• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترجمہ و تخریج

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
کیا اس روایت کا درج ذیل ترجمہ درست ہے۔
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثني إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن ابن عباس قال
: كنت أقرئ رجالا من المهاجرين منهم عبد الرحمن بن عوف فبينما أنا في منزله بمنى وهو عند عمر بن الخطاب في آخر حجة حجها إذ رجع إلي عبد الرحمن فقال لو رأيت رجلا أتى أمير المؤمنين اليوم فقال يا أمير المؤمنين هل لك في فلان ؟ يقول لو قد مات عمر لقد بايعت فلانا فوالله ما كانت بيعة أبي بكر إلا فلتة فتمت فغضب عمر ثم قال إني إن شاء الله لقائم العشية في الناس فمحذرهم هؤلاء الذين يريدون أن يغصبوهم أمورهم . قال عبد الرحمن فقلت يا أمير المؤمنين لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس وغوغاءهم فإنهم هم الذين يغلبون على قربك حين تقوم في الناس وأنا أخشى أن تقوم فتقول مقالة يطيرها عنك كل مطير وأن لا يعوها وأن لا يضعوها على مواضعها فأمهل حتى تقدم المدينة فإنها دار الهجرة والسنة فتخلص بأهل الفقه وأشراف الناس فتقول ما قلت متمكنا فيعي أهل العلم مقالتك ويضعونها على مواضعها . فقال عمر والله - إن شاء الله - لأقومن بذلك أو ل مقام أقومه بالمدينة . قال ابن عباس فقدمنا المدينة في عقب ذي الحجة فلما كان يوم الجمعة عجلت الرواح حين زاغت الشمس حتى أجد سعيد بن زيد بن عمرو ابن نفيل جالسا إلى ركن المنبر فجلست حوله تمس ركبتي ركبته فلم أنشب أن خرج عمر بن الخطاب فلما رأيته مقبلا قلت لسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل ليقولن العشية مقالة لم يقلها منذ استخلف فأنكر علي وقال ما عسيت أن يقول ما لم يقل قبله فجلس عمر على المنبر فلما سكت المؤذنون قام فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فإني قائل لكم مقالة قد قدر لي أن أقولها لا أدري لعلها بين يدي أجلي فمن عقلها ووعاها فليحدث بها حيث انتهت به راحلته ومن خشي أن لا يعقلها فلا أحل لأحد أن يكذب علي إن الله بعث محمدا صلى الله عليه و سلم بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان مما أنزل الله آية الرجم فقرأناها وعقلناها ووعيناها رجم رسول الله صلى الله عليه و سلم ورجمنا بعده فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله والرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو كان الحبل أو الاعتراف ثم إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب الله أن لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم أو إن كفرا بكم أن ترغبوا عن آبائكم . ألا ثم إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال ( لا تطروني كما أطري عيسى بن مريم وقولوا عبد الله ورسوله )
ثم إنه بلغني قائل منكم يقول والله لو قد مات عمر بايعت فلانا فلا يغترن امرؤ أن يقول إنما كانت بيعة أبي بكر فلتة وتمت ألا وإنها قد كانت كذلك ولكن الله وقى شرها وليس فيكم من تقطع الأعناق إليه مثل أبي بكر من بايع رجلا من غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي تابعه تغرة أن يقتلا وإنه قد كان من خبرنا حين توفى الله نبيه صلى الله عليه و سلم أن الأنصار خالفونا واجتمعوا بأسرهم في سقيفة بني ساعدة وخالف عنا علي والزبير ومن معهما واجتمع المهاجرون إلى أبي بكر فقلت لأبي بكر يا أبا بكر انطلق بنا إلى إخواننا هؤلاء من الأنصار فانطلقنا نريدهم فلما دنونا منهم لقينا منهم رجلان صالحان فذكرا ما تمالأ عليه القوم فقالا أين تريدون يا معشر المهاجرين ؟ فقلنا نريد إخواننا هؤلاء من الأنصار فقالا لا عليكم أن لا تقربوهم اقضوا أمركم فقلت والله لنأتينهم فانطلقنا حتى أتيناهم في سقيفة بني ساعدة فإذا رجل مزمل بين ظهرانيهم فقلت من هذا ؟ فقالوا هذا سعد بن عبادة فقلت ما له ؟ قالوا يوعك فلما جلسنا قليلا تشهد خطيبهم فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فنحن أنصار الله وكتيبة الإسلام وأنتم معشر المهاجرين رهط وقد دفت دافة من قومكم فإذا هم يريدون أن يختزلونا من أصلنا وأن يحضنونا من الأمر . فلما سكت أردت أن أتكلم وكنت قد زورت مقالة أعجبتني أردت أن أقدمها بين يدي أبي بكر وكنت أداري منه بعض الحد فلما أردت أن أتكلم قال أبو بكر على رسلك فكرهت أن أغضبه فتكلم أبو بكر فكان هو أحلم مني وأوقر والله ما ترك من كلمة أعجبتني في تزويري إلا قال في بديهته مثلها أو أفضل منها حتى سكت فقال ما ذكرتم فيكم من خير فأنتم له أهل ولن يعرف هذا الأمر إلا لهذا الحي من قريش هم أوسط العرب نسبا ودارا وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين فبايعوا أيهما شئتم فأخذ بيدي وبيد أبي عبيدة بن الجراح وهو جالس بيننا فلم أكره مما قال غيرها كان والله أن أقدم فتضرب عنقي لا يقربني ذلك من إثم أحب إلي من أن أتأمر على قوم فيهم أبو بكر اللهم إلا أن تسول لي نفسي عند الموت شيئا لا أجده الآن . فقال قائل من الأنصار أنا جذيلها المحكك وعذيقها المرجب منا أمير ومنكم أمير يا معشر قريش . فكثر اللغط وارتفعت الأصوات حتى فرقت من الاختلاف فقلت ابسط يدك يا أبا بكر فبسط يده فبايعته وبايعه المهاجرون ثم بايعته الأنصار . ونزونا على سعد بن عبادة فقال قائل منهم قتلتم سعد بن عبادة فقلت قتل الله سعد بن عبادة قال عمر وإنا والله ما وجدنا فيما حضرنا من أمر أقوى من مبايعة أبي بكر خشينا إن فارقنا القوم ولم تكن بيعة أن يبايعوا رجلا منهم بعدنا فإما بايعناهم على ما لا نرضى وإما نخالفهم فيكون فساد فمن بايع رجلا على غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي بايعه تغرة أن يقتلا

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے، انہوں نے صالح بن کیسان سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، انہوں نے ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا میں مہاجرین میں سے کئی شخصوں کو تعلیم دیا کرتا ان میں عبدالرحمٰن بن عوف بھی تھے۔ ایک روز ایسا ہوا اخیر حج جو عمرؓ نے کیا (۲۳ ہجری میں) اس میں میں منیٰ میں عبدالرحمٰن کے مکان میں تھا۔ وہ عمرؓ کے پاس گئے ہوئے تھے اتنے میں عبدالرحمٰن لوٹ کر آئے کہنے لگے کاش تم بھی یہ واقعہ دیکھتے (ایسا ہوا) ایک شخص (نام نامعلوم) آج عمرؓ کے پاس آیا کہنے لگا امیرالمؤمنین تم فلاں شخص کے باب میں کیا کہتے ہو (اس کا نام معلوم نہیں ہوا) وہ کہتا ہے اگر عمرؓ مر گئے تو فلاں شخص (طلحہ بن عبیداللہ) سے بیعت کروں گا کیونکہ خدا کی قسم ابو بکرؓ سے تو ناگہانی (بغیر سوچے سمجھے) بیعت ہو گئی تھی۔ یہ سن کر عمرؓ (بہت) غصّے ہوئے۔ اس کے بعد کہنے لگے انشاءاللہ میں شام کو لوگوں میں کھڑا ہو کر خطبہ سناؤں گا اور ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی (دخل در معقولات) کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا امیر المؤمنین (برائے خدا ایسا نہ کیجئے) اس موقع پر یہ بیان نہ کیجئے۔ یہ تو حج کا موسم ہے۔ یہاں ہر قسم کے کم ظرف پنچمیل لوگ جمع ہیں۔ آپ جب خطبہ سنانے کھڑے ہوں گے تو آپ کے آس پاس (قریب قریب) اسی قسم کے لوگ اکٹھے ہو جائیں گے۔ میں ڈرتا ہوں جو بات آپ فرمائیں اس کا مطلب معلوم نہیں یہ لوگ کیا کریں یا مطلب نہ سمجھ کو اس پر کیا کیا حاشیے چڑھائیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ ٹھہر جائیں جب مدینہ پہنچ جائیں جو ہجرت اور سنت کا مقام ہے وہاں آپ کو شریف اور سمجھدار لوگوں سے سابقہ پڑے گا اطمینان سے آپ جو چاہیں سو فرما سکتے ہیں۔ وہ لوگ علم والے ہیں آپ کی گفتگو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمرؓ نے کہا اچھا خدا کی قسم! میں مدینہ پہنچ کر پہلے پہل جو خطبہ سناؤں گا اس میں یہی بیان کروں گا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں پھر ہم مدینہ اس وقت آئے جب ذی الحجہ کا مہینہ اخیر ہو گیا تھا (صرف چند روز باقی تھے) جمعہ کے دن ہم صبح سویرے سورج ڈھلتے ہی نماز کے لئےچلے مسجد میں پہنچ کر دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (جو عشرہ مبشرہ میں اور عمرؓ کے رشتہ دار تھے) منبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہیں۔ میں بھی ان کے آس پاس بیٹھ گیا۔میرے گھٹنے ان کے گھٹنوں سے لگ رہے تھے۔ تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ عمرؓ برآمد ہوئے۔ جب میں نے ان کو آتے دیکھا تو سعید بن زید سے کہا آج عمرؓ وہ باتیں کہیں گےجو انہوں نے خلافت کے وقت سے اب تک نہیں کہیں۔ انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہنے لگے مجھ کو تو یہ امید نہیں ہے کہ وہ ایسی باتیں کہیں گے جو اس سے پہلے نہیں کہی تھیں۔ خیر عمرؓ منبر پر بیٹھے۔ اذان دینے والے جب (اذان دے چکے) خاموش ہوئے تو وہ کھڑے ہوئے۔ پہلے اللہ کی تعریف جیسی چاہئیے ویسی کی۔ پھر کہنے لگے امّا بعد میں تم سے ایک بات کہتا ہوں جس کا میری تقدیر میں لکھا ہو ا تھا مجھ کو معلوم نہیں شاید یہ گفتگو میری آخری گفتگو موت کے قریب کی ہو۔ پھر جو کوئی اس بات کو سمجھے اور یاد رکھے اس کو لازم ہے کہ جہاں تک اس کی اونٹنی پہنچے اس بات کو مشہور کرے اور جو کوئی نہ سمجھےتو میں اس کیلئے یہ درست نہیں جانتا کہ وہ مجھ پر جھوٹ باندھے۔ دیکھو اللہ تعالٰی نے محمدﷺ کو سچا پیغمبر بنا کربھیجا۔ ان پر قرآن اتارا۔ اسی قرآن میں رجم کی آیت بھی اللہ تعالٰی نے اتاری۔ ہم اس نےکو پڑھا اس کا مطلب سمجھا اس کو یاد رکھا۔ رسول اللہﷺ نے اس پر عمل کیا۔ زنا کرنے والے کو رجم کیا۔ اور ہم لوگ بھی آپؐ کی وفات کے بعد زانی کو رجم کرتے رہے۔اب میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایک مدت گزر جائے اور کوئی کہنے والا یوں کہے خدا کی قسم رجم کی آیت تو ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتےاور اللہ کا ایک فرض جس کو اس نے اتارا ترک کر کے گمراہ ہو جائیں۔ دیکھو (ہوشیار رہو) جو شخص مرد ہو یا عورت محصن ہو کر زنا کرے اس پر اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے۔ یہ زنا گواہوں سے ثابت ہو یا حمل نمودار ہونے سے یا اقرار سے۔ اللہ کی کتاب میں ہم دوسری آیتوں کے ساتھ یہ آیت بھی پڑھتے تھےاپنے باپ داداؤں کو چھوڑ کر دوسروں کو باپ دادا بناؤ یہ کفر ہے (یعنی اپنے باپ دادا کو چھوڑ کر دوسروں کا باپ دادا بنانا صریح ناشکری ہے) سن لو رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو جیسے نصارٰی نے عیسٰیؑ کی تعریف میں مبالغہ کیا (بندے سے خدا بنا دیا) یوں کہو میں اللہ کا بندہ اوراس کا رسول ہوں۔مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے اگر عمرؓ مر گئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کر لوں گا۔ دیکھو تم میں سےکسی کو یہ دھوکہ نہ ہو باوجود یہ کہ ابو بکرؓ سے ناگہانی (بن سوچے سمجھے) بیعت ہوئی تھی لیکن وہ چل گئی۔ بات یہ ہے بیشک ابوبکرؓ کی بیعت ناگہانی ہوئی تھی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوتی ہے اس سے تم کو بچا رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ابوبکرؓ کا سا (متقی اور پرہیز گار اور خدا ترس) تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لئے اونٹ چلائے جاتے ہوں(لوگ سفر کرتے ہوں) دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح اور مشورہ (اتفاق یا غلبہ آرا )کے بیعت نہ کرے۔ جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور جس سے بیعت کی دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔ اور سنو ابو بکرؓ کا حال سنو۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی تو انصاری ہمارے خلاف ہو گئے(انہوں نے کسی انصاری کو خلیفہ کرنا چاہا) اور سب کے سب جا کر بنی ساعدہ کے منڈوے میں اکٹھا ہوئے (اور وہاں خلافت کا مشورہ کرنے لگے) ۔ ادھر علیؓ اور زبیرؓ اور ان کے ساتھ والے (بنی ہاشم) بھی مخالف تھے۔ لیکن باقی سب مہاجرین ابوبکرؓ کی طرف رجوع ہوئے ان کے پاس جمع ہو گئے۔ ابو بکرؓ نے کہا چلو اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلو۔ ہم اس ارادے سے نکلے جب ان کے قریب پہنچے تو رستے میں دو نیک بخت (انصاری) آدمی ملے۔انہوں نے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے (سعد بن عبادہ کو خلیفہ ٹھہرائیں) اور ہم سے پوچھا مہاجرین بھائیوں تم کہاں جا رہے ہو؟ ہم نے کہا اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھو وہاں مت جاؤ (وہ دوسری فکر میں ہیں تم کو جو کرنا ہے کر ڈالو۔ لیکن میں نے کہا خدا کی قسم ہم تو ضرور ان کے پاس جائیں گے۔آخر ہم گئے۔ دیکھا تو ان انصاریوں میں ایک شخص کپڑے لپیٹا بیٹھا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا سعد بن عبادہ ہیں (خزرج کے سردار)۔ میں نے پوچھا کیوں کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ان کو بخار آ رہا ہے۔ خیر تھوڑی دیر ہم وہاں بیٹھے اتنے میں خطیب (ثابت بن قیسؓ بن شماس یا اور کسی) نے تشھد پڑھا اور جیسی چاہئیے ویسی اللہ کی تعریف کی پھر کہنے لگے ہم لوگ انصار اللہ (یعنی اللہ کی مدد کرنے والے) ہیں اور اسلام کی فوج ہیں۔ اور مہاجرین بھائیو تم لوگ تھوڑے سے لوگ ہو (ایک قلیل جماعت) تمھاری یہ ذری سی ٹکڑی اپنی قوم (یعنی قریش) سے نکل کر ہم لوگوں میں آرہے۔ اب تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو (یہ کبھی نہیں ہو سکتا)۔ جب خطیب یہ خطبہ سنا چکا تو میں نے گفتگو کرنی چاہی۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں تیار کر رکھی تھی۔ میں چاہا کہ ابو بکرؓ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں۔ اور انصاری کی تقریر سے جو ابوبکرؓ کو غصّہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں۔ جب میں نے بات کرنا چاہا تو ابوبکرؓ نے کہا ذرا ٹھہرو۔ میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا آخر انہوں ہی نے تقریر شروع کی۔ اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ (اور متین) تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے ذہن میں سوچ لی تھی اس میں سے کوئی بات انہوں نے نہیں چھوڑی۔ فی البدہیہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھور خاموش ہو گئے۔ ابو بکرؓ کی تقریر کا خالصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے سزاوار ہو۔ مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان کے تمام عرب کی قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اب تم لوگ ایسا کرو ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکرؓ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراحؓ کا ہاتھ تھاما وہ ہم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ کو ابوبکرؓ کی کوئی بات بری معلوم نہیں ہوئی مگر یہی بات خدا کی قسم اگر بڑھا کر میری گردن ماریں اور میں کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں تو یہ مجھ کو زیادہ پسند تھا کہ میں ان لوگوں کی سرداری کروں جن میں ابوبکرؓ موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مرتے وقت میرا نفس مجھ کو بہکا دےاور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو ان تک نہیں کرتا۔ خیر پھر انصار میں ایک کہنے والا (حباب بن منذرؓ) یوں کہنے لگا سنو سنو! میں وہ لکڑی ہوں جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتا ہے اور میں وہ باڑ ہوں جو درخت کے گرد لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والو تمھاری قوم کا۔ اب خوب گلخب ہونے لگی (کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا) غل مچ گیا میں ڈر گیا کہیں مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جاتی۔ آخر میں کہہ اٹھا ابوبکرؓ اپنا ہاتھ بڑھاؤ۔ انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین نے بھی (جتنے وہاں موجود تھے) بیعت کر لی۔ پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی(چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہؓ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص (نام نامعلوم) انصاریوں میں سے کہنے لگا بھائیو! سعد بن عبادہ (بیچارے) کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ تعالٰی اس کا خون کرے گا۔ عمرؓ نے (اس خطبے میں) یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکرؓ کی خلافت سے زیادہ ضروری کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی۔ کیونکہ ہم کو یہ ڈر پیدا ہوا ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو۔ وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں۔ تب دو صورتوں سے خالی نہ ہوتا۔ یا تو ہم جبرا قہراً (دل نہ چاہتا) اسی سے بیعت کر لیتے۔ یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) ۔ دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی شخص سے بن سوچے سمجھے بن صلاح اور مشورے بیعت کر لےتو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کریں نہ اس کی جس کی بیعت کی گئی کیونکہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
ترجمہ و تخریج درکار ہے۔
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آج جمعہ کی وجہ مصروفیت زیادہ تھی ،جس کے سبب جواب میں تاخیر ہوئی ۔
یہ حدیث صحیح البخاری میں ہے ؛ اس کا ترجمہ کاپی پیسٹ کیا ہے ،لیکن ایک دو مقام پر اصلاح بھی کی ہے ۔
حدیث نمبر: 6830
امام بخاری فرماتے ہیں :
