• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترکی کی اسرائیل دوستی اور مزعوم "خليفة المسلمين" كى منافقت

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ترکی کی اسرائیل دوستی
اور مزعوم "خليفة المسلمين" كى منافقت



✍بقلم : ڈاکٹر اجمل منظور

میں نے اس مضمون کے ذریعے کوشش کی ہے کہ ترکی کی اصل حقیقت کھل کر لوگوں کے سامنے آجائے، اس کی اسرائیل دوستی کا پردہ فاش ہو جائے نیز تحریکیوں کے مزعوم روحانی قائد اردگان کے حقیقی چہرے سے بھی پردہ اٹھ جائے اور تحریکیوں کی تمام قلعی اتر جائے۔

چنانچہ یہ سچ ہے کہ اردگان دین پسند ہیں لیکن کس منہج کا دین ؟
وہ تقلیدی صوفی منہج جس میں تحریکیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور ساتھ ہى لبرل كا بھى ليبل لگا ہوا ہے؛ کیونکہ نجم الدین اربکان ان کے پکے پیر ومرشد رہ چکے ہیں۔ ترکی میں تبدیلی آئی ہے ۔ اقتصادی ترقی ہوئی ہے۔ اب اسلام پسندوں کیلئے بھی جگہ مل رہی ہے۔ لیکن کیا ترکی اس لائق ہوگیا ہے کہ دینی اعتبار سے مسلمانوں کی سربراہی کرسکے؟ کیا وہاں سے مغرب زدہ اباحیت نواز معاشرے کو بدلا جا چکا ہے؟ کیا بددینی اور الحاد جسے وہاںفخر کی بات سمجھی جاتی ہے اسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا قحبہ خانوں اور شراب کی بھٹیوں کو بند کر دیا گیا ہے؟ یہ ضرور ہوا ہے کہ مسجدوں کے ساتھ وہ سارے مزارات ، درگاہیں اور خانقاہیں بھی کھول دیئے گئے ہیں جو مصطفی کمال اتاترک سے پہلے شرک وخرافات کا اڈہ تھے۔ اور انہیں درگاہوں اور خانقاہوں نے اسے لے ڈوبا تھا۔ ویسے جدید ترکی مشرق وسطی کا اہم ترین ملک ہے جو ایشیا اور یورپ کے سنگم پرواقع ہے۔ ترکی کی سرحدیں آٹھ ممالک سے ملتی ہیں جن میں بلغاریہ ، یونان، جارجیا ، آرمینیا،اذربائیجان، ایران، عراق اور شام شامل ہیں۔ ترکی معاشی ، دفاعی اور محل وقوع کے لحاظ سے دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود عرب اور مسلم ممالک سے زیادہ اسرائیل اور یورپی ممالک کا محافظ ہے۔

آج کل اردگان کو سارے تحریکی اور تقلیدی جس طرح فلسطین کا ہمددر بناکر دنیا کے سامنے پروجیکٹ کر رہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے فلسطینیوں کا سارا درد انہیں کے اندر ہے ۔ یہودیوں کے سب سے بڑے دشمن یہی ہیں۔ مسجد اقصی کی سب سے زیادہ فکر انہیں کو ہے۔ اہل فلسطین کے سب سے بڑے معاون اور مددگار یہی ہیں۔ لیکن کیا واقعی سب کچھ ایسا ہی ہے یا پردے کے پیچھے ایک بھیانک دوسرا سین بھی ہے جسے مسلم دنیا کے سامنے نہیں پیش کیا جاتا؟

چنانچہ یہ ایک تاریخی تلخ حقیقت ہے کہ مشرق وسطی کے اندر روس ، چین، جاپان اور کمنسٹ رجحان کو ختم کرنے کیلئے بیسویں صدی کے نوے کی دہائی میں امریکہ کوجب لبر ل اسلام پسندوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی نظرِکرم رجب طیب اردگان پر پڑی جو اس وقت نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی طرف سے استنبول کے میئر تھے۔ (تحریکیوں کو معلوم ہونا چاہئیے کہ لبرل اسلام کی اصطلاح امریکی ہے جوسب سے پہلے ان کے لبرل امیر جماعت اردگان کیلئے استعمال کی گئی ہے۔ لہذا انہیں چاہئیے کہ اس حقیقت کو چھپا کر بن سلمان کے خلاف اس اصطلاح کو پھیلا کر غلط پروپیگنڈہ سے بچیں کیونکہ بن سلمان نے متوسط اسلام کی بات کہی ہے جو کہ مطلوب بھی ہے اور لبرل اسلام سے بالکل مختلف اور متضاد ہے )۔کیونکہ موجودہ حالات کے پیش نظر ملحد اور بد دین قسم کے لوگوں پر امریکہ کا اعتماد ختم ہوچکا ۔ چنانچہ ترکی میں امریکی (یہودی ) سفیر مورٹن ابرامووچ (Morton Isaac Abramowitz) نے نوے کی دہائی میں اردگان کی ملاقات امریکہ کے ایک اہم سیاست دان پال وولفووچ (Paul Wolfowitz) سے کرائی جو ورلڈ بینک کے صدر ، انڈونیسیا میں امریکی سفیر اور امریکہ کے وزارت دفاع میں ڈپٹی سیکریٹری کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ اور یہ سچ ہے کہ امریکہ جہاں ایک طرف اسرائیل کا مضبوط محافظ ہے وہیں دوسری طرف خطے میں ترکی کا بھی محافظ ہے۔ اسی لئے جب 2010ء کے بعد ترکی اور اسرائیل میں تلخی پیدا ہوئی تو2013ء میں امریکہ سے اوباما نے آکر دونوں میں صلح کرائی تھی۔

-مذکورہ تاریخی حقیقت کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سیکولر اور ملحد ترکی میں اردگان کی لبرل سیاست در اصل صہیونی اور امریکی رحم وکرم پر پروان چڑھی ہے۔ امریکہ میں یہودی لابی کی طرف سے آنجناب کو ہمیشہ زبردست حمایت حاصل رہی ہے۔ بلکہ 2004ء میں یہودیوں کی بہت ہی ایک اہم تنظیم امریکی یہودی کانگریس (American Jews Congress) نے ایک نادر تاریخی قدم اٹھاکر جناب اردگان کو بہادری کا تمغہ پیش کیا اور تنظیم کی طرف سے باقاعدہ یہ اعلان کیا گیا کہ امریکہ کیلئے بہترین خدمات انجام دینے ، اسرائیل کے حق میں بھلا ثابت ہونے اور عالمی پیمانے پر یہودی کمیونٹی کے تعلق سے عمدہ موقف رکھنے کی وجہ سے یہ تمغہ نوازا گیا ہے۔

مذکورہ عبارت سے واضح ہوا کہ اردگان کو باقاعدہ امریکہ واسرائیل کی خدمت اور ان کی مصلحتوں کو مشرق وسطی میں پورا کرنے کیلئے بہت پہلے سے تیار کیا جارہا ہے۔ اسرائیل نواز یہودی کیسے امریکی اہلکار سے استنبول میں اردگان سے ملاقات کراتے ہیں پھر آنجناب کو امریکہ کے یہودی بہادری کے تمغے سے نوازتے ہیں جوکہ اپنی نوعیت کا پہلا تمغہ ہے ؛ کیونکہ اس سے پہلے اور بعد میں کسی بھی مسلمان کو یہ تمغہ نہیں دیا گیا۔

-یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ ترکی نے قیام اسرائیل کے پہلے ہی سے یہودیوں سے تعلقات پیدا کرکے جہاں ایک طرف یورپی اتحاد اور امریکہ سے قربت حاصل کرنا تھا وہیں دوسری طرف خلافت عثمانیہ کے روایتی آثار سے پیچھا چھڑا کر خود کو دنیا کے سامنے جدید اور سیکولر بناکر پیش کرنا تھا۔ اور یقینا یہودیوں نے ترکی کو اس کے دونوں مقصد میں کامیاب کردیا؛ چنانچہ جہاں ایک طرف یورپی اتحاد اور امریکہ سے قریب اور مسلم دنیا سے دور کر کے آپس میں دشمنی پیدا کرادی وہیں دوسری طرف اسے سیکولر اور ملحد بناکر اسلام سے کوسوں دور کردیا۔

انہیں یہودیوں کے ساتھ جناب اردگان کے کیسے تعلقات ہیں اور ترکی حکومت صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ کتنے مجالات میں باہم تعاون رکھتی ہے درج ذیل سطور سے واضح ہوگا:

سفارتی تعلقات:

ترکی نے پہلے اسرائیل کو 28/مارچ 1949میں ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا پھر اس کے محض پانچ ہی ہفتے کے اند3/مئی 1950 میں اس وقت کے ترکی وزیر اعظم عدنان مندریس نے اپنا پہلا سفیر سیف اللہ اسین کو اسرائیل بھیج دیا۔ترکی سفارت خانہ تل ابیب کے اندر (Rehov Hayarkon 202) نامی مشہور جگہ پر واقع ہے ۔ فی الحال موجودہ ترکی سفیر (کمال اوکیم) ہیں ۔ ماضی میں درج ذیل ترکی سفراءنے اسرائیل میں سفارتی خدمات انجام دی ہیں:

1991سے 1995تک (Onur Gökçe)، 1995 سے 1999تک (Barlas Özener)، 2003سے 2006 تک (Feridun Sinirlioglu)، 2007 سے 2009تک (Namik Tan)، 2009سے2010تک (Ahmet Oguz Çelikkol)، 2010سے 2010تک (Kerim Uras) سفارتی امور انجام دیتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد ترکی کی بحری امدادی جہاز پر اسرائیلی فورسیز کی طرف سے حملے کے بعد سفارتی تعلقات کو اے گریڈ سے کم کردیا گیا اور سفیر کو واپس بلالیا گیا لیکن پھر 2016میں سفارتی تعلقات بحال کرکے نئے سفیر کو متعین کردیا گیا۔ بیچ میں کئی ایک بار دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہوئی ہیں لیکن جلد ہی دوستی بحال ہوگئی ہے۔

اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات:

ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم3/ارب امریکی ڈالر سالانہ رہا ہے لیکن آخری پانچ سالوں میں یہ حجم بڑھ کر دو گنا ہوچکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 2002 سے پہلے یعنی اردگان کے حکومت میں آنے سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان یہ حجم چند ملین ڈالر سے زیادہ نہیں تھا لیکن اردگان کے آنے کے بعد بے تحاشہ یہ حجم بڑھکر صرف دس سالوں کے اندر پانچ ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ اور اس میں صرف اسرائیل کا فائدہ ہوا ہے کیونکہ اس بیچ اسرائیل سے ترکی نے زیادہ تر اسلحوں کا سودا کیا ہے۔

