• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحریف الھدایہ

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
صاحب ہدایہ
ان کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں
العَلاَّمَةُ، عَالِمُ مَا وَرَاءَ النَّهْرِ، برْهَانُ الدِّيْنِ، أَبُو الحَسَنِ عَلِيُّ بنُ أَبِي بَكْرٍ بنِ عَبْدِ الجَلِيْلِ المَرْغِيْنَانِيُّ، الحَنَفِيُّ، صَاحِب كِتَابَي (الهدَايَة) ، وَ (البدَايَة) فِي المَذْهَب.
كَانَ فِي هَذَا الْحِين، لَمْ تَبْلُغْنَا أَخْبَاره، وَكَانَ مِنْ أَوْعِيَةِ العِلْمِ -رَحِمَهُ الله-.
سیر 21۔232 ط الرسالۃ


عبد الحی لکھنوی رح لکھتے ہیں:۔

کان اماما فقیہا حافظا محدثا مفسرا جامعا للعلوم ضابطا للفنون۔
الفوائد البہیۃ 1۔141 دار المعرفۃ


ابو محمد عبد القادر بن محمد القرشی کہتے ہیں:۔

علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني شيخ الإسلام برهان الدين المارغياني العلامة المحقق صاحب الهداية أقر له أهل مصر بالفضل والتقدم كالإمام فخر الدين قاضي خان مع الإمام زين الدين العتابي
الجواہر المضیۃ 1۔383 میر محمد کتب خانہ


یعنی ان کے علم و فضل پر کسی کو شک نہیں تھا۔ پھر اگر انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ احادیث روایت کی ہیں تو کیا ہم اسے تحریف کا نام دیں گے؟ اور اگر ہم اسے تحریف کا نام دے سکتے ہیں تو علامہ زیلعی اور حافظ ابن حجر عسقلانی کو کیا ہوا کہ وہ ان کی حدیث کو موضوع کہنے کے بجائے غریب کہتے ہیں؟
ان احادیث کا ان الفاظ میں ہونا کچھ وجوہات کی بنا پر ہے۔
اول: جیسا کہ عبد الحی لکھنوی رح نے تصریح کی ہے کہ ہر فن کے لیے مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔ یہ فقہاء تھے اور انہیں حدیث پر وہ ملکہ نہیں تھا جو محدثین کو حاصل تھا۔ اسی طرح محدثین کو فقہ پر ان جیسا ملکہ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے ان کی روایات میں اس قدر الفاظ کا فرق ملتا ہے یا دیگر روایات سے اشتباہ ہوتا ہے۔
ثانی: فقہاء عموما روایت بالمعنی کرتے تھے کیوں کہ ان کی اصل بحث معنی سے ہوتی تھی۔ اس وجہ سے بھی بہت سی احادیث کے الفاظ نہیں ملتے۔
ثالث: یہ میری ذاتی رائے ہے (اس کا سماع کسی سے ہے لیکن کس سے مجھے یاد نہیں)۔ ان فقہاء کا تعلق ساتویں صدی ہجری سے پہلے سے ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب بغداد، بخاری اور سمرقند وغیرہ علوم کے مراکز تھے۔ جس طرح دیگر علوم کی بے شمار کتب یہاں موجود تھیں اسی طرح حدیث کا بھی بڑا مجموعہ یہاں موجود تھا۔ اس زمانے میں کتابیں نقل کم کی جاتی تھیں خصوصا وہ کتابیں جو کئی کئی جلدوں میں تھیں۔ جب تاتاریوں نے حملہ کیا تو ان شہروں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ کتب خانوں کو جلا دیا۔ علامہ سیوطی رح فرماتے ہیں:۔
قال السيوطي في " مشتهى العقول في منتهى المنقول " :
منتهى الفتن الإسلامية "فتنة التتار" ببغداد:
قتلوا ألف ألف وستمئة ألف وسدوا الدجلة بالكتب، وعلقوا الصلبان على المنابر وعلى دار الخلافة، وعلقوا المصاحف الشريفة في أعناق الكلاب، وزادوا في الفساد على " شداد بن عاد" و"فرعون ذي الأوتاد"، ونزعوا الخلافة من الإسلام ، وبشَّر وحذَّر وأنذر بهذه الفتنة الرسول، وكانت في سنة (656هـ).


(میں اس کا پڑھے جانے کے قابل نسخہ حاصل نہیں کرسکا اس لیے ناسخ کی بات پر اعتماد کر رہا ہوں۔ لنک)
"کتابوں سے دجلہ دریا کو روک دیا۔"
آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ یہ کتنی کتابیں ہوں گی جو دجلہ جیسے دریا کو روک دیں۔ اور اسلامی حکومت کے مرکز میں یہ کون سی کتابیں ہوں گی۔ مشہور ہے کہ دجلہ کا پانی کئی دن تک ان کتابوں کی سیاہی سے رنگین آتا رہا تھا۔
تو جہاں دیگر چیزیں تباہ ہوئیں وہیں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مجموعہ بھی ضائع ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقیہ، عالم اور محقق کے نام سے معروف فقہاء کی بہت سی احادیث ہمیں کتب احادیث میں نہیں ملتیں حالاں کہ ان فقہاء پر کسی نے وضع حدیث کا الزام نہیں لگایا ہوتا۔
واللہ اعلم
 
Top