• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترکی میں عسکری انقلاب ؟!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
پس ثابت ہوا---!!

حکمرانی زمیں کے ٹکڑے پر نہیں دلوں پر کی جاتی هے .ایک ٹیلی فون کال ایک ٹوئٹ ایک میسج پر آدهی رات میں پوری قوم کو سڑکوں پر لا کر صرف دو گهنٹوں بغاوت کچل دینا صرف دلوں کے سودے ہیں...
اردگان صرف ترک عوام کا ہیرو نہیں
امت مسلمہ کی دل کی دهڑکن ، آنکه کا تارا بهی هے
الله اردگان کی حفاظت کرے - آمین یا رب العالمین

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
ترک عوام نے باغی فوجی گروپ کی اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادی

ویب ڈیسک ہفتہ 16 جولائ 2016


باغی گروپ نے گن شپ ہیلی کاپٹروں سے فائرنگ کی جس سے متعدد شہری بھی زخمی ہوئے، غیر ملکی خبر ایجنسی، فوٹو؛ اے ایف پی

انقرہ: ترکی میں فوج کے ایک باغی گروپ نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی جسے ترک صدر کی اپیل پر عوام، پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا جب کہ باغیوں کی جانب سے فائرنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں 17 پولیس اہلکاروں سمیت 42 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی بھی ہوئے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترک فوج کے ایک باغی گروہ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جسے ترک عوام، پولیس اور فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔ ترک حکومت نے تمام اداروں کا کنٹرول دوبارہ سے حاصل کر لیا ہے جب کہ استنبول ایئرپورٹ پر معطل فلائٹ آپریشن بھی بحال کر دیا گیا ہے۔ ترک کے اقلیتی فوجی گروپ کی جانب سے گن شپ ہیلی کاپٹرز سے فائرنگ اور جیٹ طیاروں سے بمباری کے واقعات میں 17 پولیس اہلکاروں سمیت 42 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

بغاوت کی کوشش ناکام ہونے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک اقلیتی فوجی گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جسے عوام، پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں اور جمہوریت میں عوام کی طاقت سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہوتی، فوج کو بتانا چاہتا ہوں کہ انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق کام کرنا ہو گا، باغیوں کو پنسلوانیا سے احکامات مل رہے ہیں، جس ہوٹل میں قیام پزیر تھا اس پر بھی بمباری کی گئی لیکن اب میں عوام میں موجود ہوں، آرمی چیف اس وقت کہاں ہوموجود ہیں اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں۔

رجب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ فوج کو دشمن کے خلاف استعمال کے لئے اسلحہ اور ٹینک دیئے لیکن اقلیتی فوجی گروہ نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر بغاوت کی، جن لوگوں نے بغاوت کی انھیں سخت سزا دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ اپنی فوج سے گندے عناصر کا خاتمہ کیا جائے، باغی فوجی گروہ کے 120 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، دیگر باغی لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ خود سے گرفتاری دے دیں تو انھیں عدالت سے کم سے کم سزا دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ترکی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن میں بتایا چاہتا ہوں کہ آج کا ترکی بہت مختلف ہے، ترکی کی خوشحالی کا سفر جاری رہے گا۔

ترک وزیراعظم بن علی یلدرم کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ حکومت نے بغاوت کی کوشش مکمل طور پر ناکام بنادی ہے تاہم کچھ مقامات پر فائرنگ کے واقعات پیش آ رہے ہیں جن پر کنٹرول کی کوشش کی جا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باغیوں کے کنٹرول میں موجود گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جیٹ طیاروں کو مار گرانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں جب کہ جنرل امیت دندار کو فوج کا قائم مقام سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔

ترکی کے مقامی میڈیا کے مطابق ترک فوج کے ایک باغی گروپ نے ملک میں جمہوری حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی اور اس حوالے سے ملک کا انتظام سنبھالنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔

ترک فوج کے باغی گروپ کی جانب سے جاری بیان میں اقتدار سنبھالے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہماری کارروائی مصر کی فوجی بغاوت سے مختلف ہے، ملک میں آئینی و جمہوری انسانی حقوق کی بحالی اور جمہوری اقدار کے لیے اقتدار سنبھالا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ترکی تمام ممالک سے اپنے تعلقات جاری رکھے گا، انسانی حقوق کا احترام کیا جائے گا اور خارجہ امور سے متعلق بھی تعلقات قائم رکھیں گی جب کہ قانون کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق فوج کے ایک مسلح باغی گروپ نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی جس میں کرنل رینک کے افسران شامل تھے، اس گروپ کی جانب سے استنبول کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں کئی رہنماؤں کو یرغمال بنالیا گیا اور ترک فوج کے سربراہ جنرل حلوثی آکار سمیت دیگر جرنیلوں کو نظر بند کردیا گیا تاہم ترک حکومت کی حامی سرکاری فوج نے کارروائی کرتے ہوئے باغیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا اور یرغمالیوں کو بازیاب کرالیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق باغی فوجی گروپ کے اہلکاروں کی جانب سے ایوان صدر اور پارلیمنٹ کا بھی محاصرہ کیا گیا، اتاترک ایئرپورٹ پر تمام پروازیں منسوخ کردی گئیں اور ایئرپورٹ کو بند کردیا گیا، ملک بھر کے ایئرپورٹس بند کرکے ان پر ٹینک پہنچادیئے گئے، باغی فوج کی بھاری نفری نے ملک کے اہم مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا جب کہ فوجی گروپ نے ترکی کے سرکاری ٹی وی پر بھی قبضہ کرلیا۔

ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملک میں فوجی بغاوت کے بعد مارشل لاء نافذ کرکے کرفیو لگانے کا اعلان کیا گیا جب کہ صدر اور وزیراعظم کے دفاتر پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ سرکاری میڈیا کے مطابق باغی فوجی گروپ کا کہنا تھا کہ ملک کا نیا آئین جلد تیار کرلیا جائے گا اور جب تک ملک کا نظم و نسق امن کونسل چلائے گی۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکی میں فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس بند کردی گئی ہیں اور ملک میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر بند کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ ترک دارالحکومت انقرہ میں فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے پولیس ہیڈ کوارٹر پر دھماکے اور فائرنگ کی جس کے بعد شہر دھماکوں کی زوردار آوازوں سے گونج اٹھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق باغیوں کی جانب سے پارلیمنٹ پر بھی حملہ کیا گیا جس میں دھماکے اور فائرنگ کی آوازی سنی گئیں اور اس کے نتیجے میں 12 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

فوج کے ایک گروپ کی جانب سے بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملک کے نجی میڈیا پر بذریعہ ٹیلی فون قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادیں گے اور اس طرح کا قدم اٹھانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے، بغاوت کی کوشش کرنے والوں کو کچل دیں گے اور صورتحال پر جلد قابو پالیں گے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ باغی فوجی گروپ جلا وطن رہنما فتح اللہ جولان کے حامی ہیں جو امریکا میں مقیم ہیں۔

ترک صدر نے اپنے خطاب میں عوام سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادیں۔ ترک صدر کی اپیل کے بعد ملک میں کرفیو کے اعلان کے باوجود عوام کی بڑی تعداد رات گئے استنبول کے تقسیم اسکوائر اور انقرہ سمیت دیگر شہروں میں نکل آئی اور ترک صدر کی حمایت میں نعرے بازی شروع کردی، ترک عوام باغی گروپ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے، فوجی اہلکاروں کو عوام کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، عوام کی بڑی تعداد آگے بڑھتے ہوئے فوجی ٹینکوں پر ڈنڈے برسانا شروع کردیئے اور بعض لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، وزیراعظم ہاؤس کی جانب جانے والے ٹینکوں کو عوام کی بڑی تعداد نے سامنے آکر روک لیا، عوام وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے والے ٹینکوں پر چڑھ گئے جس کے باعث ٹینکوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک فوج کے ایف 16 طیارے نے باغی گروپ کا گن شپ ہیلی کاپٹر مار گرایا جس کے بعد باغی ٹولے کے گن شپ ہیلی کاپٹر نے پولیس اور عوام پر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 17 پولیس اہلکار جاں بحق اور متعدد شہری زخمی ہوگئے۔ خبر ایجنسی کے مطابق انقرہ کے ایئرپورٹ میں داخل ہونے والے فوجیوں کو عوام نے باہر نکال دیا جب کہ استنبول میں پولیس ہیڈ کوارٹر میں گھسنے والے باغی اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

