• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز تحقیق حدیث سے متعلق سوالات و جوابات

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
”تحقیق حدیث سے متعلق سوالات و جوابات“ ایک انتہائی اہم اور معلوماتی سیکشن ہے۔ لیکن بعض دھاگوں میں کبھی کبھی ”سوال اور جواب“ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض دو افراد (سائل اور ماہر حدیث) کے مابین ایک ”ذاتی مکالمہ“ ہے۔ اور اس دھاگہ کے ذریعہ کسی تیسرے کو کوئی فائدہ پہنچانا ”مقصود“ ہی نہیں ہے (ابتسامہ)۔ اس لئے کہ سوال و جواب دونوں اتنے ”محدود“ ہوتے ہیں کہ سوال کا مقصد صرف متعلقہ ماہر حدیث ہی سمجھ رہا ہوتا ہے اور جواب بھی صرف سائل کی سمجھ میں آرہے ہوتے ہیں، کسی اور یا تمام قارئین کو ہرگز نہیں۔
  1. بلاشبہ سوال و جواب دو افراد کے مابین ہورہا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک اوپن فورم میں ہورہا ہے اور ساتھ ساتھ یہ سوال جواب ”محفوظ“ بھی ہورہا ہے، جسے بعد میں دیگر قارئین بھی پڑھتے رہیں گے (اور سمجھ نہ آنے کی صورت میں اپنا سر دھنتے رہیں گے۔ ابتسامہ)، لہٰذا سوال اور جواب دونوں اتنے صاف اور واضح ہونے چاہئےکہ ہر ذہنی اور علمی سطح کا فرد اسے پڑھ کر استفادہ کرسکے۔
  2. اکثر سوال کنندہ بوجوہ اپنے سوال کو عام فہم اندازمیں واضح نہیں کرپاتا یا ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ماہر حدیث تو بات سمجھ ہی جائیں گے۔ لہٰذا ایسے سوال کا جواب دینے سے قبل ماہر کو چاہئے کہ پہلے سوال کنندہ کا مقصد اور مدعا مختصراً بیان کرے، پھر جواب دے۔
  3. یہ ایک اردو فورم ہے، جس کے سارے قارئین عربی زبان سے واقفیت نہیں رکھتے۔ اکثر سوال میں عربی حدیث یا عربی متن لکھ کر کچھ پوچھا جاتا ہے، جس کا ماہر مختصراً جواب دے دیتے ہیں۔ ہونا یہ چاہئے کہ اگر سائل نے عربی متن کا ترجمہ نہیں لکھا تو ماہر پہلے اس کا اردو ترجمہ یا کم از کم عربی متن کا اردو خلاصہ لکھ کر سوال کنندہ کی الجھن کو واضح کریں پھر جواب دیں۔
  4. اسی طرح اکثر جوابات صرف عربی متن کی صورت میں دیا جاتا ہے جس کے آگے پیچھے ایک دو اردو جملے ہوتے ہیں کہ فلاں کی روایت یہ ہے، فلاں کی وہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہونا یہ چاہئے کہ جواب میں شامل تمام عربی متن کا اردو ترجمہ لازماً دیا جائے یا کم از کم اردو خلاصہ ہی لکھ دیا جائے۔
  5. یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی سوال میں ہی طویل مباحث موجود ہوتے ہیں ایسے سوال کا ”خلاصہ“ بھی سوال کے آخر میں ہونا چاہئے۔ اگر نہیں ہے تو جواب دینے سے پہلے ایسا کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔
  6. اسی طرح بعض اوقات جوابات میں بھی طویل مباحث ہوتے ہیں۔ بلکہ کئی مراسلوں پر مبنی مباحث۔ ایسے مباحث کے اختتام پر چند جملوں میں ”حاصل کلام“ یا ”حاصل بحث“ بھی ضرور لکھنا چاہئے۔ تاکہ جو لوگ علمی بحث سے از خود ”نتیجہ“ اخذ نہیں کرسکتے، وہ لکھے ہوئے حاصل بحث کے ”نتیجہ“ کو پڑھ کر ہی اپنے علم میں اضافہ کرسکیں
امید ہے کہ آئندہ اہل علم اس سیکشن میں جواب دیتے ہوئے ان نکات کا خیال رکھیں گے کیونکہ آن لائن سارے قارئین اُن کی طرح ”قابل فاضل“ نہیں ہوتے۔ بلکہ اکثر قارئین بہت کم دینی علم رکھتے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
آپ کی تجاویز کا شکریہ ۔
شاید آپ کچھ بنیادی باتیں بھول رہے ہیں مثلا سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سیکشن فورم کا حصہ ہے کوئی خاص فتوی سائٹ نہیں ہے جس کے لئے جواب دینے والا کوئی فارغ شخص یا کوئی ایک ٹیم ہو ۔ ہاں اسی فورم پر ’’محدث فتوی‘‘ کا لنک موجود ہے ، اگر باضابطہ فتوی مطلوب ہو تو اس سائٹ سے استفادہ کریں ۔یہاں ان شاء اللہ عربی عبارات کا ترجمہ بھی ملے گا اور وہ سب کچھ جو آپ چاہتے ہیں۔

