• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارف فقہ اسلامی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

باب اول
تعارف فقہ اسلامی

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔۔۔۔۔۔۔۔
علوم بے شمار ہیں۔ یہ سبھی اللہ تعالیٰ کے ہاں عمدہ ومبارک ہوسکتے ہیں جب انسان ان سے خود فائدہ اٹھائے اور دوسروں کی دنیا وآخرت مفید بناسکے۔اس لئے بنیادی طور پرعلم کی دو اقسام ہیں۔ علم دنیوی و علم شرعی ۔

۱۔ علم دنیوی:
وہ علم جس کی ضرورت انسان کو اس دنیا میں پڑتی ہے جیسے علم ریاضیات، علم فلک، اور فزکس وغیرہ۔ اس کی اہمیت دنیا میں ہے۔ دین وایمان متزلزل نہ ہو تو اسے سیکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ صرف نیت کی درستگی ضرور ہونی چاہئے ۔اور بنیادی عقائد واعمال پر قائم رہتے ہوئے اس علم کا فائدہ آگے پہنچانا چاہئے۔ ایسا عمل باعث اجر وثواب ہے۔ مگر جو اپنی ذات کے لئے اسے سیکھے وہ بھی گناہ گار نہیں ۔

۲۔ علم شرعی:
یہ علم کتاب وسنت ہے جو بلاشبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔آپ ﷺ کے ارشاد کا بھی یہی مقصود ہے۔
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ۔
علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے۔

یہی انبیاء کی میراث ہے حدیث میں آپﷺ کاارشاد ہے:
إِنَّ الأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِیْنَارًا وَلاَ دِرْہَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ۔
انبیاء کرام دینا ودرہم نہیں چھوڑا کرتے بلکہ وہ علم چھوڑ جاتے ہیں۔ جو بھی اسے حاصل کرتا ہے وہ بڑے نصیبے کو حاصل کرتا ہے ۔

یہی توفیق ہی کافی ہے کہ آدمی اس راہ پر چل نکلے۔جی ہاں جو اس راہ پر چلا وہ خوش قسمت ٹھہرا اور رب ذو الجلال کی رضا بھی اسے حاصل ہوئی۔ اپنی نیت کو خالص لوجہ اللہ کرتے ہوئے عمل بھی بجالائے اور اس پر قائم رہے تویہی {فقد أوتی خیرا کثیرا} ہے۔ طالب علم کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی شے باعث عزت نہیں۔کیونکہ وہ ایسی راہ پر چل نکلاہے جوصرف جنت کی طرف ہی جاتی ہے۔ آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
مَنْ سَلَکَ طَرِیْقاً یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْماً سَہَّلَ اللّٰہُ لَہُ طَرِیْقاً إِلَی الْجَنَّۃِ۔
جو ایسے راستے پر چلا جس سے وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ بھی اس کے لئے جنت کی طرف جانے والا راستہ آسان کردیتا ہے۔

یہ فرق بھی ملحوظ رہے کہ جو اپنے آپ کو اس راہ میں کھپاتا ہے وہ اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔
{قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون}
ان سے کہئے کیا جو علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟۔

استفہام انکاری ہے جس کا مطلب ہے کہ بالکل نہیں ۔جیسے زندہ ومردہ برابر نہیں ہوسکتے یا سننے والا اور بہرا اور بینا ونابینا پرابر نہیں ہوسکتے۔اسی لئے اہل علم کا مقام اللہ عزوجل کے نزدیک بہت اونچا ہے:
{یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین أوتوا العلم درجات}
اللہ تعالیٰ تم میں اہل ایمان کے اور جو علم گئے ہیں ان کے درجات بلند کردیتا ہے۔

ویسے بھی ہم غور کریں تو دنیا میں اہل علم ہی کی تعریف کی جاتی ہے۔ان کی چھوڑی میراث کا ذکرخیر لوگ ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد کرتے رہتے ہیں۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ روز قیامت ان کے درجات دعوت الی اللہ اور صحیح علم کو پھیلانے میں اپنی اپنی کوشش کے مطابق جنت میں بھی بہت بلند ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
علم شرعی کے حصول کی چند شرائط

