• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحقیق البانی رحمۃ اللہ علیہ۔۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
کسی جگہ آپ کے ایک دوست کہہ رہے ہیں کہ سب سے پہلے امام ابو حنیفہ نے فقہ مرتب کی ، تو کیا امام صاحب سے اگلے حضرات اس تقاضا سے غافل تھے ، انہوں نے عوام کی اس دینی ضرورت کا احساس نہیں کیا ، اور امام ابو حنیفہ کو اس ضرورت کا سب سے زیادہ احساس ہوا ؟
محترم! صحابہ کرام کے دور میں اس کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ وہ براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ احادیث کو مدون کرنے سے پہلے فقہ کو مدون کیا گیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سبحان اللہ!یہ ہے فقاہت کا معیار !حضرت عربی میں تو ہردوسرے دن عبادات پر ایک نئی کتاب شائع ہورہی ہے،توسبھی کو ہم فقیہہ تسلیم کرلیں، عبدالرحمن الجزائری نے الفقہ علی المذاہب الاربعہ لکھی، ان کو سب سے بڑافقیہہ مان لیں؟خضرحیات صاحب ان کتابوں کے بجائے ان کتابوں سے کچھ اقتباسات فراہم کردیں جن سےان کی فقاہت پر روشنی پڑتی تو کتنی اچھی بات ہوگی لیکن شاید ہی وہ ایساکریں کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے آپ کو منوانا نہیں کہ آپ بھی شیخ کو ’’ فقیہ ‘‘ کہیں ، مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ لوگ جس طرح ان کی خدمت حدیث سے مستفید ہوتے ہیں ، ان کی فقہی خدمات سے بھی مستفید ہوتے ہیں ۔ آپ کی ’’ فقاہت ‘‘ کے معیار کو لیا جائے پھر تو البانی کیا جزیری ( جزائری نہیں ) سمیت پتہ نہیں کتنے ائمہ اعلام اس درجے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔
یعنی ابھی رائے پختہ نہیں ہوئی ہے، پختہ ہونے کی جانب گامزن ہے،میں کئی نام فراہم کرسکتاہوں،میں کوئی نام نہاد اہل حدیث ہوں کہ اس طرح کی حرکت کرتارہوں،یہ توآپ حضرات کا شعار وشمار ہے کہ جب چاہانام بدلا،جب چاہاتحویل قبلہ کرلیا۔
حوالہ اگر دینا ہے ، تو پیش فرمادیں ، بار بار طلب کرنے پر ’’ میں کرسکتا ہوں ‘‘ یہ دھمکی ہے یا حوالہ ؟
اور پھر حوالے کے ساتھ ہی نام بدلنے والا چکر آپ نے شروع کیا ہے ، کرلیں شوق پورا ، پہلے بھی یہاں بہروپیے ظاہر ہی نہیں بلکہ بدنام ہوئے ہیں ، اور ابھی تک کچھ حوالوں کو بطور اچار استعمال کر رہے ہیں ۔
اپنے حلقہ سے باہر کے افراد پر بھی توجہ دینے کی عادت ڈال لیجئے ،اپنی ہی حلقہ میں ہائو ہوکر کے اورخود کو محدث العصر کا لقب لے دے کر خوش ہونے کے بجائے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسرے کیاکہہ رہے ہیں،غلطیوں سے مبراکوئی نہیں ہے لیکن اپنی لیاقت کاجائزہ لے کر اپنے کام کا دائرہ طے کرنا بھی بہت اہم ہوتاہے۔
لگتا ہے ، خود سے ہمکلام ہیں ۔ نصیحت اچھی ہے اگرچہ بحث سے کوئی تعلق نہیں ۔
یہ بھی آپ نے عقل سے عاری بات کہی ہے، میں نے کبھی کہاہے کہ شاہد نذیر یہ فرمارہے ہیں توآپ کا دوسراموقف کیاہے، کفایت اللہ صاحب یہ کہہ رہے ہیں اورآپ یہ فرمارہے ہیں، فلاں صاحب حجاج بن یوسف کورحمتہ اللہ لکھ رہے ہیں اورآپ یہ کہہ رہے ہیں اس طرح کی عقل سے پیدل باتوں کی ضرورت کیاہے؟میری بات آپ سے ہورہی ہے توآپ مجھ سے بات کیجئے۔
جب آپ نے عقل سے عاری بات کی ، اس کے مقابلے میں ہم نے ایک اور عقل سے عاری بات پیش کردی ، تاکہ واضح ہوسکے کہ علمی میدان میں عقلی گھوڑے دوڑانے سے ٹکر بھی ہوسکتی ہے ۔ ہاں یہ میرا قصور ضرور ہے کہ آپ کی سطح کی بات میں اپنی طرف سے نہیں بنا سکا ، بلکہ آپ کے ایک دوست سے مدد لینا پڑی ، اور نسبۃ الفضل إلی أہلہ کا خیال رکھتے ہوئے محتاط انداز میں اس کی نسبت بھی کردی ۔
آپ کسی خاص طرز اورفن کا شاید فرق نہیں سمجھتے، اصول حدیث پراحناف نے اصول فقہ کے ذیل میں اور مستقلادونوں طرح کی کتابیں لکھیں ہیں،نہیں معلوم تو کسی بھی اصول فقہ کی کتاب میں حدیث کے مبحث کا مطالعہ فرمائیں۔
جی اگر آپ اس طرح کی کاوشوں کو ہضم کر سکتے ہیں ت تو البانی کے معاملے میں بھی ذرا رعایت رکھیں ، انہوں نے بھی تصحیح و تضعیف کے ماقبل علماء کے بیان کردہ اصولوں پر ہی انحصار کیا ہے ، اپنی طرف سے کچھ نیا نہیں گھڑ لیا ، کیا اصول تصحیح و تضعیف پہلے نہیں تھے کیا ؟ یا علماء ان کو احادیث پر لاگو نہیں کیا کرتے تھے ؟ یا علماء نے اپنے سے ماقبل علماء کی کتابوں کو اپنے علمی و فنی ذوق کے مطابق ترتیب نہیں دیا ؟
