- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
کیا اس روایت کا درج ذیل ترجمہ درست ہے۔
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثني إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن ابن عباس قال
: كنت أقرئ رجالا من المهاجرين منهم عبد الرحمن بن عوف فبينما أنا في منزله بمنى وهو عند عمر بن الخطاب في آخر حجة حجها إذ رجع إلي عبد الرحمن فقال لو رأيت رجلا أتى أمير المؤمنين اليوم فقال يا أمير المؤمنين هل لك في فلان ؟ يقول لو قد مات عمر لقد بايعت فلانا فوالله ما كانت بيعة أبي بكر إلا فلتة فتمت فغضب عمر ثم قال إني إن شاء الله لقائم العشية في الناس فمحذرهم هؤلاء الذين يريدون أن يغصبوهم أمورهم . قال عبد الرحمن فقلت يا أمير المؤمنين لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس وغوغاءهم فإنهم هم الذين يغلبون على قربك حين تقوم في الناس وأنا أخشى أن تقوم فتقول مقالة يطيرها عنك كل مطير وأن لا يعوها وأن لا يضعوها على مواضعها فأمهل حتى تقدم المدينة فإنها دار الهجرة والسنة فتخلص بأهل الفقه وأشراف الناس فتقول ما قلت متمكنا فيعي أهل العلم مقالتك ويضعونها على مواضعها . فقال عمر والله - إن شاء الله - لأقومن بذلك أو ل مقام أقومه بالمدينة . قال ابن عباس فقدمنا المدينة في عقب ذي الحجة فلما كان يوم الجمعة عجلت الرواح حين زاغت الشمس حتى أجد سعيد بن زيد بن عمرو ابن نفيل جالسا إلى ركن المنبر فجلست حوله تمس ركبتي ركبته فلم أنشب أن خرج عمر بن الخطاب فلما رأيته مقبلا قلت لسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل ليقولن العشية مقالة لم يقلها منذ استخلف فأنكر علي وقال ما عسيت أن يقول ما لم يقل قبله فجلس عمر على المنبر فلما سكت المؤذنون قام فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فإني قائل لكم مقالة قد قدر لي أن أقولها لا أدري لعلها بين يدي أجلي فمن عقلها ووعاها فليحدث بها حيث انتهت به راحلته ومن خشي أن لا يعقلها فلا أحل لأحد أن يكذب علي إن الله بعث محمدا صلى الله عليه و سلم بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان مما أنزل الله آية الرجم فقرأناها وعقلناها ووعيناها رجم رسول الله صلى الله عليه و سلم ورجمنا بعده فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله والرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو كان الحبل أو الاعتراف ثم إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب الله أن لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم أو إن كفرا بكم أن ترغبوا عن آبائكم . ألا ثم إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال ( لا تطروني كما أطري عيسى بن مريم وقولوا عبد الله ورسوله )
ثم إنه بلغني قائل منكم يقول والله لو قد مات عمر بايعت فلانا فلا يغترن امرؤ أن يقول إنما كانت بيعة أبي بكر فلتة وتمت ألا وإنها قد كانت كذلك ولكن الله وقى شرها وليس فيكم من تقطع الأعناق إليه مثل أبي بكر من بايع رجلا من غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي تابعه تغرة أن يقتلا وإنه قد كان من خبرنا حين توفى الله نبيه صلى الله عليه و سلم أن الأنصار خالفونا واجتمعوا بأسرهم في سقيفة بني ساعدة وخالف عنا علي والزبير ومن معهما واجتمع المهاجرون إلى أبي بكر فقلت لأبي بكر يا أبا بكر انطلق بنا إلى إخواننا هؤلاء من الأنصار فانطلقنا نريدهم فلما دنونا منهم لقينا منهم رجلان صالحان فذكرا ما تمالأ عليه القوم فقالا أين تريدون يا معشر المهاجرين ؟ فقلنا نريد إخواننا هؤلاء من الأنصار فقالا لا عليكم أن لا تقربوهم اقضوا أمركم فقلت والله لنأتينهم فانطلقنا حتى أتيناهم في سقيفة بني ساعدة فإذا رجل مزمل بين ظهرانيهم فقلت من هذا ؟ فقالوا هذا سعد بن عبادة فقلت ما له ؟ قالوا يوعك فلما جلسنا قليلا تشهد خطيبهم فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فنحن أنصار الله وكتيبة الإسلام وأنتم معشر المهاجرين رهط وقد دفت دافة من قومكم فإذا هم يريدون أن يختزلونا من أصلنا وأن يحضنونا من الأمر . فلما سكت أردت أن أتكلم وكنت قد زورت مقالة أعجبتني أردت أن أقدمها بين يدي أبي بكر وكنت أداري منه بعض الحد فلما أردت أن أتكلم قال أبو بكر على رسلك فكرهت أن أغضبه فتكلم أبو بكر فكان هو أحلم مني وأوقر والله ما ترك من كلمة أعجبتني في تزويري إلا قال في بديهته مثلها أو أفضل منها حتى سكت فقال ما ذكرتم فيكم من خير فأنتم له أهل ولن يعرف هذا الأمر إلا لهذا الحي من قريش هم أوسط العرب نسبا ودارا وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين فبايعوا أيهما شئتم فأخذ بيدي وبيد أبي عبيدة بن الجراح وهو جالس بيننا فلم أكره مما قال غيرها كان والله أن أقدم فتضرب عنقي لا يقربني ذلك من إثم أحب إلي من أن أتأمر على قوم فيهم أبو بكر اللهم إلا أن تسول لي نفسي عند الموت شيئا لا أجده الآن . فقال قائل من الأنصار أنا جذيلها المحكك وعذيقها المرجب منا أمير ومنكم أمير يا معشر قريش . فكثر اللغط وارتفعت الأصوات حتى فرقت من الاختلاف فقلت ابسط يدك يا أبا بكر فبسط يده فبايعته وبايعه المهاجرون ثم بايعته الأنصار . ونزونا على سعد بن عبادة فقال قائل منهم قتلتم سعد بن عبادة فقلت قتل الله سعد بن عبادة قال عمر وإنا والله ما وجدنا فيما حضرنا من أمر أقوى من مبايعة أبي بكر خشينا إن فارقنا القوم ولم تكن بيعة أن يبايعوا رجلا منهم بعدنا فإما بايعناهم على ما لا نرضى وإما نخالفهم فيكون فساد فمن بايع رجلا على غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي بايعه تغرة أن يقتلا
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے، انہوں نے صالح بن کیسان سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، انہوں نے ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا میں مہاجرین میں سے کئی شخصوں کو تعلیم دیا کرتا ان میں عبدالرحمٰن بن عوف بھی تھے۔ ایک روز ایسا ہوا اخیر حج جو عمرؓ نے کیا (۲۳ ہجری میں) اس میں میں منیٰ میں عبدالرحمٰن کے مکان میں تھا۔ وہ عمرؓ کے پاس گئے ہوئے تھے اتنے میں عبدالرحمٰن لوٹ کر آئے کہنے لگے کاش تم بھی یہ واقعہ دیکھتے (ایسا ہوا) ایک شخص (نام نامعلوم) آج عمرؓ کے پاس آیا کہنے لگا امیرالمؤمنین تم فلاں شخص کے باب میں کیا کہتے ہو (اس کا نام معلوم نہیں ہوا) وہ کہتا ہے اگر عمرؓ مر گئے تو فلاں شخص (طلحہ بن عبیداللہ) سے بیعت کروں گا کیونکہ خدا کی قسم ابو بکرؓ سے تو ناگہانی (بغیر سوچے سمجھے) بیعت ہو گئی تھی۔ یہ سن کر عمرؓ (بہت) غصّے ہوئے۔ اس کے بعد کہنے لگے انشاءاللہ میں شام کو لوگوں میں کھڑا ہو کر خطبہ سناؤں گا اور ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی (دخل در معقولات) کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا امیر المؤمنین (برائے خدا ایسا نہ کیجئے) اس موقع پر یہ بیان نہ کیجئے۔ یہ تو حج کا موسم ہے۔ یہاں ہر قسم کے کم ظرف پنچمیل لوگ جمع ہیں۔ آپ جب خطبہ سنانے کھڑے ہوں گے تو آپ کے آس پاس (قریب قریب) اسی قسم کے لوگ اکٹھے ہو جائیں گے۔ میں ڈرتا ہوں جو بات آپ فرمائیں اس کا مطلب معلوم نہیں یہ لوگ کیا کریں یا مطلب نہ سمجھ کو اس پر کیا کیا حاشیے چڑھائیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ ٹھہر جائیں جب مدینہ پہنچ جائیں جو ہجرت اور سنت کا مقام ہے وہاں آپ کو شریف اور سمجھدار لوگوں سے سابقہ پڑے گا اطمینان سے آپ جو چاہیں سو فرما سکتے ہیں۔ وہ لوگ علم والے ہیں آپ کی گفتگو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمرؓ نے کہا اچھا خدا کی قسم! میں مدینہ پہنچ کر پہلے پہل جو خطبہ سناؤں گا اس میں یہی بیان کروں گا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں پھر ہم مدینہ اس وقت آئے جب ذی الحجہ کا مہینہ اخیر ہو گیا تھا (صرف چند روز باقی تھے) جمعہ کے دن ہم صبح سویرے سورج ڈھلتے ہی نماز کے لئےچلے مسجد میں پہنچ کر دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (جو عشرہ مبشرہ میں اور عمرؓ کے رشتہ دار تھے) منبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہیں۔ میں بھی ان کے آس پاس بیٹھ گیا۔میرے گھٹنے ان کے گھٹنوں سے لگ رہے تھے۔ تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ عمرؓ برآمد ہوئے۔ جب میں نے ان کو آتے دیکھا تو سعید بن زید سے کہا آج عمرؓ وہ باتیں کہیں گےجو انہوں نے خلافت کے وقت سے اب تک نہیں کہیں۔ انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہنے لگے مجھ کو تو یہ امید نہیں ہے کہ وہ ایسی باتیں کہیں گے جو اس سے پہلے نہیں کہی تھیں۔ خیر عمرؓ منبر پر بیٹھے۔ اذان دینے والے جب (اذان دے چکے) خاموش ہوئے تو وہ کھڑے ہوئے۔ پہلے اللہ کی تعریف جیسی چاہئیے ویسی کی۔ پھر کہنے لگے امّا بعد میں تم سے ایک بات کہتا ہوں جس کا میری تقدیر میں لکھا ہو ا تھا مجھ کو معلوم نہیں شاید یہ گفتگو میری آخری گفتگو موت کے قریب کی ہو۔ پھر جو کوئی اس بات کو سمجھے اور یاد رکھے اس کو لازم ہے کہ جہاں تک اس کی اونٹنی پہنچے اس بات کو مشہور کرے اور جو کوئی نہ سمجھےتو میں اس کیلئے یہ درست نہیں جانتا کہ وہ مجھ پر جھوٹ باندھے۔ دیکھو اللہ تعالٰی نے محمدﷺ کو سچا پیغمبر بنا کربھیجا۔ ان پر قرآن اتارا۔ اسی قرآن میں رجم کی آیت بھی اللہ تعالٰی نے اتاری۔ ہم اس نےکو پڑھا اس کا مطلب سمجھا اس کو یاد رکھا۔ رسول اللہﷺ نے اس پر عمل کیا۔ زنا کرنے والے کو رجم کیا۔ اور ہم لوگ بھی آپؐ کی وفات کے بعد زانی کو رجم کرتے رہے۔اب میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایک مدت گزر جائے اور کوئی کہنے والا یوں کہے خدا کی قسم رجم کی آیت تو ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتےاور اللہ کا ایک فرض جس کو اس نے اتارا ترک کر کے گمراہ ہو جائیں۔ دیکھو (ہوشیار رہو) جو شخص مرد ہو یا عورت محصن ہو کر زنا کرے اس پر اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے۔ یہ زنا گواہوں سے ثابت ہو یا حمل نمودار ہونے سے یا اقرار سے۔ اللہ کی کتاب میں ہم دوسری آیتوں کے ساتھ یہ آیت بھی پڑھتے تھےاپنے باپ داداؤں کو چھوڑ کر دوسروں کو باپ دادا بناؤ یہ کفر ہے (یعنی اپنے باپ دادا کو چھوڑ کر دوسروں کا باپ دادا بنانا صریح ناشکری ہے) سن لو رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو جیسے نصارٰی نے عیسٰیؑ کی تعریف میں مبالغہ کیا (بندے سے خدا بنا دیا) یوں کہو میں اللہ کا بندہ اوراس کا رسول ہوں۔مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے اگر عمرؓ مر گئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کر لوں گا۔ دیکھو تم میں سےکسی کو یہ دھوکہ نہ ہو باوجود یہ کہ ابو بکرؓ سے ناگہانی (بن سوچے سمجھے) بیعت ہوئی تھی لیکن وہ چل گئی۔ بات یہ ہے بیشک ابوبکرؓ کی بیعت ناگہانی ہوئی تھی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوتی ہے اس سے تم کو بچا رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ابوبکرؓ کا سا (متقی اور پرہیز گار اور خدا ترس) تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لئے اونٹ چلائے جاتے ہوں(لوگ سفر کرتے ہوں) دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح اور مشورہ (اتفاق یا غلبہ آرا )کے بیعت نہ کرے۔ جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور جس سے بیعت کی دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔ اور سنو ابو بکرؓ کا حال سنو۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی تو انصاری ہمارے خلاف ہو گئے(انہوں نے کسی انصاری کو خلیفہ کرنا چاہا) اور سب کے سب جا کر بنی ساعدہ کے منڈوے میں اکٹھا ہوئے (اور وہاں خلافت کا مشورہ کرنے لگے) ۔ ادھر علیؓ اور زبیرؓ اور ان کے ساتھ والے (بنی ہاشم) بھی مخالف تھے۔ لیکن باقی سب مہاجرین ابوبکرؓ کی طرف رجوع ہوئے ان کے پاس جمع ہو گئے۔ ابو بکرؓ نے کہا چلو اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلو۔ ہم اس ارادے سے نکلے جب ان کے قریب پہنچے تو رستے میں دو نیک بخت (انصاری) آدمی ملے۔انہوں نے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے (سعد بن عبادہ کو خلیفہ ٹھہرائیں) اور ہم سے پوچھا مہاجرین بھائیوں تم کہاں جا رہے ہو؟ ہم نے کہا اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھو وہاں مت جاؤ (وہ دوسری فکر میں ہیں تم کو جو کرنا ہے کر ڈالو۔ لیکن میں نے کہا خدا کی قسم ہم تو ضرور ان کے پاس جائیں گے۔آخر ہم گئے۔ دیکھا تو ان انصاریوں میں ایک شخص کپڑے لپیٹا بیٹھا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا سعد بن عبادہ ہیں (خزرج کے سردار)۔ میں نے پوچھا کیوں کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ان کو بخار آ رہا ہے۔ خیر تھوڑی دیر ہم وہاں بیٹھے اتنے میں خطیب (ثابت بن قیسؓ بن شماس یا اور کسی) نے تشھد پڑھا اور جیسی چاہئیے ویسی اللہ کی تعریف کی پھر کہنے لگے ہم لوگ انصار اللہ (یعنی اللہ کی مدد کرنے والے) ہیں اور اسلام کی فوج ہیں۔ اور مہاجرین بھائیو تم لوگ تھوڑے سے لوگ ہو (ایک قلیل جماعت) تمھاری یہ ذری سی ٹکڑی اپنی قوم (یعنی قریش) سے نکل کر ہم لوگوں میں آرہے۔ اب تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو (یہ کبھی نہیں ہو سکتا)۔ جب خطیب یہ خطبہ سنا چکا تو میں نے گفتگو کرنی چاہی۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں تیار کر رکھی تھی۔ میں چاہا کہ ابو بکرؓ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں۔ اور انصاری کی تقریر سے جو ابوبکرؓ کو غصّہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں۔ جب میں نے بات کرنا چاہا تو ابوبکرؓ نے کہا ذرا ٹھہرو۔ میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا آخر انہوں ہی نے تقریر شروع کی۔ اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ (اور متین) تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے ذہن میں سوچ لی تھی اس میں سے کوئی بات انہوں نے نہیں چھوڑی۔ فی البدہیہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھور خاموش ہو گئے۔ ابو بکرؓ کی تقریر کا خالصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے سزاوار ہو۔ مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان کے تمام عرب کی قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اب تم لوگ ایسا کرو ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکرؓ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراحؓ کا ہاتھ تھاما وہ ہم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ کو ابوبکرؓ کی کوئی بات بری معلوم نہیں ہوئی مگر یہی بات خدا کی قسم اگر بڑھا کر میری گردن ماریں اور میں کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں تو یہ مجھ کو زیادہ پسند تھا کہ میں ان لوگوں کی سرداری کروں جن میں ابوبکرؓ موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مرتے وقت میرا نفس مجھ کو بہکا دےاور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو ان تک نہیں کرتا۔ خیر پھر انصار میں ایک کہنے والا (حباب بن منذرؓ) یوں کہنے لگا سنو سنو! میں وہ لکڑی ہوں جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتا ہے اور میں وہ باڑ ہوں جو درخت کے گرد لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والو تمھاری قوم کا۔ اب خوب گلخب ہونے لگی (کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا) غل مچ گیا میں ڈر گیا کہیں مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جاتی۔ آخر میں کہہ اٹھا ابوبکرؓ اپنا ہاتھ بڑھاؤ۔ انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین نے بھی (جتنے وہاں موجود تھے) بیعت کر لی۔ پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی(چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہؓ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص (نام نامعلوم) انصاریوں میں سے کہنے لگا بھائیو! سعد بن عبادہ (بیچارے) کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ تعالٰی اس کا خون کرے گا۔ عمرؓ نے (اس خطبے میں) یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکرؓ کی خلافت سے زیادہ ضروری کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی۔ کیونکہ ہم کو یہ ڈر پیدا ہوا ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو۔ وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں۔ تب دو صورتوں سے خالی نہ ہوتا۔ یا تو ہم جبرا قہراً (دل نہ چاہتا) اسی سے بیعت کر لیتے۔ یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) ۔ دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی شخص سے بن سوچے سمجھے بن صلاح اور مشورے بیعت کر لےتو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کریں نہ اس کی جس کی بیعت کی گئی کیونکہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
