- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
باب اول
تعارف فقہ اسلامی
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔۔۔۔۔۔۔۔
علوم بے شمار ہیں۔ یہ سبھی اللہ تعالیٰ کے ہاں عمدہ ومبارک ہوسکتے ہیں جب انسان ان سے خود فائدہ اٹھائے اور دوسروں کی دنیا وآخرت مفید بناسکے۔اس لئے بنیادی طور پرعلم کی دو اقسام ہیں۔ علم دنیوی و علم شرعی ۔
۱۔ علم دنیوی:
وہ علم جس کی ضرورت انسان کو اس دنیا میں پڑتی ہے جیسے علم ریاضیات، علم فلک، اور فزکس وغیرہ۔ اس کی اہمیت دنیا میں ہے۔ دین وایمان متزلزل نہ ہو تو اسے سیکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ صرف نیت کی درستگی ضرور ہونی چاہئے ۔اور بنیادی عقائد واعمال پر قائم رہتے ہوئے اس علم کا فائدہ آگے پہنچانا چاہئے۔ ایسا عمل باعث اجر وثواب ہے۔ مگر جو اپنی ذات کے لئے اسے سیکھے وہ بھی گناہ گار نہیں ۔
۲۔ علم شرعی:
یہ علم کتاب وسنت ہے جو بلاشبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔آپ ﷺ کے ارشاد کا بھی یہی مقصود ہے۔
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ۔
علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔
یہی انبیاء کی میراث ہے حدیث میں آپﷺ کاارشاد ہے:
إِنَّ الأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِیْنَارًا وَلاَ دِرْہَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔
انبیاء کرام دینا ودرہم نہیں چھوڑا کرتے بلکہ وہ علم چھوڑ جاتے ہیں۔ جو بھی اسے حاصل کرتا ہے وہ بڑے نصیبے کو حاصل کرتا ہے ۔
یہی توفیق ہی کافی ہے کہ آدمی اس راہ پر چل نکلے۔جی ہاں جو اس راہ پر چلا وہ خوش قسمت ٹھہرا اور رب ذو الجلال کی رضا بھی اسے حاصل ہوئی۔ اپنی نیت کو خالص لوجہ اللہ کرتے ہوئے عمل بھی بجالائے اور اس پر قائم رہے تویہی {فقد أوتی خیرا کثیرا} ہے۔ طالب علم کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی شے باعث عزت نہیں۔کیونکہ وہ ایسی راہ پر چل نکلاہے جوصرف جنت کی طرف ہی جاتی ہے۔ آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
مَنْ سَلَکَ طَرِیْقاً یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْماً سَہَّلَ اللّٰہُ لَہُ طَرِیْقاً إِلَی الْجَنَّۃِ۔
جو ایسے راستے پر چلا جس سے وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ بھی اس کے لئے جنت کی طرف جانے والا راستہ آسان کردیتا ہے۔
یہ فرق بھی ملحوظ رہے کہ جو اپنے آپ کو اس راہ میں کھپاتا ہے وہ اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔
{قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون}
ان سے کہئے کیا جو علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟۔
استفہام انکاری ہے جس کا مطلب ہے کہ بالکل نہیں ۔جیسے زندہ ومردہ برابر نہیں ہوسکتے یا سننے والا اور بہرا اور بینا ونابینا پرابر نہیں ہوسکتے۔اسی لئے اہل علم کا مقام اللہ عزوجل کے نزدیک بہت اونچا ہے:
{یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین أوتوا العلم درجات}
اللہ تعالیٰ تم میں اہل ایمان کے اور جو علم گئے ہیں ان کے درجات بلند کردیتا ہے۔
ویسے بھی ہم غور کریں تو دنیا میں اہل علم ہی کی تعریف کی جاتی ہے۔ان کی چھوڑی میراث کا ذکرخیر لوگ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد کرتے رہتے ہیں۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ روز قیامت ان کے درجات دعوت الی اللہ اور صحیح علم کو پھیلانے میں اپنی اپنی کوشش کے مطابق جنت میں بھی بہت بلند ہوں گے۔