اخلاص نیت:
چونکہ علم تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے اس لئے متعلم کے لئے اخلاص نیت حصول علم کا پہلا زینہ ہے۔ خود راستی پر قائم ر ہے۔ مرغوبات دنیا اسے کھینچ نہ سکیں۔اگر کوئی یہ بھی نیت کرلے کہ میں ڈگری پانے کے بعد اس سے اپنی آمدنی بھی حاصل کرنا چاہتا ہوں تو یہ معیوب بات نہیں۔بلکہ اس کا حال اس حاجی کی طرح ہے جو فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ جارہا ہو اور اثناء سفر میں تجارت کرلے جو بالاتفاق جائز ہے۔
{لیس علیکم جناح أن تبتغوا فضلاً }
تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم فضل تلاش کرو۔

وہ جب بھی شرعی علم کے دروس میں شریک ہو۔یہ حدیث پیش نظر رکھے:
مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا یُبْتَغٰی بِہِ وَجْہَ اللّٰہِ ، لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلاَّ لِیُصِیْبَ مِنَ الدُّنْیَا، لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
جو اس علم کو سیکھتا ہے جس سے صرف اللہ کی رضا ہی حاصل کی جاسکے مگر یہ اسے اس لئے سیکھتا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے دنیا بنائے ایسا شخص روز قیامت جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا۔

علم کے ساتھ عمل:
طالب علم کو چاہئے کہ وہ جو جانے یا سیکھے اس پر عمل بھی کرے۔کیونکہ یہی علم کا ثمرہ ہے اور یہی تقرب الٰہی ہے۔ ورنہ سب بیکار ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
القُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ أَوْ عَلَیْکَ۔
قرآن اگر اس کے مطابق عمل کیا یا تو تمہارے حق میں حجت ہے یا پھر عمل نہ کرنے کی صورت میں تمہارے خلاف حجت ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
علم سیکھنے کا شوق اور دعائیں:
طالب علم اپنے بھرپور شوق اور جستجو کا مظاہرہ کرے۔ اگر کہیں کوئی بھی رکاوٹ پیش آئے تو اس کا حل تلاش کرے یا پھر رب کی بارگاہ میں دعا کرے۔امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
شَکَوتُ إِلٰی وَکِیْعٍ سُوئَ حِفْظِیْ فَأَوْصَانِیْ إِلَی تَرْکِ الْمَعَاصِیْ
میں نے وکیع سے اپنے برے حافظے کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے معاصی ترک کرنے کی نصیحت فرمائی
فَقَــالَ الْعِـــلْمُ نُورٌ مِــنْ إِلٰـــہٍ وَنُورُ اللّٰہِ لاَ یُہْــدٰی لِعَاصِیْ
انہوں نے فرمایا کہ علم ایک خداداد نور ہوتا ہے اور یہ نور اللہ کے نافرمانوں کو نصیب نہیں ہوا کرتا۔

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جو بارشاد رسول ﷺ حرام وحلال کے سب سے بڑے عالم ہیں اور روز قیامت امام و سیدا لفقہاء ہوں گے ۔ ان سے آخری وقت کہا گیا : آپ تو صحابی رسول ہیں اور آگے کی منزلیں بھی آپ کی آسان ہیں۔ تو رونے لگ گئے۔ کسی نے پوچھا : کیوں رو رہے ہیں؟ فرمانے لگے: میں آگے کی کامیابی پر نہیں بلکہ اس پر رو رہا ہوں کہ اب عمل کا موقع جارہا ہے روزے ، قیام اللیل اور مَزَاحَمَۃُ الْعُلَمَائِ بِالرُّکَبِ سواریوں پر علماء کے ہاں اژدحام کرنے کے سب مواقع ختم ہورہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
امام ابن المبارک رحمہ اللہ کا آخری وقت جب آیا تو شاگردوں نے عرض کی کہ اگر آپ کو دوبارہ زندگی دے دی جائے توآپ دنیا میں آکر کیا کریں گے؟ فرمانے لگے : ایسا اگر ہوا تو صرف دین سیکھنے ہی آؤں گا۔

امام ابن القیمؒ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلؒ فرمایا کرتے:
فَہْمُ الْعِلْمِ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ حِفْظِہِ۔
علم کا سمجھنا ہمیں زیادہ پسندیدہ ہے بہ نسبت اس کے یاد کرنے کے۔


یہی علم حکمت وخیر کثیر بھی کہلایا۔
{ ومن یؤت الحکمۃ فقد أوتی خیرا کثیرا}۔
جسے حکمت عطا کی گئی وہ بلاشبہ خیر کثیر دے دیا گیا۔
اس فقہ کا عطا ہونا بہت بڑی خیر و نعمت ہے :


آپ ﷺ سے بھی فرمایا گیا:
{وقل رب زدنی علما}
اور آپ یہ دعا کیجئے : میرے مولا! میرا علم بڑھا۔

