• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ ابن کثیر / البدایہ والنہایہ --- ابن کثیر --- نبی صلی الله علیہ وسلم کی نعل (جوتی) کی تاریخ

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
آج سے ٣٠ سال پہلے نعل شریف نظر نہیں آتی تھی لیکن چند سالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اس کے عکس ہمارے شہروں میں نظر آنے لگے ہیں - اس کا سہرا شاید وسطی ایشیا کی مسلم قوموں کے سربندھتا ہے جہاں سے یہ یہاں آ پہنچا ہے ویسے بھی صوفی سلسلوں کو اپنی مشہوری کے لئے اس طرح کے لوازمات کی ضرورت رہتی ہے -

واضح رہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا لعاب دھن ، پسینہ ، بال سب متبرک تھے لیکن ان کے نعل کی شبیہہ بنانا کہاں کی دینداری ہے؟

حدیث میں علی رضی الله عنہ کو "خَاصِفُ النَّعْلِ" یعنی (نبی صلی الله علیہ وسلم کے) جوتے سینے والا کہا گیا ہے لیکن کیا علی رضی الله عنہ نے نعل کی شبیہہ یا عکس کو بنایا یا گلے میں لٹکایا؟ صحیح بخاری میں عبداﷲ بن مسعود رضی الله تعالی عنہ کے مناقب میں ان کی پہچان ہی "صاحب النعلین والوسادۃ والمطہرہ" لکھی ہے (بخاری ، کتاب المناقب) لیکن کیا صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم نے اس کے عکس کو کندہ کروایا؟

تاریخ کے مطابق نعل شریف کا پہلا ذکر خلیفہ المہدی کے حوالے سے ملتا ہے جس نے نعلین کو مصلحت کے تحت خریدا - ابن کثیر نے امیرالمومنین محمد المہدی کے مناقب بیان کرتے ہوئے تاریخ ابن کثیر میں لکھا ہے کہ:

وَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ يَوْمًا وَمَعَهُ نَعْلٌ فَقَالَ: هَذِهِ نعل رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَهْدَيْتُهَا لَكَ. فَقَالَ: هَاتِهَا، فَنَاوَلَهُ إِيَّاهَا، فَقَبَّلَهَا وَوَضَعَهَا عَلَى عَيْنَيْهِ وَأَمَرَ لَهُ بِعَشَرَةِ الْآفِ دِرْهَمٍ. فَلَمَّا انْصَرَفَ الرَّجُلُ قَالَ الْمَهْدِيُّ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرَ هَذِهِ النَّعْلَ، فَضْلًا عَنْ أَنْ يَلْبَسَهَا، وَلَكِنْ لَوْ رَدَدْتُهُ لذهب يقول للناس: أهديت إليه نعل رسول الله صلى الله عليه وسلم فردها على، فتصدقه النَّاسِ


ترجمہ : اور ایک روز ایک شخص اس (خلیفہ المہدی) کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک جوتا تھا وہ کہنے لگا یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جوتا ہے میں آپکو یہ ہدیتہً دیتا ہوں ، اس (خلیفہ المہدی) نے کہا لاؤ ، اس (شخص) نے جوتا اسے(خلیفہ المہدی کو) پکڑا دیا تو اس (خلیفہ المہدی) نے اسے بوسہ دیا اور اسے اپنی آنکھوں پر رکھا اور اسے دس ہزار درہم دینے کا حکم دیا اور جب وہ شخص واپس چلا گیا تو مہدی نے کہا خدا کی قسم مجھے اچھی طرح علم ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس جوتے کو پہنا تو کجا ، اسے دیکھا بھی نہیں ، لیکن اگر میں اسے واپس کر دیتا تو وہ جا کر لوگوں سے کہتا کہ میں نے اسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جوتا ہدیتہً دیا اور اس نے مجھے واپس کر دیا تو لوگ اسے سچا قرار دیں گے -