یکم جنوری/2002سے ترکی اور اسرائیل دونوں ملکوں کے مابین مشترکہ آزاد تجارتی معاہدہ کے تحت ٹیکس فری تجارت کا عمل جاری ہوگیا ہے۔

-ایک طرف اہل فلسطین کے پانی کا انحصار مکمل اسرائیل پر ہے، وہ جب چاہ لے انہیں ایک ایک بوند کیلئے تڑپا کر مار ڈالے ۔ اسی لئے بیچ میں جب کئی دفعہ اس طرح کی ابتر صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو 2013 میں امریکہ کے توسط سے فلسطین اور اسرائیل کے بیچ یہ معاہدہ طے پایا کہ حالات کیسے بھی ہوں پانی کا بحران نہیں ہونا چاہئیے۔ دوسری طرف مسلم ملک ترکی ہے کہ شام کے راستے اسرائیل کو پانی فروخت کرنے کا بڑا پلان بنا رہا ہے(جوکہ ترکی کے علاقوں میں کافی حد تک پورا بھی ہوچکا ہے) جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

اردگان کی ترقی وانصاف پارٹی کے حکومت میں آنے کے سال ہی ترکی اور اسرائیل کے مابین (مشروع أنابیب السلام) کے نام سے پانی کا معاہدہ ہواہے جس کے تحت ترکی اسرائیل کو شام کے راستے سالانہ پچاس ملین ٹن پانی سپلائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 1991میں ترکی صدر تورگوت اوزال نے کہا تھا: (جس طرح عرب پٹرول بیچتے ہیں ترکی بھی اپنا پٹرول بیچے گا یعنی پانی کو)۔ لیکن کسے بیچا جائے گا اس بات کو پوشیدہ رکھا گیا یہاں تک کہ2002میں مذکورہ معاہدے پر ترکی اور اسرائیل کے مابین دسخط کر دیئے گئے۔

اگر ترکی کو فلسطینیوں کی اتنی بھی فکر ہوتی جتنا میڈیا میں پرچار کیا جارہا ہے تو کم سے کم اسرائیل کو پانی فروخت کرنے کا معاہدہ نہ کیا ہوتا بلکہ وہی پانی فلسطین کو فروخت کرتا۔ ترکی کے اس موقف اور عمل پر ترکی نواز تحریکی کیا تبصرہ کریں گے؟

-عراقی صوبہ کردستان کے کردوں سے اسرائیل کے گہرے تعلقات ہیں ، اسی بنا پر اسرائیل ان سے پٹرول خریدتا ہے اور ترکی کے راستے سے اپنے ملک میں سپلائی کرتا ہے۔امریکہ کی سرپرستی میں اور ترکی ہی کو مہرہ بناکر اور اسی کی سرزمین کو استعمال کرکے کردستان، عراق اور شام سے عالمی مارکیٹ سے چھپ کرغیر قانونی طور پر بہت ہی معمولی قیمت پر (ایک رپورٹ کے مطابق صرف دس ڈالر فی بیرل کے حساب سے) گیس اور تیل کی اسمگلنگ کرتا ہے۔ پھر دوسرے ممالک میں منہ مانگی قیمت پر فروخت کرتا ہے۔

فوجی اور عسكرى تعاون:

-فروری1996 میں دونوں حکومتوں کے مابین عسکری تعاون کے معاہدے پر باقاعدہ دستخط کیا گیا جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ اسٹراٹیجک ریسرچ گروپ کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ بحری اور فضائی مشترکہ مشقیں شروع کی گئیں۔ اس کے علاوہ ترکی میں موجود (امریکی انجرلیک فوجی بیس) میں اسرائیل امریکہ کے ساتھ مل کر اپنی فوجی مشقیں کرتا رہتا ہے۔ آخر تحریکی اس وقت کہاں ہیں ترکی میں اس امریکی فوجی اڈہ کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے جبکہ انہیں تحریکیوں نے بہت پہلے سعودی میں موجود امریکی فوجی اڈے کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور اسی کو کفر واسلام کا مسئلہ بنا دیا تھا۔ آج وہی آڈہ تحریکی نواز قطر میں چلا گیا تو اس پر بھی زبان نہیں کھلتی بالکل اسی طرح اپنے دار الخلافہ ترکی میں بھی موجود امریکی فوجی اڈہ پر خاموش ہیں۔

-ترکی مسلح افواج میں باقاعدہ اسرائیلی فوجی صلاح کار موجود ہیں۔ ترکی فوجی شعبے میں اسرائیل سے مختلف انواع کے جدید اسلحوں کی خریداری کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے فضائی راستوں کو بلا اجازت کبھی بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

- اسرائیل اور ترکی کے بیچ سفارتی پیمانے پر کئی بار تلخی پیدا ہوئی ہے البتہ فوجی ، عسکری اور اسٹراٹیجک پیمانے پر ذرا بھی فرق نہیں آیا ہے۔ چنانچہ2009میں غزہ پر بھیانک حملے اور2010میں ترکی امدادی جہاز پر حملہ کرکے دس ترک امدادی اہل کاروں کو مار دینے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جو بھی تلخی ہوئی لیکن اسرائیلی وزیر اعظم یہود باراک نے 2010میں انقرہ کے اندر اردگان سے ملاقات کی اور اسی ملاقات کے اندر دونوں ملکوں کے درمیان سلامتی اور عسکری میدان میں ساٹھ (60) معاہدے عمل میں آئے۔

سیکورٹی اور سلامتی تعاون:

-سیکورٹی اور سلامتی کے میدان میں ترکی کا اسرائیل کے ساتھ بہت ہی اہم تعاون رہاہے ۔ اس نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر خطے میں اپنے اثر ورسوخ کو بڑھانے کیلئے امن معاہدہ کر رکھا ہے جس کی رو سے اسرائیل کے ساتھ مل کر خطے میں عراق ، شام اور کسی دوسرے ملک کے دبدبے کو ختم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے عراق اور شام کے اندر کبھی بھی مضبوط حکومتوں کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ ان کے کمزور ہونے یا حکومت گر جانے ہی کی خواہش کی ہے۔ اسی طرح ترکی فوجوں نے عراق اور شام کے اندر کبھی بھی داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ نہیں کیا ہے ۔کیونکہ اصل مقصد اسرائیل کے ساتھ مل کر خطے میں تجارتی اثرورسوخ کوبڑھانا نیز داعش جیسی تنظیموں اور مختلف قسم كے باغيوں کے ذریعے گیس اور تیل کی کالا بازاری کرکے منافع کمانا ہے۔

-سیکورٹی اور امن وسلامتی ہی کے نام پر ترکی نے مشرقی علاقے ملاطیہ شہر (Malatya City)میں کوراجیک نامی مشہور جگہ میں ایک تنبیہی ائیر بیس (Early Warning Base)بنا رکھا ہے جس کا واحد مقصد اسرائیل کی حمایت ہے اور خطے میں اسے تمام ممالک کی خفیہ نگرانی کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ اس پر ترکی کو اندرون ملک اور بیرونی ممالک میں کافی نقد وجرح اور فضیحت کا سامنا کرنا پڑا ہے پھر بھی اسکی اسرائیل نوازی میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا ہے ۔

-1996کے اندر پہلی مرتبہ کھل کر انقرہ اور تل ابیب کے مابین اسٹراٹیجک شراکت کا معاہدہ ہوا جس کے تحت دونوں ملکوں کے مابین مخابراتی معلومات، عسکری تعاون ، باہمی فوجی مشقوں، انٹلی جنس شیئرنگ اور دیگر کئی میدان میں مختلف امور کے اندر تبادلے پر اتفاق کیا گیا۔

-2002میں کینیا کے اندرسے لیبر پارٹی کے کرد رہنما عبد اللہ اوجلان کو گرفتار کرنے میں اسرائیل نے ترکی حکومت کی پوری پوری مدد کی تھی۔

ہنگامی اور ايمرجنسى تعاون:

1999 میں جب ترکی میں زبردست زلزلہ آیا تھا اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اس موقع پر دوسرے دوست ممالک کی طرح اسرائیل نے بھی بھرپور تعاون پیش کیا تھا بلکہ اسرائیل نے باقاعدہ اپنی فوج بھیجی تھی۔ اور ساتھ ہی اسرائیل نے منہدم شدہ گھروں کی جگہ پر بہت سارے گھر اپنے خرچے پر بنوائے جنہیں بعد میں اسرائیلی گاوں سے جانا جانے لگا۔

اسی طرح جب گزشتہ سال 2016 میں اسرائیل کے اندر بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی جس پر قابو پانا ناممکن ہوگیا تو ترکی نے بھی اپنی دوستی کا صلہ دینے کیلئے ہاتھ بڑھایا اور پوری ایک فوجی ٹکڑی بھیج دی ساتھ ہی آگ بجھانے والا جیٹ طیارہ بھی روانہ کیاجس پر اسرائیلی وزیر اعظم نے رجب طیب اردگان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

مذکورہ میادین اور مجالات کے علاوہ سیاحتی میدان میں بھی دونوں ملکوں کا کافی تعاون رہا ہے۔ نیز جس طرح ایک اچھے دوست اور اچھے پڑوس ملک سے تعلق رکھنا چاہئیے ترکی کا تعلق بالکل اسرائیل سے ویسے ہی ہے ۔

کیا دوستی اور نفاق دونوں ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟

- ترکی کی مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑی غداری اور دھوکہ سب سے پہلے یہی ہے کہ مسلم ملکوں میں صرف اسی نے 28/مارچ 1949 میں اسرائیل کے بننے کے محض دس مہینے کے بعد اسے فلسطین میں یہودی وطن اور آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اور اسرائیل کے ساتھ وہ سارے تعلقات بحال کرلئے جو ایک دوست ممالک کے ساتھ ہوتے ہیں۔