کیا اس روایت کا درج ذیل ترجمہ درست ہے۔
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثني إبراهيم بن سعد عن صالح عن ابن شهاب عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود عن ابن عباس قال
: كنت أقرئ رجالا من المهاجرين منهم عبد الرحمن بن عوف فبينما أنا في منزله بمنى وهو عند عمر بن الخطاب في آخر حجة حجها إذ رجع إلي عبد الرحمن فقال لو رأيت رجلا أتى أمير المؤمنين اليوم فقال يا أمير المؤمنين هل لك في فلان ؟ يقول لو قد مات عمر لقد بايعت فلانا فوالله ما كانت بيعة أبي بكر إلا فلتة فتمت فغضب عمر ثم قال إني إن شاء الله لقائم العشية في الناس فمحذرهم هؤلاء الذين يريدون أن يغصبوهم أمورهم . قال عبد الرحمن فقلت يا أمير المؤمنين لا تفعل فإن الموسم يجمع رعاع الناس وغوغاءهم فإنهم هم الذين يغلبون على قربك حين تقوم في الناس وأنا أخشى أن تقوم فتقول مقالة يطيرها عنك كل مطير وأن لا يعوها وأن لا يضعوها على مواضعها فأمهل حتى تقدم المدينة فإنها دار الهجرة والسنة فتخلص بأهل الفقه وأشراف الناس فتقول ما قلت متمكنا فيعي أهل العلم مقالتك ويضعونها على مواضعها . فقال عمر والله - إن شاء الله - لأقومن بذلك أو ل مقام أقومه بالمدينة . قال ابن عباس فقدمنا المدينة في عقب ذي الحجة فلما كان يوم الجمعة عجلت الرواح حين زاغت الشمس حتى أجد سعيد بن زيد بن عمرو ابن نفيل جالسا إلى ركن المنبر فجلست حوله تمس ركبتي ركبته فلم أنشب أن خرج عمر بن الخطاب فلما رأيته مقبلا قلت لسعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل ليقولن العشية مقالة لم يقلها منذ استخلف فأنكر علي وقال ما عسيت أن يقول ما لم يقل قبله فجلس عمر على المنبر فلما سكت المؤذنون قام فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فإني قائل لكم مقالة قد قدر لي أن أقولها لا أدري لعلها بين يدي أجلي فمن عقلها ووعاها فليحدث بها حيث انتهت به راحلته ومن خشي أن لا يعقلها فلا أحل لأحد أن يكذب علي إن الله بعث محمدا صلى الله عليه و سلم بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان مما أنزل الله آية الرجم فقرأناها وعقلناها ووعيناها رجم رسول الله صلى الله عليه و سلم ورجمنا بعده فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل والله ما نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله والرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو كان الحبل أو الاعتراف ثم إنا كنا نقرأ فيما نقرأ من كتاب الله أن لا ترغبوا عن آبائكم فإنه كفر بكم أن ترغبوا عن آبائكم أو إن كفرا بكم أن ترغبوا عن آبائكم . ألا ثم إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال ( لا تطروني كما أطري عيسى بن مريم وقولوا عبد الله ورسوله )
ثم إنه بلغني قائل منكم يقول والله لو قد مات عمر بايعت فلانا فلا يغترن امرؤ أن يقول إنما كانت بيعة أبي بكر فلتة وتمت ألا وإنها قد كانت كذلك ولكن الله وقى شرها وليس فيكم من تقطع الأعناق إليه مثل أبي بكر من بايع رجلا من غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي تابعه تغرة أن يقتلا وإنه قد كان من خبرنا حين توفى الله نبيه صلى الله عليه و سلم أن الأنصار خالفونا واجتمعوا بأسرهم في سقيفة بني ساعدة وخالف عنا علي والزبير ومن معهما واجتمع المهاجرون إلى أبي بكر فقلت لأبي بكر يا أبا بكر انطلق بنا إلى إخواننا هؤلاء من الأنصار فانطلقنا نريدهم فلما دنونا منهم لقينا منهم رجلان صالحان فذكرا ما تمالأ عليه القوم فقالا أين تريدون يا معشر المهاجرين ؟ فقلنا نريد إخواننا هؤلاء من الأنصار فقالا لا عليكم أن لا تقربوهم اقضوا أمركم فقلت والله لنأتينهم فانطلقنا حتى أتيناهم في سقيفة بني ساعدة فإذا رجل مزمل بين ظهرانيهم فقلت من هذا ؟ فقالوا هذا سعد بن عبادة فقلت ما له ؟ قالوا يوعك فلما جلسنا قليلا تشهد خطيبهم فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال أما بعد فنحن أنصار الله وكتيبة الإسلام وأنتم معشر المهاجرين رهط وقد دفت دافة من قومكم فإذا هم يريدون أن يختزلونا من أصلنا وأن يحضنونا من الأمر . فلما سكت أردت أن أتكلم وكنت قد زورت مقالة أعجبتني أردت أن أقدمها بين يدي أبي بكر وكنت أداري منه بعض الحد فلما أردت أن أتكلم قال أبو بكر على رسلك فكرهت أن أغضبه فتكلم أبو بكر فكان هو أحلم مني وأوقر والله ما ترك من كلمة أعجبتني في تزويري إلا قال في بديهته مثلها أو أفضل منها حتى سكت فقال ما ذكرتم فيكم من خير فأنتم له أهل ولن يعرف هذا الأمر إلا لهذا الحي من قريش هم أوسط العرب نسبا ودارا وقد رضيت لكم أحد هذين الرجلين فبايعوا أيهما شئتم فأخذ بيدي وبيد أبي عبيدة بن الجراح وهو جالس بيننا فلم أكره مما قال غيرها كان والله أن أقدم فتضرب عنقي لا يقربني ذلك من إثم أحب إلي من أن أتأمر على قوم فيهم أبو بكر اللهم إلا أن تسول لي نفسي عند الموت شيئا لا أجده الآن . فقال قائل من الأنصار أنا جذيلها المحكك وعذيقها المرجب منا أمير ومنكم أمير يا معشر قريش . فكثر اللغط وارتفعت الأصوات حتى فرقت من الاختلاف فقلت ابسط يدك يا أبا بكر فبسط يده فبايعته وبايعه المهاجرون ثم بايعته الأنصار . ونزونا على سعد بن عبادة فقال قائل منهم قتلتم سعد بن عبادة فقلت قتل الله سعد بن عبادة قال عمر وإنا والله ما وجدنا فيما حضرنا من أمر أقوى من مبايعة أبي بكر خشينا إن فارقنا القوم ولم تكن بيعة أن يبايعوا رجلا منهم بعدنا فإما بايعناهم على ما لا نرضى وإما نخالفهم فيكون فساد فمن بايع رجلا على غير مشورة من المسلمين فلا يتابع هو ولا الذي بايعه تغرة أن يقتلا
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے، انہوں نے صالح بن کیسان سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، انہوں نے ابن عباسؓ سے، انہوں نے کہا میں مہاجرین میں سے کئی شخصوں کو تعلیم دیا کرتا ان میں عبدالرحمٰن بن عوف بھی تھے۔ ایک روز ایسا ہوا اخیر حج جو عمرؓ نے کیا (۲۳ ہجری میں) اس میں میں منیٰ میں عبدالرحمٰن کے مکان میں تھا۔ وہ عمرؓ کے پاس گئے ہوئے تھے اتنے میں عبدالرحمٰن لوٹ کر آئے کہنے لگے کاش تم بھی یہ واقعہ دیکھتے (ایسا ہوا) ایک شخص (نام نامعلوم) آج عمرؓ کے پاس آیا کہنے لگا امیرالمؤمنین تم فلاں شخص کے باب میں کیا کہتے ہو (اس کا نام معلوم نہیں ہوا) وہ کہتا ہے اگر عمرؓ مر گئے تو فلاں شخص (طلحہ بن عبیداللہ) سے بیعت کروں گا کیونکہ خدا کی قسم ابو بکرؓ سے تو ناگہانی (بغیر سوچے سمجھے) بیعت ہو گئی تھی۔ یہ سن کر عمرؓ (بہت) غصّے ہوئے۔ اس کے بعد کہنے لگے انشاءاللہ میں شام کو لوگوں میں کھڑا ہو کر خطبہ سناؤں گا اور ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی (دخل در معقولات) کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا امیر المؤمنین (برائے خدا ایسا نہ کیجئے) اس موقع پر یہ بیان نہ کیجئے۔ یہ تو حج کا موسم ہے۔ یہاں ہر قسم کے کم ظرف پنچمیل لوگ جمع ہیں۔ آپ جب خطبہ سنانے کھڑے ہوں گے تو آپ کے آس پاس (قریب قریب) اسی قسم کے لوگ اکٹھے ہو جائیں گے۔ میں ڈرتا ہوں جو بات آپ فرمائیں اس کا مطلب معلوم نہیں یہ لوگ کیا کریں یا مطلب نہ سمجھ کو اس پر کیا کیا حاشیے چڑھائیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ ٹھہر جائیں جب مدینہ پہنچ جائیں جو ہجرت اور سنت کا مقام ہے وہاں آپ کو شریف اور سمجھدار لوگوں سے سابقہ پڑے گا اطمینان سے آپ جو چاہیں سو فرما سکتے ہیں۔ وہ لوگ علم والے ہیں آپ کی گفتگو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمرؓ نے کہا اچھا خدا کی قسم! میں مدینہ پہنچ کر پہلے پہل جو خطبہ سناؤں گا اس میں یہی بیان کروں گا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں پھر ہم مدینہ اس وقت آئے جب ذی الحجہ کا مہینہ اخیر ہو گیا تھا (صرف چند روز باقی تھے) جمعہ کے دن ہم صبح سویرے سورج ڈھلتے ہی نماز کے لئےچلے مسجد میں پہنچ کر دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل (جو عشرہ مبشرہ میں اور عمرؓ کے رشتہ دار تھے) منبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہیں۔ میں بھی ان کے آس پاس بیٹھ گیا۔میرے گھٹنے ان کے گھٹنوں سے لگ رہے تھے۔ تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ عمرؓ برآمد ہوئے۔ جب میں نے ان کو آتے دیکھا تو سعید بن زید سے کہا آج عمرؓ وہ باتیں کہیں گےجو انہوں نے خلافت کے وقت سے اب تک نہیں کہیں۔ انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہنے لگے مجھ کو تو یہ امید نہیں ہے کہ وہ ایسی باتیں کہیں گے جو اس سے پہلے نہیں کہی تھیں۔ خیر عمرؓ منبر پر بیٹھے۔ اذان دینے والے جب (اذان دے چکے) خاموش ہوئے تو وہ کھڑے ہوئے۔ پہلے اللہ کی تعریف جیسی چاہئیے ویسی کی۔ پھر کہنے لگے امّا بعد میں تم سے ایک بات کہتا ہوں جس کا میری تقدیر میں لکھا ہو ا تھا مجھ کو معلوم نہیں شاید یہ گفتگو میری آخری گفتگو موت کے قریب کی ہو۔ پھر جو کوئی اس بات کو سمجھے اور یاد رکھے اس کو لازم ہے کہ جہاں تک اس کی اونٹنی پہنچے اس بات کو مشہور کرے اور جو کوئی نہ سمجھےتو میں اس کیلئے یہ درست نہیں جانتا کہ وہ مجھ پر جھوٹ باندھے۔ دیکھو اللہ تعالٰی نے محمدﷺ کو سچا پیغمبر بنا کربھیجا۔ ان پر قرآن اتارا۔ اسی قرآن میں رجم کی آیت بھی اللہ تعالٰی نے اتاری۔ ہم اس نےکو پڑھا اس کا مطلب سمجھا اس کو یاد رکھا۔ رسول اللہﷺ نے اس پر عمل کیا۔ زنا کرنے والے کو رجم کیا۔ اور ہم لوگ بھی آپؐ کی وفات کے بعد زانی کو رجم کرتے رہے۔اب میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایک مدت گزر جائے اور کوئی کہنے والا یوں کہے خدا کی قسم رجم کی آیت تو ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتےاور اللہ کا ایک فرض جس کو اس نے اتارا ترک کر کے گمراہ ہو جائیں۔ دیکھو (ہوشیار رہو) جو شخص مرد ہو یا عورت محصن ہو کر زنا کرے اس پر اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے۔ یہ زنا گواہوں سے ثابت ہو یا حمل نمودار ہونے سے یا اقرار سے۔ اللہ کی کتاب میں ہم دوسری آیتوں کے ساتھ یہ آیت بھی پڑھتے تھےاپنے باپ داداؤں کو چھوڑ کر دوسروں کو باپ دادا بناؤ یہ کفر ہے (یعنی اپنے باپ دادا کو چھوڑ کر دوسروں کا باپ دادا بنانا صریح ناشکری ہے) سن لو رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو جیسے نصارٰی نے عیسٰیؑ کی تعریف میں مبالغہ کیا (بندے سے خدا بنا دیا) یوں کہو میں اللہ کا بندہ اوراس کا رسول ہوں۔مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے اگر عمرؓ مر گئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کر لوں گا۔ دیکھو تم میں سےکسی کو یہ دھوکہ نہ ہو باوجود یہ کہ ابو بکرؓ سے ناگہانی (بن سوچے سمجھے) بیعت ہوئی تھی لیکن وہ چل گئی۔ بات یہ ہے بیشک ابوبکرؓ کی بیعت ناگہانی ہوئی تھی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوتی ہے اس سے تم کو بچا رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ابوبکرؓ کا سا (متقی اور پرہیز گار اور خدا ترس) تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لئے اونٹ چلائے جاتے ہوں(لوگ سفر کرتے ہوں) دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح اور مشورہ (اتفاق یا غلبہ آرا )کے بیعت نہ کرے۔ جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور جس سے بیعت کی دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔ اور سنو ابو بکرؓ کا حال سنو۔ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی تو انصاری ہمارے خلاف ہو گئے(انہوں نے کسی انصاری کو خلیفہ کرنا چاہا) اور سب کے سب جا کر بنی ساعدہ کے منڈوے میں اکٹھا ہوئے (اور وہاں خلافت کا مشورہ کرنے لگے) ۔ ادھر علیؓ اور زبیرؓ اور ان کے ساتھ والے (بنی ہاشم) بھی مخالف تھے۔ لیکن باقی سب مہاجرین ابوبکرؓ کی طرف رجوع ہوئے ان کے پاس جمع ہو گئے۔ ابو بکرؓ نے کہا چلو اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلو۔ ہم اس ارادے سے نکلے جب ان کے قریب پہنچے تو رستے میں دو نیک بخت (انصاری) آدمی ملے۔انہوں نے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے (سعد بن عبادہ کو خلیفہ ٹھہرائیں) اور ہم سے پوچھا مہاجرین بھائیوں تم کہاں جا رہے ہو؟ ہم نے کہا اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھو وہاں مت جاؤ (وہ دوسری فکر میں ہیں تم کو جو کرنا ہے کر ڈالو۔ لیکن میں نے کہا خدا کی قسم ہم تو ضرور ان کے پاس جائیں گے۔آخر ہم گئے۔ دیکھا تو ان انصاریوں میں ایک شخص کپڑے لپیٹا بیٹھا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا سعد بن عبادہ ہیں (خزرج کے سردار)۔ میں نے پوچھا کیوں کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ان کو بخار آ رہا ہے۔ خیر تھوڑی دیر ہم وہاں بیٹھے اتنے میں خطیب (ثابت بن قیسؓ بن شماس یا اور کسی) نے تشھد پڑھا اور جیسی چاہئیے ویسی اللہ کی تعریف کی پھر کہنے لگے ہم لوگ انصار اللہ (یعنی اللہ کی مدد کرنے والے) ہیں اور اسلام کی فوج ہیں۔ اور مہاجرین بھائیو تم لوگ تھوڑے سے لوگ ہو (ایک قلیل جماعت) تمھاری یہ ذری سی ٹکڑی اپنی قوم (یعنی قریش) سے نکل کر ہم لوگوں میں آرہے۔ اب تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو (یہ کبھی نہیں ہو سکتا)۔ جب خطیب یہ خطبہ سنا چکا تو میں نے گفتگو کرنی چاہی۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں تیار کر رکھی تھی۔ میں چاہا کہ ابو بکرؓ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں۔ اور انصاری کی تقریر سے جو ابوبکرؓ کو غصّہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں۔ جب میں نے بات کرنا چاہا تو ابوبکرؓ نے کہا ذرا ٹھہرو۔ میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا آخر انہوں ہی نے تقریر شروع کی۔ اور خدا کی قسم وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ (اور متین) تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے ذہن میں سوچ لی تھی اس میں سے کوئی بات انہوں نے نہیں چھوڑی۔ فی البدہیہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھور خاموش ہو گئے۔ ابو بکرؓ کی تقریر کا خالصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے سزاوار ہو۔ مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان کے تمام عرب کی قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں۔ اب تم لوگ ایسا کرو ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکرؓ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراحؓ کا ہاتھ تھاما وہ ہم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ کو ابوبکرؓ کی کوئی بات بری معلوم نہیں ہوئی مگر یہی بات خدا کی قسم اگر بڑھا کر میری گردن ماریں اور میں کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں تو یہ مجھ کو زیادہ پسند تھا کہ میں ان لوگوں کی سرداری کروں جن میں ابوبکرؓ موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مرتے وقت میرا نفس مجھ کو بہکا دےاور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو ان تک نہیں کرتا۔ خیر پھر انصار میں ایک کہنے والا (حباب بن منذرؓ) یوں کہنے لگا سنو سنو! میں وہ لکڑی ہوں جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتا ہے اور میں وہ باڑ ہوں جو درخت کے گرد لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والو تمھاری قوم کا۔ اب خوب گلخب ہونے لگی (کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا) غل مچ گیا میں ڈر گیا کہیں مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جاتی۔ آخر میں کہہ اٹھا ابوبکرؓ اپنا ہاتھ بڑھاؤ۔ انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین نے بھی (جتنے وہاں موجود تھے) بیعت کر لی۔ پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی(چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہؓ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص (نام نامعلوم) انصاریوں میں سے کہنے لگا بھائیو! سعد بن عبادہ (بیچارے) کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ تعالٰی اس کا خون کرے گا۔ عمرؓ نے (اس خطبے میں) یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکرؓ کی خلافت سے زیادہ ضروری کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی۔ کیونکہ ہم کو یہ ڈر پیدا ہوا ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو۔ وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں۔ تب دو صورتوں سے خالی نہ ہوتا۔ یا تو ہم جبرا قہراً (دل نہ چاہتا) اسی سے بیعت کر لیتے۔ یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) ۔ دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی شخص سے بن سوچے سمجھے بن صلاح اور مشورے بیعت کر لےتو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کریں نہ اس کی جس کی بیعت کی گئی کیونکہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