جبکہ آپ کے بزرگ کے ہاں تو صراحت ہے کہ یہ کتاب اس لیے لکھی جاری ہے کہ محدثین کے اصول حدیث اور حنفیوں کے اصول حدیث کی آپس میں بنتی نہیں ، لہذا ہم اپنے اصول مرتب کریں گے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم! صحابہ کرام کے دور میں اس کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ وہ براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔
یہ بھی ٹھیک ہے ، فقہ مرتب ہونے کے بعد بھی کئی لوگوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی ، جیساکہ پہلے نہیں تھی ،لہذا آپ کو بھی حق ہے کہ آپ البانی صاحب کے ’’ غیر ضروری ‘‘ کام کی طرف توجہ نہ دیں ۔
جن کو فقہ میں فائدہ نظر آیا ، انہوں نے اٹھالیا ، جنہیں البانی کی کتابیں فائدہ مند لگیں ، وہ ان سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ احادیث کو مدون کرنے سے پہلے فقہ کو مدون کیا گیا۔
آپ کی مزعومہ فقہ کی تدوین ہی ہمارے نزدیک محل نظر ہے ، اب آپ اس کا احادیث کی تدوین سے مقارنہ کر رہے ہیں ، اور اوپر سے یہ کمال کہ احادیث بعد میں اور فقہ پہلے ۔۔۔ آخری بات پر ہم گفتگو کرنا چاہتے ہے لیکن چونکہ موضوع غیر متعلق ہے ، کہیں شروع کرلیجیے گا ۔ حصہ لیں گے إن شاءاللہ ۔
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یہ بھی ٹھیک ہے ، فقہ مرتب ہونے کے بعد بھی کئی لوگوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی ، جیساکہ پہلے نہیں تھی ،لہذا آپ کو بھی حق ہے کہ آپ البانی صاحب کے ’’ غیر ضروری ‘‘ کام کی طرف توجہ نہ دیں ۔
محترم! صحابہ کرام کا اس مرتب نہ کرنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ براہِ راست شارحِ قرآن سے استفادہ فرما لیتے تھے۔ فقہ مرتب ہونے کے بعد اس کی ضرورت نہ سمجھنے کا قرینہ سمجھ سے بالا ہے۔

آپ کی مزعومہ فقہ کی تدوین ہی ہمارے نزدیک محل نظر ہے
یہی بات ذرا وضاہت سے فرما دیں۔ شکریہ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
خضرحیات صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے تمام مقدمات سباب وشتام پر مشتمل نہیں ہیں اوریکے بعد دیگر کتابوں کی فہرست پیش کرتے ہیں، ان کو یاتومعلوم نہیں یاپھر وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں کہ البانی کی کتابوں کے متعدد ایڈیشن ہیں،اگرایک میں کچھ نہیں کہاتویہ ضروری ہے کہ دوسرے تیسرے چوتھے،پانچویں اوردیگر طبعات کے مقدمہ میں بھی وہ خاموش ہیں۔جب ان سے کسی سوال کا جواب بن نہیں آتاتوفرماتے ہیں کہ میرے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں یااسی قبیل سے کچھ اور ،لیکن دوسروں کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ بس وقت ہی وقت ہے،جووہ پوچھتے جائیں دوسرے تفصیل سے بتاتے جائیں۔
میں البانی کے طرزپر شیخ محمد عوامہ کا ایک اقتباس پیش کرتاہوں،وہ لکھتےہیں
وثالث آخر :اعتاد ان یخرج علی الناس بین الحین والآخر بکتاب من تالفیہ اوتحقیقہ،ویخصص مقدمتہ للسباب والشتائم والاقذاع والوقیعۃ، لایرید ان یوجد فی الدنیا من یمسک قلماالاوھوخاضع امامہ،وارث من اقذاعہ وبذائتہ،اعشتہ غطرستہ عن ان یری غیرہ اھلالعلم او رای او فھم ۔(اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء ص12)
شیخ محمد عوامہ نے یہ کتاب البانی کے انتقال سے دوسال پہلے لکھی تھی۔امید ہے کہ البانی نے اسے دیکھاہوگالیکن اس کی تردید نہیں فرمائی، نیٹ پر شتائم الالبانی لکھ کر سرچ کیجئے، ایک بڑی فہرست سامنے آجاتی ہے البانی کی مغلظات اور سباب وشتام کے۔اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ اورنہیں کہناہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
یہ البانی کی تنقید پر لکھی گئی کچھ کتابیں ہیں،مطالعہ میں رکھیں۔انشاء اللہ افاقہ ہوگا،اوریہ بھی واضح ہوجائے گاکہ ان پر تنقید کرنے والوں کو تین زمرے میں تقسیم کرنا غلط تھایاصحیح تھا۔

(1) ”إباحة التحلي بالذهب المحلق للنساء والردّ على الألباني في تحريمه”؛ لفضيلة الشيخ: إسماعيل بن محمد الأنصاري
(2) ”إبطال التصحيح الواهن لحديث العاجن”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.