- معروف یمنی نزاد اسرائیلی یہودیہ صحافیہ ڈاکٹر عفراء بنگو(D. Afra Bengo)نے ترکی اور اسرائیل کے مابین خفیہ گہرے سیاسی رشتوں کے بارے میں2005کے اندر (العلاقات الترکیة الإسرائیلیة) کے عنوان سے لکھا ہے: (إن إسرائيل کانت حریصة جدا علی إقامة علاقات جیدة مع ترکیا لأنها بذلک تکسر عزلتها الإقليمیة، وتوازن، وعلی هذا الصعید قام بن غوریان بزیارات سریة متعددة إلی ترکیا، أهمها علی الإطلاق فی 29/أغسطس 1958 حیث عقد لقاء قمة سریاُ مع رئیس الحکومة الترکیة عدنان مندریس۔ وأعد العديد من المسؤولين فی الجانبین لهذه القمة۔ من ذلک لقاء وزیر الخارجیة الترکی فطین رشدی زورلو مرتین نظیرته الإسرائیلیة غولدا مائیر، واجتماع رئیس الأركان الترکي إبراهيم فوزی مینگیتش فی روما مع السفیر الإسرائيلي فی إيطاليا إلياهو ساسون ۔ وکان لرئیس الموساد (الأول) حینها رﺅفن شیلواح دور مرکزی فی الاتصالات الدبلوماسیة السریة)ترجمہ: یقینا اسرائیل کی شدت سے یہ خواہش تھی کہ ترکی کے ساتھ اسکے تعلقات بہتر رہیں؛ کیونکہ اس سے خطے میں اسکے الگ تھلگ پڑنے کا خاتمہ ہوگا اور ایک حد تک معاملے میں توازن پیدا ہوگا۔ اسی بنیاد پر ڈیوڈ بن گوریان نے ترکی کا کئی خفیہ سفر کیا جن میں سب سے اہم29/ اگست 1958کا وہ مشہور سفر ہے جس میں بن گوریان نے ترکی صدر عدنان مندریس کے ساتھ خفیہ ملاقات کی جہاں دونوں طرف سے کئی سرکاری ذمیداروں نے آپس میں ملاقاتیں کیں۔ ان میں ترکی وزیر خارجہ فطین رشدی نے اسرائیلی وزیر خارجہ گولڈ مائیر سے ملاقات کی۔ اسی وقت ترکی کے ارکان صدر ابراہیم فوزی نے روم میں اسرائیلی سفیر الیاہو ساسون سے ملاقات کی۔ ان ساری سیاسی اور سفارتی ملاقاتوں میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے صدر ریوفن شیلواح کا ہی مرکزی کردار تھا۔ تفصیل کیلئے دیکھیں:

(عدنان_مندریسhttps://www.marefa.org/ شروع میں اس رشتے کو عام نہیں کیا گیا تھا ۔ لیکن بعد میں رشتوں کی گہرائی کے بعد ساری باتیں منظر عام پر آئی ہیں۔)

- 1958 کے اندر اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان اور ترکی وزیر اعظم عدنان مندریس نے ملاقات کرکے خطے میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف آپسی تعاون کا معاہدہ کیا۔سوال یہ ہے کہ اسرائیلیوں کو اس وقت کس قسم کے لوگوں کی طرف سے دہشت گردی کی توقع تھی کہ اسے ترکی بہادر کے ساتھ مل کر اس کے خلاف معاہدہ کرنا پڑا؟ کیا اس وقت خطے میں اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور تھا؟ اور کیا موجودہ وقت میں ترکی نے اپنی یہ پالیسی ترک کر دی ہے۔

-2001 میں ترکی کے اندر ایک یہودی میوزیم بنایا گیا ہے جس کے ذریعے ترکی میں یہودیوں کی پانچ سو سالہ تاریخ کا اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے، ان کے کارناموں اور مذہبی تاریخی اشیاءکو سراہا جاتا ہے۔ اس میوزیم کو در اصل ایک تنظیم (Quincentennial Foundation) نے بنایا ہے جسے یہودیوں نے ترکی میں1989کے اندر 113 /ممبران کے ساتھ- جن میں مسلمان بھی شامل ہیں -قائم کیا تھا۔ سوال یہ ہیکہ کیا اس طرح کا یہودی میوزیم کھولنے کی اجازت کوئی مسلم ملک دے سکتا ہے؟ کیا پھر ترکی ایسی حرکت کرنے کے بعد بھی اہل فلسطین کا حقیقی ہمدرد ہوسکتا ہے؟

- اسرائیل کے اندر بئر السبع (Beersheba) نامی شہر میں اور اسی طرح یہود مونوسون (Yehud-Monosoon)نامی شہر میں مصطفی کمال اتاترک کامجسمہ اور اسکے نام پر میموریل بلڈنگ تعمیر ہے جس میں اس منحوس کی بہادری اور کمالات کو پیش کیا جاتاہے۔ اسی طرح بئر السبع کے اندر ہی عثمانی خلافت کے فوجیوں کی بہادری کے نام پر بھی میموریل بلڈنگ اور انکے نام پر بھاری مجسمہ بنایا گیا ہے۔ دونوں شہر میں سیاحت وتفریح کے نام پر ترکی سے مسلمان سالانہ لاکھوں کی تعداد میں سیر کرنے آتے ہیں اور اسرائیل کو بھاری اقتصادی فائدہ پہونچاتے ہیں۔

- حالیہ ترکی کے اسلام پسند رہنما اردگان نے مسلمانوں کے ساتھ ایک بہت بڑی غداری اور دھوکہ یہ کیا کہ اسرائیل جاکر جون/2016 میں بیت المقدس کو اسرائیلی راجدھانی تسلیم کر لی ہے۔ پھر کیا یہ دھوکہ نہیں ہے کہ دکھاوے کیلئے بیت المقدس کا دورہ کر کے اہل فلسطین سے مل کر انہیں جھوٹا دلاسا دیا جائے کہ بیت المقدس فلسطین کی راجدھانی ہے؟ کیا دین پسند ترکی رہنما میں اتنی ہمت ہے کہ اسرائیل کو آزاد یہودی ریاست کے طور پر نہ مان کر اس سے سارے تعلقات ختم کرلیں؟ نیز گزشتہ سال کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے بیت المقدس کو اسرائیل کا نہیں بلکہ فلسطین کی راجدھانی کے طور پر اعلان کر دیں؟

-جون2016میں خالد مشعل نے جب ترکی کا سفر کیا تو اکثر اخبار ات نے یہی ظاہر کیا کہ اسرئیل کے مظالم کا دکھڑا سنانے گئے ہیں لیکن پس پردہ فلسطین کے تاجروں نے کیا کیا وہ سنیئے: اسرائیلی اخبار (بدیعوت احرنوت) کے مطابق اس ملاقات میں باقاعدہ ترکی، اسرائیل اور فلسطین تینوں کے بیچ ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے چار اہم اتفاقات کئے گئے: (۱) اسرائیل کی نگرانی میں غزہ پٹی کے اندر ایک ایئر پورٹ کی تعمیر عمل میں لائی جائے گی۔ (۲) غزہ پٹی کے ساحل پر بحری گزرگاہوں کو کھول دیا جائے گا تاکہ ترکی اور اسرائیل کی نگرانی میں ترکی ، قبرص اور اسرائیل سے فلسطینی تجارتی سفر کرسکیں۔ (۳) مذکورہ اجازت کے بدلے حماس کو یہ یقینی بنانا پڑے گا کہ اسرائیلی حدود پر سرنگوں کا کھودنا فلسطینی بند کردیں۔ (۴) اسرائیل کے ساتھ حماس نے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کی رو سے کم از کم آٹھ سال تک مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی اہداف پر میزائیل نہیں داغا جائے گا۔ (www.alhagigah.net/?p=1930)

- 2016کے جون ہی میں رجب طیب اردگان نے فلسطینی صدر محمود عباس کے پاس فون کرکے مسجد اقصی کے خلاف اسرائیلی زیادتی کی مذمت کی جبکہ اس سے صرف تین مہینے پہلے کی خبر ہے کہ ترکی نے انقرہ میں اسی مشہور دہشت گرد اور شدت پسند مسلمانوں کے دشمن نمبر ایک یہودی حاخام یہودا گلیک(Yehuda Glick)کی ضیافت کی ہے جسے ان سخت گیر یہودیوں میں سے مانا جاتا ہے جو مسجد اقصی کو گرا کر اسکی جگہ یہودی ہیکل بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں جس کا نام جبل ہیکل تحریک ہے۔ اور یہ شخص خود اسی مقصد سے ایک الگ تنظیم حلیبہ (HALIBA) نام کا چلا رہا ہے۔ (مصدر سابق)

- جناب اردگان کو ایک طرف برما کے مسلمانوں کا جھوٹا مسیحا بنا کے پیش کیا جاتا ہے ، فلسطینیوں کیلئے مستقبل کی امید بنا کر دکھایا جاتا ہے اور دور حاضر کے تمام مسلمانوں کیلئے نجات دہندہ ، اسوہ ، نمونہ، آئیڈیل بلکہ امیر المسلمین کا کردار ادا کرنے والا بتایا جاتا ہے۔ وہیں دوسری طرف ترکی کے خلیفہ وقت کا بھیانک چہرہ چھپا دیا جاتا ہے یعنی یورپ وامریکہ کی ناٹو فوج جس نے عراق اور افغانستان کو تباہ کیا اس میں ترکی بھی اپنی فوج برابر بھیجتا رہا ہے اور اب بھی شامل ہے بلکہ ترکی اپنی فوج کی شمولیت کو فخر سمجھتا ہے جسے مسلمانوں کی تباہی اور بربادی کیلئے بنایا گیا ہے۔ایک طرف دانستہ طور پر مسلمانوں کی تباہی کا باعث بننا اوردوسری طرف مسلمانوں کا مسیحابھی بننے کی کوشش کرناکیا دونوں بیک وقت مسلمان برداشت کریں گے؟

- مسلم ملکوں سے ہزاروں گنا زیادہ یورپی ممالک سے ترکی کے اقتصادی تعلقات ہیں بلکہ ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کیلئے بارہا کوشش کی ہے لیکن یورپی یونین کے اکثر ممبرممالک نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھ کر اسکے خلاف ہمیشہ ووٹنگ کی ہے اور ترکی کی خواہش اور حسرت اب تک پوری نہ ہوسکی ۔ ترکی نے ان کے اکثر مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کثرت آبادی، ترک آبادی کا ممبر ممالک کی طرف ہجرت کا سیلاب اور یورپی مارکٹ کے ڈی ویلو ویشن ہونے جیسے مختلف بہانے کرکے اسے شامل ہونے سے روک دیا۔ آخر یہ مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ اور نفاق نہیں ہے تو اسے کیا کہیں گے۔ ایک طرف مغرب پرستی اور دوسری طرف اسلام کا ڈھونڈھورا پیٹ کر مسلمانوں کا خیر خواہ بننے کی کوشش کیا دونوں بیک وقت چل سکتا ہے؟

خصوصی طور پر جدید ترکی صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ دشمنی اور دوستی ساتھ ساتھ کیوں رکھتی ہے؟ کیا یہ نفاق نہیں ہے؟ مسلم عوام کو دھوکہ میں رکھنا نہیں ہے؟ چند تلخ حقائق ملاحظہ کریں:

- اسی سال(2017) فروری میں ترکی اور اسرائیل کے وفود کے مابین مشرق وسطی کی صورتحال ، توانائی، اقتصادیات، سیاسیات، ثقافت اور سیاحت جیسے شعبوں میں تعاون کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ علاوہ ازیں ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کی علاقائی استحکام اور سلامتی کے لحاظ سے اہمیت کا بھی جائزہ لیا گیا۔ سیاسی مذاکرات کے آغاز سے لیکر ہر شعبے میں تعلقات کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کرنے اور دوطرفہ دوروں میں اضافہ کرنے کے فیصلے بھی عمل میں آئے۔ اسی زمرے میں وزیر ثقافت وسیاحت نبی عاوجی نے دوسرے ہفتے میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ دوسری جانب یہی ترکی ہے جس نے ترک عوام کو دھوکے میں رکھ کر ترک وزارت خارجہ نے اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ فلسطین میں غیر قانونی یہودی بستیوں میں مزید ۳ ہزار مکانات کی تعمیر کی منظوری دینے کی مذمت بھی کردی۔ اس طرح ایک ہی دن میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے اعلانیہ اور ازلی دشمن اسرائیل سے مذاکرات اور مذمت کرکے ترکی نے عالم اسلام کو الجھن میں ڈال دیا۔

- 2010 میں جب اسرائیلی کمانڈوز نے مرمرہ نامی ترکی امدادی جہاز پر حملہ کرکے دس ترک عملہ کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا تو اس وقت ترکی نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے سفارتی تعلقات کو سیکنڈ سیکریٹری کی سطح تک کم کردیئے تھے حالانکہ دنیا میں یہ مشہور کیا گیا کہ ترکی نے سارے تعلقات ختم کر لئے ہیں۔ لیکن 2015 میں دوبارہ سارے تعلقات پھر سے معمول پر کر دئیے گئے ۔ صہیونی حکومت کی وزارت خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار آفیف شیرون نے باقاعدہ ٹیلی ویزن پر آکر اس بات کااعلان کیا۔

-2011میں امریکہ کے اندر موجود ترکی سفیر سلیم اینل کا وہ بیان بہت ہی معنی خیز ہے جس سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ ترکی اسرائیل دوستی کس قدر گہری ہے۔ ترکی سفیر نے اپنے بیان میں کہا: واشنگٹن میں قیام کے دوران ہم نے ان (اسرائیلی وفد)سے کہا کہ ہمیں اس معاملے کو طے کرنا چاہیئے۔ اگر امریکہ اس سلسلے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکتا ہے تو اور بھی اچھا ہوگا ۔ ہم موجودہ صورت حال کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اگر ہم دوست ہیں تو کسی نہ کسی کو معذرت کرنی چاہئیے۔ ترک شہری ہلاک ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ بہترین حل یہ ہوگا کہ اسرائیل معذرت کرے اور معاوضہ ادا کرے، جیسا کہ دوستوں کو کرنا چاہئیے۔ صرف اسی صورت میں ہم ماضی کو بھول سکتے ہیں۔

- 2014 میں ترکی نے بڑے زور شور سے اعلان کیا کہ اسرائیل غزہ محاصرہ جب تک ختم نہیں کرے گا اس وقت تک تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔ لیکن خفیہ مذاکرات کے ذریعے اسرائیل نے ترکی کے صرف ایک ہی شرط کو قبول کیا یعنی مرمرہ کشتی میں صہیونی کمانڈوز کے ہاتھوں مرنے والے افراد کے اہل خانہ کو بیس ملین ڈالر تاوان دینا۔ لیکن ساتھ میں اسرائیل نے ترکی سے دو شرائط منوالئے: ترکی میں حماس کی سرگرمیوں کو محدود کرنا اور ترکی میں صہیونی حکومت کے خلاف دائر کئے گئے مقدموں کو خارج کرنا۔لیکن جس شرط کا تعلق فلسطین سے تھا اسے سختی سے رد کردیا یعنی غزہ محاصرہ کو ختم کرنا۔کیونکہ یہ شرط محض دکھاوا تھی ۔ در اصل اردگان اس شرط سے یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ انہیں بیچارے مظلوم فلسطینیوں کی بہت زیادہ فکر ہے لیکن صہیونی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس شرط کو مسترد کردیا اور کہا کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

- یہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ترکی ان تمام کردوں کے خلاف ہے جو اپنی آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے اسی سال 25/ اگست کو عراق کے شمالی صوبے کردستان کی قیادت نے جب آزادی ریفرینڈم کرایا تو ترکی، عراق اور ایران نے اس ریفرینڈم کو قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ قرار دیکر رد کردیا۔ ترکی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مشرق وسطی میں آزاد کردستان ریاست کا قیام ایک اور اسرائیل کے قیام کے مترادف ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے جو برسوں سے فلسطینی قوم کے حق خود ارادیت کو فوجی طاقت سے کچلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے کرد ریاست کے قیام کی حمایت کردی اور کہا کہ کردوں کو اپنی آزاد مملکت بنانے کا حق ہے۔ چنانچہ ترکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس بات کا خوب پرچار کیا گیا کہ اگر اسرائیل کی طرف سے کرد ریاست کے قیام کی حمایت کا سلسلہ بند اور فلسطینیوں کے حقوق دبائے رکھنے کی پالیسی پر عمل جاری رہا تو تل ابیب اور انقرہ کے درمیان کشیدگی بڑھ جائے گی۔ لیکن یہ صرف پروپیگنڈہ ثابت ہوا اور تعلقات جوں کے توں بنے رہے۔

- اسی مہینہ6/دسمبر کو جب ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کی راجدھانی بننے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر ترکی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو توڑنے کی دھمکی دی گئی۔ لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ نفاق پر قائم یہ حکومت عوام کو صرف دھوکہ دینے کیلئے دھمکی دی ہے ورنہ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔

کیا ترکی اسرائیل سے اپنے تعلقات ختم کرسکتا ہے؟

میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ترکی اپنے سارے تعلقات صہیونی غاصب یہودی ریاست اسرائیل سے کبھی نہیں ختم کر سکتا ہے اسکے کچھ مضبوط وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں:

۱- ترکی اقتصادی پیمانے پر دن بدن مزید مضبوط بننے کی کوشش میں ہے تاکہ یورپی یونین میں شمولیت کیلئے راہ ہموار ہوسکے ۔ ترکی توانائی کے میدان میں خود کفیل نہیں ہے چنانچہ اسے اس میدان میں گیس وغیرہ دوسرے ممالک خصوصا روس سے در آمد کرنا پڑتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں ترکی اور اسرائیل کے مابین توانائی کے سیکٹر میں زبردست معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت آئندہ ترکی اپنا سارا گیس اسرائیل سے در آمد کرے گا ۔قریب ہونے کی وجہ سے نیز پڑوسی ہونے کی وجہ سے اسرائیل سے گیس خریدنا ترکی کیلئے سستا اور آسان (Cheap $ Best) ہوگا۔ نیز معاہدے کے تحت اسرائیل ترکی کے راستے اپنا سارا گیس یورپی ممالک میں بھی سپلائی کرے گاجس سے ترکی کرایہ بھی وصول کرے گا پھر تو اسرائیلی گیس ترکی کیلئے مزید سستا ہوگا۔ اس طرح توانائی سیکٹر میں اسرائیل ترکی کیلئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم ثابت نہیں ہوگا۔

۲- ترکی کے باڈر پر عراق ، شام اور لبنان کے اندر اسرائیل نے کرد علاحدگی پسندوں کو اسلحہ دیکر اور سیاسی سپورٹ کرکے دہشت کا ایسا ماحول بنا کر رکھا ہوا ہے کہ جن سے نپٹنے کیلئے اسرائیل سے دوستی ناگزیر ہے۔ ایک طرف اسرائیل کرد علاحدگی پسندوں کی مدد بھی کرتا ہے اور دوسری طرف ترکی کو ان سے نپٹنے کیلئے طریقے بھی بتاتا ہے۔ اس طرح یہودی ایک طرف دولت بھی کما رہے ہیں دوسری طرف ترکی کو سیاسی پیمانے پر تعلقات بھی بنانے پر مجبور کررہے ہیں۔

۳- ترک-عراق-ایران باڈر پر کردستان کے عدم قیام کیلئے اسرائیل کو ساتھ میں لینا ترکی کی مجبوری ہے۔ کیونکہ ترکی کو اس بات کا احساس ہے کہ مالی اور فوجی مدد دیکر اسرائیل کسی بھی وقت کردستان بنا سکتا ہے۔ جس کے بعد خود ترکی میں بھی کرد علاحدگی پسندوں کی سورش بڑھنے کا خطرہ شدید ہوجائیگا۔

4-مشرق وسطی بالخصوص ایران، شام اور عراق کی کشیدہ صورتحال ترکی کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے عراق اور شام سے ملحقہ علاقوں میں شورش سے بچاو کیلئے بڑے پیمانے پر فوجیں لگا رکھی ہیں۔اسرائیل جسے اس خطے میں شدت پسندوں سے نپٹنے کا اچھا تجربہ ہے ترکی اس سے انٹلیجنس شیئرنگ ، اسٹراٹیجک اور فوجی تعاون حاصل کرتا ہے۔ مذکورہ شعبوں میں اسرائیلی تعاون کے بغیر ترکی سیاسی ، فوجی اور اقتصادی پیمانے پر زبردست نقصان اٹھائے گا۔ یہ بھی ترکی کی ایک مجبوری ہے۔

5- عبد الحمید ثانی کے دور سے لیکر پہلی جنگ عظیم تک(دس پندرہ سالوں کے درمیان) ترکی حکومت کی طرف سے ارمن قوم کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق دس سے پندرہ لاکھ عیسائی ارمن قوم کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کشی کے بعد اسے دنیا کی سب سے بڑی نسل کشی (Arminian Genocide/Holocaust)مانی جاتی ہے۔یونان اور آرمینیا کے ساتھ تقریبا بیس یورپی ممالک نے مل کر ترکی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ میں متعدد بار ریزولیوشن پاس کروا چکے ہیں جس میں ترکی حکومت پر دباو ڈالا گیا ہے کہ وہ اسے ارمن قوم کے خلاف نسل کشی کے اعتراف کے ساتھ انہیں ہرجانہ ادا کرنے پر راضی ہوجائے۔ لیکن ترکی حکومت نے اسکا ہر بار سختی سے انکار کیا ہے۔ نیز اسرائیلی حکومت سے مل کریہودی لابی کے ذریعے اس کے خلاف یورپ وامریکہ کے اندر زبردست مہم چلا رکھی ہے تاکہ ترکی کے خلاف ارمن قوم اسے استعمال نہ کرسکیں جس طرح اسرائیل نے جرمنی کے خلاف یہودی ہولوکاسٹ کا جرم اعتراف کروا کر اس سے بھاری قیمت وصول کر لی ہے اور ساتھ ہی عالمی پیمانے پر جرمنی حکومت کی رسوائی بھی ہوئی ہے۔ ترکی کی یہ ایک بہت بڑی مجبوری ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کے ذریعے ہی یہ اس عظیم گناہ سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ صرف اسی ایک ایشو کو لیکر اگر یہودی لابی چاہ لے تو ترکی حکومت کا تیا پانچا کردے۔