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثني إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن ابن عباس قال:‏‏‏‏"كنت اقرئ رجالا من المهاجرين منهم عبد الرحمن بن عوف ۔
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
فبينما انا في منزله بمنى وهو عند عمر بن الخطاب في آخر حجة حجها إذ رجع إلي عبد الرحمن فقال لو رايت رجلا اتى امير المؤمنين اليوم فقال يا امير المؤمنين:‏‏‏‏ هل لك في فلان يقول:‏‏‏‏ لو قد مات عمر لقد بايعت فلانا فوالله ما كانت بيعة ابي بكر إلا فلتة فتمت ۔
ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں صاحب (یعنی طلحہ بن عبیداللہ )سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
فغضب عمر ثم قال:‏‏‏‏ إني إن شاء الله لقائم العشية في الناس فمحذرهم هؤلاء الذين يريدون ان يغصبوهم امورهم قال عبد الرحمن:‏‏‏‏ فقلت يا امير المؤمنين:‏‏‏‏ لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس وغوغاءهم فإنهم هم الذين يغلبون على قربك حين تقوم في الناس وانا اخشى ان تقوم فتقول مقالة يطيرها عنك كل مطير وان لا يعوها وان لا يضعوها على مواضعها فامهل حتى تقدم المدينة فإنها دار الهجرة والسنة فتخلص باهل الفقه واشراف الناس فتقول ما قلت متمكنا فيعي اهل العلم مقالتك ويضعونها على مواضعها فقال عمر:‏‏‏‏ اما والله إن شاء الله لاقومن بذلك اول مقام اقومه بالمدينة ۔
اس پر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھ اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قال ابن عباس:‏‏‏‏ فقدمنا المدينة في عقب ذي الحجة فلما كان يوم الجمعة عجلت الرواح حين زاغت الشمس حتى اجد سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل جالسا إلى ركن المنبر فجلست حوله تمس ركبتي ركبته فلم انشب ان خرج عمر بن الخطاب فلما رايته مقبلا قلت لسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل:‏‏‏‏ ليقولن العشية مقالة لم يقلها منذ استخلف فانكر علي وقال:‏‏‏‏ ما عسيت ان يقول ما لم يقل قبله۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فجلس عمر على المنبر فلما سكت المؤذنون قام فاثنى على الله بما هو اهله ثم قال:‏‏‏‏ اما بعد فإني قائل لكم مقالة قد قدر لي ان اقولها لا ادري لعلها بين يدي اجلي فمن عقلها ووعاها فليحدث بها حيث انتهت به راحلته ومن خشي ان لا يعقلها فلا احل لاحد ان يكذب علي إن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق وانزل عليه الكتاب فكان مما انزل الله آية الرجم فقراناها وعقلناها ووعيناها رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده فاخشى إن طال بالناس زمان ان يقول قائل:‏‏‏‏ والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة انزلها الله والرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا احصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة او كان الحبل او الاعتراف ثم إنا كنا نقرا فيما نقرا من كتاب الله ان لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم ان ترغبوا عن آبائكم او إن كفرا بكم ان ترغبوا عن آبائكم۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الا ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ لا تطروني كما اطري عيسى ابن مريم وقولوا:‏‏‏‏ عبد الله ورسوله ثم إنه بلغني ان قائلا منكم يقول:‏‏‏‏ والله لو قد مات عمر بايعت فلانا فلا يغترن امرؤ ان يقول:‏‏‏‏ إنما كانت بيعة ابي بكر فلتة وتمت الا وإنها قد كانت كذلك ولكن الله وقى شرها وليس منكم من تقطع الاعناق إليه مثل ابي بكر من بايع رجلا عن غير مشورة من المسلمين فلا يبايع هو:‏‏‏‏ ولا الذي بايعه تغرة ان يقتلا ۔
اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا ۔۔ دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
وإنه قد كان من خبرنا حين توفى الله نبيه صلى الله عليه وسلم ان الانصار خالفونا واجتمعوا باسرهم في سقيفة بني ساعدة وخالف عنا علي والزبير ومن معهما واجتمع المهاجرون إلى ابي بكر فقلت لابي بكر:‏‏‏‏ يا ابا بكر انطلق بنا إلى إخواننا هؤلاء من الانصار ۔
اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ،تو ( خلیفہ کے معاملہ میں ) انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فانطلقنا نريدهم فلما دنونا منهم لقينا منهم رجلان صالحان فذكرا ما تمالا عليه القوم فقالا:‏‏‏‏ اين تريدون يا معشر المهاجرين؟ فقلنا:‏‏‏‏ نريد إخواننا هؤلاء من الانصار فقالا:‏‏‏‏ لا عليكم ان لا تقربوهم اقضوا امركم فقلت:‏‏‏‏ والله لناتينهم ۔
چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فانطلقنا حتى اتيناهم في سقيفة بني ساعدة فإذا رجل مزمل بين ظهرانيهم فقلت من هذا:‏‏‏‏ فقالوا:‏‏‏‏ هذا سعد بن عبادة فقلت:‏‏‏‏ ما له قالوا:‏‏‏‏ يوعك فلما جلسنا قليلا تشهد خطيبهم فاثنى على الله بما هو اهله ثم قال:‏‏‏‏ اما بعد:‏‏‏‏ فنحن انصار الله وكتيبة الإسلام وانتم معشر المهاجرين رهط وقد دفت دافة من قومكم فإذا هم يريدون ان يختزلونا من اصلنا وان يحضنونا من الامر فلما سكت اردت ان اتكلم وكنت قد زورت مقالة اعجبتني اريد ان اقدمها بين يدي ابي بكر وكنت اداري منه بعض الحد فلما اردت ان اتكلم قال ابو بكر:‏‏‏‏ على رسلك فكرهت ان اغضبه۔
چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا: امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فتكلم ابو بكر فكان هو احلم مني واوقر والله ما ترك من كلمة اعجبتني في تزويري إلا قال في بديهته مثلها او افضل منها حتى سكت فقال:‏‏‏‏ ما ذكرتم فيكم من خير فانتم له اهل ولن يعرف هذا الامر إلا لهذا الحي من قريش هم اوسط العرب نسبا ودارا وقد رضيت لكم احد هذين الرجلين فبايعوا ايهما شئتم فاخذ بيدي وبيد ابي عبيدة بن الجراح وهو جالس بيننا فلم اكره مما قال غيرها كان والله ان اقدم فتضرب عنقي لا يقربني ذلك من إثم احب إلي من ان اتامر على قوم فيهم ابو بكر اللهم إلا ان تسول إلي نفسي عند الموت شيئا لا اجده الآن فقال قائل من الانصار:‏‏‏‏ انا جذيلها المحكك وعذيقها المرجب منا امير ومنكم امير يا معشر قريش فكثر اللغط وارتفعت الاصوات حتى فرقت من الاختلاف فقلت:‏‏‏‏ ابسط يدك يا ابا بكر فبسط يده فبايعته وبايعه المهاجرون ثم بايعته الانصار ونزونا على سعد بن عبادة فقال قائل منهم:‏‏‏‏ قتلتم سعد بن عبادة فقلت:‏‏‏‏ قتل الله سعد بن عبادة قال عمر وإنا:‏‏‏‏ والله ما وجدنا فيما حضرنا من امر اقوى من مبايعة ابي بكر خشينا إن فارقنا القوم ولم تكن بيعة ان يبايعوا رجلا منهم بعدنا فإما بايعناهم على ما لا نرضى وإما نخالفهم فيكون فساد فمن بايع رجلا على غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي بايعه تغرة ان يقتلا"
(صحیح البخاری ،حدیث نمبر : 6830 )

آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا: بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالی آپ کے علم و عمل میں برکت دے۔ آمین!
 
Top