محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًا۰ۚ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا فَعَلْنَ فِيْٓ اَنْفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۲۳۴
ان آیات میں ازواج کا ذکر ہے ۔ اس سے مراد بیوہ عورتیں ہیں۔ ان کی عدت کا ذکر ہے ۔ چار مہینے دس دن تک انتظار کریں۔ اس کے بعد انھیں اختیار ہے ۔اس مدت میں جنین کا پتہ چل سکتا ہے ۔ تین ماہ کے بعد عام طورپر جنین مذکر میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور جنین مونث بھی چار ماہ تک متحرک ہوجاتا ہے ۔ دس دن اس لیے بڑھا دیے ہیں، تاکہ اگر جنین زیادہ کمزور ہوتو بھی ظاہر ہوجائے۔
جمہور فقہا کا مذہب یہ ہے کہ حاملہ کی عدت الگ ہے ۔ یعنی اگر ایک عورت بیوہ اور حاملہ ہوتو اس کی عدت بیوہ کی عدت نہیں ہوگی، چار مہینے اور دس دن بلکہ وضع حمل کی عدت ہوگی۔ چنانچہ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سبیعہ، سلمیہ کو وضع حمل کے بعد نکاح کی اجازت دے دی۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اسے بعدالاجلین کو عدت ٹھہرانا چاہیے، تاکہ عموم وخصوص میں جمع ہوجائے۔ یعنی اگر وضع حمل کی مدت زیادہ ہے تو وہ عدت ٹھہرے گی اور اگر عدت کی مدت زیادہ ہے تو وہ۔
نکاح بیوگان ایک ایسا قانون ہے جس کی صحت اب مخالف حلقوں میں بھی تسلیم کی جارہی ہے ۔اسلام چونکہ دین فطرت ہے ، اس لیے اس نے آج سے چودہ سوسال پہلے اجازت مرحمت فرما دی اور بات بھی معقول ہے ۔ جب نکاح ایک دفعہ درست ہے اور سوسائٹی اسے معیوب قرار نہیں دیتی توپھر یہ دوسری دفعہ کیوں درست نہیں؟
نکاح بیوگان کی مخالفت قانونِ فطرت کے خلاف ہے جس سے بہت سی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ قومیں اس کو بشدت محسوس کرنے لگی ہیں اور عملاً اسلام کی اس سچائی کی معترف ہورہی ہیں۔
اور جو لوگ تم میں سے عورتیں چھوڑ کر مرجاتے ہیں تو وہ عورتیں چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکیں۔۱؎ پھر جب وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہے جو وہ اپنے حق میں حسب دستور کرتی ہیں اور خدا تمھارے کاموں سے خبردار ہے۔(۲۳۴)
۱؎ قرآن حکیم کی اصطلاح میں زوج کا اطلاق بیوی اور خاوند پر یکساں ہوتا ہے ، اس لیے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیےسرمایۂ راحت وسکون ہیں اور دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے ضروری وناگزیر ہے ۔ موجودہ تہذیب عورت کو ''نصف بہتر'' سے زیادہ حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں مگر قرآن حکیم عورت کو '' کل بہتر'' کہتا ہے اور اس لیے اس کے لیے زوج کے لفظ کو استعمال کرتا ہے، تاکہ معلوم ہو کہ خاوند بیوی سے الگ ومستقل کوئی وجود ہی نہیں رکھتا کہ اس کا کوئی دوسرا نام ہے ۔بیوہ کی عدت
ان آیات میں ازواج کا ذکر ہے ۔ اس سے مراد بیوہ عورتیں ہیں۔ ان کی عدت کا ذکر ہے ۔ چار مہینے دس دن تک انتظار کریں۔ اس کے بعد انھیں اختیار ہے ۔اس مدت میں جنین کا پتہ چل سکتا ہے ۔ تین ماہ کے بعد عام طورپر جنین مذکر میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور جنین مونث بھی چار ماہ تک متحرک ہوجاتا ہے ۔ دس دن اس لیے بڑھا دیے ہیں، تاکہ اگر جنین زیادہ کمزور ہوتو بھی ظاہر ہوجائے۔
جمہور فقہا کا مذہب یہ ہے کہ حاملہ کی عدت الگ ہے ۔ یعنی اگر ایک عورت بیوہ اور حاملہ ہوتو اس کی عدت بیوہ کی عدت نہیں ہوگی، چار مہینے اور دس دن بلکہ وضع حمل کی عدت ہوگی۔ چنانچہ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سبیعہ، سلمیہ کو وضع حمل کے بعد نکاح کی اجازت دے دی۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اسے بعدالاجلین کو عدت ٹھہرانا چاہیے، تاکہ عموم وخصوص میں جمع ہوجائے۔ یعنی اگر وضع حمل کی مدت زیادہ ہے تو وہ عدت ٹھہرے گی اور اگر عدت کی مدت زیادہ ہے تو وہ۔
بیوہ سے نکاح کے لیے یہ ہدایات دیں کہ تعریض یعنی اشاروں، کنایوں میں اظہار مطلب کرنا گناہ نہیں،البتہ ان کی رائے پر جبر کرکے الگ ان سے کوئی وعدہ لے لینا مذموم ہے اور یہ کہ اثنائے عدت میں نکاح کے لیے کوئی پختہ عہد کرنا بھی درست نہیں۔ جب عدت گزرجائے تو پھراختیار ہے ۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جلدی اور انجام کا رعجلت اچھی نہیں ہوتی۔ بیوہ کو موقع دینا چاہیے کہ وہ اچھی طرح سوچ سمجھ لے۔ اس کی رائے آزادانہ ہونی چاہیے۔دباؤ کسی صورت بھی مفید نہیں ہوسکتا۔ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن حکیم نے نکاح کے معاملے میں عورت کی آزادی ٔرائے کی کس قدر حفاظت کی ہے اور نسوانی حرمت وعزت کا کس قدر خیال رکھا ہے ۔ وہ لوگ جو معاملات میں ان باریکیوں کا خیال نہیں رکھتے،بالعموم تکلیف اٹھاتے ہیں اور پشیمان ہوتے ہیں۔سلسلۂ جنبانی
نکاح بیوگان ایک ایسا قانون ہے جس کی صحت اب مخالف حلقوں میں بھی تسلیم کی جارہی ہے ۔اسلام چونکہ دین فطرت ہے ، اس لیے اس نے آج سے چودہ سوسال پہلے اجازت مرحمت فرما دی اور بات بھی معقول ہے ۔ جب نکاح ایک دفعہ درست ہے اور سوسائٹی اسے معیوب قرار نہیں دیتی توپھر یہ دوسری دفعہ کیوں درست نہیں؟
نکاح بیوگان کی مخالفت قانونِ فطرت کے خلاف ہے جس سے بہت سی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ قومیں اس کو بشدت محسوس کرنے لگی ہیں اور عملاً اسلام کی اس سچائی کی معترف ہورہی ہیں۔