6- تزویراتی، عسکری، مخابراتی اور ٹیکنیکی پیمانے پر اسرائیل نے ترکی کی جس طرح مدد کی ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے۔ اسی بنیاد پر اسرائیل نے عراق اور سیریا کے پاس ترکی کے حدود میں آزادفضائی بیس بنا رکھا ہے تاکہ علاقائی خصوصاً عرب ممالک پر کڑی نگرانی کرسکے۔ یہی ہوائی بیس ہے جہاں سے اسرائیل نے عراق ایران جنگ کے وقت عراق کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کیا تھا۔ یہ بھی ترکی کی مجبوری ہے جسے معاہدے کے تحت کبھی ختم نہیں کرسکتا جو بلا شبہ تمام مسلمانوں کے حق میں ایک بہت بڑا دھوکہ او ر انکی پیٹھ میں ترکی چھرا ہے۔

7- ترکی کے اندر یہودیوں کی جڑ بہت پرانی اور مضبوط ہے ۔ حالیہ جدید ترکی حکومت کے قیام میں انہیں کا اہم رول رہا ہے۔ صحافت کے ذریعے ترکی میں اخلاقی فساد پھیلانے میں ان کا اہم کردار ہے۔ سیاسی پیمانے پر اسلام پسندوں کے خلاف یہ ہمیشہ لام بند رہتے ہیں۔ سیاسی ، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے یہ اتنا طاقتور ہیں کہ ترکی حکومت اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف کوئی بھی بڑا غلط فیصلہ نہیں لے سکتی۔ یہی ترک یہودی ہیں جنہوں نے فلسطین کی سرزمین پر یہودی وطن بنانے میں بھاری مدد کی تھی۔ بلکہ ترک یہودی جتنا صہیونی محافل اور تنظیموں کے ذمیدار ہوں گے شاید خود اسرائیل کے یہود بھی نہ ہوں۔

اسرائیل عظمی کے قیام کے مقاصد کو پورا کرنے میں ترکی کے اندر مشرقی اناضول کے علاقے میں ترک یہودیوں نے زمین کی خریداری اور وہاں یہودیوں کو بسانے میں بہت پہلے سے کام شروع کردیا ہے کیونکہ یہودیوں کے مزاعم کے حساب سے شمال مشرق میں ان کے عزائم یہیں سے شروع ہوتے ہیں۔ سب کچھ جاننے کے باوجود ترکی حکومت ان یہودیوں کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی۔ اور یہی ترک یہودی ہیں جنہوں نے ایک طرف ترکوں کو ارمن مسیحیوں کے خلاف ابھار کر ان کی نسل کشی کرائی وہیں دوسری طرف انہیں عربوں کے خلاف ابھار کر خود مسلمانوں کے اندر آپسی دشمنی پیدا کرادی۔

حاصل کلام:

میرا کہنا صرف اتنا ہے کہ یہودیوں کا جو دوست ہو اسے دوست سمجھا جائے اور جو انکا دشمن ہو اسے دشمن سمجھا جائے۔ صہیونی غاصب ریاست اسرائیل سے جس کے ہر سطح پر تعلقات ہوں اسے سامنے لایا جائے اور جن کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو اسکے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ بند کیا جائے۔ اہل فلسطین کے جذبات سے جو کھیلتے ہوں اور مسجد اقصی کے نام پر تجارت کرتے ہوں انہیں بے نقاب کیا جائے اور جو اہل فلسطین کے حقیقی ہمدرد ہوں اسے دنیا کے سامنے پیش کیاجائے۔ اب بھی وقت ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے مسلمانوں کودھوکہ دینے سے باز آجائیں، ان کے ساتھ نفاق اور سازش کی پالیسی ترک کردیں اور اپنی ساری طاقت مسلمانوں کے مشترکہ دشمن (اہل کفر ، شرک اور رفض) کے خلاف استعمال کریں۔

https://www.facebook.com/sfes1974/posts/10213777681468367
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میں اس طرح کی سوچ کو فضول سمجھتا ہوں ، ایک دوسرے کو نفاق کے طعنے دینے کی بجائے ، کفر کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی طرف توجہ دی جائے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
برسوں پہلے، ترکی کی انتہائی سیکیولر حکومت کے ادوار کی ذمہ داری بھی موجودہ حکومت کے متھے ڈالنا زیادتی ہے!
رہی بات اردگان یا دیگر لوگوں کے عقیدہ و منہج کی، تو جب تب مسلمان ہیں، ان کی تکفیر نہیں کی جاتی، ان پر مسلمانوں کے احکام وارد ہونگے!
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورة المائدة 02)

اور یہ جملہ سمجھ نہیں آیا:
میرا کہنا صرف اتنا ہے کہ یہودیوں کا جو دوست ہو اسے دوست سمجھا جائے اور جو انکا دشمن ہو اسے دشمن سمجھا جائے۔
شاید کتابت کی غلطی ہے!

خیر جب تک ہم اپنی کوتاہیوں ، خامیوں اور کمزوریوں کو یہودی و صہیونی سازش کی چادر سے ڈھانپتے رہیں گے، خیر کی امید نہیں!
اور جب ہم اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے، اس کو دور کرنے کی کوشش شروع کریں گے، ہمارے حالات بہتر ہونا شروع جائیں گے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر ہم چین کے چین میں مسلمانوں کے ساتھ معاملات اور پاک چین دوستی کو دیکھیں تو پاکستان کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
قطع نظر اس امر کے اس مضمون میں کئی جملوں پر اعتراض کیا جا سکتا ہے اور میں اس حوالے سے صاحب مضمون سے رابطہ بھی کیا ہے اور ان کے سامنے اپنے تحفظات بھی رکھے ہیں لیکن اس مضمون کی اصل فکر بالکل درست ہے کہ کس طرح طیب اردگان صرف جذباتی نعرے لگا کر ہیرو بن رہا ہے جبکہ حقیقت حال بالکل اس کے برعکس ہے اور باقی باتیں ایک طرف رہی اس مضمون میں جن حقائق کا ذکر ہے اس کا رد کیا جائے تو پھر شاید یہ سمجھ میں آ جائے کہ اردگان امت اسلامیہ کا واقعی ہمدرد ہے وگرنہ صرف سیاست ہی سیاست ہے اور کچھ نہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لیکن اس مضمون کی اصل فکر بالکل درست ہے کہ کس طرح طیب اردگان صرف جذباتی نعرے لگا کر ہیرو بن رہا ہے جبکہ حقیقت حال بالکل اس کے برعکس ہے
شیخ صاحب ! جذباتی نعرہ لگانا بھی تو کوئی حیثیت رکھتا ہے کہ نہیں ہے ؟ دوسری طرف تو یہ بھی نہیں ۔
فلسطین وغیرہ معاملات ایسے ہیں ، جن میں ملتِ کفر کو واضح پیغام دینے کی بھی ضرورت ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شیخ صاحب ! جذباتی نعرہ لگانا بھی تو کوئی حیثیت رکھتا ہے کہ نہیں ہے ؟ دوسری طرف تو یہ بھی نہیں ۔
فلسطین وغیرہ معاملات ایسے ہیں ، جن میں ملتِ کفر کو واضح پیغام دینے کی بھی ضرورت ہے ۔
صرف محض نعروں سے قوم کا اگر مورال ڈاون ہونے سے روکنا ہے تو پھر ٹھیک ہے وگرنہ انہی نعروں نے ہمارا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے کہ حقیقت سے بہت دور کر دیا گیا ہے صرف باتیں کام کچھ نہیں میں طیب اردگان کی نیت نہیں جانتا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس شخص کے اصل اقدامات کیا ہیں اور کیا دیگر اسلامی حکمرانوں کے عملی اقدامات نہ ہونے کی بناء پر طیب اردگان کے نعرے ہی اسے قابل قبول بنا دیں گے
اور سب سے اہم بات یہ میڈیا وار کا دور ہے طیب اردگان کی میڈیا وار کی ٹیم پر غور کیجیے بہت سی باتیں واضح ہو جائیں گی
اس کے بالمقابل سعودی عرب کے کام ٹھیک ہے مطلوبہ معیار و مقدار میں نہیں لیکن کم از کم ترکی سے بہت بہتر ہیں وہاں میڈیا ئی تشہیر نہیں ہے اس لیے طیب اردگان جیسے کاغذی شیر مشہور کیے جا رہے ہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور اس سلسلے کی پہلی قسط یہ بھی تمام احباب کی نظر سے گزری ہو گی دوبارہ پڑھ لیں

فلسطینیوں کا اخلاقی اور مالی تعاون:

مملکت سعودی عرب سے زیادہ کس کا؟
✍بقلم: ڈاکٹر اجمل منظور مدنی
میڈیا کے اس دور میں تیس مار خان اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کیلئے فلسطین کا ہر کوئی ہمددر بنا پھرتا ہے۔ لمبی لمبی تقریریں، میڈیا کانفرنس، سرکاری بیانات، لمبی لمبی رپورٹیں ، اخباری کالمز،فلسطین کے حق میں بلند وبھاری بھرکم نعرے لگانا ، سڑکوں پر مظاہروں کا اہتمام کرنا اور نہ جانے یہ زبانی دعوی کرنے والے ٹیوٹر، فیس بک اور وہاٹس ایپ گروپوں پر بیٹھ کر کیا کیا کر رہے ہیں۔ یہ سب بظاہر میڈیا میں تو دکھائی دیتا ہے لیکن فلسطینی سرزمین پر حقیقت کی دنیا میں اہل فلسطین کی حقیقی مدد اور تعاون کون کر رہا ہے ؟ فلسطینی مسئلے پر تجارت کون کررہا ہے؟ لوگوں کے جذبات سے کون کھیل رہا ہے؟ یہ سب جواب عالمی ، ملکی اور علاقائی تنظیموں، تاریخی دستاویزوں ، فلسطین کی فائلوں ، غیر جانبدار اخبارات اور خود اہل فلسطین دیں گے۔
رواں ماہ13/دسمبر کو ترکی صدر رجب طیب اردگان کی دعوت پراستامبول شہر میں او آئی سی کی بیٹھک ہوئی جو دراصل رافضیوں اور اخوانیوں کی تحریک سے اخلاقی اور اظہار یکجہتی کے نام پر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کیلئے بلائی گئی تھی جس میں انہوں نے بلاقیمت فری میں اہل فلسطین کے ساتھ تعاون کا سارا کریڈٹ اپنے سر لینے کی کوشش کی جبکہ حقیقی تعاون پیش کرنے والے اور ہمیشہ سے اہل فلسطین کا ساتھ دینے والے کے تمام کارناموں کو سبوتاز کرنے کی سعی نامسعود کرنے کی چال چلی گئی لیکن اللہ رب العزت جسے سربلندی عطا کرنا چاہے ، جسے عزت دینا چاہے اسے کوئی رسوا نہیں کرسکتا اور اسی طرح اللہ رب العزت جسے ذلیل وخوار کرنا چاہے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا چنانچہ (ومن يهن الله فما له من مكرم) کے تحت فلسطینی صدر محمود عباس نے بھری مجلس میں اس حقیقت کا اعتراف کرکے اور یہ کہہ کر سارے اخوانی اور رافضی چیلوں کو رسوا کر دیا اور سعودی عرب کے سر کو بلند کردیاکہ:( ہمیں اقوال نہیں اعمال کی ضرورت ہے ، اور یہ سب کو پتہ ہونا چاہیئے کہ مملکت سعودی عرب ہمارے ساتھ شروع ہی سے ہر طرح کے تعاون کے ساتھ کھڑا ہے، یہ مملکہ کا تسلسل کے ساتھ ثابت موقف ہے جو اہل فلسطین کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے، ہماری آخری ملاقات میں خادم الحرمین ملک سلمان بن عبد العزیزؒ نے یہ واضح طور پر کہا ہے کہ فلسطین کا حل بغیر قدس کے ممکن نہیں ہے)۔
اور ویسے بھی ان لوگوں نے اسرائیل یا امریکہ کے خلاف کون سا محاذ بنا لیا جو اب تک سعودی نہ کر سکا۔ کم از کم اخوانیوں کے قطری خلیفہ اور ترکی امیر المومنین سے اتنی امید ضرور کی جا رہی تھی کہ یہ (مقدس ہستیاں) کم از کم اسرائیل سے اپنے تعلقات ختم کر لیں گے لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ وہ بھی نہ کر سکے۔ نعروں اور جعلی دھمکیوں کے سہارے جینے والوں کی آنکھیں اب بھی نہیں کھلیں گی تو کبھی نہیں کھلیں گی۔
اسی طرح( أهل مكة أعرف بشعوبها ) مقولے کے تحت اسی موقعہ پر ریاض میں موجود فلسطینی سفیر باسم آغا نے کہا کہ اہل فلسطین کے ساتھ سعودیہ کے واضح اور صاف متعاون موقف کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ غزہ میں حماس کے ذریعے سعودیہ کے خلاف پھیلائے گئے سارے افواہ بے بنیادہیں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ابھی گزشتہ سال 2016ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین کیلئے عطیہ دہندگان بیس ممالک کی سالانہ لسٹ جاری کی گئی جس میں قطر، ایران اور ترکی تینوں کا نام دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے جبکہ آخری بیس نمبر پر آئر لینڈ کا نام ہے جس کا تعاون گزشتہ سال صرف (6,098,203) امریکی ڈالر تھا ۔
رافضی ایران اہل فلسطین کی مدد کیوں کر سکتا ہے جو کہ اہل سنہ کا سخت دشمن ہے ؟ ہاں حزب اللہ اور حماس کا تنظیمی طور پر اپنی پکڑ بنانے کیلئے اور شیعیت پھیلانے کیلئے ان کی مدد ضرور کر رہا ہے اور ساتھ ہی اسکی تشہیر بھی کرتا ہے۔ جبکہ اسے فلسطینی عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے فلسطینی سرزمین کے علاوہ عراقی، شامی، لبنانی اور یمنی سنی مسلمانوں سے اسکی گواہی لی جاسکتی ہے۔ یاسر عرفات اسی کی دہائی میں خمینی کے پاس گئے تھے لیکن سیاسی، عسکری اور مالی ہر سطح پر مایوسی ہی لیکر واپس آئے۔ تاریخی ریکارڈ میں موجود ھے کہ مرگ بر اسرائیل کہنے والے ایران نے اسرائیل فلسطینی لڑائیوں(82/78/73/67/48) میں اپنا ایک بھی سپاہی نہ بھیجا بلکہ 48 میں ایرانی شاہ رضا پہلوی نے فلسطین کے خلاف اسرائیل کی مدد کی تھی۔
جہاں تک ترکی کامعاملہ ہے تو وہ تو کل تک علمانیت زدہ تھا لیکن اب جو کچھ سالوں سے اردگان کی حکومت آئی ہے جو اخوانیت ، تحریکیت، شیعیت ، صوفیت اور خانقاہیت کا معجون مرکب ہے۔ترکی میں اسلام کے نام پر تحریکی صوفی افکار کو عام کیا جارہا ہے ۔ پردے کا یہ حال ہے کہ کسی عورت کے برقعہ نہیں بلکہ اسکارف پہن لینے سے یورپ میں بریکنگ نیوز بن جاتا ہے۔ اخلاقیات کا حال یہ ہے کہ اردگانی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ابھی حال میں مساجد سے سو میٹر دور رہ کر شراب پینے کی اجازت مرحمت کی گئی ہے۔ لیکن ابھی سے حضرت کو تحریکی ٹولہ اس طرح شو کئے جارہا ہے گویا وہ مسلمانوں کے امیر المومنین ہوگئے ہوں۔
سیاسی ، اقتصادی اور اخلاقی مدد یہ جناب فلسطین کی کتنا کرسکتے ہیں جبکہ یہ اسرائیل سے ابھی تک ہر طرح کا تعلق بنائے بیٹھے ہیں؟ اسی بات کو لیکر ترک عوام نے ان کے خلاف مظاہرہ بھی کیا تھا جنہیں جیل میں ڈال دیا گیا کہ پہلے آپ اسرائیل سے سارے تعلقات توڑئیے پھر فلسطین کی بات کیجئے۔ ویسے اقوام متحدہ کی رفیوجی کیمپوں کی نگرانی کرنے والی تنظیم اونروا (UNRWA) نے آخری پانچ سال کے تعاون کا سعودی اور ترکی موازنہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ترکی نے (30) ملین امریکی ڈالر کا تعاون پیش کیا ہے تو سعودی نے (511)ملین امریکی ڈالر کا تعاون دیا ہے۔
حالیہ ایک سروے کے مطابق سعودی عرب اہل فلسطین کی مدد کرنے میں پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر جبکہ امریکہ اور یورپ کے بعدافریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا میں اور خصوصا عرب ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔
اس کے باوجود مملکت سعودی عرب دشمنانِ توحید ، اہل رفض نیز اہل تحریک وتقلید کی نظر میں ہمیشہ سے مطعون رہا ہے لیکن موجودہ پروپیگنڈے کے دور میں کچھ زیادہ ہی اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عالمی ، اسلامی، عربی، محلی اورعلاقائی جتنے بھی سطح پر سیاسی ، اقتصادی اور اخلاقی اعتبار سے اس کی سخاوت اور فیاضی کے روشن باب ہوں سب کو یکلخت انکار کیا جارہا ہے۔ عالمی اور اسلامی پیمانے پر اسکے مالی تعاون کے مساعی جلیلہ اور احسانات بارزہ نے جس طرح تاریخ کے صفحات میں جگہ بنالی ہے اسے ایک جاہل، ہٹ دھرم اور منکر حق نیز ایک ناشکرا ہی انکار کر سکتا ہے۔ خصوصاً فلسطین کا قضیہ جو موجودہ تاریخ میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے مملکت سعودی عرب نے اسکا خصوصی اہتمام کیا ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی موسس مملکہ ملک عبد العزیز نے پوری جوانمردی اور سخاوت وفیاضی کے ساتھ سیاسی ، عسکری اور مالی ہر اعتبار سے اہل فلسطین کا ساتھ دیا۔ اس وقت سے لیکر آج تک اہل فلسطین کے تعلق سے مملکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ فلسطینی مسئلہ ہمیشہ مملکہ کے اولین ترجیحات میں رہا ہے اور ہے اور رہے گا۔
ذیل میں حوالوں کے ساتھ تاریخی دستاویزوں اور غیرجانبدار اخبارات نیز عالمی اور ملکی تنظیموں کے ریکارڈ کی روشنی میں اہل فلسطین کے ساتھ سعودی عرب کے اخلاقی اور مالی تعاون کا ایک خاکہ پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ افواہوں اور پروپیگنڈوں کے اس دور میں حقائق بھی لوگوں کے سامنے آسکے اور مملکہ کے حاسدین ومعارضین کے منہ بھی بند ہوسکیں۔
- 1936ءکے اندر انگریزوں کے خلاف فلسطینی انقلا ب کے نتیجے میں فلسطینیوں کو لاحق نقصانات کے مد نظر ملک عبد العزیز ؒ نے ۵/جون 1936ءمیں وزارت خارجیہ اور وزارت مالیہ دونوں کو حکم صادر کیا کہ ضرورت کی ساری چیزیں فوری طور پر اہل فلسطین کو فراہم کی جائے۔ چنانچہ اس حکم کی تنفیذ کرکے مملکہ میں زبردست فلسطینی تعاون اکٹھا کیا گیا اور فلسطین پہونچایا گیا۔