(تاریخ ابن کثیر / البدایہ والنہایہ ، جلد ١٠ ، صفحہ ١٨٩)


naliyan mubarak.jpg


المہدی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جوتی اتنی اچھی حالت میں کیسے ہو سکتی ہے کہ گویا نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کو کبھی دیکھا ہی نہ ہو گا - عرف عام میں ایسی چیزوں کو جعل سازی کہتے ہیں - لیکن صرف مصلحتاً اسے جعل ساز سے خریدا -

ابن کثیرمزید لکھتے ہیں

قُلْتُ: وَاشْتُهِرَ فِي حُدُودِ سَنَةِ سِتِّمِائَةٍ وَمَا بَعْدَهَا عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ التُّجَّارِ يُقَالُ لَهُ: ابْنُ أَبِي الْحَدْرَدِ، نَعْلٌ مُفْرَدَةٌ ذَكَرَ أَنَّهَا نَعْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَامَهَا الْمَلِكُ الْأَشْرَفُ مُوسَى بْنُ الْمَلِكِ الْعَادِلِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَيُّوبَ مِنْهُ بِمَالٍ جَزِيلٍ فَأَبَى أَنْ يَبِيعَهَا، فَاتَّفَقَ مَوْتُهُ بَعْدَ حِينٍ، فَصَارَتْ إِلَى الْمَلِكِ الْأَشْرَفِ الْمَذْكُورِ

ترجمہ : میں کہتا ہوں سن ٦٠٠ کی حدود میں اور اس کے بعد تاجروں میں سے ایک شخص جس کو ابن ابی الحدرد کہا جاتا تھا مشہور ہوا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی ایک جوتی اس کے پاس ہے الملک الاشرف موسی بن الملک العادل ابی بکر بن ایوب نے اس پر زور ڈالا کہ ایک کثیر رقم کے بدلے اس کو خرید لے لیکن وہ اس سے مانع ہوا اور اس تاجر کی موت کے بعد یہ الملک الاشرف کو ملی جس نے اس کو لیا اور اس کی تکریم کی پس جب دار الحدیث الاشرفیہ قلعہ کی جانب بنا تو اس جوتی کو اس کے خزانے میں سے بنا دیا اور اس پر خادم مقرر کیا اور اس کے لئے فی مہینہ چالیس درہم مقرر کیے اور یہ ابھی بھی اس جگہ موجود ہے - (تاریخ ابن کثیر / البدایہ والنہایہ ، جلد ٦ ، صفحہ ٧ ، دار الفکر)

اليونينی (المتوفى: ٧٢٦ ھ) کتاب ذيل مرآة الزمان میں لکھتے ہیں کہ ملک الاشرف نے تیس ہزار درہم کے بدلے میں اس جوتی کو ابن ابی الحديد سے حاصل کیا اور

أن صاحبه ابن أبي الحديد كان يسافر به إلى الملوك فيعطوه الأموال
ترجمہ : اس کے صاحب ابن ابی الحدید اس جوتی کو بادشاہوں کو دکھانے کے لئے سفر کرتے اور وہ ان کو مال دیتے - (ذيل مرآة الزمان ، )

ذہبی تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں

وكان معه فَرْدَةُ نَعْلِ النبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَرِثَهُ عن آبائه ، والأمرُ معروف فيه ، فإنَّ الحافظ ابن السَّمْعاني ، ذكر : أنَّه رأى هذا النَّعْل لَمّا قَدِمَ دمشق عند الشيخ عبد الرحمن بن أبي الحديد ، في سَنَةِ ستٍّ وثلاثين وخمس مائة. وكان الأشرف يُقَرِّبُهُ لأَجله. ويُؤثِرُ أن يشتريَه منه ، ويفقه في مكان يُزَار فيه.........وأقرَّه بدارِ الحديث بدمشق

ترجمہ : بے شک حافظ ابن السمعانی نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس جوتی کو سن ٥٣٦ ھ میں دیکھا جب وہ شیخ عبد الرحمان بن ابی الحددید کے ساتھ دمشق پہنچی اور اشرفیہ اس جوتی کی وجہ سے ان کے پاس جاتی اور ان پر اس کو بیچنے کے لئے اثر انداز ہوتی اور انہوں نے ایک مکان اس کی زیارت کے لئے وقف کر دیا.........یہاں تک کہ یہ جوتی دار الحدیث دمشق پہنچی - (تاریخ السلام ، الطبقہ الرابعہ والستون ، سنہ خمس وثلاثين وست مائتہ ، حرف الالف)

