• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تاریخ ِحدیث

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تاریخ ِحدیث

حدیث کی تاریخ جاننے کے لئے سند کا مطالعہ ہی کافی ہے جو رسول اکرم ﷺ سے لے کر تیسری صدی ہجری تک کے سندی، متنی حالات اور علمی حلقوں سے آشنا کرادے گا۔ مثلاً: یہ حدیث:
حَدَّثَنَا أبُو کُرَیْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : لَوْ لاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِیْ ، لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلاَۃٍ۔
قَالَ أَبُو عِیْسٰی: وَقَدْ رَوَی ہٰذَا الْحَدِیْثَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیْمَ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ النَّبِیِّﷺ۔
وَحَدِیْثُ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ، وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ کِلاَہُمَا عِنْدِیْ صَحِیْحٌ، لِأَنَّہُ قَدْ رُوِیَ مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ، عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺہَذَا الْحَدِیْثُ، وَحَدِیْثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ إِنَّمَا صَحَّ لِأَنَّہُ قَدْ رُوِیَ مِنْ غَیْرِ وَجْہٍ۔

پہلی حدیث کے راوی :
ابو کریب: محمد بن العلاء بن کریب ہمدانی کوفی، اپنی کنیت سے پہچانے جاتے ہیں۔امام ترمذیؒ کے استاذ ہیں۔ثقہ اور حافظ حدیث تھے۔ دسویں طبقہ سے ان کا تعلق تھا۔ ائمہ ستہ نے ان سے روایت کیا ہے۔۲۴۸ھ میں فوت ہوئے۔سر میں خشکی ہوئی تو طبیب نے کہا کہ اسے دور کرنے کے لئے فالودہ سر پہ رکھا جائے۔فالودہ لیتے جاتے اور کھاتے جاتے اور کہتے: میرا پیٹ اس کا زیادہ مستحق ہے بہ نسبت سر کے۔

عبدۃ بن سلیمان، الکلابی، ابومحمد کوفی۔ ان کا نام عبد الرحمن ہے اور کنیت عبدۃ۔انہوں نے محمد بن عمرو بن علقمۃ سے روایت کی اور ان سے ابو کریب محمد بن العلاء نے۔ ثقہ اور ثبت تھے۔ ان کا تعلق صغار ثامنہ سے ہے۔ سن ۱۸۷ھ میں کوفہ میں ان کا انتقال ہوا جب ہارون الرشید کی خلافت تھی۔

محمد بن عمرو بن علقمۃ بن وقاص، ابو الحسن مدنی، انہوں نے ابوسلمۃ بن عبد الرحمان بن عوف سے روایت کی۔ اور ان سے عبدۃ بن سلیمان نے۔طبقہ سادسہ سے ان کا تعلق تھا۔سن ۱۴۴ھ میں ان کا انتقال ہوا۔صدوق تھے اور ان کے اوہام بھی ہیں۔

ابو سلمۃ بن عبد الرحمن بن عوف الزہری مدنی، ان کانام اور کنیت ایک ہی ہے۔ کنیت ہی نام بن گئی۔ انتہائی ثقہ تھے اور مُکْثِر بھی۔سن ۹۴ھ میں یا ۱۰۴ھ میں ان کا انتقال ہوا۔طبقہ ثالثہ سے ان کا تعلق تھا۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔اور ان سے محمد بن عمرو بن علقمہ نے کی۔

ابوہریرۃ: صحابی ٔ رسول ہیں۔

آپ غور کریں تو:

٭…سندہی تاریخ روایت حدیث ہے۔ مثلاً اس میں راویوں کے نام ہیں۔ نسب ہیں۔ نسبت ہے۔ لقب اور کنیت ہے۔سن جائے پیدائش ووفات تک متعین ہے۔ شخصیت کا مکمل تعارف ہے۔تاکہ کسی اور نام ولقب سے اشتباہ نہ ہو۔اس کے شیوخ کون کون ہیں۔ کہاں وہ سکونت پذیر تھے اور شاگرد کہاں۔ رحلہ کن شہروں کا کیا؟تاکہ یہ ثبوت ہو کہ جس سے حدیث سنی ہے اسی کے زمانہ کا ہے اور اس سے ملاقات ممکن ہے۔ہر سندحدیث میں یہ سب اہم معلومات ہیں جو اوپر تک فراہم کرنا ضروری ہیں۔

٭…سند میں طبقات ہیں۔یعنی طبقہ صحابہ، طبقہ تابعین اور طبقہ تبع تابعین وغیرہ۔یہ کوئی مفروضہ شخصیتیں نہیں۔ہر طبقہ ہر راوی کا زمانہ، علم اور روایت حدیث میں اس کامقام ومرتبہ۔۔ثقاہت وضعف۔۔ وغیرہ کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ اپنے معاصرین میں کس مرتبہ علم کا ہے۔ اس کی تحریری اور زبانی روایت منتقل ہوئی اور جمع ہوئی ہے۔یہ بھی تاریخ وار ثبوت ہے۔