-948 1ءکے اندر عرب -اسرائیل جنگ کے وقت مملکت سعودی عر ب کے اندرفلسطین کیلئے زبردست تعاون کی مہم چلی ۔ اس وقت امیر فیصل بن عبد العزیزؒ نے خود تبرعات کے جمع کرنے میں عملا ً شرکت کی ۔ جگہ جگہ اس کے لئے آپ نے خطاب بھی کیا۔
- 1948ءکی جنگ میں شہید ہونے والوں کے خاندان کی مملکت سعودی عرب نے کفالت کی ذمیداری لے لی۔ میدان جنگ کے اندر لڑنے کے بعد جن مجاہدین کو کسی طرح بھی معذوری لاحق ہوئی ان سب کیلئے مملکت نے لائف ٹائم مالی تعاون کی ضمانت لی۔ رضاکارانہ طور پر جتنے سعودی باشندوں نے جنگ میں حصہ لیا سب کو مملکہ نے سرکاری فوج کے مقام ومرتبہ کا فوجی قرار دیا؛ چنانچہ انہوں نے بھی وہ ساری مراعات حاصل کی جو سرکاری فوج کیلئے مختص تھے۔
- 1948ءکی جنگ میں تمام فوجی سربراہوں،جنرلوں اور قائدوں کیلئے مملکہ نے اپنے خرچ پر فریضہ حج کی ادائیگی کا اہتمام کیا۔ بلکہ تمام عرب ممالک کے فوجی قائدین کو مملکہ نے اپنے خرچہ پہ حج کرنے کی دعوت دی۔
-1967ءکی جنگ کے بعد ملک فیصل بن عبد العزیزؒ نے شہدائے فلسطین کے خاندانوں اور فلسطینی مجاہدین کے تعاون کیلئے عوامی کمیٹیوں (لجان شعبیة) کی تشکیل دی اور منطقہ ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبد العزیز (موجودہ فرمانروا)کو اس کا سربراہ بنا دیا جنہوں نے اس کے لئے پورے مملکت سعودی عرب میں مختلف شہروں میں 12/مراکز قائم کیا۔ اس طرح فلسطینیوں کیلئے بڑے پیمانے پر تعاون کی اپیل کی گئی جس میں سبھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ (پورے عالم عرب میں فلسطینیوں کے تئیں یہ اپنی نوعیت کا ایک ناد ر جذبہ تھا)
-1967ءکی اسی منحوس جنگ کے بعد فلسطین کی مملکہ نے فیاضہ مدد کی اور اسی سال خرطوم میں منعقد عرب چوٹی کانفرنس کے تحت فلسطین کے علاوہ جن پڑوسی ممالک اردن اور مصر کو کافی جنگی خسارہ لاحق ہوا کویت اور لیبیا کے ساتھ ساتھ سعودی نے ان ممالک کا بھی بھر پور تعاون کیا ۔ چنانچہ اگر کویت نے مصر کو 39/ملین اور اردن کو 16/ملین ، جبکہ لیبیا نے مصر کو 24/ملین اور اردن کو 10/ملین معاون کیا تو وہیں پر سعودی نے مصر کو 41/ملین اور اردن کو 17/ ملین تعاون پیش کیا۔
-1978ءمیں بغداد کے اندر منعقد عرب چوٹی کانفرنس کے تحت مملکہ نے فلسطینیوں کی انیس کروڑ تہتر لاکھ (1,97,300,000) امریکی ڈالر سے مدد کی ۔یہ تعاون دس سالوں کیلئے تھا یعنی1979ءسے 1989ءتک۔
- 1982ءمیں لبنان پر اسرائیل کے جارحانہ رویے کی بنیاد پر ملک خا لد بن عبد العزیز ؒ نے سعودی فوجی ذخیرے سے اسلحہ کے ذریعے فسلطینی جنگجووں کی خصوصی تعاون کی۔ اور جب یاسر عرفات مزید تعاون کیلئے مملکت سعودی عرب تشریف لائے تو آپ نے اپنے خاص حساب سے پانچ ملین ڈالر کی مدد کی۔
-1987ءمیں پہلے انتفاضہ کے وقت فلسطینی انتفاضہ فنڈ (صندوق الانتفاضة الفلسطینی)کے تحت مملکہ نے چودہ لاکھ تینتیس ہزار (1,433,000) امریکی ڈالر تعاون پیش کیا۔جبکہ عالمی صلیب احمر (الصلیب الاحمر الدولی) کو ادویہ ، طبی سازوسامان نیز غذائی مواد کیلئے بیس لاکھ امریکی ڈالر کا تعاون پیش کیا۔
-1988ءمیں جزائر میں منعقد عرب لیگ کی چوٹی کانفرنس کے اندر فلسطینی استفاضہ کے تعاون پر زور دیا گیا تھا نیزیہ کہ اسے تسلسل کے ساتھ بحال رکھا جائے اور اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کیلئے انتفاضہ کی ہر طرح مدد کی جائے۔ اسی قرارداد کی مناسبت سے مملکت سعودی عرب نے ۹۸۹۱ءکے اندر یہ تاریخی فیصلہ لیا کہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں متحرک انتفاضہ کی ماہانہ تعاون کی جائے گی۔ چنانچہ اسکے لئے سرکاری خزانے سے۶/ملین اور بیس ہزار ڈالر ماہانہ جاری کیا گیا۔
-مملکہ کے اندر سعودی ترقی فنڈ (الصندوق السعودی للتنمیة) کے اندر تین سو (300)ملین امریکی ڈالر کے راس المال کاایک خصوصی پروگرام ہے جسے بہت پہلے ہی سے فلسطین کے اندرصحت ، تعلیم اور تعمیرات کے شعبوں میں خرچ کرنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ اور اس کا اعلان مملکہ عطیہ دہندگان ممالک (الدول المانحة) کے ذریعے1999-97-95-94ءکے مختلف سالوں میں منعقد کانفرنس میں کرچکا ہے۔
- مذکورہ سالوں میں مملکت سعودی عرب یہ بھی اعلان کرتا رہا ہے کہ فلسطینی اشیاءاوراس کے کسی بھی قسم کے پروڈکشن پر سعودی کے اندر کوئی کسٹم ٹیکس نہیں لگے گا۔ چنانچہ آج بھی سعودی عرب میں فلسطینی اپنے مصنوعات کو فری ٹیکس در آمد کرتے اور بیچتے ہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کا تعاون:
-حکومت سعودی عرب نے فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ تعاون پیش کرنے میں خصوصی اہتمام کیا ہے؛ چنانچہ مملکہ نے ان تک بلاواسطہ بھی مدد پہونچاتا رہا ہے اور علاقائی وعالمی تنظیموں کے واسطے سے بھی ان کی مدد کرتا رہا ہے۔ مہاجرین اور پناہ گزینوں کا خصوصی دھیان دینے والی تنظیم انروا (UNRWA) ہو ، یونسکو اور عالمی بنک(WB)ہو یا اسلامی بنک اور عربی فنڈ برائے اقتصادی اور سماجی ترقی ہو۔ انروا تنظیم جو اقوام متحدہ کے ماتحت کام کرتی ہے مملکہ برابر اپنا تعاون اس کے پاس بھیجتا رہا ہے۔ چنانچہ صرف اسی ایک تنظیم میں مملکہ کا سالانہ تعاون بارہ لاکھ امریکی ڈالر رہا ہے۔ اور جب کبھی بھی اس عالمی تنظیم کے سالانہ بجٹ میں کسی طرح کی کمی پیش آئی ہے تو ہمیشہ اس کمی کو سعودی عرب نے پورا کیا ہے۔
اقصی اور انتفاضہ فنڈکا قیام:
-2000ءمیں جب فلسطین کے اندر دوسرا انتفاضہ شروع ہوا تو مملکہ نے سب سے آگے بڑھ کر فلسطین کا فیاضانہ تعاون کیا ۔ چنانچہ جہاں ایک طرف 240/ملین ریال کا مالی تعاون پیش کیا تو دوسری طرف ایمبولینس گاڑی اور عام گاڑی ، زیورات، طبی اور غذائی مواد کی شکل میں عینی تعاون بھی پیش کیا۔
- اس دوسرے انتفاضہ کے موقعہ سے2000ءمیں قاہرہ کے اندرمنعقد عرب لیگ کی کانفرنس میںمملکت سعودی عرب ہی نے فلسطین کا تعاون بڑھانے کیلئے اقصی فنڈ اور انتفاضہ فنڈ کے قیام کی تجویز رکھی تھی جسے سب نے قبول کیا ۔ چنانچہ اقصی فنڈ کے حساب میں مملکت سعودی عرب نے سب سے زیادہ تعاون پیش کیا۔ اس فنڈ کے اندر کل ۴۴/ملین ڈالر کا تعاون پیش کیا ۔ جسکا مقصد بیت المقدس میں مسجد اقصی اور دیگرمشاعر مقدسہ نیز عربی اور اسلامی ورثے کی حفاظت اور انکی دیکھ بھال پر خرچ کرنا تھا۔اور ملک فہد بن عبد العزیزؒ کی جانب سے خصوصی طور پر انتفاضہ فنڈ کے اندر 50/ملین ڈالر کا اضافہ کیا گیا تاکہ اس کے ذریعہ انتفاضہ کے شہداءاور انکے اہل خانہ کی دیکھ ریکھ نیز بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جاسکے۔
-اسی سال اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک (IDB)نے یہ صراحت کی کہ اقصی فنڈ اور انتفاضہ فنڈ جن کا راس المال کل ایک ارب ڈالر ہے اس میں سعودی کا تعاون ڈھائی سو ملین یعنی سب کا چوتھائی ہے۔ جبکہ ایک مرتبہ انتفاضہ کی فوری طور پر مدد کیلئے اسلامک بینک نے خصوصی ۸/ملین بجٹ کا اعلان کیا تو ملک عبد اللہ بن عبد العزیزؒ نے ۵/ملین ڈالر تنہا ادا کردیا جو کہ مجموعی بجٹ کا 60/فیصد بنتا ہے۔
-فلسطین کے اندر موجود آثار قدیمہ اور اسلامی شعائر ومقدسات کی حفاظت اور ان میں ترمیم واصلاحات کے تعلق سے جب بھی یونسکو یا کسی عالمی وعلاقائی تنظیم نے تعاون کا اعلان کیا تو مملکہ نے سب سے آگے بڑھ کر اس پر لبیک کہا۔ چنانچہ قبةالصخرة، مسجد اقصی، مسجد عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نیز بیت المقدس کے ائمہ وموذنین کے رہائش گاہوں کی ترمیم واصلاح کیلئے خصوصی طور پر صرف مملکت سعودی عرب نے پورا خرچہ برداشت کیا ہے۔
- ملک فہد بن عبد العزیزؒ کے دور حکومت میں مملکت سعودی عرب نے تعلیم ، صحت اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں خرچ کرنے کیلئے فلسطین کی خصوصی مدد پیش کی جسکی مقدار ساڑھے بہتر (72.5)ملین ڈالر تھی۔
- ملک فہد بن عبد العزیزؒ ہی کے دور حکومت میں مملکت سعودی عرب نے فلسطین کو10/ملین ڈالر تعاون پیش کیاان تمام فلسطینی محافظ دستوں کی فلسطین منتقلی کیلئے جو دیگر عرب ممالک میں موجود تھے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سالانہ بجٹ کا تعاون(دعم میزانیة السلطة الفلسطینیة):
-مارچ ۲۰۰۲ءمیں بیروت چوٹی کانفرنس، مارچ 2003ءمیں شرم الشیخ چوٹی کانفرنس اور مئی 2004ءمیں ٹیونس چوٹی کانفرنس کے اندر عرب لیگ نے فلسطینی اتھارٹی کی مالی تعاون کا اعلان برابر کیا ہے جس کے مطابق سعودی عرب نے سب سے بڑھ کر تعاون کیا ہے۔ چنانچہ صرف 1/4/2002-30/3/2004 کے دوران مملکہ نے (184,8) ملین ڈالر کا تعاون کیا ہے۔ اور پھر یکم اپریل 2004ءسے آگے صرف چھ مہینے کیلئے مملکہ کا تعاون (46,2)ملین ڈالر تھا۔ اور آج تک مملکت سعودی عرب فلسطینی اتھارٹی کا سالانہ تعاون کرتے چلے آرہا ہے۔ اس طرح فلسطینی اتھارٹی کے تعاون کے سلسلے میں مملکہ دیگر عرب ممالک میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔
-غزہ پٹی کے جنوب میں رفح کے اندر ظالم اسرائیل نے فلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کردیا تھا چنانچہ انکی آبادکاری اور انکے لئے گھر بسانے کے پلان سے 2003ء-2004ءکے بیچ میں مملکت سعودی عرب نے 752/رہائشی گھر بنوایا۔ اسکے علاوہ کئی مساجد اور مدارس کی تعمیر کی بھی ذمیداری لی۔ یہ پورا کام عالمی تنظیم (اونروا) کی نگرانی میں ہوئی جسکا پورا خرچہ 15/ملین امریکی ڈالر پڑا تھا۔ اسکے علاوہ دوسرے مرحلے میں آٹھ سو رہائشی گھروں کیلئے 34/ملین امریکی ڈالر کا تعاون پیش کیا۔
غزہ پٹی کے اندر خلیجی تعاون کونسل نے جدید1100/ رہائشی گھروں نیز چھ مدارس کی تعمیر کیلئے جو تعاون پیش کیا اس میں سعودی نے کل 54/ملین امریکی ڈالر کا تعاون اکیلے دیا۔ شعبہ تعمیرات کے علاوہ سعودی عرب نے غذائی اور طبی امداد بھی فلسطینی پناہ گزینوں کو پیش کیا ۔
اونروا کے جنرل مندوب فلیپو گرانڈی نے اس موقعہ پر واضح بیان دیا کہ لبنان کے اندر مخیم نہر البارد میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کی آباد کاری کے بعد پناہ گزینوں کے تعاون میں یہ سعودی عرب کا دوسرا سب سے بڑا اور عظیم کارنامہ ہے۔
- جولائی /2006ءمیں ملک عبد اللہ بن عبد العزیزؒ نے فلسطینی عوام کے ساتھ تعاون کے جذبے کے تحت ڈھائی سو(250) ملین امریکی ڈالر کا عطیہ پیش کیا تاکہ اسے فلسطینی اتھارٹی تعمیرات کے مد میں استعمال کرے۔
-2009ءکے اندر کویت میں منعقد عربوں کی چوٹی کانفرنس(غزہ کے فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کی کانفرنس ) میں ملک عبد اللہ بن عبد العزیزؒ نے ایک ارب امریکی ڈالر کے تعاون کا اعلان کیا تاکہ اسے غزہ کی آبادکاری میں استعمال کیا جاسکے۔
- غزہ پر اسرائیلی حملے سے متاثرین فلسطینیوں کیلئے ملک عبد اللہؒ نے مصر کے راستے غزہ پٹی تک ہر طرح کی ضروری ادویات اور سازوسامان کو پہونچانے کا انتظام کیا۔ زخمی فلسطینیوں کے خصوصی علاج ومعالجہ کیلئے مصر سے مملکہ تک آنے کیلئے خصوصی ہوائی جہازوں کا بندو بست کیا ۔اور مملکہ کے مختلف اسپتالوں میں انہیں بھرتی کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ جسے جس طرح کے علاج کی ضرورت ہو اسی طرح کے خصوصی اسپتال میں وہ پہونچ جائے۔آپ نے اسپتالوں کا دورہ کرکے زخمیوں کے حالات کا جائزہ لیا ، خصوصی دھیان دینے کی تاکید کی ، ان کی تیمار داری کی اور ساتھ ہی ان زخمیوں کیلئے اور ان کے مرافقین کیلئے یومیہ خرچے کا بھی بندوبست کیا۔
-اسرائیلی ظلم کے نتیجے میں پریشان حال فلسطینیوں کیلئے ملک عبد اللہ ؒ نے ہنگامی طور پر پورے مملکہ میں ہر علاقے کے اندر فلسطینی بھائیوں کی مدد کیلئے خصوصی تعاون کا اعلان کروایا۔
- دسمبر 2009ءمیں اقوام متحدہ کے ماتحت پناہ گزینوں کے لئے کام کرنے والی تنظیم (وکالة الامم المتحدة لاغاثة وتشغیل اللاجئین الفلسطینین فی الشرق الادنیUnited Nations Relief and Works Agency for Palestine Refugees in the Near East) انروا نے امیر نایف بن عبد العزیزؒ کو خصوصی امتیازی انعام(جائزة المانح المتمیز للاونروا) سے نوازا ۔ یہ آپ کی پہلی عالمی شخصیت ہے جس نے یہ انعام حاصل کیا۔ یہ درا صل مملکہ کی اس انسانی کوشش کے نتیجے میں ملا جو مملکہ کی طرف سے اہل فلسطین کے حق میں انفرادی اور عالمی تنظیموں کے اشتراک سے مختلف کمیٹیوں ، پروجیکٹوں اور پلانوں کے ذریعے تعاون پیش کیا گیا۔
-25/جون 2011ءکو اسلامی بینک برائے ترقی کے نگراں دکتور محمد اشتیہ نے اعلان کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو سعودیہ عرب ممالک میں سب سے زیادہ تعاون دینے والا ملک ہے۔ سعودی نے صرف فلسطینی اتھارٹی کو 1949ءتک 1600/ملین امریکی ڈالر تعاون پیش کرچکا ہے۔
-21-۲۲/جنوری 2013ءمیں ریاض کے اندر منعقد چوٹی عرب کانفرنس میں مملکت سعودی عرب نے فلسطین کیلئے ایمرجنسی طور پر مالی مدد کا خصوصی اعلان کیا۔ کیونکہ اس وقت فلسطینی اتھارٹی مالی بحران سے گزر رہا تھا اور اس کانفرنس کے اندر فلسطینی وفد نے بھی اسی مقصد سے شرکت کی تھی جس میں مملکہ نے 100/ ملین امریکی ڈالر کا تعاون پیش کیا۔جس میں سعودی وزیر خارجہ امیر سعود الفیصل کی طرف سے 20/ملین ڈالر کا مزید اضافہ کیا گیا۔
- جنوری /2014ءمیں مشرقی خان یونس اور جنوب غزہ پٹی کے اندر ۲۲/مدارس کے بچوں کے درمیان سردی کے مختلف قسم کے کپڑوں کی تقسیم عمل میں لائی گئی۔ جسکا انتظام خصوصی طور سعودی خاتون سارہ موسی نے کیا۔ اس امداد سے تقریباً پانچ سو طلبہ نے فائدہ اٹھایا۔
- 2015ءمیں جہاں کویت کی طرف سے 32/ملین ڈالر ، امارات کی طرف سے 17/ملین ڈالراور اماراتی ہلال احمر کی طرف ۸/ ملین ڈالر کا تعاون پیش کیا گیا وہیں پر صرف سعودی نے 96/ ملین ڈالر کا تعاون اکیلے پیش کیا۔
- مارچ/2016ءمیں سعودی فنڈ برائے ترقی(الصندوق السعودی للتنمیة) نے فلسطینی اتھارٹی کے اکاونٹ میں (30.
ملین ڈالر جمع کیا جو کہ در اصل سعودی عرب کا فلسطینی اتھارٹی کا ماہانہ تعاون ہے ۔ مذکورہ رقم دسمبر 2016ءسے مارچ 2017ءتک کا ماہانہ تعاون ہے۔ اسکا ماہانہ حساب (7.7) ملین امریکی ڈالر بنتا ہے۔
- 2016ءہی میں عالمی تنظیم اونروا نے اعلان کیا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کا تعاون کرنے میں سعودی سب سے زیادہ پیش پیش رہا ہے؛ چنانچہ اس سال سعودی نے فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے جو عینی اور مالی امداد پیش کی ہے وہ 368/ ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد یورپی اتحاد (جس میں یورپ کے کل بائیس ممالک شامل ہیں) کا نمبر آتا ہے جس نے 160/ ملین امریکی ڈالر کی امداد پیش کی ہے۔
اس طرح سعودی عرب فلسطین کیلئے مختلف شعبوں میں اپنا تعاون پیش کرتا رہا ہے ۔ حادثاتی اور ناگہانی حالات، موسمی حالات، فلسطینی اتھارٹی کا سالانہ بجٹ، پناہ گزینوں کی آبادکاری ، جنگی حالات، ایمرجنسی مالی بحران، مدارس ومساجد کی تعمیر، بنیادی ڈھانچہ ، غذائی اور طبی امداداور فلسطینیوں کو نیشنلٹی دینا وغیرہ ۔
20/جون 2016ءکو ملک سلمان بن عبد العزیز ؒ نے فلسطینی صدر محمود عباس سے جدہ میں ملاقات کے وقت کہا ہے کہ ہماری مدد اہل فلسطین کیلئے ثابت اور مستمر ہے۔ ابھی حالیہ ماہ دسمبر میں وزیر ثقافت عواد العواد نے بیان دیا کہ فلسطین کے ساتھ تجارت کرنے والے ایران جیسے ملکوں کے افواہوں اور پروپیگنڈوں سے دور رہ کر مملکت سعودی عرب کے سیاسی، مالی اور اخلاقی ہر طرح کے تعاون کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ مسجد اقصی اور القدس کے تعلق سے کسی طرح کی زیادتی مملکت سعودی عرب کبھی نہ برداشت کیا ہے اور نہ آئندہ کبھی برداشت کرے گا۔
ہماری بھی یہی دعا ہے کہ اللہ رب العزت مسجد اقصی اور بیت المقدس کو ہم سب کے دلوں میں بسا دے، ہم سے جتنا اور جس بھی شکل میں ہوسکے اہل فلسطین کے تعاون میں ہاتھ بٹانے اور کم از کم ان کے حق میں دعا کرنے کی توفیق بخشے، سرزمین فلسطین کے نام پر تجارت کرنے اور وہاں کے باشندوں کا استحصال کرنے سے نیز ہر طرح کے ریا ونمود سے بچائے​
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
طرفین سے اس طرح کی تحریریں ان لوگوں کو خاموش کروانےکے لیےاچھی ہیں ، جو سعودیہ یا ترکی میں سے کسی کے زر خرید حمایتی ہوں ، ہمیں دونوں طرف جہاں خوبی نظر آئی ، اس کے بھی معترف ہیں ، اور دونوں طرف جہاں خامی نظر آئے ، اسے خامی ہی کہتے ہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
طرفین سے اس طرح کی تحریریں ان لوگوں کو خاموش کروانےکے لیےاچھی ہیں ، جو سعودیہ یا ترکی میں سے کسی کے زر خرید حمایتی ہوں ، ہمیں دونوں طرف جہاں خوبی نظر آئی ، اس کے بھی معترف ہیں ، اور دونوں طرف جہاں خامی نظر آئے ، اسے خامی ہی کہتے ہیں ۔
ہونا تو یہی چاہیے کہ اسلام کا مزاج ایسا ہی ہے لیکن آپ کا حسن ظن مخالف فریق کو نہیں روک سکتا ترکی کے اچھے اقدامات کی حمایت کرتا ہوں لیکن جہاں کہیں سعودیہ کی مخالفت مراد ہو اور پس پردہ معاملات کچھ اور ہوں اور میدان صرف میڈیا وار کی بنیاد پر مارنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو وہاں ترکی کے کسی اچھے قدم کی حمایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا باقی رہی ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے جہاں دیگر اسلامی ممالک حمایت اور دعا کا مستحق ہیں سو ترکی بھی ہے
 
Top