(3) ”إتمام الحاجة إلى: (صحيح: ”سنن ابن ماجه”)”؛ لعبد الله بن صالح العبيلان.
تعقّب في هذا الكتاب الأحاديث التي عزاها الألباني في: ”صحيح: (سنن ابن ماجه)” لغير ”الصحيحين”، وهي فيهما، أو في أحدهما.
(4) ”الأحاديثُ الضعيفة في: (سلسلة الأحاديث الصحيحة)”؛ لرمضان محمود عيسى.
وهو خاصٌ بنقد المجلد (الأوّل) من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة”.
وقد أشار إليه الشيخ في مقدمة المجلد (الأوّل) من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة” (ص 4) [ط. الجديدة].
(5) ”احتجاج الخائب بعبارة من ادَّعى الإجماع فهو كاذب”؛ للحسن بن علي السقاف.
(6) ”الأدلةُ الجليّة لسنة الجمعة القبلية”؛ للحسن بن علي السقاف.
(7) ”إرغامُ المبتدع الغبي بجواز التَّوسّل بالنبي في الردِّ على الألباني الوبي”؛ لعبد الله بن الصديق الغماري.
وهو الآتي باسم: ”جزءٌ فيه الرد على الألباني...”، وقد اطَّلعت على صورة لنسخةِ المصنف، فوجدت بخطه: ”جزء فيه الرد على الألباني...”، وعلى إحدى طبعات: ”إرغام المبتدع”، حاشيةٌ كتبها: الحسن بن علي السقاف .
الموضوع الأصلى من هنا: منتديات حدائق المعرفة التواتيةhttp://www.hadaik.com/vb/showthread.php?t=11818
(8) ”الإعلامُ في إيضاح ما خفي على الإمام” لفهد بن عبد الله السُّنيد
ويقصد بالإمام : الألباني والكتاب تعقبات حديثية على الألباني، مع نقولات في الرِّجال لعبد العزيز بن باز
(9) ”إعلام المبيح الخائض بتحريم القرآن على الجنب والحائض”؛ للسيد حسن ابن علي السقاف.
(10) ”الألباني شذوذه وأخطاؤه”؛ لأَرْشَدَ السلفيّ.
كذا كُتِبَ على الغلاف في الطبعة (الأولى) للكتاب، وهو اسم مستعار، والمؤلف الحقيقي لهذا الكتاب (كما صرَّحوا به في الطبعات اللاحقة) الشيخ: حبيب الرحمن الأعظمي، والكتاب في أربعة أجزاء، جُمِعَت بعد ذلك في كتابٍ واحدٍ.
(11) ”إقامةُ البرهان على ضعف حديث: استعينوا على إنجاح الحوائج بالكتمان. وفيه الرد على العلامة الشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ لخالد بن أحمد المؤذن.
وقد أشار إليه في مقدمة المجلد (الثاني) من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة” (ص 9 ـ 10).
(12) ”الانتصارُ لأهل التوحيد والرد على من جادل عن الطواغيت ملاحظات وردود على شريط: (الكفر كفران) للشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ لعبد المنعم مصطفى حليمة (أبي بصير).
(13) ”الانتصارُ لشيخ الإسلام محمد بن عبد الوهاب بالردِّ على مجانبة الألباني فيه الصواب”؛ لفضيلة الشيخ: إسماعيل بن محمد الأنصاري
(14) ”أنوارُ المصابيح على ظلمات الألباني في صلاة التراويح”؛ لبدر الدين حسن دياب الدمشقي.
(15) ”أينَ يضع المصلي يده في الصلاة بعد الرفع من الركوع”؛ لعبد العزيز بن عبد الله بن باز طُبِعَت هذه الرِّسالة ضمن مجموع: ”ثلاث رسائل في الصلاة”، للشيخ نفسه.
(16) ”بذلُ الجهد بتضعيف حديثي السوق والزهد”؛ لعادل بن عبد الله السعيدان.
(17) ”البشارةُ والإتحاف فيما بين ابن تيمية والألباني في العقيدة من الاختلاف”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.
(18) ”بيانُ أوهام الألباني في تحقيقه لكتاب فضل الصلاة على النبي -صلى الله عليه وسلم- للقاضي إسماعيل بن إسحاق الأزدي”؛ لأسعد سالم تَيِّم.
(19) ”بيانُ نكث الناكث المتعدي بتضعيف الحارث”؛ لعبد العزيز بن الصديق الغماري.
(20) ”تحذير العبد الأوّاه من تحريك الإصبع في الصلاة”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.
(21) ”تخريجُ حديث أوسٍ الثقفي في فضل الجمعة وبيان عِلّتِه”؛ لأسعد سالم تَيِّم.
وهو ردٌّ على تصحيح الألباني للحديث.
(22) ”تصحيحُ حديث صلاة التراويح عشرين ركعة والردّ على الألباني في تضعيفه”؛ إسماعيل بن محمد الأنصاري
(23) ”التعريفُ بأوهام من قسم (السنن) إلى صحيح وضعيف”؛ لمحمود سعيد ممدوح.
وهو كتاب كبير بلغ قسم العبادات منه (ستة) مجلدات كبيرة .
(24) ”التعقّبُ الحثيث على من طعن فيما صحَّ من الحديث”؛ للشيخ عبد الله الهَرَري الحَبَشيّ .
(25) ”تعقباتٌ على: (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة) للألباني”؛ لإسماعيل بن محمد الأنصاري
(26) ”التعقباتُ المليحة على: (السلسلة الصحيحة)”؛ للشيخ: عبد الله بن صالح العبيلان.
