے اختیار کیا ہے جبکہ دین سے نسبت رکھنے والے ان بد بخت طبقات نے اسے عقیدے کے طور پر اختیار کرلیا ہے، اور بزعم خویش وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارے اکابر کا راستہ ہے، گویا کہ ان کے اکابر نے اللہ کے ساتھ ساز باز کر رکھی تھی کہ “انہیں آگ نہیں چھوئے گی سوائے چند دن کے”۔

یہ نام نہاد اسلامی جماعتیں اور طبقے اس جمہوریت کی دھوکہ دہیوں اور فریب کاریوں سے قطعا بھی بے خبر نہیں، پس جس کی کھوپڑی میں ایک آنکھ بھی سلامت ہے وہ جانتا ہے کہ اس جمہوریت کے نفاذ کے لیے کتنے مسلمانوں کو قتل و غارت کردیا گیا اور کتنے سہاگ اجاڑ دیے گئے اور کتنے پھول مسل دیے گئے، اور کسی سے اوجھل نہیں کہ اس جمہوری شرک کے خاتمے کے لیے کتنے ہزاروں موحدین و مجاہدین نے اپنی زندگیاں وار دیں، چنانچہ اس سب کے بعد بھی اگر کوئی خود کے لیے کفر و شرک پسند کرتا ہے تو وہ پھر اپنے سوا کسی کو ملامت نہ کرے، پس ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان نام نہاد شرکیہ جماعتوں سے برأت کردے، جن میں جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمیعت اہل حدیث، اسلامی جمعیت طلبہ اور سپاہ صحابہ وغیرہ سرِ فہرست ہیں، نیز ان کے جمہوری عسکری دستے یعنی جیشِ محمد، جماعت الدعوۃ اور حزب المجاہدین اور بہت سی دیگر وطن پرست ٹولیاں جو دین کا لبادہ اوڑھ کر طواغیت کی خاطر لڑنے والے مفت کھاتے کے مرتدوں کا لشکر ہیں، ان ناموں کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے کثیر شرکیہ ٹولے ہیں جو داڑھی پگڑی کے ساتھ جمہوریت کے بچھڑے کو پوجتے ہیں اور اس پر اپنے خون کی بَلیاں چڑھاتے ہیں۔

بے شک یہی وہ جاہلیت کے اندھے پرچم ہیں جو قومیت، وطنیت، قبائلیت اور عصبیت کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ہیں، حتی کہ ان پر اکثر و بیشتر یہ مفہومِ حدیث صادق دیکھنے کو ملتا ہے کہ “قاتل و مقتول دونوں ہی دوزخی ہیں”، پس مذہب کے بھیس میں یہ متضاد طرزِ عمل شاید اس چیز پر غماز ہے کہ اس کے ڈانڈے روزِ اول سے ہی ان کی صفوں میں موجود عقیدوی بگاڑ تک پہنچتے ہیں!! پس جمہوری سیاست کے جراثیم رکھنے والی اور مستقبل میں اس کے غلیظ گٹر میں چھلانگ لگانے والی یہ تمام جماعتیں اور تنظیمیں لوگوں کو اسلامی نظام کے سپنے دکھا کر اپنے آپ کو جہادی ثابت کرتی رہی ہیں اور دھوکہ دے کر گرویدہ بناتی رہی ہیں!!

ہر جگہ کفر و شرک سمیت ہمہ قسم کے فتنوں کے خلاف قتال کے خالص قرآنی حکم میں “مملکتِ خداداد”، “ارضِ پاک”، “پشتون قوم” اور “غیور قبائل” کہاں سے آن ٹپکے؟، رب کے حکم کو چھوڑ کر انسانی قیادت کی غیر شرعی کاموں میں اطاعت چہ معنی دارد؟؟ جبکہ قتال کی آیات قطعا متشابہات و مؤوّلات میں سے نہیں ہیں، بلکہ محکم ہیں اور صیغہ امر میں ہیں، ان میں عرب و عجم کے کسی طاغوت یا کسی فتنے کے خلاف قتال سے استثناء کہاں ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ یہ سارے طبقات ہی جمہوریت کے بچھڑے کو پوجنے کے لیے ایک قطار میں کھڑے ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اس بچھڑے کے کُھروں میں سر دے کر پراتھنا کر رہا ہے اور اس کے پیچھے کوئی قطار میں دسویں نمبر پر اسلامی نظام کا احتجاجی بینر اٹھائے کھڑا ہے اور اس سے پیچھے کوئی قطار میں بیسویں نمبر پر نفاذِ شریعت کے نام پر بندوق تانے کھڑا ہے، جبکہ در حقیقت تو یہ سارے ہی آج نہیں تو کل اس بُت کے آگے ماتھا ٹیکنے والے ہیں، کیونکہ جب عقیدے میں بگاڑ ہے تو مرض ان کے ڈی این اے میں ہے، اور بھلا دین کی اساس کے بغیر بھی جنگ میں کبھی کسی کے قدم ٹک پائے ہیں؟!

ہم اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے بالعموم تمام مسلمانوں کو اور بالخصوص ان گمراہ جماعتوں، تحریکوں، تنظیموں اور دیگر اندھے پرچموں سے نسبت رکھنے والوں سے کہتے ہیں کہ کچھ تو اللہ کا خوف کرو، پیچھے مڑ کر اپنے گزرے عزت کے دنوں کو تو دیکھو، جن میں تم اسلام کی عزت کے ساتھ عزیز تھے اور تمہارا دشمن اپنی کفر کی ذلت کے ساتھ ذلیل تھا، آخر تمہیں کیا ہوا کہ تم نے اپنے دشمن کی ذلت میں ساجھے داری کا فیصلہ کرلیا؟ کیا تم ان کے ہاں عزت چاہتے ہو؟ جبکہ عزت و کرامت تو دونوں جہانوں میں صرف اللہ، اس کے رسول اور مؤمنوں کے لیے ہے۔

پس اللہ کی طرف پلٹو اور اس کے حضور اپنی جہالت و تجاہل سے توبہ کرو، اور صحابہ کرام اور قرون اولی کے مؤمنین کی طرح قرآنی حکم “ادخلوا فی السلم کآفة” پر متوجہ ہو کر خالص اللہ واحد کی فرمانبرداری اختیار کر کے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ، جمہوریت، وطنیت، قومیت اور دیگر ہر شرک سے دوری اختیار کرو، کہ اس کے بغیر آدھا اسلام تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکے گا، یہ آدھے تیتر، آدھے بٹیر، نیم اسلامی نیم جمہوری، نیم موحد نیم وطن پرست، اللہ کے ہاں یہ کچھ شمار نہیں رکھتے۔

اور بے شک یہ تو نصیحت ہے جو خوف رکھتا ہوگا وہ نصحیت پکڑے گا اور جو بد بخت ہوگا وہ اس سے کنارہ کش ہوجائے گا، پس مذکورہ بالا جمہوری و نیم جمہوری طبقات میں سے جس بدبخت کو یہ نصیحت فائدہ نہ دے، تو اسے چاہیے کہ وہ پوری بیغیرتی کے ساتھ کھل کر سیکولر جمہوری بن جائے، مخلوقِ الہی کو دین کے نام پر مزید دھوکہ مت دے، جبکہ دن تو ہمارے اور تمہارے درمیان پھرنے والے ہیں، اور عنقریب کفار جان لیں گے کہ آخرت کا اچھا گھر کس کے لیے ہے، اور اللہ تو اپنے کام پر غالب ہے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔

مجلۃ یلغار اردو
شمارہِ چہارم رمضان ۱۴۴۴ ہجری
 
Top