ترک وزیراعظم علی بن یلدرم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ فوج کے ایک گروپ نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی ہے اور جس گروپ نے یہ کارروائی کی اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی، سیکیورٹی فورسز اس گروپ سے نمٹ لیں گے اور ہم اقتدار واپس لے کر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ باغی فوجی ملک کے غدار ہیں، جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ملٹری قیادت نے فوجیوں کو بیرکوں میں واپس جانے کا حکم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی کوئی تیسری دنیا کا ملک نہیں ہم اس طرح کی صورتحال سے نمٹنا جانتے ہیں۔

ترکی کے نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت منتخب جمہوری حکومت ہی قائم ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی حامی فوج باغی ٹولے پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے، فوج کے باغی گروپ کے پاس چند ٹینک اور ہیلی کاپٹر ہیں اور اسی کے سہارے انہوں نے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس باغی گروپ کے عزائم کو جلد ناکام بنادیا جائے گا، آمریت کو ہر صورت پیچھے دھکیل دیں گے، باغیوں کا ٹولہ زیادہ تر علاقوں میں ناکام ہوگیا ہے، ایسے باغیوں کو شرمناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

استنبول کے گورنر کے مطابق فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور عوام کی طاقت سے باغی فوجیوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے جب کہ حکومت کی حامی سرکاری فوج کا کہنا ہےکہ سرکاری ٹی وی سے باغی گروپ کا قبضہ ختم کرادیا گیا ہے اور عوام چھوٹے سے باغی ٹولے سے نہ ڈریں کیونکہ ان کے عزائم کو ناکام بنادیا جائے گا۔

ترک خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے ملک میں بغاوت ناکام بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ باغی فوجیوں کو سرکاری عمارتوں سے باہر نکال دیا گیا ہے اور بڑی تعداد میں باغی فوجی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ترک فوج نے سرکاری ٹی وی کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا جب کہ سرکاری ٹی وی کے دفتر اور صدارتی محل میں گھسنے والے باغی فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ترک وزیراعظم کا کہنا ہےکہ چیف آف آرمی اسٹاف اور کمانڈوز نے صورتحال پر قابو پالیا ہے جس کے بعد انقرہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرکے اسے نو فلائی زون قرار دے دیا گیا ہے۔

ترک وزیراعظم کا کہنا ہے کہ بغاوت کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا ہے اور اب صورتحال کافی حد تک کنٹرول میں ہے۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی، بغاوت کو مکمل طور پر ناکام بنادیا گیا ہے، باغی فوجیوں پر مقدمے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں جب کہ ہتھیار ڈالنے والوں کو کم سزا دی جائے گی۔ ترک حکومت کے اعلان کے بعد باغی فوجیوں نے استنبول اور انقرہ میں ہتھیار ڈال دیئے ہیں، پولیس کی جانب سے باغی فوجیوں کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان 2003 سے اقتدار میں ہیں وہ 2014 میں وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑ کر صدر بنے، رجب طیب اردگان ملک میں صدارتی نظام کے حامی تھے اور ملک میں نیا آئین بنانا چاہتے تھے جب کہ رجب طیب اردگان فوجی مداخلت کے بھی شدید مخالف تھے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
کچھ " غیرت" ادھار ہی دے دو....
..
میرے گھر میں ٹی وی نہیں..رات جلد سوگیا ..صبح تڑکے جب آنکھ کھلی تو
"بدلا ہوا زمانہ تھا " رات رات میں انقلاب آیا اور رخصت بھی ہو گیا...اب ہر طرف اترے اور کھلے چہرے ہیں ...بہت سوں کے چہروں سے نقاب اتر گئے...لیکن حیاء سے عاری ہیں ..نقاب کوئی پہلی بار اترے ہیں ....جو جمہوریت کے چیمپین بنتے تھے...رات فوجی بغاوت پر یوں اچھل رہے تھے جیسے ان کے ابو جان ترکی کے "چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر" لگ رہے ہیں....بغاوت ناکام ہوئی تو اب پھر سے جمہوریت بی بی کے منہ بولے بھائی بن گیے ہیں....
اور میں تو ترکوں سے باقاعدہ حسد محسوس کر رہا ہوں....پاکستان میں چار فوجی حکمران آئے...اور ان میں سے تین نے عوامی حکومت کے خلاف بندوق والی بغاوت کی...اور کہیں ایک پتا بھی نہ کھڑکا....لاکھوں تو کیا درجنوں افراد بھی کم ہی سڑکوں پر نکلے....صرف ایک بار معمولی سی مزاحمت کا مظاہرہ بھٹو کے ماننے والوں نے اندرون سندھ میں کیا... وگرنہ مٹھائیاں ہی بانٹیں گئیں...
لاہور میاں نواز شریف کا قلعہ ہے...میں نواز شریف کا ازلی ناقد ہوں ..اور سچی بات ہے کہ لاہور سے انتحابات میں نواز شریف کو ہرانا بہت ہی مشکل ہے...لیکن آج اگر ہمارے ہاں فوج اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے تو یقین جانئے مسلم لیگ ایک سو بندے بھی سڑکوں پر نہیں نکال سکتی...
.دیکھئے میری بات تلخ ہے لیکن اس کے اسباب پر غور تو کیجئے..حکمران اتنے کرپٹ ہیں کہ عوام کی بلا سے جہنم میں جائیں یا جلاوطن ہو کر جدہ جائیں ...وہ پھر بھی انہی بدعنوانوں کو ووٹ دیتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں،...اب عمران خان کا نام نہ لیجئے گا وہ قصہ پارینہ ہو چکے..کہ ان کے گرد وہی لوگ جمع ہیں جو پہلے انہی کرپٹ حکومتوں کا حصہ تھے سو ان کی ذاتی دیانت اب عوام کو متاثر نہیں کرتی...
پھر ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ کرپشن اور بددیانتی کو اپنا حق جانا..سو عوام میں بھی یہی سوچ ہے کہ موقع ملے تو جانے نہ دینا...سو غیرت اور حمیت کہاں سے آئے؟
معاف کیجئے گا...جب پاکستان بنا تب ہی مسلم لیگ کے لیڈران کرپشن میں مبتلا ہو گئے تھے الا ما شااللہ...جعلی کلیم پر زمین کی الاٹمنٹ تب پسندیدہ کرپشن تھی ..پھر کرپشن ترقی ہی رہی.اور ایسی ایسی صورتیں ایجاد میں آئیں کہ کبھی تو داد دینا بنتی ہے....میاں صاحبان اور زرداری وغیرہ نے الگ ہی طرز جنوں ایجاد کی...
پھر حمیت کی بیداری میں اگلا کردار میڈیا کا ہوتا ہے...حقیقی بات ہے ہمارا میڈیا ہی ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے...اس نے معاشرے کو انتہائی حد تک برباد کر دیا.. ..جو قوم کی بیٹیوں کو صبح شام نچوائے..ان کے کپڑے اترواننے کی فکر میں ہر دم رہے...اور اس پر ان کی روٹی روزی کا مدار ہو تو بتائیے اس بازار کے دلال میں اور ان میں کیا فرق ہے ؟..اور قوم بھی اس کی راہ پر لگ جائے تو غیرت نام کی جنس رخصت نہ ہو کیا کرے؟
رہا مذھبی طبقہ ..اس کو اتنا بدنام کر دیا گیا کہ وہ اپنا وجود بچانے کے چکر میں سرگرداں ہے...اور یہ کام بھی میڈیا نے بخوبی کیا...اگر کوئی کہے کہ بلا قمیت کیا تو جھوٹ کہے گا..لمبا قصہ ہے کبھی الگ سے لکھوں گا....بس اتنا ہی کہ مذھبی طبقہ اب کسی تحریک کو بپا کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں
اب جب غیرت اس گھر سے کب کی رخصت ہوئی تو جناب ترکوں کی طرف ہم حسد سے نہ دیکھیں گے تو کیا کریں؟...