تعقّب في هذا الكتاب الأحاديث التي عزاها الألباني في: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة” لغير ”الصحيحين”، وهي فيهما، أو في أحدهما.
(27) ”التكميلُ لما فاتَ تخريجه من: (إرواء الغليل)”؛ للدكتور: صالح بن عبد العزيز آل الشيخ
(28) ”تناقضاتُ الألباني الواضحات فيما وقع له في تصحيح الأحاديث وتضعيفها من أخطاء وغلطات”؛ للسيد حسن بن علي السقاف.
(29) ”تنبيهُ القارئ [على] تقوية ما ضعفه الألباني”.
(30) ”تنبيهُ القارئ لتضعيف ما قواه الألباني”؛ كلاهما لعبد الله بن محمد الدويش
(31) ”تنبيهُ المسلم إلى تعدي الألباني على: (صحيح مسلم)”؛ لمحمود سعيد ممدوح.
(32) ”التنبيهاتُ على رسالة الألباني في الصلاة”؛ لحمود بن عبد الله التويجري
(33) ”تنقيح الفهوم العالية بما ثبتَ وما لمْ يثبتْ من حديث الجارية”؛ للحسن بن علي السقاف.
الموضوع الأصلى من هنا: منتديات حدائق المعرفة التواتيةhttp://www.hadaik.com/vb/showthread.php?t=11818
(34) ”جزءٌ في كيفية النهوض في الصلاة وضعف حديث العجن”؛ لبكر بن عبد الله أبو زيد
(35) ”جزءٌ فيه الردّ على الألباني وبيان بعض تدليسه وخيانته”؛ لعبد الله بن الصديق الغماري.
وقد سبق باسم: ”إرغام المبتدع الغبي”.
(36) ”حكم تارك الصلاة”؛ لعبد المنعم مصطفى حليمة (أبي بصير).
(37) ”حول مسألة تارك الصلاة”؛ لممدوح جابر عبد السلام.
كتب على غلافه:
(الرَّد العِلمي على كتاب: ”فتحٌ من العزيز الغفَّار بإثبات أنَّ تارك الصلاة ليس من الكفَّار”. ورسالة الشيخ ناصر الدين الألباني: ”حُكم تارِكِ الصَّلاةِ”).
(38) ”خطبةُ الحاجة ليست سنة في مستهل الكتب والمؤلفات”؛ للشيخ عبدالفتاح أبو غدة رَحِمَهُ اللهُ.
(39) ”رَفْعُ الْجُنَّةِ أمام: (جلباب المرأة المسلمة في الكتاب والسنة)”؛ لعبدالقادر بن حبيب الله السندي رَحِمَهُ اللهُ.
وهو ردٌ موسع على كتاب: ”جلباب المرأة المسلمة” للشيخ الألباني.
وقد التزم مؤلفه بالأدب مع الألباني رَحِمَهُ اللهُ، على عكس صنيع الألباني مع السندي، إذ تَعَرَّض له في كتابه: ”الجلباب”، و ”الرد المفحم”، وشنَّع عليه في الردِّ؛ كعادته مع مخالفيه .
(40) ”صحيح صفة صلاة النبي صلى الله عليه وآله وسلَّم”؛ للحسن بن علي السقاف
عارض به كتاب الألباني: ”صفةُ صلاة النبي -صلى الله عليه وسلم- من التكبير إلى التسليم كأنك تراها”، مع التعرض لآراء الألباني في كتابه السابق.
(41) ”الشماطيط فيما يهذي به الألباني في مقدماته من تخبطات وتخليط”؛ للحسن بن علي السقاف.
وهي ”رسالة” ردَّ بها على ما جاء في مقدمة الجزء (الأوّل) من: ”سلسلة الأحاديث الضعيفة”.
(42) ”الشهاب الحارق المنقض على إيقاف المتناقض المارق”؛ للحسن بن علي السقاف.
(43) ”عددُ صلاة التراويح”؛ للدكتور: إبراهيم الصبيحي.
(44) ”قاموس شتائم الألباني وألفاظه المنكرة في حق علماء الأمة وفضلائها وغيرهم”؛ للحسن بن علي السقاف.
(45) ”القول المبتوت في صحة صلاة الصبح بالقنوت”؛ للحسن بن علي السقاف.
(46) ”القولُ المقنع في الرد على الألباني المبتدع”؛ لعبد الله بن الصديق الغماري.
وهو ردٌّ حديثي وفقهي، لبعض ما أورده الألباني (تعليقاً) في تحقيقه لـ: ”بداية السُّول في تفضيل الرسول -صلى الله عليه وسلم-”؛ للعز بن عبد السلام رحمهُ الله.
(47) ”كلماتٌ في كشف أباطيل وافتراءات”؛ للشيخ عبد الفتاح أبو غدة رَحِمَهُ اللهُ.
(48) اللجيف الذعاف للمتلاعب بأحكام الاعتكاف”؛ للحسن بن علي السقاف.
رسالة رد بها على الألباني في قوله بـ: أنه لا يجوز الاعتكاف إلا في المساجد الثلاثة.
(49) ”المؤنقُ في إباحة تحلي النساء بالذهب المحلق وغير المحلق”؛ للشيخ: أبي عبد الله مصطفى العدوي.
(50) ”ملحوظاتٌ على كتاب: (الصلاة) للعلامة محمد ناصر الدين الألباني” لعبد الله بن مانع العتيبي
(51) ”نصرةُ: (التعقب الحثيث) على من طعن فيما صح من الحديث”؛ لعبد الله الحَبَشيّ الهَرَري.