کہا جاتا ہے اس جوتی کو مدرسہ دماغیہ دمشق منتقل کر دیا گیا تھا - ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس کو ترکوں نے استنبول منتقل کر دیا تھا لیکن لبنانی محقق جبریل فواد الحداد نے اپنی تحقیق دار الحدیث الاشرافیہ میں لکھا ہے کہ یہ جوتی ایک لکڑی کے ڈبے میں رکھی گئی اس کو محراب کے اوپر استوار کیا گیا لیکن ٨ ہجری میں تاتاریوں کے حملے میں دار الحدیث جل گیا اور اس کے ساتھ یہ جوتی بھی ضائع ہو گئی

ابوالعباس احمد ابن محمد ابن احمد ابن یحیی القرشی التلمسانی ( ١٠٤١ ھ ) نے کتاب فتح المتعال في مدح النعال میں نعل شریف کے باقاعدہ نقش بنائے اور آج تک وہی نقش مختلف انداز میں موجود ہیں.

ابوالعباس احمد ابن محمد ابن احمد ابن یحیی القرشی التلمسانی ( ١٠٤١ ھ ) نے کتاب فتح المتعال فی مدح النعال میں نعل کے بارے میں لکھا ہے کہ:

یہ جس لشکر میں ہو ، اس کو کبھی شکست نہ ہو جس قافلے میں ہو وہ قافلہ لوٹ مار سے محفوظ رہے جس گھر میں ہو وہ گھر جلنے سے محفوظ رہے گا جس سامان میں ہو وہ چوری ہونے سے محفوظ رہے گا - جس کشتی میں ہو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی جو کوئی صاحب نقش نعل سے کسی حاجت میں توسط کرے وہ حاجت پوری ہو اور ہر مشکل آسان ہو -

لیکن افسوس اس کی شبیہہ ہونے کے باوجود مسلم علاقوں کی تباہ حالی سب کے سامنے ہے

نعلین کے حوالے سے غلو کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ:
موسی علیہ السلام جب طوٰی کی مقدس وادی میں تشریف لے گئے تو سورۃ طہ کی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا

إِنِّي أَنَا رَ‌بُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
میں ہی تیرا رب ہوں، جوتیاں اتار دے تو وادی مقدس طویٰ میں ہے - (سورة طه:١٢)

اس کے برعکس نبی صلی الله علیہ وسلم جب معراج پر عرش تک گئے تو ان کے بارے میں یہ نہیں ملتا کہ کسی مقام پر ان کے نعلین اتروائے گئے ہوں اس کو دلیل بناتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یقیناً یہ نعلین بہت مبارک ہیں اور ان کی شبیہ بنانا جائز ہے حالانکہ صحیحن کے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم سدرہ المنتہی تک ہی گئے اس سے آگے نہیں اور یہ تو کسی حدیث میں نہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم عرش تک گئے -

ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے نبی صلی الله علیہ وسلم جب سدرہ المنتہی سے آگے بڑھے تو جبریل علیہ السلام نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آگے جائیے ہماریے تو پر جلتے ہیں -

ان الفاظ کو فصوص الحکم میں ابن عربی نے نقل کیا ہے اور شیعوں کی کتاب بحار الانوار از ملا باقر مجلسی (المتوفی ١١١١ ھ) میں بھی یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں - معلوم یہی ہوتا ہے کہ شیعوں نے اس کو ابن عربی سے نقل کیا اور نام نہاد سنی مفسرین نے اس کو تفسیروں میں لکھا -

یہ واقعہ بھی کسی صوفی کا مکاشفہ ہے نہ کہ صحیح سند سے آنے والی کوئی روایت

لہذا یہ دعوی کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم سدرة المنتہی سے آگے عرش تک گئے اور ان کے نعلین نے نعوذباللہ عرش عظیم کو مس کیا سراسر بے سروپا بات ہے
 
Top