......................................ابوبکر قدوسی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بغاوت کچلنے میں کامیابی پر پاکستان کے معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی صاحب کا ترکی صدر کے نام تہنیتی خط :
WhatsApp-Image-20160716.jpeg
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ملا عمر صبح سے ہی یاد آگئے۔
جتنی منافقت مغرب میں پائی جاتی ہے ..اس کی مثال ملنا بھی مشکل ہے..اگلے روز چانکیہ کی کتاب دیکھ رہا تھا..لیکن اس کی چکا چوند اب ان کے آگے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے..
..رجب طیب اردگان نے امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے....ان کا خیال ہے کہ بغاوت کے پیچھے گولن کا دماغ کام کر رہا تھا..امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ
"ترکی ثبوت پیش کرے"۔
.بجا کہا لیکن پھر سے کہیے ...
یہی بات ملّا عمر کہتے کہتے دنیا سے چلے گئے..جب امریکہ نے کہا کہ
"اسامہ بن لادن حملوں میں ملوث ہے اور اسے ہمارے حوالے کیا جایے.."
تب ملا عمر کا یہی کہنا تھا کہ شواہد پیش کریں.......لیکن امریکہ کے پلے کچھ ہوتا تو بتاتا...اس کے جواب میں ہر دن بہتری اور امن کی طرف جاتے ملک پر حملہ کر کے لاکھوں معصوم افراد کو قتل کردیا گیا....
..جان کیری کو کون بتائے کہ آپ نے ایک احمقانہ مطالبہ کیا ہے...اس کا جواب مہذب دنیا میں بمباری ہوتا ہے..ملک کو برباد کر دینا ہوتا ہے...معصوم انسانوں کا قتل ہوتا ہے..اور پھرآخر میں "سوری" بولا جاتا ہے............ابوبکرقدوسی
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
ترکی اور پاکستان
دلائل کا رخ اِس جانب ہے کہ خاطرجمع رکھیے،پاکستان کے عوام اس طرح نواز شریف صاحب کے حق میںنہیں اٹھیں گے جیسے ترکی میں اردوغان صاحب کے حق میں اٹھے۔ میرے نزدیک یہ مقدمہ ہی غلط ہے کہ یہ کسی فردِ واحد کی حمایت یا مخالفت کا سوال ہے۔ لوگ جمہوریت کے حق میں اورفوجی آمریت کے خلاف اٹھے۔ درست تقابل یہ ہے کہ انسانی معاشروں کوجمہوریت چاہیے یا مارشل لا؟ ترک عوام نے اپنی جان دے کر جمہوریت کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔
اس میں شبہ نہیں کہ اہلِ سیاست ہی جمہوریت کا چہرہ ہوتے ہیں۔ ان کی کارکردگی ہی جمہوریت کے حق میں برہان بنتی ہے؛ تاہم جمہوریت محض اہلِ سیاست کی کارکردگی نہیں ہے۔ جمہوریت صرف گڈگورننس نہیں ہے۔یہ ایک انسان کے اس بنیادی حق کا اعتراف ہے کہ اسے ماں نے آزاد جنا ہے اور کوئی اسے زنجیریں نہیں پہنا سکتا۔ جمہوریت آزاد عدلیہ ہے۔ جمہوریت ذمہ دار میڈیا ہے۔ جمہوریت آزادی رائے کا حق ہے۔ جمہوریت میرے اس حق کا اعتراف ہے کہ اگر میں کسی حکمران سے خوش نہیں تو میں اسے اپنے ووٹ سے تبدیل کر سکتا ہوں۔ جمہوریت انسان کے فکری ارتقا کا حاصل ہے کہ انسان اس سے بہتر نظامِ حکومت دریافت نہیں کر پایا۔ وہ کر ہی نہیں سکتا تھا کہ اس پر آسمان سے اترنے والے الہام نے مہرِ تصدیق ثبت کی ہوئی ہے۔
میں نہیں جان سکا کہ پاکستان میں لوگ جمہوریت اور مارشل کا موازنہ کیسے کر تے ہیں؟ مجھے حیرت ہوتی ہے جب دانش ور نوازشریف اور راحیل شریف کا بطور لیڈر تقابل کرتے ہیں۔ نواز شریف کا تقابل عمران خان سے ہو سکتا ہے۔ یہ آصف زرداری سے ہو سکتا ہے۔ راحیل شریف صاحب کا تقابل ہو گا تو اشفاق کیانی صاحب سے ہوگا، جہانگیر کرامت صاحب سے ہوگا۔ حریف ایک ہی شعبے سے ہوتے ہیں۔امریکہ میں عام آ دمی یقیناً نہیں جانتا ہے کہ امریکی فوج کا سر براہ کون ہے۔ تاہم وہ یہ ضرورجانتا ہے کہ اسے اگر انتخاب کرنا ہے تو ہلری کلنٹن اور ٹرمپ میں کرنا ہے۔ سوچ کا یہی انداز ہے جو امریکہ کو ایک ترقی یافتہ قوم بناتا ہے۔ ترقی صرف معاشی میدان میں نہیں ہوتی، اصل ترقی ذہنی اور فکری ہے۔