(52) ”نظراتٌ في: (السلسلة الصحيحة) للشيخ محمد ناصر الدين الألباني”؛ للشيخ: أبي عبد الله مصطفى العدوي، وخالد بن أحمد المؤذن.
وهو دراسةٌ لـ (المائة) حديث الأولى من: ”سلسلة الأحاديث الصحيحة”
(53) ”نقدُ تعليقات الألباني على شرح الطحاوية”؛ لإسماعيل ابن محمد الأنصاري.
(54) ”وصولُ التهاني في إثبات سُنِّيَّة السُّبْحة والرَّدِّ على الألباني”؛ لمحمود سعيد ممدوح.
(55) ”وهم سيء البخت الذي حرَّم صيام السبت”؛ للحسن بن علي السقاف.
(56) ”ويلك آمن، تفنيد بعض أباطيل ناصر [الدين] الألباني”؛ لأحمد عبد الغفور عطار.
57 "تنبيه المسلم إلى تعدي الألباني على صحيح مسلم" لمحمود سعيد ممدوح وبعض الردود عليه.
والله أعلم.

اس ربط سے یہ کتابیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
http://www.hadaik.com/vb/showthread.php?t=11818
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
میں نے آپ کو منوانا نہیں کہ آپ بھی شیخ کو ’’ فقیہ ‘‘ کہیں ، مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ لوگ جس طرح ان کی خدمت حدیث سے مستفید ہوتے ہیں ، ان کی فقہی خدمات سے بھی مستفید ہوتے ہیں ۔ آپ کی ’’ فقاہت ‘‘ کے معیار کو لیا جائے پھر تو البانی کیا جزیری ( جزائری نہیں ) سمیت پتہ نہیں کتنے ائمہ اعلام اس درجے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔
آپ البانی کو فقیہہ تسلیم کرتے ہیں لیکن جب فقاہت کے کچھ نمونے طلب کئےجاتے ہیں توفرماتے ہیں کہ منوانامقصود نہیں ،توکیاہمیں آپ کو منوانامقصود ہے جو ہم سے دلیل اورثبوت کا مطالبہ کیاجارہاہے،یہ اچھاطریقہ ہے خود سے کوئی دعوی کرو،کوئی اس تعلق سے پوچھے تو جواب دے دوکہ منوانامقصود نہیں لیکن دوسرے کی بات پر دلیل اورثبوت طلب کرو۔

جی اگر آپ اس طرح کی کاوشوں کو ہضم کر سکتے ہیں ت تو البانی کے معاملے میں بھی ذرا رعایت رکھیں ، انہوں نے بھی تصحیح و تضعیف کے ماقبل علماء کے بیان کردہ اصولوں پر ہی انحصار کیا ہے ، اپنی طرف سے کچھ نیا نہیں گھڑ لیا ، کیا اصول تصحیح و تضعیف پہلے نہیں تھے کیا ؟ یا علماء ان کو احادیث پر لاگو نہیں کیا کرتے تھے ؟ یا علماء نے اپنے سے ماقبل علماء کی کتابوں کو اپنے علمی و فنی ذوق کے مطابق ترتیب نہیں دیا ؟
آپ بنیادی بات گول کرگئے، ضرورت موجود ہونے کے باوجودپہلوں نے یہ کام نہیں کیاتواب اس طرح کاکام کرناکیادعوت غوروفکر نہیں دیتا۔اگرکوئی کام ضرورت وحاجت کے باوجود متقدمین نے نہیں کیاہو،توکیاہمیں اس کام کے کرنے پر سوچنانہیں چاہئے۔
جہاں تک کتب تخریج اور زوائد کا تعلق ہے تو پھر شاید اصل اورزوائد کافرق ہی نگاہوں سے اوجھل ہے،ہرفن میں کچھ چیزیں اصل کی حیثیت رکھتی ہیں اورکچھ چیزیں زوائد کی۔اگرایک شخص صحاح ستہ کو معیار بناکر مسند احمد بن حنبل اورایک دودیگر کتابوں سے زائد احادیث کا ایک مجموعہ تیار کرتاہے یاایک شخص سابقہ مصنف کی ذکرکردہ احادیث کی تخریج کرتاہے تواس کو زوائد میںشمار کیاجائے گا یااصل فن ماناجائے گا؟؟؟؟؟؟؟؟فیاللعجب
اصل اورزوائد کی ساری بحثیں بھی ازقبیل زوائد ہی ہیں، اصل بحث یہ ہے کہ کیاالبانی میں اس عظیم کام کو انجام دینے کی مطلوبہ لیاقت تھی۔میری مراد یہ قطعانہیں ہے کہ کسی خاص سندکوضعیف اورکمزور قراردیاجائے، اتنی مطلوبہ لیاقت توالبانی میں تھی ،کسی حدیث پر کلی اورعمومی حکم کہ فلاں حدیث ضعیف ہے یافلاں حدیث صحیح ہے ،اس کی لیاقت میں صرف ہمیں نہیں علماء کی ایک معتدبہ تعداد کو شبہ ہے۔