جب یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ سیکشن باضابطہ فتوی کا سیکشن نہیں ہے تو پھر یہاں جواب دینے والے کے پاس فارغ اوقات اور اس کی مصروفیات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔
آپ کو کیا لگتا ہے جواب دینے والا انسان نہیں ہے ! اس کے بال بچے نہیں ہیں ! اس کی مصروفیات نہیں ہیں ! اس زندگی میں بس یہی ایک ہی کام ہے سوال کا جواب دینا !

علاوہ بریں خود سائل کی ذمہ داری کیا ہے۔
کتب ستہ ، بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب احادیث کے اردو تراجم ہوچکے ہیں ۔
کیا سائل تھوڑی محنت کرکے خود متعلقہ حدیث کو ان تراجم کی کتاب میں نہیں دیکھ سکتا۔
جواب میں بالخصوص کتب ستہ اسی طرح جن کتب کا ترجمہ دستیاب ہیں عام طور سے ان احادیث کا ترجمہ نہیں کیا جاتاہے لیکن عربی عبارت نقل کردی جاتی ہیں تاکہ سائل یا جس کو ضرورت ہو وہ حوالے اور الفاظ کی مدد سے ترجمہ کی کتب میں خود اس حدیث کو سرچ کرکے اس کا ترجمہ دیکھ لے۔
اگرسائل کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ترجمہ کی کتابوں میں جاکر ان احادیث کا ترجمہ دیکھے تو جواب دینے والا فارغ بیٹھا ہے ، اس کے پاس اور کوئی کام نہیں ہے۔
ایک شخص رضاکارانہ طور پر اپنے بھائیوں کی رہنمائی کے لئے اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ اوقات ہدیہ کرتاہے ۔ اسے غنیمت جاننے کے بجائے اس پر مزید بوجھ ڈالنا میرے خیال سے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی سامنے رکھیں کہ اس سیکشن میں عام طور سے احادیث کی صحت وضعف کی نشاندہی کی جاتی ہے اوریہ سب سے مشکل ترین فن اور سب سے زیادہ وقت طلب کام ہے۔
آپ کو کیا اندازہ کہ ایک شخص کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہتا ہے تو اکثر اوقات اس کے پیچھے کتنی محنت درکار ہوتی ہے؟

سب سے پہلے حدیث کے تمام طرق کو سامنے رکھنا ہوتاہے۔
اس کے بعد ہرطرق کا درجہ معلوم ہوناچاہئے۔
اور ہرطریق کی سند میں موجود ہرہر راوی کی حالت سے آگاہی ہونی چاہے۔
اور صرف ایک راوی کی حالت معلوم کرنے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے اس کا اندازہ وہی شخص کرسکتاہے جس نے اس وادی میں قدم رکھا ہے۔

مثلا کسی سند میں ’’محمد‘‘ کانام آگیا تو محمدنام کے سیکڑوں راوی ہیں یہاں یہ پتہ لگانا ہوگا کہ اس سند میں موجود ’’محمد‘‘ کون ہے۔
اس کے لئے اس راوی کے شاگردوں اور اس کے استاذوں اسی طرح اوربہت ساری چیزوں کو دیکھناہوگا۔
اورپھرجب یہ طے ہوجائے کہ یہ کون شخص ہے تو پھر یہ پتہ کرنا ہوگا کہ اس کی حالت کیا ہے اسے کس کس نے ثقہ یا ضعیف کہا ہے۔
اب اگر کہیں مل جائے کہ اسے فلاں امام نے ثقہ کہا ہے تو پھر یہ دیکھیں گے کہ اس توثیق کا اصل حوالہ کہاں ہے ؟
پھر مثال کے طور پر اگر تاریخ بغداد میں یہ توثیق مل گئی تو پھر یہ دیکھنا ہے گہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے جس سند کے ساتھ یہ توثیق نقل کی ہے خود وہ سند کیسی ہے ؟
اب یہ سند دیکھتے ہوئے اس میں کوئی ’’احمد‘‘ نام کا راوی آگیا تو اب درج بالا طریقہ سے اس کا بھی سراغ لگائے ۔
اتفاق سے اس ’’احمد‘‘ کی توثیق کسی امام سے ملی لیکن اس کا اصل حوالہ تاریخ دمشق ہے اب تاریخ دمشق میں جاکر یہ دیکھیں کہ ابن عساکر نے جس سند سے یہ توثیق نقل کی ہے وہ کیسی ہے پھر یہاں بھی راویوں کی ایک قطار ہے ان سب کی تحقیق درج بالا طریقہ سے کرو۔