علی بن خشرم نے اپنے شیخ وکیع بن الجراح سے عرض کی کہ ذہن وحافظہ کی تیزی کا کوئی نسخہ بتائیے تاکہ میں اپنے حافظے کواس طرح قوی کرسکوں جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہوا ہے کہ سولہ سال تک آپ نے کوئی کتا ب ہی نہیں دیکھی۔ فرمانے لگے: واقعی ! اگر بتادوں تو وہ نسخہ استعمال کروگے؟ عرض کی : ضرور۔ فرمایا:گناہ ترک کردو۔امام بخاری رحمہ اللہ ہر روز دس اجزاء تہجد میں پڑھتے اور آخر میں ان کی دعا یہی ہوتی:میرے مولا! میرا علم بڑھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ عمر بھر یہ دعا کرتے رہے:
یَا مُعَلِّمَ إِبْرَاہِیمَ ! عَلِّمْنِیْ
اے ابراہیم کے معلم! مجھے بھی علم عطا فرما۔
وَیَا مُفَہِّمَ سُلَیْمَانَ ! فَہِّمْنِیْ
اور اے سلیمان کو فہم عطا کرنے والے! مجھے بھی دین کا فہم عطا فرما۔

یہی علم، تقوی وصحیح فہم کے بغیر ہو تو اس کے نور کا حاصل ہونا بہت مشکل ہے۔اور یہی علم اگرچہ کتناہی عالمانہ ہی کیوں نہ ہو اس پر بے عملی اس نور کو بجھا دیتی ہے۔اور اگر اس کا استعمال نامناسب اور غیر فقیہانہ ہو تو ناقابل قبول ہوجاتا ہے۔ لوگ اسے جھٹک دیتے ہیں اور نہیں مانتے۔ غالباً اسی نامعقول استعمال کے بارے میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓنے فرمایا تھا:
أَتُرِیْدُونَ أَنْ یُکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ
کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کا رسول جھٹلا دیئے جائیں؟ محدثین بھی یہی کہا کرتے:
لاَ تَنْشُرْ بَزَّکَ إِلاَّ مَنْ یَبْغِیْہِ
اپنے کپڑے کو صرف اس کے آگے پھیلاؤ جو اس کا ضرورت مند ہے۔اس لئے اسلام، علم کو حجاب اکبر نہیں کہتا اور نہ ہی لدنی اور کشفی علوم کا قائل ہے یہ تو
الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ
کا کہتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لوگوں کو خیر کی تعلیم:
علم کو سیکھنے کے بعد اسے سکھانااور پھیلانا بھی ضروری ہے۔مسلمان نسلیں تبھی محفوظ رہیں گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس خیر کوہر جگہ بانٹنا چاہئے۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
بَلِّغُوا عَنِّیْ وَلَو آیَۃً۔
ایک آیت بھی میری طرف سے تم تک پہنچی ہو اسے آگے ضرور پہنچاؤ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
علم کی راہ میں صبر:
بعض اوقات اس راہ میں بہت محنت اور کوشش درکار ہوتی ہے نیز مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں۔حصول علم میں ہمہ وقت آسائشوں کی توقع نہ رکھے بلکہ ایسی تکالیف کو اہمیت دیئے بغیر اپنا ہدف ومقصد زندہ وسلامت رکھے۔اور صبر وبرداشت سے کام لے ۔اس لئے کہ:
{إن مَعَ العسر یسرا}
یقیناً تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔

احترام علماء اور ان کی عزت افزائی:
طالب علم اپنے ان محسنوں کو ضرور بنظر احترام دیکھے جنہوں نے اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی دکھائی۔ان کے ساتھ با ادب رہے بانصیب رہے گا۔ اپنا علم بھی محترم بنائے اور ان کا تذکرہ ہمیشہ خیر سے کرے نیز انہیں اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھے۔

تقوی کو لازم پکڑنا۔علم کی حصول میں خدا خوفی ایک بنیادی عنصر ہے جس سے طالب علم اپنے نفس کو غرور میں مبتلا ہونے ، علماء سے جھگڑا کرنے اور انہیں نیچا دکھانے سے روکتا ہے اور تواضع وعاجزی پر ابھارتا ہے۔ اس لئے کہ علم اس وقت ایک رحمت ہے ورنہ بہت بڑی زحمت جیسے شیطان کو علم کے تکبرنے خوار کیا ۔

٭٭٭٭٭​
فقہ اسلامی ۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
 
Top