وماتوفیقی الاباللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضرحیات صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے تمام مقدمات سباب وشتام پر مشتمل نہیں ہیں اوریکے بعد دیگر کتابوں کی فہرست پیش کرتے ہیں، ان کو یاتومعلوم نہیں یاپھر وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں کہ البانی کی کتابوں کے متعدد ایڈیشن ہیں،اگرایک میں کچھ نہیں کہاتویہ ضروری ہے کہ دوسرے تیسرے چوتھے،پانچویں اوردیگر طبعات کے مقدمہ میں بھی وہ خاموش ہیں۔جب ان سے کسی سوال کا جواب بن نہیں آتاتوفرماتے ہیں کہ میرے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں یااسی قبیل سے کچھ اور ،لیکن دوسروں کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ بس وقت ہی وقت ہے،جووہ پوچھتے جائیں دوسرے تفصیل سے بتاتے جائیں۔
بیساکھیوں پر کھڑے ہوکر بڑے بڑے دعوی کیے جائیں تو ایسے ہی ہوتا ہے ، ذرا اپنی پہلی پوسٹ دیکھیں ، جس میں آپ نے صراحتا کہا کہ البانی کی کوئی کتاب آپ کو اس طرز عمل سے خالی نہیں ملے گی ، حوالے پیش کرنے سے میرا مقصد آپ کی نام نہاد تحقیق کا پول کھولنا تھا ، تاکہ عام قاری دھوکے میں نہ رہے کہ جناب البانی کو مکمل پڑھنے کے لیے بعد یہ کلام فرمارہے ہیں ۔
وثالث آخر :اعتاد ان یخرج علی الناس بین الحین والآخر بکتاب من تالفیہ اوتحقیقہ،ویخصص مقدمتہ للسباب والشتائم والاقذاع والوقیعۃ، لایرید ان یوجد فی الدنیا من یمسک قلماالاوھوخاضع امامہ،وارث من اقذاعہ وبذائتہ،اعشتہ غطرستہ عن ان یری غیرہ اھلالعلم او رای او فھم ۔(اثرالحدیث الشریف فی اختلاف الفقہاء ص12)
شیخ محمد عوامہ نے یہ کتاب البانی کے انتقال سے دوسال پہلے لکھی تھی۔امید ہے کہ البانی نے اسے دیکھاہوگالیکن اس کی تردید نہیں فرمائی، نیٹ پر شتائم الالبانی لکھ کر سرچ کیجئے، ایک بڑی فہرست سامنے آجاتی ہے البانی کی مغلظات اور سباب وشتام کے۔اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ اورنہیں کہناہے۔
وہ کیا کہتے ہیں کہ بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی ، اچھا ہوا آپ نے اپنی بیساکھی کا اظہار کیا اور شیخ عوامہ کا حوالہ ، اور ساتھ کتاب کا نام بھی سامنے آیا ، بھلا اثر الحدث الشریف فی اختلاف الفقہاء میں البانی کا کیا قصور نکل آیا ؟
اگر شیخ عوامہ کی یہ تنقید بر محل ہے ، تو البانی کی اپنی مختلف کتابوں میں تنقید کیوں ناگوار گزرتی ہے ؟
اور عوامہ تو وہ ہیں جنہوں نے کتب حدیث کے عزت و احترام کو مسلک کے دفاع پر قربان کردیا ، لیکن خود دوسروں کے اپنی کتابوں کے لکھے مقدمات بھی عیب بنادیے گئے ۔
آپ البانی کو فقیہہ تسلیم کرتے ہیں لیکن جب فقاہت کے کچھ نمونے طلب کئےجاتے ہیں توفرماتے ہیں کہ منوانامقصود نہیں ،توکیاہمیں آپ کو منوانامقصود ہے جو ہم سے دلیل اورثبوت کا مطالبہ کیاجارہاہے،یہ اچھاطریقہ ہے خود سے کوئی دعوی کرو،کوئی اس تعلق سے پوچھے تو جواب دے دوکہ منوانامقصود نہیں لیکن دوسرے کی بات پر دلیل اورثبوت طلب کرو۔
انہوں نے فقہی موضوعات پر لکھا ہے ، آپ ان کی فقاہت پر نقد کریں ، اور ثابت کریں کہ فقہ البانی کا میدان نہیں تھا لیکن جان بوجھ کر اس میں قدم رکھا ، میں نے بطور حوالہ ان کی کئی کتابیں پیش کردیں ، اور معتبر موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پیش کیں ، جن کو امت کے اک معتدبہ حصے نے تسلیم کیا ، عربی سے دیگر زبانوں میں تراجم ہوئے ، ان سب قرائن کی موجودگی میں ہم ضرورت نہیں سمجھتے کہ آپ کو نمونے پیش کیے جائیں ۔
آپ کی تعلی و تکبر کا تو یہ حال ہے ، کہ ایک عالم دین کے صحیح نام تک سے آپ واقف نہیں ہیں ، لیکن اس کی فقاہت کی نفی آپ نے بڑی شان سے کردی ہے ، حالانکہ علماء نے ان کو فقیہ کے لقب سے نوازا ہے ۔
آپ بنیادی بات گول کرگئے، ضرورت موجود ہونے کے باوجودپہلوں نے یہ کام نہیں کیاتواب اس طرح کاکام کرناکیادعوت غوروفکر نہیں دیتا۔اگرکوئی کام ضرورت وحاجت کے باوجود متقدمین نے نہیں کیاہو،توکیاہمیں اس کام کے کرنے پر سوچنانہیں چاہئے۔