٭…ہر راوی نے اپنے شیخ سے حدیث کیسے اخذ کی؟ اسے تحمل حدیث کہتے ہیں۔اس طریقہ تعلیم میں استاد اور شاگرد کے طریقہ تعلیم اور طریقہ اخذ حدیث دونوں کو جانا جاتا ہے۔حَدَّثَنَا اور حَدَّثَنِیْ، أَخْبَرَنِیْ اور أَخْبَرَنَا یا أَنْبَأَنِیْ اور أَنْبَأَنَا وغیرہ کے صریح الفاظ حدیث روایت کرنے اور حاصل کرنے کے تھے۔ اور عَنْ عَنْ جیسے مبہم الفاظ ہر محدث کو راوی کے حفظ وثقاہت پر غور وخوض کا موقع عطا کرتے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ ڈانڈے اوپر تک صحیح مل جارہے ہیں یا نہیں؟ پھر اپنی قابلیت وحافظے کے بل بوتے پر شیخ محترم سے اجازت حدیث(سرٹیفیکیٹ زبانی یا تحریری) لینا بعد ازاں انہی شنیدہ ومکتوبہ احادیث کو آگے صرف اپنے لائق شاگردوں کو پڑھانا۔ یہ سب ادارہ یا یونیورسٹی میں گریجویشن کی طرز کا بندوبست تھا جوعلماء حدیث کے ہاں پہلے سے ہی عام رائج تھا۔

٭… غور کریں تو سندمیں سَمِعْتُ کے الفاظ شیخ کے حافظے اور حَدَّثَنَا اور أَخْبَرَنَا کا استعمال حدیث کی مکتوب صورت کو ظاہر کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حدیث رسول کی روایت زبانی بھی ہوئی اور تحریری بھی۔ان الفاظ کا یہ استعمال امام مالک ؒ سے قبل کا ہے جو بتدریج بڑھتا اور پھیلتا چلاگیا ہے۔اور راوی کے اخلاق اور سامع کے آداب میں مزید نکھار بھی آتا گیا ہے۔

٭…امام ترمذی رحمہ اللہ ایک مروی حدیث کے بعد اس کے مزیدثبوت کسی اور روایت سے پیش کرتے چلے جاتے ہیں نیز ایک روایت جب دوسری روایت کی تائید کرے اور اسے تقویت دے یہ سب شہادتیں اور دلائل ہیں کہ حدیث بہر حال تحقیق ونقد کے مراحل (خواہ وہ تحریری ہوں یا زبانی)سے گذر کر صحیح یا ضعیف ثابت ہوئی ہے۔اس لئے ہر دور کی حدیثی روایات ، ان کی تحریر نیز مختلف نسخے بہت حد تک طلبہ کو میسر تھے۔ اور ہر روایت کے ہر راوی کے بارے میں معلومات بھی ثقہ علماء وطلباء کو حاصل تھیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اٹھارہ سال کی عمر میں التاریخ الکبیر لکھی اور یہ بھی فرمایا: شایداس میں مذکور کوئی ایسا راوی نہیں جس کا کوئی نہ کوئی قصۂ زندگی میرے علم میں نہ ہو مگر اختصار کے لئے میں نے ان کا ذکر نہیں کیا۔

مختلف اسانید سے مروی متن حدیث کو بھی محدثین نے اسی طرح کھنگالا اور معمولی سے فرق کو بھی واضح کیا اور لکھا۔ان کی حدود قائم کیں تاکہ قبولیت متن اور اس کے رد میں اعتدال ہو۔ نیز اس فرق کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے اعتدالیوں کی اصطلاحات بھی متعارف کرائیں۔ یہ سب تاریخ باور کراتی ہے کہ حفاظت حدیث رسول بخوبی کی گئی اور اہل علم نے کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قابل عمل احادیث کون سی ہیں

ان تاریخی معلومات کی فراہمی کے بعد ہی محدثین یہ ناقدانہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے تاکہ قبول کی جائے ۔ یا ضعیف کہ اسے رد کردیا جائے۔کیونکہ ذخیرہ ٔحدیث میں ضعیف، مرسل اور موضوع احادیث بھی بہت ہیں۔ ان میں جب مختلف نوعیت کی خامیاں نظر آئیں تو انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لئے یہ اصطلاحات وضع کی گئیں جو ہر روایت اور ہرراوی پر نقد ونظر کا حاصل ہے۔ انہی سے صحیح وضعیف میں امتیاز قائم کرنا ممکن ہوا۔ بلاشبہ یہ ایک ایسی کوشش ہے جس نے قابل عمل احادیث کو نمایاں کردیا۔ جو محدث، فقیہ اور مفسر کے کام آگئیں۔ا مت کا تعامل، عرف مصالح مرسلہ بھی اسی کے مرہون منت اور اسی سے محقق ہوں گے۔اکثریت یا سواد اعظم کا ہونا اس کے حق ہونے کی دلیل نہیں۔اصول یہی بنایا:

…سب سے پہلے عمل، استنباط، تفسیر وفقہ کے لئے اس حدیث کو اختیار کیا جائے جو صحیح ہیں۔ صحیح حدیث کے لئے تواتر یا خبر واحد کی بھی کوئی قید نہیں۔صحیح حدیث کے بھی درجات ہیں۔ صحیح حدیث ہی سب سے بڑی حجت ہے۔

… اگر صحیح حدیث نہ ہو تو پھر حسن حدیث پر عمل کیا جائے گا۔

…اس حدیث کے مقابل اگرایک صحابی کا کوئی اثر یا کسی تابعی یا تبع تابعی کا کوئی قول وعمل یا فتوی بھی مل جائے تو قاعدہ یہی ہے کہ ان سب پر حدیث رسول کو ہی ترجیح دی جائے۔اوراسے ہی قابل عمل سمجھا جائے۔ اور اگر وہ بھی نہ ہو پھر اس ضعیف پر عمل کرنا ممکن ہوگا جس کی تائید میں کچھ دوسری حسن احادیث مل جائیں۔ایسی حدیث کسی کی رائے اور قول وغیرہ سے زیادہ بہتر ہے۔ورنہ شدید ضعیف، موضوع، یا اشاری وباطنی روایت، کشف وخواب اور مراقبے وغیرہ پر عمل کرنا قطعاً جائز نہیں۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم -حقیقت، اعتراضات اور تجزیہ
 
Top