پاکستان میں اگر لوگ مارشل لا کے خلاف نہیں نکلتے تو اس پر حیرت اور اظہارِ افسوس ہو نا چاہیے۔پاکستان میں عوام کو بتا نا چاہیے کہ اگر انہیں حقوق چاہیے تو انہیں جمہوریت کا دفاع کرنا ہو گا۔ جمہوریت کسی فردِ واحد کی جاگیر نہیں ہے۔ یہ ایک پاکستانی کی آزادی کا پروانہ ہے۔ جمہوریت ہی میں یہ ممکن ہے کہ اگر کسی کو نوازشریف پسند نہیں تو وہ کسی دوسرے کو لے آئے۔ آج تو پاکستانی عوام کو یہ بتا نے کی ضرورت ہے کہ ترکی کے عوام نے جس طرح اپنے حقِ آزادی کی حفاظت کی، انہیں بھی کرنی چاہیے۔ ملک آئین اور قانون سے چلتے ہیں۔ اگر آئین پر عمل نہ ہو تو اس کا علاج بھی جمہوریت ہی ہوتا ہے۔ مارشل لا آئین کو معطل کیے بغیر بروئے کار آ ہی نہیں سکتا۔ ہر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سب سے پہلے کوئی 'پی سی او‘ جاری کرتا ہے جو آئین کی جگہ لیتا ہے۔ مارشل لا کا سادہ ترجمہ ہے: 'لاقانونیت‘۔
پاکستان میں مارشل لا کیوں کامیاب ہوئے؟اس کی وجہ اہلِ سیاست، عدلیہ اور میڈیا ہیں۔ اہلِ سیاست نے مٹھائیاں بانٹیں۔ اہلِ صحافت نے آ مروں کو 'مردِ حق‘ کے خطابات دیے اور عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو راہنما اصول مانا۔ ترکی میں اہلِ سیاست نے‘ جو اردوغان کے شدید ناقد ہیں، فوجی اقتدار کو مسترد کیا۔ یہاں تک کہ فتح اللہ گولن نے بھی جنہیں اردوغان صاحب اس بغاوت کا اصل مجرم قرار دے رہے ہیں۔ اردوغان پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ بیٹا ایک بڑے سکینڈل میں ملوث ہے۔ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ ان پر بادشاہ بننے کا جنون سوار ہے۔ اس دور میں ایک ہزار کمروں کا صدارتی محل کسی جمہوریت پسند کے لیے قابلِ قبول نہیں۔یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اگر عوام فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تو وہ کسی فردِ واحد کے اقتدار کے لیے نہیں، اپنے آزادی رائے کے حق کے لیے قربان ہونے پر آمادہ تھے۔
اس میں شبہ نہیں کہ گڈ گورننس کے بغیر جمہوریت ادھوری ہے۔ اگر حکمران اس کا مظاہرہ نہ کر پائیں تو پھر لوگ بیزار ہوتے ہیں۔ یہ بے زاری حدسے بڑھ جائے تووہ اس بات ہی سے لاتعلق ہو جاتے ہیں کہ قصرِ اقتدار میں کون بیٹھا ہے، سیاست دان یا فوجی۔یہ بے حسی باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔ اہلِ دانش کا کام ہے وہ لوگوں کو اس سے نکالیں۔ انہیں بتائیں کہ یہ جمہوریت ہی ہے جس میں ایک سے زیادہ راستے ہوتے ہیں۔ آ مریتوں میں انتخاب نہیں ہوتا۔اس لیے وہ تو کسی صورت مسئلے کا حل نہیں ۔
انسانوں کو راہنمائی کی وہیں ضرورت ہو تی ہے جہاں ان کے لیے انتخاب مشکل ہو۔قرآن مجید نے حرام حلال کا قانون بتایا کہ طیبات حلال ہیں اور خبائث حرام۔انسانی فطرت کو بھی اس کا شعور ودیعت کر دیا۔ نبیﷺ نے اس کی شرح کر دی۔ فطرت سور کے بارے میں ابہام کا شکار تھی کہ مویشیوں (بہائم) میں شمار ہوتا ہے اوردرندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے۔ اسے حلال سمجھا جائے یا حرام؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر بتا دیا کہ حرام ہے۔ یوں ابہام کو ختم کر دیا۔عام آدمی کا معاملہ یہی ہوتا ہے کہ امورِ دنیا و سیاست میں فطرت کے اصول پر چلتا ہے۔اسے وہاں راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ابہام ہو۔جمہوریت یا مارشل لا بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے کہ خوبیاں خامیاں آمروں میں ہوتی ہیں اور سیاست دانوں میں بھی۔ یوںعام آدمی خود حرام حلال کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ یہ اہل دانش ہیں جنہیں بتانا ہے کہ جمہوریت اور مارشل لا میں، 'حلال‘ کیا ہے اور 'حرام‘ کیا۔ پاکستان کے آئین میں بھی صاف لکھا ہوا ہے۔ کم از کم اس کا ہی ابلاغ ہو جائے۔
آج قوم کی ضرورت ہے کہ اسے بعض بنیادی امور میں باشعور بنایا جائے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ملک کو کون سا نظام چاہیے: آمریت یا جمہوریت؟ اسے اصلاً تقابل کن کے مابین کر نا ہے؟ نواز شریف، عمران خان اور زرادری میں یا نوازشریف اور راحیل شریف میں؟ حکمرانوں کے انتخاب میں اخلاقیات کی کیا اہمیت ہے اور کیوں اس بات کو پیش نظر رہنا چاہیے؟ مغرب کی کامیابی کا ایک راز یہ ہے کہ انہوں نے بنیادی نظامِ اقدار کے باب میں لوگوں کو یکسو کر دیا ہے۔اس کا ثمر سماجی اور سیاسی استحکام ہے۔آج ہمیں بھی اسی کی ضرورت ہے۔
یہ کوئی خوش خبری نہیں کہ اگر پاکستان میں مارشل لا لگتا ہے تو عوام ترکی کی طرح نہیں اٹھیں گے۔اللہ نہ کرے کہ ہم پر وہ وقت آئے لیکن اہلِ دانش کی ذمہ داری عوام کی شعوری تربیت اور انہیں یہ بتاناہے کہ خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر انہیں کیا کرناہے۔یہ کسی فرد کا نہیں، ایک بنیادی قدر کا معاملہ ہے۔ضیاالحق مر حوم ممکن ہے شخصی خوبیوں کے اعتبار سے بھٹو صاحب سے بہتر ہوں مگر انہوں نے اس ملک اور معاشرے کو جو نقصان پہنچایا ہے،بھٹو صاحب اس کا عشرِعشیر بھی نہیں پہنچا سکے۔اگر پاکستان میں کوئی واقعہ ہوتا اورعوام لاتعلق رہتے یا اہلِ دانش اس کا جواز ڈھونڈتے ہیں تو یہ صدمے کی بات ہوگی کسی خوش خبری کی نہیں۔
مشرف صاحب نے جس دن مارشل لا نافذ کیا، میں اپنے مرحوم دوست خلیل ملک کے ساتھ تھا۔ انہوں نے ملک کے ایک بڑے صحافی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل وہ اپنے اخبار کے صفحہ اوّل پر یہ اداریہ لکھیں کہ ہمیں ماشل لا قبول نہیں تو یہاں فوجی آمریتوں کا روازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ افسوس کہ اس وقت جابر سلطان کے سامنے کسی نے کلمہ حق نہیں کہا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ آج بھی ایسا ہوا تو کلمہ حق کہنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ہاں یہ دلائل تراشنے والے بہت ہوں گے کہ یہ اہلِ سیاست کے کیے کی سزا ہے۔ پاناما نہ ہوتا تو مارشل لا بھی نہ ہوتا!
خورشید ندیم​
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
ترک فوجی بغاوت پر پاکستانی و عالمی مسخروں کے گهناونے کردار پر لکها گیا کالم

1103636445-2 (1).gif

 
Last edited by a moderator:

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکی وزير خارجہ جان کیری نے ترکی ميں حکومت کا تختہ الٹنے کے ردعمل ميں منتخب جمہوری حکومت، قانون کی بالادستی اور شہريوں کی جان و مال کے تحفظ کے ليے حکام کی جانب سے تمام تر ضروری احتياطی تدابير کے ليے امريکی حمايت کا اعادہ کيا ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/


 
Top