جہاں تک کتب تخریج اور زوائد کا تعلق ہے تو پھر شاید اصل اورزوائد کافرق ہی نگاہوں سے اوجھل ہے،ہرفن میں کچھ چیزیں اصل کی حیثیت رکھتی ہیں اورکچھ چیزیں زوائد کی۔اگرایک شخص صحاح ستہ کو معیار بناکر مسند احمد بن حنبل اورایک دودیگر کتابوں سے زائد احادیث کا ایک مجموعہ تیار کرتاہے یاایک شخص سابقہ مصنف کی ذکرکردہ احادیث کی تخریج کرتاہے تواس کو زوائد میںشمار کیاجائے گا یااصل فن ماناجائے گا؟؟؟؟؟؟؟؟فیاللعجب
یہ آپ کی خانہ ساز باتیں اور وہمی فروق ہیں ، جن کی دوسرے کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ۔ہم یہ بات پہلے ذکر کر چکے ہیں ، کہ تصحیح و تضعیف اور دیگر اعتبارات سے کتب کو اپنے علمی و فنی ذوق کے مطابق مرتب کرنا ، البانی سے صدیوں پہلے یہ کام ہوچکے تھے ۔
صل اورزوائد کی ساری بحثیں بھی ازقبیل زوائد ہی ہیں، اصل بحث یہ ہے کہ کیاالبانی میں اس عظیم کام کو انجام دینے کی مطلوبہ لیاقت تھی۔میری مراد یہ قطعانہیں ہے کہ کسی خاص سندکوضعیف اورکمزور قراردیاجائے، اتنی مطلوبہ لیاقت توالبانی میں تھی ،کسی حدیث پر کلی اورعمومی حکم کہ فلاں حدیث ضعیف ہے یافلاں حدیث صحیح ہے ،اس کی لیاقت میں صرف ہمیں نہیں علماء کی ایک معتدبہ تعداد کو شبہ ہے۔
وماتوفیقی الاباللہ
البانی میں لیاقت تھی ، صلاحیت تھی ، اور کئی معاصر اہل علم نے ان کے ان علمی کاموں کا اعتراف بھی کیا اور ان پر اعتماد بھی کر رہے ہیں ۔ رغم أنوف الحاقدین ۔
یہ البانی کی تنقید پر لکھی گئی کچھ کتابیں ہیں،مطالعہ میں رکھیں۔انشاء اللہ افاقہ ہوگا،اوریہ بھی واضح ہوجائے گاکہ ان پر تنقید کرنے والوں کو تین زمرے میں تقسیم کرنا غلط تھایاصحیح تھا۔
البانی کو فرشتہ ہم نے کبھی نہیں سمجھا تھا ، غلطیاں علماء سے ہو جاتی ہیں ، اور علماء کے ایک دوسرے پرردود و تعقبات علمی فائدہ سے خالی نہیں ہوتے ، رہے حاسدین و حاقدین تو وہ چاند کی طرف دیکھ کر جو کرسکتے ہیں ، اس سے کب باز رہیں گے ۔ پھر آپ کو البانی کا سب و شتم تو نظر آیا حالانکہ دوسری طرف آپ کی نقل کردہ فہرست میں ایک کثیر تعداد ایسی کتابوں کی ہے جن کا عنوان ہی سب و شتم سے خالی نہیں ۔ کئی کتابیں ایسی ہیں جن کا جواب خود شیخ یا ان کے تلامذہ کی طرف سے آچکا ہے ۔
رہی افاقے کی بات تو اس کی آپ کو ضرورت ہے ۔ کہ چڑھے سورج کے منکر ہورہے ہیں ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
مجھے واقعی حیرت ہے کہ اپنے ممدوح کیلئے آسانی سے ’’خدمات اوراعتراف‘‘کاپہلو نکال لیتے ہیں،اپنے ہم مسلک علماء بڑی سے بڑی دوسرے مسلک کی شخصیت کے خلاف پوری کتاب لکھیں تو وہ تنقید اور دوسرے مسلک کا شخص آپ کے ممدوح کے خلاف کچھ لکھے تو آپ کا رویہ فورا بدل جاتاہے۔رویہ اوربرتائوکے’’وجہ آخر ‘‘ک کیاوجہ ہے؟؟؟؟لیکن اس کے باوجود یہ خوش فہمی آپ کی قائم رہے گی کہ ہم مسلک پرست نہیں ہیں۔
دوسری چیز شیخ محمد عوامہ کے بارے میں جو اظہارآنجناب نے کیاہے ۔وہ آپ حضرات سے غیر متوقع قطعآ نہیں ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب کتاب وسنت پر عمل کا معیار ہی یہ ہوجائے کہ’’ہمارے ساتھ ہو تو کتاب وسنت کی سرٹیفکٹ تمہین ہروقت حاصل ہے اور اگرہمارے ساتھ نہیں تو کتاب وسنت کے مخالف ٹھہرے‘‘،تحت السرۃ کی حدیث مصنف ابن ابی شیبہ کے کئی مخطوطات میں موجود ہے۔بھلے اس سے کچھ لوگوں کو کتنی بھی جلن اورتکلیف ہو ،لیکن شیخ محمد عوامہ کا یہ اقدام لائق تعریف ہے۔

ہاں البانی بڑے شوق سے اپنی من مانی سے اورخواہش کے مطابق حدیث کو صحیح اورضعیف کہتے پھریں، اس پر کوئی گرفت نہیں اور نہ وہ مسلک پرست ہوں گے ۔

البانی کی فقاہت کے نمونے پیش کرنےمیں آپ کی مجبوری ہم سمجھتے ہیں کیونکہ ذرہ کو توآفتاب بنایاجاسکتاہے لیکن معدوم کو وجود کیسے بخشاجائے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

آپ کی تعلی و تکبر کا تو یہ حال ہے ، کہ ایک عالم دین کے صحیح نام تک سے آپ واقف نہیں ہیں ، لیکن اس کی فقاہت کی نفی آپ نے بڑی شان سے کردی ہے ، حالانکہ علماء نے ان کو فقیہ کے لقب سے نوازا ہے ۔

