ابوالوفا محمد حماد اثری
مبتدی
- شمولیت
- جون 01، 2017
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 9
- پوائنٹ
- 20
بکری قرآن کھا گئی ؟
تحریر : غلام مصطفی ظہیر امن پوری
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
لَقَدْ أُنْزِلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَعَاتُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، فَكَانَتْ فِي وَرَقَةٍ تَحْتَ سَرِيرٍ فِي بَيْتِي، فَلَمَّا اشْتَكَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَاغَلْنَا بِأَمْرِهِ، وَدَخَلَتْ دُوَيْبَةٌ لَنَا فَأَكَلَتْهَا "
''آیت رجم اور آیت'' رضعات کبیر دس بار پینے سے ثابت ہوتی ہے، نازل ہوئی تھیں۔''یہ آیات میری چار پائی کے نیچے رکھی تھیں کہ رسول اللہ ﷺکو بخار نے آلیا ، ہم آپ کی طرف مشغول ہو گئے، تب ایک بکری آئی اور ان دو آیات کو کھا گئی۔''(مسند احمد:6/269، وسندہ حسن )
بعض لوگ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نعوذبا للہ قرآن کو بکری کھا گئی، لہذا قرآن محفوظ کیسے؟
تو جوابا عرض ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جن دو آیات کا ذکر کیا ہے ، ان کی تو تلاوت ہی منسوخ ہوچکی تھی ، جیسا کہ صحیح مسلم(1452)دس بار رضاعت اورصحیح بخاری (6830)میں آیت رجم کی منسوخیت کا ذکر ہے۔یہ دو آیات ہی بکری نے کھائی ہیں۔
لہذا جن آیات کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے، بکری نہ بھی کھاتی تو بھی قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہونا تھا۔تو اس کی بنیاد پرقرآ ن کو ناقص قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟
2یہ آیات منسوخ نہ ہوتیں تب بھی بکری کے ایک آیت کھانے سے ایسا کچھ لازم نہیں آتاکہ نعوذ باللہ قرآن میں کمی آگئی ،کیوں کہ و ہ قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے سینوں میں تو موجود تھا۔
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ (العنکبوت : 49)
اللہ نے قرآن کی حفاظت کا ذریعہ اہل علم کے سینوں کو قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ قرآن محفوظ ہے، بعض حضرات کااسے غیر محفوظ باور کروانا سطحی ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} [الحجر: 9]
''ہم نے اس ذکر کو نازل کیا ، ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔''
نوٹ :
ہماری بحث ان آیات سے ہے جنہیں بکری نے کھایا ، وہ دس تھیں،
پانچ رضعات والی آیت کی تلاوت بھی منسوخ ہے اورحکم باقی ہے، لیکن
یہاں اس پر بحث نہیں، کیوں کہ اس کا تعلق نہ تو مذکورہ شبہ سے ہے ،نہ ہی بکری کے کھانے سے ۔فافہم۔
تحریر : غلام مصطفی ظہیر امن پوری
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
لَقَدْ أُنْزِلَتْ آيَةُ الرَّجْمِ وَرَضَعَاتُ الْكَبِيرِ عَشْرًا، فَكَانَتْ فِي وَرَقَةٍ تَحْتَ سَرِيرٍ فِي بَيْتِي، فَلَمَّا اشْتَكَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَاغَلْنَا بِأَمْرِهِ، وَدَخَلَتْ دُوَيْبَةٌ لَنَا فَأَكَلَتْهَا "
''آیت رجم اور آیت'' رضعات کبیر دس بار پینے سے ثابت ہوتی ہے، نازل ہوئی تھیں۔''یہ آیات میری چار پائی کے نیچے رکھی تھیں کہ رسول اللہ ﷺکو بخار نے آلیا ، ہم آپ کی طرف مشغول ہو گئے، تب ایک بکری آئی اور ان دو آیات کو کھا گئی۔''(مسند احمد:6/269، وسندہ حسن )
بعض لوگ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نعوذبا للہ قرآن کو بکری کھا گئی، لہذا قرآن محفوظ کیسے؟
تو جوابا عرض ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جن دو آیات کا ذکر کیا ہے ، ان کی تو تلاوت ہی منسوخ ہوچکی تھی ، جیسا کہ صحیح مسلم(1452)دس بار رضاعت اورصحیح بخاری (6830)میں آیت رجم کی منسوخیت کا ذکر ہے۔یہ دو آیات ہی بکری نے کھائی ہیں۔
لہذا جن آیات کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے، بکری نہ بھی کھاتی تو بھی قرآن میں ان کا ذکر نہیں ہونا تھا۔تو اس کی بنیاد پرقرآ ن کو ناقص قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟
2یہ آیات منسوخ نہ ہوتیں تب بھی بکری کے ایک آیت کھانے سے ایسا کچھ لازم نہیں آتاکہ نعوذ باللہ قرآن میں کمی آگئی ،کیوں کہ و ہ قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے سینوں میں تو موجود تھا۔
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ (العنکبوت : 49)
اللہ نے قرآن کی حفاظت کا ذریعہ اہل علم کے سینوں کو قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ قرآن محفوظ ہے، بعض حضرات کااسے غیر محفوظ باور کروانا سطحی ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
{إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ} [الحجر: 9]
''ہم نے اس ذکر کو نازل کیا ، ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔''
نوٹ :
ہماری بحث ان آیات سے ہے جنہیں بکری نے کھایا ، وہ دس تھیں،
پانچ رضعات والی آیت کی تلاوت بھی منسوخ ہے اورحکم باقی ہے، لیکن
یہاں اس پر بحث نہیں، کیوں کہ اس کا تعلق نہ تو مذکورہ شبہ سے ہے ،نہ ہی بکری کے کھانے سے ۔فافہم۔