اس طرح نہ جانے کتنی سندوں کی تحقیق سے گذرنے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ ’’محمد‘‘ کو فلاں امام نے ثقہ کہاہے ، تو یہ ثقہ کہنا ثابت ہے۔

اب ہم تحریر میں ایک لفظ ’’ثقہ ‘‘ نقل کریں گے یعنی فلاں نے ’’محمد‘‘ کو ثقہ کہا ، پڑھنے والے صرف ایک لفظ پڑھ کرگذر جائیں گے لیکن انہیں کیا معلوم کہ یہ لفظ لکھنے والے نے یہ لفظ لکھنے سے پہلے کن کن وادیوں کا سفر کیا ہے؟؟؟

کبھی کبھی تو سیکڑوں صفحات کی ورق گردانی کرنے کے بعد ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ تحقیق حدیث کے سلسلے میں ایک سطر لکھ سکیں۔
اور آپ کہتے ہیں کہ ہمیں پڑھنے کے لئے صرف ایک سطر ہی نظر آرہی ہے۔

بلکہ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک راوی سے متعلق ہمیں کہیں ’’ثقہ‘‘ کا لفظ ملا ہم اس کے اصل مرجع تک پہونچنے کے لئے متعدد سندوں کا راستہ طے کرتے ہیں بالاخر نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ یہ توثیق ثابت نہیں ۔
پھر کیا ایک لفظ کی تحقیق میں سیکڑوں صفحات کا مطالعہ کیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے پاس لکھنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔

یہ ساری محنت سند کے صرف ایک راوی پرہوتی ہے اس کے بعد قدم آگے بڑھتا ہے اورسندکے دوسرے راوی پر اسی طرح کی محنت درکار ہوتی اسی طرح آگے بڑھتے بڑھتے سند کے تمام راویوں کو اسی طرح دیکھنا ہوتاہے۔
پھر اس طرح ایک طریق کی تحقیق ہوتی اس کے بعد دوسرے طریق کو بھی اسی طرح چیک کرنا ہوتاہے۔

بلکہ اگر شواہد مل گئے تو ان کی بھی جانچ پڑتال کرنی پڑتی ہے ۔

محترم!
بسا اوقات ایک حدیث کے آگے صرف ’’اسنادہ صحیح ‘‘ لکھنے میں ایک شخص کو جنتی محنت صرف کرنی پڑتی ہے اتنی محنت میں کسی اور موضوع پر وہ ایک اچھا خاصا مقالہ تیار کرسکتاہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ زیرتذکرہ سیکشن کوئی باضابطہ فتوی سیکشن نہیں ہے۔
اور نہ ہی یہاں جواب دینے والے کوئی مفتی ہے یا فارغ شخص یا کوئی ایک ٹیم ہے۔

اس لئے رضاکارانہ طور پر ہم جو کچھ بھی کر پارہے ہیں اسی پر قناعت اور صبرکریں ۔
اور صبر نہ ہو سکے تو دیگر ایسے مقامات کا رخ کریں جہاں کوئی باضابطہ مفتی ہو یا کوئی مخصوص ٹیم ہو ۔

امید کہ ہم پر رحم فرمائیں گے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کفایت بھائی!

معزرت خواہ ہوں کہ میری تجاویز ”قابل عمل“ نہیں۔ میں اپنی تجاویز واپس لیتا ہوں۔

ویسے میری یہ تجویز ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے تھی جو نیٹ سرچنگ کے ذریعہ اس سیکشن تک پہنچ تو جاتے ہیں، مگر اس سوال و جواب سے مکمل طور پر استفادہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اور ایسے پڑھے لکھے نوجوان بالعموم احادیث کی کتب تک رسائی سے بھی محروم ہوتے ہیں۔

زحمت کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔
والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مذکورہ بالا تجاویز سے ”متفق“ ہونے پر

کنعان
Dua
محمد ارسلان
کا اور ”پسند“ کرنے پر مون لائیٹ آفریدی کا بہت بہت شکریہ۔ لیکن جیسا کہ آپ نے شیخ کفایت اللہ بھائی کے جواب میں ملاحظہ فرمالیا، ان تجاویز پر عمل درآمد بپت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ چنانچہ اب میں نے اپنی یہ تجاویز واپس لے لی ہیں۔
 
Top