میراخیال ہے کہ الجزیری نام نہیں ہے نسبت ہے(ابتسامہ)کچھ اپنے تعلیات پر بھی غورکرلیں،لیکن میراخیال ہے کہ دوسروں کی تعلیات ڈھونڈنے کے بعد اتناوقت نہیں بچتاہوگا؟
اس بحث کو یہیں پر ختم کرتاہوں بقول حالی (ترمیم ک ساتھ)
’’لکھناتھا بہت ہم کو لکھتے بھی توکیاہوتا‘‘
وماتوفیقی الاباللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مجھے واقعی حیرت ہے کہ اپنے ممدوح کیلئے آسانی سے ’’خدمات اوراعتراف‘‘کاپہلو نکال لیتے ہیں،اپنے ہم مسلک علماء بڑی سے بڑی دوسرے مسلک کی شخصیت کے خلاف پوری کتاب لکھیں تو وہ تنقید اور دوسرے مسلک کا شخص آپ کے ممدوح کے خلاف کچھ لکھے تو آپ کا رویہ فورا بدل جاتاہے۔رویہ اوربرتائوکے’’وجہ آخر ‘‘ک کیاوجہ ہے؟؟؟؟لیکن اس کے باوجود یہ خوش فہمی آپ کی قائم رہے گی کہ ہم مسلک پرست نہیں ہیں۔
مذہبی تعصب اور مسلکی حمیت بعض دفعہ انسان کی کمزوری بن جاتی ہے ، گو پارسائی کے دعویدار نہیں ، لیکن اللہ کاشکر ہے ، اپنے کی غلطی کو تسلیم اور بیگانے کی خوبی کا اعتراف کرنے میں کبھی تامل نہیں ہوا ۔ اس سلسلے میں ہمارے اور آپ کے رویے میں فرق ندوی صاحب والے اور حالیہ تھریڈ کے موازنے سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔
دوسری چیز شیخ محمد عوامہ کے بارے میں جو اظہارآنجناب نے کیاہے ۔وہ آپ حضرات سے غیر متوقع قطعآ نہیں ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب کتاب وسنت پر عمل کا معیار ہی یہ ہوجائے کہ’’ہمارے ساتھ ہو تو کتاب وسنت کی سرٹیفکٹ تمہین ہروقت حاصل ہے اور اگرہمارے ساتھ نہیں تو کتاب وسنت کے مخالف ٹھہرے‘‘،تحت السرۃ کی حدیث مصنف ابن ابی شیبہ کے کئی مخطوطات میں موجود ہے۔بھلے اس سے کچھ لوگوں کو کتنی بھی جلن اورتکلیف ہو ،لیکن شیخ محمد عوامہ کا یہ اقدام لائق تعریف ہے۔
اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ، فورم پر کئی ایک جگہ اس پر بات ہو چکی ہے ۔ صرف اشارہ مقصود تھا وہ حاصل ہوا۔
ہاں البانی بڑے شوق سے اپنی من مانی سے اورخواہش کے مطابق حدیث کو صحیح اورضعیف کہتے پھریں، اس پر کوئی گرفت نہیں اور نہ وہ مسلک پرست ہوں گے ۔
البانی کی فقاہت کے نمونے پیش کرنےمیں آپ کی مجبوری ہم سمجھتے ہیں کیونکہ ذرہ کو توآفتاب بنایاجاسکتاہے لیکن معدوم کو وجود کیسے بخشاجائے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کمزور نظر کے لیے تو عینک وغیرہ کسی آلے کا انتظامیہ کیا جاسکتا ہے ، لیکن جو بینائی سے ہی محروم ہو ، اس کے لیے یہ سب کوششیں بے سود ہیں ۔
آپ کی تعلی و تکبر کا تو یہ حال ہے ، کہ ایک عالم دین کے صحیح نام تک سے آپ واقف نہیں ہیں ، لیکن اس کی فقاہت کی نفی آپ نے بڑی شان سے کردی ہے ، حالانکہ علماء نے ان کو فقیہ کے لقب سے نوازا ہے ۔
میراخیال ہے کہ الجزیری نام نہیں ہے نسبت ہے(ابتسامہ)کچھ اپنے تعلیات پر بھی غورکرلیں،لیکن میراخیال ہے کہ دوسروں کی تعلیات ڈھونڈنے کے بعد اتناوقت نہیں بچتاہوگا؟
اس بحث کو یہیں پر ختم کرتاہوں بقول حالی (ترمیم ک ساتھ)
’’لکھناتھا بہت ہم کو لکھتے بھی توکیاہوتا‘‘
وماتوفیقی الاباللہ
نام کے تحت یہ سب چیزیں آسکتی ہیں ، جزء بول کل مراد لینا ، کل بول کر جزء مراد ہونا ، اس طرح کے معاملات میں یہ گنجائش ہوتی ہے ، لیکن کوئی ایسا اصول ہماری نظر سے نہیں گزر سکا کہ کسی ’’ جزیری ‘‘ کو ’’ جزائری ‘‘ بنا دیا جائے ، خیر آپ کی جلد بازی کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا کہ آپ مصنف کےضروری کوائف سے صحیح طرح آگاہی حاصل نہیں کرسکے ، لیکن اس کے باوجود ان کے فقیہ و غیرہ فقیہ ہونے میں آپ نے فیصلہ صادر فرمادیا ، حالانکہ ایسی باتیں عموما کسی کتاب کے مطالعہ کے بعد ہی معلوم ہو پاتی ہیں ، یا آدمی کسی اہل علم کے تبصرہ و تجزیہ پر اعتماد کرتا ہے ۔
 
Top